The Latest

وحدت نیوز(سکردو) مجلس وحدت مسلمین پاکستان گلگت  بلتستان کے سیکرٹری جنرل علامہ آغا علی رضوی نے ایم ڈبلیو ایم اور اسلامی تحریک کے مرکزی رہنماوں کے گلگت داخلے پر پابندی عائد کرنے پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ گلگت انتظامیہ مکمل طور پر جانبدار ہو چکی ہے اور دانستہ طور پر خطے کے امن کو خراب کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ گلگت انتظامیہ کی طرف سے پرامن علماء کے داخلے پر عائد پابندی کو یکسر مستر کرتے ہیں اور اسے بدترین ریاستی جبر سے تعبیر کرتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ گلگت کی انتظامیہ اور سکیورٹی فراہم کرنے والے ادارے اس خام خیالی میں نہ رہیں کہ جی بی میں امن انکی وجہ سے قائم ہیں ،اگر ایسا ہے تو پورے پاکستان میں امن قائم کرنے میں سکیورٹی ادارے کیوں ناکام ہیں۔ یہاں کا امن یہاں کے پرامن عوام اور علماء کی وجہ سے قائم ہے۔ آج بدقسمتی سے گلگت  بلتستان میں ایسے نااہل اور غیرمنطقی افسران سکیورٹی اداروں میں موجود ہیں جنکو سکیورٹی کے اصولوں کی الف با سے بھی واقفیت نہیں اور یہی افسران سیاسی جماعتوں کے ہاتھوں کھلونا بنا ہوا ہے۔ جو شخصیات پورے پاکستان میں دہشتگردی کے خلاف خط مقدم پر سرگرم عمل ہیں ان پر پابندی دہشتگردی کو خوش کرنے کے عمل کے علاوہ کیا ہوسکتا ہے۔ ہم واضح کردینا چاہتے ہیں کہ پرامن علماء کی گلگت آمد کو دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکتی۔ جی بی کسی کی جاگیر ہے اور نہ کسی کو حق مہر میں ملا ہے۔ یہ خطہ یہاں کے عوام کا گھر ہے یہاں کس نے آنا ہے اور کس نے نہیں آنا وہ یہاں پر زبردستی افسری کرنے والے طے نہیں کریں گے بلکہ یہاں کے عوام کو علماء طے کریں گے۔ آغا علی رضوی نے کہا کہ محرم الحرام میں دیامر کی سرحد سے لے کر سیاچن کی سرحد تک ہر مسلک کے افراد اور ہر شہری احترام کرتے ہیں اور سب امام عالی مقام کے عقیدت مند ہے انتظامیہ یہاں کے کسی بھی طبقے کو مشکوک کرکے امن کو خراب کرنے کی کوشش نہ کرے۔انہوں نے مزید کہا کہ گلگت بلتستان میں داخلے پر پابندی عائد کرنی ہے یہاں پر آنے والی دہشتگرد جماعتوں کے سہولت کاروں پر، امریکہ و اسرائیل کے ایجنٹوں ، یہاں کے وسائل کو لوٹنے والوں پر، پاکستان کو عدم استحکام کی طرف دھکیلنے والوں پر اور ملکی خرانے کو اپنے خاندان پر لوٹنے والوں پر پابندی عائد کرے۔ گلگت انتظامیہ ہر معاملے میں منفی کردار ادا کر رہا ہے اور حفیظ کے اشارے پر ناچتی ہے جو کہ افسوسناک ہے۔ جی بی دہشتگردوں کو دعوت دینے کی باتیں کرنے والوں کے اشارے پر چلنے والی اس متعصب اور ظالم انتظامیہ کے خلاف بھرپور احتجاج کیا جائے گا۔ سکیورٹی اداروں سے مخاطب ہوتے انہوں نے کہا کہ ملکی نظریاتی اساس کے مدافع شخصیات کے داخلے پر پابندی عائد کرنے میں سکیورٹی ادارے بھی شامل ہیں تو انکی بصیرت پر فاتحہ پڑھ لینا ضروری ہے۔ آج بھی اگر سکیورٹی اداروں بلخصوص حساس اداروں کو دہشتگردوں اور ملک کے مدافع کے بارے میں پہچان نہ ہو تو یہ عمل واضح ہوتا ہے کہ سکیورٹی اداروں میں بھی کس طرح کے افراد بیٹھے ہیں جو کہ افسوسناک عمل ہے۔

وحدت نیوز(گلگت) محرم الحرام کے دوران حکومت جان بوجھ کر خوف وہراس پیدا کررہی ہے حالانکہ تمام مسلمان نواسہ رسول کا ذکر اپنے مخصوص انداز میں بجا لاتے ہیں اور امام عالی مقام کی بے مثال قربانی کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ایک عرصے سے حکومت محرم کے دنوں میں ایسا ماحول پیدا کررہی ہے جیسا کہ ملک دشمن افواج چڑھائی کرنیوالی ہے۔

مجلس وحدت مسلمین گلگت بلتستان کے ترجمان محمد الیاس صدیقی نے کہا ہے کہ تمام مسلمان نواسہ رسول کی محبت کو ایمان کا حصہ سمجھتے ہیں اور ایام عزا کے دنوں میں ہرایک اپنے مخصوص انداز میں نواسہ رسول کو پرسہ دیتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ یہ حکمرانوںکی نااہلی ہے کہ وہ ان ایام کے دوران ہونے والے اجتماعات سے فائدہ نہیں اٹھاتی اور ایسا خوفناک ماحول پیدا کرتی ہے کہ دیکھنے والے کو ایسا محسوس ہورہا ہے کہ ابھی کچھ ہونے والا ہے۔حکومت عقل سے کام لے تو عزاداری کے ان اجتماعات کے ذریعے ملک کو دہشت گردی کی لعنت سے نجات دلاسکتی ہے۔محرم ظالم پر مظلوم کی فتح کا مہینہ ہے ،ایثار و فداکاری اور امن و آشتی کا مہینہ ہے اور علمائے کرام اور ذاکرین مجالس عزا میں لوگوں کو امن و آشتی کی طرف دعوت دیتے ہیں۔ظلم سے نفرت اور مظلوم سے ہمدردی کی نصیحت کی جاتی ہے ۔حق تو یہ ہے کہ حکومت خود ایسے اجتماعات کا انتظام کرتی جس میں تمام مکاتب فکر کے علماء و دانشور حضرات کودعوت دیکر امن و محبت کے پیغام کو عام کرکے سیکورٹی پر اٹھنے والے کروڑوں اخراجات کو بچالیتے لیکن بدقسمتی سے ملک پر نااہل حکمرانوں کا قبضہ ہے عوام کو سہولت پہنچانے سے زیادہ عوام کو تکلیف پہنچانے کی فکر ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اشتعال انگیز تقاریرکرنے والوں اور شرپسندی اور مسلکی اختلافات کو ہوادیکر امن خراب کرنے والوں کے خلاف فوری کاروائی کرکے سخت سے سخت سزا دلوائی جائے تو محرم الحرام کا مہینہ حکمرانوں کے اقتدار کو دوام بخشنے موجب ہوگا۔انہوں نے کہا عزاداری پر بیجا قسم کی پابندیاں عائد کرکے حکومت عوام کو مشتعل کرنے کی بجائے عزاداری کے راستے میں حائل رکاوٹوں کو دور کرے۔

وحدت نیوز(سکردو) مجلس وحدت مسلمین گلگت بلتستان کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہشیخ علی احمد نوری  نے کہا ہے کہ عزاداری ہماری شہہ رگ حیات ہے اسے محدود کرنے کی سازش کرنے والوں کا انجام بھی یزید کی طرح ہوگا۔ انہوں نے کہا ہے کہ گلگت میں دہشتگردوں کے ساتھ علمائے کرام اور اسمبلی میں موجود پارٹیز کے مرکزی رہنمائوں کے نام شامل کر کے ان کے داخلے پر پابندی لگانا حفیظ سرکار کی دہشتگردانہ سوچ کا نتیجہ ہے ۔ حفیظ سرکار کبھی یوم حسین ؑ پر پابندی لگا کر اور کبھی علمائے کرام پر پابندی لگا کردہشگردوں کے ایجنڈے پر کاربند ہے ۔

انہوں نے مزید کہا کہ  دنیا بھر کی طرح گلگت  بلتستان میں بھی عزاداری سید شہداء کی مجالس و محافل کا انعقاد مذہبی عقیدت و احترام کے ساتھ ہوگا اور یہ مجلسیں جہاں وقت کے یزیدوں کے خلاف اعلان بغاوت ہونگیں وہاں یہ تزکیہ نفس اور اتحاد بین المسلمین کا عظیم ذریعہ ہونگی۔ عزاداری کے سلسلے میں کسی قسم کی پابندی برداشت نہیں کی جائے گی۔ محرم تلوار پر خون کی فتح اور ظالم قوتوں کی سرنگونی کا مہینہ ہے اس مہینے میں امام عالی مقام کے قیام کے اہداف کے مقاصد کو دنیا تک پہنچانے کے لیے تمام تر ذرائع کو استعمال میں لایا جائے گا۔ اگر اس سلسلے میں کسی قسم کی رکاوٹ کی کوشش کی گئی تو تمام تر ذمہ داری انتظامیہ پر عائد ہوگی۔

 انہوں نے کہا کہ علماء اور خطباء  فلسفہ قیام امام حسین علیہ السلام، تزکیہ نفس، اتحاد بین المسلمین اور وقت کے ظالموں کے خلاف مجالس میں ذکر کریں اوراہداف قیام امام حسین کوعوام تک پہنچانے کے لیے کوشش کریں۔انہوں نے کہا کہ انتظامیہ محرم الحرام میں اپنے فرائض کی انجام دہی کے لیے آمادہ رہے ۔

ذبح عظیم

اللہ اللہ باء بسم اللہ پدر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔معنی ذبح عظیم آمد پسر
وحدت نیوز(آرٹیکل) یوں تو محرم ہر سال آتا ہے مگر پچھلے سال کی نسبت نئے درس اور عبرت لے کر آتا ہے کہ اللہ سے محبت کرنے والے اللہ کی محبت میں سب کچھ نچھاور کر دیتے ہیں اگرچہ وطن ہی کیوں نہ چھوڑنا پڑے ،عزیزوں کو ترک کرنا ہی کیوں نہ پڑے اور اولاد کو قربان کرنا ہی کیوں نہ پڑے۔ محرم ہمیں یہ سبق سکھاتا ہے کہ ایمان و عشق کا مرحلہ امتحان پیش آئے تو مرد مومن اپنی مستورات اور اولادکو راہ خدا میں دینے سے دریغ نہیں کرتے۔وہ مادی مفاد کو نہیں دیکھتے بلکہ اس چیز کی فکر میں رہتے ہیں کہ کن کاموں سے رضائے خداوندی حاصل ہوتی ہے،چونکہ عشق کا جذبہ اور اس کا اظہار مادی میزان سے کوئی تعلق نہیں رکھتا۔

محرم زندہ دل انسانوں کو یہ پیغام بھی دیتا ہے کہ واقعہ کربلا صرف حسین بن علی علیہ السلام اور یزید کے درمیان چھڑ جانے والی جنگ نہیں بلکہ حق و باطل کے درمیان لڑی جانے والی جنگ ہے اور حق نے اپنا سر کٹوا کر باطل کو ہمیشہ کیلئے سر نگوں کر دیا ہے ۔ امام حسین علیہ السلام اپنے مختصر سے قافلہ کےساتھ کربلا پہنچے اوروہاں امام عالی مقام نے  کربلا کے تپتےہوئے  صحرا میں  انسانوں کو جینےاور مرنے کا سلیقہ سکھا دیا۔
جی کے مرنا تو سب کو آتا ہے
مر کے جینا سکھا دیا تو نے

بنی امیہ کے مردہ دل سیاستدان اس بات کے خیال میں تھے کہ حسین بن علی علیہ السلام کے بعد کام تمام ہو جائے گا ،لیکن زمانے کی گردش نے ان افراد کویہ بتا دیا کہ جس حسین علیہ السلام کو تم شہید کر چکے ہو وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے زندہ ہیں۔

قتل حسین اصل میں مرگ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد

کربلا آج بھی یہی پیغام دے رہی ہے کہ حق پر ڈٹ کر باطل کا مقابلہ کرنا چاہیے اگرچہ اپنی جان اور اولاد کو قربان ہی کیوں نہ کرنا پڑے ۔ اور حسین بن علی علیہ السلام نے 61ھ میں ذبیح اللہ کی یاد تازہ کرائی ،لیکن اسماعیل علیہ السلام کے ذبح ہونے اور کربلا میں ذبح ہونے والوں میں آسمان و زمین کا فرق نظرآتا ہے ،وہاں صرف ابراہیم خلیل اللہ نے خواب دیکھا لیکن  یہاں حسین بن علی علیہ السلام نے اپنی آنکھوں سے بیٹوں کے سر کٹتے ہوئے دیکھے ،ابرہیم خلیل کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہوئی تھی لیکن کربلا میں حسین بن علی علیہ السلام کی آنکھوں کے سامنے بیٹوں کو شھید کیا گیا،وہاں ایک اسماعیل تھا لیکن یہاں کئی اسماعیل تھے جنہوں نے حسین علیہ السلام کے سامنے  اپنی جانیں فدا کر دیں ۔ امام علیہ السلام نے اسلام پر اپنے آپ کو قربان کر کے اور اپنی جان کو اسلام پر نچھاور کر کے اس آیت ( و فدیناہ بذبح عظیم) کا
مصداق بنا دیا ۔
انسان کو بیدار تو ہو لینے  دو
ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسینؑ
کربلا پاکیزہ رشتوں کی امین ہے، یہاں اسلام نے رشتوں کو جو عظمت عطا کی ہے، وہ اپنے عروج پر نظر آتی ہے۔کربلا ہمیشہ زندہ رہنے کے لئے شہید ہونے کا نام ہے، کربلا انسانیت کی عظیم درسگاہ کا نام ہے، کربلا دائمی بقا کے لئے حکم مولا پر فنا ہونے کا نام ہے، کربلا خاندان پیغمبر (ص) کی عظمتوں کی امین ہے، کربلا عاشقوں کی منزل ہے، کربلا اسلام حقیقی کی ابدی بقا کی مسلسل تحریک ہے، کربلا عقیدتوں کا مرکز ہے، کربلا اہل محبت کا مرکز ہے، کربلا وہ چشمۂ فیض ہے جس سے ہر انسان فیضیاب ہوتا ہے۔ کربلا ایک ایسی آزمائش گاہ تھی جہاں پر مسلمانوں کے ایمان، دینی پابندی و حق پرستی کے دعووں کو پرکھا جا رہا تھا۔ امام حسین علیہ السلام نے خود فرمایا : {الناس عبید الدنیا و الدین لعق علی السنتہم یحوطونہ مادرت معایشہم فاذا محصوا بالبلاء قل الدیانون}لوگ دنیا پرست ہیں جب آزمائش کی جاتی ہے تو دیندار کم نکلتے ہیں۔ حقیقی مسلمان وہ ہے جو آزمائش کی گھڑی میں ثابت قدم رہے اور دنیوی مفادات کے لیے اپنی آخرت کو خراب نہ کر ے۔

 آج واقعہ کربلا کو وقوع پذیر ہوئے چودہ سو سال سے  بھی زیادہ  کا عرصہ ہوا ہے لیکن عاشورا کادن ابھی ڈحلا نہیں۔شام غریباں کی بے مہر تاریکیاں ابھی ختم نہیں ہوئیں۔سر امام حسین علیہ السلام ابھی نوک سناں سے اترانہیں۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مظلوم اور ستائی ہوئی بیٹیاں ،بےمقنع و چادر، رسن بستہ ابھی تک سکھ کا چین نہیں لے سکیں۔امام حسین علیہ السلام آج بھی دشت کربلا میں تنہا ھل من ناصرینصرنا کی صدادے رہے ہیں۔آج بھی اموی شیاطین اوریزیدی افکار  رکھنے والے  چراغ مصطفوی کی لو کو گل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔آج بھی شرور بو لہبی سے امام مظلوم کے اعداء پہلے سے زیادہ فعال ہو کر ،مکر و فریب کے جدید اسلحوں اور نئی روشنی اور روشن فکری کے چکا چوند قمقموں سے دنیا کو ظلمت کدہ بنانے کی تگ و دو کر رہے ہیں ۔آج بھی یزیدی فکر دنیا میں پروان چڑھ رہی ہے اور یہ حسینیت کا تقاضا ہے کہ حسینی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے لیے اٹھ کھڑے ہوں اور اچھائیوں کو رائج اور برائیوں کو ختم کر کے معاشرے کو ایک حقیقی اصلاحی معاشرہ بنا دیں کہ جہاں کوئی طاقتور کسی کمزور پر ظلم نہ کر سکے جہاں برائی کو اچھائی پر ترجیح نہ دی جائے۔ آج شیطان بزرگ امریکہ اور اس کے چیلے داعش ،القاعدہ اور طالبان اسلام ناب کے حقیقی چہرے کو مسخ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ شیطان  بزرگ امریکہ، اسرائیل ،سعودی عرب ا ور  ان کے دستر خوان پر  پلنے والے  یزیدی افکار رکھنے والےعناصر کو علم ہونا چائیے کہ  شیعیان حید کرار اہل بیت عصمت و طہارت سے محبت کرتےرہیں گے اور ان  کا غم مناتے رہیں  گے اور قیامت تک یہ سلسلہ  بڑی آب و تاب  کے ساتھ جاری و ساری رہے گا۔
  باطل کے سامنے جو جھکائے  نہ  اپنا  سر
سمجھو کہ اس کے ذہن کا  مالک حسینؑ ہے


تحریر: محمد لطیف مطہری کچوروی

وحدت نیوز(اسلام آباد) محرم الحرام کے آغاز کے ساتھ ہی حکومت کی جانب سے عزاداری سیدالشہداء کو محدود اور متنازعہ بنانے کی کوشش کی سخت مذمت کرتے ہیں۔گلگت بلتستان اور ہری پورکے حدود میں مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے سربراہ علامہ ناصر عباس جعفری ،علامہ ساجد نقوی اور علامہ امین شہیدی و دیگر علمائے کرام کے داخلے پر پابندی معنی خیز ہے۔حکومت کی جانب سے یہ اقدام بیلنس پالیسی کے تحت ہے جس کی بھرپور مذمت کرتے ہیں۔

 مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ڈپٹی سیکریٹری جنرل علامہ سید احمد اقبال رضوی نے کہا ہے کہ ایک طرف حکومت کالعدم تنظیم کے سربراہ کو حکومتی پروٹوکول پر دیامر میں جلسہ کرنے کی اجازت دیتی ہے اور دوسری طرف ان علمائے کرام کو جو پورے ملک میں سے فرقہ پرستی اور انتشار کی لعنت کوو ختم کرنے کیلئے ہمہ وقت برسرپیکار رہتے ہیں ان پر محرم الحرام میں گلگت داخلے پر پابندی عائد کی ہے جو کہ حکومت کے دہرے معیارات کی واضح عکاسی کرتی ہیں۔

علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کی گلگت اور ہری پور داخلے پر پابندی کا فیصلہ غیر دانشمندانہ اقدام ہے ،اس قسم کے اقدامات کے ذریعے عزاداری کو محدود کرنے کا حکومتی خواب کسی صورت شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا۔علامہ راجہ ناصرعباس سمیت جن علمائے کرام پر گلگت بلتستان کے حدود میں داخلے پر پابندی عائد کی گئی ہے وہ بین الاقوامی شہرت کے حامل شخصیات ہیں اور تمام اسلامی مکاتب فکر کے ہاں محترم گردانی جانیوالی ان شخصیات پر پابندی عائد کرنا عزاداری کو محدود کرنے کی سازش ہے اور حکومت کے ایسے اقدامات سے فرقہ پرست عناصر کی حوصلہ افزائی ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ حکومت کی یہ ٹیکٹیکل سٹریٹجی ناکام ثابت ہوگی اور جس مقصد کیلئے صوبائی حکومت ایسے اوچھے ہتھکنڈوں پر اترآئی ہے اس کے نتائج حکومت کے حق میں ہرگز نہیں ہونگے۔انہوں نے کہا کہ علامہ ناصر عباس نے پورے ملک میں تمام مسالک کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرکے دہشت گردوں اور ان کے آلہ کاروں کیلئے پیغام دے رہے ہیں کہ ہم وطن عزیز کو دہشت گردوں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑیں گے اور عملی طور پر دہشت گردی کے خلاف برسرپیکار ہیں اور ایک ایسے بابصیرت عالم کے گلگت بلتستان داخلے پر پابندی عائد کرنا انتہائی مضحکہ خیز اور احمقانہ اقدام ہے۔

کربلا ، نادانی و جہالت کے خلاف جنگ

وحدت نیوز(آرٹیکل) نادانی اور جہالت کو ہر عقلمند انسان ناپسند کرتا ہے۔ جہالت کی شدّت تعصّب پر منحصر ہوتی ہے، کوئی بھی شخص جتنا زیادہ متعصب اور ہٹ دھرم ہوتا ہے، اس کی جہالت بھی اتنی ہی وحشتناک اور ہیبت ناک ہوتی ہے۔ میدانِ عمل میں جاہل دو حالتوں سے خالی نہیں ہوتا۔ یا تو جاہل، عالم سے ٹکراتا ہے اور یا پھر جاہل، جاہل سے پنجہ ازمائی کرتا ہے۔

عقلِ سلیم کا یہ آخری فیصلہ ہے کہ میدانِ جنگ میں جاہل، جاہل کے ساتھ تو ٹکرا سکتا ہے، لیکن کبھی بھی عالمِ حقیقی، عالمِِ حقیقی کے ساتھ نہیں لڑ سکتا۔[1] اگر کسی کو میدانِ جنگ میں دونوں طرف حق ہی صف آرا نظر آرہا ہو تو ایسا شخص یقیناً حق کی شناخت کھوچکا ہے اور اسے چاہیئے کہ وہ دوبارہ حق کو پہچانے، تاکہ میدانِ جنگ میں حقیقی اہلِ حق اور مصنوعی اہلِ حق کے درمیان فرق کرسکے۔[2]

میدانِ جنگ میں کودنے سے پہلے انسان کے لئے حق اور باطل کی صحیح شناخت ضروری ہے۔ یہاں پر یہ بھی بتاتے چلیں کہ جتنی ضروری حق و باطل کی شناخت ہے، اتنا ہی ضروری حق اور باطل کے درمیان فرق رکھنا بھی ہے۔ [3] اگر کوئی شخص حق کو پہچانے اور حق کو باطل سے الگ نہ کرے تو گویا اس نے حق کو پہچانا ہی نہیں۔

انسان کو حق و باطل کی شناخت کے لئے غور و فکر اور حق کو باطل سے جدا کرنے کے لئے جرات و ہمّت کی ضرورت پڑتی ہے۔ اللہ کے نزدیک بھی بدترین لوگ وہی ہیں جو غور و فکر سے کام نہیں لیتے۔[4]

اگر انسان غور و فکر سے کام نہ لے تو وہ حق و باطل کے معیارات اپنے خیالات اور تصوّرات کے مطابق طے کر لیتا ہے اور پھر انہی من گھڑت تصوّرات کو اپنا عقیدہ بنا لیتا ہے۔ اس وقت دنیا میں جتنے بھی غلط عقائد اور تصوّرات و توہمّات کا وجود ہے، ان کا علاج صرف اور صرف غور و فکر میں پنہاں ہے جب مسلمان غور و فکر کے راستے پر چل پڑے تو اسے معلوم ہونا چاہیے کہ غور و فکر سے اسے حق و باطل کی شناخت تو حاصل ہوسکتی ہے، لیکن حق کو باطل سے جدا کرنے کے لئے تقویٰ ضروری ہے۔[5]

یہ تقویٰ ہی ہے جو انسان کو حق کی نصرت اور باطل کی مخالفت پر اکساتا ہے۔ تقویٰ اگر غور و فکر کے ہمراہ ہو تو بصیرت کہلاتا ہے اور اگر غور و فکر سے جدا ہوجائے تو یہی تقویٰ حق کے لئے مضر اور باطل کے لئے نفع بخش بن جاتا ہے اور ایسا متقی بظاہر متقی نظر آتا ہے لیکن حقیقی معنوں میں متقی نہیں ہوتا۔

حقیقی تقویٰ وہی ہوتا ہے جو بصیرت کے ہمراہ ہو اور حقیقی متّقی وہی ہوتا ہے جو بصیر ہو۔

لوگ بظاہرخواہ کتنے ہی متّقی کیوں نہ ہوں، اگر وہ بغیر غور و فکر کے میدان میں اتر جائیں تو وہ فیصلہ کن مراحل میں درست فیصلے نہیں کر پاتے۔ جس کا سارا نقصان حق اور اہلِ حق کو پہنچتا ہے۔

 ایسے نام نہادمتّقی جو حق کے مقابلے میں کھڑے ہو جاتے ہیں، ان کی روشن مثالوں میں سے خوارج ہیں۔ حضرت امام علیؑ کے زمانے میں دنیائے اسلام کو خوارج کی شکل میں سب سے بڑی مشکل درپیش تھی۔ خوارج کی تاریخ کا تجزیہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ خوارج بظاہرتقویٰ اور ناسمجھی سے مرکّب تھے۔ یہاں ناسمجھی سے ہماری مراد صرف نادانی اور جہالت نہیں بلکہ کسی کے سمجھانے کے باوجود بھی حقائق کو نہ سمجھنا ہے۔

 پیغمبرِ اسلامﷺ کے بعد خوارج ایسے دور کی پیداوار تھے کہ جس میں مسلمانوں کی توجہ تعلیم و تربیّت کے بجائے لڑائی اور کشور کشائی پر مرکوز تھی۔[6] اس زمانے میں تعلیم و تربیّت کے بغیر فعالیت نے خوارج کی صورت میں نادان اور ہٹ دھرم نام نہاد متقّی حضرات کو جنم دیا تھا۔[7]

خوارج ایسے نام نہاد متّقی اور ناسمجھ تھے کہ انہیں اپنے زمانے کے امام کی بات بھی سمجھ میں نہیں آتی تھی۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ جب  آخری زمانے میں حضرت امام مہدی ؑ بھی ظہور و قیام کریں گے تو  اس وقت بھی بہت سارے نام نہاد متّقی، فعّال اور ناسمجھ لوگ ان کے خلاف کھڑے ہوجائیں گے۔

خوارج بظاہر ایسی خصوصیات کے حامل تھے کہ اگر ہمارے جیسے لوگ انہیں دیکھ لیتے تو کہتے کہ چلو ٹھیک ہے، دینی تعلیم و تربیت میں کمزور ہیں یہ تو کوئی بڑی بات نہیں، لیکن یہ بے چارے فعالیّت تو بہت کرتے ہیں اور بظاہرمتقی بھی بہت زیادہ ہیں۔ لیکن ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ امام علیؑ نے انہی فعاّل لوگوں کو بدترین لوگ قرار دیا ہے۔

 
خوارج کی چیدہ چیدہ خصوصیات ملاحظہ فرمائیں:

1۔ منہ پھٹ  اور بد تمیزتھے

خوارج کی ایک اہم اور نمایاں خصوصیت یہ تھی کہ وہ منہ پھٹ  اور بد تمیزتھے اور دوسروں کو ظالم، کافر وغیرہ کہتے پھرتے تھے۔

2۔ مردِ میدان تھے

خوارج کی دوسری صفت یہ تھی کہ جنگ و جدال سے ڈرتے یا گھبراتے نہیں تھے بلکہ اس پر فخر کرتے تھے کہ ہم بہت جھگڑالو ہیں۔

3۔ بہترین عبادت گزار تھے

خوارج کی تیسری اور نمایاں خوبی یہ تھی کہ بہترین قاری قرآن اور ہر وقت نماز و روزے میں رہنے والے لوگ تھے۔

4۔ جانثار تھے

خوارج کی چوتھی نمایاں صفت یہ تھی کہ اپنے عقیدے پر جان قربان کر دیتے تھے۔

5۔ متعصب تھے

خوارج کی پانچویں نمایاں بات یہ تھی کہ اپنے عقیدے کا تحفظ اور دفاع عقل و دلیل کے بجائے تعصب کی بنا پر کرتے تھے۔

6۔ تعلیم و تربیّت میں عقب ماندہ

خوارج کی چھٹی صفت یہ تھی کہ تعلیم و تربیّت میں عقب ماندہ اور پسماندہ تھے۔

حضرت امام علیؑ کے زمانے میں خوارج نہ صرف یہ کہ خود جہانِ اسلام کے لئے بہت بڑی مشکل تھے بلکہ بہت زیادہ مشکلات کو جنم بھی دیتے تھے۔ خوارج دنیائے اسلام میں جس سب سے بڑی مشکل کے باعث بنے وہ یہ ہے کہ لوگ بغیر دینی تعلیم کے دینی فعالیت کرکے گمراہ ہونا شروع ہوگئے۔

 یعنی خوارج نے دنیائے اسلام میں اس طرزِ عمل کی بنیاد ڈالی کہ دین کے صحیح ادراک اور اسلام کی درست سوجھ بوجھ کے بغیر دین کے نام پر فعالیّت کی جائے۔ خوارج کے اس غلط طرزِ تفکّر کا خمیازہ آج بھی ہم مختلف بدعات و رسومات اور طالبان ،القاعدہ اور داعش کی صورت میں بھگت رہے ہیں۔

 دینِ اسلام کی تعلیم و تربیت کے بغیر دینِ اسلام کی خاطر میدان میں نکلنے کا یہ نتیجہ ہے کہ میدانِ کربلا میں لشکرِ یزید کا سپاہ سالار عمر ابن سعد یہ آواز دے رہا تھا کہ اے لشکرِ خدا سوار ہوجاو میں تمہیں جنّت کی خوشخبری دیتا ہوں۔[8][9]

یہی طرزِ تفکر جو خوارج کا تھا کہ وہ جنّت کے حصول کے لئے خلیفہ برحق اور امام حق حضرت امام علیؑ کے قتل کی خاطر نکلے تھے، اسی فکر اور عقیدے کے لوگ میدانِ کربلا میں فرزندِ رسولﷺ اور آل رسولﷺ کے قتل پر نکلے ہوئے تھے اور وہ 61 ھجری میں آلِ رسولﷺ کو شہید کرکے جنّت حاصل کرنا چاہتے تھے۔

بعد ازاں یہی تفکر، سوچ  اور عقیدہ وقت کے ساتھ ساتھ نسل در نسل منتقل ہوتا رہا اور آج عصرِ حاضر کے خوارج پوری امّت رسولﷺ کو قتل کرکے جنّت میں جانا چاہتے ہیں۔

تاریخ اسلام میں جس طرح خوارج یعنی دین کی صحیح سوجھ بوجھ رکھے بغیر دینی فعالیّت کرنے والوں نے دینِ اسلام کو شدید نقصان پہنچایا ہے، اسی طرح معرکہ کربلا نے بھی خوارج کے طرزِ تفکر پر کاری ضرب لگائی ہے۔ شہدائے کربلا نے اپنے سرخ خون سے خوارج کی فعالیّت پر ایسا خطِ بطلان کھینچا ہے کہ آج بھی اگر کوئی شخص غیر جانبدارانہ طور پر تاریخ ِ کربلا کی ورق گردانی کرتا ہے تو خوارج کے تفکّر کو رد کر دیتا ہے۔

غور و فکر اور تحقیق کرنے والا انسان تاریخ کربلا کے مطالعے سے اس نتیجے تک پہنچ جاتا ہے کہ خداوندِ عالم کو صرف نیک اور متقی اور فعال مسلمان کی ضرورت نہیں ہے بلکہ خداوندِ عالم کو ایک سمجھدار، عاقل، دانا، عالم، متقی اور فعال مسلمان کی ضرورت ہے۔

 ماہَ محرّم الحرام میں جہاں ہمیں بہت زیادہ دینی فعالیّت انجام دینی ہے، وہیں ہمیں دین کو صحیح سمجھنے کی بھی کوشش کرنی ہے۔ اگر ہم بھی دین کو صحیح سمجھے بغیر دینی فعالیّت انجام دیتے رہیں گے تو کہیں نہ کہیں خوارج کے لشکر کی تقویّت اور حق کی کمزوری اور ضعف کا باعث بن سکتے ہیں۔

 ہمیں یہ بات سمجھنی چاہیے کہ خوارج کسی نسل، قوم یا قبیلے کا نام نہیں ہے بلکہ دینی فہم و فراست کے بغیر دینی فعالیت انجام دینے کا نام ہے اور اسی طرح ہمیں یہ بھی جان لینا چاہیے کہ کربلا ایک ابدی جنگ ہے، نادانوں اور جاہلوں سے اور وہ نادان اور جاہل خواہ کسی بھی ملک، قوم و قبیلے اور مکتب سے تعلق رکھتے ہوں۔

حاشیے اور حوالے

[1]۔ مثلاً اگر ایک ورق خون سے لکھا ہوا ہو اور دونوں کو علم ہو کہ یہ خون سے لکھا ہوا ہے تو ان میں کوئی جھگڑا نہیں ہوگا، جھگڑا تب ہوگا جب ایک کہے گا کہ یہ خون سے لکھا ہے اور دوسرا کہے گا کہ یہ سرخ رنگ سے لکھا ہے، یعنی ایک حق پر ہوگا اور دوسرا باطل پر اور یا پھر ایک کہے گا کہ یہ سرخ رنگ سے لکھا ہے اور دوسرا کہے گا کہ نہیں یہ انار کے پانی سے لکھا ہے یعنی دونوں باطل ہونگے۔

[2] استفادہ از إِنَّ دِينَ اللَّهِ لَا يُعْرَفُ بِالرِّجَالِ بَلْ بِآيَةِ الْحَقِّ وَ اعْرِفِ الْحَقَّ تَعْرِفْ أَهْلَهُ۔ (إرشاد القلوب إلى الصواب، ج‏2، ص296)

[3] وَلاَ تَلْبِسُواْ الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَتَكْتُمُواْ الْحَقَّ وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ۔۔۔ البقرة آیه: 42

[4] إِنَّ شَرَّ الدَّوَابِّ عِنْدَ اللَّهِ الصُّمُّ الْبُكْمُ الَّذينَ لا يَعْقِلُونَ۔الأنفال: 22

[5] استفادہ از يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ تَتَّقُوا اللَّهَ يَجْعَلْ لَكُمْ فُرْقاناً۔الأنفال آیه ۲۹

[6] استفادہ از آثارِ شہید مطہری

[7] استفادہ از سیری در سیرہ نبوی از شہید مطہری

[8] یا خیل الله ارکبی و بالجنه ابشری

[9] موج فتنه از جمل تا جنگ نرم قلمکار احمد حسین شریفی


تحریر۔۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز(لاہور) مجلس وحدت مسلمین پنجاب کے صوبائی سیکریٹری جنرل علامہ سید مبارک علی موسوی نے پنجاب کے مختلف اضلاع میں عزاداری سید الشہداءؑمیں بیجارکاوٹوں ، بانیاں مجالس کو حراساں کرنے اور خواتین بانیان مجالس کے خلاف مقدمات کے اندراج کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے، صوبائی سیکریٹریٹ سے جاری اپنے ایک بیان میں انہوں نے کہاکہ پنجاب حکومت کی جانب سے  عزاداری میں رکاوٹیں اہل بیت ؑ سے دشمنی کا ثبوت ہیں، آئین پاکستان اورشہری حقوق ہمیں عزاداری کرنے کا بھرپور حق دیتے ہیں، پنجاب کے متعصب حکمران ہم سے ہمارا یہ جائز حق نہیں چھین سکتے، چودہ سو برس سے جاری یہ مجالس اور جلوس نا پہلے کے یزید روک سکے اور نا آج کے یزید میں یہ صلاحیت موجود ہے، انہوں نے کہا کہ گذشتہ دنوں میاں نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز نے دعویٰ کیا تھا کہ ن لیگ محرم الحرام میں عزاداروں کو مکمل سہولیات فراہم کرے گی، ان کا گھرانہ عزاداری کا احترام کرتا ہے، اہل بیت ؑ سے محبت ان کے والد نے انہیں سکھائی ، یہ تمام دعوے محرم کے آغاز میں ہی دھرے کے دھرنے رہ گئے اور مریم نواز صاحبہ کی جماعت اہل بیت ؑ کےذکر کے خلاف تمام حدود کو پار کرچکی ہے، انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ ن کسی خام خیالی میں نا رہے عزاداری سید الشہداءؑ ہماری شہہ رگ حیات ہے ہم ایک انچ بھی اس سے پیچھے نہیں ہٹ سکتے ۔

وحدت نیوز(کراچی) دکھی انسانیت کی خدمت کے لئے خیرالعمل فاؤنڈیشن ایم ڈبلیو ایم بن قاسم ٹاؤن ڈسٹرکٹ ملیر نے ہیئت امام حسین علیہ سلام فاؤنڈیشن کے تعاون سے پورے بن قاسم ٹاؤن کی ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے عوام کی سہولت کے لئے بمقام جعفریہ کمپلیکس مرکزی امام بارگاہ اسٹیل ٹاؤن گلشن جدید میں 8 بیڈ پر مشتمل سرد/ میت خانہ و غسل خانہ کا سنگ بنیاد مرکزی ڈپٹی سکریٹری جنرل ایم ڈبلیو ایم پاکستان حجت الاسلام مولانا سید احمد اقبال رضوی کے دست مبارک سے رکھا گیا, اس موقع پر مولانا نشان حیدر ساجدی ڈپٹی سیکریٹری سندھ برادر زین رضوی چیئرمین خیر العمل فاؤنڈیشن کراچی ڈویژن،  ضلع ملیر کے رہنماو اسٹیل ٹاون یونٹ و مسجد کے پیش امام و ٹرسٹ کے اراکین موجود تھے،واضح  رہے پورے بن قاسم گھگر پھاٹک سے قائد آباد تک تقریباً 10,00000 کی آبادی ہے مگر یہاں پر کوئی سرد/ میت خانہ موجود نہیں تھا،اپنی نوعیت کا یہ پہلا پروجیکٹ ہے۔

وحدت نیوز(کوئٹہ) آئی جی ايف سی ميجرجنرل نديم احمد انجم کےزيرصدارت محرم الحرام کی مناسبت سےہيڈکوارٹرايف سی ميں سکيورٹی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جس میں  مجلس وحدت مسلمین کے رکن بلوچستان اسمبلی آغا رضا اور مرکزی رہنما علامہ سید ہاشم موسوی سمیت دیگرمکاتب فکرکی  مذہبی سماجی شخصیات نے شرکت کی،اجلاس سے خطاب کرتےھوۓ آئی جی ايف سی ميجرجنرل نديم احمد انجم نے کہاں کہ اتحادبين المسلمين،فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور يکجھتی کے سلسلے ميں ايک دوسرےکا بھرپور ساتھ ديں،محرم الحرام ہميں قربانی،صبر اور اتحاد کا پيغام ديتا ہے،پاکستان ميں فرقہ واريت نہیں ہے بلکہ دہشتگردی ہے دہشتگرد کاکوہئ مذہب نہيں ھوتا اور ہم سب نے مل کر ان کا قلع قمعہ کرنا ہے،دشمن ہمارے اتحادوامن کو تباہ کرنے کے لےہر ممکن حربے استعمال کررہا ہے جيسےہم سب نےمل کر ناکام بنانا ہے،ہمارا مثالی اتحاد فرقہ بندی سے بالا تر ہےاور يہ اتحاد جاری رہے گا،فرقہ وارانہ اور گڑبڑ پھيلانے والے عناصر سےھوشيار رہا جائےاور ان کی بروقت نشاندہی کی جاۓ۔تاکہ شرپسندوں کو کيفرکردار تک پہنچایاجاسکے۔

وحدت نیوز (تفتان) مجلس وحدت مسلمین کے رکن بلوچستان اسمبلی آغا رضا کی گزارش پر بلوچستان حکومت کی جانب سے زائرین کربلا ومشہد کی سہولت کے لئےنئے پاکستان ہاؤس کی کشادہ عمارت کا افتتاح کردیا گیا ہے، کمشنر کوئٹہ امجد علی خان نے گذشتہ دنوں پاکستان ہاؤس کی نئی عمارت کا افتتاح کیا، منصوبے پر 90ملین روپے لاگت آئی ہے اور یہ منصوبہ ڈیڑھ برس کی قلیل مدت میں پایہ تکمیل کو پہنچا ہے، واضح رہے کہ زائرین کودرپیش سنگین مشکلات کے باعث ایم ڈبلیوایم کے رکن بلوچستان اسمبلی آغا رضا نے سابق وزیر اعلی ڈاکٹر عبد المالک سے نئے پاکستان ہاؤس کی تعمیرکا مطالبہ کیا تھابعد ازاں ایم ڈبلیوایم کے سربراہ علامہ راجہ ناصرعباس جعفری نے اپنے دورہ تفتان بارڈر کے موقع پر اس منصوبے کا معائنہ کیا تھا اور تعمیراتی کام کی جلد تکمیل کی ہدایت کی تھی۔

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree