The Latest

وحدت نیوز (لاہور) نیشنل ایکشن پلان پر آئی ایس پی آر کے بیان سے ملت تشیع کا موقف درست ثابت ہو گیا،کرپٹ،نااہل اور متعصب حکمران دہشت گردی کے خاتمہ کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں،اقتدار بچانے کیلئے کالعدم جماعتوں کو گلے لگایا جا رہا ہے جو آئین پاکستان سے غداری کے مترادف ہے ،ان خیالات کا اظہار مجلس وحدت مسلمین کے سربراہ علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے لاہور میںورکرز اجلاس سے خطاب میں کیا،علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے کہا کہ موجودہ حکمران نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد میں بری طرح ناکام دکھائی دیتے ہیں ،دہشت گرد اور کالعدم گروہ اسلام آباد میں ان کی ناک تلے آئین و دستور پاکستان کو روند رہے ہیں مگر ان کی طرف انگشت نمائی کرنا جرم بن گیا ہے،انہوں نے کہا کہ ذاتی مفادات کیلئے ملک کو قربان کیا جارہا ہے،ملکی سلامتی دائو پر لگی ہوئی ہے،افواج پاکستان اور پاکستانی قوم کی عظیم قربانیاں حکمرانوں کیلئے کوئی وقعت نہیں رکھتیں،اگر حکمرانوں نے رویہ نہ بدلا تو تاریخ کبھی معاف نہیں کرے گی۔انہوں نے اس موقعہ پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ خیبر پختونخواہ،بلوچستان اور سند ھ میں ہمارے لوگوں کو چن چن کر مارا جا رہاہے، پنجاب کی متعصب حکومت نیشنل ایکشن پلان کو صرف ہمارے لوگوں کے خلاف استعمال کر رہی ہے،عزاداری کے خلاف سازشیں کی جارہی ہیں اور اس ملک کے دشمن دہشت گردوں کو کھل کھیلنے کی چھٹی دے دی گئی ،دہشت گرد آزاد اور ملک کے وفادار بانیان مجالس وعزاداران پر پابندیاں لاگو ہیں،یہ رویہ ہمارے لیئے کسی بھی طور قابل قبول نہیں ہے،اگر حکمران ملک سے مخلص ہیں تو نیشنل ایکشن پلان پر غیر جانبدارانہ عمل درآمد کروائیں ہم دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے ہر قسم کا تعاون کریں گے۔
    
علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے بلدیاتی انتخابات میں کالعدم گروہ سے اتحاد کرنے والی سیاسی جماعتوں کی پالیسیز کی شدید مذمت کی اور کہا کہ یہ نیشنل ایکشن پلان کی خلاف ورزی ہے ،الیکشن کمیشن اور حکمرانوں کو اس کا نوٹس لینا چاہیئے ،کالعدم گروہ کے ساتھ قومی جماعتوں کے پرچم لہرائے جا رہے ہیں جو اس بات کا ثبوت ہے کہ ان جماعتوں کو صرف اقتدار سے پیار ہے،یہ کرسی کے پجاری ملک کی اینٹ سے اینٹ بجانے والے گروہ کو اپنا کاندھا پیش کر کے ملکی آئین کا مذاق اڑا رہے ہیں،انہوں نے مزید کہا کہ ہم جمہوریت اور ملک کے آئین پر یقین رکھتے ہیں اور نام نہاد جمہوری جماعتوں اور حکمرانوں کی طرف سے غیر جمہوری رویہ اور آئین پاکستان کو تسلیم نا کرنے والے دہشت گردوں کے سرپرستوں کے خلاف خاموشی لمحہ فکریہ ہے،آج پاکستان میں ایک مخصوص سوچ اور نظریہ کو مسلط کرنے کی کوشش ہو رہی ہے،ہم اس انتہا پسندانہ سوچ کو مسلط نہیں ہونے دینگے،آئین پاکستان میں تمام مکاتب فکر کو یکساں آزادی حاصل ہے،عالمی دہشت گرد داعش کے پیروکار وں کے نظریہ اور سوچ کو دنیا اسلام کے ہر مہذب مسلمانوں نے نفی کی ہے۔

وحدت نیوز (کراچی) مجلس وحدت مسلمین کراچی ڈویژن بلدیاتی انتخابات میں بھر پور انداز میں حصہ لے رہی ہے،منتخب یونین کونسلزاور یونین کمیٹیوں میں مشترکہ اورغیرمشترکہ اندازمیں انتخابات لڑیں گے، ماضی کی حساسیت کو مدنظررکھتے ہوئے کراچی میں بلدیاتی انتخابات پاک فوج کی زیر نگرانی کروائے جائیں ، ان خیالات کا اظہارمجلس وحدت مسلمین کراچی ڈویژن کے ڈپٹی سیکریٹری جنرل سید رضا نقوی نے ضلع وسطی کے امیدواروں سے ملاقات کے موقع پر گفتگو کرتے ہوئے کیا،اس موقع پر ایم ڈبلیوایم ضلع وسطی کے سیکریٹری جنرل زین رضوی،ڈپٹی سیکریٹری جنرل عسکری رضوی ،سیکریٹری امورسیاسیا ت ثمرزیدی،امیدواربرائے چیئرمین یونین کونسل26النور سوسائٹی میرتقی علی( ظفر)،وائس چیئرمین مبشرحسن موجود تھے۔

سید رضانقوی کا کہنا تھاکہ کراچی کے بعض پولنگ اسٹیشن اب بھی حساس ہیں،جہاں کسی بھی ناخوشگوارواقعے سے نپٹنے کیلئے پیشگی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے،مجلس وحدت مسلمین عوامی خدمت کا یہ سفر ہر صورت جاری رکھے گی،ہمارا ہدف قابل ، معاملہ فہم اور درددل رکھنے والے عوامی نمائندوں کو بااختیاربناکرمیدان میں لانا ہے تاکہ وہ عوام کی مشکلات کو انکی دہلیز پر حل کرسکیں ،ایم ڈبلیوایم نے فل حال کسی سیاسی ومذہبی جماعت کے ساتھ انتخابی اتحاد یا سیٹ ایڈجسٹمنٹ کا تاحال کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے،انہوں نے کورکمانڈرکراچی،ڈی جی رینجرزسندھ اور آئی جی سندھ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ حساس پولنگ اسٹیشن اور ووٹرز کی جان ومال کا تحفظ کو یقینی بنانے کیلئے عملی اقدامات بروئے کار لائیں ۔

وحدت نیوز (سکردو) مجلس وحدت مسلمین بلتستان کے رہنماء ڈاکٹر کاظم سلیم نے کہا ہے کہ وزیراعلٰی سمیت کسی کے پاس بیس لاکھ عوام کی قسمت کا فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں ہے اگر حکمرانوں میں اتفاق رائے قائم کرنے کی اہلیت نہیں استصواب رائے سے کام لیا جائے۔ یہ بات انہوں نے ایشین ہیومن رائٹس کے نمائندے ڈاکٹر ارسلان چوہدری سے گفتگو کرتے ہوئے کہی جنہوں نے اسلام آباد میں ان سے ملاقات کی۔ ڈاکٹر کاظم سلیم نے مزید کہا کہ گلگت بلتستان کے آئینی حیثیت کا تعین کرنے کا اختیار یہاں کے بیس لاکھ عوام کے پاس ہے لہٰذا ایسے کسی بھی فیصلے کو یہاں کے عوام مسترد کریگی جو ان کے قومی مفاد اور امنگوں کے منافی ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ گلگت بلتستان کے باشندے چاہے وہ جس علاقے یا مسلک سے تعلق رکھتے ہوں ہمارے لئے یکسان طور پر محترم ہیں اور اس حساس خطے کے اسٹیک ہولڈر ہونے کے ناطے ان سب کے نفع اور نقصان پورے خطے کا ہے، اس آئینی جنگ کو ہم سب نے ملکر لڑنا ہے اور یہ حکومت وقت کی ذمہ داری ہے کہ وہ تمام اسٹیک ہولڈر کو ایک میز پر بیٹھا کر قومی اتفاق رائے پیدا کرئے۔ اگر یہ کام حکمران نہیں کر سکتے تو پھر جمہوریت اور انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ آئینی حیثیت کے بارے میں ریفرنڈم کرایا جائے، عوامی امنگوں کے بغیر نہ تو پاکستانی حکومت کوئی فیصلہ ہمارے اوپر مسلط کر سکتی ہے اور نہ ہی اقوام متحدہ کے کسی فیصلے کو ہم مانتے ہیں۔ اقوام متحدہ اگر کشمیریوں کو استصواب رائے کا حق دے سکتا ہے تو یہ آئینی حق ہم سے کیسے چھین سکتا ہے؟ اس کے بغیر کوئی بھی غیر معقول فیصلہ اس حساس علاقے کی سالمیت کے خطرناک ہوگا۔ انہوں نے مسئلہ کشمیر اور گلگت بلتستان کے آئینی حیثیت کے حوالے سے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ مسلمان اور پاکستانی ہونے کی حیثیت سے کشمیریوں کی آزادی کی حمایت کرتے ہیں لیکن یہ کونسا انصاف ہے کہ کشمیریوں کے خاطر ایک اور قوم کو پیدائشی اور آئینی حقوق سے محروم رکھا جائے۔ اسلام آباد انتظامیہ کی غیر مناسب پالیسیوں کی وجہ سے یہاں کے باشندوں میں احساس محرومی روز بروز بڑھ رہی ہے جو کسی دن لاوے کی شکل اختیار کر سکتا ہے اس کے بعد کی حالات کو روکنا پھر کسی کے بس میں نہیں ہوگا۔ ملک کے دیگر شورش زدہ علاقوں کے برخلاف گلگت بلتستان کی عوام ابھی تک الحاق کے لئے جدوجہد کر رہی ہیں لیکن حکمرانوں کی یہی بے حسی برقرار رہی تو پھر لوگوں کے مطالبات بھی بدل سکتے ہیں۔ انہوں نے واضح کیا اگر آئینی حیثیت کے تعین کے سلسلے میں عوامی امنگوں کا خیال نہ رکھا گیا تو ہمارا رد عمل سخت ہوگا لہٰذا بہتر یہی ہے عدل و انصاف کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے عوامی جذبات اور احساسات کا خیال رکھا جائے۔

وحدت نیوز (آرٹیکل) انسان کی زندگی میں کچھ حادثے ایسے ہوتے ہیں جو انسان کے قلب و احساس پر گہرے نقوش چھوڑ دیتے ہیں۔ انسان چاہے بھی تو اُن کو فراموش نہیں کرسکتا۔ اسی طرح کچھ انسان بھی ایسے ہوتے ہیں کہ جو ساری زندگی دوسرون کے دل و دماغ پر چھائے رہتے ہیں۔ تاریخ ایسی شخصیات اور ایسے حادثوں سے بھری پڑی ہے۔ اگر یہ حادثے تازہ ہوں تو درد و رنج بھی تازہ ہوتا ہے، انہیں تاریخی حادثوں میں سے ایک حادثہ، فاجعہ منٰی ہے، جس نے نہ صرف عالم اسلام کو متاثر کیا بلکہ ہر صاحب شعور چاہے کسی مذہب و مسلک سے اُس کا تعلق ہو اور جو انسانیت کو سب سے بڑا مذہب و مکتب سمجھتا ہو، متاثر ہوا ہے۔ فاجعہ منٰی میں سات ہزار حجاج کرام کہ جن کو مہاجر الی اللہ کہا جاتا ہے، کا شہید ہونا، پوری ملت و اسلام  کے لئے باعث درد و الم بنا اور اس سے پوری ملت اسلام کو بہت بڑا نقصان ہوا چونکہ اس میں کچھ شخصیات ایسی تھیں جو کہ بین المللی تھیں اور جن کی ابھی انسانیت کو بہت ضرورت تھی۔ اُن شخصیات میں سے ایک شخصیت مہاجر الی اللہ، عالم مبارز، استاد بزرگ، خطیب توانا، دوست مخلص، مدافع ولایت فقیہ، مبلغ اعظم، انسان دوست، شہید ڈاکٹر غلام محمد فخر الدین تھے۔

غلام محمد فخرالدین شہید کسی تعارف کے محتاج نہیں، چونکہ وہ ایک ہمہ جانبہ Multi-dimensional personality- تھے۔ علاقائی سیاست ہو یا قومی اور بین الاقوامی سیاست، داخلی ایشوز (issues) ہوں یا خارجی۔ تعلیم و تربیت کے مسائل ہوں یا فرہنگی و اجتماعی ہر میدان میں وہ صف اول میں نظر آتے تھے، شہید کا تعلق پاکستان کے پسماندہ اور دُور افتادہ علاقہ گلگت بلتستان سے تھا۔ شہید اپنے بوڑھے والدین کے اکلوتے بیٹے اور اکلوتا سہارا تھے۔ شہید نے اپنی زندگی کی ابھی 44 بہاریں بھی پوری طرح نہیں دیکھی تھیں۔ اس دار فنا سے دار بقا کی طرف لبیک  ا۔۔۔ لبیک کہتے ہوئے قضائے الٰہی کو لبیک کہہ دیا اور اپنے فیملی پسماندگان کے علاوہ ہزاروں لوگوں کو سوگوار چھوڑ گئے۔ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ہمیں یوں ہی اچانک شہید کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے کھونا پڑے گا۔
کہاں خبر تھی چمن یوں اُداس ہوجائے
یوں تجھے کھونے کا بے حد ملال باقی ہے

شہید سے بندہ حقیر کی ملاقات ایران کی مقدس سرزمین قم المقدس، جوار حرم حضرت معصومہ (س) میں دفتر مجلس وحدت مسلمین میں چار سال قبل ہوئی تھی۔ پہلی ہی ملاقات میں مجھے احساس ہوا تھا کہ یہ ایک معمولی عالم نہیں، اُن کی گفتگو، ان کا اخلاق، بات کرتے ہوئے لبوں پر دائماً ایک میٹھا سا تبسم، یہ سب کچھ ایسا تھا کہ میں اُن کے بارے میں معلومات حاصل کرنے پر مجبور ہوا۔ اُسی وقت میرے ساتھ آقائے شاہد حسین عرفانی جو کہ رشتے میں میرے ماموں لگتے ہیں، اور وہ مسلسل شہید مظلوم  سے بلا جھجک گپ لگا رہے تھے، میں نے فرصت ملتے ہی اُن سے پوچھ لیا کہ یہ آغا صاحب کون ہیں اور کہاں سے ان کا تعلق ہے۔ تو ماموں نے تعجب سے کہا کہ عجیب ہے آپ ان کو نہیں جانتے، مجھے بڑی شرمندگی ہو رہی تھی، میں نے اثبات میں سر ہلا دیا، پھر ماموں شہید سے مخاطب ہوئے اور کہا یہ ہر دلعزیز، عالم مبارز، غلام محمد فخر الدین صاحب ہیں اور اُن کا تعلق گلگت بلتستان سے ہے اور پھر میری طرف اشارہ کرکے فرمایا یہ میرا بھانجا ہے عاشق حسین، علامہ راجہ ناصر عباس جعفری صاحب کے شاگرد خاص ہیں۔ پھر شہید مجھ سے مخاطب ہوئے اور بڑی اپنائیت سے کچھ سوالات کئے۔ اُن کے ساتھ ایک اور شخص بزرگوار بھی تھے، اُن سے بعد میں تعارف ہوا وہ آقائے حسن باقری صاحب تھے۔ ماموں شاہد حسین عرفانی نے بعد میں بتایا ان دونوں کی جوڑی بہت پکی ہے۔ بڑے صمیمی دوست ہیں بلکہ کہا کہ یہ دونوں لازم و ملزوم ہیں، جہاں فخر الدین صاحب ہوں گے، وہاں حسن باقری صاحب اور برعکس آپ کو نظر آئیں گے۔

اس پہلی ملاقات میں ہی قلباً میں اُن کے بہت قریب ہوچکا تھا۔ آہستہ آہستہ شہید سے مختلف جگہوں پر ملاقائیں ہوتیں رہیں، بلکہ ڈاکٹر کرار کے گھر کئی دفعہ اُن سے خصوصی گفتگو کرنے کا موقع ملا۔ گلگت بلتستان کے مسائل پر ہماری اکثر اوقات گپ شپ ہوتی رہتی تھی، یہاں تک کہ آغا شہید MWM قم کے سیکرٹری جنرل منتخب ہوئے۔ دفتر میں اُن سے ملاقات کا سلسلہ جاری رہا، یہاں تک کہ شہید نے ایک دن دفتر میں بلایا اور شعبہ رواط و شعبہ سیاسیات کی مسئولیت سنبھالنے کا کہا۔ میں نے صاف الفاظ میں معذرت کی، لیکن شہید نے میری باتیں سُنی ان سنی کر دیں اور مجھے بالآخر اس مسئولیت کو انتخابات کے نتیجے میں قبول کرنا پڑا۔ یوں شہید کے ساتھ مل کر دفتر میں کام کرنے کا موقع ملا۔ یہاں تک کہ کہ ایک شب شہید نے موجودہ قائم مقام سیکرٹری جنرل گلزار جعفری صاحب، مجھے اور کچھ اور دوستوں کو بلایا، کافی گپ شپ ہوئی۔ اپنی ساری ذمہ داریاں گلزار جعفری صاحب کو سونپی، دفتری کاموں کو بطریق احسن انجام دینے کی نصیحت کی اور کہا کہ وہ کافی لمبے عرصے کے لئے عازم پاکستان ہیں۔ جب میں نے اُن سے پوچھا آغا آپ دوبارہ کب تشریف لائیں گے، تو مسکرا کر فرمایا، آگے کا کچھ پتہ نہیں، انشاءاللہ اگر زندگی رہی تو دوبارہ ملاقات ہوگی۔ بہرحال شہید کو رات کے تقریباً ایک بجے ہم نے خدا حافظ کہہ دیا۔ میں نے اُن سے کہا آقا اگر اجازت ہو تو میں آپ کو موٹر سائیکل پر گھر چھوڑ دوں، کافی دیر ہوچکی ہے تو آقا نے فرمایا نہیں مختار مطہری صاحب مجھے گھر ڈراپ کریں گے، آپ چلے جائیں۔ مختار مطہری آفس سیکرٹری تھے۔ آغا شہید اُن سے بے حد پیار کرتے تھے۔ حتی آخری دنوں میں بھی  whatsupp پر سعودیہ سے مختار مطہری صاحب سے رابطے میں تھے۔ میں خدا حافظ کرکے گھر آیا، لیکن مجھے کیا پتہ تھا کہ یہ شہید آغا سے میری آخری ملاقات ہوگی اور یوں پردیس میں جاکر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے وہ واپس نہیں آئیں گے۔

معصوم (ع) سے روایت ہے "و اذا مات العالم ثُلم فی الاسلام ثلمۃ لا یسدُّھا شئی الی یوم القیامۃ" معصوم (ع) فرماتے ہیں، جب کوئی عالم اس دنیا سے چلا جاتا ہے تو اسلام میں ایک ایسی دراڑ پڑ جاتی ہے، ایسا خلا واقع ہوتا ہے کہ قیامت تک اُس خلا کو کوئی چیز پُر نہیں کرسکتی۔ شہید ڈاکٹر فخرالدین اس حدیث کے کماحقہ مصداق تھے۔ شہید اخلاق میں، شجاعت میں، خلوص میں، پرہیزگاری میں، اُنس و محبت میں، عمل میں، کوشش و تلاش میں، سیاست میں صداقت میں، امانت میں، سخاوت میں، تعلم و تربیت میں، قومی مسائل میں، عقاید میں، تزکیہ نفس، کوئی بھی مشکل اور ایشو ہو سب سے آگے نظر آتے تھے۔ سانحہ راولپنڈی ہو یا سانحہ کوہستان، سانحہ راولپنڈی ہو یا سانحہ تفتان، سوریہ کی جنگ ہو یا عراق و یمن، مسئلہ نصاب ہو، سانحہ 1988ء، مشکل کی ہر گھڑی میں ظلم و استبداد کے خلاف اپنی آواز بلند کرنا ضروری سمجھتے تھے اور عملاً ہر میدان میں موجود ہوتے تھے، وہ اپنی سیاسی بصیرت اور شجاعت میں منفرد تھے۔
تو منفرد تھا شجاعت میں شرافت میں
ہر ایک زبان پر تیری مثال باقی ہے
اُن کی شخصیت میں اعتدال تھا، اگرچہ وہ کام مجلس وحدت مسلمین میں کرتے تھے، لیکن کبھی بھی اپنی زبان سے، اپنے عمل و اخلاق سے کسی اور کو اذیت نہیں کی یہی وجہ ہے کہ آج ہر پارٹی سے تعلق رکھنے والے مذہبی اور سیاسی لوگ اس غم میں برابر کے شریک ہیں، وہ عملاً ہر چیز سے بالاتر ہوکر اخوت، محبت اور بھائی چارے کے قائل تھے۔

نہج البلاغہ اور قرآن سے اُنہیں ایک منفرد لگاؤ تھا۔ مجتمع عالی امام خمینی میں باقاعدہ نہج البلاغہ کی تدریس کرتے تھے۔ امام علی (ع) نہج البلاغہ میں فرماتے ہیں "خالطوا الناس مخالطۃ اِن متّم معھا بکوا علیکم و ان عشتم ھَنو الیکم" امام فرماتے ہیں کہ لوگوں کے بیچ اس طرح سے زندگی گزارو، اگر مرجاؤ تو لوگ تم پر گریہ کریں اور اگر زندہ رہو تو لوگ آپ کی زیارت کے مشتاق ہوں۔ شہید منٰی امام (ع) کے اس قول کے واقعاً مصداق تھے۔ اُن کی شہادت کے بعد آج ہزاروں لوگ اُن پر گریہ کرتے ہیں، اُن کے لئے کف افسوس ملتے ہیں اور جب تک وہ زندہ تھے مجھ جیسے حقیر، اُن کی زیارت کے مشتاق رہتے تھے، وہ ہمیشہ دفتر میں کہتے تھے کہ جو بھی بات کرنے ہی اخلاق کے دائرے میں رہ کر کریں، تاکہ آپ کے عمل اور زبان سے کسی کو اذیت نہ ہو۔ دفتر میں اُن کے ساتھ بیٹھ کر بات کرنا، سیاسی فرہنگی اور دوسرے قومی مسائل پر اُن سے گفتگو کرنا ہمیشہ ہماری آرزو ہوا کرتی تھی۔ اُن کے ساتھ بیٹھنا ہم اپنے لئے باعث شرف اور افتخار سمجھتے تھے۔ جیسا کہ معصوم فرماتے ہیں مجالسہ اہل الدین شرف الدنیا و الآخرہ (کافی، ج۱، ص ۳۸) اہل دین (علماء) کے ساتھ معاشرت دنیا اور آخرت دونوں میں باعث شرف و افتخار ہے، شہید بہ عنوان ایک عالم دین ایسے ہی تھے کہ ہم اُن کے ساتھ بیٹھنا اپنے لئے باعث افتخار اور شرف سمجھتے تھے۔

شہید کی شہادت سے نہ صرف اُن کے بچے اپنے شفیق باپ سے محروم ہوئے، والدین نہ صرف اپنے اکلوتے بیٹے کو کھو چکے ہیں، طلباء نہ صرف اپنے مخلص اُستاد کو کھو چکے ہیں بلکہ پورے مکتب تشیع کو بڑا نقصان ہوا ہے، خاص طور پر مجلس وحدت مسلمین کو بہت بڑا نقصان ہوا ہے، چونکہ وہ وحدت مسلمین کے اثاثی ستونوں میں سے ایک تھے۔ اس طرح سرزمین بے آئین 68 سالوں  سے اپنے سیاسی، آئینی اور انسانی حقوق سے محروم، گلگت بلتستان کی عوام کو بہت بڑا نقصان ہوا ہے، چونکہ مجھ جیسے کئی لوگ اُن کو گلگت بلتستان کا آئندہ اور مستقبل سمجھتے تھے اور میرے سمیت کئی مجھ جیسوں کو اُن سے بڑی امیدیں وابستہ تھیں۔
چلا گیا ہے تو محفل سے اے اُمید شمال
ابھی قوم کی تقدیر کا سوال باقی ہے
اُن کی شہادت سے گلگت بلتستان اپنے ایک عظیم فرزند اور قائد سے محروم ہو گیا ہے۔
درد میں ڈوبا ہے گلشن تمہاری فرقت میں
تیرے افکار کا جاہ و جلال باقی ہے
تو جو پردیس میں جاکر نہیں آیا واپس
زبان گنگ ہے تیرا خیال باقی ہے

شہید جس طرح سے اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں منفرد تھے، جس طرح سے شجاعت و سخاوت و عبادت، اخلاص و عمل اور اخلاق میں دوسروں سے الگ تھے، شہادت میں بھی دوسروں سے منفرد رہے، مہاجر الی اللہ کا شرف حاصل کیا اور قرآن کی اس آیت کا حقیقی مصداق ٹھہرے: "ومن یخرج من بیتہ مہاجراً الی اللہ و رسول، ثم یدرکہ الموت فقد وقع أجرہ علی اللہ و کان اللہ غفوراً رحیما" (سورہ نساء، آیت ۱۰۱) اور جو شخص خدا کی راہ میں گھر بار چھوڑ جاتے ہیں، وہ زمین میں بہت سی جگہ اور گشائش پائے گا اور جو شخص خدا اور رسولؐ کی طرف ہجرت کرکے گھر سے نکل جائے، پھر اُس کو موت آپکڑے تو اُس کا ثواب خدا کے ذمے ہوچکا اور خدا بخشنے والا اور مہربان ہے۔ ایک عالم دین، عالم مجاہد اور مبارز ہونے کے ناطے وہ کبھی ایک جگہ نہیں رکتے تھے، ہمیشہ مسلسل سفر میں ہوتے تھے اور اکثر تبلیغ دین کے سلسلے میں ہمیشہ سفر پر ہوتے تھے۔ قم سے چار پانچ ماہ پہلے تبلیغ کے لئے پاکستان گئے تھے۔ اُن کے بچے قم میں تھے اور ابھی بھی یہی پر ہیں، ان چار پانچ مہینوں میں اُن کو ایران آنے کی فرصت ہی نہیں ملی، تبلیغ میں موفق اور کامیاب تھے اور اس کی وجہ اُن کی بصیرت اور اخلاق تھا۔ اُن کی شخصیت میں ایک خاص قسم کی کشش تھی، وہ جو بات کرتے تھے، وہ دل میں اُتر جاتی تھی چونکہ وہ عالم باعمل تھے اور کوئی بھی جب اُن سے ملتا تھا متاثر ضرور ہوتا تھا۔
جہاں جہاں سے تو گزرا تھا ہر طرف پھیلا
تیرے کردار کا حسن و جمال باقی ہے

لیکن افسوس آل یزید (لعن) نے اس مرد حر اور مرد مجاہد کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ہم سے جدا کر دیا۔ خدا اس خبیث نسل (آل یزید) کو دنیا اور آخرت میں ذلیل و رسوا کرے، اُن کو اُن کے منطقی انجام تک پہنچا دے، شہید کے درجات کو بلند فرمائے اور شہید کے پسماندگان کو صبر جمیل عطا کرے۔ شہید راہ حق تمہاری عظمتوں کو سلام
آل یزید (لعن) کا ابھی زوال باقی ہے
بہت سارے دوستوں نے شہید کے بارے میں  تفصیلاً لکھا، لیکن چند اشعار جو میں نے شہید کے بارے میں لکھے ہیں، آپ کے حضور عرض کرتا ہوں، شاید آپ کو بھی ایک آدھا ٹوٹا پھوٹا شعر اِن اشعار میں سے پسند آجائے اور مجھے دعا دیں، یہ اشعار شہید کے بارے میں میرے جذبات اور احساسات کی ترجمانی کرتے ہیں۔
میرے عظیم برادر میرا سلام تجھ پر
فخر دین قوم کے یاور میرا سلام تجھ پر
تیرے بچھڑنے کا انداز کچھ الگ ہی رہا
اے عزم و صبر کے پیکر میرا سلام تجھ پر
قوم و ملت کو تمہاری بہت ضرورت تھی
اے حوصلوں کے سمندر میرا سلام تجھ پر
بہت امیدیں تھیں وابستہ تم سے اے بھائی
تو تھا ارمانوں کا محور میرا سلام تجھ پر
تمہاری جرأت و ہمت تمہارا حسن سلوک
محبتوں کے پیمبر میرا سلام تجھ پر
کسے خبر تھی کہ ایک پل میں سب ختم ہوگا
نہیں ہوتا ہمیں باور میرا سلام تجھ پر
تیرے بغیر گلستان میں گھپ اندھیرا ہے
کہاں سے لائیں تجھے گھر میرا سلام تجھ پر

 

تحریر۔۔۔۔عاشق حسین آئی آر

 

وحدت نیوز(گلگت) ٹیکنو کریٹس اور خواتین اراکین کے فنڈز میں کٹوتی ن لیگ کا غریب عوام سے خیانت کے مترادف ہے۔وزیر اعلیٰ پیکیج کی سکیمیں ختم کرنا عوامی مفادات پر کاری ضرب اور جمہوری تقاضوں کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے،ان خیالات کاا ظہار مجلس وحدت مسلمین گلگت بلتستان کے سیکرٹری سیاسیات غلام عباس نے اپنے ایک بیان میں کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت نے اخباری بیانات کی حد تک سودنوں میں اپنے اہداف پورے کرلئے ہیں عملی طور پر ادارے فنڈز کمی سے کنگال ہیں۔میڈیا سمیت دیگر ادارے عدم ادائیگیوں کی وجہ سے سخت پریشانی سے دوچار ہوچکے ہیں،حکومتی دعوے جھوٹ کا پلندہ اور عوام کے آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش ہے۔انہوں نے کہا کہ حکومت نے پہلے سو دنوں میں اپنی تنخواہیں اور مراعات کو بڑھانے کے سوا کچھ نہیں کیا،سابقہ دور حکومت کی سکیمیں ختم کرنا ایک طرح سے سیاسی انتقام ہے۔ترقیاتی سکیموں کو ختم کرنے اختیار موجودہ حکومت کو قطعاً حاصل نہیں کیونکہ سابقہ حکومت کو بھی اسی طرح کا عوامی مینڈیٹ حاصل تھا جس طرح آج ن لیگ کوحاصل ہے۔حکومت ترقیاتی اسکیموں پر سیاست چمکانے کی بجائے عوامی خدمت پر توجہ دے اور عوام سے کئے گئے وعدوں کی پاسداری کو یقینی بنائے۔انہوں نے کہا کہ سابقہ حکومت کے منصوبوں کی تکمیل کو اپنے کھاتے میں ڈالنا شرمناک عمل ہے ایک حکومتی وزیر نے سابقہ حکومت کے منصوبوں کو اپنے کھاتے میں ڈال کر عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی ناکام کوشش کی ہے ۔

وحدت نیوز (نجف اشرف) دفتر مجلس وحدت مسلمین نجف اشرف عراق میں مناسبت استشھاد امام زین العابدین علیہ السلام اور برائے ایصال ثواب فخر ملت تشیع فخر پاکستان شہید منیٰ حجت الاسلام والمسلمین ڈاکٹر علامہ غلام محمد فخرالدین (قدس سرہ) کے سلسلے میں مجلس عزا کا انعقاد کیا گیا۔

جس میں شیخ قمر عباس مطہری اور آصف علی غدیری نے ہدیہ سلام پیش کیااور حجت الاسلام والمسلمین قبلہ سید صادق شاہ رضوی نے خطاب کیااور سیرت امام زین العابدین ع اور مضائل و مناقب و مصائب مفصلاً بیان کیئےاور ساتھ سماحتہ السید نے فخرملت علامہ ڈاکٹر غلام محمد فخرالدین کی حیات طیبہ پر مفصل گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر صاحب نے جیسی ہی بچپن سے جوانی کی طرف قدم رکھا ان کا مشغلہ ذکر آل محمد ص تھا۔اور ذکر آل محمد میں ہی مشغول رہتے تھے۔ جس کی وجہ سے دور دور سے لوگ آتے تھے اور ڈاکٹر صاحب کو فضائل و مصائب سنوانے کے لیے لے جاتے تھےاور جو بھی مشن آل محمد لے کر چلتے تھے تو ڈاکٹر صاحب ان کے شانہ بشانہ ہوتے تھے۔انہوں نے مزیدکہا کہ حوزہ علمیہ نجف و قم سے لے کر پاکستان کی سرزمین تک کوئی ایسی شخصیت نہیں ہے جو ڈاکٹر صاحب کی شخصیت سے ناواقف ہو،آخر میں جنرل سیکریٹری مجلس وحدت مسلمین نجف اشرف عراق الشیخ ناصر عباس النجفی نے اراکین مجلس وحدت مسلمین اور مجلس میں آئے ہوئے تمام طلاب و علماء کرام کا شکریہ ادا کیا۔

وحدت نیوز (کراچی) مجلس وحدت مسلمین کراچی ڈویڑن کے ڈپٹی سیکریٹری جنرل شہید علامہ دیدارعلی جلبانی اور انکے با وفا محافظ شہید سرفراز حسین بنگش کی دوسری برسی کے تعزیتی جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے صوبائی سیکرٹری جنرل علامہ مختار امامی نے جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ شہید دیدار جلبانی ایک نڈر، بے باک، بہادر، شجاع اور مرد میدان ، مجاہد عالم دین تھے، شجاعت انکی ذات کا خاصہ تھی، شہید نے مختصر مدت تنظیم میں گذاری لیکن اپنی فعالت اور بیباکی کی بنیاد پر ملت جعفریہ کراچی کی دل کی دھڑکن بن گئے، شہید علامہ حسن ترابی کی شہادت کے بعد خدا نے شہیدعلامہ دیدار جلبانی کو ایک نعمت کی صورت میں کراچی کے مومنین پر نازل کیا تھا، ان کی مسلسل میدان مبارزہ میں حاضری سے خوفزدہ استعماری آلہ کاروں نے انہیں بے دردی کے ساتھ شہید کردیا ، ان کی دوسری برسی کے موقع پر شہداء کے خانوادگان کو ہدیہ تعزیت وتسلیت پیش کرنے کے ساتھ ساتھ شہداء کی مقدس راہ پر ثابت قدم رہنے کے عزم کا اعادہ بھی کرتے ہیں۔ شہید علامہ دیدار جلبانی ان کا با وفا محافظ سرفراز بنگش اور دیگر شہداء ہمارے شفیع ہیں، ہمیں یقین ہے کہ یہ شہدائے راہ ولایت و وحدت روز محشر ہماری شفاعت کا ذریعہ قرار پائیں گے۔جبکہ شہید علامہ دیدار علی جلبانی کی پہلی برسی کا پروگرام امام بارگاہ حسینی  ایوب گوٹھ میں منعقد کیا گیا جس میں مولانا مرزا یوسف حسین اور مولانا رجب علی بنگش نے بھی خطاب کیا اس موقع پر مجلس حدت مسلمین کراچی ڈویژن کے ذمہ داران سمیت کارکنان بھی موجود تھے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے مولانا مرزا یوسف حسین کا کہنا تھا شہید دیدار علی جلبانی کی شہادت سے ملت جعفریہ کا ایک بڑا نقصان ہوا جس سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔

وحدت نیوز (کوئٹہ) افغانستان کے شہرزابل میں تکفیری دہشت گردوں کے ہاتھوں ذببح ہونے شیعہ ہزارہ خاندان سے اظہاریکجہتی کیلئے نکالے گئے جلوس میں مجلس وحدت مسلمین کے رکن بلوچستان اسمبلی سید محمد رضا نے غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ شریعت کے نام پر قتل کرنے والوں کومذہبی کہنا اسلام کے ساتھ کسی مذاق سے کم نہیں، اسلام ہمیں امن و محبت، بھائی چارے اور روا داری کا درس دیتا ہے اور جن لوگوں کو قتل و غارت گری کے علاوہ اور کچھ آتا ہی نہیں وہ اس امن پسند مذہب کا حصہ کیسے ہو سکتے ہیں ۔

انہوں نے کہاکہ جن افراد کو پورے اسلام میں جہاد کے نام پر فساد کے علاوہ کسی بھی چیز کا علم نہ ہو انہیں مسلمان یا اسلام کا پیرو کار کس بنیاد پر کہا جا سکتا ہے؟ پیغمبر اسلام ؐ ، اہل بیت ؑ اور ان کے اصحاب نے ہمیں جو درس دیا ہے ہمیں انکی پیروی کرنی ہوگی اور ایسے تکفیریوں کی شناخت ہمارے لئے ضروری ہے جو اسلام کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔

انہوں نے مزید کہاکہ کسی بھی انسان کا خون بے قدر نہیں ہو سکتا گزشتہ دنوں ہمسایہ ملک افغانستان میں اسلام سے محبت کرنے والے ہزارہ قوم کے افراد، جن میں خواتین بھی تھی، کو بے دردی سے زبح کرکے شہید کرنا اسلام کے پر امن چہرے کو مسخ کرنے کی گھناونی سازش ہے، جس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ان تکفیری دہشتگردوں کے تانے بانے اسلام دشمن عالمی طاقتوں سے ملتے ہیں ، ہم شہداء کے لئے سوگوار ہیں اور ان کے غم میں برابر کے شریک ہیں۔ آغا رضانے کہا کہ اس وقت تمام مسلمانوں کیلئے لازم ہے کہ اپنے شعور کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسلام کو بد نام کرنے والوں کے خلاف اپنے غم و غصے کا اظہار کرے اور انہیں بتا دے کہ کسی بے گناہ کو قتل کرنے والا کبھی مسلمان نہیں ہوسکتا ۔

وحدت نیوز(لاہور) وفاق المدارس امامیہ کے سابق سربراہ اور لاہورکی معروف اورعظیم دینی درسگاہ جامعتہ المصطفیٰ کے سربراہ علامہ سید  کرامت علی نجفی طویل علالت کے بعد انتقال کرگئے، مرحوم کی تجہیز و تدفین جامعتہ المصطفیٰ کے احاطے میں ہی عمل میں آئی،نمازجنازہ پرنسپل جامعتہ المصطفیٰ وسربراہ مدارس جعفریہ پاکستان علامہ سید حسین نجفی کی زیر اقتداءادا کی گئی ، جس میں مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے سربراہ علامہ راجہ ناصرعباس جعفری، ایم ڈبلیوایم کے رہنما علامہ ابوذرمہدوی ،علامہ مبارک موسوی،علامہ اقبال کامرانی ،سیکریٹری مدارس جعفریہ علامہ حسنین عارف، سمیت بزرگ عالم دین علامہ سید تقی شاہ نقوی، علامہ حافظ کاظم رضا نقوی ، علامہ سید جواد نقوی سمیت زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد،طلاب دینیہ اور علمائے کرام  نے شرکت کی،علامہ راجہ ناصرعباس جعفری نے مرحوم کے پسماندگان سے اس دلسوز واقعہ پر دلی تعزیت اور ہمدردی کا اظہارکیا اورمرحوم ومغفورکی بلندی درجات کی دعاکی۔

وحدت نیوز (سکھر) مجلسِ وحدت مسلمین پاکستان شعبہ خواتین کی مرکزی کمیٹی کی رکن خواہر زہرہ نقوی نے مجلسِ وحدت مسلمین شعبہ خواتین سکھر ڈویژن کا بھر پور دورہ کیا.جسمیں آپ کے ساتھ مجلسِ وحدت مسلمین شعبہ خواتین سندہ کی صوبائی مسؤل خواہر شبانہ میرانی اور مجلسِ وحدت مسلمین شعبہ خواتین سکھر ڈویژن بھی موجود تھا.مجلسِ وحدت مسلمین پاکستان  شعبہ خواتین کی مرکزی کمیٹی کی رکن خواہر زہرہ نقوی نے انتہائی خصوصی طور پہ سانحہ شکار پوراور سانحہ جیکب آبادکے عظیم شھداءکے خانؤادوں سے اہم ملاقات کی.اور ان کے صبر و حوصلے  اور اس عظیم مرتبےپر خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے اظہارِ تعزیت کیا.جسکے بعد خواہر زہرہ نقوی نے بلخصوص  سانحہ شکار پوراور سانحہ جیکب آبادکے زخمیوں کی عیادت کی اور ان کے ''عظم و ہمت'' اور  بلند استقامت پر ان کےلئے دعائے صحت کیساتھ ان کی خدمت میں خراجِ عقیدت پیش کیااور یقین دہانی کرائی کہ مجلسِ وحدت مسلمین پاکستان ہر لمحہ آپ تمام مظلومین کی حامی اور آپ کیساتھ ، شانہ باشانہ موجود ہے اور ہمیشہ ہم مظلومین کے لئےآوازِ حق بلند کرتے رہیں گے۔

اسکے علاوہ ۲۲ محرم کو شکارپور اور جیکب آبادمیں زمینہ سازی کی مناسبت سے شھدائے شکار پور و شھدائےجیکب آبادکی بلندِی درجات کے لیئے مجلسِ وحدت مسلمین شعبہ خواتین کی جانب سے مجلسِ عزا کا بھی اہتمام کیا گیا.جسمیں خواتین اور بچوں نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔

۵ نومبر کو مجلسِ وحدت مسلمین شعبہ خواتین سکھر ڈویژن کی ایک اہم میٹنگ کا انعقاد ہوا،جسکی صدارت خواہر زہرہ نقوی نے فرمائی. میٹنگ میں اہم معاملات پر تفصیلی گفتگو ہوئی اور باحیثیتِ باعمل خواتینِ ملتِ تشیع مختلف موضوعات زیرِ غور آئےجسکے بعد مجلس وحدت مسلمین شعبہ خواتین سکھر ڈویژن کی نومنتخب جنرل سیکرٹری خواہر رابیعہ کا انتخاب عمل میں آیااسکےعلاوہ مجلسِ وحدت مسلمین شعبہ خواتین سکھر ڈویژن میں ۳ نئے یونٹز کا قیام بھی عمل میں آیا۔

مجلسِ وحدت مسلمین پاکستان کی مرکزی کمیٹی کی رکن خواہر زہرہ نقوی نے  مجلسِ وحدت مسلمین شعبہ خواتین سندھ کی صوبائی مسؤل خواہر شبانہ میرانی اور مجلسِ وحدت مسلمین شعبہ خواتین سکھر ڈویژن کے ساتھ  پنو عاقل سیکٹرکا بھی تفصیلی دورہ کیا اور مختلف موقعوں پر خواتین سے ملاقات میں مجلسِ وحدت مسلمین کا مکمل تعارف پیش کیا.جسکے بعد خواتین نے انتہائی گرم جوشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے، مجلسِ وحدت مسلمین میں شمولیت اختیار کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree