The Latest

وحدت نیوز (چوک اعظم) مجلس وحدت مسلمین چوک اعظم کے سیکرٹری سیاسیات ڈاکٹر ناصر علی جعفری نے کہا کہ بلد یاتی الیکشن کے حوالے سے مختلف جماعتوں سے تعلق رکھنے والے اور آزاد امیدوار مجلس وحدت مسلمین کے ساتھ حمایت طلب کرنے کے لیے رابطے میں ہیں، مجلس وحدت مسلمین باکردار، مخلص اور عوام کی بلا تفریق خدمت پر یقین رکھنے والے امیدواروں کو سپورٹ کرئے گی ۔

ان کا مزیدکہنا تھا کہ ہم چوک اعظم اور اس کے گرد نواح کے عوام کی فلاح و بہبود چاہتے ہیں ہماری جماعت کی اس حوالے سے پالیسی واضع ہے ہم عوام کی بلا تفریق خدمت پر یقین رکھتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ چوک اعظم اور اس کے گرد نواح کے علاقوں کو ترقی دھار میں شامل کیا جائے بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے مختلف جماعتوں سے تعلق رکھنے والے اور کئی آزاد امیدوار ہم سے رابطے میں ہیں۔ تاہم مجلس وحدت مسلمین نے ابھی کسی مخصوص جماعت سے پینل کی حمایت کا فیصلہ نہیں کیا انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے جلد لائحہ عمل کا اعلان کیا جائے گا ۔ اور مخلص ، باکردار اور داغ ماضی کے حامی امیدواروں کو سپورٹ کیا جائے گا ۔

وحدت نیوز (کوئٹہ) مجلس وحدت مسلمین کے پارلیمارنی لیڈر ممبر بلوچستان اسمبلی آغا رضا نے حلقہ 10 میں ٹیوب ویل کا افتتاح کرتے ہوئے کہا کہ کوئٹہ میں پانی کی سطح روز بروز نیچے جا رہا ہے جس کی وجہ سے عوام کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اگر وفاقی اور صوبائی حکومت نے جلد کوئٹہ کے اطراف میں ڈیم نہیں بنوائیں توآئندہ چند سالوں میں کوئٹہ سے عوام ہجرت کرنے پر مجبور ہو جائیں گے کیونکہ انسان کے زندہ رہنے کے لیے پانی اہم جز ہے۔ معززین علاقہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مغربی ممالک میں زمین سے پانی کو نہیں نکالا جاتا بلکہ بارش کے پانی کو ری سائیکل کرکے عوام تک پہنچایا جاتا ہے کیونکہ وہ اپنی آئندہ نسل کے لیے زمین میں پانی کو ذخیرہ کر رہے ہیں اور ہم اس کے برعکس اپنے آئندہ نسل کے لیے کچھ نہیں چھوڑ رہے ہیں۔ یہاں صرف حکومت مجرم نہیں بلکہ عوام پر بھی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہے کہ پینے کے پانی کو بے جا استعمال نہ کریں۔ اکثر گھروں سے جب پانی کی ٹینکی بھر جاتے ہیں تو نل کو بند نہیں کیا جاتا جس سے صاف اور پینے کا پانی ضائع ہوتا جاتا ہے اور چھت سے گلی میں پانی پہتا رہتا ہے۔ پانی اللہ کی نعمت ہے اسے اس طرح ضائع کرنا شریعت خداوندی میں جائز نہیں۔ علماءکرام سے بھی گزارش ہے کہ اپنے مجالس میں پانی جیسے نعمت کے اسراف پر زیادہ زور دیں اور لوگوں کو آگاہی فراہم کریں تاکہ آئندہ آنے والے وقتوں میں عوام کو مشکلات اور کمی آب کا سامنا نہ کرنا پڑے۔بیان کے آخر میں کہا گیا کہ ہم عوام کے مسائل کے حل پر یقین رکھتے ہیں ،عوام کی خدمت ہمار انصب العین ہے اور ہم اس کو عملی طور پر حل کر رہے ہیں۔ ہم بلا رنگ ونسل و مذہب نہ صرف اپنے علاقے میں بلکہ پشتون آباد ائیریا میں بھی ریزروائر بنانے کا پروگرام رکھتے ہیں اور انشاءاللہ جلد ہی کام کا آغاز کیا جائے گا۔ حلقہ 16-15-14 میں بھی ریزروائر کا کام جاری ہے اور عوام کی سہولت کے لیے کمیونٹی ہال کی تعمیر آخری مراحل میں ہے اور آئندہ بھی عوام کی خدمت جاری رکھیں گے۔

