وحدت نیوز(آرٹیکل) کچھ سال پہلے کی بات ہے۔گاڑی چھانگامانگا سے گزررہی تھی۔ میری ساتھ والی سیٹ پر کوئی اونگھ رہاتھا۔ اچانک اونگھتے ہوئے شخص نے مجھے چٹکی کاٹی۔
ہوں ! میں چونک گیا۔
ابے صاحب ڈر گئے،اجنبی مسکراتے ہوئے بولا۔
نہیں تو!میں نے قدرے تکلف سے کام لیا۔
مجھے ۱۹۷۱کی ایک بات یاد آئی ہے۔سوچا آپ کو بھی سنا دوں۔اجنبی نے یہ کہتے ہوئے کسی قسم کا تکلف نہیں کیا۔اس نے بغیر کسی وقفے کے بات شروع کردی:
اس نے بتایاکہ میری جوانی کے دن تھے۔ایک مرتبہ کچھ دوستوں کے ساتھ مجھےچھانگامانگا آنا پڑا۔گھنے جنگل کے نزدیک کچھ لوگ ایک چھپر ہوٹل میں چائے پی رہے تھے۔ہم دوست بھی ایک چارپائی پر بیٹھ گئے۔
موسم بھی گرم تھا اور موضوع بھی لسانی اور مذہبی فسادات کا چل رہاتھا،اخباروں کی طرح چائے کے کپ میں بھی گھٹن تھی اور گھٹن سے دھواں اُٹھ رہا تھا۔اتنے میں ایک ملنگ پر ہماری نظر پڑی،لمبے لمبے بال،پھٹاہوا اور پرانا کرتا،گندھا اور بدبودار جسم،سوکھے ہوئے ہونٹ اور گردن میں خالی کشکول۔
ہم نے اسے بھی اپنے پاس بٹھالیا۔ملنگ خاموشی سے بیٹھ گیا،وہ ہماری باتیں ایسے سن رہاتھاجیسے بالکل نہیں سن رہا۔وہ چائے دانی سے کپ میں مسلسل چائے پہ چائے ڈال کر پیتا جا رہے تھااور بس۔۔۔
ہم بھی فسادات اور خون خرابے پر آنسو بہائے جارہے تھے۔انسانی ہمدردی اور بھائی چارے کے لئے کئی مرتبہ ٹھندی آہیں ہمارے سینے سے ابھریں اور عرش اعظم سے ٹکرائیں۔
]اس دوران کئی مرتبہ چائے میں چینی گھولتے ہوئے ملنگ کے چمچ کی ٹھن ٹھن سے ہم تھوڑے سے بیزار بھی ہوئے۔کچھ دیر بعد ہمیں احساس ہوا کہ ملنگ صاحب ہمیں تنگ کرنے کے لئے چمچ سے ٹھن ٹھن کر رہے ہیں۔[
ایک دوست نے قدرے ناراحتی کے ساتھ ملنگ کو مخاطب کیا،باباجی آپ کچھ فرمانا چاہتے ہیں!؟
ملنگ نے چائے کی چسکی لی اور پھر بولا دیکھو بچو! انسان جب چھوٹا ہوتا ہے تو اس کی خواہشیں بھی چھوٹی ہوتی ہیں اور اس کے غم بھی چھوٹے ہوتے ہیں۔وہ جلدی راضی ہوتا ہے اور جلدی ناراض لیکن جیسے جیسے بڑا ہوتا جاتا ہے اس کی خواہشیں طولانی ،ناراضگیاں لمبی ، دوستیاں کم اور انانیت زیادہ ہو جاتی ہے۔
یہ کہہ کر ملنگ نے ایک مرتبہ پھرچینی کی چمچ کپ میں ڈالی اور ہلانی شروع کر دی اور پھر کہنے لگا کہ اگر میں ساری دنیا کی چینی خرید کر بھی پی جاوں تو کیا میں میٹھا ہو سکتا ہوں۔جب تک میرا دل داغدار ہے تب تک میری زبان کڑوی ہے۔
اس نے اپنے سامنے بیٹھے ہوئے ایک شخص کے کے کاندھے تھپتھپا کر کہا تم ابھی جوان ہو !کوشش کرکےاندر کے کڑوے پن کو ختم کرو ، یہ ہمارے اندر اور باطن کا ذہر اور کڑوا پن ہے جو باہر کے ماحول کو مسموم کرتاہے۔
یہ کہہ کر ملنگ نے قریب کھڑے ٹرک کی طرف اشارہ کیا جس کے پیچھے بہت بڑا لکھا تھا:
آپ اچھے جگ اچھا۔
ملنگ اشارہ کر کے ہم سے دور چلاگیا،ہم نے بہت منتیں کیں،مزید چائے پلانے کے جھانسے دیے لیکن اس نے پھر زبان نہیں کھولی۔اور ہم اپنی زبانوں پر یہ جملہ لئے واپس آگئے:
"آپ اچھے جگ اچھا"
یہ کہہ کر میرے ساتھ والے اجنبی نے اخبار میرے سامنے لہرایا،جس پر یہ خبر لگی تھی کہ مشہور قوال قاری سعید چشتی کو قتل کردیا گیا۔
میں ٹھٹھک کر بولا جو قوم ،سائنسدانوں،دانشوروں،قوالوں،ذاکروں،شاعروں اور ادیبوں کو بھی قتل کردے ،کیا اُس کی اصلاح پولیس کرسکتی ہے!؟
کیا اس کا ذہر مقدموں اور جیلوں سے ختم ہوسکتاہے!؟
کیا اس کے کڑوے پن کو عدالتیں ختم کرسکتی ہیں؟
اجنبی بولا نہیں ہر گز نہیں،یہ کہہ کر اس نے گاڑی سے باہر اشارہ کیا:
باہر تیل کا ایک ٹینکر کھڑا تھا،جس کے پیچھے جلی حروف میں لکھا تھا:
آپ اچھے ۔۔۔جگ اچھا
ہم دونوں نے یہ دیکھا اور مسکرا دئیے۔
جی ہاں! آپ اچھے تو جگ اچھا ورنہ اگر ہم ساری دنیا کی چینی خرید کر بھی پی جائیں تو میٹھے نہیں ہوسکتے۔
تحریر۔۔۔۔۔نذرحافی