وحدت نیوز (آرٹیکل) یمن ایک مستقل ملک ہے یمن میں حکومت اور اقتدار اور الیکشن وغیرہ ساری چیزیں ہر ملک کی طرح ہو تی ہیں لیکن آج کل یمن کا مسئلہ عجیب و غریب صورت اختیار کر گیا ہے۔ اکثر و بیشتر اس مسئلے کو فرقہ وارانہ مسئلہ قرار دے رہے ہیں حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے اور پوری دنیا میں کوئی فرقہ وارانہ مسئلہ نہیں ہے پوری دنیا کے ہر ملک میں شیعہ، سنی مسلک کے لوگ پائے جاتے ہیں اور کہیں بھی ایسا مسئلہ نہیں ہوا کہ دنیا کے کسی کونے میں یا کسی شہر اور آبادیوں میں شیعہ ، سنی ساتھ میں نہ بستے ہوں ، ایسا تو کہیں بھی نہیں دیکھا گیا کہ شیعہ آبادیوں میں دو چار گھر سنیوں کے ہوں تو وہ سکون کی نیند نہ سوتے ہوں اور نہ ایسا دیکھا گیا ہے کہ سنی آبادیوں میں دو چار گھر شیعوں کے ہوں تو آرام سے نہ رہ سکتے ہوں وہ تو پھر یہ شیعہ ،سنی فرقہ وارانہ مسئلے کو کیوں ہوا دی جارہی ہے اور یمن میں بھی کوئی فرقہ وارانہ فساد نہیں ہے بلکہ سعودی اس میں اپنے من پسند مہرہ دیکھنا چاہتا ہے اس لیے نہ جانے کس جرم میں پاکستان کو گھسیٹا جا رہا ہے اور یہ کہہ کر پاکستان کو یمن میں داخل کیا جا رہا ہے کہ سعودی عرب نے پاکستان کی فلاں جگہ مدد کی ،فلاں جگہ اتنے ڈالر دئیے ، فلاں جگہ تیل دیکر مدد کی اور کہا جا رہا ہے کہ پاکستان کو سعودی کی یمن کے معاملات میں مدد کر نی چاہئے .
اب میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ کس مسئلے میں پاکستان سے مدد مانگی جا رہی ہے ، ایک مسلم ریاست کو تحس نحس کر نے میں؟یا عوام پر ظلم کے پہاڑ ڈھانے میں؟ یا وہاں کی شیعہ، سنی بچوں پر بم اور گولیاں بر سانے میں؟ ان تمام حالات میں آپ یقینی طور پر کہہ سکتے ہیں کہ مسئلہ فرقہ وارانہ قطعاً نہیں ہے ، اصل میں مسئلہ کچھ اس طرح ہیں جو بھی ملک اسرائیل اور امریکا کی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں اور ان کو خوش کر تے ہیں وہی لوگ یمن میں فرقہ وارانہ مسئلے کا ڈھونگ مچارہے ہیں ۔ اصل میں مسئلہ یہ ہے کہ جب بھی ملک میں کوئی حاکم اقربا پروری پر اُتر آئے اور عوام کے مسائل حل نہ کرے اور امن و امان کی صورتحال خراب ہو جائے اور ملک کا حاکم عوام الناس کو بھیڑ بکریاں اور جانور سمجھ کر ان پر حکمرانی اور ملوکیت اور بادشاہی کا حق جتانا چاہے اور اپنی ملک کی عوام کو انسان نہ سمجھے تو اندر ہی اندر سے مخالفت شروع ہو جا تی ہے یمن میں بھی کچھ اس طرح ہوا ہے ۔صدر علی عبداللہ جوکہ یمن میں 30سال کے عرصے سے یہی ظلم و بربریت کا بازار گرم کر کے رکھا تھا اور تخت و تاج کو سب کچھ سمجھ کر امریکا اور اسرائیل کی ہاں میں ہاں ملا کر اپنی عوام پر ظلم و بر بریت کر تا رہا تو لوگ صدر علی عبداللہ کے خلاف اُٹھے اور قیام کیا ،جب اس ظلم و بربریت کے خلاف اور بے روزگاری کے خلاف شاگردوں اور عوام نے احتجاج کی صد ا بلند کی تو ان پر حیوان اور درندوں کی طرح گولیاں برسائیں گئیں جس کی وجہ سے سیکڑوں شاگرد اور عوام مارے گئے اور صدر علی عبداللہ کو امریکا سپورٹ حاصل تھی جب عوام سڑکوں پر آئی تو وہ فرار کر گیا اب حقیقت یہ ہے کہ حق شیعہ ، سنی عوام کا ہے کہ جب ایک ظالم کو بھگا دیا تو اب وہ مل جل کر حکومت بنائیں لیکن یہاں پر سعودی حکمران بولتے یہ ہیں کہ ہمیں خطرہ ہے دراصل جب کسی ملک میں ظالم کے خلاف آواز اُٹھتی نظر آتی ہے تو ہر ظالم کے اعوان ہلتے نظر آتے ہیں اب سعودی حکمران جو عرصہ دراز سے ظلم و بربریت کا بازار گرم کرے ہوئے ہیں اور عیاشی کو اپنا مشعلِ راہ بنائے ہوئے ہیں اسلام کو فقط بنام اسلام مانتے ہیں انکو اپنی حکومت کے اعوان ہلتے نظر آرہے ہیں اس لئے انہوں نے فرقہ وارانہ مسئلہ کا ڈھنڈورا پیٹنا شروع کیا ہے اور جھوٹ بولنا شروع کر دیا ہے کہ کعبہ کو خطرہ ہے اور حرم کو خطرہ ہے حالانکہ یمن کی عوام کعبہ کا احترام کر تی ہے حج بجا ء لاتی ہے زکوٰۃ اداکر تی ہے ازواج نبی کا احترام کر تی ہے اور مقدساتِ اسلام کا احترام کر تی ہے تو ان سے سعودی کو خطرہ کیوں نظر آتا ہے خطرہ تو ان لوگوں سے ہو نا چاہئے جو داعش کی شکل میں، طالبان کی شکل میں ہر ملک میں ظلم و بربریت کا بازار گرم کئے ہوئے ہیں ،عبادت گاہوں میں بم برسا کر کئی قرآن مجیدوں کو جلا رہے ہیں اور اسکولوں میں معصوم بچوں پر ظلم کر رہے ہیں جنہوں نے صحابہ اکرام کے نام پر ، صحابہ اکرام کے مزاروں کو زمین بوث کر دیا ہے اور ازواج نبی کے مزارات کو گرا دیا ہے اور ابھی ان کی نظر رسول ﷺ کے روزے پر ہے خطرہ تو ان سے ہو نا چاہئے لیکن یہ لوگ سعودی حکمرانوں سے دوستیاں منا رہے ہیں اور سعودی حکمران ان کو اپنا چشمِ چراغ مانتے ہیں۔ شیعہ ، سنی سے اور یمنی مسلمانوں سے نہ کعبہ کو خطرہ ہے نہ حرم کو خطرہ ہے بلکہ یہ شیعہ ، سنی تمام مقدسات کا احترام کر تے ہیں اور اولیاء اکرام کے مزارات کے تقدس کے قائل ہیں تو ان سے سعودیوں کو کیوں خطرہ لاحق ہے اور عجیب و غریب وجہ بیان کر کے پاکستانیوں کو اس آگ میں کیوں ڈالا جا رہا ہے اور وہ مفتی جنہوں نے فتویٰ دی تھی کہ مسلک کی بنیاد پر قتل وغار ت اوربم دھماکے حرام ہیں تو وہ اب یمن میں مسلمانوں کی قتل و غارت پر کیوں خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں اور جس اسرائیل اور امریکا سے اسلام کو خطرہ ہے قبلہ اول کو خطرہ ہے جو اسرائیل اور امریکا مسلمانوں کی املاک پر 50سال سے زیادہ عرصہ سے قابض ہیں ، فلسطین میں قبلہ اول پر قابض ہیں اور فلسطین میں ظلم و بربریت کا بازار گرم کئے ہوئے ہیں ان سے تو سعودی حکمرانوں کی دوستی ہے اور ان سے حرم کو بھی خطرہ نہیں ہے اور کعبہ کو بھی خطرہ نہیں ہے بلکہ سعودی حکمرانوں کو مسلمانوں سے خطرہ ناجانے کیوں محسوس ہو رہا ہے پتہ چلا کہ صرف سعودی حکمران اپنی ریاست اور اپنی کرسی بچانے کیلئے اور امریکا اور اسرائیل کو خوش کر نے کیلئے مسلمانوں کو یمن میں لڑوانا چاہتے ہیں اور پاکستان کو بھی گھسیٹنا چاہتے ہیں اور پاکستان کی بچی کچی عزت کو یمن میں گھسیٹ کر ملیہ میٹ کر نا چاہتے ہیں ۔
پاکستان پہلے سے دہشتگردی والے مسئلے میں مشکلات کا شکار ہے اور پاک فوج اس کا مقابلہ کر رہی ہے تو سعودی نے نیا مسئلہ اٹھا دیا ہے تاکہ آرمی کی توجہ دہشتگردی سے ہٹا کر یمن کی طرف دھکیلا جائے اور پاکستان میں جو دہشتگرد مسجدوں، امابارگاہوں، اور عبادت گاہوں کو نشانہ بنا رہے ہیں ان کو چھپنے کا موقع مل سکے لیکن شیعہ ،سنی عوام پاکستانی فوج کے حوصلوں اور ثابت قدمی اور دہشتگردی کے خلاف آپریشن کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے اسلئے پاکستانی فوج کو بھی چاہئے کہ اپنے وقار کو بلند کر تے ہوئے اپنے وطن عزیز میں امن و امان کو اولیت دیں اور یمن والے مسئلہ میں سعودی عرب کا ساتھ نہ دیں بلکہ ایک ثالثی کا کردار ادا کرے اور مسلمانوں کے درمیان صلح و صفاء کا ماحول پیدا کرے اور پاکستانی حکمران بھی اپنی کُرسی بچانے کے بجائے عوام کی رائے کو ملحوظ نظر رکھ کر دوسرے ملک کے مسائل میں اپنی ٹانگ نہ اڑائے اور یمن کو حق حاصل ہے کہ اپنے مسائل اور حکمران اپنی مرضی سے اور رائے سے انتخاب کرے لیکن آج کل سعودی عرب چاہتا ہے کہ امریکا اور اسرائیل کو خوش کر نے کیلئے تمام مسلمان ممالک میں افرا تفری اور قتل و غارت اور ملک میں اپنے من پسند لوگ وہاں مہرے کی طرح دیکھنا چاہتا ہے ۔ یمن کا مسئلہ تو اصل میں اقوام متحدہ کو حل کر وانا چاہئے اور سلجھانا چاہئے جو کہ بنائی بھی اسی لئے گئی تھی تاکہ کوئی ملک کسی دوسرے ملک میں دخل اندازی نہ کر سکے لیکن نہ جانے یہ اقوام متحدہ کو کیا ہو گیا ہے کہ کسی ملک میں بھی مسئلہ ہو تا ہے تو حل کر نے کے بجائے کھلونا بن کر تماشائی کردار ادا کررہی ہے ۔ برحال تمام مسلم ممالک کو چاہئے کہ وقت کا تقاضہ ہے کہ آپس میں اتحاد پیدا کرے اور امریکا اور اسرائیل کے اشاروں پر سعودی حکمرانوں کی طرح ناچنے کی بجائے آپس میں اتحاد کا ثبوت دیں اور تمام مسلم عوام کا خیال رکھیں ایک دوسرے کہ غم و خوشی میں ساتھ دیں اوراگر سعودی حکمران اپنی سلطنت بچانے کیلئے یمن میں ظلم کا بازار گرم کئے ہوئے ہے اور امریکا اور اسرائیل کو خوش کئے ہوئے ہے یہ ظلم و بربریت کا بازار بند نہ ہوا تو مسلمانوں کو بہت بڑا نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے جو کبھی پو را نہیں ہو سکے گا۔
تحریر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مولانا امدادعلی نسیمی