وحدت نیوز(لاہور) سانحہ جیکب آباد اور بلوچستان چھلگری میں شہید ہونے والے شہداء کو اہمیت نہ دے کر حکومت اور ریاستی اداروں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کو مشکوک بنا دیاہے،سانحہ جیکب آباد اور چھلگری میں ایک سال سے لے کر سترہ سال تک کے بچے شہید ہوئے،کیا ان کا جرم یہ ہے کہ وہ ایک غریب گھرانے میں پیدا ہوئے؟طبقاتی واستحصالی نظام کے خاتمے تک ملک میں امن کا قیام ممکن نہیں،ہمیں اب اس بات کا احساس ہو رہا ہے کہ حکومت دہشت گردی کے خلاف جنگ میں دہشت گردوں کا خاتمہ نہیں بلکہ دہشت گردوں پر کنٹرول چاہتا ہے،تاکہ دہشت گرد ان کو محفوظ رکھے باقی پاکستانی عوام کے قتل عام سے ان کو کوئی سروکار نہیں،حکمران ملکی بقا کی نہیں اپنے مفادات اور اقتدار کے تحفظ کی جنگ میں مصروف ہیں،ان خیالات کا اظہار مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے سربراہ علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے لاہور میں کارکنان و عمائدین شہر سے خطاب کرتے ہوئے کیا،انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے ناسور کی پرورش میں ہمارے اپنے لوگوں کا ہاتھ ہے،دہشت گردوں کے سہولت کار اور سیاسی سرپرست آج بھی آزاد ہیں،دہشت گردی کے خلاف جنگ اور نیشنل ایکشن پلان کی آڑ میں مظلوموں پر طلم اور ظالم شرپسندوں کو تحفظ دیا جا رہا ہے،پاکستان میں نفرتوں کے سوداگروں اور ہزاروں پاکستانیوں کے قاتل کالعدم جماعتوں کو نام بدل کر پھر سے منظم کیا جارہا ہے،سیاسی جماعتیں ان قاتلوں اور دہشت گردوں سے اتحاد بنا کر الیکشن لڑنے میں مصروف ہیں،کیا ان سب معاملات سے ہمارے قومی سلامتی کے ادارے لاعلم ہیں؟ہرگز نہیں ہمارے حکمران اور ادارے سب جانتے ہیں،افغان جہاد کے نام پر پاکستانی قوم کو دہشت گردی اور کلاشنکوف کلچر کا تحفہ دیا،ساٹھ ہزار سے زائد پاکستانیوں کا قتل عام،دنیا میں پاکستان کو دہشت گردوں کی نرسری بنا کر پیش کیا گیا،لیکن ہمارے مقتدر قوتوں نے اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی نہیں کی،آج جس دلدل کی طرف ملک کو دھکیلنے کی کوشش ہو رہی ہے اس کے ذمہ دار ہمارے حکمران ہیں،جو ریاست کے ساتھ مخلص نہیں،انہوں نے کہا کہ تبدیلی کے نام پر عوام کو بیوقوف بنا کر حکمران اور سیاسی جماعتیں لوٹ کھسوٹ میں مصروف ہیں،غریب خودکشی کرنے پر مجبور ہیں،ملکی وسائل پر اشرافیہ مزے لوٹ رہے ہیں،عدل کا نظام ناپید ہو چکا ہے،آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کے ہاتھوں ملک کو گروی رکھا جا رہا ہے،اگر اسی عمل کا نام جمہوریت ہے تو پاکستانی قوم اس جمہوریت سے بیزار ہیں،علامہ راجہ ناصر کا کہنا تھا کہ یورپ میں عالمی دہشت گرد داعش کے ہاتھوں بے گناہ انسانوں کا قتل عام قابل مذمت ہے،لیکن آج دنیا کے مہذب قومیں یورپ اور مغرب کے حکمرانوں سے سوال کرتی ہیں کہ اسلحہ و بارود کے کاروبار کو وسعت دینے کے لئے جن دہشت گردوں کو مسلمان ملکوں پر مسلط کیا گیا آج یہی ممالک مکافات عمل کا شکار ہے،اور دہشت گردی کی آگ ان کے دہلیز پر بھی آن پہنچی ہے۔

مجلس وحدت مسلمین کا سیاسی سفر

وحدت نیوز (آرٹیکل) یہ ایک حقیقت ہے کہ اس دنیا میں وہی قومیں آگے بڑھتی ہیں جو سیاسی قوت بن کر ابھرتی ہیں۔ اپنے نظریات اور افکار کا تحفظ کرتی ہیں اور چھپی سازشوں کا سدباب کرتی ہیں۔ اگر کسی ملت اور قوم کی سیاسی قوت نہیں تو وہ ہمیشہ اپنے حقوق کی بھیک مانگتی نظر آتی ہے۔ ان کی سیاسی جدوجہد سڑکوں پر احتجاج اور پارلیمنٹ کے سامنے حکمرانوں کو متوجہ کرنے سے آگے نہیں بڑھتی۔ پاکستان کی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ جماعتیں اور گروہ آگے بڑھ سکے، جنہوں نے سیاسی میدان میں کام کیا ہے۔ جمعیت علماء اسلام کا نام لیں یا پھر جماعت اسلامی کا، دونوں جماعتوں کی تاریخ بتاتی ہے کہ انہوں نے ہر الیکشن میں اپنا کوئی نہ کوئی رول ضرور ادا کیا ہے، یوں ان کے نمائندے ایوانوں میں موجود رہے اور ہر آنے والی حکومت کا حصہ بنے رہے۔ دونوں جماعتیں مکتب دیوبند کی نمائندگی کرتی ہیں۔ اگر ہم پاکستان کی آبادی کا تناسب نکالیں تو پتہ چلتا ہے کہ اس ملک میں سب سے زیادہ آبادی اہل سنت کی ہے، جنہیں بریلوی مکتب فکر کے عنوان سے جانا جاتا ہے، یعنی ملک میں مکتب اہل سنت آبادی کا تقریباً 70سے 75فیصد ہیں، اسی طرح اہل تشیع کے بارے میں محتاط اندازے کے مطابق ان کی تعداد آبادی کے لحاظ سے 15 سے 20 فیصد بنتی ہے، جبکہ مکتبہ دیوبند اور اہل حدیث کی ملاکر تعداد آبادی کے لحاظ سے تقریباً 8 سے 10 فیصد بنتی ہے۔ لیکن سیاسی افق پر سب سے زیادہ مضبوط مکتب دیوبند کی جماعتیں ہیں، جو ہر دور حکومت میں اسمبلیوں میں موجود رہی ہیں، جبکہ دوسری جانب اہل سنت اور اہل تشیع سیاسی میدان میں وہ کامیابیاں نہیں سمیٹ سکے، جو آبادی کے تناسب کے لحاظ سے انہیں سمیٹنی چاہیں تھیں۔ اس کی بنیادی وجہ سیاسی میدان کو خالی چھوڑنا اور کسی حکمت عملی کا نہ ہونا ہے۔ یہی وجہ بنی کہ ریاستی اداروں نے بھی ہر معاملے میں فقط انہی لوگوں کو اپنے ساتھ ملایا، جن کی سیاسی قوت موجود تھی جبکہ جو لوگ سیاسی لحاظ سے کمزور تھے یا انہوں نے اس میدان میں کوئی کردار ادا نہیں کیا، انہیں مکمل طور پر نظرانداز کیا گیا۔ کلی طور پر مذہبی جماعتوں کے عوام میں پذیرائی کا نہ ہونا بھی ایک موضوع ہے، جو فی الوقت ہمارا موضوع بحث نہیں ہے۔

