حجتہ الاسلام آغا سید علی رضوی کا تعلق اسکردو نیورنگاہ سے ہے۔ آپ حوزہ علمیہ قم اور مشہد کے فارغ التحصیل ہیں۔ آپ بلتستان میں انقلابی تحریکوں کے سرخیل رہے ہیں۔ انجمن امامیہ بلتستان میں بھی تبلیغات کے مسئول ہیں۔ انقلابی فکر کے حامل جوانوں میں آپ کی مقبولیت غیر معمولی ہے۔ آپ کو پورے بلتستان میں مقاومت کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ تمام ملی بحرانوں میں جوانوں کی نطر آپ پر ہوتی ہے۔ آپ اسلام ناب کے مبلغ، ولایت فقیہ کے پیرو اور وحدت کے علمبردار ہیں۔ آپ نے بلتستان جیسے علاقے میں ہاتھوں میں ہتھکڑیاں پہننا اور جیل کی سلاخوں کے پیچھے جانا حکومت وقت کے سامنے جھکنے سے بہتر سمجھا اور پاکستان پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں گرفتار ہوئے، اگرچہ آدھا گھنٹہ گزرنے نہ پایا تھا کہ جوانوں نے حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا تھا۔ بیورکریسی اور انتظامیہ آپ کو الجھانے کیلئے کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتی۔ اس وقت مجلس وحدت مسلمین پاکستان بلتستان ڈویژن کی مسئولیت آپ کے کندھوں پر ہے۔ آپ سے اسلام ٹائمز نے ایک انٹرویو کیا ہے، جو اپنے محترم قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔

اسلام ٹائمز: پاکستان کے موجودہ حالات کو آپ کس نگاہ سے دیکھتے ہیں جبکہ پوری قوم چھیاسٹھواں یوم آزادی بھی منا چکی ہے۔؟
آغا علی رضوی: جی محترم! شکریہ آپ نے مجھے ملکی، عالمی اور علاقائی حالات پر گفتگو کا موقع دیا۔ جیسا کہ وطن عزیز کو آزاد ہوئے چھ عشرے سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے اور قوموں کی زندگی میں اتنا عرصہ نہایت اہمیت کا حامل ہوتا ہے، یہ کوئی مختصر اور معمولی دورانیہ نہیں اور جوں جوں زمانہ آگے گزرتا جا رہا ہے وطن عزیز کی مشکلات اور پریشانیوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ وطن عزیز کے دشمنوں کی سازشیں تیز ہوتی جا رہی ہیں۔ دھماکے، خودکش حملے، قتل، ڈکیتی، اغواء اور فرقہ واریت کے ذریعے ملکی استحکام و سلامتی پر ضربیں لگائی جا رہی ہیں، لیکن میرا اس بات پر یقین ہے کہ کوئی مشکل ایسی نہیں ہوتی کہ جس کے بعد آسانیاں نہ ہوں۔ یقیناً یہ باد مخالفت اونچا اڑانے کیلئے ہی ہے۔ ان تمام مشکلات کا مقابلہ قوم کرسکتی ہے، ہماری قوم میں اتنی طاقت ہے کہ ان تمام مسائل سے مقابلہ کرسکے۔ قومی حمیت، شجاعت و بہادری اور عزم و ادارے سے ان تمام مشکلات پر قابو پاکر اقبال اور جناح کا پاکستان بنا سکتے ہیں، بلکہ میں یوں کہوں کہ دشمن کو جناح اور اقبال کے خواب کی تعبیر سے ڈر لگتا ہے، اس لیے اس خواب کو شرمندہ تعبیر ہونے سے روکنے کیلئے وطن عزیز میں فسادات کروا رہے ہیں۔ تمام محب وطن پاکستانیوں کو چاہیے کہ جس طرح سے ہمارے آباء و اجداد نے اس ملک کو آزاد کرانے میں جتنی قربانیاں دی ہیں، ہم بھی اس اسلامی مملکت کو بچانے کے لیے ہر ممکن قربانی سے دریغ نہ کریں۔

اسلام ٹائمز: محترم، وطن عزیز جن مسائل اور مشکلات سے دوچار ہے، اسکے اصل ذمہ دار کون ہیں۔؟
 آغا علی رضوی: دیکھیں یہ سوال جتنا مختصر ہے جواب اتنا ہی طویل ہے، وطن عزیز کو درپیش مسائل کے ذمہ دار کون ہیں۔ فرض کریں ذمہ دار کا علم بھی ہو، تو حل ذمہ داروں کی پہچان میں نہیں، ان میں سے اکثر تو ایسے ہیں جو مرچکے ہیں، لیکن کیا انکو قبروں سے نکال دیں گے؟ بلکہ ایسا ہو کہ جو غلطیاں ماضی میں قوم سے سرزد ہوئیں، اس کی تکرار نہ ہو، ان غلطیوں سے عبرت حاصل کرنا اصل کام ہے، ماضی سے سبق لے کر حال میں وہ کردار ادا کریں کہ مستقبل سنور جائے اور یہاں میں یہ بتاتا چلوں کہ ذمہ داروں میں بیورو کریسی بھی ہے، سیاستدان بھی، فوجی جرنیل بھی ہیں اور بعض مواقع پر عوام نے بھی غلطیاں کی ہیں۔ مثلاً ملک میں فرقہ واریت کا اصل ذمہ دار ضیاء الحق ہے، اسکے ساتھ کیا کریں گے۔

اسی طرح ہمارے وطن کو اکہتر میں تقسیم کیا گیا، اس میں بیورکریسی کی غفلت تھی، آپ ان کے ساتھ کیا کرسکیں گے۔ ہم نے ان سے عبرت لینی ہے، تاکہ ان تاریخی غلطیوں کی تکرار نہ ہو اور ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکے۔ ملک میں بسنے والے نافہم، ناسمجھ، مفاد پرست، متعصب، جاہل، شدت پسند، بزدل لوگوں کو ہوش کے ناخن لینا چاہیں اور اپنے اپنے وسائل کو اسلام و پاکستان کی بربادی و بدنامی کی بجائے اسلام و مسلمین اور وطن عزیز کی نیک نامی اور صلح و آشتی و تعمیر و ترقی کی راہ میں استعمال کرنا چاہیے اور چند روزہ عیش و نوش و مفاد پرستی اور دشمن کے ہاتھوں کھلونا بننے کے بجائے صبر و تحمل، ہوشیاری و بیداری اور استقامت و غیرت سے اسلام و پاکستان کی سربلندی و عزت و افتخار کے لیے مسلسل جدوجہد کرنی چاہیے۔

اسلام ٹائمز: ان دنوں نئی حکومت برسر اقتدار ہے، ان کے نعرے بھی کھوکھلے معلوم ہونے لگے ہیں، دہشتگردی کا سلسلہ جاری اور دہشتگردوں کے ساتھ مذاکرات کی باتیں بھی کی جا رہی ہیں۔ کیا آپ ان مذاکرات کو ملکی سلامتی کیلئے درست سمجھتے ہیں۔؟
آغا علی رضوی: نئی حکومت کے نعرے صرف اور صرف عوام کو دھوکہ دینے کیلئے تھے۔ ان کے قول اور فعل میں واضح تضادات موجود ہیں۔ ان کی پالیسیز حقائق کے مطابق نہیں بلکہ دباو کے تحت بنائی گئی ہیں۔ حکومت جب تک ملک کو درپیش مسائل کی جڑ تک نہ پہنچ جائے تو ممکن نہیں کہ ان مسائل کا راستہ روک کر مشکلات کو حل کرسکے۔ دہشت گردی، مہنگائی، قتل و غارت وغیرہ علامات ہیں، یہ مسائل کی اصل جڑ نہیں۔ ممکن ہے اگر حقیقت کی طرف جائیں تو حکومت اور قومی و صوبائی اسمبلیوں کے اراکین ہی ان مشکلات و مسائل کے اسباب میں سے ہوں۔ خاص کر مہنگائی اور بدامنی کی ڈوریں تو سرمایہ داروں کی طرف جاتی ہیں اور حکومت ہی سرمایہ داروں کی ہے۔ حکومتوں کو گرانے اور بنانے میں بنیادی کردار ہی ان کا ہوتا ہے۔ غریب عوام تو ملک کی تقدیر کو بدلنے کیلئے ووٹ ڈالتے ہیں، لیکن اکثر اوقات ملک کی تقدیر بدلنے کی بجائے ان کے ووٹ ہی بدل جاتے ہیں۔ مسائل و مشکلات کی ایک وجہ عالمی اسکتبار و استعماری طاقتیں ہیں، جن کے ہاتھوں سرمایہ دار اور حکومتی مشینری اسیر ہے۔ جو اسلامی ممالک میں بدامنی اور دنیا میں فسادات پھیلا کر صلح و امن کے نام پر اس ملک میں مداخلت کرتی ہیں۔

بلکہ یوں کہوں تو بے جا نہ ہوگا کہ وہ اس ملک کو بلیک میل کرکے اپنے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ مقصد کلام یہ ہے کہ ملک میں دہشت گردوں کیساتھ مذاکرات درست ہے یا غلط ہے اس پر کچھ بولنے سے قبل اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ دہشت گرد صرف ایک مائنڈ سیٹ کا نام نہیں بلکہ ان کے کئی نظریاتی گروہ ہیں، بعض کے تانے بانے امریکہ و اسرائیل سے جا ملتے ہیں اور بعض دنیا بھر میں مسلکی اختلافات ڈالنے والوں سے۔ ان تمام دہشت گردوں کا نکتہ اشتراک اپنے پسند کا دین نافذ کرنا ہے۔ انکے نزدیک باقی سب کافر ہیں، اور کافروں کو مارنا واجب ہے۔ اس وقت پوری دنیا میں یہ شیطانی نظریاتی فکر برسرپیکار ہے اور انسانیت کا مذاق اڑا رہی ہے اور انکے لئے تکفیری گروہ کی اصطلاح بھی بہت مناسب ہے۔ یہ طبقہ نہ شیعوں کا دوست ہے اور نہ سنیوں کا، بلکہ وہ حضور اکرم (ص) کے اسلام کا مخالف ہے۔ ان کے نزدیک وہی اسلام درست ہے جو انکے دماغ میں ہے اور عجیب نظریہ فکر ہے کہ جو طاقتیں اسلام کے خلاف سرگرم عمل ہیں، ان کے خلاف نہ انکا فتویٰ جاری ہوتا ہے اور نہ حکم جہاد۔
 
اس سے واضح ہوتا ہے کہ یہ تکفیری ٹولہ عالمی استعماری اور استکباری طاقتوں کے ایجنڈے پر کاربند ہے۔ لہٰذا سب سے پہلے جہاں جہاں ان کو فکری اور نظریاتی خوارک ملتی ہے، چاہے وہ مدارس ہوں یا تنظیمیں۔ ان جگہوں پر اسلام محمدی کا پرچار کیا جائے اور امریکی و یزیدی اسلام کی حوصلہ شکنی کی جائے۔ اسلام سلامتی اور امن و بھائی چارگی کا دین ہے، یہ انکو منظم طریقے سے سمجھایا جائے۔ دوسرا یہ کہ امریکہ سمیت دیگر ممالک کو پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی اجازت نہ دیں اور دوسری بات ملک میں انارکی پھیلانے والے چاہے وہ عام آدمی ہو یا سرکاری افسران، انہیں کڑی سزا دی جائے۔ ریاست کے دشمنوں کو آئین کے مطابق سزا دی جائے۔ اگر یہ سلسلہ شروع ہو جائے تو پاکستان کے آدھا سے زیادہ مسائل اسی طریقہ سے حل ہو جائیں گے، پھر دیگر مسائل کے لئے حکمت علمی کے تحت کام کیا جائے۔

آپ کے سوال کی طرف جائیں تو یہ بات واضح ہے دہشت گردوں سے مذاکرات اصل میں آئین پاکستان سے روگرانی کے مترادف ہے۔ دہشت گردوں اور قاتلوں کو آئین کے تحت سزا دی جاتی ہے۔ لٹکایا جاتا ہے نہ کہ ان کو تحفظ فراہم کریں۔ دہشت گردوں سے مذاکرات یعنی ان کا تحفظ، دہشت گردوں سے مذاکرات یعنی سزا و جزا کے اصول سے روگرانی۔ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ دہشت گردوں سے تعلق رکھنے والوں کو آئین کے مطابق سزا دی جائے۔ اگر ان کے خلاف ریاست کی رٹ قائم نہیں ہوسکتی تو کل ایک ٹولہ اور ملک میں انارکی شروع کرے گا۔ جو دہشت گردوں سے مذاکرات کی بات کرتے ہیں، وہ دراصل احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں، کیونکہ پاکستان میں جو ٹولہ سرگرم عمل ہے، وہ بنیادی طور پر اسلامی جمہوریہ پاکستان کے سر سخت مخالف ہے اور اس خطہ پر اپنی پسند اور مرضی کا آئین دیکھنا چاہتا ہے۔

اسلام ٹائمز: محترم گلگت بلتستان میں جو حالیہ افسوس ناک واقعات پیش آئے، جن میں آرمی کے اعلٰی افسران اور اس سے قبل سانحہ نانگا پربت پر غیر ملکی سیاح قتل ہوئے، ان کے پیچھے کیا اہداف ہوسکتے ہیں اور ان کے پیچھے کن کا ہاتھ ہوسکتا ہے۔؟
آغا علی رضوی: آپ سانحہ نانگا پربت کو آرمی افسران کے قتل سے جدا نہ کریں، یہ دونوں ایک سلسلے کی ہی کڑی ہے اور یہ بات بھی واضح ہے کہ سانحہ نانگا پربت کی ڈوریاں بیرونی ممالک کے ہاتھ میں تھیں اور ان تفتیشی افسران کے ذریعے اصل مجرموں کا انکشاف یقینی تھا، اس لئے سانحہ نانگا پربت واقعہ کے انکوائری افسران کو راستہ سے ہی ہٹا دیا گیا۔ اس کے مقابلے میں ہماری سکیورٹی اداروں کی بے بسی بھی دیکھنے میں آئی، ورنہ کیسے ممکن ہے کہ قاتلوں کی گرفتاری نہ ہو، سانحہ چلاس، کوہستان، بابوسر، اسی طرح نانگا پربت واقعات سے سب سے زیادہ جس کو فائدہ پہنچا ہو، وہی اس کا اصل مجرم ہے۔ اگرچہ مقامی افراد کا استعمال بھی یقینی ہے۔ دیکھیں تو واضح ہو جاتا ہے کہ شاہراہ قراقرم اور گوادر کے نواحی علاقے اسٹریٹیجک کے حوالے سے اہم ہیں، پاکستان کے علاوہ یہ دونوں منصوبے چائنہ کیلئے بھی اہم ہیں، اور عالمی سطح پر چائنہ اور امریکہ رقیب ہیں، چائنہ کی معیشت کو کمزور کرنے کے لئے جہاں امریکہ کے پاس دیگر طریقے ہیں، وہاں ان علاقوں میں فسادات کروا کے چائنہ کی مشرق وسطٰی تک آسان رسائی کو خراب کرنے کے علاوہ امریکہ اپنی ان کارروائیوں سے عالم اسلام میں بے چینی پھیلانا چاہتا ہے، کیونکہ اسلامی ممالک جتنے کمزور ہو جائیں، اتنا ہی یہود و نصاریٰ کی کامیابی ہے۔ لہٰذا ان تمام فسادات کی جڑ امریکہ ہے۔ امریکہ اپنے علاوہ کسی دوسرے ملک خصوصاً اسلامی ممالک میں آزادی اور ترقی کو پسند نہیں کرتا، جس سے اسکی چوہدراہٹ کو خطرہ لاحق ہو۔
 
لہٰذا وہ اپنے سپر پاور بننے کے خواب کو سچ کرنے کے لیے ہرممکن، جائز و ناجائز طریقوں سے آزادی اور ترقی کے راستوں کو بدامنی، فسادات اور دیگر سازشوں کے ذریعے روکنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ دنیا میں جہاں جہاں بدامنی اور فسادارت نظر آتے ہیں، اگر ہم گہرائی میں جاکر دیکھیں  تو وہاں امریکہ کا ہاتھ ضرور دکھائی دیتا ہے۔ امریکہ نہ آزادی کا حامی ہے، نہ جمہوریت اور نہ ہی امن پسند اور نہ ترقی پسند۔ امریکہ دہشت گردی کا مخالف ہے نہ شدت پسندی کا، نہ آمروں کا مخالف ہے اور نہ تعصب و فساد کا، بلکہ امریکہ صرف اپنے مفادات کے پیچھے ہے، اور اپنے مفاد کے حصول اور تحفظ کے لیے کوشاں ہے۔ اس کے مفادات کی راہ میں جو رکاوٹ بنے، یہ اسکو پسند نہیں کرتا۔ اگرچہ جمہوریت، آزادی و ترقی ہی کیوں نہ ہو۔ جبکہ یہ اپنے مفادات کا تحفظ کرنے والے کو سپورٹ کرتا ہے، اگرچہ وہ آمر، قاتل، جاہل  اور مفسد ہی کیوں نہ ہو۔ لیکن اب دنیا سمجھ چکی ہے، مسلمان بیدار ہوچکے ہیں، مستضعفین کو ہوش آچکا ہے، وہ وقت قریب آچکا ہے جب امریکہ و استعماری طاقتیں اپنی تمام تر ناانصافیوں اور سازشوں کے ساتھ نابود ہو جائیں گی، اور دنیا میں امن و سلامتی اور انصاف کا راج ہوگا۔ یہود و نصاریٰ اور بنی اسرائیل کی سازشوں کے جال، مکر و فریب کی چالیں اور مادیات و فحاشیات و منشیات کی جادوگری کو ختم کرنے کے لیے عصائے موسٰی ہاتھ میں لے کر بے دینی، بے غیرتی، بے حیائی  کی وباء و سرطان اور تعصب و جہل و ظلمت و ناانصافی و تاریکی و اندھیر نگری کے سر کو کچل دینے کا وقت قریب آگیا ہے۔

ایم ڈبلیو ایم کے سربراہ نے اسلام ٹائمز کو دیئے گئے انٹرویو میں کہا کہ قطر، سعودی عرب و دیگر عرب ممالک کی منافقانہ پالیسی سے فلسطین اور فلسطین کے مقصد کو نقصان ہوا۔ جہان عرب میں واحد ملک جو فلسطین اور فلسطینیوں کو سپورٹ کرتا تھا اور استعماری طاقتوں کے خلاف مدمقابل رہا وہ شام ہے۔ آپ دیکھ لیں کہ لبنان اور اسرائیل جنگ میں شام نے لبنان کا ساتھ دیا اور اسی طرح ایران عراق جنگ میں بھی شام نے ایران کا ساتھ دیا۔ یعنی شام کی پالیسیاں شروع سے ہی جہان اسلام کے حق میں رہی ہیں۔

اسلام ٹائمز: حکومت کی منتقلی نواز لیگ کو ہو چکی ہے، دو ماہ مکمل ہونے کو ہیں لیکن بھی مذاکرات کی باتیں جاری ہیں جبکہ دوسری جانب واقعات در واقعات ہورہے ہیں، اس پورے منظر نامے کو کس طرح سے دیکھتے ہیں؟
علامہ ناصر عباس جعفری: پاکستان میں جو حالیہ الیکشن ہوئے، یہ ایسے انتخابات تھے کہ جس میں جیتنے والے بھی کہتے ہیں کہ دھاندلی ہوئی ہے اور ہارنے والے بھی کہتے ہیں کہ دھاندلی ہوئی ہے۔ نواز شریف صاحب بھی کہتے ہیں کہ دھاندلی ہوئی ہے اور پی پی پی بھی کہتی ہے کہ دھاندلی ہوئی ہے اور عمران خان کا بھی یہی کہنا ہے کہ انتخابات میں دھاندلی ہوئی ہے۔ پس اس انتخابات پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہر جماعت کی طرف سے سوالیہ نشان ہے اور عدم اعتماد کا اظہار کیا گیا ہے۔ ہر پارٹی کو کسی حد تک اتنا شیئر دے دیا گیا تھا کہ وہ زیادہ شور نہ کرے اور اس پر ہی راضی ہو جائے۔ اب چونکہ حکومت بن گئی ہے تو اب اس کی ذمہ داری ہے کہ عوام کو بنیادی تحفظ فراہم کریں۔ اس وقت پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ دہشت گردی اور ناامنی کا ہے۔ ہمارے ریاستی اداروں کی ذمہ داری ہے کہ عوام کے مال، جان اور نفوس کی حفاظت کریں۔ پچھلی حکومت تو پانچ سال ناکام رہی ہے اور کسی بھی مسئلے کو حل نہیں کر سکی۔ پچھلی حکومت کے دور میں ناامنی، دہشت گردی، معاشی مسائل و دیگر بحران میں شدت آئی۔ گزشتہ حکومت کی خارجہ و داخلہ پالیسی ان مسائل کو حل نہ کر سکی۔ اسی طرح انرجی کرائسز بڑھ گئے اور آپ دیکھ رہے ہیں کہ اس وقت بھی دہشت گردی عروج پر ہے۔

پاکستان کو ان بڑے مسائل کی دلدل سے نکالنے کے لیے راہ حل تلاش کرنا ہوگا اور اس کے لیے بڑے فیصلے کرنے ہوں گے۔ ان بنیادی فیصلوں میں جب تک پاکستان کو جہاں اس کی جگہ بنتی ہے وہاں پر نہیں لایا جائے گا تب تک پاکستان ان مسائل کی دلدل سے باہر نہیں نکل سکتا۔ امریکہ اور اس کے حواری، سعودیہ پاکستان میں اپنا اثر و رسوخ بڑھا چکے ہیں۔ بس پاکستان کو اس بلاک سے باہر نکالنا ہو گا۔ امریکن بلاک پاکستان کو طاقتور نہیں دیکھنا چاہتا کیونکہ وہ ہمیشہ اپنے مفادات و مقاصد کو ترجیح دیتا ہے۔ امریکہ اور اس کے حواری ممالک کو طاقتور پاکستان ایک نظر نہیں بھاتا، یعنی یہ ممالک چاہتے کہ پاکستان ہمیشہ کمزور ہی رہے تاکہ وہ پاکستان میں اپنی مرضی سے جو چاہے کھیل سکیں۔ کمزور پاکستان انرجی کرائسز کا شکار ہوگا، جس میں ناامنی عروج پر ہوگی اور دہشت گردی عام ہوگی۔

جب حکومتیں کمزور ہوتی ہیں تو طاقتور گروپ وجود میں آتے ہیں اور ان کا اپنا ایک دائرہ کار بن جاتا ہے۔ جب سے پاکستان امریکن بلاک میں گیا ہے تب سے پاکستان وہ باقی ماندہ پاکستان نہیں رہا بلکہ روز بروز کمزور سے کمزور تر ہوتا جا رہا ہے۔ اگرچہ پاکستان کمزور ملک ہے، جس میں ادارے کمزور ہیں، حکومت بے بس ہے۔ وزیر داخلہ اور واپڈا کے وزیر ہمیں بتاتے ہیں کہ حالات بہت خراب ہیں، یہ ہونا چاہیے، بھائی ہمیں آپ سے خبریں تو نہیں چاہیے، یہ تو ہمیں بھی پتا ہے کہ اس وقت پاکستان میں کیا ہے اور کیا نہیں ہے۔ ہم آپ سے خبریں سننا نہیں چاہتے۔ یہ سب ہم جانتے ہیں۔ ہمیں پلاننگ چاہیے، منصوبہ بندی چاہیے، یعنی کیا آپ کے پاس درست راستہ ہے کہ جس سے پاکستان کے حالات کو بہتری کی طرف لے جایا جا سکے۔ اس میں اولین ترجیح پاکستان کے مفادات ہیں۔ اس میں نہ امریکہ اور نہ ہی سعودی عرب و دیگر ممالک کے مفادات ہیں۔ ہمارے حکمرانوں کے لیے بھی اولین ترجیح پاکستان ہونی چاہیے۔ ہمیشہ پاکستان کی عوام کے مفادات کی بات کرنی چاہیے۔ حکومت کی پہلی ترجیح امن ہونی چاہیے اور اس کے بعد پھر انرجی کرائسز ہے اور اسی طرح دیگر مسائل ہیں۔

جس ملک میں قانون کی حکومت نہیں ہوتی، وہاں کے نہ معاشی حالات سدھرتے ہیں اور نہ ہی کوئی مسئلہ حل ہو گا۔ ملک کے اندر دہشت گرد دندناتے پھرتے ہیں اور انہیں لگام دینے والا کوئی نہیں۔ پشاور سے لے کر کراچی تک آپ نگاہ دوڑا کر دیکھ لیں کہ ہر جگہ پر افغان لوگوں نے قبضہ کیا ہوا ہے اور ان کی دکانیں اور تجارت بہت زیادہ ہے۔ ہمیں یہ دیکھنا پڑے گا کہ ناجائز اسلحے کے ساتھ کس طرح پیسہ کما رہے ہیں، یہ عام مسائل ہیں۔ چونکہ کمزور پاکستان امریکہ اور اس کے حواریوں کو اچھا لگتا ہے، اس لیے یہ تمام بحران انہوں نے کھڑے کیے ہیں۔ پس ہمارے حکمرانوں کو اپنے وطن کی خاطر ایک مضبوط نظام حکومت قائم کرنے کے لیے، قانون کی حکمرانی کو آگے بڑھانے کے لیے ایک اچھا نظام بنانا چاہیے، چیزوں کا درست استعمال درست سمت میں کرنا چاہیے۔ پاکستان کا آئین اور دستور جو نہیں مانتا وہ باغی ہے اور باغیوں کے ساتھ جیسا سلوک کرنا چاہیے، ویسے برتاؤ کرنا چاہیے۔ ہمیں چاہیے کہ جو دہشت گرد ہیں، ان کے ساتھ آ ہنی ہاتھوں کے ساتھ ملنا چاہیے۔

اسلام ٹائمز: ہم نے دہشت گردی کی وجہ سے اپنے پیاروں کی بہت سی لاشیں اٹھا چکے ہیں، اکثر جماعتوں کی طرف سے کہا جا رہا ہے کہ دہشت گردوں کے ساتھ مذاکرات کرنے چاہیں،حتیٰ علامہ ساجد علی نقوی نے بھی کہا کہ اگر طالبان کے ہتھیار ڈالنے کی گرانٹی مل جائے تو ان سے مذاکرات ہوسکے ہیں، آپ کیا کہتے ہیں۔؟
علامہ ناصر عباس جعفری: جو دہشت گردوں کو سپورٹ کرتے ہیں اور جن ممالک کے پاکستان میں مکروہ عزائم ہیں اور ان کی وجہ سے آئے دن بے گناہ پاکستانی مار رہے ہیں۔ پاکستان میں بھتہ خوری عروج پر ہے، نہ عام آدمی محفوظ ہے اور نہ ہی کو وی آئی پی شخصیت محفوظ ہے اور نہ ہی سیکورٹی کے ادارے محفوظ ہیں۔ یہ ایک ایسا خطرناک قسم کا مافیہ پاکستان میں وجود میں آیا ہوا ہے جو سوائے نقصان کے اور کچھ نہیں کر سکتا۔ پاکستان کے اندر ایسے لوگوں کا ٹھکانہ موجود ہونا، انہیں جہادی تربیت دینا اور انہیں اسلحہ فراہم کرنا ہمارے ریاستی و سیکورٹی اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔ بائیں جماعت والے لوگ ان کی حمایت نہیں کرتے اور کارروائی کا تقاضا کرتے ہیں جبکہ دائیں جماعت والے لوگ ان کے بارے میں نرم گوشہ رکھتے ہیں کہ ان کے ساتھ مذاکرات کیے جائیں۔ اگر آپ دیکھیں کہ پتہ چلتا ہے کہ پاکستان میں نفوذ کر جانا اور ریاستی اداروں کو نقصان پہنچانے میں دائیں جماعت والے لوگ شامل ہیں، جماعت اسلامی، جے یو آئی اور مختلف دینی و سیاسی جماعتیں دائیں بازو کی جماعتیں کہلاتی ہیں حتیٰ کہ مسلم لیگ ن بھی انہی دائیں جانب والوں میں شامل ہے۔ انہوں نے ہی افغانستان کے حوالے سے ایک پالیسی بنائی، اسی پالیسی سے پاکستان کے اندر دہشت گردی آئی۔ پاکستان میں لوگوں کو لایا گیا اور انہیں جہادی تربیت دی گئی اور انہیں اسلحہ فراہم کیا گیا۔ اگر پاکستان کے ساتھ دائیں جانب والے لوگوں کو یا کسی کو بھی محبت ہوتی، یعنی اگر دیکھیں کہ اتنی بھاری مینڈنٹ سے جیت کر حکومت میں آنے والی جماعت کو دیکھنا چاہیے کہ عوام نے انہیں اس لیے ووٹ دیا تاکہ وہ حکومت میں آ کر قانون و دستور کی حکمرانی کریں اور دہشت گردوں کو جو کہ پاکستان کے دستور و آئین کو نہیں مانتے انہیں قرار واقعی سزا دی جائے اور پاکستان میں امن قائم کیا جائے۔ اگر حکومت اس کے خلاف عمل کرتی ہے تو یہ اپنی عوام کے ساتھ دھوکہ ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ دہشت گردوں کو ڈیڈ لائن دے کہ مثلاً دو ماہ تک راہ راست پر آ جاؤ، ورنہ اس کے بعد آپ کے خلاف کارروائی ہوگی۔

اسلام ٹائمز: اے پی سی بلانے میں حکومت کو کیا مشکل پیش آ رہی ہے؟
علامہ ناصر عباس جعفری: کئی ممالک نہیں چاہتے کہ پاکستان کی حکومت طاقتور ہو، ہمارے فوجی جرنیل بھی نہیں چاہتے کہ حکومت طاقتور ہو۔ اس کے علاوہ علاقائی قوتیں بھی نہیں چاہتیں کہ پاکستان کی حکومت مضبوط ہو۔ ایران سے گیس پائپ لائن کا معاہدہ روکا گیا اور اس طرح بعض کاموں میں سعودی عرب رکاوٹیں کھڑی کرتا ہے۔ ہم نواز شریف کو گوادر کے منصوبے کے کوشش کرنا، چائنہ سے دوستی کو مزید آگے بڑھانے میں خوش آمدید کہتے ہیں اور ان کی سپورٹ کرتے ہیں۔ پاکستان کے ان ممالک کے ساتھ جتنے تعلقات مضبوط ہوں گے، اتنے ہی پاکستان کے ترقی کرنے کے مواقع بڑھ جائیں گے۔ پاکستان 20 کروڑ عوام کا ملک ہے اور ایٹمی طاقت ہے، یہ بڑا مضبوط ملک بن سکتا ہے۔ چھوٹے چھوٹے گھٹیا قسم کے ممالک سعودی عرب، قطر، ابوظہبی کہ جن کی کوئی حیثیت ہی نہیں ہے، ان کا غلام نہیں بننا چاہیے۔

اسلام ٹائمز: آپ کی جماعت کی طرف موجودہ حالات کو سامنے رکھتے ہوئے اتحاد امت مسلمہ کے حوالے سے کیا پالیسی ترتیب دی ہے اور اب تک اس حوالے سے کیا کرکاردگی رہی ہے؟
علامہ ناصر عباس جعفری: وحدت بین المسلمین اور وحدت بین المومنین کا نقصان اسلام دشمن قوتوں کو پہنچ رہا ہے اور پہنچتا ہے۔ امریکہ ہمیشہ چاہتا ہے کہ مسلمانوں کے درمیان ہر وقت اختلاف کی فضاء قائم رہے۔ شیعہ سنی کے درمیان حتیٰ کہ شیعوں کے آپس میں اور سنیوں کے بھی آپس میں جھگڑتے رہیں تاکہ جہان اسلام آپس میں الجھا رہے اور دشمنان اسلام اس سے خوب فائدہ اٹھا سکے۔ پس ہم مسلمانوں کو چاہیے کہ آپس وحدت کی فضاء قائم کریں اور آپس کے مسائل کو مل بیٹھ کر حل کریں، اس میں ہمارے باہمی روابط مضبوط ہونے چاہیں، ہم پاکستان میں ان موضوعات پر مختلف جگہوں پر سیمینارز و کانفرنسز کا انعقاد کر چکے ہیں اور اب کر بھی رہے ہیں، انشاء اللہ یہ سلسلہ جاری رہے گا تاکہ ہمارے آپس میں اچھے تعلقات استوار ہوں۔ اسی طرح یوم القدس ایک بہت بڑا موقع ہے کہ جس کو منانے کے ساتھ ساتھ تمام شیعہ و سنی ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہو سکتے ہیں۔ یوم القدس کسی ایک فرقے کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ جہان اسلام کا مسئلہ ہے، اسی طرح مسئلہ کشمیر بھی جہان اسلام کا مسئلہ ہے۔ بہرحال اب بھی شیعہ سنی بھائیوں کے تعلقات کی ایک اچھی فضاء بن چکی ہے اور ہمیں امید ہے کہ آئندہ آنے والے چند دنوں میں انشاء اللہ مثبت نتائج نکلیں گے۔

اسلام ٹائمز: شام کی موجودہ صورتحال کے حوالے سے کیا کہیں گے؟
علامہ ناصر عباس جعفری: شام کے جہادیوں میں فرنٹ لائن کے اتحادی ممالک سعودی عرب، امریکہ و دیگر شریک ہیں۔ شام ایسا ملک ہے جو فلسطینیوں کی پناہ گاہ رہا ہے۔ لبنان نے شام کو ہمیشہ سپورٹ کیا ہے۔ شام ہمیشہ سے ہی اسرائیل کے مدمقابل والے بلاک میں رہا ہے، یعنی امریکہ مخالف بلاک میں رہا ہے۔ اس سے ہمیشہ فلسطین اور فلسطین کے مقاصد کو فائدہ ہوا ہے، نقصان کبھی نہیں ہوا۔ قطر، سعودی عرب و دیگر عرب ممالک کی منافقانہ پالیسی سے فلسطین اور فلسطین کے مقصد کو نقصان ہوا۔ جہان عرب میں واحد ملک جو فلسطین اور فلسطینیوں کو سپورٹ کرتا تھا اور استعماری طاقتوں کے خلاف مدمقابل رہا وہ شام ہے۔ آپ دیکھ لیں کہ لبنان اور اسرائیل جنگ میں شام نے لبنان کا ساتھ دیا اور اسی طرح ایران عراق جنگ میں بھی شام نے ایران کا ساتھ دیا۔ یعنی شام کی پالیسیاں شروع سے ہی جہان اسلام کے حق میں رہی ہیں۔ شام کی پالیسیاں امریکہ مخالف رہی ہیں۔ اس کے نتیجے میں ایران سے لے کر لبنان تک ایک بلاک وجود میں آیا اور جب عرب دنیا میں بیداری آنا شروع ہوئی تو مخالف ممالک نے یہاں پر دہشت گرد بھیجنے شروع کر دیئے۔ سعودی عرب، قطر، ابوظہبی، ترکی، اردن اور حتیٰ کہ پورا یورپ اکٹھا ہو کر شام کے خلاف ہوگیا ہے اور وہاں کی حکومت کو گرانا ان کا بڑا مقصد ہے لیکن اللہ تعالیٰ کا ساتھ ہونے کی وجہ سے وہ اب تک ایسا نہیں کر سکے۔
شام کو جس مشکل مرحلے میں داخل کیا گیا، اس سے کہیں زیادہ اللہ تعالیٰ نے انہیں آسانی دی اور صبر عطا فرمایا۔ ایران عراق کی جنگ میں جب ایران باہر نکلا تو طاقتور ترین ملک بن گیا۔ 2006ء میں حزب اللہ کی اسرائیل کے ساتھ ہونے والی جنگ میں بھی لبنان طاقتور ہو گیا۔ آج وہ حزب اللہ نہیں جو 2006ء کی جنگ میں تھی بلکہ آج اس سے کہیں زیادہ طاقتور بن چکی ہے۔ اسی طرح شام کے اندر بھی پوری دنیا دہشت گردوں کے ساتھ ہے اور شام کی حکومت کو گرانے کے درپے ہیں لیکن اب تک وہ اس مذموم مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ پوری دنیا سے دہشت گرد اکٹھے کر کے شام میں بھیجے گئے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ان 28 ماہ میں وہ شام کی حکومت نہیں گرا سکے۔ شام کی موجودہ صورتحال کے حوالے سے یہ کہ حکومت مضبوط ہے اور ان کی فوج بھی مقابلہ کرنے کے لیے بھرپور آمادہ ہے، اس کے ساتھ ساتھ عوامی طاقت بھی اکٹھی ہو چکی ہے اور دشمنوں کے ساتھ لڑ رہی ہے۔ دشمنوں و دہشت گردوں نے رسول پاک ﷺکی پیاری نواسی حضرت بی بی زینب سلام اللہ علیہا کے مزار کی بے حرمتی کی ہے جو انتہائی قابل مذمت ہے اور شرم کی بات ہے۔

اسلام ٹائمز: فرض کریں کہ ساری کفر کی طاقتیں اکٹھی ہو کر شام کی حکومت گرا دیتی ہیں تو اس کے بعد کیا منظر نامہ ہوگا اور ایران کا اس کے بعد کیا کردار ادا کرے گا؟
علامہ ناصر عباس جعفری: پہلی بات تو یہ ہے کہ میرے خیال میں اس وقت شام کی حکومت کو گرانا تقریباً ناممکن ہے۔ کفار جو طاقت لگانا چاہتے تھے سب کی سب لگا چکے ہیں۔ اب ان دہشت گردوں کو وہاں پر جگہ جگہ مار پڑ رہی ہے۔ بہت سے دہشت گرد جنہوں نے اسلحہ اٹھایا ہوا تھا وہ اپنا اسلحہ پھینک کر بھاگ رہے ہیں۔ جیسا کہ میں نے رات کو ہی ایک خبر میں پڑھا کہ بہت سارے دہشت گرد مایوس ہو کر راہ فرار اختیار کر رہے ہیں۔ سیریا کے حالات جو یورپین میڈیا پیش کر رہا ہے، اصل حالات اس کے برعکس ہیں۔ فرض کر بھی لیں کہ اگر ایسا ہو بھی جاتا ہے کہ جیسا آپ نے کہا تو پھر سیریا تین حصوں میں تقسیم ہو جائے گا۔ جن میں ایک حصہ علویوں کے پاس، دوسرا حصہ بریلیوں کے پاس اور تیسرا حصہ دہشت گردوں کے پاس۔ اس کے باجود پھر بھی حزب اللہ وہاں پر ناکام نہیں ہوگی کیونکہ حزب اللہ کے وہاں پر اپنے علاقے ہیں۔ وہ علاقہ جو لبنان کے ساتھ ملتا ہے وہاں پر دہشت گرد کچھ بھی نہیں کر سکتے۔ بہرحال یہ تقسیم کسی کے حق میں بھی ٹھیک نہیں ہوگی۔

اسلام ٹائمز: سوشل میڈیا پر ایک بحث شروع کی گئی ہے کہ یوم القدس منانے کے بجائے یوم دفاع تشیع منایا جائے، اس سوچ کے پیچھے کیا حقیقت ہے؟۔
علامہ ناصر عباس جعفری: میرے خیال میں ہمیں اپنے مکتب کے مطابق اپنی زندگی گزارنی چاہیے۔ ہمارے امام علی علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ ہمیشہ ظالموں کے دشمن بن کر رہو اور مظلوموں کے حامی۔ اس وقت فلسطین کے مسلمان مظلوم ہیں اور بیت المقدس ہم سب مسلمانوں کی یکجا میراث ہے۔ اپنے ملک کا یوم دفاع منانا اور یوم القدس منانا الگ نہیں ہیں، دونوں اکٹھے بھی منائے جا سکتے ہیں۔ دیکھئے یوم القدس ملت تشیع کا محور و مرکز بن سکتا ہے۔ ابھی تک تو جس طرح سے یوم القدس کو منانا چاہیے تھا، اس طرح سے منا ہی نہیں سکے۔ اگر ہم میں حکمت و تدبیر ہوتی تو قدس شیعہ و سنی کا محور و مرکز بنتا اور ہمارے اتحاد کا نقطۂ ہوتا۔ یوم القدس شیعہ سنی وحدت کے لیے بہترین پلیٹ فارم ہے اور مظلوموں کی حمایت کے لیے بھی سب سے بہتر پلیٹ فارم ہے لیکن بڑے افسوس کے ساتھ یہ بات کہنا پڑتی ہے کہ ہمیں جو مکتب اہل بیت نے چیزیں دی ہیں، ہم ان سے درست استفادہ نہیں کر سکے۔ ہمیں چاہیے تھا کہ ہم گلی گلی، کوچے کوچے لوگوں کے گھروں تک جاتے اور لوگوں کو قدس کی آزادی کے لیے میدان میں لے کر آتے، اسی طرح پھر کشمیر کی آزادی کی بات ہوتی اور دیگر مسلمان ممالک جہاں پر مسلمان ظلم کی چکی میں پس رہے ہیں، ان کے لیے آواز بلند کرتے، ہم ان کا ہراول دستہ بنتے اور لیڈ کرتے۔ ہمیں تنگ نظری سے ان مسائل کو نہیں دیکھنا چاہیے۔ یوم القدس وہ عطیہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے امام خمینی (رہ) کے ذریعے ہم تک پہنچایا ہے۔ یوم القدس یوم اسلام ہے، یوم وحدت مسلمین ہے، یہ دن مظلوموں کی حمایت میں اور ظالموں کے خلاف قیام کا دن ہے لہٰذا یوم القدس ہمارے شرعی فرائض میں سے بھی ہے اور ایک عظیم پلیٹ فارم بھی ہے، پس ہمیں اس سے استفادہ کرنا چاہیے۔

اسلام ٹائمز: جیسا کہ آپ نے نشاندہی کی کہ یوم القدس کو ایک مسلک نے نتھی کردیا ہے، اس کو عالم اسلام کا دن بنانے کیلئے کیا اقدامات کیے جاسکتے ہیں؟۔
علامہ ناصر عباس جعفری: میں چاہتا ہوں کہ ہمارے نوجوان گلی گلی، کوچہ کوچہ، گھر گھر جائیں اور لوگوں کو یوم القدس میں شرکت کی دعوت دیں۔ جس طرح ہم ناموس رسالت (ص) پر اکٹھے نظر آئیں ہیں بالکل اسی طرح یوم القدس پر بھی ہمیں اکٹھا ہونا چاہیے۔ ہم نے اس دفعہ اسلام آباد و راولپنڈی میں کوشش کی ہے کہ اہل سنت افراد کی بھی کثیر تعداد اہل تشیع افراد کے ساتھ مل کر یوم القدس میں شریک ہو، اس کے علاوہ باقی شہروں میں بھی ہم نے التماس کی ہے کہ عام عوام کو بھی جتنا ہو سکتا ہے اس پروگرام میں شریک کریں۔ اس میں میرے خیال میں تربیت اور سمجھانے کی ضرورت ہے۔

اسلام ٹائمز:قدس کے حوالے سے ہم دوسروں کی بات تو کرتے ہیں کہ وہ شریک ہوں جبکہ ہماری اپنی ریلیاں ایک نہیں ہیں۔ اس حوالے سے کوششیں کیوں نہیں کی جاتیں؟۔
علامہ ناصر عباس جعفری: میں شیعہ علماء کونسل کے دوستوں کو دعوت دیتا ہوں کہ آئیں بیٹھیں اور ہمارے ساتھ بات چیت کریں، وہ ہمیں تعاون کرنے والا پائیں گے اور وحدت کی خاطر اپنا سب کچھ قربان کرنے والا پائیں گے۔ ہاں اس کے لئے ہم سے وہ بندہ آ کر بات کرے کہ جس کے پاس کچھ اختیار بھی ہو، یہ نہ ہو کہ وہ کہے کہ میں نے تو ابھی جا کر پوچھنا ہے۔ میرے خیال میں یوم القدس کو اہمیت ہونی چاہیے نہ کہ پارٹیوں کو اہمیت ہونی چاہیے۔ میں اب بھی کہتاہوں کہ آئیں بیٹھیں اور جن جن چیزوں میں مشترکات پر قدم اٹھائے جا سکتے ہیں، ہمیں اٹھانے چاہیں، فرار کرنے سے نجات نہیں ملے گی۔ یہ بات درست ہے کہ ہم تھرڈ کلاس سیاستدانوں کے ساتھ تو بیٹھ جائیں لیکن اتنے بے حس ہوجائیں آپس میں نہ بیٹھ سکیں۔ میں آپ کے توسط سے انہیں دعوت دیتا ہوں کہ آئیں مل کر بیٹھیں، انشاء اللہ آپ ہمیں تعاون و مددگار پائیں گے۔ ہمارے پاکستان کی عوام یہ سب کچھ دیکھ رہی ہے، ان کی آنکھیں بند نہیں ہیں۔ مجھے امید ہے کہ رائے عامہ میں بڑی طاقت ہوتی ہے اور بہت زیادہ عرصہ نہیں لگے اور بالآخر ہمارے یہ ساتھی مجبور ہوں گے کہ قومی کاموں میں کھلے دل سے بیٹھیں گے۔

اسلام ٹائمز: مصر کی موجودہ صورتحال کے حوالے سے کیا کہیں گے، کیا اس کا فلسطین پر کوئی اثر پڑے گا؟۔
علامہ ناصر عباس جعفری: دیکھئے مصر میں اخوان المسلمین کی حکومت آئی۔ اہل سنت بہت خوش تھے کہ ان کی حکومت مصر میں بن گئی۔ الاظہر اور اخوان المسلمین و شیعہ مل کر جہان اسلام کو درپیش چیلنجز سے باہر نکال دیں گے۔ بہرحال یہ توقع کی جا رہی تھی۔ جب ایران میں اسلامی انقلاب آیا تو امریکہ کے سفارتخانہ کو بند کرکے فلسطین کا سفارتخانہ کھولا گیا، شیعہ سنی جھگڑے کی باتیں کی گئیں لیکن اس کے باوجود ایران نے سب کو اکٹھا لے کر چلا اور آپس کی رنجشیں دور کیں۔ بالکل ایسی ہی توقع اخوان المسلمین کے ساتھ کی جا رہی تھیں۔ چاہیے تو یہ تھا کہ ان کی حکومت آئی تو اس کے بعد اسرائیل کا سفارتخانہ بند کر دیا جاتا اور ان کے ساتھ تعلقات ختم کر دیئے جاتے اور جہان اسلام کے حوالے سے ان کا دل کھلا ہوتا۔ انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ مصر کے اخوان نے بہت بڑی غلطی کی، انہوں نے اسرائیل کے ساتھ روابط کو برقرار رکھا اور اخوان نے وہی کام کرنے شروع کر دیئے جو امریکہ، اسرائیل اور قطر چاہتے تھے۔ اخوان کے دور حکومت میں شیعہ عالم دین کو ڈنڈوں سے مارا گیا، یہ وہ ظلم جو پہلے کسی اور کے دور میں نہیں ہوا، وہ اخوان حکومت میں ہوا۔ بہت محدود سوچ رکھنے والی اخوان المسلمین اپنے کیے کی وجہ سے ہی اپنی شہرت کھو بیٹھی اور ایسا گندا کردار ادا کیا جس کی ان سے توقع نہیں تھی۔

شام میں اگر عوام بشارالاسد کے ساتھ نہ ہوتی تو 28 مہینے کیسے حکومت قائم رہ سکتی ہے، یہ سوچنے والی بات ہے۔ اگرچہ فوج کو یہ حق نہیں کہ جمہوری حکومت کو گرا دیں لیکن یہ بھی تو دیکھنا چاہیے کہ جس ملک کی عوام نے ان حکمران پر اعتبار کیا تھا، وہ حکمران ہی امریکہ کی ایماء پر چلنے لگے تو پھر ضروری ہو جاتا ہے۔ فوجی حکومت کو سب سے پہلے خوش آمدید سعودی عرب نے کیا تھا۔ ایران میں آنے والا اسلامی انقلاب ایک عمل سے گزرا اور آج وہ ایک مضبوط ملک ہے، اس کے علاوہ ان کا نظام یعنی نظام ولایت فقیہ بھی ایک مضبوط نظریہ ہے۔ مصر میں چونکہ اس طرح کے کسی نظام پر انقلاب نہیں لایا گیا اور نہ اس طرح کا کوئی راستہ اپنایا گیا لہٰذا وہ شروع ہی میں ڈگمگا گئے۔ رہبر معظم سید علی خامنہ ای نے بیداری اسلامی کے بارے میں جتنے بھی خطابات کیے ہیں، ان میں باقاعدہ مصر کے حوالے سے اخوان المسلمین کی رہنمائی کی ہے کہ کس طرح مشکلات سے نبرد آزما ہوا جا سکتا ہے لیکن ان کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ پس ان کی حکومت نہ ہی اسلامی ہے اور نہ ہی کچھ اور۔ اگرچہ فوجیوں کا حکومت پر قابض ہونا اچھی بات نہیں ہے اور ہم اس کی پرزور مذمت کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود اخوان المسلمین نے اپنے کیے کی سزاء پائی ہے۔

اسلام ٹائمز: گزشتہ دنوں مولانا فضل الرحمن کا شام کے بارے میں ایک بیان شائع ہوا، اس کے بارے میں کیا کہیں گے؟
علامہ ناصر عباس جعفری: میرے خیال میں ان کا یہ بیان بہت ہی اچھا اور حقیقت پر مبنی ہے۔ قطر، ترکی، یو اے ای اور اس کے علاوہ دیگر ممالک بھی شامل ہیں جو امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ مل کر شام کے حالات خراب کرنے کے درپے ہیں۔ امریکہ، اسرائیل اور یورپین صہیونسٹ و مسلم کیمونسٹ سب مل کر شام کے خلاف کام کر رہے ہیں۔ میرے خیال میں اس مسئلے کو مزید واضح اشاعت کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم اس پر خاموش رہیں تو وہ وقت قریب جب یہی صورتحال پاکستان میں پیدا کی جائے گی اور پورا جہان اسلام ان کے مظالم کا شکار ہو جائے گا اور کہیں بھی امن و سکون نہیں ہو گا لہٰذا تمام مسلم ممالک پاکستان سمیت تمام حکمرانوں کو ان کے خلاف اسٹینڈ لینا چاہیے تاکہ ان خائن لوگوں کی شناخت بھرپور ہو جائے اور آئندہ اگر یہ ہمارے ملک میں خیانت کرنا چاہیں تو ان کا راستہ روکا جا سکے۔

Page 7 of 7

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree