The Latest

حقیقی خطرہ.. آئی اے رحمان. ڈان نیوز

مُحرّم کی نو اور دس تاریخ کسی بڑے سانحے کے بغیر گذرجانے پر سب نے اطمینان کا سانس لیا۔ یہ ایّام تدبر کے اظہار کا تقاضا کرتے ہیں لیکن اگر اس دوران شہریوں کی جان و مال کو کسی قسم کا خطرہ ہو تو پھر اس کا تدارک بھی ہونا چاہیے۔

کہا جاتا ہے کہ ان ایام میں دہشت گردوں نے مختلف مقامات پر تباہی پھیلانے اور بڑی تعداد میں قتل و غارت گری کا منصوبہ بنا رکھا تھا مگر بروقت ا اطلاع ملنے پر نہ صرف ان تخریبی اور دہشت گردی کارروائیوں کو ناکام بنادیا گیا بلکہ بڑی تعداد و مقدار میں اسلحہ اور گولہ بارود بھی قبضے میں لے لیا گیا، جس سے وہ بوکھلا کر رہ گئے۔

اطلاعات کے مطابق کراچی کو سب سے بڑا خطرہ لاحق تھا جہاں پولیس نے بروقت کارروائی کرکے دھماکا خیز مواد سے بھری گاڑی پکڑی تھی، جس سے یہ خطرہ ٹل گیا۔

اس طرح کے تدارکی اقدامات قابلِ تعریف ہیں لیکن یہ واضح نہیں کہ عام حالات میں بھی اس طرح کی کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے یا پھر یہ سب کچھ عاشور کے سبب کیے جانے والے سخت ترین حفاظتی اقدامات اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی انتہائی چوکسی کے سبب ہی ممکن ہوسکا تھا۔

عاشور کے موقع پر ڈیرہ اسماعیل خان میں ہونے والی بارہ ہلاکتوں کی بات دوسری ہے۔ نویں محرم کو سات اور عاشور کو پانچ ہلاکتیں ہوئی تھیں۔ اسے کوئی بڑا المیہ تصور نہیں کیا جاسکتا۔ یہ عقائد سے منسلک تشدد ہے جو سماج کی بے حسی اور عدم برداشت کی سطح کو ظاہر کرتے ہیں۔

لیکن کیا کسی نے ان ایام کے دوران پورے ملک میں خصوصی حفاظتی اقدامات پر اٹھنے والے اخراجات کا حساب کتاب کیا ہے؟

تقریباً دو تین روز کے لیے دفاتر اور اسکول بند رہے تھے، رہے لوگ توبڑی تعداد خوف کے باعث گھروں تک ہی محدود ہو کر رہ چکی تھی۔

تمام صوبوں کے پولیس سربراہوں نے خصوصی کنٹرول اینڈ مانیٹرنگ سیل قائم کردیے تھے۔ اس ضمن میں صرف پنجاب حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس نے دہشت گردی کے کسی بھی واقعے کو روکنے کے لیے دس لاکھ پولیس افسران و اہلکار تعینات کیے تھے۔ وہ تمام لوگ جنہوں نے اس طرح کے اقدامات میں حصہ لیا، کامیابی پر سراہے جانے کے مستحق ہیں۔

حتیٰ کہ وہ بھی جو موبائل فون کی بندش اور ڈبل سواری پر پابندی کے باعث اکثر اس دوران وزیرِ داخلہ پر تنقید کرتے رہے، انہیں پابندیوں کے سبب جس پریشانی سے گذرنا پڑا، خاص کر موبائل فون کے لاکھوں صارفین، وہ بھی بخیر و خوبی اس اہم دن کے گذرجانے پر سراہنے کے کے لائق ہیں۔

ان سب کے باعث ملک کی ایک بڑی شیعہ اکثریت کو اپنے عقائد کے مطابق اہم ترین مذہبی نوعیت کے ایّام کو کسی مجلس یا جلوس میں بنا کسی بم دھماکے یا تخریبی کارروائی کے منانے کا موقعہ میسر آیا۔

دہشت گردوں نے جس طرح پاکستانی ریاست کو پریشان کرکے انہیں خود سے دور رکھنے کے لیے بھاری اخراجات پر مجبور کیا، اسے دیکھ کر تو وہ خود آستین چڑھا کر ہنستے ہوں گے۔

جب وہ انٹیلی جنس ایجنسوں تک صرف اپنے سرگرم رہنے کی سادہ سی دھمکی پہنچا کر پورے ملک کو مفلوج کرسکتے ہیں تو پھر انہیں کیا ضرورت پڑی تھی کہ اپنے خودکش بمباروں کی جانیں اور دھماکا خیز مواد برباد کرتے؟

اس وقت دو سوالات نہایت توجہ کے طلب گار ہیں۔ پہلا یہ کہ عاشور کے ایّام میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جو چوکسی نظر آئی کیا اسے کسی خاص مدت تک برقرار رکھا جاسکتا ہے؟

اگر جواب نفی میں ہے تو پھر شک پیدا ہوتا ہے کہ عام حالات میں دہشت گردی کے واقعات دھیمے نہ پڑنے کے اسباب دیگر ہیں۔

سچ ہے کہ بڑے بڑے اجتماعات انہیں اپنے نظریات کے اظہار اور اس کے نفاذ کے لیے اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں تاہم دہشت گردوں سے اس بات کی توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ طویل عرصے تک اپنے ہتھیاروں کو بنا استعمال کے پڑا رہنے دیں گے۔

خظرناک ہتھیار رکھنے والے یہ دہشت گرد کبھی بھی اپنے سارے انڈے ایک باسکٹ میں رکھ کر ان کی نقل و حرکت نہیں کرتے کہ آسانی سے پکڑے اور کچلے جاسکیں۔

دوسرا یہ کہ کیا دہشت گردی کے اس خطرے سے مستقل طور پر نمٹنے کے لیے قابلِ برداشت حکمتِ عملی کی ضرورت ہے؟

یہ ضرور ہوا کہ عاشور کے موقع پر سخت اقدامات کے بدولت دہشت گردوں کے منصوبے ناکام ہوئے، جس پر وہ ضرور سیخ پا ہوں گے، یوں وہ مزید خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں، تاہم عاشور پر امن و امان کے لائقِ تحسین اور کامیاب اقدامات کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ ملک میں فرقہ وارانہ تشدد کے جن کو شکست دے دی گئی ہے۔

گذشتہ چند برسوں سے ملک میں شیعہ کمیونٹی کے خلاف تشدد کی لہر میں بدستور اضافہ ہوتا جارہا ہے مگر اب تک ہم نے اس مسئلے کو جڑ سے ختم کرنے کے لیے کسی حکمتِ عملی کے بارے میں نہ تو کچھ سنا اور نہ ہی دیکھا ہے۔

سادہ اور تکلیف دہ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ملک کے لیڈر، چاہے وہ حکومت کے اندر بیٹھے ہوں یا پھر باہر، وہ شیعہ کمیونٹی کے حقوق کا دفاع یا ان کے قتل کی مذمت کرنے سے خوف زدہ نظر آتے ہیں، حالانکہ جو یہ گھناؤنا فعل انجام دیتے ہیں، وہ مذمت کے ہی مستحق ہیں۔

جیسا کہ خود میڈیا میں بھی رپورٹ ہوا، ان خیالات کی تصدیق عاشور سے قبل صرف چار دن کے اندر دو درجن سے زائد شیعوں کی ہلاکتوں پر آنے والے ردِ عمل سے کی جاسکتی ہے۔

صدر اور وزیر اعظم سمیت زیادہ تر رہنماؤں نے بم دھماکوں کی مذمت کی، مرحومین کے لیے خدا سے دعائے مغفرت کی، متاثرہ خاندانوں سے یہ صدمہ برداشت کرنے کے لیے ہمدردی کا اظہار بھی ہوا مگر اس بہیمانہ قتل و غارت کے سلسلے کو روکنے کے لیے با معنیٰ اقدامات سے خالی یہ ایک دکھاوا تھا۔

جماعتِ اسلامی کے سربراہ نے بھی میڈیا سے گفتگو میں ایسا ہی کچھ کہا اور پھر دیکھا گیا کہ وہ فوراً ہی انتخابی اتحاد کے منصوبے پر بولنے لگے۔

متعدد اہم شخصیات نے اس کا حوالہ دیتے ہوئے نامعلوم ’دشمنوں’ کو ذمہ دار قرار دیا تو بعض نے ان ہلاکتوں کے پیچھے ‘غیر ملکی ہاتھ’ پر الزام دھر دیا۔

مجلسِ وحدت المسلمین نے شیعوں کے قتل کے خلاف متفقہ فتویٰ حاصل کرنے کے لیے تمام علما کا اجلاس بلانے کی درخواست کی مگر ان کی بات پر کسی نے کان نہیں دھرا۔

مختلف مذہبی جماعتوں اور دھڑوں بشمول دفاعِ پاکستان کونسل کے جغادری رہ نماؤں نے اس معاملے پر خاموش رہنے میں ہی عافیت سمجھی۔

وزیرِ اعلیٰ پنجاب نے شیعوں کی ہلاکت کے واقعات کا دو مرتبہ حوالہ دیا مگر اس تناظر میں وہ بھی اس سے آگے کچھ نہیں کہہ سکے کہ قاتل اور مقتولین دونوں ہی کلمہ گو ہیں۔

چاہے شیعوں کا قتل ہو یا کسی دوسرے مذہبی گروہ سے منسلک افراد کا، یہ ناقابلِ معافی جرم ہے، جس کی صرف مذمت کردینا ہی کافی نہیں۔

جس بیان کا اوپر حوالہ دیا گیا ہے، وہ ایسا ہی ہے کہ جیسے وزیرِ اعلیٰ کی جانب سے سڑک حادثے میں پچیس افراد کی ہلاکت یا پھر کسی گودام میں آتشزدگی پر جاری کردیا جاتا ہے۔

ان میں ایسے کوئی اشارے نہیں کہ جن لوگوں کی ہلاکتوں کے حوالے سے بیان دیا جارہا ہے، یہ وہ معصوم شہری تھے جنہیں اُن کے عقائد کی بنیاد پر مارا گیا، حالانکہ اس حقیقت کا ہمیں شدت سے اعتراف کرنا چاہیے تھا۔ بم دھماکوں کی مذمت تو کی جاتی ہے مگر اُن کے ذمہ داروں کا نام نہیں لیا جاتا۔

فرقہ واریت کا نشانہ بننے والوں کی شناخت بطور شیعہ ظاہر نہیں کی جاتی۔ تصور ہے کہ مقتولین اور قاتلوں کی شناخت ظاہر نہ کرنے کا مقصد کشیدگی کو بڑھنے سے روکنا ہوتا ہے مگر یہ خیال بڑا احمقانہ ہے۔ سب لوگ بات جانتے ہیں کہ کون مارا گیا اور کس نے معصوموں کو، اُن کے اپنی ہی خون میں نہلادیا۔

حقیقت تو یہ ہے کہ وم تمام لوگ جوکوئی نہ کوئی اثر یا اختیا رکھتے ہیں، بین العقائد امن کو لاحق خطرات تسلیم کرنے کو ہی تیار نظر نہیں آتے۔

مقدس مبلغین کے لبادے میں نفرت کا پرچار کرنے والے دوسروں کے بارے میں فیصلہ کرتے پھر رہے ہیں کہ کون مسلمان ہے اور کون نہیں۔

انہیں کس نے حق دیا ہے کہ وہ اپنے اس فیصلے کی بنیاد پرلوگوں کی زندگی و موت کا فیصلہ کرتے پھریں مگر وہ ایسا کررہے ہیں لیکن ان کے ہاتھوں لوگوں کی جان و مال کی سلامتی کو درپیش خطرات کے سدِباب کے لیے ریاست خاطر خواہ اقدام کرتی نظر نہیں آتی۔

اس ملک میں تب تک نہ تو امن قائم ہوسکتا ہے اور نہ ہی اس کےشہریوں کے لیے کوئی جائے پناہ ہوسکتی ہے، جب تک کہ نفرت کے اس عفریت کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دفن نہ کردیا جائے۔(اس آرٹیکل کو ڈان نیوز کی سائیڈ سے لیا گیا ہے ۔۔مجلس وحدت کی ویب سائیڈ کا بیرونی مواد سے مکمل ہم آہنگ ہونا ضروری نہیں ہے )

allama hasim010مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی رہنماء علامہ سید ہاشم موسوی نے ڈائریکٹر تعلقات عامہ بلوچستان خادم حسین نوری اور پولیس اہلکاروں کی شہادت پر گہرے دکھ اور غم کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایسی بزدلانہ اور وحشیانہ کارروائیوں کی شدید مذمت کرتے ہیں، مگر ہم اپنے خون کے آخری قطرے تک حق کہتے رہیں گے اور کسی باطل کے سامنے سرتسلیم خم نہیں کریں گے، اپنے ایک بیان میں ان کا کہنا تھا کہ کربلا سے ہمیں یہی درس ملتا ہے۔ گذشتہ روز ڈپٹی ڈائریکٹر تعلقات عامہ خادم حسین نوری کا قتل اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ دشمن ہمیں قتل و غارت جیسے حربوں سے ڈرانے کی کوشش کرتا ہے کہ شاید ہم اپنی سوچ اور نظریہ تبدیل کر دیں یا یہ شہر چھوڑ دیں۔ مگر یہ اس کی بھول ہے اور وہ ہمارے دشمنوں سے بھیک مانگتے ہوئے اور پیسہ کھا کھا کر تھک جائے گا مگر ہم اپنی سوچ اور ارادے پر ڈٹے رہیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم اپنی قوم اور مذہب کی خاطر ہر آن کھڑے ہیں، اور ہر قسم کی قربانی دینے کیلئے تیار ہیں۔ ہم بارہا حکمرانوں کو کہہ چکے ہیں کہ اگر پاکستان کی بقاء چاہتے ہو تو ان غیر ملکی دہشتگرد ایجنٹوں کو لگام دو، ورنہ اس وطن عزیز کا بیڑہ غرق ہو جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ملک کی چوکیداری کرنے والے ادارے کہاں ہیں، وہ خواب غفلت سے بیدار کیوں نہیں ہوتے۔ حکمران تو آتے جاتے ہیں اور اپنے لئے سو سالہ بینک بیلنس بنا کر بھاگ جاتے ہیں۔ مگر ملک کو جتنا نقصان پہنچے گا، اس کا ازالہ کون کرے گا۔

mwm liyyahمجلس وحدت مسلمین ضلع لیہ کے سیکرٹری جنرل جمیل حسین کا ’’اسلام ٹائمز‘‘ کیساتھ خصوصی انٹرویو کے دوران کہنا تھا کہ اتحاد بین المومنین کیلئے مجلس وحدت کے پلیٹ فارم سے کوششیں جاری ہیں، خود میری بھی چند نشستیں ہوئی ہیں شیعہ علماء کونسل کے ضلعی کوآرڈی نیٹر کیساتھ، اس کے علاوہ دیگر چھوٹی چھوٹی تنظیموں اور گروپس کیساتھ بھی میری نشستیں ہوئی ہیں، انہوں نے اس بات کو بہت پسند کیا ہے اور تائید بھی کی ہے کہ ایسا ہونا چاہئے اور ہم اس کیلئے تیار ہیں۔انہوں نے انتخابات میں ن لیگ کے ساتھ اتحاد کے سوال پر کہا کہ 

نہیں، ہرگز نہیں، ن لیگ کیساتھ کسی طور پر کوئی انتخابی اتحاد نہیں ہو سکتا، ق لیگ یا پیپلز پارٹی کیساتھ ہو سکتا ہے، لیکن ن لیگ کیساتھ نہیں ہو سکتا، یہ تو اب کلیئر ہو چکا ہے، ضلع لیہ میں خصوصاً رانا ثناء اللہ کی وجہ سے زیادہ نفرت پائی جاتی ہے، انہیں برداشت نہیں کیا جاتا، وہ بھی ہمیں برداشت نہیں کرتے، ان کے ذہن میں بھی یہی ہوتا ہے کہ شیعہ حضرات ہمیں ووٹ نہیں دیتے
ہمیں سب سے پہلے ان کا مقابلہ کرنے کیلئے متحد ہونے کی ضرورت ہے، اس قتل و غارت کو ہمارے اجتماعات روک سکتے ہیں، ہمارا ایک ہونا، پھر دوسرا عمل یہی ہے کہ تنگ آمد با جنگ آمد، پہلی ضرورت یہی ہے کہ ہماری صفوں میں اتحاد ہونا چاہیئے، ہمیں اکٹھا ہونا چاہیئے، وحدت کیلئے ہمیں دن رات کام کرنا چاہیئے، مومنین کے دل اور نظریں بہت زیادہ مجلس وحدت مسلمین کی طرف لگی ہوئی ہیں، اگر تاخیر ہو تو وہ ہماری سستی کی وجہ سے ہو سکتی ہے تاہم مومنین تیار ہیں، اور مجلس وحدت کو انتہائی عزت اور وقار کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں۔

ali rizvi gbمجلس وحدت مسلمین پاکستان بلتستان کے سکریٹری جنرل علامہ آغا علی رضوی نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ صوبائی حکومت نے امریکی ایجنٹوں کے اشارے پر آغا ضیاء الدین شہید کے قاتلوں کو جیل سے فرار کروانے کیلئے سیکیورٹی اداروں کو یوم الحسین (ع) کے موقع پر تکفیری طبقے کو سڑکوں پر لاکر مصروف رکھا اور موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دہشتگردوں کو اپنے ساتھیوں سمیت فرار کرانے میں کامیاب ہوگئی۔

انہوں نے کہا کہ شیعہ دشمنی اور دہشت گردی کو عملی جامہ پہنانے کیلئے یوم الحسین (ع) میں شریک طلبہ کو یونیورسٹی سے خارج اور بھاری جرمانے کا فیصلہ کیا گیا تاکہ شیعہ ملت اور نوجوان اس معاملے میں پھنسا رہے جبکہ امریکی و اسرائیلی منصوبہ ساز اپنے مذموم منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کا موقع فراہم ہوسکیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ علامہ نیئر عباس مصطفوی کی گرفتاری کے پیچھے دہشت گرد اور تکفیری عناصر کے علاوہ کرپٹ حکمران اور وزراء ہیں۔ موجودہ صوبائی حکومت گلگت میں عوام کے توجہہ کو منتشر کرکے رکھنا چاہتی ہے تاکہ بدعنوانیاں کھل کر سامنے نہ آئیں اور اپنی کرسی و اقتدار کو دوام ملے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اس وقت صوبائی حکومت میں ثلاثہ منحوسہ بن چکا ہے جس کی باہمی ملی بھگت سے گلگت کا امن تباہ و برباد ہوگیا ہے۔ اس میں امریکی ادارے، دہشت گرد تکفیری ٹولے اور کرپٹ حکومت، یہ تینوں طاقتیں ہرگز نہیں چاہتی کہ گلگت میں امن و امان ہو، اس مقصد کے لیے علامہ نیئر کو گرفتار کیا، یوم الحسین (ع) پر پابندی لگائی اور جیل سے تیسری بار دہشت گرد بھگائے گئے۔ حکومت ہمارے صبر کا مزید امتحان نہ لیں علامہ نیئر عباس کو رہا نہ کیا گیا تو بلتستان میں جو حالات پیش آئیں گے اس کی تمام تر ذمہ داری صوبائی حکومت پر عائد ہوگی۔در این اثنا علامہ سید حسین مطاہر موسوی رکن شوری نطارت مجلس وحدت نے علامہ سید علی رضوی سے سیکرٹری جنرل بلتستان کا حلف لے لیا

press.khatabمجلس وحدت مسلمین صوبہ پنجاب کے ضلعی عہدیداران کا اجلاس لاہور میں مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ محمد امین شہیدی کے زیرصدارت منعقد ہوا، جس میں پنجاب کے 37 اضلاع کے نمائندون نے شرکت کی۔ اجلاس صبح نو بجے سے شام پانچ بجے تک جاری رہا، جس میں موجودہ ملکی صوتحال اور آئندہ انتخابات سمیت ملکی سیاسی صورتحال کا تفصیلی جائزہ لیا گیا۔ تمام اضلاع نے اپنی سیاسی اور ملی حکمت عملی سے صوبائی کابینہ کو آگاہ کیا۔ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ایم ڈبلیو ایم پاکستان کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ محمد امین شہیدی نے کہا کہ پاکستان کو درپیش داخلی اور خارجی چیلنجز سے نمٹنے کیلئے تمام محب وطن قوتوں کا اتحاد نہایت ضروری ہے۔
اُنہوں نے کہا کہ دہشت گردی، کرپشن، لاقانونیت اور بے روزگاری ملکی استحکام کیلئے ایک بڑا چیلنج ہے اور ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام محب وطن قوتیں سر جوڑ کر بیٹھیں اور ملک کو ان بحرانوں سے نکالنے کیلئے جدوجہد کریں۔ علامہ امین شہیدی نے کراچی اور کوئٹہ میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ کے واقعات پر سخت تشویش کا اظہار کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا کہ کراچی اور کوئٹہ میں فوری طور پر فوجی آپریشن کیا جائے، تاکہ لوگوں کو تحفظ اور امن مہیا کیا جاسکے۔

allama hasan zafar mwmمجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ترجمان نے کہا ہے کہ کراچی کے مومنین نے ہمیشہ ملت جعفریہ پاکستان کے لئے روڈ میپ دیا ہے، ملت جعفریہ کی بیداری کے لئے کراچی کے مومنین ہمیشہ صف اول کا کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے نمائش چورنگی پر منعقدہ کفن پوش دھرنے کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ علامہ حسن ظفر نقوی کا کہنا تھا کہ آج کراچی کے مومنین نے 36 گھنٹوں پر مشتمل دھرنا دے کر یہ ثابت کر دیا کہ دشمن چاہے کتنی سازشیں کرلے لیکن یہ ملت جعفریہ اپنے حقوق کی جنگ کے لئے ہر میدان عمل میں موجود ہے، آج یہاں ملت کی تمام تنظیمیں، ماتمی انجمنیں و دیگر ادارے ایک ساتھ ہیں۔ انہوں نے سکیورٹی اداروں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اے ایجنسیوں آؤ اور نمائش چورنگی کے اس منظر کو دیکھو، آج اس ملت جعفریہ نے تمہارے اربوں ڈالر ضائع کر دیئے ہیں، تم نے جو اس ملت کو تقسیم کرنے کی سازش کی تھی وہ اس ملت نے آج اپنی بیداری اور اتحاد سے ناکام بنا دی ہے۔

yafiz naveed mwmمجلس وحدت مسلمین پاکستان کے سیکرٹری تعلیم یافث نوید کا کہنا ہے کہ امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے نوجوانوں کو یہ سعادت حاصل ہے کہ یہ نوجوان ہر سال عاشور کے بعد پورے پاکستان کے تعلیمی اداروں میں امام حسین (ع) کی عظیم قربانی کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے یوم حسین (ع) منعقد کرتی ہے جو کہ اُن کا حق ہے، گزشتہ چند سالوں سے کچھ شرپسندوں کو یوم حسین (ع) سے تکلیف ہو رہی ہے اور یہ بات واضح ہے کہ امام حسین (ع) سے تکلیف اُسی کو ہوگی جو یزیدی فکر اور سوچ کا حامل ہوگا، گزشتہ دنوں قراقرام یونیورسٹی گلگت میں یوم حسین (ع) کی تقریب منعقد کرنے کی پاداش میں امامیہ نوجوانوں کو یونیورسٹی سے بے دخل کیا گیا جو کہ یونیورسٹی انتظامیہ کی علم، اسلام اور انسان دشمن پالیسی کی علامت ہے، یونیورسٹی انتظامیہ نے چند شرپسندوں کے خوف سے بے گناہ طلباء کو یونیورسٹی سے نکالا ہے جو کہ یزیدیت کی ترجمانی ہے۔ قراقرم یونیورسٹی کی انتظامیہ ہوش کے ناخن لے اور طلباء کو بے دخل کرنے کے احکامات واپس لے ورنہ پوری قوم کراچی کی طرح ہر شہر میں دھرنا دینے پر مجبور ہو جائے گی، جس کی ذمہ داری حکومت پر عائد ہوگی۔ ان خیالات کا اظہار مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری تعلیم یافث نوید ہاشمی نے اسلام ٹائمز سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔

nasir sherazimwmپاکستان اقتصادی، معاشی، سیاستی سمیت دیگر بحرانوں سے دوچار ہے۔ ملک کی سلامتی خود مختاری کو خطرات لاحق ہیں، قوم مایوسی کا شکار ہے، ہر ایک کو چور لٹیرا سمجھتے ہیں۔ یہ حالات حکمرانوں کی ناقص پالیسیوں، کرپشن، لوٹ مار امریکہ اور مالیاتی اداروں کی غلامی کا نتیجہ ہیں جبکہ پاکستان وسائل سے مالا مال ہے۔ اللہ تعالٰی نے پاکستان کو ہر نعمت سے نوازا ہے مگر نااہل، بددیانت اور کرپٹ قیادت نے پاکستان کو اس حال میں پہنچایا ہے۔ کراچی میں خون کی ہولی کھیلی جارہی ہے۔ جس میں پیپلزپارٹی، ایم کیو ایم، اے این پی برابر کی شریک ہیں۔ حکومت بھتہ خوری، ٹارگٹ کلرز اور دہشت گردوں کو پکڑنے کی بجائے اپنی حکومت بچانے کیلئے سرپرستی کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو ناکام ریاست بنانے کیلئے غیر مستحکم کیا جا رہا ہے۔ بہاولپور اور جنوبی پنجاب کی عوام اپنے صوبوں کا مطالبہ کر رہی ہے جو اُن کا حق ہے مگر حکومت صرف پوائنٹ سکورنگ کے سوا کچھ نہیں کر رہی ہے۔ ان خیالات کا اظہار مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری سیاسیات سید ناصر عباس شیرازی نے ملتان میں آئی ایس او پاکستان کی ڈویژنل مسئولین کی ورکشاپ سے خطاب کرتے ہوئے کیا

krch.dhrna01ملت جعفریہ کی تاریخی کامیابی، حکومت مطالبات ماننے پر مجبور،41 گھنٹے بعد کفن پوش دھرنا ختم کرنے کا اعلان کردیا گیا۔ تفصیلات کے مطابق علامہ ناظر عباس تقوی نے اعلان کیا ہے کہ حکومت نے ہمارے مطالبات کو تسلیم کیا ہے، لہٰذا اس کفن پوش دھرنے کو ختم کرنے کا اعلان کرتے ہیں اور سندھ بھر کو جام کرنے کی دی جانے والی کال کو واپس لیتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ مذاکراتی کمیٹی کے وفدنے گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد خان سے مذاکرات کئے اور شیعہ قوم کے مطالبات حکام بالا کے آگے پیش کئے، جس پر گورنر سندھ نے مطالبات پر عملدرآمد کی یقین دہانی کرائی ہے۔ مذاکراتی کمیٹی میں شیعہ علما کونسل کے علامہ ناظر عباس تقوی، مجلس وحدت مسلمین کے علامہ صادق رضا تقوی، شیعہ ایکشن کیمٹی و مجلس وحدت کے علامہ مرزا یوسف حسین، قاسم نقوی، شیعہ علما کونسل کے علامہ جعفر سبحانی اورعلامہ شبیر حسن میثمی و دیگر شامل تھے۔
مذاکراتی کمیٹی نے مطالبات کئے تھے کہ آئندہ کسی پر بھی جھوٹا توہین رسالت کا مقدمہ قائم نہیں کیا جائے اور اس سلسلے میں موجود قانونی پیچیدگیوں کو دور کیا جائے، علامہ آفتاب حیدر جعفری و دیگر شہدائے قاتل فی الفور گرفتار کئے جائیں، دہشت گردوں کی سیاسی سرپرستی کرنے والے عناصر کے خلاف کارروائی کی جائے، قراقرم یونیورسٹی کے جن لڑکوں پر تعلیم کے دروازے بند کئے گئے ان تک تعلیم کی رسائی کو یقینی بنایا جائے، جن مجرمان کی سزائے موت پر عملدرآمد کو صدر زرداری کے حکم پر روکا گیا ہے ان کی سزا پر عملدرآمد یقینی بنایا جائے، جو این جی اوز سزائے موت کی سزا کو ختم کرانے کے لئے کوشاں ہیں ان کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے، شہداء کے خانوادگان میں سے کسی ایک فرد کو سرکاری ملازمت فراہم کی جائے،دہشتگردی میں شہید ہونے والوں کو دس لاکھ معاوضہ دیا جائے بعد ازاں شرکائے دھرنا پر امن طور پر منتشر ہوگئے۔
اس دھرنے آج ایک بار پھر یہ ثابت کردیا کہ ملت کے تمام رنگ اپنی الگ الگ شناخت کے باوجود ایک ہیں درحقیقت یہ ایک ایسا گلادان ہے جس میں مختلف اقسام کے پھول رکھے گئے ہیں جن میں ہرایک کی ایک الگ خشبوہے وحدت اور مشترکہ کوششوں کے اس سفر کو مزید آگے بڑھنا چاہیے

Allama raja nasir abbas jaffry.mwm.krcمیڈیا پر جاری ہونے والے ایک اہم بیان میں مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے کراچی میں ملک بھر میں جاری شیعہ نسل کشی کیخلاف گذشتہ روز سےتسلسل کے ساتھ کے ساتھ جاری ہزاروں مرد و زن کے دھرنے کے بارے میں کہاکہ کراچی شہر میں چوبیس گھنٹے سے دہشت گردی کیخلاف جاری منظم دھرنا اسلام اور ملک دشمن طاقتوں کے منہ پر طمانچہ ہے۔انہوں نے کہا کہ عوام دہشت گردوں سے زیادہ طاقتور ہیں اور دھرنا جاری رہیگا۔دھرنا قومی وحدت کا ایک اچھا نمونہ ہے
واضح رہے کہ اس دھرنے کہ جس کی دعوت شیعہ علما کونسل کراچی کی جانب سے دی گئی تھی جس کی حمایت تمام شیعہ جماعتوں نے کی ہے اور مجلس وحدت مسلمین کراچی اپنے کارکنوں کے ساتھ مسلسل اس دھرنے میں شریک ہے اور اس وقت یہ دھرنا قومی وحدت کی ایک اچھی مثال بن چکا ہے

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree