وحدت نیوز (آرٹیکل) مجلس وحدت مسلمین کا ملک گیر سالانہ تنظیمی کنونشن اس اعتبارسے خاصی اہمیت کا حامل رہاکہ تین سال بعدمرکزی سیکرٹری جنرل کی نشست پر انتخاب کا مرحلہ بھی اسی دوران طے کیا جانا تھا۔جماعت کے منشور کے مطابق ایم ڈبلیو ایم کے سربراہ کو مرکزی سیکرٹری جنرل کہا جاتا ہے۔انتخابی عمل سے قبل مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ ناصر عباس جعفری اپنی آئینی مدت کے اختتام پر عہدے سے سبکدوش ہو گئے۔علامہ ناصر اس سے قبل دو بار منتخب ہو چکے ہیں۔کنونشن کی آخری نشست میں شیعہ سنی علما کی موجودگی نے باہمی احترام اور رواداری کی پر رشک فضا قائم کی ہوئی تھی۔میڈیا کے دوستوں اور مبصرین کی موجودگی میں رائے شماری کا عمل شروع ہوا۔ ووٹنگ کے اختتام کے بعد شوری عالی کے اراکین جو کہ انتخابی عمل کے نگران بھی تھے نے گنتی شروع کی۔بزرگ عالم دین علامہ شیخ صلاح الدین نے نتائج کا اعلان کرتے ہوئے بتایا کہ علامہ راجہ ناصر عباس جعفری بھاری اکثریت سے مرکزی سیکرٹری جنرل منتخب ہو گئے ہیں۔اس اعلان پر حاضرین کھڑے ہو کر نومنتخب سیکرٹری جنرل کو بھرپور نعروں کی صورت میں خراج تحسین پیش کیا۔
علامہ ناصر عباس جعفری ایم ڈبلیو ایم کے بانیان میں سے ہیں۔پارہ چنار،گلگت بلتستان، کراچی ،کوئٹہ اور ملک کے مختلف حصوں میں دہشت گردی کے نہ تھمنے والے واقعات پر مذہبی جماعتوں کے سکوت کے ردعمل میں مجلس وحدت مسلمین کا قیام عمل میں آیا۔اس جماعت کے اولین اہداف میں ملکی ترقی و استحکام کے لیے مشترکہ کاوشیں،دہشت گردی کے خاتمے کے لیے حکومت کی طرف سے موثر حکمت عملی طے نہ ہونے تک آئینی جدوجہد اور اتحاد بین المسالک کے لیے عملی کوششوں کا آغاز ہے۔علامہ ناصر عباس نے روز اول سے یہ واضح کر رکھا تھا کہ ہم ظالم کے مخالف ہیں چاہے وہ کوئی ہم مذہب ہی کیوں نہ ہو اور مظلوم کے حامی ہیں چاہے وہ کوئی غیر مذہب ہی ہو۔ یہ نعرہ علامہ نا صر عباس کی مقبولیت کا باعث بنا۔مجلس وحدت مسلمین نے مختلف قومی اور عالمی ایشوز پر جوٹھوس موقف اختیار کیا اسے اگر اس وقت حکومت کی طرف سے پذیرائی نہیں بھی ملی تو بھی بعد کے حالات اور وقت نے یہ ثابت کیا کہ اس سیاسی و مذہبی جماعت کی پالیسی قوم و ملک کے حقیقی مفاد میں تھی۔طالبان کے خلاف طاقت کے استعمال سے قبل مجلس وحدت مسلمین کے علاوہ ملک کی تقریباََ تمام سیاسی و مذہبی جماعتیں طالبان سے مذاکرات کی حامی تھیں ۔ایم ڈبلیو ایم نے واضح طور پر حکومت سے مطالبہ کیا یہ مذموم عناصر پاکستان کے امن و استحکام کے دشمن ہیں۔ان کے ہاتھ ساٹھ ہزار سے زائد پاکستانیوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔ان کے ساتھ رعایت برتنا اپنوں کے خون کے ساتھ غداری ہو گی۔مذاکرات کا طویل راگ الاپنے کے بعد بھی طالبان کو رام نہ کیا جا سکا تو پھر ان کے خلاف بھرپور آپریشن شروع کیا گیا۔اگر اس آپریشن کی راہ میں مصلحت اور سیاسی دباو اثر انداز نہ ہوتا پاکستان کی بہت ساری قد آور شخصیات اور دیگر افراد دہشت گردی کی بھینٹ نہ چڑھتے۔
اسی طرح یمن اور سعودی عرب کے مختلف تنازعات میں پاکستانی فوج کومدد کی غرض سے بھیجنے کے فیصلے کے خلاف ایم ڈبلیو ایم نے شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے واضح کیا کہ پاکستان کی موجودہ داخلی صورتحال اس کی قطعی متحمل نہیں۔ ہماری افواج اس وقت لاتعداداندرونی و بیرونی خطرات سے دوچار ہے۔ہمیں بہت سارے دیگر محاذوں پر دشمن کی سازشوں کا سامنا ہے۔ایسی صورتحال میں پاک فوج کوکسی دوسرے کی لڑائی میں دھکیلنا دانشمندی نہیں۔بعد ازاں ملک کی دیگر سیاسی جماعتوں نے بھی اسی موقف کو دہرایا۔وطن کی داخلی صورتحال کی ابتری میں ان قوتوں کا بڑا عمل دخل رہا ہے جو دین کے نام پر تفرقہ پھیلانے میں مصروف ہیں۔یہی قوتیں طے شدہ ایجنڈے کو کامیاب بنانے کے لیے دہشت گردی کی راہ ہموار کرتی ہیں۔مجلس وحدت مسلمین نے ان عناصر کو شکست دینے کے لیے ملک میں شیعہ سنی اتحاد کی عملی بنیاد ڈالی۔دہشت گردی اور حکومت کی غیر منصفانہ پالیسیوں کے خلاف سنی جماعتوں کے ساتھ مل کر جدوجہد کی گئی۔سانحہ ماڈل ٹاون لاہور میں پاکستانی عوامی تحریک کے بے گناہ کارکنوں کی پولیس کے ہاتھوں شہادت پر ایف آئی آرنہ کرنے کے خلاف جب دھرنے کا اعلان ہو تو علامہ ناصر عباس نے مظلوم کی حمایت کی پالیسی کو مقدم رکھا اور علامہ طاہر القادری کے ہم قدم رہے۔ پارلیمنٹ ہاوس کے سامنے تین ماہ سے زائد عرصے پر محیط طویل ترین دھرنے میں مجلس وحدت مسلمین کی نمائندگی نے شیعہ سنی اتحاد کی ایک انمٹ تاریخ رقم کی۔2013محرم الحرام کے دوران راولپنڈی میں پیش آنے والا سانحہ راجہ بازار میں کچھ شر پسند کی جانب سے پنڈی میں تفرقہ بازی کی آگ لگانے کی کوشش کی گئی۔جسے اس وقت ایم ڈبلیو ایم کی مدبر قیادت نے سنی علما کے ساتھ مل کر ناکام بنا دیا۔
سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین حامد رضا نے میڈیا کے ہر فورم پر یہ آوازبلند کی کہ ملت تشیع ایک پر امن قوم ہے۔کچھ منفی عناصر ہمیں آپس میں دست گریبان کرنا چاہتے ہیں۔شیعہ سنی وحدت کے ہتھیار سے راولپنڈی میں بدامنی پیدا کرنے والوں کے عزائم خاک میں ملا دیے گئے۔علامہ ناصر عباس ہر سال ربیع الاول کے موقعہ پر تمام صوبائی و ضلع عہدیدران کو ہدایات جاری کرتے ہیں کہ وہ عید میلاد النبی ﷺ کے موقع پر اپنے اپنے علاقوں میں سٹیج بنوائیں اور نعتیہ مقابلوں کا انعقاد کریں۔گزشتہ سال ماہ ربیع الاول کو مذہبی جوش و ولولے سے منانے کے لیے مجلس وحدت مسلمین کی طرف سے ملک بھر میں تیس سو سے زائد سٹیج سجائے گا۔ شیعہ سنی وحدت کی یہ عمدہ مثال اس سے قبل دیکھنے میں نہیں آئی۔علامہ ناصر عباس نے سہ بارہ سیکرٹری جنرل منتخب ہونے کے بعد خطاب میں پاکستان کی حفاظت کو واجب قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ہم اس وطن کے باوفا بیٹے ہیں۔ہم اس پر کبھی کوئی آنچ نہیں آنے دیں گے۔ قوم و ملت کی سربلندی اور وطن کے استحکام کے لیے میری جدوجہد بلا خوف خطر جاری رہے گی۔کوئی بھی حکمران ہمیں ہمارے اصولی موقف سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹا سکتا۔انہوں نے کہاپاکستان سمیت دنیا بھر میں بلا تخصیص مسلک و مذہب دو گروہ ایک دوسرے کے مقابلے میں صف آرا ہیں۔ایک گروہ مظلومین کا اور دوسرا ظالمین کا۔ہمیں آپ ہمیشہ مظلوموں کے ساتھ کھڑا دیکھیں گے۔پاکستان کے پاک وجود کو داعش سمیت کسی بھی دہشت گرد طاقت کے نجس وجود سے آلودہ نہیں ہونے دیا جائے گا۔ وطن عزیز کو اس وقت لاتعداد چینلجز کا سامنا ہے۔نفرتیں پھیلا کر قوم کو تقسیم کرنے کی مذموم کوشش کی جارہی ہے تاکہ پاکستان قوم متحد نہ ہو سکے۔ہمیں اپنے اتحاد و اخوت کے عملی اظہار سے ان ناپاک ارادوں کو خاک میں ملانا ہو گا۔
حکمران عوام کے جان ومال کے تحفظ کو یقینی بنانے کی بجائے آئے روز گرتی ہوئی لاشوں کے تماش بین بنے ہوئے ہیں۔ ڈاکٹرز، پروفیسرز ،ہونہار طلبہ اور علم کی روشنیاں بکھیرنے والوں سے زندگیاں چھینی جا رہی ہیں۔ہمارے لوگوں کی ٹارگٹ کلنگ کی جا رہی ہے اور دوسری طرف نیشنل ایکشن پلان کے نام پر ہمارے ہی لوگوں کے خلاف مقدمات بھی درج ہو رہے ہیں۔ قانون انصاف کو طاقت کے زور پر پامال کیا جا رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ دہشت گرد جتنا بڑا مجرم ہے اتنا ہی بڑا مجرم اس کا سہولت کار بھی ہے۔ دونوں ملک کے امن و سکون اور انسانیت کے دشمن ہیں۔وطن عزیز کو امن کا گہوارہ بنانے کے لیے ان مذموم عناصر کے سختی سے کچلنا ہو گا۔عالمی استکباری قوتیں پاکستان کو پھلتا پھولتا نہیں دیکھ سکتیں۔ان کے حلقہ اثر سے آزادی ہی حقیقی آزادی سمجھی جائے گی۔یہ طاقتیں قائد و اقبال کے اسلامی پاکستان کو مسلکی پاکستان کی شکل دینا چاہتے ہیں تاکہ تصادم کی راہ ہموار ہو ۔اس ملک میں بسنے والے سنی ، شیعہ ،عیسائی، ہندو اور دیگر تمام مکاتب فکر کو مذہب و مسلک کی بنیاد سے آزاد ہو کر برابری کے حقوق حاصل ہیں۔ملک میں موجود سیاستدانوں، فوج، بیورکریسی اور عدلیہ سمیت سب کو اپنی اپنی حدود میں رہتے ہوئے قومی ترقی و خوشحالی کے لیے جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔
گلگت بلتستان کے عوام کو ان کے حقوق دے جائیں۔ مقبوضہ کشمیر کی آزادی کے لیے جہادی گروہوں کو پالنے کی ضرورت نہیں اگر جنگ کرنی ہے تو تو عوام کو آواز دی جائے ۔ملک کے باوفابیٹے ایک آواز پر میدان میں موجود ہوں گے۔پاک ایران مضبوط تعلقات کے سٹریٹجک کونسل تشکیل دی جائے جسے میں دونوں ممالک کے لوگ شامل ہوں تاکہ غلط فہمیوں کو تقویت نہ مل سکے اورمتنازعہ معاملات کا احسن انداز میں حل نکالا جا سکے۔پاک ایران کے مضبوط تعلقات خطے کے استحکام میں بہترین کر دار ادا کر سکتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ عوامی حقوق کے حصول کے لیے آئینی جدوجہد جاری رہے گی۔جو لوگ ریاست میں مسلح جدوجہد کے قائل ہیں وہ غدار ہیں۔مقاصد کے حصول کے لیے آئین و قانون کی پابندی ہمارا طرہ امتیا ز رہا ہے۔پاکستان میں مہذب احتجاج کی روایت ہم نے ڈالی ہے۔پانامہ لیکس کے منظر عام پر آنے کے بعد یہ حقیقت آشکار ہو چکی ہے کہ حکمران صرف کرپٹ ہی نہیں بلکہ اخلاقی قدروں سے بھی عاری ہیں۔ہم اس کرپشن کے خلاف پورے عزم اور نئے ولولے سے آگے بڑھیں گے۔
تحریر۔۔۔۔۔سید نادِعلی کاظمی