The Latest
ملک بھر میں آج نماز عید کے شرکاء نے بازو پر سیاہ پٹیاں باندھی اور نماز عید میں شرکت کی جبکہ ایک دوسرے سے گلے ملتے ہوئے عیدکی مبارکبادی کے ساتھ شیعہ نسل کشی کی تعزیت بھی پیش کرتے رہے جبکہ عوام نے عید کے دن سانحہ بابوسرٹاپ ،کراچی،کوئٹہ اور ملک بھر میں ملت جعفریہ کے شہداء کے لئے فاتحہ خوانی بھی کی ملک کے بعض مقامات پر شہداء کی قبروں پر حاضری دی گئی
سکردو میں ملت جعفریہ نے عید کی نماز کے دوران ریاستی سرپرستی میں اہل تشیع کے قتل عام کے خلاف شدید نعرہ بازی کی جبکہ عید کی نماز کے بعد دسیوں ہزار افراد کی ریلی یادگار شہداء سے برآمد ہوئی
ادھر پاراچنار،ڈی آئی خان اور کوئٹہ میں شہداء اور عوام کی ایک بڑی تعداد نے شہداء قبرستان میں حاضری دی اور شہیدوں کے مزار پر فاتحہ خوانی کی گلگت اور ستور کے مختلف مقامات میں بھی لوگوں نے نماز عید کے بعد شہیدوں کے مزار پر حاضری دی
گلگت بلتستان کی فضاء اس وقت مکمل سوگوار ہے اور عوام میں شدید غم وغصہ پایاجاتاہے عوام کا کہنا ہے کہ اب انہیں یہ احساس ہورہا ہے کہ اس یہ قتل عام ایک منظم سازش کا حصہ ہے جس میں ریاستی ادارے ملوث ہیں اور دہشت گردوں کو آشرباد حاصل ہے
سکردو میں سانحہ بابوسر ٹاپ کے سوگ میں آج چوتھے روزبھی بازار مکمل طور پر بند رہا جبکہ شہرکی فضاء سوگوار رہی
آج صبح نماز عید کے بعد مجلس وحدت مسلمین بلتستان،امامیہ مرکز،آئی ایس او کی جانب سے سے امامیہ مرکز بلتستان کی زیر قیادت نماز عید کے بعد یادگار چوگ سے ایک ریلی نکالی جو اس وقت حمید گڑھ چوک پر دھرنالگائے بیٹھی ہے
ریلی کے شرکاء حکومت سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ مسلسل ہونے والے تین سانحے ’’سانحہ کوہستان،سانحہ چلاس اور سانحہ ،بابوسرٹاپ کے قاتلوں کو کی گرفتاری عمل میں لائی جائے اور ان علاقوں میں آپریشن کیا جائےعوام کا کہنا ہے کہ اہل تشیع کے قتل عام میں ریاست شریک ہے اور ریاستی اداروں کی سرپرستی میں یہ قتل عام ہورہا ہے
مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے سیکرٹری جنرل علامہ ناصر عباس جعفری نے اپنے پیغام میں پاکستان بھر کے اہل تشیع سے اپیل کی ہے کہ وہ سانحہ بابو سر کے شہداء سے اظہار یکجہتی کے لیے بازوؤں پر سیاہ پٹیاں باندھ کر نماز عید میں شریک ہوں اور اس انسانیت سوز واقعہ کے خلاف پرزور احتجاج کریں۔ انہوں نے اپنے پیغام میں کہا کہ گلگت بلتستان کے معصوم لوگوں کے قتل کے واقعات میں ریاستی ادارے برابر کے شریک ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں اس بات کا یقین ہو چکا ہے کہ کوئٹہ سے گلگت تک اہل تشیع کے منظم قتل عام میں دہشت گردوں کی سرپرستی کی جا رہی ہے، پاکستان کے بانی اور وارث ہم ہیں اور ہم میں یہ صلاحیت ہے کہ ان مٹھی بھر دہشت گردوں اور ان کے آقاؤں کو سبق سکھا سکیں، ریاستی ادارے اپنی ناکامی کا اعتراف کریں تو ہم دفاع وطن میں خون کا آخری قطرہ تک بہا دیں گے۔
انہوں نے کہا کہ ملت تشیع کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھنا اور دہشت گردوں کو کھلی چھٹی دینا پاکستان کے مفاد کے برعکس ہے، حکمران امن عامہ کی بحالی میں مکمل طور پر ناکام ہو چکے ہیں، ملک مزید خانہ جنگی کا متحمل نہیں ہو سکتا، بروقت تدارک نہ کیا گیا تو سامراجی قوتیں دہشت گردوں کے ذریعے شام جیسے حالات پیدا کر سکتی ہیں، جس کا خمیازہ ہماری اگلی نسلوں کو بھگتنا پڑے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگر سانحہ بابوسر کے ذمہ داروں کی گرفتاری عمل میں نہ آئی تو عیدالفطر کے بعد ملک بھر میں احتجاجی کال دیں گے اور تمام حالات کی ذمہ داری حکومت اور ریاستی اداروں پر ہو گی۔ انھوں نے کہا کہ ہم میڈیا کے ذریعے حکومت اور عوام کو امریکی سفارت کاروں کی گلگت میں آزادانہ نقل و حمل کے بارے میں آگاہ کرتے آئے ہیں، لیکن اس بات کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا۔ عوام کے غم و غصہ کو قابو میں رکھنا اب ہمارے بس کی بات نہیں رہی، لہٰذا حکومت ہمارے مطالبات کو سنجیدگی سے لے۔
قلم اب مجبورہے کہ ایسے الفاظ لکھے جو اسے کبھی بھی پسند نہیں،صفحہ قرطاس لاچار ہے کہ ایسے تلخ الفاظ کا بوجھ برداشت کرے جسے اٹھانے کا تصور بھی کبھی اس نے نہیں کیا تھا
آخر کار کبھی نہ کبھی اس تلخ حقیقت کا قلم اور قرطاس نے سامنا کرنا ہی تھا کیونکہ اگر یہ سامنا نہ کریں تو پھر وہ مقصد مر جائے گا جو اس تلخ حقیقت کی چھری تلے مرغ بسمل کی طرح تڑپ رہا ہے
یہ تلخ اور انتہائی کریہہ حقیقت ہے کہ پاکستان میں اہل تشیع کے قتل عام کوروکنے کے بارے میں ریاست سمیت تمام سیکوریٹی کی کوئی خاص دلچسپی نظر نہیں آتی اور نہ ریاستی ڈنڈے سے گھبرایا ہوا میڈیا اس قتل عام اور مظلومیت کے حوالے سے کوئی خاص کام کرسکتا ہے کیونکہ میڈیا نے جہاں بھی آواز اٹھائی وہیں پر اس کا گلہ گھونٹ دیا گیا یا پھر اس صحافی کی لاش کسی ویرانے میں پڑی ملی یا شیعہ کلنگ نامی ایک ویب سائیڈ نے جب اہل تشیع کی مظلومیت کو اجاگر کرنا شروع کردیا تو ریاست نے اسے بند کردیا
اگر خود اہل تشیع آواز اٹھائیں تو فورا مخصوص ڈسک بنادئے جاتے ہیں اور پھر ٹاسک دیا جاتا ہے کہ انہیں ٹکڑے کرو ہراساں کرو ختم کرو ،گلی گلی میں عام آدمی اس صورت حال پر کہتا ہے کہ ہم ہی قتل ہوں ہم ہی کو ریاست جیل میں ڈالے ہم پر ظلم و ستم ڈھائے جس کی تازہ ترین مثال کراچی میں گذشتہ دو تین دن سے ہونے والے واقعات ہیں کہ بے گناہ جوانوں کو فورسز پکڑپکڑ کر لے جارہی ہے
ہم اکثر سوچتے ہیں کہ چیکوراکیسے بنا؟بلوچ کیوں ناراض ہیں؟کیوں (خاکم بدہن )ملک ٹوٹنے کی بات کی جارہی ہے کیا یہ سب میڈیا کی باتیں ؟لیکن اب بچہ بچہ سمجھ رہا ہے کہ اصل حقیقت کیا ہے
یہ حقیقت اب واضح ہے کہ انتہائی پلان کے ساتھ ایک مخصوص سوچ جو ملک کے تقریبا ہر شعبہ زندگی میں اثر رسوخ رکھتی ہے آفشل یا ان آفشل طور پر اس سوچ کو سپورٹ حاصل ہے جوملک میں اہل تشیع کی نسل کشی کا ایجنڈا رکھتی ہے جس کی جانب ڈان نیوز اخبار نے بھی اشارتا کچھ کہا ہے ،اور اردو زبان کے ایکسپریس اخبار نے بھی اسی جانب لکھا ہے
صورت حال ایسی بنتی جارہی ہے کہ سنجیدہ افراد کو عام شیعہ کو سمجھانا مشکل ہورہا ہے کہ وہ ایسے حالات کا سامنا اب بھی پرامن انداز سے کرے و اب بھی صبر سے کام لے ۔
اب شدت سے اس بات کے خطرات پیدا ہو چکے ہیں کہ جبر اور تشددکا جواب کہیں تشدد سے نہ دیا جائے
جو قطعی طور پر نہ صرف ملک و قوم کے لئے درست نہیں بلکہ خود اہل تشیع مکتب کے عقیدے اور اس کی تعلیمات کی بھی خلاف ہے لیکن تنگ آمد بجنگ آمد وہ انسانی ردعمل ہے جو کسی خاص مذہب فرقہ سے تعلق نہیں رکھتا بلکہ بحثیت انسان ہر انسان پر لاگو ہوتا ہے خاص کر کہ اس بات کو پیش نظر رکھتے ہوئے کہ یہ احساس پیدا ہوجائے کہ ریاست اور ذمہ دار ادارے بھی ان کے ساتھ ناانصافی برتتے جارہے ہیں اور انہیں انصاف نہیں مل رہا خواہ کسی تھانے کا ایس ایچ او ہو یا پھر عالیٰ عدلیہ ،ملکی سربراہ کو یا پھر سیکوریٹی کے ادارے ایک عام شیعہ اپنے لئے نہ صرف اجنبیت کا احساس کرچکا ہے کہ بلکہ اس خود پرہونے والے ظلم میں شریک نظر آنے لگا ہے شاید اسی اجنبیت کے بڑھتے ہوااحساس ہے کہ جسے عالمی سامرج سے اہم آہنگ اداروں نے محسوس کرلیا ہے جس مثال حالیہ دنوں میں ہیومن رائٹس کمیشن اور اقوام متحدہ کی جانب سے سانحہ بابوسرٹاپ پرجاری ہونے والا مذمتی بیان اور شیعہ نسل کشی کی جانب دنیا کو متوجہ کرنا ہے۔
جس طرح کی صورت حال جارہی ہے اس دیکھ کر تو یہی کہا جاسکتا ہے کہ شاید یہ انسانی معاشروں کا آخری وقت ہے
یہاں انصاف اسے ملے گا جس کے پاس لاٹھی ہوگی جو شرافت دیکھائے گا اور انسانی قدروں اور اپنے مذہب کی قدروں کی پابندی کریگا اسے کمزورسمجھ کر مرگ مفاجات سے دوچار کیا جائے گا
ہمارا خیال ہے کہ اب بھی کچھ وقت ہے کہ ایسے اقدامات کئے جائیں جوبڑھتی ہوئی اجنبیت کے خلاء کو پر کیا جاسکے اور آنے والا خطرناک حالات کو روکا جائے

ظلم پھر ظلم ہے بڑھتاہے تو مٹ جاتا ہے
خون پھر خون ہے ٹپکے گا تو جم جائے گا
خاکِ صحرا پہ جمے یا کفِ قاتل پہ جمے
فرقِ انصاف پہ یا پائے سلاسل پہ جمے
تیغِ بیداد پہ یا لاشہء بسمل پہ جمے
لاکھ بیٹھے کوئی چھپ چھپ کے کمیں گاہوں میں
خون خود دیتا ہے جلادوں کے مسکن کا سراغ
ظلم کی قسمتِ ناکارہ و رسواسے کہو
جبر کی حکمتِ پرکارکے ایما سے کہو
خون دیوانہ ہے دامن پہ لپک سکتا ہے
شعلہء تند ہے خرمن پہ لپک سکتا ہے
تم نے جس خون کو مقتل میں دبانا چاہا
آج وہ کوچہ و بازار میں آنکلا ہے
(حکمرانوں جان لو کہ تم کیا کر رہے ہو )
محبت گولیوں سے بو رہے ہو
وطن کا چہرہ خوں سے دھو رہے ہو
گماں تم کو کہ رستہ کٹ رہا ہے
یقین مجھ کو کہ منزل کھو رہے ہو
گوجرانوالہ میں ایم ڈبلیو ایم کی جانب سے القدس ریلی کا انعقادشیعان حیدر کرار ؑ ۔ مجلس وحدت مسلمین ضلع گوجرانوالہ کی کال پر القدس موٹر سائکل ریلی مرکزی امام بارگاہ گلستان معرفت کالج روڈ سے شروع ہو ئی اور مسجد و امام بارگاہ حسینہ ؑ قلعہ دیدار سنگھ میں ختم ہوئی بعد ازاں احتجاجی جلوس نکالا گیا جو مسجد حسینیہ ؑ سے شروع ہوا اور تھانہ قلعہ دیدار سنگھ کے سامنے اختتام پذیر ہوا مقررین نے جلوس کے شرکاء سے اسرائیل کے مسجد اقصیٰ پر قبضے اور پاکستان میں شیعہ ٹارگٹ کلنگ کے خلاف خطاب کیا اور حکومت و چیف جسٹس پاکستان سے مطالبہ کیا کہ پاکستان میں منصوبہ بندی کے ساتھ ملت جعفریہ کے جوانوں کو شہید کیا جارہا ہے ، ان دہشت گردوں کو گرفتار کر کے سر عام سزا دی جائے گوجرانوالہ سے مختار فورس ، اور آئی ایس او کے کارکنان نے قلعہ دیدار سنگھ کے جلوس میں مجلس وحدت مسلمین کے ساتھ شرکت کی ۔ بعد ازاں شیعان حیدر کرار کا ایک ہنگامی اجلاس امام بارگاہ علی زین العابدین میں زیر صدارت چیف آرگنائزر میاں فرحت عباس جعفری
منعقد ہوا جس میں سابق نشرو اشاعت سیکرٹری ایم ڈبلیو ایم گوجرانوالہ سید اصغر علی زیدی سید وقار حیدر زیدی ، سید میثم شیرازی کمانڈر مختار فورس ، سید ظفر عباس ٹھولے شاہ ، حفیظ جعفری آرگنائزر شیعان حیدر کرار ؑ قلعہ دیدار سنگھ ، سید انیس رضا نقوی صدر ماتمی سنگت ملکہ وفا ؑ سید اختر حسین نقوی ۔ سید علمدار حسین شیرازی ، سید عظیم بخاری و دیگر ذیلی تنظیموں کے کارکنان نے شرکت کی ۔ اجلاس میں سانحہ بابو سر کے خلاف قرار داد منظور کی گئی اور حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ غیر جانبداری کا مظاہرہ کرے اور پاکستان میں ملت جعفریہ
کے تحفظ کو یقینی بنائے
مجلس وحدت مسلمین ٹھل کی جانب سے جمعتہ الوداع یوم القدس و احتجاجی ریلی امام بارگاھ حسینی سے نکالی گئے اور ریلی سے ختاب کرتے ضلعی امور شھدا سیکرٹری غلام یاسین برڑو کہا استعماری قوتوں سے مقابلے کیلئے مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر متحد ھونا پڑیگا اورقبلہ اول کی آزادی کے لئی مسلمانوں کو اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر ایک پلیٹ فارم پر متحد ہونا ضروری ہے.اور انھون نے کہا کہ مانسہرہ مین بس سے اتارکر شناخت کے بعد شیعہ مومنین کو بے دردی سے قتل کرنے کی مذمت کرتے ھوئے حکومت سے مطالبہ کیا کہ گلگت.چلاس.کراچی. قوئٹہ سمیت دیگر علاقوں مین شیعہ مومنین کا قتل ملک مین فسادات کرانے کی سارش ہے جبکہ حکومت شیعہ کمیونٹی کو تحفظ فراہم کرنے میں مکمل ناکام ہوچکی ہے انھون نے چیف جسٹس آف پاکستان سے مطالبہ کیا کہ وہ شیعہ مومنین کے قتل پر بھی سوموٹوایکشن لیں اور شیعہ مومنین کے قتل میں ملوث افراد کو گرفتار کرکے سزائیں دی جائے اور مجلس وحدت مسلمین ٹھل کے سیکرٹری جنرل سید آفتاب علی شاھ نے مانسہرہ واقعے کی شدید مذمت کے اور عید کا دن سوگ کے تور پر منایا جائیگا
پاکستان میں مرکزی رویت ہلال کیمیٹی کے سربرای مفتی منیب الرحمن نے اعلان کیا ہے کہ عید سوموار کو ہوگی
لیکن اکثر یورپی ممالک اور بعض عرب ملکوں میں بھی عید اتوار کو ہورہی ہے ادھر ایران میں ولی فقیہ حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اعلان کیا کردیا کہ کل عید ہے ایرانی دارالحکومت تہران میں نماز عید ولی امر مسلمین کی امامت میں ادا کی جائے گی
جبکہ عراق میں بھی عید سوموار کو ہوگی عراق میں آیت اللہ سیستانی کے مطابق عید کے چاند کی رویت ثابت نہیں ہوئی
پاکستان میں عید کے چاند کو لیکر ہر سال کی طرح اس سال بھی اختلافات رہے خیبر پختونخوا کی حکومت نے عید کا اعلان کردیا ہے جبکہ مرکزی رویت ہلال کیمٹی اور ماہرین نے عید سوموار کو قراردیا ہےمجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ترجمان علامہ حسن ظفر نقوی نے مرکزی رویت ہلال کیمٹی کے اعلان کی تائید کی ٹی وی پر چلنے والے ٹریکر کے مطابق علامہ حسن ظفر نے کہا ہے کہ عید سوموار کو ہی ہوگی
پاکستان میں ملت جعفریہ سانحہ بابوسرٹاپ اور یوم القدس کراچی کے سبب عید کو انتہائی سادگی سے منائے گی
سانحہ بابوسر ٹاپ اور کوئٹہ میں ٹارگٹ کلنگ کیخلاف مجلس وحدت مسلمین کوئٹہ کی جانب سے احتجاجی ریلی نکالی گئی۔ ریلی دفتر مجلس وحدت مسلمین حاجی
آباد یونٹ سے ہوتے ہوئے آباد علمدار روڈ پر اختتام پذیر ہوئی۔
ریلی میں سینکڑوں مظاہرین نے شرکت کی، جسکی قیادت مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے رکن شوریٰ علامہ سید ہاشم موسوی اور علامہ ولایت حسین جعفری نے کی۔ ریلی کے شرکاء نے پلے کارڈز اُٹھا رکھے تھے جن پر حکومت وقت کیخلاف نعرے درج تھے۔ ریلی کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے علامہ سید ہاشم موسوی نے کہا کہ پاکستان کی حکومت اور انتظامیہ ملک میں جاری دہشتگردی کو روکنے میں مکمل ناکام ہوچکے ہیں۔ انہوں نے اس واقعے کی شدید مذمت کی اور چیف جسٹس آف پاکستان سے مطالبہ کیا کہ وہ واقعہ کا ازخود نوٹس لیکر دہشتگردوں کو کیفر کردار تک پہنچائیں۔
انہوں نے حکومت وقت کو ایک مرتبہ پھر متبنہ کیا کہ دہشتگردوں کا جلد از جلد قلع قمع کیا جائے، ورنہ پاکستان کے تمام شیعہ مسلمان اسلام آباد کا رخ کرکے اقتدار پر بیٹھے حکمرانوں کا احتساب کرینگے۔ ریلی کے آخر میں شہیدوں کے درجات کی بلندی اور زخمیوں کی جلد صحت یابی کیلئے دعائیں کی گئی۔
آج گلگت بلتستان کے لئے سی ون تھرٹی طیاروں نے پہلی پرواز کی اور کچھ مسافروں کو سکردو اور گلگت ائرپورٹ پہنچا دیا جو کہ انتطامیہ کی جانب سے دیر آید لیکن درست آید عمل ہے
لیکن اب جو خاص زرائع سے اطلاعات موصول ہورہی ہیں اور مقامی انتظامیہ جن خفیہ اطلاعات کی بات کر رہی ہے اس کے مطابق پانچ سو کے قریب دہشت گردوں کا لشکر گلگت بلتستان میں چلاس کوہستان اور اس کے ملحقہ علاقے سے داخل ہوچکا ہے جو کسی بھی بڑی کاروائی کاسبب بن سکتا انتہائی خفیہ زرائع کی فراہم کردہ ان معلومات کے بعد اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت سیکوریٹی فورسز اور انٹیلی جنس ادارے کیا اقدامات کرتے ہیں
لیکن مقامی عمائدین تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ انیس اٹھاسی کی طرح اس پر امن خطے میں کسی بڑے لشکر کشی کی تیاری کی بو محسوس ہو رہی ہے انیس سو اٹھاسی میں اس وقت کے متعصب ڈکٹیٹر ضیا ء الحق نے اپنی فورسز کی سرپرستی میں گلگت بلتستان پر لشکر کشی کرائی تھی جس میں گلگت کے متعدد علاقوں کو تاراج کیا گیا تھا ۔
مسلسل رونما ہونے والے تین بڑے سانحوں نے مقامی افراد کی سوچ میں چند چیزوں کو تقویت دی ہے
الف:ریاست جان بوجھ کر اس خطے کے امن وامان کے بارے میں نہ صرف غفلت کا مرتکب ہورہی ہے بلکہ کو ئی خاص قسم کا ایجنڈا رکھتی،جبکہ بعض سوچتے ہیں کہ ریاست اور ریاستی اداروں کو اہل تشیع کے قتل عام سے کوئی فرق نہیں پڑتا یہی وجہ ہے کہ کوئی خاص قسم کا ایکشن نہیں لیا جاتا
ب:بعض کا خیال ہے کہ یہ خاص ایجنڈہ اس عالمی گریٹ ایجنڈے کا حصہ ہے جس کی تکمیل اس وقت امریکہ پاکستان میں چاہتا ہے پاکستان میں خانہ جنگی کراکر ملک کو ناکام ریاست ڈیکلیئر کرنا ،چائنہ کے مفادات کو زک پہنچانا
ج:بعض افراد سوچتے ہیں کہ اس سانحات کے پیچھے ان مذہبی جنونیوں کا ہاتھ ہے جن کی مخصو ص سوچ اور مخصوص عسکری تربیت ہمارے اداروں نے افغان جہاد کے نام پر کی تھی اور کیونکہ پاکستانی اداروں میں اب بھی ایسے افراد موجود ہوسکتے ہیں جوانفرادی طورپر اس سوچ اور شدت پسندوں کے لئے نرم گوشہ رکھتے ہیں اور شدت پسند ان کے نرم گوشے کا بھر پور فائدہ اٹھا رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ بڑے سے بڑے جرم کے بعد بھی وہ پکڑئے نہیں جاتے ،اور کسی بھی دہشت گردانہ کاروائی کے لئے ان کے پاس درست معلومات اور لوجسٹیک مدد حسب ضرورت رہتی ہے
د: بعض افراد کا یہ بھی کہنا ہے کیونکہ ریاست،ریاستی ادار ے اور دہشت گرد یہ جانتے ہیں کہ اہل تشیع اپنے مکتبی عقائد اور تعلیمات کے سبب کسی بھی قسم کی دہشت اور بربریت کا جواب بربریت سے نہیں دیتے اور اہل تشیع کے ہاں کوئی خودکش بمبار پیدا نہیں ہوتا ،کیونکہ شیعہ نے کبھی بھی جوابا کوئی بڑا ردعمل نہیں دیکھایا اور نہ وہ دیکھاینگے،کیونکہ اہل تشیع گروپوں میں تقسیم ہیں لہذا اگر دہشت گرد وں کا رخ اس جانب ہی رہے تو یہ ریاست کے لئے کچھ بہتر ہی ہے ۔
عوام کے ذہنوں میں موجود یہ خیالات کس قدر حقیقت پر مبنی ہیں اس بات سے قطع النظر ان خیالات سے ایک بات ثابت ہورہی ہے کہ ملک کی آبادی کا بیس سے تیس فیصد حصہ خود کو اپنے ہی وطن میں اجنبی محسوس کرنے لگا ہے اور یہ احساس خطرے کی گھنٹی سے کسی طور کم نہیں اپنے جب پرائے بنے لگیں تو پھر پرائے اپنے بن جاتے ہیں جو کسی بھی طور قابل قبول نہیں ہوسکتا
لہذا حکومت سمیت تمام ملکی اہم اداروں کو بروقت اقدامات کرنے کی ضرورت ہے وگرنہ خدا نہ کرے کہ وہ دن آئے کہ اپنے پرائے ہوں۔۔۔