وحدت نیوز(مانٹرنگ ڈیسک) کوئٹہ کے علاقے علمدار روڈ شُہداء چوک پر مجلس وحدت مسلمین پاکستان کی جانب سے "پیامِ شُہداء و اتحاد ملت کانفرنس" کا انعقاد ہوا۔ جلسہ سے مجلس وحدت مسلمین کے سربراہ علامہ راجہ ناصر عباس جعفری، چئیرمین سنی اتحاد کونسل صاحبزادہ حامد رضا، چئیرمین وائس آف شہداء پاکستان سینیٹر فیصل رضا عابدی، منہاج القرآن کے رہنماء فرحت شاہ، ایم ڈبلیو ایم کے سیکرٹری سیاسیات ناصر شیرازی، بلوچستان شیعہ کانفرنس سے نائب صدر محمد علی شان، امام جمعہ کوئٹہ علامہ سید ہاشم موسوی، مجلس وحدت مسلمین کے رکن بلوچستان اسمبلی سید محمد رضا، ایم ڈبلیو ایم کے صوبائی سیکرٹری جنرل علامہ مقصود علی ڈومکی، وزیر داخلہ بلوچستان میر سرفراز بگٹی اور مسیحی برادری کے رہنماء ولیم برکت سمیت دیگر مقامی و مرکزی معززین نے خطاب کیا۔ اس موقع پر اسٹیج سیکرٹری کے فرائض علامہ سید احمد اقبال رضوی نے نبھائے۔ شُہداء چوک پر ہزاروں کی تعداد میں کرسیاں لگائی گئی تھی۔ کانفرنس کے دوران لبیک یا رسول اللہ (ص) اور لبیک یا حسین (ع) کے فلک شگاف نعرے بلند کئے گئے۔ شدید بارش و سردی کے باوجود عوام کانفرنس میں بیٹھے رہے۔
کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مسیحی برادری کے رہنماء و رکن بلوچستان اسمبلی جناب ولیم برکت نے شہدائے کوئٹہ کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں آباد تمام مظلوم عوام دہشتگردوں کیخلاف متحد ہے۔ کوئی بھی شریعت اس بات کی قطعاً اجازت نہیں دیتی ہے کہ اپنی مخصوص سوچ کو دوسروں پر بندوق سے مسلط کریں۔ مذہب انسان کا اپنا ذاتی فعل ہے۔ ہم پاکستان میں بسنے والے ہر مکتبہ فکر پر ہونے والے دہشتگردانہ واقعات کی پرزور مذمت کرتے ہیں۔ بلوچستان شیعہ کانفرنس کے سنئیر نائب صدر محمد علی شان کا تقریب سے خطاب میں کہنا تھا کہ آج پورا پاکستان شیعہ سنی عوام متحد ہیں۔ یہ کانفرنس ملک بھر کے ان دہشتگرد قوتوں کو یہ واضح پیغام دے رہی ہے، کہ ہم ظلم کیخلاف ہمیشہ متحد تھے، ہیں اور رہینگے۔ منہاج القرآن کے رہنماء فرحت شاہ کا کہنا تھا کہ میں مجلس وحدت مسلمین کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ جن کی کاوشوں سے آج ملک بھر میں وحدت کی فضا قائم ہوئی ہیں۔ کوئٹہ کی سرزمین شُہداء کی سرزمین ہے۔ یہاں پر ہر گھر رنجیدہ ہیں اور ہم بھی ان تمام لواحقین کے غم میں برابر کے شریک ہیں۔ ازل سے یہ تاریخ چلی آ رہی ہیں کہ محمد (ص) کے نام کو ختم کرنے کیلئے ہر دور میں سازشیں کی گئی۔ لیکن محمد و آل محمد (ص) کے چاہنے والوں کو نہ کبھی کوئی ختم کر پایا اور نہ کبھی ختم کرسکے گا۔ کوئٹہ کی شیعہ ہزارہ قوم اپنے آپ کو کبھی بھی تنہا محسوس نہ کرے۔ منہاج القرآن سمیت پاکستان کے تمام مظلوم عوام آپکے دکھ درد میں برابر کے شریک ہیں۔ ہم ہر وقت ظالموں، منافقوں اور بے ایمانوں کو للکارتے رہینگے۔ جب تک ان کو چوراہوں پر اکٹھا کرکے انکے جسم کی چمڑی کو اتار نہیں دیا جاتا۔
انکا کہنا تھا کہ حکومت یہ واضح کرے کہ وہ طالبان کا اسلام چاہتی ہے یا محمد (ص) کا اسلام چاہتی ہے۔ جن جانوروں نے اس ملک میں انسانیت کا قتل عام کیا، ان کیساتھ مذاکرات کی باتیں کی جا رہی ہیں۔ منہاج القرآن کے سربراہ طاہر القادری ملکی و بین الاقوامی سطح پر ان دہشتگردوں کا اصل چہرہ دنیا کے سامنے لانے میں کامیاب رہے۔ ہم اپنے خون کے آخری قطرے تک اس ملک میں حسینیت کا پرچم بلند کرتے رہینگے۔ مجلس وحدت مسلمین کے سیکرٹری سیاسیات ناصر شیرازی کا کہنا تھا کہ لاشوں پر سیاست وہ کرتے ہیں جو لاشوں کو چھوڑ کر انکے مقصد کو دفن کرنے کی بات کرتے ہیں۔ ہم شُہداء کے جسد خاکی کیساتھ خود بھی کھڑے ہوتے ہیں اور شُہداء کے مقصد کو اسطرح زندہ رکھتے ہیں کہ دنیا اسے بھول نہیں پاتی۔ آپکی سیاست میں شُہداء کے جنازوں کو چھوڑ کر علیحدہ کیمپ لگانے کا درس ملتا ہو گا، نہ کہ ہماری آئیڈیالوجی میں۔ ہم دہشتگردوں کو واضح پیغام دینا چاہتے ہیں کہ ملک بھر میں عزاداری و میلاد کے جلوس نکالے جائیں گے اور اس خطے سے ان ظالموں کا صفایا کرکے ہی دم لینگے۔ مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے رکن بلوچستان اسمبلی سید محمد رضا رضوی نے کہا ہے کہ آج چند قوتوں کو یہ گمان تھا کہ کوئٹہ میں منعقد ہونے والی کانفرنس شدید بارش کی وجہ سے ملتوی ہو جائے گی اور اس ضمن میں مجھے کافی فون کالز بھی موصول ہوئیں لیکن میں نے سبھی سے یہی کہا کہ حسینیت ایک ایسا جذبہ ہے جس کی تپش بارش تو کیا طوفان میں بھی قیام کا حوصلہ فراہم کرتی ہے۔ میں نے آپ سے کہا تھا کہ کوئٹہ میں کسی بھی صورت میں ہم پاکستان دوست قوتوں کا اجتماع منعقد کرکے دکھائیں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ چند روز قبل جب وزیراعظم میاں محمد نواز شریف صاحب کوئٹہ تشریف لائے تو گورنر ہاؤس میں تمام اراکین اسمبلی کو اپنا چہرہ دکھایا۔ اس اجلاس میں تمام اراکین وزیراعظم سے گیس، بجلی، پانی سمیت دیگر وسائل مانگنے لگے۔ انہیں ایک بھکاری سے بھیک مانگتے ہوئے ذرا بھی شرم نہیں آئی۔ جو وزیراعظم خود سعودی عرب کے پیسوں پر پلتا ہو، بھلا وہ کیا دوسروں کو کچھ دے سکے گا۔ میں نے وہاں وزیراعظم میاں نواز شریف کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ یہاں پر لوگ آپ سے زندگی کے بنیادی وسائل کیلئے سوال کر رہے ہیں، لیکن میں آپ سے کس چیز کا تقاضا کروں جب آپ ہمیں جینے کا حق تک نہیں دے سکتے۔ آغا رضا نے مزید کہا کہ میں نے وزیراعظم سے کہا کہ آپ دہشتگردوں کی بجائے مظلوم عوام کا ساتھ دیں۔ یہ مُٹھی بھر دہشتگرد عناصر ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ میں نے ان سے سوال کیا کہ جب ایک سابق آمر پر کورٹ میں مقدمہ چلایا جا سکتا ہے، تو پھر ملک دشمن دہشتگردوں کیخلاف مقدمہ کیوں چلایا نہیں جاتا۔ ستم بالائے ستم تو یہ ہے کہ اب انہی طالبان سے مذاکرات کیلئے طالبان کو بھیجا جا رہا ہے، لیکن ہم آج ان تمام قوتوں کیلئے واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ پاکستان کو بچانے کیلئے ان دہشتگردوں کیخلاف ہمیں کسی بھی حد تک جانا پڑے، تو ہم اس سے گریز نہیں کرینگے۔
صاحبزادہ حامد رضا نے کہا ہے منور حسن نے اسامہ بن لادن کو سیدالشہداء کہہ کر دین کے وقار کو مجروح کیا ہے۔ پاکستانی عوام کیلئے صرف اسلام پر قربانیاں دینے والے، نبی (ص) کے دین کیلئے اپنا سب کچھ لٹا دینے والے، پیغمبر اسلام (ص) کے نواسہ حضرت امام حسین (ع) کی ذات ہی سیدالشہداء ہے۔ نہ کہ ملک اور انسانیت دشمن اسامہ بن لادن۔ اب ہم کسی کو بھی اسلام کے نام پر مزید ٹھیکہ داری کی اجازت نہیں دے سکتے۔ دہشتگرد قوتوں اور ہم میں یہ فرق ہے کہ وہ اسامہ اور حکیم اللہ محسود کو روتے ہیں لیکن ہم کربلا کے مظلوموں کی یاد میں روتے ہیں۔ میں ان حکمرانوں سے یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ جو قوتیں پاکستان اور قائداعظم کو نہیں مانتیں، آپ انکے پاس تو ہاتھ جوڑ کر جاتے ہیں، لیکن کوئٹہ میں بیٹھے مظلوم عوام کی دل جوئی کرنے کیلئے آپ کے پاس وقت نہیں ہوتا۔ ہم طالبان، ظالمان، لشکر جھنگوی، سپاہ صحابہ اور کسی بھی دہشتگرد قوت کو نہیں مانتے۔ انہوں نے کہا کہ وہ وقت دور نہیں جب پاکستان کی مظلوم عوام اسلام آباد کا رخ کریگی اور ان سعودی نواز حکمرانوں کو بھاگنے کا راستہ بھی نہیں ملے گا۔ اگر حکومت نے دہشتگردوں کیساتھ اب بھی مذاکرات کئے تو اس بار ہم اپنے گھروں کو واپس نہیں جائیں گے اور اس ملک سے دہشتگردوں سمیت انکے سیاسی و مذہبی سپورٹروں کو بھی ملک بدر کردینگے۔ صاحبزادہ حامد رضا کا مزید کہنا تھا کہ آج کا یہ جلسہ یہ مطالبہ کرتا ہے کہ ملا فضل اللہ کی باقاعدہ حوالگی کا حکومت افغانستان سے مطالبہ کیا جائے اور اسی چوک پر اُس مُلا فضل اللہ کو ہمارے شُہداء کے قتل کے جرم میں پھانسی دی جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم بہت جلد اسلام آباد کا رخ کرینگے، چوہدری صاحب آپ فرار کا راستہ تلاش کریں۔
آپ کے بزرگوں اور بڑوں کا بھی یہی شیوہ تھا اور آپکے ساتھیوں کا آج بھی یہی شیوہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ گذشتہ دس دنوں سے کچھ لوگ طالبان کی مخالفت کے ٹھیکیدار بن گئے ہیں اور ٹویٹ سیاست شروع کر دی ہے۔ طالبان نے مذاکراتی کمیٹی کا اعلان بھی کر دیا اور ابھی تک آپکا مذمتی بیان جاری نہیں ہوا۔ مجھے یقین ہے کہ اُس کمیٹی میں پانچویں کے بعد چھٹا نام آپ کا ہی ہے۔ جو مولوی ٹی وی پر کہہ رہے ہیں کہ رسول خدا (ص) نے بهی کافروں سے معاہدے کیے تهے تو انہیں بتا دو کہ ان طالبان کو کافر مانو تو ہم بھی مذاکرات کی مخالفت نہیں کرینگے۔ چیئرمین وائس آف شہداء سینیٹر سید فیصل رضا عابدی نے کہا ہے کہ میں سلام پیش کرتا ہوں شُہداء کو جن کے قتل سے انسانیت کی تذلیل ہوئی۔ جن کے غم کو دنیا اس وقت جان پائی جب سخت سردی میں ماؤں بہنوں نے اپنے پیاروں کے جنازوں کیساتھ دھرنا دیا۔ صبر ہم سے بار بار امتحان لیتا رہا اور ہم بار بار استقامت سے یہ امتحان بخوبی نبھاتے رہے۔ چودہ سو سال کی جاری اس جنگ کو ہم اس دور میں بڑھانے والے کردار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ طالبان مائنڈ سیٹ کی شناخت درود سے ممکن ہے۔ میں کوئی عالم دین تو نہیں ہوں، لیکن میرا کردار جتنا بھی ہے وہ ان دہشتگردوں کیلئے کافی ہے۔ میری دلی خواہش تھی کہ کوئٹہ میں آکر شُہداء کے لواحقین سے تبادلہ خیال کروں۔ جب آپ نے پہلی مرتبہ دھرنا دیا تو مجھ پر بہت دباؤ تھا کہ میں کوئٹہ میں آکر دھرنے کو ختم کرا دوں۔
جو یہ کہتے ہے کہ ہم لاشوں پر سیاست کرنے آئے ہیں، تو آج ان کے لئے واضح کردوں کہ آپ کے پہلے دھرنے میں ہی ہم نے آپکی سیاست کو اپنے جوتے کی نوک پر رکھ دیا اور جب الیکشن میں بھیجا جانے لگا تو اس وقت بھی جوتے کی نوک پر رکھ کر سیاست کو ہی خیرباد کہہ دیا۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ سیاست ہمارے بس کی چیز نہیں۔ شُہداء کی یہ لاشیں چودہ سو سال سے ہر دور کے لواحقین اُٹھاتے رہے ہیں۔ وہ جنازے درحقیقیت ہمیں اور ہمارے ارادوں کو مضبوط کرتے رہے۔ ہم اس دور کے فلسفہ حسینی کے علمبردار ہے۔ نام نہاد مذہبی و سیاسی جماعتیں کہتی ہیں کہ وہ امریکہ سے نفرت کرتے ہیں، جبکہ میں پچھلے چند مہینوں سے یہ بات مسلسل کہہ رہا ہوں کہ اسلام آباد میں یہی امریکی مضبوط قلعے بنا رہے ہیں، جس میں سات ہزار امریکی قیام پذیر ہونگے۔ پاکستان میں جنوبی ایشیا کا پینٹاگون بنایا جا رہا ہے، لیکن اسکے خلاف تمہارے منہ سے آواز نہیں نکلی۔ سینیٹر فیصل رضا عابدی کا مزید کہنا تھا کہ اس قوم کو پہچانئے، یہ قوم پچھلے بارہ سالوں سے پرامن طور پر شہید اعتزاز حسن کی طرح سینوں پہ تمہارے دھماکوں اور گولیوں کو روک رہی ہے اور آج بھی غیر مسلح صرف احتجاج کر رہی ہے۔ کافی پینے والے ٹاک شوز میں بیٹھے طالبان کے حامی، صحافی نہیں بلکہ برداشی ہیں۔ لہذا ان برداشیوں سے آج میں مناظرے کے طور پر دو سوال کرنا چاہتا ہوں۔ آپ کہتے ہیں کہ ہر جنگ میں مذاکرات ہوتے ہیں اور آپ کا یہ بھی کہنا ہے کہ پیغمبر (ص) نے بھی جنگوں میں مذاکرات کئے، لیکن مسئلہ آپکی نسل سے ہے، کیونکہ یہ نسل ایک کان سے بہری اور ایک آنکھ سے اندھی ہے۔ ہر دور میں اس نسل نے اپنی پہچان کروائی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایک دجال کا کارندہ پاکستان میں فوجی وردی کی شکل میں آیا، جبکہ دوسرے دجال نے عدالت کی کرسی کا استعمال کیا اور ایک دجال سرزمین حجاز میں بیٹھ کر وہاں سے فتوے جاری کرتا رہا۔ تو صحافی حضرات مجھے یہ بتائیں کہ مذاکراتی عمل کے وقت دونوں فریقین کی جانب سے مکمل سیزفائر کی جاتی ہے، جبکہ یہاں پر صورتحال بالکل مختلف ہے۔ جس بہادر شہید آفیسر اسلم چوہدری کے قتل میں ملا فضل اللہ کیخلاف ایف آئی آر کاٹی گئی ہے، انہی دہشتگردوں کو مذاکرات کیلئے فریق بنایا گیا ہے۔ پاکستان کے آئین کی دھجیاں اُڑائی جا رہی ہیں۔ میں نے اس سے قبل بھی ان حکمرانوں کو تنبیہ کی تھی کہ اپنے رویوں پر نظر ثانی کریں، لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ میں ان تمام قوتوں کیلئے واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ اگر انہوں نے اس مکروہ عمل کو جاری رکھا تو اس بار احتجاج برائے مذاکرات نہیں، بلکہ اس ملک سے جمہوریت کا خاتمہ ہونے تک احتجاج کرینگے۔ چیئرمین وائس آف شہداء نے مزید کہا کہ مولوی نواز شریف جو شریعت لانا چاہتے ہیں، اس میں اور یزید کی بیعت میں فرق کیا ہے۔ ہم یہ جنگ تین حصوں میں لڑ رہے ہیں۔ جو یہ یزیدی قیامت تک یاد رکھیں گے۔ پہلی جنگ اتحاد بین المسلمین سے وحدت کا بہترین مظاہرہ، دوسری جنگ اٹھارہ کروڑ عوام کو افواج پاکستان کے ساتھ کھڑا کرکے قانونی انداز میں ان کیخلاف آپریشن کا تقاضا اور تیسری جنگ اپنی ماؤں اور علماء کرام سے اجازت لیکر لڑیں گے، جس میں فیصلہ ہوگا کہ یا تم نہیں یا ہم نہیں۔ لہذا اگر تم نے غیر آئینی کام کرنے کی کوشش کرکے آئین کی شقوں کو پامال کیا تو پھر جمہوریت خواب ہوگی۔ فیصل رضا عابدی نے کہا کہ جب تک افواج پاکستان موجود ہیں ہم نے اسلحہ نہیں اُٹھانا اور جس دن آئین و قانون ہمیں اجازت دیگا، تو پھر ایسا لڑینگے جیسے شام کی عوام اپنی فوج کیساتھ ملکر لڑی۔ مجھ سے چند سیاسی جماعتوں نے گلہ کیا کہ تم مذہبی بن گئے ہو۔ تب میں نے ان سے کہا کہ جب ہم اپنے شہیدوں پر ڈھائے جانے والے مظالم پر آواز بلند کرتے ہیں تو تم ہمیں مذہبی قرار دیتے ہو اور جب تمہارے اپنے مفادات سامنے آئیں تو تم ہمیں جماعتی قرار دیتے ہوں، اتنی منافقت کیوں۔ لہذا میں ایک بار پھر واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ اس تکفیریت کو جس خطے میں فیصلہ کن شکست ہوگی، اُس خطے کا نام پاکستان ہے۔
آخر میں مجلس وحدت مسلمین کے علامہ ناصر عباس جعفری نے کہا کہ کوئٹہ اُن مظلوموں کی سرزمین ہے جنہوں نے ظلم و ظالم کے مقابلے میں خوفزدہ ہونے کی بجائے صبر و استقامت کا پیغام بھیجا اور ان ظالموں کو رسواء کیا۔ کانفرنس میں شریک مائیں اور بہنیں صبر و استقامت کی تجلی ہیں۔ کوئٹہ کی سرزمین کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ پورے ملک میں مظلومیت کو طاقت میں تبدیل کرنے کا ہنر یہاں کے لوگوں نے سکھایا جسکی وجہ سے آج پورے پاکستان میں مظلوم اکھٹے ہونا شروع ہو گئے۔ کوئٹہ والے حقیقی طور پر نشان حیدر کے وارث ہیں۔ ہمیں فخر ہے کہ ہماری جنگ کا سلسلہ انبیاء و کربلا سے جا کر ملتا ہے۔ ایک جانب رسول و انبیاء کے سچے عاشق تو دوسری جانب فرعون و یزید و ابوجہل جیسی قوتیں ہیں۔ یہ ٹکراؤ کا وہی تسلسل ہے جو آج پاکستان کی کربلا میں جاری ہے۔ اگر شُہداء کے وارث صبر و استقامت و بصیرت رکھتے ہوں تو وہ انقلاب لا سکتے ہیں۔ اسکی زندہ مثال اسلامی جمہوریہ ایران ہے، جہاں شہیدوں کے وارث امام خمینی (رہ) انقلاب لانے میں کامیاب ہوئے۔ انہوں نے شہیدوں کے خون کی طاقت سے تلوار کی دھار کو کاٹ ڈالا اور ڈھائی ہزار سالہ تختِ شہنشاہی کو خلیج فارس کے نیل میں غرق کرکے رکھ دیا۔ لبنان کی سرزمین پر شہیدوں کا وارث سید حسن نصراللہ ہے۔ شہیدوں کے ان وارثوں نے ناقابلِ شکست اسرائیل کو شکستِ فاش دے ڈالی اور ثابت کیا کہ یہ صہیونزم و امریکی و اسرائیل کاغذی شیر ہیں، ان میں کوئی جان و طاقت نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی سرزمین پر ہم شہیدوں کے پاکیزہ لہو کے وارث ہیں۔ ہم یہ ثابت کرینگے کہ ہم تھکنے والے اور ہمت و حوصلہ ہارنے والے نہیں ہیں اور شہیدوں کے خون کی اصل وارث ثانی زہرا (س) و علی کی شیر دل بیٹی ہے۔ جس نے کربلا کے 72 کے خون کے ذریعے اس عصر کی یزیدیت کو قیامت تک کیلئے رسواء کردیا۔ ہمیں ہاتھوں میں ہاتھ دیکر اس طویل سفر کو طے کرنا ہو گا۔ ایم ڈبلیو ایم کے سربراہ نے کہا کہ آپ کے احتجاجات و مظلومیت کی طاقت نے معاشرے میں طالبان، لشکر جھنگوی اور انکے سرپرستوں کو عوامی رائے عامہ کے سامنے کمزور کردیا۔ اسکے نتیجے میں وہ میڈیا میں آ کر طالبان و لشکر جھنگوی کی وکالت کرنے کی بجائے رسوا ہوتے تھے۔
انہوں نے کہا کہ آج پھر ضیاء کے زمانے کی اسٹیبلشمنٹ نے جو سازشیں کی تھی، دوبارہ اسی طرف جانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس زمانے میں بھی یہی دہشتگرد مائنڈ سیٹ اکھٹے ہوئے تھے تاکہ امریکہ و سعودی عرب کی مالی مدد کے ذریعے اس وطن کو تباہ و برباد کر سکے۔ کوئی داڑھی والا طالبان ہے تو کوئی کلین شیو طالبان ہے۔ کیا پاکستان کا آئین اجازت دیتا ہے کہ ایسا اقدام کیا جائے جس سے وطن کو نقصان ہو، اور آیا ایسے اقدامات کی اجازت دیتا ہے، جسکی قانون و آئین میں کوئی گنجائش نہ ہو۔ آج وہی نواز شریف اور اسکے ساتھی سب جمع ہو رہے ہیں۔ مجھے افسوس کیساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بلاول بھٹو زرداری طالبان کیخلاف بیان دیتے ہیں اور انکی پارٹی کے خورشید شاہ صاحب طالبان سے مذاکرات کی حمایت کرتے ہیں۔ زردای صاحب کہتے ہیں کہ ہم اور نواز شریف اکھٹے ہیں۔ یہ نفاق و منافقت بھی آپکی وجہ سے سامنے آ رہی ہیں۔ لیکن کل جب ضیاءالحق نے یہ نظام بنایا تھا اس وقت اس طرح شیعہ و سنی بیدار نہیں تھے۔ لیکن آج یہ دونوں مظلوم طبقات بیدار ہیں۔ انشاءاللہ ہم ان تمام مظلوموں کی طاقت سے طالبان دہشتگردوں کو رسوا کرکے رہینگے۔ قاتلوں سے مذاکرات کی بات کرکے انہیں سپورٹ فراہم کی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر ان دہشتگردوں کیخلاف آپریشن ہوا تو اس سے سعودی عرب و امریکہ کو تکلیف ہوگی۔ پھر پاکستان بھر میں انکے ٹھکانوں کو ختم کرنا پڑے گا، جو انہیں قابلِ قبول نہیں۔ یہ انتہائی عجیب بات ہے کہ طالبان سے طالبان مذاکرات کر رہے ہیں۔ ان مذاکرات سے پاکستان کو کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا۔ ہمیں اب ایک بڑی تحریک شروع کرنے کیلئے آمادہ ہونا پڑے گا۔
جسکا رخ اسلام آباد کی جانب ہو گا۔ پاکستان کی تمام محب وطن مظلوم عوام اور فورسز کو اکھٹا کرنا ہو گا۔ میں اعلان خطر کر رہا ہوں، کہ پاکستان کو حکمرانوں سے، قاتلوں سے اور انکے سرپرستوں سے خطرہ ہے۔ اس مادرِ وطن کو بچانے کیلئے ہمیں گھروں سے نکلنا ہو گا۔ ہم نے ایک طولانی جدوجہد کیلئے تیاری کرنی ہے۔ اسکے لئے حوصلے، بصیرت و تیاری کی ضرورت ہے۔ جس دنیا میں ہم رہ رہے ہیں اس وقت تکفیریت پوری دنیا میں ناسور کی طرح سامنے آ چکی ہے۔ شام میں ان کو بہت بڑی شکست ہو چکی ہے جبکہ عراق میں ہونے والی ہے۔ لبنان میں شکست کھا چکے ہے جبکہ یمن میں شکست کھا رہے ہیں۔ یہ زمانہ مظلوموں کی فتح کا زمانہ ہیں۔ اس وقت تکفیریت عالمی سطح پر رسوا ہو چکی ہے۔ انکے لئے کوئی ٹھکانہ نہیں ہے۔ لہذا جس طرح شام کے عوام ان کیخلاف متحد ہیں، ہمیں بھی متحد ہونا پڑے گا۔ اگر ہمیں پاکستان میں امن نہیں دیا گیا تو ہم امن کو چھین کر لے آئینگے۔ ہمیں پاکستان میں نفرت کی بجائے محبت چاہیئے۔ مجلس وحدت مسلمین کے رہنما نے مزید کہا کہ چند روز قبل وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار صاحب مذاکرات کرنے یہاں پہنچے۔ انہوں نے کہا کہ میں آرمی چیف و وزیراعظم کی طرف سے آیا ہوں۔ میں پہلے والوں کی طرح نہیں ہوں، میری زبان پر اعتبار کریں۔ ہم آپکے قاتلوں کو نہیں بخشیں گے۔ آج وہ وزیر داخلہ بےاختیار ہو گئے ہیں جبکہ انکی جگہ عرفان صدیقی آ کر بیٹھ گئے ہیں، لیکن تمام تر وعدوں کے برعکس ہمارے زائرین کیلئے راستے بند کر دیئے گئے۔
انہوں نے کہا کہ وہی کام جو متوکل عباسی نے کیا تھا، وہی چوہدری نثار و نواز شریف نے کیا ہے۔ میں حکمرانوں سے کہتا ہوں کہ اگر جلد از جلد زائرین کیلئے راستوں کو نہ کھولا گیا تو ہم اپنی طاقت سے کھولیں گے۔ حفاظت فراہم کرنے کا وعدہ کرکے چوہدری نثار نے ہمیں مزید محصور کر دیا۔ جو مستونگ کے تیس کلو میٹر کے راستے کو محفوظ نہیں بنا سکتے وہ پورے ملک کی کیا خاک حفاظت کرینگے۔ میں نے اس سے قبل بھی کہا تھا کہ اب کی بار ہم یہاں پر دھرنے نہیں دینگے۔ بلکہ اسلام آباد جائینگے۔ ہم اس زندگی پر لعنت بھیجتے ہیں، جو شُہداء کے خون سے سودا بازی کرکے گزاری جائے۔ جب وزیراعظم میاں نواز شریف کوئٹہ آئے تو انہیں غلط بریفنگ دی گئی۔ ہم زائرین کے سفر پر پابندی کو قبول نہیں کرینگے، کیونکہ یہ دہشتگردوں کی فتح ہے۔ تم نے انکے خلاف آپریشن کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ پورے پنجاب میں نواز شریف اور شہباز شریف کی حکومت ہماری لئے بنی عباس و بنی اُمیہ جیسی بنی ہوئی ہیں۔ ہم نے اگر مزید ان یزیدی حکمرانوں کو مہلت دی تو یہ وطن کا سودا کرینگے، لہذا ان حکمرانوں کو ایوانوں سے باہر پھینکنا ہوگا۔ جلسے میں موجود تمام جماعتوں کے رہنماؤں نے ہاتھوں میں ہاتھیں ڈال کر وحدت کا عملی مظاہرہ کرتے ہوئے دہشتگردوں کیخلاف متفقہ جدوجہد کرنے کا اعادہ کیا۔
رپورٹ: این ایچ حیدری