The Latest

وحدت نیوز(آرٹیکل) کمروں میں ہر طرف گندگی کی سڑاند تھی،اے کاش میں پاکستان ہاوس کے گندے کمروں اور بستروں کی تصاویر بنا کرلاتایہ کہہ کر زائر نے میری طرف دیکھا اور بولا جو جتنا مجبور ہوتا ہے اس سے اتنے زیادہ رشوت وصول کی جاتی ہے۔لوگوں کو کانوائے کے نام پر محصور کیاجاتاہے تاکہ ان کے ویزے کی مدت کم ہوتی جائے اور وہ مٹھی گرم کرنے کے بارے میں سوچیں ،راستے میں گھنٹوں چیک پوسٹوں پر لوگوں کو بیوی بچوں سمیت بٹھایاجاتاہے تاکہ  مجبور ہوکر کچھ نہ کچھ دیں،پاکستان ہاوس کے تعفن میں حبسِ بے جا میں رکھاجاتاہے تاکہ ان سے جو رقم نچوڑی جاسکتی ہی نچوڑی جائے،کرایہ جتنا زیادہ کوئی وصول کرسکتا ہے وہ کرلیتا ہے کہ یہ موقع ہاتھ سے نہ نکل جائے،علاقے کے ڈی سی کا لیٹر مانگا جاتا ہے تاکہ ہراسان کرکے پانچ سو یا ہزار روپیہ کمایاجائے۔۔۔

انسان کہیں شکایت کرنا چاہے تو نہیں کرسکتا،اُف کرے توڈانٹ پڑتی ہے،ہائے دہائی کرے تو بھینس کے آگے بین بجانے والی بات ہے،جولوگ کانوائے کے بغیر آتے ہیں ،ان سے پوچھیں کہ ایف سی والوں کا کیا رویہ ہے؟ وہ سیکورٹی ریکارڈ کے نام پر اپنے شخصی موبائل سے  مستورات کی تصاویر بناتے ہیں۔۔۔

پھر ستم بالائے ستم یہ ہے کہ جولوگ اس روٹ پر کبھی  زمینی سفر ہی نہیں کرتے وہ ان مسائل کی تردید کرنے لگ جاتے ہیں۔

بعض لوریاں سنانے لگتے ہیں اور بعض “مٹی پاو  اور جہاز سے آو “کا نسخہ بتاتے ہیں۔

ایک زائر کا یہ بھی کہنا تھا کہ دنیا میں ہر جگہ طبقاتی کشمکش چل رہی ہے ،ہر مذہب ،مسلک ،مکتب اور پارٹی میں ایک اشرافی طبقہ موجود ہے ،وہ طبقہ نچلے طبقے کے مسائل کو لمس ہی نہیں کرتا،وہ زمینی سفر کی صعوبتوں،غربت میں زیارت کی لذّت اور خالی ہاتھ حج و عمرے کے ذائقے کو چکھتا ہی نہیں ۔۔۔

اسے پتہ ہی نہیں کہ کانوائے کے نام پر محصور ہو جانا یعنی کیا۔۔۔؟ اسے معلوم ہی نہیں کہ کرایوں کا بڑھ جانا یعنی کیا؟ وہ اس کرب سے گزرا ہی نہیں کہ بیوی بچوں کے ساتھ گھنٹوں بیٹھ کر میجر صاحب کا انتظار کرنا یعنی کیا؟اسے یہ زخم لگا ہی نہیں کہ ایف سی کے اہلکاروں کا شخصی  موبائلوں سے تصاویر بنانا یعنی کیا؟

قارئین کرام !بات شیعہ کانفرنس کی نہیں بات چیک اینڈ بلینس کی ہے ،بات ایف سی اہلکاروں کی نہیں بات شہریوں کے حقوق کی ہے ،بات پاکستان ہاوس کی نہیں بات آئین کی بالادستی کی ہے بات ہزارہ برادری کی نہیں  بات اصولوں کی ہے۔

جوقانون شہریوں کو تحفظ نہ دے سکے،جوفوج بھتہ خوروں پر ہاتھ نہ دال سکے ،جو پولیس شہریوں کی شکایات کا نوٹس نہ لے اورجو خفیہ ادارے کرپٹ عناصر کی لوٹ مار سے بروقت باخبر نہ ہوسکیں  ۔۔۔وہ کس درد کی دوا ہیں؟؟؟

اس مسئلے کا فوری حل یہی ہے کہ آرمی کی زیرِ نگرانی شکایت سیل قائم کیاجائے اور خفیہ اداروں کے اہلکار زائرین کے روپ میں بھتہ خوروں اور رشوت خوروں کا تعاقب کریں۔

پاکستان کی آرمی اور خفیہ ایجنسیوں کا لوہا دنیا مانتی ہے۔یہ ممکن ہی نہیں کہ یہ ادارے کوئٹہ و تفتان کے مسئلے میں اپنی پیشہ وارانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کریں اور یہ مسئلہ حل نہ ہو۔

ابھی محرم و صفر کی وجہ سے زائرین کی تعداد میں کئی گنا زیادہ اضافہ یقینی ہے لہذا مذکورہ اداروں کو  بھی اپنی فعالیت کو  یقینی بناتے ہوئے کرپٹ عناصر کے خلاف کاروائی کا آغاز کرنا چاہیے۔

آخر میں یہ عرض کرتا چلوں کہ ہر شخص  اپنے ملک و ملت سے  فطری طور پرمحبت کرتا ہے ،ہم سب پاکستانی ہیں اور پاکستان کو سنوارنا،اہل پاکستان کی مشکلات کا احساس کرنا اور مسائل کے حل کے لئے آواز اٹھانا ایک فطری امر  ہے۔آئیے  پاکستان کو بدنما بنانے والوں،پاکستان کا امیج خراب کرنے والوں اور پاکستان میں کرپشن اور لوٹ مار کرنے والوں کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے کا عہد کرتے ہیں۔

ایک خوبصورت  ،باامن اور خوشحال پاکستان ہی  ہم سب کا خواب ہے۔ہمارے اجداد نے پاکستان بنایاتھا اسے سنوارنا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔پاکستان کے نام سے ہمارے اجداد کی آنکھوں میں جو نور چمکتا تھا اس نور کو ہمیشہ سلامت رہنا چاہیے۔

میرے تن کے زخم نہ گن ابھی،

میری آنکھ میں ابھی نُور ہے

میرے بازؤں پہ نگاہ کر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جو غرور تھا وہ غرور ہے

ابھی رزمگاہ کے درمیاں،

ہے میرا نشان کُھلا ہُوا

ابھی تازہ دم ہے میرا فرس،

نئے معرکوں پہ تُلا ہُوا

مجھے دیکھ قبضہِ تیغ پر،

ابھی میرے کف کی گرفت ہے

بڑا منتقم ہے میرا لہو ۔۔۔

یہ میرے نسب کی سرشت ہے

میں اسی قبیلے کا فرد ہُوں،

جو حریفِ سیلِ بلا رہا

اُسے مرگزار کا خوف کیا،

جو کفن بدوش سدا رہا

وہ جو دشتِ جاں کو چمن کرے،

یہ شرف تو میرے لہو کا ہے

مجھے زندگی سے عزیز تر ہے،

یہ جو کھیل تیغ و گُلو کا ہے

سو میرے غنیم نہ بُھول تُو ،

کہ ستم کی شب کو زوال ہے

تيرا جور و ظلم بلا سہی ۔۔۔۔۔۔۔

میرا حوصلہ بھی کمال ہے

تجھے مان جوش و گُرز پر،

مجھے ناز زخمِ بدن پہ ہے

یہی نامہ بر ہے بہار کا ۔۔۔۔

جو گلاب میرے کفن پہ ہے


تحریر۔۔۔۔۔نذرحافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز(سکردو) مجلس وحدت مسلمین پاکستان گلگت بلتستان کے صوبائی کنونشن کے اختتام پر مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ احمد اقبال رضوی، سید ناصر عباس عباس شیرازی، سیکرٹری سیاسیات سید اسد عباس نقوی اور آغا علی رضوی نے میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم اقبال اور جناح کے پاکستان کے حصول کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں، جہاں عدل و انصاف کا بول بالا ہو اور تمام مکاتب فکر اپنی تعلیمات کے مطابق زندگی بسر کر سکیں۔ مجلس وحدت مسلمین ایک مسلک کے حقوق کی بات نہیں کرتی بلکہ ہر پاکستانی کے حقوق کے لیے جدوجہد کر رہی ہے، چاہے وہ غیر مسلم ہی کیوں نہ ہو۔ انہوں نے کہا کہ ہم اقبال و جناح کے پاکستان کے حصول کے لیے سرگرم ہیں۔ ہم ملک کے مظلوم اور مستضعف طبقے سے ملک کر اسے ظالموں اور ستم گروں کے چنگل سے آزاد کرائیں گے۔

 انہوں نے کہا کہ ملک بھر کی طرح گلگت بلتستان میں بھی عوامی حقوق کے حصول کے لیے جدوجہد جاری رکھیں گے۔ گلگت بلتستان کے غیور اور محب وطن عوام کو ستر سالوں سے آئینی حقوق سے محروم رکھا گیا۔ انہیں ہر میدان میں پیچھے رکھا گیا اور ظالم حکمرانون نے یہاں کے عوامی و قدرتی وسائل کو لوٹا جبکہ خطے کی تعمیر و ترقی میں کسی قسم کا کردار ادا نہیں کیا۔ اسٹبلشمنٹ اور وفاقی جماعتوں نے گلگت بلتستان کے وسائل پر قبضہ جما رکھا ہے اور اس خطے کو آئینی دائرے میں شامل کرنے میں رکاوٹیں کھڑی کرتی رہیں۔ انڈیا کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دیتا ہے لیکن انتہائی شرم کی بات ہے کہ پاکستان کے حکمران گلگت بلتستان کو آئینی حق دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔ گلگت بلتستان کے عوام کو انکی حب الوطنی کی جزا محرومی کی صورت دیا گیا۔

ایم ڈبلیو ایم کے مرکزی رہنماوں نے کہا کہ سی پیک میں گلگت بلتستان کو حصہ نہ دینا افسوسناک امر ہے۔ سی پیک میں کسی صورت جی بی کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ وزیراعظم پاکستان اور آرمی چیف سی پیک پر عوامی تحفظات دور کریں۔ سی کانفرنس میں حکومتی جماعت کے بیانات انتہائی مایوس کن تھے، البتہ آرمی چیف کی جانب گلگت بلتستان کو ارمچی کی طرح ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کا عندیہ نیک شگون ہے۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ گلگت بلتستان کو سی پیک میں متناسب حصہ دے کرعوام کے تحفظات دور کریں۔ ایم ڈبلیو ایم کے مرکزی رہنماوں کا مزید کہنا تھا ملک میں قومی ایکشن پلان کا رخ موڑ کر دہشتگردوں اور کلعدم جماعتوں کے خلاف استعمال کرنے کی بجائے محب وطن شہریوں بلخصوص مسلم لیگ نون کے مخالفین کے خلاف استعمال کیا گیا۔ شیخ نیئر عباس مصطفوی اور شیخ مرزا علی جیسی متددین شخصیات کو شیڈول فور میں ڈالنا اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ نیشنل ایکشن پلان کی آڑ میں سیاسی انتقام لیا جا رہا ہے۔ گلگت بلتستان میں عوامی ایکشن کمیٹی کے رہنماوں پر بغاوت اور غداری کے مقدمات کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ جی بی میں عوامی حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والوں کو وطن دشمن بنا کر پیش کرنا موجودہ حکومت کی حمایت ہے۔ مجلس وحدت عوامی اور جمہوری جدوجہد پر یقین رکھتی ہے۔ آئینی حقوق، سی پیک میں حصے، سبسڈی کی بحالی اور دیگر مسائل کے حل کے لیے جدوجہد جاری رکھیں گے۔

وحدت نیوز (سکردو) مجلس وحدت مسلمین پاکستان گلگت بلتستان کا تیسرا دو روزہ صوبائی کنونشن "امید سحر و دفاع وطن کنونشن" کے نام سے منعقد ہوا، جس میں ایم ڈبلیو ایم گلگت بلتستان کے تمام اضلاع کے مسئولین کے علاوہ مرکزی قائدین نے شرکت کی۔ کنونشن میں مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ احمد اقبال رضوی، سید ناصر عباس شیرازی اور سیکرٹری سیاست نے خصوصی شرکت کی، جبکہ ایم ڈبلیو ایم گلگت بلتستان کے سیکرٹری جنرل شیخ نیئر عباس مصطفوی کے ہمراہ ضلع گلگت، ضلع استور، ضلع ہنزہ نگر، ضلع روندو، ضلع کھرمنگ، ضلع شگر اور ضلع اسکردو کے مسئولین نے شرکت کی۔ دو روزہ کنونشن میں شیخ نیئر عباس مصطفوی کے تین سالہ تنظیمی دور کی تکمیل پر نئے سیکرٹری جنرل کا انتخابی عمل ہوا، جس میں حجتہ السلام والمسلمین آغا علی رضوی مجلس وحدت مسلمین پاکستان گلگت بلتستان کے نئے سیکرٹری جنرل منتخب ہوئے۔ ایم ڈبلیو ایم پاکستان کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ احمد اقبال رضوی نے ان سے حلف لیا۔

وحدت نیوز(کراچی) مجلسِ وحدت مسلمین شعبہ خواتین کراچی ضلع غربی کی جانب سے شھادتِ حضرت مولا امام تقی علیہ سلام کی مناسبت سے مجلسِ عزا کا اہتمام کیا گیا۔مجلس کا اہتمام بلدیہ ٹاون، گلشنِ غازی کے امام بارگا میں کیا گیا تھا۔جس سے شعبہ تعلیم و تربیت کی خواہر ندیم زہرہ نے خطاب فرمایا اور امام تقی علیہ سلام کی حیاتِ مبارکہ اور شھادت پر مفصل روشنی ڈالی۔علاقہ کی خواتین اور بچوں نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔

سانحہ منیٰ کی یاد میں حصہ۔۔ 1

وحدت نیوز(آرٹیکل) تاریخ آل سعود:حجاز یمن کے شمال میں واقع ہے، حجاز ملک عرب کا و ہ حصہ ہے جسے اللہ نے نور ہدایت کی شمع فروزاں کرنے کے لئے منتخب کیا اور رسول اکرم حضرت محمد ؐ کا ظہور ہوا تو اس زمین کی حیثیت دنیا پر واضح ہوگئی اسلام کا روشن چہرہ عرب کی سر زمین پر طلوع ہوا اور ساری دنیا کو اپنے روشن دین اور عمل سے منور کیا۔ اس خطہ کا مرکزی شہر مکہ مکرمہ ہے جو بے آب وگیاہ وادیوں اور پہاڑوں پر مشتمل ایک ریگستانی علاقہ ہے۔ حجاز کا دوسرا اہم شہر یثرب ہے جو بعد میں مدینہ النبی ؐ  کہلایا اور مسلمانوں کی پہلی ریاست مدینہ منورہ بنا۔ جبکہ مشرق میں طائف کا شہر ہے ، حجاز میں بدر، احد، حدیبیہ اور خیبر کی وادیا بھی قبل ذکر ہیں۔رسول اکرم ؐ کی رحلت کے بعد ملک حجاز پر خلفاء راشدین نے حکومت قائم کی اور ۶۳۲- ۶۶۱ تک ان کی حکومت رہی اس کے بعد عالم اسلام میں مزید تقسیم پیدا ہوئے اور بنو امیہ نے سر اٹھایا اور انھوں نے ۶۶۱ سے ۷۵۰ تک حکومت کی، اس کے بعد ۱۵۱۷ سے ۱۹۱۶ تک سر زمین حجاز خلافت عثمانیہ کے قبضہ میں رہا، ۱۹۱۶ میں حسین ابن علی(جن کو شریف مکہ بھی کہا جاتا ہے) نے مملکت حجاز کے نام سے سلطنت کی بنیاد رکھی جو کہ ۱۹۲۵ میں آل سعود کی ہاتھوں ختم ہوئی اور آل سعود نے اپنے نام پر سعودی عرب کے نام سے نئی حکومت کی بنیاد رکھی جو ابھی تک باقی ہے۔
بعض تاریخ دانوں کا کہنا ہے کہ سعود خاندان انزہ قبیلہ سے ہے جو تقریبا ۱۴۵۰ میں نجد میں قیام پزیر تھے۔ اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ شروع میں یہودی تھے اور چالاک قسم کے جاگیر دار تھے۔
۱۹۶۰ کی دہائی میں صوت العرب(sawt al arab broadcasting station in Cairo ) قاہرہ مصر کے ریڈیو اسٹیشن اور یمن کے سنعا نشریاتی ادارے نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ سعودی شاہی خاندان کا تعلق یہودیوں سے ہے۔ سعودیہ کے بادشاہ فیصل جنہوں نے ۱۹۶۴ تا ۱۹۷۵ تک حکومت کی ہے۔ بادشاہ فیصل نے ستمبر ۱۹۶۹ میں واشنگٹن پوسٹ کو ایک انٹر ویو دیتے ہوئے کہا کہ ہم سعودی خاندان یہودیوںکے کزنز ہیں۔جن کا ثبوت آج ہم سعودیہ کے بادشاہ سلمان اور اسرائیل کے تعلوقات کی صورت میں دیکھ رہے ہیں۔
ال سعود کی تاریخ کچھ اس طرح شروع ہوتی ہے کہ شیخ محمد بن عبد الواہاب ۱۷۰۳ میںپیدا ہوئے ان کی شخصیت نے ملت اسلامیہ میں افتراق اور انتشار کا ایک نیا دروازہ کھولا اہل اسلام میں کتاب وسنت کے مطابق جو معمولات صدیوں سے رائج تھے انہوں نے ان کو کفر اور شرک قراردیا۔ صحابہ کی قبور کی بے حرمتی کی اور مسمار کیا ایصال ثواب کی تمام جائز صورتوں کی غلط تعبیر کی اور بہت سارے دین اسلام کے کاموں کو شرک قرار دیا اور جو بھی اس راستے میْن ان کے لئے رکاوٹ محسوس ہوا اُسے قتل کیا گیا۔ عبد الوہاب نے جس نئے دین کی طرف لوگوں کو دعوت دی وہ عرف عام میں وہابیت کے نام سے مشہور ہو ا اور ان کے پیروکاروں کو وہابی کہلانے لگے۔۱۷۴۴ میں ابن سعود اور عبد الواہاب کے درمیان اتحاد بنا جو کہ محمد بن عبد الوہاب کی بیٹی اور عبد العزیز جو کہ ابن سعود کا بیٹا تھا کی شادی کی صورت میں ہوئی۔ اب ہم مزید آگے بڑھنے سے پہلے وہابیت کی وجود کے بارے مختصر گفتگو کرتے ہیں۔


وہابی فرقہ کہاں سے اور کیسے وجود میں آیا؟؟سب سے پہلے وہابی فرقہ کو بنانے والا اور اس کی  نشرو اشاعت کرنے کے لئے انتھک کوشش کرنے والا شخص محمد بن عبد الوہاب ہے جو بارہویں صدی ہجری کے نجدی علماء  میں سے تھا۔لیکن یہ معلوم ہونا چاہئے کہ وہابیت کے عقائدکو وجود بخشنے والا یہ پہلا شخص نہیں ہے بلکہ صدیوں پہلے یہ عقیدے مختلف صورتوں میں ظاہر ہوتے رہے ہیں لیکن یہ ایک فرقہ کی صورت میں نہیں تھے اور نہ ہی ان کے زیادہ طرفدار تھے۔ان میں سے چوتھی صدی میں حنبلی فرقہ کے مشہور و معروف عالم دین ابو محمد بر بہاری نے قبور کی زیارت سے منع کیا لیکن خلیفہ عباسی نے اس مسلہ کی بھر پور مخالفت کی۔حنبلی علماء میں سے عبد اللہ بن محمد عکبری مشہور بہ ابن بطہ نے پیغمبر ؐ کی زیارت اور شفاعت کا انکار کیا۔اسی طرح اس کا یہ بھی عقیدہ تھا کہ اگر کوئی شخص انبیا اور صالحین کی قبور کی زیارت کے سفر کو عبادت مانے، اس کا عقیدہ اجماع اور سنت پیغمبر ؐ کے خلاف ہے۔ساتویں اور آٹھوں صدی کے حنبلی علماء کا سب سے بڑا عالم ابن تیمیہ ہے اور محمد بن عبد الواہاب نے اکثر اور اہم عقائد اسی سے اخذ کئے ہیں۔عبد الوہاب کا سب سے اہم کارنامہ یہ تھا کہ اپنے عقائد کو ظاہر کرنے کے بعد ان پر ثابت قدم رہا اور ہبت سے نجدی حکمرانوںکو اپنے ساتھ ملالیا اور ایک ایسا فرقہ بنالیا جس کے عقائد اہل سنت کے چاروں فرقوں سے مختلف تھے۔ اور آل سعود نے اسی فرقہ کی بنیاد پر اپنی حکومت کو مستحکم کیا اور آج تک اسی کے سہارے اپنی حکومت بر قرار رکھا ہوا ہے ۔(تاریخ وہابیت، ص ۱۴)
ابن سعود جو کی پہلے سے ہی موقع کی تلاش میں تھا کہ وہ اپنے قبیلے سے نکل کر حکومت کی دائرہ کو وسیع کریں، عبد الواہاب سے اتحاد سے اس کی یہ دیرینہ خواہش پوری ہوئی اور عبد الواہاب نے مذہبی وزیر کی حیثیت سے اس دین کو پھیلانا شروع کیا تاکہ اس کے پیچھے وہ اپنے سیاسی اور عسکری اہداف کو حاصل کر سیکیں، جو بھی شخص وہابیت قبول کرتا  اسے امان ملتی اور جو مخالفت کرتا اس کے خلاف جہاد کا فتوی دے دیتے ۔ اس طرح آل سعود اور عبد الوہاب نے اسلام کی اشاعت اور مسلمانوں کی اصلاح کے نام پر اپنی ریاست کی سرحدوں کو وسیع کرتے گئے اور بلا آخر ۱۸۳ کے عرصہ میں یعنی ۱۷۴۴-۱۹۲۷  تک انھوں نے وہابی مذہب کے سہارے جزیرہ نما عرب میں موجود تمام قبائل اور مسلمانوں اور ترکوں سے جنگ کی اور بلا آخر عبد العزیز کو ۱۸۹۰ میں الراشد نے شکست سے دوچار کیا اور وہ اپنے اہل و عیال کے ساتھ کویت چلے گئے۔ انیس سو ایک میں عبد العزیز نجد سے واپس آیا اور کویت کی مدد سے ۱۹۲۷ میں اپنے آپ کو بادشاہ قرار دے کر سر زمین حجاز میں سعودی عرب کے نام سے ریاست قائم کی۔۔۔۔جاری

تحریر :ناصر رینگچن

وحدت نیوز(کوئٹہ) مجلس وحدت مسلمین بلوچستان کا اہم اجلاس صوبائی آرگنائزر بلوچستان ، رکن شوری عالی اور ممبر صوبائی اسمبلی  آغا سید محمد رضا کی رہائشگاہ پر مرکزی سیکریٹری تنظیم سازی سید مہدی عابدی کی صدارت میں منعقد ہوا ۔اجلاس میں ڈپٹی آرگنائزر مولانا سہیل شیرازی بھی موجود تھے ،اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ بلوچستان میں تنظیم سازی کے عمل کو تیزی سے آگے بڑھایا جائے اور موثر شخصیات کو مجلس کا حصہ بنایا جائے ۔

اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ ارگنائزنگ کمیٹی میں مزید ۴ افراد کا اضافہ کرکے فعالیت اور موثر افراد کی شمولیت کے عمل کو یقینی بنایا جاسکے ،جناب ذوالفقار شاہ ،مولانا ولایت جعفری ،مولانا برکت مطہری اور  جناب ظفر شمسی کو فیصلہ کی روشنی میں صوبائی آرگنائزنگ کمیٹی میں شامل کیا گیا ہے تاکہ بلوچستان بالخصوص اندرون میں فعالیت و تشکیلاتی عمل کو آگے بڑھایا جاسکے ،جبکہ آئندہ ہفتہ مرکزی سیکریٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کے دورہ کوئٹہ کو بھی حتمی شکل دی گئی اور اسکے انتظامات کی ذمہ داری صوبائی آرگنائزرآغا محمد رضا اور  مجلس وحدت مسلمین کوئٹہ ڈویژن کے سیکریٹری جنرل آغا عباس کے سپردکی  گئی ۔

وحدت نیوز(پشاور) مجلس وحدت مسلمین صوبہ خیبر پختونخوا کے سیکرٹری تربیت مولانا ذوالفقار علی حیدری نے ضلع پشاور کے 4 زورہ دورہ کے دوران مختلف یونٹس کا دورہ کیا۔ اس موقع پر مجلس وحدت مسلمین ضلع پشاور کے سیکرٹری جنرل سلامت علی جعفری کے ہمراہ محلہ حسینیہ یونٹ، جعفریہ سٹریٹ یونٹ، اسٹشن یونٹ، گھڑی سیداں وڈپگہ یونٹ، امامیہ کالونی یونٹ اور حسینیہ ہال کے سیکرٹری جنرلز و ان کی کابینہ اور علاقے کے ذمہ داروں سے تفصیلی ملاقاتیں ہوئی، مولانا ذوالفقار حیدری نے مجلس وحدت مسلمین کے الہیٰ اہداف پر روشنی ڈالی۔

انہوں نے ضلع پشاور میں تربیتی پروگرامات کرانے پر زور دیا اور مختلف مقامات پر دروس دیئے۔ اس اثنا ضلع پشاور کے سیکرٹری تربیت کے لئے زاہد علی کا انتحاب بھی ہوا۔ انہوں نے ہر یونٹ میں تربیتی پروگرام کرانے کا وعدہ کیا۔ اس موقع پر خواتین کے سیٹ اپ کی بھی مضبوط بنیاد رکھی گئی۔ مولانا ذولفقار آج آخری دن کے دورے پر وڈپگہ سمیت دوسرے علاقوں کا بھی دورہ کرینگے۔

وحدت نیوز(لاہور) امامیہ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کے نو منتخب مرکزی صدر سرفراز نقوی کے اعزاز میں مجلس وحدت مسلمین پنجاب کے سیکرٹری جنرل حجتہ الاسلام و المسلمین علامہ مبارک علی موسوی کی طرف سے پر تکلف استقبالیے کا اہتمام کیا گیا۔ اس موقع پر علامہ مبارک علی موسوی نے سرفراز نقوی کو آئی ایس او پاکستان کا مرکزی صدر منتخب ہونے پر مبارکباد پیش کی اور نیک خواہشات کا اظہار کیا۔ دونوں رہنماؤں نے قومی و ملی امور پر تبادلہ خیال بھی کیا۔ استقبالیہ کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے علامہ مبارک موسوی کا کہنا تھا کہ آئی ایس او کی ملت تشیع کیلئے خدمات قابل قدر ہیں، تنظیم کو ملت تشیع کی مضبوطی کیلئے تربیتی امور پر عملی کوششوں میں اضافہ کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ آئی ایس او نے ہمیشہ نوجوانوں کی تربیت میں اہم کردار ادا کیا ہے اور آئی ایس او نوجوانوں کیلئے کسی نعمت سے کم نہیں۔ انہوں نے کہا کہ ملت جعفریہ کیلئے بالخصوص اور ملت پاکستان کیلئے بالعموم آئی ایس او کی خدمات لائق تحسین ہیں، تعلیم کا شعبہ ہو یا خدمت کا آئی ایس او کے کارکن ہمیشہ پیش پیش رہے ہیں۔ آئی ایس او پاکستان کے مرکزی صدر کا کہنا تھا کہ آئی ایس او سے ملت جعفریہ کو بہت سے امیدیں وابستہ ہیں، آئی ایس او ہمیشہ کوشش کرتی ہے کہ ملت کو مایوس نہ کرے اور ہمیشہ ہم نے تعلیم کا میدان ہو یا ملت جعفریہ کے معاملات نوجوانوں کی مثبت انداز میں رہنمائی کی ہے اور آئی ایس او نے ہمیشہ اپنے فیصلے خود کئے ہیں کسی کے آلہ کار کے طور پر کبھی کام نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ آئی ایس او اپنی روایت برقرار رکھے گی اور تعلیمی و ملی میدان میں ہمیشہ نمایاں کردار ادا کرتی رہے گی۔ تقریب کے آخر میں شہدائے ملت جعفریہ کے درجات کی بلندی کیلئے فاتحہ خوانی بھی کی گئی۔

.........شہید منیٰ ...........

وحدت نیوز (آرٹیکل) حجت الاسلام غلام محمد فخرالدین22نومبر 1971ء اسکردوکے ایک مذہبی گھرانے میں پیدا ہوئے۔مرحوم کے والدایک دین دار ،ذاکر اہل بیت،دور اندیش اور سخی انسان تھے۔ شہید نیابتدائی تعلیم اپنے آبائی گاؤں قمراہ سے حاصل کی۔۵سال کی عمر میں اپنے علاقے کے معروف استاد اخوند احمد سے قرآن سیکھنا شروع کیا۔استاد مذکور سے علوم اسلامی، احکام اور بوستان وگلستان سعدی بھی پڑھی۔ میٹرک کی تعلیم ہائی سکول سکردو سے حاصل کی۔اور پھر گورنمنٹ ڈگری کالج سکردو سے انٹرمیڈیٹ اور گریجویشن کی تعلیم مکمل کی۔ موصوف کا نام کالج کے ممتاز طلباء میں شامل ہوتا تھا۔ان کے دوستوں کے بقول وہ شروع ہی سے اسلامی آداب کے پابند، محنتی اور عظیم شخصیت کے مالک تھے۔


آپ کالج دور میں آئی ایس اوپاکستان بلتستان ڈویژن کے صدر رہے۔تحریک جعفریہ بلتستان سکردو کے جنرل سکریٹری بھی رہے۔پچھلے دو سالوں سے مجلس وحدت مسلمین قم کے سیکریٹری جنرل کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دے ہے تھے۔


پاکستان بالخصوص گلگت بلتستان کے مختلف علاقوں کے لوگ ان کی مدبرانہ،عالمانہ اورمبارزانہ زندگی کی وجہ سے ان کے گرویدہ تھے۔ وہ عمر بھر اتحاد بین المسلمین کے لیے عملاََکوشاں رہے۔ تمام مسالک و مذاہب کے لوگوں نے ان کی شہادت پر افسوس کا اظہار کیا۔


علمی سفر:۔ایک طرف آپ کو دینی تعلیم حاصل کرنے کا شوق تھا دوسری طرف آپ اپنے والدین کے اکلوتے فرزند تھے اس لئے بوڑھے والدین کو چھوڑ کرکہیں اور جانا بہت مشکل مرحلہ تھا۔ لیکن آپ کے والدین کو بھی اس بات کا احساس تھا کہ آپ کو علم دین حاصل کرنے کا بے حد شوق ہے۔ انھوں نے نہ صرف اس بات کی اجازت دی بلکہ ان کی رضامندی سیگریجویشن کے بعد ۵۹۹۱میں اعلیٰ دینی تعلیم یعنی علوم محمد وآل محمد کے حصول کے لیے حوزہ علمیہ قم تشریف لے گئے جہاں آپ نے محنت، لگن اور دیانتداری کے ساتھ کم وقت میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔رواں سال ۸۲ جنوری کوجامعہ المصطفیٰ العالمیہ ،قم سے اعزازی نمبروں کے ساتھ ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ آپ کے اساتید میں آیت اللہ جوادی آملی، آیت اللہ وحید خراسانی، آیت اللہ معرفت، آیت اللہ غلام عباس رئیسی، حجت الاسلام سید حامد رضوی، ڈاکٹرمحمد علی رضائی، ڈاکٹر محمد حسن زمانی وغیرہ شامل ہیں۔ مرحوم نے سیر و سلوک اور عارفانہ مراحل کے لیے حضرت آیت اللہ بہجت سے کسب فیض کیا۔ حوزہ علمیہ قم میں علم اصول، علم فقہ، علم حدیث، علم رجال، فلسفہ، کلام، ادبیات عرب، علوم قرآنی وتفاسیر اور دیگر علوم سے اپنا دامن بھرا۔ ظاہری علوم کے ساتھ اخلاقی، باطنی اور عرفانی کمالات کی طرف بھی بھر پور توجہ دی۔ حصول علم کے ساتھ تدریس وتالیف کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ آپ نے ملک بھر میں مختلف مقامات پر اخلاقی، تربیتی اور تبلیغی دروس کا ایک موثر سلسلہ بھی شروع کر رکھا تھا۔


شہید نے درج بالا شعبوں کے علاوہ قومی اور اجتماعی میدان میں بھی زمانہ طالب علمی سے شہادت تک بڑھ چڑھ کر حصہ لیااور ہر میدان میں اپنی علمی اور سیاسی بصیرت کی وجہ سے کامیاب وکامران رہے۔
علمی دنیا میں ابتدا سے ہی آپ کا رجحان علومِ دینیہ کی طرف تھا۔ طالب علمی کے دور میں آپ کو مذہبی سکالر بننے کا شوق تھا۔ کالج کیدور میں تنظیمی دوستوں اور کالج فیلوز کے ساتھ اکثر علمی موضوعات پر گفتگو کرتے رہتے تھے۔ بسا اوقات بحث اس حد تک طول پکڑتی کہ موضوع کی پیچیدگیوں کو سلجھانے اور اس کے حل کے لیے علماء کرام سے بھی رجوع کرنا پڑتا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ رمضان المبارک میں قتل گاہ مسجد میں درس اخلاق کے لیے حجتہ الاسلام شیخ یوسف کریمی تشریف لاتے تھے ان سے مختلف موضوعات پر استفادہ کرتے رہتے تھے۔ان کے علاوہ حجتہ الاسلام آقا علی رضوی، حجتہ الاسلام شیخ اصغر حکمت کے پاس علمی تشنگی بجھانے کے لییکثرت سے حاضر ہوتے۔


آپ ؒ علمی میدان میں آیت اللہ العظمیٰ سید ابوالقاسم خوئی اعلی اللہ مقامہ، شہید محراب آیت اللہ سید محمدباقر الصدر اعلی اللہ مقامہ اور آیت اللہ استاد شہید مطہری اعلی اللہ مقامہ کے گرویدہ تھے۔
جب تک ان کی رفاقت میسر رہی اور انھیں قریب سے دیکھنے کے جتنے بھی مواقع میسر آئے میں نے ہمیشہ ان میں مشکلات، مسائل اور رکاوٹوں سے مقابلہ کرتیہوئے منزل کی
طرف بڑھنے کا ایک خاص جذبہ دیکھا۔ مقصد کو پانے کے بعد ان کے چہرے پر طمانیت اور سرور کی جو کیفیت ظاہر ہوتی وہ ہمیشہ قابل دید ہوتی۔ ریاکاری، نمود ونمائش اور طمع وخود غرضی سے بالاتر ہو کر ہمیشہ اجتماعی مفادات اور خدمت کے جذبے سے سرشار ہو کر آگے بڑھتے تھے۔آپ دینی علوم سے خاص شغف رکھتے تھے یہی وجہ ہے کہ طالب علمی کے زمانے سے ہی آپ اخوند کے نام سے پہچانے جاتے تھے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ سکول اور کالج میں منعقدہ تقریری اور قرائت کے مقابلوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھیاور نمایاں پوزیشن بھی حاصل کرنے میں کامیاب ہوتے۔اچھے قاری ہونے ساتھ ساتھ آپ فن خطابت میں بھی اپنی مثال آپ تھے۔آپ کی تقاریر ہمیشہ فکر انگیز اور حالات حاضرہ کے مطابق ہوتیں۔ کالج کے زمانے میں آپ کی خطابت کا بڑا چرچارہا۔ یوم القدس کا پروگرام ہو یا یوم الحسین کا جلسہ اخوند صاحب کی تقاریر حالات وواقعات سے آگاہی کی وجہ سے سب پر بھاری تھیں۔ آپ ایک انقلابی سوچ کے مالک تھے۔ یہی وجہ ہے واقعہ کربلا ، انقلاب اسلامی اورنظام ولایت فقیہ آپ کے پسندیدہ موضوعات میں سے تھے۔اس کے علاوہ امام خمینی ؒ اور رہبر معظم سے عشق کی حد تک لگاؤ رکھتے تھے۔


ایام مجالس عزا میں آپ مومنین کو عصر حاضر کے مسائل اور ذمہ داریوں سے متعلق آگاہ کرتے رہے۔ اپنی گفتگو کے لیے ہمیشہ کلام خدا اور احادیث رسول سے استنباط کرتے اس کے علاوہ آپ کی تقریروں کی خاص بات یہ تھی کہ آپ نہج البلاغہ پر بھی عبور رکھتے تھے اس لیے کلام امام سے بھی مومنین کو مستفید کرتے تھے۔ دستہ امامیہ کے زیر اہتمام عاشورا ئے محرم وعاشورا ئے اسد میں حسینی چوک پر آپ کا خطاب سننے کے لیے ہزاروں عاشقان کربلاگھنٹوں آپ کا انتظار کرتے تھے۔اس کے علاوہ عشرہ محرم میں آپ سے کسب استفادہ کرنے کے لیے لوگوں کی کثیر تعداد جمع ہوتی تھی۔ پچھلے تین چار سالوں سے عشرہ محرم لاہور میں تین چار جگہوں پر پڑھتے رہے۔اس سال بھی حج سے واپسی پر عشرہ محرم لاہور میں دو تین مقامات پر پڑھنے کا پروگرام ترتیب دے رکھاتھا لیکن آپ ومن یھاجر الی اللہ ورسولہ۔۔۔۔۔۔۔۔ کا مصداق بن گئے اور سانحہ منیٰ میں اس دنیا سے ہمیشہ کے لیے امر ہوگئے۔خوف خدا اور عزاداری سید الشہدا میں آپ کا گریہ کرنا اور آنسو بہانا۔۔۔قابل دید تھا۔آپ دعائیہ اجتماعات میں گریہ وزاری کے ساتھ اللہ سے رازونیاز کرنے کا خاص سلیقہ رکھتے تھے۔ دعائے کمیل پڑھنے کا انداز بھی دل ودماغ کو مسحور کرنے دینے والا ہوتا تھا۔ان کی معیت میں پڑھی گئی دعائیں آج بھی کانوں میں رس گھولتی ہیں۔ آپ شب زندہ دار اور دن کے روزہ دار تھے۔ عشق الہی سے سرشار ہو کر کئی بار حج کی سعادت نصیب ہوئی۔اسی عشق کا تقاضا تھا کہ آپ حالت احرام میں داعی اجل کو لبیک کہتے ہوئے بارگاہ الہی میں حاضر ہوئے۔
زمانہ طالب علمی ۰۹۹۱،۱۹ میں آئی ایس اوپاکستان بلتستان ڈویڑن کیفعال صدر رہے۔دو سال آئی ایس او پاکستان بلتستان ڈویڑن کی ذیلی نظارت کے بھی رکن رہے۔ آئی ایس او کے جوانوں کے ایک بہترین مربی تھے ان کی امیدیں آپ سے وابستہ تھیں۔ آپ ہر میدان میں ان کی رہنمائی کرتے تھے۔ پاکستان میں قائد شہید علامہ عارف حسین الحسینی ؒ اور شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی اور عالمی سطح پر عالم مبارز قائد مقاومت سید حسن نصراللہ کو آپ اپنا آئیڈیل سمجھتے تھے۔


گلگت بلتستان کی سیاست پر آپ کی گہری نظر تھی1991میں گلگت بلتستان الیکشن سیبائیکاٹ کے دوران طلباء رہنما کی حیثیت سے قائد گلگت بلتستان علامہ شیخ غلام محمد الغرویؒ اور علامہ شیخ محمد حسن جعفری کے شانہ بشانہ پورے گلگت بلتستان کا دورہ کیا۔ ان دورہ جات میں شہید ایک ایسے سخن ور کے طور پر سامنے آئے جو لوگوں کے دلوں کو موہ لینے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ گویا اللہ نیانھیں فصاحت وبلاغت اور دلیل ومنطق کے ذریعے مسائل کو بیان کرنے کی ایک خاص مہارت ودیعت فرمائی تھی۔ لوگوں کو قائل کرنے اور ان میں تحرک پیدا کرنے میں آپ کا کوئی ثانی نہ تھا۔
آپ پچھلے دو سالوں سے مجلس وحدت مسلمین قم کے سیکریٹری جنرل کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دے رہے تھے۔مجلس وحدت کے قیام سے جام شہادت نوش کرنے تک آپ مرکزی رہنما کی حیثیت سے گلگت بلتستان، پاکستان اور پاکستان سے باہر مختلف فورمز پر قوم وملت کی نمائندگی کرتے رہے۔ مجلس وحدت کے قائدین کی قوم وملت کے لیے خدمات کو آپ قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ عرفات کے میدان سے علامہ امین شہیدی کو پیغام حج دیا اور دشمنوں کے شر سے ان کی حفاظت کی خصوصی دعا کی۔


دہشت گردی کے خاتمہ کے لیے بھی اپنی تقریرں اور تحریروں میں نہ صرف صدائے احتجاج بلند کی بلکہ ارباب حل وعقدکو اس کے حل کے لیے ٹھوس مشورے بھی دیے۔ اور ان سے ہمیشہ یہ اپیل کرتے کہ ملک سے اس ناسور کو ختم کرنے کے لیے گراس روٹ لیول پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح فرقہ واریت کو ختم کرنے کے لیے آپ تنگ نظری، تعصب اور مسلکی ہمدردیوں سے بالاتر ہو کر علمی اور عقلی دلیلوں کے ذریعے دوریوں کو ختم کرنے کے قائل تھے۔ آپ نہ صرف تقریب مذاہب کے قائل تھیبلکہ اتحاد امت کو عالم اسلام کی تمام مشکلات کا واحد حل قرار دیتے تھے۔آپ مزاجا سب کو لے کر چلنے کی صلاحیت رکھتے تھے یہی وجہ ہیکہ کالج لائف میں آپ کے حلقہ احباب میں اہل سنت اور اہل حدیث برادران بھی شامل تھے۔بعض اوقات کلاس کے بعد فارغ اوقات میں ان کے ساتھ مختلف موضوعات پر ڈسکشن کرتے تھے اور ان کے علماء سے ملاقات کے لیے ان کے مراکز میں جایا کرتے تھے۔


زمانہ طالب علمی سے جام شہادت نوش کرنے تک قومی اور اجتماعی مسائل کے حل کے لیے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور ہر میدان میں اپنی علمی اور سیاسی بصیرت کی وجہ سے کامیاب
وکامران رہے۔ قومی ،ملی اور مذہبی امور کی انجام دہی کی پاداش میں آپ کو پس زندان بھی ڈالا گیا مگر آمر اور ظالم لوگوں کے سامنے کبھی نہیں جھکے۔ ہمیشہ کلمہ حق بلند کرتے رہے۔
جامعہ المصطفٰی میں نہ صرف پاکستانی طلاب کی نمائندگی کرتے تھے۔بلکہ عملی اور تحقیقی کاموں میں ان کا ہاتھ بٹاتے تھے۔ کوتاہ مدت میں آپ استاد کا درجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ حوزہ علمیہ قم میں آپ تسلسل کے ساتھ لیکچر بھی دیا کرتے تھے۔ جن میں طلبا کی کثیر تعداد ذوق وشوق کے ساتھ شریک ہوتے۔ بین الاقوامی سطح کے متعددسیمینارز میں مقالے بھی پڑھے۔
سفر آخرت:۔سانحہ منیٰ کے بعد سے آپ کی شہادت کی خبر آنے تک پاکستان بالخصوص گلگت بلتستان میں جگہ جگہ آپ کی صحت وسلامتی کے لیے دعائیہ محافل کا سلسلہ جاری رہا جب طلوع ماہ محرم کیساتھ ہی آپ کی شہادت کی خبر نے پاکستان بالخصوص گلگت بلتستان میں صف ماتم بچھ گئی۔ہرطرف ایک کہرام مچ گیا۔


بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رْت ہی بدل گئی
اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا
شہید سے راقم کی آخری ملاقات سفر حج روانگی سے ایک دن پہلے سکردو میں ہوئی تھی۔
بدلا نہ تیرے بعد بھی موضوع گفتگو
تو جاچکاہے پھر بھی میری محفلوں میں ہے

 

تحریر ۔۔۔۔۔محمد علی (اسکردو۔بلتستان)

وحدت نیوز(ملتان) مجلس وحدت مسلمین جنوبی پنجاب کے سیکرٹری جنرل علامہ اقتدار حسین نقوی نے کہا ہے کہ ایک عرصے سے سیکیورٹی کے نام پر زائرین کرام اور طلاب کے ساتھ ہتک آمیز رویہ قابل مذمت ہے، حکومت دہشت گردوں کے خلاف کاروائی کی بجائے پُرامن شہریوں کو محصور کرنے پر تلی ہے، جب تک دہشت گردوں کا خاتمہ اور اُن کے سرپرستوں کو عبرتناک انجام سے دوچار نہیں کیا جائے گا ملک میں امن ناگزیر ہے۔ ان خیالات کا اظہار اُنہوں نے ملتان میں قافلہ سالاران کے نمائندہ وفد سے ملاقات کے دوران کیا۔ وفد میں شامل قافلہ سالاروں نے علامہ اقتدار حسین نقوی کو کوئٹہ اور تفتان میں پیش آنے والے مسائل سے آگاہ کیا اور اس حوالے سے لائحہ عمل ترتیب دینے کی اپیل کی۔ علامہ اقتدار حسین نقوی نے وفد سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم ایک لمبے عرصے سے حکومت کی ان کارستانیوں کو برداشت کر رہے ہیں لیکن اب مزید خاموش نہیں رہیں گے، وفاقی حکومت زائرین کے مسائل کو فوری طور پر حل کرے اور سیکیورٹی کے نام پر محصور کرنے سے باز آئے۔ اُنہوں نے کہا کہ اگر کوئٹہ اور تفتان بارڈر پر زائرین کو تنگ کرنے کا سلسلہ بند نہ کیا گیا تو احتجاج پر مجبور ہو جائیں گے۔ اُنہوں نے کہا کہ محرم الحرام کے موقع پر ملک کے بھر لاکھوں عزادار کربلا معلی میں امام حسین کی روز شہادت پر جمع ہوتے ہیں ہم حکومت کو متنبہ کرتے ہیں کہ محرم الحرام سے قبل زائرین کے لیے خصوصی انتظامات کیے جائیں اگر حکومت نے اہانت کا سلسلہ ترک نہ کیا تو محرم الحرام میں جلوسوں کا رُخ حکمرانوں کے ایوانوں کی جانب ہو گا۔ اس موقع پر زوار غلام رضا، زوار حسن رضا کاظمی، زوار جام مہتاب حسین، زوار عرفان حیدر اور دیگر موجود تھے۔

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree