گلگت بلتستان ایک تاریخی موڑ پر

14 January 2016

وحدت نیوز (آرٹیکل) گلگت بلتستان، پاکستان کا ایک انتہائی اسٹریٹجک علاقہ ہے جو پاکستان کو چین سے جوڑتا ہے۔

(1)سنگلاخ پہاڑی سلسلوں اور دسونں قدرتی خوبصورت مناظر سےآراستہ ر یہ علاقہ اپنے  بینظیرقدرتی حسن کے  باعث پوری دنیا کی توجہ کا مرکز بن چکا ہے۔

اس خطے میں 7ہزار میٹر سے بلند 50 چوٹیاں واقع ہیں۔ دنیا کے تین بلند ترین اور دشوار گزار پہاڑی سلسلے قراقرم، ہمالیہ اور ہندوکش یہاں آکر ملتے ہیں۔ دنیا کی دوسری بلندترین چوٹی کے ٹو بھی اسی خطے میں واقع ہے۔ جبکہ دنیا کے تین بڑے  گلیشیئر بھی اسی خطے میں ہی واقع ہیں۔

 (2)دیوسائی جیسا دنیا کا بلند ترین اور خوبصورت ترین  میدان بھی یہاں  واقع ہے۔یہاں بے پناہ معدنیات پائے جاتے ہیں۔ ان سے اگر بھرپور استفادہ کیا  جائے تو گلگت بلتستان کا  کوئی گھرانہ حدغربت سے نیچے نہیں رہے گا۔ یہاں اتنے آبی ذخائر ہیں کہ اگر ان کو بروئے کار لایا جائے تو پورے پاکستانکے لیے  وافر مقدار میں بجلی  پیدا کی جاسکتی ہے۔ دفاعی حوالے سے یہ علاقہ پورے پاکستان کے لیے شہ رگ کی حیثیت رکھتا ہے۔پاکستان کا سب  سے بڑا دریا،  دریائے سندھ بھی یہاں سے گزرتا ہے۔

یہاں کی عوام بہت ہی شریف النفس،دیندار، بااخلاق، بامروت، شجاع،  ایک دوسرے کے کام آنے والے، ہمدرد اوربہت ہی ایماندارہیں،یہاں کے لوگ اچھے مسلمان اور مہمان نواز  بھی ہیں۔ جرائم کی شرح نہ ہونے کے برابر ہے۔

(3) جس کا واضح ثبوت یہاں کے جیلوں میں مجرموں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہونا ہے۔ پورے پاکستان میں پر امن ترین یہیعلاقہ سمجھا جاتا ہے۔ بلتستان میں تو  آج تک کوئی ایک  شخص بھی  فرقہ واریت کی بھینٹ نہیں چڑھا۔  یہاں تمام مکاتب فکر کے لوگ برادرانہ زندگی گزارتے ہیں۔یہاںپر  ایک  سوال ذہن میں آسکتا ہے کہ کیا یہ  سب کچھ خود بخود ممکن  ہوا؟ نہیں نہیں  بلکہ یہ سب کچھ علماء کی محنتوں اور ان کی کاوشوں  کا نتیجہ ہے۔انھوں نے لوگوں کے دلوں میں حقیقی اسلام کی روح پھونکی اور ایک دوسرے کے حقوق بیان  کیے۔جس کا پھل آج ہمیں امن و امان اور باہمی محبت کی صورت میں مل رہا ہے۔

۱۹۶۵کی جنگ ہو یا ۱۹۷۱ کا معرکہ ۱۹۹۹ کی گارگل وار ہو یا شمالی وزیرستان آپریشن، اکبر بکٹی کو گرفتارکرنے کا معاملہ ہو یا لال مسجد سے تکفیری دہشتگردوں کو شکست دینے کا مرحلہ،غرض ہرمشکل موڑ پریہاں کے جوانوں نے مملکت خداداد پاکستان کی حفاظت کے لیے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے  سے کبھی  دریغ نہیں کیا اورآخری دم تک دشمن کے مقابلے میں مردانہ وار سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر ملک کا دفاع کرتے رہے اور کبھی  بھی کسی دشمن کے مقابلے میں شکست تسلیم نہیں کی۔

یہاں کی عوام نے( اپنی دینی حمیت  اور ملی جذبے کی خاطر) اپنی مدد آپ کے تحت ۱۹۴۸ء میں خود لڑ کر آزادی حاصل کی ۔( پاکستان کے اسلام کے نام سے موسوم  ہونے اور دینی بنیاد وں پر استوار ہونے کے باعث، اسی  دینی جذبےکے تحت  بغیر کسی شرط کے) اور اپنی مرضی سے  پاکستان میں شمولیت اختیار کی۔(4) بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے بھی اسے خوش آئند قرار دے کربہ سر چشم تسلیم  کرلیالیکن   ہماری بدقسمتی یہ ہوئی کہ ہماری تقدیر کا فیصلہ ہونے سے پہلے ہی بانی پاکستان انتقال کرگئے۔شاید آج بھی وہ اپنی قبر میں ہماری مظلومیت کا رونا رو رہے ہوں۔اس کے بعد سے ہماری مظلومیت  کا ایک نیا دور  شروع ہوا۔ نہ ہمیں ۱۹۷۳ء کے آئین میںکوئی قانونی حیثیت دی گئی اور نہ ہی بعد کے ادوار میں ہم اپنا تشخص پاسکے۔ جبکہ73ءکے آئین میں  کشمیریوں  کو اپنا مستقل حق مل گیا ۔البتہ صرف ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں یہاں کے لوگوں کو کچھ ریلیف اور مراعات ملی لیکن قانونی حیثیت دینے کے حوالے سے انھوں نے بھی کوئی  ٹھوس قدم نہیں اٹھایا۔  ہمیں نظرانداز کرنے کا یہ سلسلہ بغیر کسی وقفے کے جاری رہاپھر بھی  ہم مملکت خداداد پاکستان سے اپنی دلی ہمدردی  اور محبت کا اظہار کرتے رہے لیکن ایوان اقتدار پرقابض  حکمران مسلسل ہماری محبت کو ٹھکراتے  ہی رہے۔ ہماری مظلومیت کا یہ عالم ہے کہ جب کارگل وار میں ہمارے جوانوں نے شجاعت حیدری کا مظاہرہ کرتے ہوئے سرحد پار کرکے کارگل کے بہت بڑے ایرئیے کو اپنے قبضے میں لیا ۔صلح کے بعد فوجی تبادلے کی باری آئی تو ہمارے وہ فوجی جوان  جو انڈین فوج کے ہاتھوں اسیر ہوگئے تھے، تو اس وقت کے  وزیر اعظم نے(جو اس وقت بھی وزیر اعظم ہیں) ان جوانوں  کے  پاکستانی فوجی ہونے سے انکار کرکے انیںن کشمیری مجاہدین  قرار دے دیا۔ بعد ازاں  جب ان کی حکومت زوال پذیر ہوئی اور پرویز مشرف یہاں کے حکمران ہوئے تب انھوں نے ہمارے جوانوں کی شجاعت و بہادری اور قربانی کے جذبے کا مشاہدہ  کرکے انھیں مکمل رجمنٹ کی حیثیت دے دی اور انں ح کے دور میں  گلگت بلتستان کونسل کو آئین ساز اسمبلی کا درجہ بھی  ملا۔ (البتہ صرف نام کی اسمبلی رہی لیکن کوئی اختیار انہیں بھی حاصل نہیں ہوا) بالفاظ دیگر پرویز مشرف بھی ہمیں قانونی حیثیت دینے میں ناکام رہے بلکہ ان کے دور میں بھی کچھ متنازعہ باتیں چلیں لیکن ہماری عوام کی بیداری کے باعث وہ بھی ہمیں متنازعہ قرار نہیں دے پائے۔ بعدازاں پیپلز پارٹی کی حکومت آئی تب انھوں نے آئینی حیثیت دینے کا نعرہ  بلند کیا۔آخر کار 9/اگست ۲۰۰۹پاکستان کے صدر کے جاری کردہ آرڈیننس کی مدد سے اس علاقے کو خودمختاری دی گئی اور شمالی علاقہ جات کی جگہ اب گلگت بلتستان نام دے دیاگیا۔(5) لیکن پھر بھی وہ ہمیں قومی اسمبلی میں سیٹیں دے سکے اور نہ ہی سینیٹ میں  کوئی  نمائندگی  اور یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ آخر ہماری شرافت کا امتحان کب تک جاری رہے گا؟ ہمارے خلوص کو کب تک ٹھکرایا جاتا رہے گا؟ ہمیں کب تک آئینی حیثیت سے محروم رکھا جائے گا؟

جوں جوں ۲۰۱۵ کے انتخابات قریب ہوتے گئے سارے سیاسی حلقوں میں گہما گہمی  پیدا ہوتی گئی۔ بڑے بڑے ایجنڈے بھی پیش کیے جانے لگے، بہت سارےسبز باغ بھی  دکھائے جانے لگے۔ بالخصوص موجودہ حکومت نے یہاں کی عوام سے وعدہ کیا تھا کہ مسلم لیگ  (ن) جیتنے    کی صورت میں ہم آپ کو مکمل  آئینی حق دیں گے۔ ہماری عوام پرامید تھی لیکن  ان کے برسراقتدارآنے کے بعدبھی  سناٹا چھا گیا۔  اتنے میں پاک چین اقتصادی راہداری کا معاہدہ ہوا۔ تب چینی  حکومت نے اس  معاہدے کو گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت سے مشروط قرار دیا۔ اس طرح  آئینی حیثیت کا تعین موجودہ  حکومت کی ایک مجبوری بن گئی۔ ہماری صوبائی اسمبلی نے آئینی حیثیت کے لیے اپنی طرف سے مسودہ تیار کرکے وفاق کو بھی ارسال کردیا تھا اور  ہماری سادہ لوح عوام اور نمائندے بھی پر امید بیٹھے تھے اتنے میں استور سے تعلق رکھنے والے جماعت اسلامی کے رہنما مولانا عبدالسمیع نے ایک حقیقت سے پردہ فاش کیا کہ" گلگت بلتستان کو تقسیم کرنے کی وزیر اعلی نے تجویز پیش کردی  ہے" ﴿6﴾ اب یہاں  پر چند  سوالات جنم لیتے ہیں:

کیا ہمارے سیاسی نمائندوں کو اتنا بھی معلوم نہیں تھا کہ یہاں کے وزیر اعلی اتنے بڑے جرم کا ارتکاب کررہے ہیں؟ کیا گلگت بلتستان کو آئینی حیثیت دینے کے حوالے سے جو مسودہ تیار کیا گیا تھا  اس سے وزیر اعلی بے خبر تھے؟  کیا وزیر اعلی نے اپنے پارٹی ممبران کو بھی  اعتماد میں نہیں لیا تھا؟ ہماری سیاسی پالیسی قانون ساز اسمبلی میں بنتی ہے یا کہیں اور؟ کیا ان کو گلگت بلتستان کا وزیر اعلی ہونے کے حوالے سے ہماری نمائندگی میں دشمن کے خلاف ہمارا دفاع کرنا چاہیےتھا یا کشمیری اور بعض مذہبی حلقوں کا  ایجنٹ بن کر  ہمارا فریق ؟ اس وقت جب گلگت بلتستان کی تقدیر کا فیصلہ ہونے جارہا ہے تو ایسے حساس موڑ پر ان کا یہ  بیان دینا " داریل تنگیر میں طالبان چھپے ہوئے ہیں"﴿7﴾اور ان کا یہ کہنا کہ " گلگت بلتستان کے کچھ علاقے متنازعہ نہیں انہیں آئینی حیثیت دینے میں کوئی مسئلہ نہیں ہوگا" ﴿8﴾ یہاں ان کی مراد کیا ہے؟ کیا گلگت بلتستان کے کسی ہمدرد شہری سے ایسا بیان صادر ہوسکتا ہے؟

اب یہاں مزید چند سوالات جنم لیتے ہیں:  کیا  یہ اس کی اپنی فکر اور سوچ ہے یا وفاق اسے اپنے مفاد میں استعمال کرنا چاہتا ہے کیونکہ یہ احتمال بھی دیا جاسکتا ہے کہ شاید حکومت چاہتی ہو کہ صرف چیناور یہاں کی عوام کو ٹرخانے کی خاطر ایک مختصر پیکیج گلگت بلتستان کو دے کر عوامی مخالفت کو روک سکے۔یعنی عوامی توجہ اصل مسئلے سے ہٹاکر اپنا مقصد حاصل کرنا چاہتی ہو۔ یوں عوام بھی خاموش ہوجائیں اور انہیں آئینی حق بھی دینا نہ  پڑے ۔دوسرا حتمال یہ بھی دیا جاسکتا ہے کہ جناب وزیر اعلی پر  سیاسی عہدے سے زیادہ مسلکی تعصب  حاکم ہے لہذا وہ اپنے ہم مذہب دھڑوں کو خوش کرنے کی خاطر گلگت بلتستان کا سودا کر رہے ہیں۔ تیسرا احتمال  یہ بھی ہوسکتا ہے کہ عوامی جذبات اور بیداری کا امتحان لینا ہو تاکہ اسی کے مطابق آگے کے لیے لائحہ عمل طے کرسکیں۔ بنابریں اس حساس مرحلے میں ہمارے علماء، دانشور، سیاسی نمائندے اور عوام سب کو نہایت ہی گہری سوچ کے ساتھ مل کرقدم  آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔

اب اتنےحقائق سامنےآنےکےبعدوزیر اعلی خود سے انکی تائید کریں  یا تکذیب، اس کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہتی۔ کیونکہ ہرصورت میں اتنا توضرورواضح ہوگیاکہ یہ شخص کسی صورت گلگت بلتستان کاوزیراعلی قرارپانے کی اہلیت نہیں رکھتا۔البتہ  کسی کا ایجنٹ تو ضرورہوسکتا ہے۔حقیقت میں  جو بھی ہو ہم حکومت وقت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ فورا  اس متعصب وزیر اعلی کو ہٹاکر کسی ہمدرد اور  قومی  و ملی جذبے سے سرشار شخصیت کو اس کی جگہ مقرر کرے ۔ علاوہ ازیں ہم حکومت وقت کو یہ بھی  آگاہ کرنا چاہتے ہیں کہ  ہمارے صبر کا مزید امتحان نہ لیا جائے ہمارے صبر کا پیمانہ اب لبریز ہو چکا ہے۔ ہم ۶۷ سال غیرآئینی وقت گزار چکے ہیں  اب مزید غیر قانونی رہنا ہمارے لیے کسی صورت ممکن نہیں۔  پھر بھی اگر حکومت وقت ہمیں مکمل آئینی حق کے طور پر مکمل صوبے کی حیثیت نہ دے  تو اگلے مرحلے  میں عوام  ایک جداگانہ ریاست کے لیے قدم بڑھانا شروع کرسکتی ہے۔ تب  اس سیلابی ریلے کو روکنا حکومت  کےبس سے باہر ہوگا ۔ لہذا آئینی حیثیت کے بغیر اب ہمارا زندہ رہنا ایسا ہی ہے جیسے پانی کے بغیر مچھلی کا زندہ رہنا۔ہم امید رکھتے ہیں کہ ایوان اقتدار پر قابض افراد ہماری ان باتوں پر ہمدردانہ غور  و فکرکرکے ہماری آئینی حیثیت کا تعین کریں۔

آج تو کشمیر اسمبلی میں بھی گلگت بلتستان صوبے کے خلاف قرارداد منظور ہوگئی۔ (9)جب بھی ہم کسی اہم موڑ پر پہنچ جاتے ہیں تب کشمیری حکومت ہماری راہ میں رکاوٹ بن جاتی ہے جبکہ ہم نے ان کے اندرونی معاملات میں کبھی مداخلت نہیں کی۔ اگر  آپ ہمیں کشمیر کا حصہ سمجھتے ہیں  تو 73 کے آئین میں اپنا حق لیتے وقت  ہمیں بھی ذرا یاد کرکے وہاں ہمارا نام بھی شامل کرتے۔ہم نے ان کے حقوق کے خلاف نہ اس وقت آواز اٹھائی اور نہ ہی آج اٹھارہے ہیں کیونکہ شروع سے ہی وہ اور ہم   الگ  الگ ہیں۔ ان کی بے جا مخالفتوں پر کوئی اثر مرتب نہیں ہونا چاہیے۔ یہ ہمارے حقوق پر ڈاکہ اور ہمارے خلاف گھناؤنی سازش ہے۔


حوالہ جات:
1: ڈیلی کے ٹو، 19-4-2015
2: روزنامہ آج،4ستمبر2009
3: ویکپیڈیا شمالی علاقہ جات
4: روزنامہ جنگ، 11ستمبر2009
5: ویکپیڈیا شمالی علاقہ جات، ڈیلی کے ٹو، 19۔4۔2015
6: ڈیلی کے ٹو، ۱۱جنوری۔2016
7:ڈیلی کے ٹو ۱۲ جنوری۔2016
8:ایضا
9:ڈیلی کے ٹو، 13جنوری2016

 

 

تحریر۔۔۔۔سید محمد علی شاہ الحسینی



اپنی رائے دیں



مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree