وحدت نیوز(گلگت) ڈویژنل ہیڈ کوارٹر کے تعین سے قبل ضلع استور کے عوام کو اعتماد میں لیا جائے، استور کے عوام کی ترجیحات کے برعکس ہیڈ کوارٹر کا تعین کیا گیا تو تحریک چلانے پر مجبور ہونگے۔

مجلس وحدت مسلمین گلگت بلتستان ضلع استور کے سیکرٹری جنرل شیخ عبدالواحد نے اپنے ایک بیان میں بونجی کو ڈویژنل ہیڈکوارٹر قرار دینے پر زور دیا ہے ۔انہوں نے کہا کہ ضلع استور کے عوام کا مطالبہ ہے کہ دیامر ڈویژن کا ہیڈ کوارٹر بونجی کو قرار دیا جائے کیونکہ بونجی اس پوائنٹ پر واقع ہے جہاں سے استور اوردیامر کے دیگر علاقوںکے غریب عوام کی رسائی نسبتاً آسان ہے جبکہ اس کے برعکس چلاس کو ہیڈکوارٹر قرار دینے سے استور کے عوام ذہنی اذیت کا شکار ہونگے۔

انہوں نے کہا کہ دیامر کے ہیڈ کوارٹر کیلئے بونجی سے زیادہ مناسب جگہ کوئی اور نہیں جہاں تمام اداروں کیلئے وافر مقدار میں زمین مہیا ہوسکتی ہے اور صوبائی دارالخلافہ گلگت سے انتہائی قریب بھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ضلع استور کے تمام مذہبی و سیاسی جماعتوں کا اس بات پر مکمل اتفاق ہے کہ بونجی کے علاوہ کسی اور جگہ دیامر ڈویژن کا ہیڈکوارٹر قبول نہیں ہوگا۔لہٰذا صوبائی حکومت استور کے عوام کی خواہشات کا احترام کرتے ہوئے بونجی کو ہیڈکوارٹر قراردے اور اگر ضلع استور کے عوام کی خواہشات کے برعکس فیصلہ کیا گیا تو استور سپریم کونسل کی قیادت میں تحریک چلانے پر مجبور ہونگے۔

وحدت نیوز(اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے کہا ہے کہ نواز شریف اور اہل خانہ کا نیب کا سامنے پیشی سے انکار ملک کے آئین و قانون کی توہین ہے۔ ریاستی اداروں کو نااہل وزیر اعظم کی طرف سے مسلسل تضحیک کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔فرد واحد کا خود کو ملکی قوانین سے بالا سمجھنا ایک نفسیاتی عارضہ اور رعونت کے سوا کچھ نہیں۔یہ گھمنڈ نواز شریف کو لے ڈوبے گا۔انہوں نے کہا کہ جے آئی ٹی رپورٹ کی روشنی میں سپریم کورٹ کے پانچوں جج صاحبان نے مشترکہ طور پر سابق وزیر اعظم کے خلاف فیصلہ دیا۔ نیب کے پاس نواز شریف اور ان کے خاندان سے پوچھ گچھ کے مکمل اختیارات ہیں جنہیں چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔وزیر اعظم کے منصب سے نا اہل ہونے کے بعد بھی جوشخص قانون شکنی میں اتنی دیدہ دلیری کا مظاہرہ کرتا ہے جب وہ صاحب اقتدار تھا تب اس کی صورتحال کیا ہوئی ہو گی پوری قوم کو اس کا بخوبی اندازہ ہو گیا ہو گا۔انہوں نے کہا وطن عزیز کو عدم استحکام کا شکار کرنے کی بنیادی وجہ نا اہل حکمرانوں کی بد انتظامی رہی ہے۔ حکمرانوں کے فیصلوں اور پالیسیوں سے قوم کی بجائے کمیشن ایجنٹ سے مستفید ہوتے رہے۔ملکی ترقی کے نام پر بڑے بڑے منصوبوں کے ٹھیکے من پسند لوگوں کو دیے گئے تاہم صحت، تعلیم اور توانائی جیسی بنیادی ضروریات زندگی میں بہتری کی بجائے ابتری آتی رہی۔جب تک ایوان اقتدار کو ان کے نرغے سے آزاد نہیں کرا لیا جا تا تب تک وطن عزیز کا ترقی و استحکام کی طرف بڑھنا ممکن نہیں۔وطن فروش سیاستدانوں سے مارد وطن کو آزاد کرانے کے لیے قوم کا ہر فرد اپنا کردار ادا کرے۔

وحدت نیوز(مظفرآباد) ڈاکٹر عدنان معراج کو پرنسپل میڈیکل کالج تعینات کیا جائے۔ انتہائی ذہین و قابل ڈاکٹر ہیں ، خدمات کسی سے پوشیدہ نہیں ، عدالت عالیہ کے فیصلے کا احترام کرتے ہوئے ان کی تعیناتی کو یقینی بنایا جائے۔ ان خیالات کا اظہار ڈپٹی سیکرٹری جنرل مجلس وحدت مسلمین آزاد جموں و کشمیرمولانا سید طالب حسین ہمدانی نے وحدت میڈیا سیل سے جاری بیان میں کیا ۔ انہوں نے کہا کہ سی ایم ایچ مظفرآباد میں تعینات ڈاکٹر عدنان معراج انتہائی محنتی و ذہین ڈاکٹر ہیں۔ سی ایم ایچ میں آنے والے مریضوں کے لیے خصوصی دلچسپی لائق صد تحسین ہیں، ہم سمجھتے ہیں کہ ان کے ٹیلنٹ سے فائدہ اٹھایا جائے۔ میڈیکل کالج جو اس وقت بحران کا شکار ہے ، آئے روز ادارے کا سربراہ تعینات کرنے میں مسئلہ درپیش ہوتا ہے، اس مسئلے کو دور کرنے کے لیے عدنان معراج کو پرنسپل تعینات کیا جائے، قوی امید ہے وہ اپنی صلاحیتوں سے ادارے کو عروج پر لے جائے گے، سی ایم ایچ میں ان کی خدمات کسی سے پوشیدہ نہیں ، عدالت العالیہ بھی ان کے حق میں فیصلہ صادر کر چکی ہے ، مذید وقت ضائع کیئے بغیر ان کی تعیناتی کو یقینی بناتے ہوئے فیصلہ کا احترام کیا جائے ۔

وحدت نیوز(آرٹیکل) آج کے دور میں صاحب میڈیا وہ نہیں جو ایک بہت بڑے میڈیا (جیو،بی بی سی سی این این وغیر) کا مالک ہو اس کے پاس سینکڑوں، ہزاروں لوگ کام کرنے والے ہوں  جیسا کہ پہلے ایسے ہی تها جو خود ہی ایک میسیج،پیام (یاد رہے کہ ہر خبر،ٹاک شو،ڈرامہ، فلم وغیرہ، غرض ہر پروگرام اپنے اندر ایک پیغام رکھتا ہے، اس کے اندر کسی نہ کسی چیز کے بارے اطلاع هے ،غلط یا صحیح، جھوٹی یا سچی)تیار کرتے، اس کی پروڈکشن ہوتی ،اور پھر  اس پیام کو اپنے تسلط اور میڈیا پرمکمل انحصاری کنٹرول کے ذریعے یا ایک حد اپنے انحصاری کنٹرول کے ذریعے اس پیغام کو نشر کرتے تهے اور یوں رائے عامہ کو  اکیلے ہی اپنے کنٹرول میں لے لیتے تھے یا اپنے دوسروں ہمفکروں کے ساتھ ملکر رائے عامہ کو کنٹرول کرتے تهے . (ان بڑے بڑے میڈیا کے مراکز کا کنٹرول تها رائے عامہ بنانےپر اور رائے عامہ کو کنٹرول کرنے پر اور اسے اپنی مرضی کی سمت دینے پر ) لیکن آج micro media آنے کے بعد صورتحال بدل چکی ہے .آج  دنیا میں جس کے پاس ایک اطلاع،ایک اہم پیغام ہے ،ایک ضروری پیغام ہے ،ایک مفید پیغام ہے وہ صاحب میڈیا ہے (مثلا پاراچنار کے دهرنے کو جب mass mediaنشر نہیں کر رہا تها ،اس وقت اس micro media کے ذریعے اس Black out کو توڑا گیا ،justice for parachinar  والا ٹرینڈ   top trend بنا ،لہذا اس وقت ہم صاحب میڈیا تهے ،ہمارے پاس میڈیا تها جس نے mass media  کو شکست دی )

پس آج کے دور میں وہ شخص صاحب میڈیا نہیں جو  mass media کے ایک بہت بڑے set up کا مالک ہو ، وسیع بجٹ رکهتا ہو  ،اس طرح کے کئی وسائل اسکی دسترس میں ہوں ،یا کوئی مشہور  اینکر ہو ، بلکہ آج اس شخص کو ہم صاحب میڈیا کہیں گے جس کے پاس ایک پیغام ہے .البتہ یہ بات واضح رہے کہ پیغام اور اطلاعات  ( اور صرف information  ) میں واضح فرق ہے ضروری نہیں کہ جس شخص کے پاس اطلاعات ہوں ،معلومات ہوں ،اسے آگاہی ہو  اور ایک پیام کے لئے ضروری سارا matter ہو،ضروری نہیں کہ اس کے پاس ایک پیغام بهی ہو ،چونکہ پیام کا matter ابتدائی مواد ہے پیام تیار کرنے کے لئے  (جیسا کہ 1970 کے انتخابات کے بعد جب حالات خراب ہوئے تو ایک صحافی تهے سید اطہر عباس انہوں نے تمام معلومات کو سامنے رکهتے ہوئے ،خبرکی سرخی یہ بنائی کہ  ادهر تم ادهر ہم ، جو آج تک ذہنوں میں ہے )لہذا معلومات کو پیام میں  اس طرح سے ڈهالنا کہ  لوگ اسے دلچسپی سے پڑہیں ،سنیں یا دیکهیں .اس کام کے لئے کچھ چیزوں کا ہونا اور انکی طرف توجہ لازم ہے .اس پیام کی شکل و صورت کیسا ہو  کہ دلچسپی سے پڑها،سنا یا دیکها جائے . اس کے لئے مثلاً  مخاطبین،ناظرین اور سامعین کی درست شناخت لازم ہے (جن کے لئے وہ پیام تیار کیا جا رہا ہے ،جوانوں کے لئے ہے یا بڑہوں کے لئے، خواص کے لئے  یا عوام کے لئے )اسی طرح مخاطب کی ضرورتوں کا پتہ ہو .مختلف قسم کے امکانی پیغامات  میں سے مناسب پیام کا انتخاب اور اس کو دوسروں تک پہنچانے کا اسلوب اور انداز بهی مورد توجہ رہنا چاہئے۔

1. مخاطبین کی درست اور صحیح شناخت  اور ان کی طرف خیرخواہانہ توجہ
میڈیا (پیام ) کی تاثیر اور اثر گزاری  میں اضافے میں سب سے اہم عنصر مخاطب کی شناخت ہے ،یعنی میڈیا مخاطب کو کیا سمجهتا ہے ،یہ بات پیام رسانی کے اسلوب اور اسٹائل میں بہت موثر ہے ۔
2.  مخاطب کی خصوصیات.  قرآن میں مخاطب کی طرف دو طرح کی نگاہ کو بیان کیا گیا ہے ۔
الف. مخاطب کی طرف فرعونی نگاہ اس طرح کی  نگاہ سے اگر مخاطب کو دیکھا جائے تو مخاطب کو بندہ ، نوکر ،غلام اور رعیت سمجھ کر اس تک پیام پہنچایا جائے گا ،وہی نگاہ جو فرعون کی لوگوں کے بارے تھی
فحشر فنادي ..فقال انا ربكم الأعلي
اس فرعونی نگاہ میں لوگوں کا کام صرف سننا ہے اور اس کے علاوہ ان کے پاس کوئی چارہ نہیں ہے ،اس نگاہ میں انسان کا میڈیا کے سامنے تسلیم ہو جانا ہے جیسا کہ در حقیقت صاحب پیام کے آگے سر جھکانا ہے ۔اس طرح سے مخاطب کو دیکھنا انسان کے سب سے بڑے وصف "خود اپنے لئے کسی چیز کو خود اپنی مرضی سے اختیار کرنا ،اور حقیقت کو تلاش کرنا " سے منافات رکھتی ہے ،اس طرح کے انداز میں انسان کو دیکھنے کی صورت میں پھر انسان تک وہ پیام بهیجا جائے گا جس سے وہ طاقت ور لوگوں کے سامنے تسلیم محض ہو جائے۔

فاستخف قومه فأطاعوه إنهم كانوا قوماً فاسقين

 پس فرعون نے اپنی قوم کو سبک (خفیف،هلکا اندر سے کھوکھلا )کر دیا اور انہوں نے فرعون (جیسے پست ) کی اطاعت کر لی وغیرہ یعنی فرعون نے ان سے ان کی انسانی کرامت،عزت نفس چهین لی تهی ،وہ بےوقار ،اور اندر سے کھوکھلے کر دئے گئے تهے ۔

ب.  مخاطب کی طرف الہی نگاہ ،اس  نگاہ میں انسان کی کرامت اور اسکی انسانیت کا خیال رکها جاتا ہے ،لوگوں کو رعیت ،نوکر احقر غلام سمجھ کر پیام نہیں دیا جاتا، خطاب نہیں کیا جاتا ،صاحب پیام  اپنے آپ کو لوگوں کی قوت سماعت اور قوت بینائی کا مالک نہیں سمجهتا ، بلکہ اسے اپنے پیام کی حقانیت پر اس قدر ایمان رکهتا ہے کہ اسے پتہ ہے کہ انسان کی سماعت اور بینائی کی طاقت جس قدر آزاد ہونگے اس کا پیام ان کے لئے دیکهنے،سننے اور پڑھنے میں آور جذاب ہو جائے گا ،اس  نگاہ میں مخاطب  کی فطرت پیام کو درک کرنے اور اسے قبول کرنے کی اساس اور بنیاد (اور زمینہ ) ہے،انسان کے اپنی مرضی سے کسی چیز کو اپنانے ،اختیار کرنے ، اس کی حق اور حقیقت کے جستجو کرنے کی خصوصیت اور وصف کو محترم سمجھا جاتا ہے۔

فبشر عبادی الذین یستمعون القول فیتبعون احسنه أولئک الذین هداهم الله و أولئك هم أولو أﻷلباب
 پس میرے بندوں کو بشارت دو ،وہی بندے جو (دوسروں کے) سخن کو سنتے ہیں اور اس میں سے بہترین  (بات ) کی پیروی کرتے هیں یہ وہ لوگ ہیں جنہیں خدا نے ہدایت دی ہے  اور یہ صاحبان عقل ہیں ۔

اس نگاہ میں مقصد مخاطب کو غلام بنانا ،اپنا بندہ بنانا ،یا اس کو اپنے سامنے تسلیم کروانا نہیں .بلکہ  مقصد اس کو جهل اور نادانی کی ان ہتھکڑیوں اور زنجیروں سے آزادی دلانا ہے جن میں وہ جکڑا ہوا ہے ۔

اس نگاہ میں صاحب پیام اپنے آپ کو مخاطب کے  دل و دماغ اور اس کی سوج اور فکر پر مسلط نہیں قرار دیتا بلکہ اپنے آپ کو اس کے  ساتھ  برابر قرار دیتا ہے
اس نگاہ میں انبیاء کرام اپنے آپ کو لوگوں کا ارباب اور انکی فکر اور سوچ پر حاکم نہیں سمجھتے بلکہ اپنے آپ کو مخاطبین کے بهائی ،انکے  ساتهی اور خدا کی طرف سیر تعالی ،تکامل میں ہمراہ کے پر بیان کرتے ہیں ۔

إ ذ قال لهم اخوهم نوح الا تتقون /إني لکم رسول امین/فاتقوا الله و أطيعون .....الخ جب انکے بھائی نوح نے ان سے کہا کیا تم پرہیزگارنہیں  بنو گے  ......
فذکر إنما أنت مذکر ،لست علیهم  بمصیطر
بس تو تذکر دے کہ تو صرف تذکر دینے والا ہے .......تو ان پر مسلط نہیں ہے (کہ ان کو ایمان لانے پر مجبور کرے)
اس نگاہ کی روشنی میں میڈیا کی ذمہ داری ،"ذکر" یعنی تذکر دینا هے  ،اس وقت میڈیا (پیام ) یعنی "مذکر"

2. مخاطب (سامعین ،ناظرین، قارئین )کی ضرورتوں کا صحیح علم اور شناخت انسان کی سب سے اہم ضرورت اس کی "آگہی" یا آگاہی ہے .شیاطین ہمیشہ اس کوشش میں لگے رہتے ہیں کہ انسانوں کی آگاہی کا راستہ روکیں ،قدیم اورماڈرن جاہلیت اپنی بقا اور زندگی انسانوں کی "لاعلمی " اور نادانی اور جہالت میں سمجھتے ہیں ۔

وقال الذين کفروا لا تسمعوا لهذا القرآن والغوا فیه لعلکم تغلبون
کافرون نے کہا : اس قرآن کو نہ سنو ؛اور قرآن کی تلاوت کے دوران لغو (بیہودہ) باتیں کرو ،تاکہ شاید تم غلبہ پا لو۔

قدیم جاہلیت لوگوں کو منع کر کے جاہل رکھتی تهی اور ماڈرن جاهلیت information کی bombardment کے ذریعے انسانوں کو حقائق تک رسائی سے محروم کرتی ہے .یعنی یہ قدیم جاہلیت  اور ماڈرن جاہلیت لوگوں کی آگاہی اور بصیرت  ، حقائق اور صحیح معلومات  تک رسائی کا راستہ روکنے کے لئے کهبی لا تسمعوا لهذا القرآن کہتے ہیں اور کبھی اس  نامناسب  اور غیر ضروری معلومات کی اس قدر یلغار کرتے ہیں  تا کہ انسانی ذہن اس قدر مشغول ہو جائے کی حق بات تک رسائی سے محروم ہو جائے :"والغوا فيه"

قدیم جاہلیت یہ کوشش کرتی تهی کہ لوگ جاہل رییں اور لوگ کسی چیز کو نہ جانیں ( جھل بسیط کا شکار یوں ) اور ماڈرن جاہلیت کی کو شش یہ ہے کہ لوگ یہ نہ جانتے یوں کہ وہ نہیں جانتے  ( جهل مرکب کا شکار یوں ) آج information کی bombardment ،انسانوں کو انگنت پیغامات کا اسیر کرنا ،یہ ایک ایسا  میڈیائی استعمار ہے جو انسان کے دل و دماغ اس کی سوچ اور فکر کو تسخیر کر کے اپنے قبضے میں لے لیتا ہے ،اور انسان کے سرمایہ معرفت و شناخت کو چهین لیتا ہے (پھر جیسے وہ چاہتے ہیں ویسا ہی سوچتا ہے،اس کے افکار اور تفکر بهی انہی کی منشا ءکے مطابق ہو جاتا ہے )

ماڈرن جاہلیت اپنے شیطانی پیغام کو  celebrities کے ذریعے لوگوں تک پہنچاتے ہیں .ان کے ذریعے اپنی مرضی کے پیغام لوگوں کے دل و دماغ تک پہنچاتے ہیں ،جو نہ صرف یہ کے لوگوں کے عقل و شعور کو بیدار نہیں کرتے  بلکہ رائے عامہ کی بےوقوف اور حماقت کا سبب بنتے ہیں۔

اس صورت میں انسان کی آگاہی حاصل کرنے کی عطش ( ضرورت )کو مصنوعی طور پر بجھایا جاتا ہے ،لوگ یہ سمجھتے هیں کہ ان کے پاس مثلاً  دنیا کے  بہت زیادہ نالج اور معلومات  ہیں ،جبکہ information کی bombardment کی وجہ سے بہت سے انتہائی اہم  واقعات اور حوادث یا تو اپنی اہمیت کهو  بیٹهتے ہیں ،جو ممکن ہے کہ اس قدر اهم ہوں جو اسکی زندگی اور اس کے فیوچر کو بدل کے رکھ دیں۔

تحریر ۔۔۔۔علامہ راجہ ناصر عباس جعفری
سوشل میڈیاکے ایک گروپ میں ہونے والی گفتگوسے اقتباس

وحدت نیوز(آرٹیکل)انسان دوستی کا عالمی دن (Humanitaryian day) 19اگست کو ہر سال اقوام متحدہ اور فلاحی تنظیموں کی طرف سے دنیا بھر میں منایا جاتا ہے۔اس دن کو منانے کا مقصد انسانی فلاح و بہبود کیلئے متحرک افراد اور انسانی جذبے کے تحت کام کرنے والے امدادی کارکنان کو سراہانا اور انکا خیال رکھنا ہے۔اقوا م متحدہ کی جانب سے 19اگست کو انسانی دوستی کے عالمی دن کے طور پر منانے کا فیصلہ دسمبر 2008ء میں جنرل اسمبلی کے اجلاس میں کیا گیا۔19اگست ہی تھا جب 2003میں عراق کے شہر بغداد میں کینال ہوٹل پر بم حملے میں اقوام متحدہ کے سفیر سر جیو ڈی میلو Vieiraسمیت 22افراد ہلاک ہوئے تھے۔سر جیوعراق میں اقوام متحدہ اعلیٰ ترین نمائندے تھے۔اس واقعہ کے پانچ سال بعدجنرل اسمبلی نے عالمی انسانی ہمدردی کے دن کے طور پر 19اگست کو قرارداد منظور کی۔ بعد ازاں ہر سال انسانی بنیادوں پر کمیونٹی عالمی سماعت WHDیادگار بنانے کیلئے منظم کیا،یہ دن انسانی امداد فراہم کرنے والے کارکنوں کی حفاظت اور سلامتی کے قیام کی وکالت ،بقاء،بہبود اور بحرانوں سے متاثرہ افراد کے وقار کیلئے کام کے حوالے سے منایا جاتا ہے۔خلق خدا کی بھلائی کی سر گرمیوں کے حوالے سے بنیادی سمجھ بوجھ کو عام کرنے کے ساتھ ان سر گرمیو ں میں شریک افراد کا احترام ،اور جو لوگ کار خیر کرتے ہوئے ہلاک ہوئے ان کو یاد بھی کیا جاتا ہے۔یہ دن دکھی انسانیت کی خدمت کر نے والوں کے نام ہے جو بلا تفریق رنگ و نسل ہر ممکن طور پر دکھی او ر ناچار انسانیت کی خدمت کر رہے ہیں۔ دنیا بھر میں ہزاروں مردو زن انسانیت کیلئے کام کرتے ہوئے اپنی جان خطرے میں ڈالتے ہیں کچھ تو بعض اوقات اپنے مقاصد کے حصول میں اپنی جان بھی کھو دیتے ہیں ۔ یہ وہ شخصیات ہوتی ہیں جو اس راہ میں جان دینے کوعین حیات خیال کرتیں ہیں ۔
                    
                طلاطم ہائے بحرزندگی  سے  خوف  کیا   معنی
                جو دیوانے ہیں وہ موجوں کو بھی ساحل سمجھتے ہیں

دراصل ایسے لو گ اپنی قربانیوں سے ایک جہاں کوحیات جادواں بخشتے ہیں اور خود بھی زندہ جاوید رہتے ہیں ۔

19اگست انسان دوست عالمی دن کے طور پر منانے کا مقصد ان ہیروز اور انکی قر بانیوں کو یاد کرنا بھی ہے۔انسانی ضروریات کو پورا کرنے میں بین الاقوامی تعاون کی ضرور ت اور اسکی اہمیت کو اجاگر کرنا، عالمی سطح پر انسان دوستی کے حوالے سے شعور کی بیداری بھی اس دن کے موضوعات میں شامل ہے۔ یہ دن مختص ہے تمام انسان دوست فعال کارکنوں کے نام اور اس سلسلہ میں ہونے والی تمام تر کاوشوں ، پروگرامز سے آگاہ ، جاری سر گرمیوں سے آگاہ کرنے والوں کیلئے۔

آج دنیا بھر میں بہت سی کمیونٹی اور بہت سی آرگنائزیشن لوگوں میں آگاہی پھیلانے کیلئے اشتہارات اور معلوماتی مواد کا سہارا لیتی ہیں اور پریس کے زریعے انسانیت کا پیغام دنیا تک پہنچانے کی کوشش بھی کرتیں ہیں ۔ انسان دوستی کا عالمی دن غریب اور ضرورت مندوں کی مدد اور تعاون کے عزم کے نام ہے۔ہر انسان کو چاہئے کے سوچے اور اپنی صلاحیت کے اعتبار سے انسانیت کی مدد کریں ۔یہ سب کچھ تعلیم اور شعور سے ممکن ہوگا۔اس سلسلہ میں ان ممالک کے حالات کا مطالعہ اور جائزہ ضروری ہے جہاں حقیقتًا جنگ وقوع پزیر ہوئی ہو اور انکی بد قسمتی کا مشاہدہ ضروری ہے تاکہ عام آدمی دکھی انسانیت کی خدمت کرنے پر خود کو تیا ر کر سکے۔

قارئین انسان تو دنیا میں ہر جگہ پیدا ہوتے ہیں لیکن انسانیت کم کم ہی پیدا ہوتی ہے اگر ہم اس بات کو دیکھیں تو واقعی یہ بالکل ٹھیک بات ہے کیونکہ پاکستان میں 21کڑوڑ انسان آباد ہیں عبدالستار ایدھی ایک ہی تھا جو سچے دل اور اچھی نیت کے ساتھ اپنا کام بنا کسی لالچ کے سر انجام دیتے تھے۔ چھیپا ،رتھ فائو جیسے نام بہت کم ہیں ۔ ہاں دنیا میں روشنی کی بہت سی کرنیں موجود ہیں جو راستے کو روشنی کرنے کا کام دے رہی ہیں ۔ضرورت اس بات کی ہے جو کام وہ سب کر رہے ہیں ہم بھی کر سکتے ہیں اس کے لئے سچ کی اور ہمت کی ضرورت ہے اور بس۔۔۔


تحریر ۔۔۔سلمان  احمد قریشی

وحدت نیوز(اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے میڈیا تنظیمی ورکشاپ سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ میڈیا کی اہمیت و افادیت ماضی کی طرح آج بھی مسلمہ ہے لیکن اس کے انداز میں تبدیلیاں آ چکی ہیں۔ اب میڈیا غیر معمولی افرادی قوت یا بے بہا وسائل کا محتاج نہیں رہا ۔جس اطلاع کی فراہمی میں ماس میڈیا کردار ادا کرنے سے قاصر ہوتا ہے وہاں سوشل میڈیا اپنی حیثیت منوائے بغیر نہیں رہتا۔سانحہ پارہ چنار سمیت متعدد واقعات ایسے ہیں جہاں پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کو حکومتی احکامات کی پیروی میں خاموش رہنا پڑا لیکن سوشل میڈیا پر چلنے والی کمپین نے ان کی خاموشی کو توڑ کر اپنی اہمیت کو ثابت کیا۔ اگر آپ کے پاس درست اور مفید اطلاعات ہیں تو میڈیا کے کسی بھی ذریعے کو استعمال کرتے ہوئے انہیں کم وقت میں ہزاروں افراد تک پہنچایا جاسکتا ہے۔اطلاعات کی فراہمی زیادہ موثر اسی صورت میں ثابت ہو گی جب آپ اپنے قارئین کی دلچسپی سے آگاہ ہوں گے اور جو اطلاع نشر کریں گے وہ پڑھنے والے کے مزاج سے ہم آہنگ ہو گی۔

انہوں نے کہا میڈیا پرسنز کو حقیقت شناس ہونا چاہیے۔دور عصر میں ہمارے لیے سب سے زیادہ نقصان دہ غیر ملکی پروگراموں کی یلغار ہے۔ اس ثقافتی یلغار کے ہتھیار کو استعمال کرنے کا واحد وسیلہ میڈیا ہے۔ اس ہتھیار سے ہماری نئی نسل کو گمراہ کیا جا رہا ہے۔ مغربی و ہندوانہ ثقافت کے سیلاب کے آگے بند باندھنے میں ہمارے ان نوجوانوں کو کردار ادا کرنا ہو گا جو میڈیا سے وابستہ ہیں۔ہماری اپنی روایات ، تشخص اور ثقافت ہے۔ہم سے ہماری شناخت چھینی جا رہی ہے۔اس شناخت کو قائم رکھنے کے لیے اپنی معاشرتی ذمہ داریوں سے آگہی انتہائی ضروری ہے ورنہ دشمن کی یلغار ہماری نئی نسل و وطن عزیز کو با آسانی اپنی سازشوں کی آماجگاہ بنا دے گی اور ہم سے ہماری اصل کو چھین کر ہمیں غلام بنا لے گی۔

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree