وحدت نیوز(آرٹیکل) صدام حسین نے چوبیس سال عراق پرحکومت کی، اس نے کس طرح حکومت کی یہ ساری دنیا جانتی ہے۔ عراقیوں پر ابھی صدام کے مظالم کم نہیں ہوئے تھے کہ امریکیوں نے نئے مظالم کے پہاڑ توڑ ڈالے ، امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے اس پر اکتفا نہیں کیا بلکہ وہ اپنے منصوبے کے تحت داعش کے قیام کو بھی عمل میں لائے تاکہ عراق سمیت عالم اسلام کو اس کے ذریعے نقصان پہنچایا جا سکے لیکن انسان ناتواں سوچتا کچھ ہے اور ہوتا کچھ ہے۔ امریکی اور اس کے اتحادیوں کے حملے اور دہشت گردی سے اب تک لاکھوں افراد اس دنیا سے رخصت اور لاکھوں بے گھر ہوچکے ہیں ۔خصوصا داعش یا دولت اسلامیہ کی جانب سے خلافت کے اعلان کے بعد ان تکفیری دہشت گردوں نے عراقی عوام کے ساتھ وہ سلوک کیا کہ جس کو بیان کرتے ہوئے ہماری روح تک لزر جاتی ہے ۔ لیکن ظالم کا قصر مظلوم کی آہو فغا ں کے سامنے زیادہ دیر قائم نہیں رہ سکتا اور عراق میں بھی ایسا ہی ہوا، عالمی طاقتوں کی پشت پناہی حاصل ہونے کے باوجود کچھ دنوں پہلے عراق کے وزیر اعظم حیدر العبادی نے باقاعدہ موصل کی فتح کا اعلان کیا۔ یاد رہے موصل کو داعش کا گڑھ سمجھا جاتاتھا اور ان کے نام و نہاد خلیفہ ابو بکر ا بغدادی نے اسی علاقہ کی قدیم ترین مسجد" جامع النوری" سے اپنی خلافت کا باقاعدہ آغاز کیا تھا۔جس طرح داعش میں ابو بکر البغدادی کو مرکزی حیثیت حاصل تھی ا سی طرح موصل میں داعش کے کنٹرول کا دارو مدار مسجد النوری سے جڑا تھا۔ اس پر تین سال سے دہشت گردوں نے قبضہ کیا ہوا تھا اور اس کا 45 میٹر بلند مینار" الحدبا" اہم ترین مورچہ تھا جہاں سے وہ دور دور تک عراقی فوجیوں کو نشانہ بناتے تھے۔داعش کے پے درپے شکست کے بعد عراقی زرائع کے مطابق بالا آخر داعش نے یہ علاقہ چھوڑنے سے پہلے اس مینار کو بم دھماکے کے ذریعے زمین بوس کرادیایوں وہ اپنے ساتھ اپنی نشانی بھی خود ہی مٹا کر گئے۔
اس کے کچھ دنوں بعد عراقی حکومت نے فوجی پریڈ کے ذریعے فتح کا اعلان کیا جو کہ نہ صر ف عراقیوں کے لئے بلکہ دنیا کے ہر کونے میں موجود مسلمانوں کے لئے خوش خبری تھی ۔دوسری جانب شام میں بھی دولت اسلامیہ کو پے درپے شکست کا سامنا ہے اور وہ دن دور نہیں کہ شامی حکومت بھی داعش کے خاتمے کا اعلان کرے گی۔ اس وقت ایک اہم مسئلہ عراق و شام سے پسپا ہونے والے دہشت گردوں کا ہے جو اپنی پسپائی کے بعد اب اپنے اپنے ملکوں کو لوٹنا چاہتے ہیں ان دہشت گردوں میں بڑی تعدادمیں یورپی بھی ہے جس سے یورپ سمیت دیگر ممالک بھی سخت پریشان ہیں۔ دہشت گردوں اور ان کی پشت پناہی کرنے والے اب کسی نئے شکار کی تلاش میں ہیں تاکہ وہ اپنے ان کرایے کے قاتلوں کو مصروف رکھ سکیں اس سے ان کو دو فائدے ہونگے اول یہ دہشت گرد اپنے ملکوں کو لوٹنے کے بجائے نئے معرکہ میں کود پڑیں گے اور دوم سی آئی اے ، موساد اور ر ا اپنے لے خطرہ سمجھنے والے ملک کو ان دہشت گردوں کے ذریعے نشانہ بنائیں گے۔وطن عزیز بھی کئی دہائیوں سے دہشت گردی سے متاثر ہے اور آئے روز ملک میں دہشت گردی کے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں اور بد قسمتی سے القاعدہ ، طالبان سے لیکر داعش تک ہر دہشت گرد گروہ کی کوئی نہ کوئی جڑ پاکستان میں بھی موجود ہوتی ہے۔ جس کی وجہ سے 9/11 کے بعد سے ہم بھی ایک طرح سے حالت جنگ میں ہیں اور اس وقت آپریشن ردالفساد کا دور چل رہا ہے جس نے دشمنوں کی کمر توڑ دی ہے۔
پاک فوج اور سیکورٹی اداروں نے اس لعنت کے خلاف بہت کامیابیاں حاصل کی ہیں ، دہشت گردی پر کسی حد تک قابو پالیا ہے مگر ہمارے دشمنوں کو کبھی بھی یہ برداشت نہیں ہے کہ پاکستان پھر سے امن کا گہوارہ بنے ۔ لیکن پاک فوج نے آپریشن ضرب عضب کے بعد آپریشن ردلفساد کے زریعے دشمنوں کی سازشوں کو ناکام بنا رہے ہیں ۔ اسی حوالے سے ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ" داعش نے ہمارے نوجوانوں کو نشانہ بنایا اس تنازع کی نوعیت اور کردار اب تبدیل ہوئی ہے جس کے بعد آپریشن ردالفساد کے تحت کاروائی کی ضرورت مزید بڑھ گئی ہے۔پاک فوج نے وادی راجگال میں خیبر ۴ آپریشن کا آغاز کر دیا ہے جس کا مقصد سر حد پار موجود جنگجوں تنظیم داعش کی پاکستانی علاقوں میں کاروائی کو روکنا ہے"۔دو دن پہلے پاک فوج نے"آپریشن خیبر 4 کا پہلا مرحلہ مکمل ہونے کا اعلان کیا ہے" اس اعلان کا ہونا تھاکہ پھر سے دہشت گردوں نے بے گناہوں کا قتل عام شروع کردیا ہے، کوئٹہ میں ٹارگٹ کلنگ ہو یا کل لاہور میں ارفع کریم ٹاور کے قریب ہونے والا خودکش دھماکہ جس میں تقریبا پولیس اہلکاروں سمیت 26 افراد ہلاک اور تقریبا 50 زخمی ہوئے ہیں اور حسب معمول تحریک طالبان نے فوری حملے کی ذمہ داری قبول کرلی ہے جس سے یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ پاک فوج کی جانب سے آپریشن نے دہشت گردوں کو پسپائی کی طرف دھکیل دیا ہے اور وہ بے بس ہو کر عام شہریوں اور سیکورٹی اداروں کو نشانہ بنانا شروع کیا ہے۔لیکن اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ دہشت گردی کا خاتمہ صرف سرحدوں کی حٖفاظت سے نہیں ہوگا، ہمیں اپنی صفوں میں موجود ددہشت گردوں کی حمایت کرنے والوں اور ان کے نظریہ کا پر چار کرنے والوں پر نظر رکھنا بھی ضروری ہے۔
ان دہشت گردوں کے اہداف میں سے ایک اصل ہدف تعلیم یافتہ نوجوان ہیں ، تکفیری سوچ کے پرچار کرنے والے مختلف سر کاری ، نجی کالجزز، یونیورسٹیز، اسکولز اور مختلف اکیڈمیز کے ذریعے ہمارے نوجوان نسلوں کو گمراہ کرنے پر منظم طریقے سے کام کر رہے ہیں ۔ ہمارے تعلمی ادارے ان کااولین ہدف ہیں اس کی بہت سی مثالیں ہمارے پاس موجود ہیں۔ سانحہ صفوراکے ملزمان اور ان کے سہولت کار سب تعلیم یافتہ اور ہمارے نامور یونیورسٹیز کے طالب علم تھے۔ لہذا دہشت گردی سے ہم سب متاثر ہیں پاک فوج اور سیکورٹی اداروں کے ساتھ ساتھ ہماری بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم اپنے حصے کا کام انجام دیں خصوصا والدین اپنے بچوں پر کڑی نظر رکھیں ، کوچنگ، کالج اور یونیورسٹی جا رہے ہیں کہہ کر ہمیں مطمئن نہیں ہونا چاہیے ۔بلکہ ہمیں دیکھنا ہوگا کہ واقعی ہمارے بچے پڑھنے جارہے ہیں؟
دوست کون لوگ ہیں؟ تعلیمی اداروں اور باہر ان کا کیا کردار ہے؟سوشل میڈا پر ان کی کیا ایکٹویٹیز ہیں؟ یہ والدین پر فرض ہیں کی کم سے کم ان چیزوں پر سخت نظر رکھیں تاکہ آپ کے اپنے لخت جگر بھی محفوظ رہیں اور اس ملک میں بسنے والے بھی خوش حال رہ سکیں۔ یقین جانے اگر ہم نے اپنی ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے انجام دیا تو ہم ہر میدان میں کامیاب ہوں گے۔ عراق غریب اور جنگ زدہ ملک ہونے کے باجود دہشت گردوں کو شکست دے سکتا ہے تو ہمیں ان مٹھی بھر دہشت گردوں کو سفایا کرنے میں زیادہ وقت نہیں لگے گا بشر طہ کہ ہم سب مخلص ہوں اور اپنی ذمہ داریوں سے غافل نا ہوں۔ دوسری جانب ایک اہم سوال بھی اٹھتا ہے کہ جب بھی پاکستان کے اندورونی مسائل کسی اہم موڑ پر ہوتے ہیں، پاک افغان یا پاک بھارت سرحدوں پر کشید گی بڑھ جاتی ہیں یا ایک دم دہشت گردی کی نئی لہر شروع ہوجاتی ہے ۔آخر اس کی کیا وجہ ہے ؟ ؟سوچئے!