وحدت نیوز(آرٹیکل) صحافت ایک مقدس مشن ہے۔مشن تقدس کے بغیر کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔تقدس کو بددیانتی ٹھیس پہنچاتی ہے۔آج ہی "اسلام پرستی یا فرقہ پرستی؟" کے عنوان سے ایک کالم میری نظروں سے گزرا۔ پڑھ کر نہایت دکھ ہوا ۔دکھ اس وجہ سے بھی ہوا کہ لکھنے والے سنئیر صحافی خورشید ندیم تھے۔ میں حیران رہ گیاکہ اتنے تعلیم یافتہ اور تجربہ کار صحافی کی ایران کے بارے میں معلومات اتنی کم ہیں !اور پھر دکھ اس بات کا بھی ہوا کہ موصوف نے اپنی کم علمی کا تدارک کئے بغیر ہی ایران کے بارے میں اندھا دھند کالم لکھ مارا ہے۔
موصوف نے اپنے کالم میں سب سے پہلے ایرانی صدر حسن روحانی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہاہے کہ ایرانی صدر نے اپنے خطاب میں کہا تھا کہ " اہل تشیع کے دفاع کے لیے کسی جگہ مداخلت سے گریز نہیں کریں گے"۔
اب اسے موصوف کی کم علمی کہا جائے یا پھر موصوف کو معلومات فراہم کرنے والے گروہ کی شیطانیت ۔حقیقت یہ ہے کہ ایرانی صدر نے یہ بیان شیعوں کے حوالے سے نہیں بلکہ مقامات مقدسہ کے حوالے سے دیاتھا کہ اگر کہیں شام یا عراق میں شیعوں کے مقامات مقدسہ کو خطرہ لاحق ہوا تو ان مقامات کی حفاظت کے لیے ایران براہ راست میدان میں اترے گا ۔
یہ صرف ایرانی صدر کی بات نہیں بلکہ دنیا کا ہر مسلمان مقامات مقدسہ کی حفاظت کو اپنا اولین فریضہ سمجھتا ہے۔بات یہیں تک رہتی تو پھر بھی کوئی بات نہ تھی ،موصوف نے اس کے بعد ایران کے اسلامی انقلاب کو شیعہ سنی تقسیم کازمہ دار ٹھہرایاہے۔
یہ الزام آسمان پر تھوکنے کے مترادف ہے چونکہ یہ تو ہر باشعور پاکستانی کو پتہ ہے کہ انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد سے گذشتہ پینتیس سالوں میں ایران ہمیشہ دنیا بھر کے مظلوموں کا حامی رہا ہے چاہے وہ غیر مسلم ہی کیوں نہ ہوں اور ایران نے ہمیشہ شیعہ سنی وحدت کی بات کی ہے۔
۶ اپریل ۱۹۹۲ ء سے ۱۴ دسمبر تک سربیا اور بوسنیا ہرزیگووینا کے درمیان جنگ میں ایران نے بوسنیا کا بھرپور ساتھ دیا، حالانکہ وہاں کوئی مسلک کی بات نہیں تھی، کیونکہ بوسنیا کے لوگ مسلکی حوالے سے شیعہ نہیں تھے۔ فلسطینی سرزمینوں پر ۱۹۴۸ء سے قابض اسرائیل کے مقابلے میں ایران نے ہمیشہ حماس جیسی حریت پسند تنظیموں کی مالی اور دفاعی مدد کی ہے، حالانکہ فلسطین میں اکثریت سنی مسلمانوں کی ہی ہے اور دوسری جانب انکے اپنے ہم مسلک عرب حکمران اپنی عیاشیوں میں مست ان مظالم پر ٹس سے مس نہیں ہو ئے اور انہی عرب حکمرانوں نے طالبان، القاعدہ اور داعش جیسی دہشت گرد تنظیموں کی بنیاد رکھ کر دنیا بھر میں مسلمانوں کو بدنام کر دیا ہے اور پاکستان کے حوالے سے تو انکی وطن مخالف پالیسیاں کسی بھی محبِ وطن پاکستانی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔ پاکستان میں انہی کے اشاروں پر پہلےسنی کو شیعہ سے لڑایا گیا اور اب سنیوں میں بھی رخنہ ڈال کر دیوبندیوں کو بریلویوں سے لڑایا جا رہا ہے۔
موصوف نے یہاں تک لکھا ہے کہ "تہران میں دو میلین سنی بستے ہیں لیکن انہیں مسجد بنانے کی اجازت نہیں" لگتا ہے جناب عصرِ حجر میں زندگی گزار رہے ہیں۔ کیونکہ تہران میں سنی دو میلین نہیں بلکہ انکی تعداد انتہائی محدود ہے جو کاروبار کے سلسلے میں یہاں مقیم ہیں۔ رہی یہ بات کہ انہیں مسجد بنانے کی بھی اجازت نہیں ہے تو انکے اطلاع کے لیے میں کالم کے آخر میں تہران میں سنیوں کے چند اہم مساجد اور مراکز کا اڈریس دیتا ہوں تاکہ دوبارہ ایسے غیر عاقلانہ الزامات لگانے سے پرہیز کریں۔
موصوف کو اس قدر تاریکی میں رکھا گیاہے کہ وہ یہ بھی نہیں جانتے کہ ایران میں سنیوں کوشیعوں کے مساوی حقوق حاصل ہیں، یہاں تک کہ ایران کے سپریم لیڈر کو منتخب کرنے والی کمیٹی (شوریٰ خبرگان) میں بھی سنی علماء موجود ہیں اور حال ہی میں عام انتخابات کے ذریعہ سے صوبہ سیستان و بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سنی حنفی مسلک عالم دین مولوی نذیر احمد سلامی اس کمیٹی کے رکن منتخب ہو چکے ہیں جنہوں نے دینی تعلیم کراچی میں حاصل کی ہے اور ان کا شمار مفتی محمد شفیع کے خاص شاگروں میں ہوتا ہے۔
موصوف نے اپنے کالم میں اصلاح پسند مسلم رہنماؤں کی لمبی فہرست بنائی ہے میں اس کے جواب میں صرف اتنا کہوں گا کہ پہلے آپ لاعلمی اور تعصب کی تاریکی سے نکلیں اور پھر اصلاح پسندی کی بات کریں۔آپ کے پاس تو ابھی تک ایران کے بارے میں ابتدائی معلومات بھی نہیں ۔
حقیقت یہ ہے کہ محترم خورشید ندیم صاحب دور سے ایران کو نشانہ بنا رہا ہے، اس کی مثال دوسرے سنئیر صحافی جاوید چودھری کی سی ہے جو دو ماہ قبل پاکستانی وزیر اعظم کے ہمراہ وفد میں سعودی عرب سے ایران آئے تھے۔ اس نے پہلے کالم میں ایران کے خلاف لکھنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی لیکن تہران میں چند گھنٹوں کی سکو نت کے بعد جب انہوں نے نزدیک سے ایران کو دیکھا تو "تہران، پہلی محبت کی نظر میں" کے عنوان سے الگے کالم میں ایرانیوں کے گن گانے لگا تھا۔
جناب خورشید ندیم! کبھی فرصت ہو تو مطالعے کے لئے کچھ وقت نکالئے اور اگر آپ کے بس میں ہو تو معلومات فراہم کرنے والے لوگوں اور ذرائع کو بدل کر دیکھئے !یقین جانئے دنیا اس سے مختلف ہے جیسی آپ کو دکھائی گئی ہے۔
تحریر۔۔۔۔ ساجد مطہری