پس سیاسی قوت بنے بغیر اس ملک میں کوئی اہم کردار ادا کرنا ناممکن نظر آتا ہے۔ شہید قائد علامہ عارف حسین الحسینی نے 6 جولائی 1987ء کو مینار پاکستان پر منعقد ہونے والی عظیم الشان قرآن و سنت کانفرنس میں سیاسی میدان میں اترنے اور اسلامی حکومت کے احیاء کے حوالے سے واضح اعلان کرکے دشمن کو پیغام دیا تھا کہ مکتب اہل بیت ؑ اب سیاسی میدان کو خالی نہیں چھوڑے گا، لیکن دشمنوں نے ہم سے ہمارا عظیم قائد چھین لیا، ضیاء دور کے بعد الیکشن میں اپنی شناخت کے ساتھ حصہ لیا گیا، لیکن اس کے بعد اس میدان کو خالی چھوڑ دیا گیا۔ ممکن ہے کہ بعض لوگ یہ رائے رکھیں کہ ہمیں سیاسی جماعتوں کے اندر رہ کر ہی کوئی رول ادا کرنا چاہیئے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہم اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ چکے ہیں کہ سیاسی جماعتوں کے پیش نظر ان کا سیاسی ایجنڈا ہوتا ہے، جس کو وہ فالو کرتی ہیں۔ حتٰی ان سیاسی جماعتوں میں موجود شیعہ حضرات جنہیں اسمبلیوں میں پہنچایا گیا، وہ بھی فقط اس وجہ سے کوئی کردار ادا نہ کرسکے کہ ان کے آگے سیاسی جماعتوں کی پالیسی آڑے آجاتی رہی۔ پارا چنار کا تین سال کا محاصرہ ہو یا پھر ڈی آئی خان میں سینکڑوں لوگوں کی ٹارگٹ کلنگ، سیاسی جماعتیں ان معالات کو اٹھانے اور انہیں رکوانے میں بری طرح ناکام ثابت ہوئیں۔ عموماً تصور کیا جاتا ہے کہ پیپلز پارٹی اہل تشیع اور اہل سنت (بریلوی) پر مشتمل جماعت ہے، کیونکہ اس جماعت کا بیشتر ووٹ بینک ان دو مکتب فکر پر مشتمل ہے، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پارا چنار کا تین سال کا محاصرہ اسی جماعت کے دور حکومت میں پیش آیا، ڈیرہ اسماعیل خان سے لوگ ہجرت پر اسی جماعت کے دور حکومت میں مجبور ہوئے، لیکن ان حالات میں اس جماعت نے کوئی ایسا بڑا اقدام نہیں کیا، جو مکتب تشیع میں یہ اطمینان پیدا کرسکے کہ اس کے تحفظ کیلئے اقدامات اٹھائے گئے۔

حد تو یہ تھی کہ پیپلز پارٹی نے اہل تشیع کو اپنا ووٹر تک نہ سمجھا، سانحہ چلاس ہو یا پھر سانحہ لالوسر، ہر جگہ اس جماعت کی خاموشی نے اس تاثر کو مزید گہرا کر دیا کہ سیاسی جماعتیں اپنی مصلحت کے پیش نظر کچھ بھی نہیں کرسکتیں۔ شیعہ ٹارگٹ کلنگ پر پیپلز پارٹی میں واحد سینیٹر فیصل رضا عابدی تھے جو بابانگ دہل بولتے تھے، لیکن سیکولر جماعت ہونے کی دعویٰ دار اس جماعت سے یہ برداشت نہ ہوسکا اور فیصل رضا عابدی سے استعفٰی لیکر اسے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے گھر بھیج دیا گیا۔ چشم فلک نے یہ بھی دیکھا کہ سینکڑوں شیعہ مرتے رہے لیکن سیاسی جماعتوں کے رہنما تعزیت تک نہ کرنے آئے، اس مادر وطن پر اہل تشیع کو تیسرے درجہ کا شہری ہونے کا تاثر دینا شروع کر دیا گیا۔ اہل تشیع کو اس حد تک کمزور و نحیف سمجھا گیا کہ ان کو فٹ بال بنا دیا گیا، پیپلزپارٹی سے نکلے تو نون لیگ میں اور نون لیگ سے نکلے تو پھر پیپلزپارٹی میں۔ لیکن ان دونوں جماعتوں نے ہمیشہ اپنے مفادات کو مقدم جانا۔ تکفیریوں کو چند ووٹوں کی خاطر مضبوط کرتے رہے اور آج بھی کر رہے ہیں۔ کالعدم جماعت کا رہنما مولانا احمد لدھیانوی برملا اظہار کرتا رہا کہ دونوں جماعتوں کے درجنوں ایم این اے ان کے ووٹوں کی وجہ سے جیتے۔ سچ تو یہ  ہے کہ پارا چنار کے تین سالہ محاصرے اور ڈیرہ اسماعیل خان میں ہونے والی ٹارگٹ کلنگ نے تشیع کے اندر احساس محرومی پیدا کر دیا تھا، حتٰی تشیع کے حقوق کے دفاع کے نام پر بننے والی جماعتوں نے بھی خاموشی سادھ لی تھی تو ریاستی اداروں نے یہ تاثر دینا شروع کر دیا کہ وہ ایک خاص پالیسی پر گامزن ہیں، شیعوں کا ووٹ اینٹھنے والی سیاسی جماعتوں نے بھی کچھ نہ بولنے کی قسم اٹھا لی۔

حالات تیزی سے تبدیل ہونے لگے اور ملت کے مخلص لوگوں کو مل بیٹھنے اور اس ظلم کیخلاف آواز اٹھانے پر مجبور کر دیا۔ یوں حالات کے ستم نے ملت کے خواص کو مکتب کیخلاف ہونے والی منظم سازشوں سے نمٹنے کیلے اجتماعی رول اور نقش ادا کرنے پر مجبور کر دیا۔ ایسے میں مجلس وحدت مسلمین معرض وجود میں آئی اور ملک بھر میں پھیلے امامینز اور مخلص علمائے کرام نے اپنے ناتواں کندھوں پر ملت کا بوجھ اٹھانے کی ٹھان لی۔ مخلص اور بےلوث افراد نے کرم ایجنسی کے پہاڑوں میں دبی آواز کو نہ صرف پارلیمنٹ اور میڈیا پر اٹھایا بلکہ اس ظلم کو دنیا کے سامنے عیاں کیا، ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ میں کمی آئی تو ملت کے اندر حوصلہ بڑھا۔ کوئٹہ میں ہزارہ شیعہ برادری پر ظلم کے پہاڑ توڑے گئے تو یہ جماعت سینہ تان کر ہر ستم کا مقابلہ کرنے کیلئے آگے آگئی اور پھر دنیا نے دیکھا کہ پاکستان میں پہلی بار اہل تشیع نے تاریخ ساز احتجاج کیا اور صوبائی حکومت کو اس ظلم پر خاموشی اختیار کرنے پر سزا دیتے ہوئے چلتا کیا۔ یوں یہ جماعت ملک بھر میں پھیل گئی اور مظلوموں کی ڈھارس بن گئی۔
میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر
لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا
سانحہ عاشورہ راولپنڈی کے وقت بھی اسی جماعت نے آگے آکر عزاداری سیدالشہداء کے خلاف ہونے والی منظم سازش کا مقابلہ کیا اور عزاداری سیدالشہداء ہماری شہہ رگ حیات کے قائد شہید کے جملوں کو عملی کرکے دکھایا۔ اس کامیابی نے ملت کے اندر حوصلہ پیدا کیا اور خواص اس نتیجے پر پہنچے کہ سیاسی کردار ادا کئے بغیر ہمارے پاس کوئی چارہ نہیں ہے، یوں مجلس وحدت مسلمین کی شوریٰ عالی نے سیاسی کردار ادا کرنے کا فیصلہ کیا اور دو ہزار تیرہ کے الیکشن میں سیاسی شعبے نے بہت ہی کم وقت میں اپنے امیدواروں کا اعلان کر دیا اور ملک بھر میں الیکشن مہم کا آغاز کر دیا گیا۔

وہ سیاسی جماعتیں جو کبھی مکتب اہل بیت علیہ السلام کے ماننے والوں کو اہمیت نہیں دیتی تھیں، انہیں احساس ہونا شروع ہوگیا کہ اہل تشیع کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، یوں تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان، مسلم لیگ قاف کے سربراہ چودھری شجاعت حسین، اے این پی کے رہنما اور ایم کیو ایم سمیت تمام سیاسی جماعتوں نے مجلس وحدت مسلمین کی قیادت سے براہ راست رابطے کئے اور ایم ڈبلیو ایم کے دفاتر آکر ملاقاتیں کیں۔ یوں سکوت ٹوٹنے لگا اور سیاسی اتحاد کی باتیں سامنے آنے لگیں۔ 2013ء کے الیکشن میں مجلس وحدت مسلمین کوئٹہ سے ایک ایم پی اے منتخب کرانے میں کامیاب ہوئی تو کئی جگہوں پر اپنا ووٹ بینک بنانے میں کامیاب ہوئی، یوں اہل تشیع کا بکھرا ہوا ووٹ جمع ہونے لگا، حکومت مخالف تحریک میں نئے اتحاد وجود میں آئے تو پاکستان میں اتحاد بین المسلمین کے عظیم الشان مظاہر دیکھنے کو ملے۔ گلگت بلتستان کے الیکشن میں بھی اس جماعت نے پہلی بار الیکشن میں حصہ لیا اور اپنے دو نمائندے جتوانے میں کامیاب ہوئی اور گلگت بلتستان میں ووٹوں کے اعتبار سے دوسری بڑی جماعت بن کر ابھری۔

یہ بات یاد رہے کہ تحریک انصاف کو موجودہ پوزیشن پر آنے کیلئے بیس سال لگے، سیاسی قد کاٹھ بنانے کیلئے وقت درکار ہوتا ہے، سیاسی تجربات سے گزرنا پڑتا ہے، میدان میں غلطیاں ہوتی ہیں اور ان غلطیوں کی روشنی میں اپنے سفر کو جاری و ساری رکھنا پڑتا ہے۔ اگر ہم ماضی میں شروع کئے گئے سیاسی سفر کو جاری رکھتے تو یقیناً آج ہمارا ووٹ بینک بن چکا ہوتا ہے اور کئی افراد پارلیمنٹ میں بھی پہنچ چکے ہوتے، سیاسی میدان کو دو دھاری تلوار سے بھی تشبیہ دی جاتی ہے، آج جب ہم حزب اللہ کی مثال دیتے ہیں تو یہ یاد رکھنا چاہیئے کہ انہیں بھی اس مقام تک پہنچے میں دہائیاں لگی ہیں۔ امید کرتے ہیں ایم ڈبلیو ایم اپنے سیاسی تجربات کی روشنی میں غلطیوں سے سبق سیکھتے ہوئے آگے بڑھے گی اور ملت کا نام روشن کرے گی۔ وقتی مفاد کے بجائے دائمی مفاد کو مقدم جاننا ہوگا، اپنی توانائیوں کو غیر ضروری کاموں میں صرف کرنے سے اجتناب کرنا ہوگا۔ الیکشن میں اتحاد بنانے اور براہ راست امیدوار کھڑے کرنے سے قبل اپنی توانائی اور مالی امور کو دیکھ کر پاوں پھیلانا ہوں گے۔ جہاں جہاں یقین ہو کہ تھوڑی محنت سے سیٹ نکل سکتی ہے، وہاں پر اپنی توانائیاں صرف کی جائیں اور جہاں اندازہ ہو کہ امیدوار کامیاب نہیں ہو پائے گا، وہاں جانے سے گریز کرنا ہوگا۔ سیاسی کونسل اور تھینک ٹینکس بنانے کے ساتھ اس کی آراء کی روشنی میں اپنے امور کو آگے بڑھانے میں کامیاب ہوئے تو ایک دن ضرور پارلیمنٹ میں اپنی نمائندے بھیجنے میں کامیاب ہوں گے۔ مذہبی جماعت ہونے کے ناطے قائد شہید کی نصیحت کو مدنظر رکھتے ہوئے سیاسی رنگ کو مذہبی رنگ پر غالب نہ آنے کی پالیسی کو قائم رکھنا بھی بیحد ضروری ہوگا۔
 

تحریر۔۔۔۔این اے بلوچ

وحدت نیوز (گلگت) مجلس وحدت مسلمین گلگت بلتستان کے ترجمان محمد الیاس صدیقی نے کہا ہے کہ نا اہل اور سازشی ملازمین قراقرم یونیورسٹی اور علاقے کے امن کو برباد کرنے کے موجب بن رہے ہیں،یونیورسٹی کے پروگرامات میں اتحاد و بھائی چارگی کے فروغ کی بجائے اختلافی مسائل کو چھیڑنا پرامن ماحول کو سبوتاژکرنے کی دانستہ کوشش ہے۔فرقہ وارانہ سرگرمیوں میں ملوث افراد کو ملازمتوں سے برطرف کیا جائے۔

یوم حسین پر پابندی کسی طور قبول نہیں ،شعائر اسلامی کی ترویج واشاعت اور اخلاقی مسائل پر بحث و تمحیص کے پروگرامات تشکیل دینا یونیورسٹی کی اپنی ترجیحات میں شامل ہونی چاہئے ۔نوجوان نسل کو مغرب زدگی سے بچانے اور اپنے علمی ورثے اور تاریخ و ثقافت سے روشناس کروانے کیلئے مفید پروگرامات کا انعقاد موجودہ حالات میں انتہائی ناگزیر ہے۔ستم ظریفی یہ ہے کہ یو نیورسٹی مذکورہ میں لہولعب اور ناچ گانے کے پروگرامات مسلسل منعقد ہوتے رہے ہیں اور کسی کو ایسے پروگرامات پر کوئی اعتراض بھی نہیں لیکن جب شہید انسانیت کے نام سے پروگرام جاری کیا جائے توچند شرپسندوں کو خوشنودی کی خاطراسے متنازعہ قرار دیکر پابندی عائد کرنا کہاں کا انصاف ہے؟

انہوں نے کہا کہ قراقرم یونیورسٹی میں روز اول سے میرٹ کو پائمال کرکے مخصوص لابی کو نوازا گیا ہے جو آج اس مادر علمی میں منافرت کے فروغ کا باعث بن رہے ہیں۔پورے پاکستان میں کسی بھی تعلیمی ادارے میں یوم حسین ؑ پر کوئی پابندی نہیں جبکہ گلگت بلتستان کے تعلیمی اداروں میں پابندی سمجھ سے بالاتر ہے۔انہوں نے کہا کہ گزشتہ دنوں یونیورسٹی میں منعقد ہونے والے پروگرام میں منافرت پر مبنی تقاریر کرنے والوں اور اس پروگرام کے منتظمین کے خلاف نیشنل ایکشن پلان کے تحت مقدمہ درج کرکے قانونی کاروائی کی جائے۔

وحدت نیوز (کوئٹہ) مجلس وحدت مسلمین میڈیا سیل سے جاری بیان میں ڈویژنل سیکریٹری امورسیاسیات کامران حسین ہزارہ نے کہا ہے کہ گوادر کاشغر روٹ کی تعمیر صوبہ بلوچستان کیلئے ترقی کا سبب بنے گا ۔ اس منصوبے کو کاشغر سے گوادر تک محض ایک راہداری کے طور پر نہ دیکھا جائے بلکہ اس سے ایک نئی دنیا تعمیر ہورہی ہے۔ جو ترقی یافتہ دنیا ہے جس میں ہر چیز بدل کر رہ جائیگی۔ سماج کا ارتقائی عمل معیشت سے جڑا ہوا ہے۔ جن علاقوں سے یہ راہداری گزرے گی وہاں کے سماجی اور معاشی حالات کے ساتھ ساتھ اخلاقیات اور سماجی اقدار میں بھی تبدیلیاں رونما ہونگی۔ ان علاقوں کی پسماندگی دور ہوگی۔ لوگوں کو روزگار ملے گا۔ معیشت ترقی کرے گی۔ موجودہ سیاسی اور اقتصادی اجارہ داریاں ختم ہونگی۔ سماجی اور معاشی ترقی کے ساتھ ساتھ سیاسی تبدیلیاں بھی رونما ہونگی۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ جن قوتوں نے دہشت گردی کے نیٹ ورکس بنائے ہیں وہ بھی ٹوٹ جائیں گے۔ اس منصوبے سے پاکستان کے سیاسی حرکیات بھی یکسر تبدیل ہو جائیں گے۔

انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کو یہ موقع پہلی مرتبہ میسئر آیا ہے۔ ہماری جغرافیائی اہمیت کی وجہ سے یہاں چین چھیالیس ارب ڈالر سے زیادہ کی سرمایہ کاری کر رہاہے یہ منصوبہ نہ صرف پاکستان کے مفاد میں ہے بلکہ چین کے مفاد میں بھی ہے۔ ہماری سیاسی قیادت کو اس بات کا بھی ادراک رکھنا چاہیے کہ پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبے سے ایک نئی دنیا تخلیق ہورہی ہے۔ یہ خوشحال ، ترقی یافتہ، پر امن اور جمہوری معاشرے والے دنیا ہوگی۔ پرانی اقتصادی اور سیاسی اجارہ داریوں کا خاتمہ ہوگا۔ دہشت گرد اور مافیا گروپس سے وابستہ مخصوص مفادات نہیں رہینگے۔ ہماری حکومت اور سیاسی قیادت کو چاہیے کہ وہ نہ صرف اس منصوبے کو متنازع نہ بنائے بلکہ تمام تر اختلافات کو اپنے عظیم تر قومی مفاد میں بھلا دیں۔

وحدت نیوز (گلگت) حکومت تعصب کی عینک اتار کر نیشنل ایکشن پلان عمل درآمد کو یقینی بنائے۔مغوی انجینئرز کے اغوا میں ملوث دہشت گردوں اور سیکورٹی فورسز پر حملے کرنے والوں کے خلاف ایکشن نہ لینا حکومت کی مجرمانہ خاموشی کے مترادف ہے۔قراقرم یونیورسٹی کا واقعہ سوچی سمجھی سازش ہے پس پردہ عوامل کو تلاش کیا جائے، ان خیالات کا اظہارمجلس وحدت مسلمین کی رکن صوبائی اسمبلی محترمہ بی بی سلیمہ نے اپنے ایک بیان میں کیا ۔

انہوں نے حکومت کو خبردار کیا کہ نیشنل ایکشن پلان پر ایک مرتبہ تعصب کی چھاپ لگ گئی تو یہ حکومت زیادہ دیر نہیں چل سکے گی۔دہشت گرد علاقے کے امن کو سبوتاژ کرنے میں سرگرم عمل ہیں جبکہ حکومت ان دہشت گردوں ا ور ان کے سہولت کاروں کے خلاف ایکشن سے گھبرارہی ہے۔یونیورسٹی واقعے میں پس پردو عوامل کو تلاش کرکے حقائق سامنے لائیں جائیں ۔ڈاکٹر شاہنواز کی ایف آئی آر مذہبی منافرت پھیلانے کی سوچی سمجھی سازش ہے ۔ناخوشگوار واقعے کے تانے بانے آئی ایس او سے جوڑنا ناانصافی ہے ۔آئی ایس او امن پسند امامیہ طلباء کی تنظیم ہے جس نے پورے ملک میں وحدت مسلمین کی خاطر بڑی قربانیاں دی ہیں۔امامیہ طلباء کی گرفتاریوں میں پھرتیاں دکھانے والی پولیس دیامر میں مغوی انجینئرز اور مجینی محلہ میں فائرنگ کرنیوالے دہشت گردوں کی گرفتاری سے کیوں چشم پوشی کررہی ہے۔ڈاکٹر شاہنواز کی طرف سے ایف آئی آر کی درخواست علاقے میں فرقہ واریت پھیلانے کی دانستہ کوشش ہے حکومت ایکشن پلان پر عمل کرتے ہوئے ڈاکٹر شاہنواز کے خلاف مقدمہ درج کرکے انہیں شامل تفتیش کرے تو اصل حقائق کا پتہ چل جائیگا۔انہوں نے کہا کہ حکومت کے متعصبانہ اقدامات سے فرقہ واریت کو فروغ حاصل ہوگا جس کا یہ علاقہ متحمل نہیں ہوسکتا۔

وحدت نیوز (گلگت) قراقرم یونیورسٹی سیاسی اکھاڑہ بن چکا ہے ملازمتوں میں میرٹ کو پائمال کرکے مسلکی بنیادوں پر تقرریاں عمل میں لائی گئیں یونیورسٹی اپنے قیام کے بعد سے اب تک تعلیم کے فروغ کی بجائے فرقہ واریت کے فروغ میں مصروف ہے۔حکومت بے بنیاد ایشوز کو آڑ بناکر اصل مسائل سے عوام کی توجہ ہٹانا چاہتی ہے۔نامزد ایف آئی آر میں امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے اراکین کو ملوث کرنا بد نیتی پر مبنی اقدام ہے،ان خیالات کا اظہار مجلس وحدت مسلمین گلگت بلتستان کے سیکرٹری جنرل علامہ نیئر عباس مصطفوی نے اپنے ایک بیان میں کیا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ ایک عرصے سے قراقرم یونیورسٹی میں یکطرفہ طور پر میرٹ کو پائمال کرکے اہم پوسٹوں پر تعیناتیاں عمل میں لائی جارہی ہیں ۔گزشتہ روز کے واقعے کے پیچھے یونیورسٹی انتظامیہ کی بد دیانتی اور تکفیری سوچ کارفرما ہے۔واقعے کے اصل محرکات سے توجہ ہٹانے کیلئے جھوٹا پروپیگنڈے کا سہارا لیکر نواسہ رسول ؐ کے ذکر کو محدود کرنے کی گھناؤنی سازشیں کی جارہی ہیں ۔ایک مخصوص ٹولہ ہر سال یونیورسٹی میں یوم حسین کے پروگرام کو متنازعہ بناکر علاقے کا امن خراب کرنے کی مسلسل کوشش کررہا ہے جسے حکومتی پشت پناہی حاصل ہے۔ڈپٹی کمشنر گلگت اپنے کام سے کام رکھیں مخصوص ٹولے کی نمائندگی کرنا ہے تو ملازمت چھوڑ کر نمائندگی کریں۔انہوں نے کہا کہ گزشتہ دنوں یونیورسٹی میں منعقد ہونے والے پروگرام میں ایک مخصوص عقیدے کے حامل مولویوں کو اپنے نظریات پھیلانے کا بھرپور موقع فراہم کیا گیا جنہوں نے دل آزار تقاریر کے ذریعے یونیورسٹی کے پرامن ماحول کو خراب کرنے کی کوشش کی۔ڈاکٹر شاہ نواز کی جانب سے رجسٹرڈ کروائی گئی ایف آئی آر تضادات پر مبنی ہے جو لوگ مذاکرات کرتے ہیں نقاب اوڑھ کر نہیں آتے اور ملت تشیع کا برقع والی سیاست سے دور کا تعلق نہیں۔انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر شاہنواز کی جانب سے سید نجم الحسن کو ایف آئی آرمیں نامزد کرنے کے پیچھے کسی اور طاقت کا ہاتھ نظر آرہا ہے ۔انہوں نے اس واقعے کی غیر جانبدار تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ معاملے کو طول دینے کی کوشش کی گئی تو علاقے کے امن میں خلل پڑنے کا اندیشہ ہے ۔

وحدت نیوز(کوئٹہ) مجلس وحدت مسلمین کوئٹہ ڈویژن کے میڈیا سیل سے جاری بیان میں ڈویژنل ڈپٹی سیکریٹری جنرل علامہ ولایت حسین جعفری نے کہاہے کہ ایک سماج میں زندگی بسر کرنے والے ہر فرد پر کچھ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں ۔ہم سب کسی نہ کسی معاشرے میں رہتے ہیں اور ایک دوسرے سے ہمارا رابطہ قائم رہنا چاہئے بیان میں مزید کہا گیا کہ ہمیں اس بات کا علم ہونا چاہئے کہ معاشرے کا حصہ ہونے کی حیثیت سے ہم پر کونسی ذمہ دریاں ہیں ان ذمہ داریوں کا احساس ہمارے لئے ضروری ہے ۔ بیان میں کہا گیا کہ عوام کے تعاون کے بغیر ہمارے خدمات کی تمام تر کوششیں ناکام ہو سکتی ہیں اور ہمیں مختلف مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے، با شعور عوام کی ذمہ داری ہے کہ اپنے ذاتی زندگی سے کچھ وقت معاشرے کی خدمت کیلئے نکالے اور سماجی کاموں میں ان حضرات کا ہاتھ بٹھائیں اور ان لوگوں کی مدد کریں جو اپنا تمام تر وقت عوام کی خدمت میں صرف کرتے ہیں اور ان کی زندگیاں بہتر بنانے کیلئے کام کرتے ہیں،انہوں نے مزید کہا کہ عوام اپنے کاروبار اور مختلف چیزوں کی خرید و فروخت میں ملکی مفادات کو مد نظر رکھیں اور کوشش کرے کہ ملک کا پیسہ ملک کے اندد ہی خرچ ہو اور فائدہ دوسروں کے بجائے ہمارے اپنے ملک کو ہو۔

وحدت نیوز(آرٹیکل)خاموش اکثریت اور گنگ زبانیں بڑے بڑے حادثات کو جنم دیتی ہیں۔ایک زمانہ تھا  کہ جب ہمارے ہاں  کسی  فرقے  کے لوگ قتل ہوتے تھے تو عام لوگوں  کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی تھی،ہمارے ہاں کی اکثریت تو اس بارے میں کچھ بولنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتی تھی۔

 پھر یہ معمولی سی بات غیرمعمولی بنتی گئی،شیعوں کی گردن پر تیز کیا گیاخنجر اہلِ سنّت والجماعت کی شہ رگ کو بھی کاٹنے لگا،امام بارگاہوں پر آزمائے گئے بم، اولیائے کرام کے مزارات کو بھی نشانہ بنانے لگے ،ذاکرین کو قتل کرنے والوں نے قاری سعید چشتی جیسے قوال کو بھی موت کے گھاٹ اتار ا،مسجدوں میں خود کش دھماکے کرنے والوں نے چرچ بھی اڑائے ،عیسائیوں کو ستانے والوں نے اسماعیلیوں کو بھی خون میں نہلایا،عبادت گاہوں میں خود کش دھماکے کرنے والوں نے بازاروں میں بھی دھماکے کئے،گاڑیوں سے مسافروں کو اتار کرقتل کرنے والوں نے پاکستان آرمی کے جوانوں کے گلے بھی کاٹے،اہلِ تشیع کو کافر کہنے والوں نے اہلِ سنّت والجماعت کو بھی مسلمان نہیں سمجھا،پاکستان کو کافرستان اور قائدِ اعظم کو کافرِ اعظم کہنے والوں نے پاک فوج کو ناپاک فوج بھی کہا،جلسے اور جلوسوں کو حرام اور بدعت کہہ کر دہشت گردی کا نشانہ بنانے والوں نے پشاور کے آرمی پبلک سکول میں ننھے مُنھے بچوں کو بھی خون میں نہلایا اور یوں ظلم و ستم کی ایک بھیانک تاریخ رقم کرکے اہلیانِ پاکستان کو یہ پیغام دیا کہ ہم صرف شیعہ یا سنّی کے دشمن نہیں بلکہ انسانیت  کے دشمن ہیں۔

انسانیت کے ان دشمنوں نے جس طرح پاکستان میں قائداعظم ریزیڈنسی پر حملہ کیا اسی طرح افغانستان میں آثارِ قدیمہ کو مسمار کیا ۔انہوں نے بری امامؒ،حضرت داتا گنج بخش  اور رحمٰن باباجیسے مزارات سے لے کر مدینے میں  جنت البقیع اور شام میں موجود صاحبہ کرام ؓ کے مزارات کوبھی اپنے ظلم کانشانہ بنایا لیکن ہمارے ہاں کی اکثریت خاموش ہی رہی۔۔۔

ابھی  چند روز پہلے  انسانیت کے ان دشمنوں نے یعنی 13” نومبر 2015ء کی شام  کو فرانس کے دار الحکومت پیرس اور سینٹ-ڈینس میں مرکزی یورپی وقت کے مطابق 21:16 پر  تین علیحدہ علیحدہ دھماکے اورچھ جگہوں پر اجتماعی شوٹنگ  کی۔نیز اسی دوران  سینٹ ڈینس کے شمالی مضافات میں فرانسیسی سٹیڈیم کے قریب بھی  تین بم دھماکے بھی کئے۔

یاد رہے کہ دھماکوں کے وقت سٹیڈیم میں فرانس اور جرمنی کے درمیان فٹبال میچ ہو رہا تھا اور میچ دیکھنے کے لیے فرانس کے صدرفرانسوا اولاند اور وزیر اعظم بھی موجود تھے۔اسی دوران مسلح افراد نے 100 سے زائد افراد کو یرغمال بنانے کے بعد گولیاں مارکرہلاک کردیا۔

اب تک کی  میڈیا کی اطلاعات کے مطابق “اس واردات میں  کل 128 افراد ہلاک اور 250 زخمی ہوئے،زخمیوں میں سے 99 افراد  شدید زخمی ہیں۔ “[1]

وحشت ،دہشت اور قتل و غارت کے لحاظ سے   یہ دوسری جنگ عظم کے بعد فرانس میں پیش آنے والا سب سے زیادہ دلخراش سانحہ ہے۔

اس سانحے کی سنگینی کا اندازہ  آپ اس سے کرلیں  کہ  ۷۱ برس کے بعد پہلی مرتبہ  فرانس کے کسی شہر میں کرفیو لگایا گیاہے۔

اب لطف کی بات یہ ہے کہ ۱۳ نومبر کو یہ واقعہ پیش آیا اور ۱۴ نومبر کو داعش نے ان حملوں کی ذمہ داری قبول کرلی۔جس کے بعد مغربی میڈیا نے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف زہر اگلنا شروع کردیا ہے۔[2]

اب آئیے تصویر کا دوسرا رخ دیکھتے ہیں:۔

“گزشتہ سال نومبر میں فرانس نے مقبوضہ فلسطین کو آزاد ریاست تسلیم کرنے کا فیصلہ کیا جسے صیہونی میڈیا نے اسرائیل کی پیٹھ میں خنجر گھونپنے سے تعبیر کیا،اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے فیصلے کو فرانس کی سنگین غلطی قرار دیتے ہوئے نتائج کیلئے تیار رہنے کی بھی دھمکی دی، اسرائیلی وزیراعظم کی دھمکی کے بعد فرانس مسلسل دہشتگردی کا شکار ہے۔

اس وقت یہاں پر یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ فرانس نے ہمیشہ مسئلہ فلسطین کا حل ایک خود مختار، جمہوری ریاست قرار دیا ہے، فرانسیسی صدر فرانسواں میٹرینڈ François Mitterrand پہلے صدر تھے جنہوں نے انیس سو بیاسی میں اسرائیلی پارلیمنٹ میں فلسطین کی حمایت میں بیان دیا جبکہ فرانس ہی وہ پہلا ملک تھا جس نے یہودی بستیوں کو بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا، دو ہزار آٹھ میں فرانس نے فلسطینی عوام کیلئے چار سو ملین یوروز امداد بھی دی ہے“۔ [3]

اب  گزشتہ نومبر میں  نیتن یاہو کی فرانس کو دھمکی ،اس نومبر میں فرانس میں دہشت گردی کی وحشتناک کاروائی،پھر اس کاروائی کی ذمہ داری داعش کی طرف سے قبول کرنا  اور پھر یورپی میڈیا کا اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی کرنا۔۔۔ان ساری چیزوں سے بخوبی پتہ چلتا ہے کہ دہشت گرد گروہ  کس کے ایجنٹ ہیں !داعش والےکس کے مقاصد کی تکمیل کررہے ہیں ! سب سے بڑھ کر ہمیں اس سلسلے میں بولنا ہوگا کہ  سعودی عرب اور امریکہ داعش کی پشت پناہی کرکے  دنیا میں کونسااسلام نافذکرنا چاہتے ہیں؟!

ہم فرانس میں بے گنا انسانوں کے مارے جانے پر جہاں اہلِ فرانس کے ساتھ اظہارِ ہمدردی کرتے ہیں وہیں پر اہلِ مغرب کو  یہ پیغام بھی دیتے ہیں کہ اہلِ مشرق کے سکوت سے عبرت حاصل کریں،داعش کی پشت پر موجود امریکی و یورپی طاقتوں اور سعودی عرب  جیسے ممالک کے خلاف متحد ہوکر اپنی زبان کھولیں بصورتِ دیگر عالمِ اسلام کی طرح دہشت گردی کے بڑے بڑے واقعات کے لئے اب تیار ہوجائیں،چونکہ یورپ، امریکہ ،اسرائیل اور سعودی عرب کاپالاہوا ناگ اب یورپ میں  بھی پھنکارنے لگاہے۔

اگر اس ناگ سےاپنی آئندہ نسلوں،شہروں،باغات ،لوک ورثے اور ممالک کو بچاناہے تو پھر جان لیجئے کہ  خاموش اکثریت اور گنگ زبانیں بڑے بڑے حادثات کو جنم دیتی ہیں۔

[1] بی بی سی،اے ایف پی،سی این این۔۔۔

[2] عالمی میڈیا

[3] استفادہ از:۔ http://www.nawaiwaqt.com.pk/national/15-Nov-2015/429727

 

 

تحریر۔۔۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree