وحدت نیوز (تہران) مجلس وحدت مسلمین شعبہ تہران اور اردو اسپیکنگ اسٹوڈنٹس یونین تہران کے اشتراک سے قدس سیمینار باعنوان (امام خمینی رہ احیاءگر مسئلہ قدس) کا انعقاد اور دعوت افطار کا اہتمام کیا گیا،سیمینار سے مجمع جھانی اہلبیت علیہم السلام کے سربراہ آیت اللہ محمد حسن اختری اور مشہور دانشور و مفکر ڈاکٹر رحیم پور ازغدی نے خطاب کیا. سیمینارکے آغاز پر اپنی تعارفی گفتگو میں مجلس وحدت مسلمین شعبہ تہران اور اردو اسپیکنگ اسٹوڈنٹس یونین تہران کے مسوؤل سید ابن حسن نے سمینار کے اغراض و مقاصد بیان کرتے ہوئے کہا کہ امام خمینی علیہ الرحمہ نے اس وقت مسلہ فلسطین پر آواز اٹھائی جب تمام عرب ممالک بلکہ امت مسلمہ غاصب اسرائیل کے ساتھ سازباز کی ٹھان چکی تھی. انہوں نے کہا صیہونیوں کے عشروں پر محیط ظلم و ستم اور فلسطینیوں کی سرزمینوں پر صیہونیوں کے قبضے کے علاوہ فلسطینیوں کی مزاحمتی تحریک نے اس مسئلے کو امت اسلامیہ کے بقیہ مسائل سے ممتاز کر دیا ہے۔
سمینار کے پہلے مقرر معروف دانشور اور مفکر ڈاکٹر رحیم پور ازغدی نے کہا امت اسلامیہ کے قلب میں اس سرطانی غدے کی تشکیل کے پیچھے دشمن کی عرصہ دراز کی منصوبہ بندی کارفرما تھی. انہوں نے کہا اس غاصب ریاست کی تشکیل سے دشمن عالم اسلام کے اس اہم اور معدنیات سے مالا مال خطے پر تسلط چاہتا تھا اور اس کے لیے دشمن نے تمام عرب ممالک و سربراہوں کو تقریبا رضامند کر لیا تھا کہ وہ اسرائیل کو تسلیم کرلیں لیکن حضرت امام خمینی علیہ الرحمہ نے مسئلہ فلسطین کو علاقائی مسئلے سے نکال کر ایک عالمی مسلہ بنا دیا جس سے ان کے تمام منصوبوں پر پانی پھر گیا. سمینار کے آخری مقرر آیت اللہ محمد حسن اختری نے فرمایا امام خمینی علیہ الرحمہ نہ فقط انقلاب اسلامی کے بعد بلکہ اس سے کہیں پہلے اس مسئلے کی اہمیت کی طرف متوجہ تھے اور انہوں نے نجف اشرف میں قیام کے دوران امت اسلامیہ کو اسرائیل کے خطرے سے مطلع کردیا تھا.
انہوں نے کہا دشمن کی منصوبہ بندی یہ تھی کہ مسئلہ فلسطین کو عرب اسرائیل مسئلہ بنا کر بقیہ عالم اسلام کو اس مسئلے سے لاتعلق کردیا جائے لیکن امام خمینی علیہ الرحمہ نے اپنے اقدامات سے اس مسئلے کو ایک عالمی مسئلہ بنا دیا. انہوں نے کہا انقلاب کے بعد تہران میں موجود اسرائیلی سفارت خانے کی عمارت کو فلسطینی حکومت کو دینا اور فلسطینی سفیر کو یہاں قبول کرنا گویا فلسطین کے اندر ایک اسلامی حکومت کو رسمیت دینے کے مترادف تھا اور یوں اسلامی دنیا کے اکثر ممالک امام کے اس اقدام کے بعد فلسطینی حکومت کے لیے ایک ریاستی حیثیت کے قائل ہو گئے. آیت اللہ اختری نے کہا جمعہ الوداع کو یوم القدس قرار دینا گویا اس مسلے کو امت اسلامیہ کے مقدسات و وظائف سے جوڑ دینا تھا کہ جو امام خمینی علیہ الرحمہ انقلاب کی کامیابی کے فورا بعد اعلان کیا. انہوں نے کہا اسرائیل کی ثبات کے لیے عرب دنیا میں سے اس وقت کی چار عرب طاقتوں کی تایید کی ضرورت تھی, ان کے بقول انور سادات اور ملک حسین نے یہ تایید کردی تھی. فلسطین کے وجود کے خاتمے کے لیے اب صرف شام اور لبنان کی تایید چاہیے تھی, انہوں نے کہا دشمن نے اس امر کے لیے ہر طرح کی کوشش کی لیکن سب کے باوجود ایران کے شام اور لبنان میں اثرورسوخ کی وجہ سے شام اور لبنان نے اس منصوبے کی تایید نہ کی لذا صیہونیوں کا یہ منصوبہ بھی ناکام ہوا۔
انہوں نے کہا اسرائیل کے شکست ناپذیرہونے کے افسانے کو امام خمینی کے فرزندوں نے امام کے تفکر سے فیض لیتے ہوئے امام خمینی علیہ الرحمہ کی عملی مدد سے لبنان میں مزاحمتی تحریک کی بنیاد رکھ کر توڑ دیا. ان کے بقول امام کے حکم اور تایید اور حمایت سے فلسطین میں بھی مزاحمتی تحریکیں چلیں جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ناقابل تسخیر تصور کیا جانے والا اسرائیل اور صرف چند دن میں کئی عرب ممالک کے علاقوں پر قابض ہوجانے والا اسرائیل غزہ کو حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے اور یہاں تک کہ گریٹر اسرائیل کا نعرہ لگانے والا اسرائیل اب اپنے گرد باڑ لگانے پر مجبور ہے.سمینار میں تہران کی جامعات کے اردو اسپیکنگ طلاب کے علاوہ تہران میں مقیم اردو زبان کمیونٹی کے احباب نے شرکت کی. چند ایک افریقی, افغانی اور تیونسی طلاب جامعات نیز سمینار میں شریک ہوئے۔