سفر عشق

وحدت نیوز(آرٹیکل) انسان کے لئے بعض مواقع ایسے آتے ہیں  جن میں وہ صحیح معنوں میں خدا کی خوشنودی اور قرب  کو حاصل کر سکتا ہے اور یہی ہر انسان کی دلی تمنا ہوتی ہے۔ہر انسان فطرتا نیک اور خدا جو ہوتا ہے لیکن زمانے اور حالات کے سبب انسان اپنے خالق حقیقی کو فراموش کر لیتے ہیں لیکن زندگی کے کسی موڑ پر جب اسے ہوش آ جاتا ہے تو وہ یہ جان چکا ہوتا ہے کہ خدا کے سوا اس کا کوئی نہیں۔انسان کی  شروع سے ہی یہی کوشش  رہتی ہے کہ وہ کسی نہ کسی طریقہ سے خدا کی خوشنودی حاصل کرے اوراعمال و عبادات کے ذریعہ اپنے خالق کے حضور بڑا مقام حاصل کر لے۔

اللہ تعالی نے بندوں کے لئے کچھ عبادات فرض کی ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ وہ ان عبادات کے ذریعہ بلند مقام و مرتبہ پر فائز ہو۔ہر عبادت کا اپنا خاص وقت اور زمانہ معین ہے۔کچھ عبادات یومیہ ہے اور کچھ عبادات ایسے ہیں جو سال میں ایک دفعہ صاحب استطاعت انسانوں کے لئے بجا لانا ضروری ہے ۔ اس عظیم اجتماعی عبادت کا نام حج ہے ۔ حج کی اہمیت کے بارے میں حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں : خدا  را اپنے پرودگار کے گھر کے بارے میں  جب تک زندہ ہو توجہ سے کام لو اوراسے خالی نہ چھوڑو کیونکہ اگر حج ترک کر دیا گیا تو خدا تمہیں مہلت نہیں دے گا۔حج اصل میں تمام پابندیوں،مصروفیتوں اور وابستگیوں سے دامن کش ہو کر اپنی فطرت کی جانب ہجرت اوربازگشت کا نام ہے۔لیکن انسان کو اس کی زندگی کے معمولات،جھوٹی سچی ضرورتیں،طرح طرح کی مشغولیات اور علاقائی صورت حال اس کے بنیادی مقصد اورالہی وظائف سے روکتی ہیں اوراسے اس کے اصل اوراس کے سچے وطن سے دور کر دیتی ہے۔حج تمام مسلمانوں کے عمومی اجتماع میں حاضری اوران لوگوں سے خدا پسند ملاقات کا نام ہے جو ایک دین کو مانتے ہیں اورخدائے واحد کی عبادت کرتے ہیں ۔میقات میں حاضر ہونا،لبیک کا ورد کرنا، طواف،نماز،سعی،تقصیر اورساتھ ہی عرفات،مشعر اور منی میں قیام اورقربانی پیش کرنا یہ سب ایسی منزلیں ہیں جن میں  ہزار ہا  رموز پوشیدہ ہیں ۔ چھوٹی چھوٹی فکریں اور محدود مفادات مسلمانوں کے اس عظیم اورعالمی اجتماع میں اپنا وجود کھو دیتے ہیں اوران کی جگہ عمومی اوروسیع طرز فکر پیدا ہو جاتی ہے۔ حاجی اس ابراہیمی حج میں شریک ہونے کے ساتھ ہی انبیاء و مرسلین کی تاریخ سے جڑ جاتا ہے اوراپنی تاریخ حثیت  و وجود کی بازیافت کرتا ہے۔لبیک اللہم لبیک کی مقدس آواز اسے اپنے کئے ہوئے دیرینہ عہد اور میثاق فطرت کی یاد دلاتی ہے۔انسان احرام کا سفید جامہ پہن کر خود خواہی ،خود نمائی ،دنیا کی لذتوں اور ناپسندیدہ عادات اوراطوار سے آزاد ہو کر خدا سے قریب ہو جاتا ہے اور حمد و ستایش اورنعمت و قدرت کو خدا ہی سے مخصوص سمجھتا ہے۔ خدا کے حکم اوراس کی خوشنودی کے لئے جگہ جگہ ٹہرنا اورچل پڑنا انسان کو ابراہیمی زندگی کی راہ سکھاتا ہے۔ قربانی پیش کرتے ہوئے وہ حرص و آروزو کے  گلے پر بھی چھری پھیرتا ہے اوردوبارہ طواف خانہ خدا کے لئے روانہ ہو جاتا ہے۔رمی ،جمرات یعنی منی میں چھوٹے بڑے شیطانوں کو کنکریاں مارتے ہوئے وہ ہر طرح کے شرک اورشیطانی وسوسوں سے اپنی نفرت اور بیزاری کا اظہار کرتا ہے۔

حج کی غرض و غایت چند خاص مقامات کی صرف زیارت ہی نہیں بلکہ اس کی پشت پر ایثار،قربانی،محبت اور خلوص کی ایک درخشان تاریخ موجود ہے۔حضرت ابراہیم،حضرت ہاجرہ اورحضرت اسماعیل علیہم السلام جیسے عظیم ہستیوں کے خلوص و عزمیت کی بے مثال داستان ہے۔حج ایک جامع عبادت اور اس کا سب سے بڑا فائدہ گناہوں کی بخشش ہے۔رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:جو کوئی خالصتا اللہ تعالی کے عکم کی تعمیل میں حج کرتا ہے اوردوران حج فسق و فجور سے باز رکھتا ہےوہ گناہوں سے اس طرح پاک ہو کر لوٹتا ہے گویا ابھی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہو۔

حج جیسی جامع عبادت میں تمام عبادات کی روح شامل ہے۔ حج کے لئے روانگی سے واپسی تک دوران سفر نماز کے ذریعہ قرب الہی میسر آتا ہے۔حج کے لئے مال خرچ کرنا زکوۃ سے مشابہت رکھتا ہے۔نفسانی خواہشات اور اخلاقی برائیوں سے پرہیز اپنے اندر روزہ کی کیفیت رکھتا ہے۔ جب ایک شخص اپنے عزیز و اقارب کو چھوڑ کر اوردنیوی دلچسپیوں سے منہ موڑ کر غیر سلی ہوئی کپڑوں کو اوڑھ کر لبیک اللہم لبیک کی صدائیں بلند کرتے ہوئے خانہ خدا میں حاضر ہوتا ہے تو اس کا یہ سفر ایک طرح سفر آخرت کا نمونہ بن جاتا ہے۔میدان عرفات کے قیام مین اسے وہ بشارت یاد آتی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ تعالی نے دین اسلام کی صورت میں مسلمانوں پر اپنی نعمت کو نازل کیں ہیں۔مقام منی میں وہ اس عزم کے ساتھ اپنے ازلی دشمن کو کنکریاں مارات ہے کہ اب اگر یہ میرے اورمیرے اللہ کے درمیان حائل ہونے کی کوشش کرے گا تو اسے پہچاننے میں غلطی نہیں کروں گا۔جب بیت اللہ کے سامنے پہنچتا ہے تو اس کی روح اس خیال سے وجد میں آجاتی ہے کہ اس مقدس گھر کی زیارت کے لئے آنکھیں نمناک تھیں ،دل مضطرب تھا وہ آک نظر کے سامنے ہے۔ اللہ سے لو لگائے رکھنے کی یہ کیفیت حاجی کے لئے تسکین قلب اورروح کی مسرت کا باعث بنتی ہے۔

حج خداوند عالم کا حکم،حضرت آدم کی دیرینہ سنت اور اللہ کے خلیل ابراہیم کا طریقہ ہے۔حج انسان اور رحمان و رحیم خدا کے درمیان موجود وعدہ کے وفا کرنے کا مقام اور راہ ابراہیمی پر چلنے والوں کے لئے اتحاد کا مرکز ہے۔حج شیطان اور خود پرستی سے مقابلہ،شرک سے بیزاری اور انبیاء کے راستہ سے وابستگی کا اعلان۔ حج انسانوں کی عبادت کا سب سے بڑا اور پائیدار مظاہرہ ہے،حج ایک دوسرے سے آشنا ہونے کی جگہ اورعظیم امت اسلامی کے درمیاں ارتباطات و تعلقات کا مرکز اور آگہی،آزادی اور خود سازی کی تربیت گاہ ہے۔حج قیام قیامت کا نمونہ،انسانوں کی اجتماعی حرکت کا جلوہ  مرکز،دعا،عبادت اور وحی کے نزول اور قرآن کی تلاوت کا مقام ہے۔ایام حج کوتاہ بینی اورخود محوری و غفلت اور دنیا پرستی کے جال سے نجات پانے کے لئے بہترین فرصت ہے۔اعمال حج  کا شمار عظیم ترین سیاسی و عبادی فرائض میںسے ہوتا ہے کہ اگر یہ اعمال صحیح اورعمیق آگہی اورشناخت کے ہوتے ہوئے قصد قربت و خلوص کے ساتھ انجام پائیں تو افراد اورجوامع اسلامی کی تقدیر بدل سکتے ہیں اور ہوا ہوس کے شیطان کو اندر سے اور بڑے شیطان کو اسلامی سر زمینوں سے نکل جانے پر مجبور کر سکتے ہیں ۔ اتحاد و اتفاق کا جو منظر خانہ خدا میں دیکھنے کو ملتے ہیں وہی دیگر مقامات پر بھی ہو۔ اسلام اورمسلمانوں کی خوشبختی اور کامیابی اتحاد و اتفاق میں ہی مضمر ہے اورحج اس کا بہتری نمونہ  عمل ہے۔ حج ابراہیمی جو اسلام نے مسلمانوں کو ایک تحفے کے طور پر پیش کیا ہے، عزت، روحانیت، اتحاد اور شوکت کا مظہر ہے؛ یہ بدخواہوں اور دشمنوں کے سامنے امت اسلامیہ کی عظمت اور اللہ کی لازوال قدرت پر ان کے اعتماد کی نشانی ہے ۔اسلامی اور توحیدی حج، {أَشِدّاء ُ عَلی الکُفّارِ رُحَمَاء  ُ بَيْنَہُمْ} کا مظہر ہے۔ مشرکین سے اظہار بیزاری اور مومنین کے ساتھ یکجہتی اور انس کا مقام ہے۔

متعصب آل سعود کی نالائقی سے پیش آنے والے منٰی کے ہولناک سانحے کو تقریبا دو سال کا عرصہ ہو رہا ہے جس میں کئی ہزار افراد عید قربان کے دن، احرام کے لباس میں، شدید دھوپ میں، تشنہ لب اور مظلومیت کے عالم میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اس کے علاوہ مسجد الحرام میں بھی کچھ لوگ عبادت، طواف اور نماز کے عالم میں خاک و خوں میں غلطاں ہو گئے۔ سعودی  متعصب حکام دونوں سانحوں میں قصوروار ہیں۔ زخمی حجاج کو، جن کے مشتاق قلوب اور فریفتہ وجود عید قربان کے دن ذکر اللہ اور آیات الہیہ کے ترنم میں ڈوبے ہوئے تھے، بچانے میں کوتاہی کی گئی۔ قسی القلب اور مجرم سعودی افراد نے زخمی حجاج کو شہید حجاج کے ساتھ بند کنٹینروں میں محبوس کئےیہاں تک کہ ان کے سوکھے ہونٹوں تک پانی کے چند قطرے پہنچانے کے بجائے انھیں موت کے منہ میں پہنچا دئے۔ آل سعود کی ناہلی اورنالائقی کی وجہ  سے مختلف اسلامی ممالک کے بہترین  افراد،نخبگان، ڈاکٹرز، وکلاء،دانشمند،  قاری قرآن، علماءاور پروفیسرز سر زمین منی میں  تڑپتے ہوئے جان کی بازی ہارگئے۔

 فتنہ انگیز آل سعودنے اسلام سے خیانت کرتے ہوئے شیطان صفت تکفیری گروہوں کوتشکیل دے کراور انھیں وسائل سے لیس کرکے دنیائے اسلام کو خانہ جنگی میں مبتلا کر کےبے گناہوں مسلمانوں کاقتل عام کیا ہے ۔ یمن، عراق، شام اور لیبیا اور دیگر ملکوں کے مسلمانوں کو خون سے نہلا دیا ہے۔ غاصب صیہونی حکومت اسرائیل کی جانب دوستی کا ہاتھ پھیلایا ہے اور فلسطینیوں کے جانکاہ رنج و مصیبت پر اپنی آنکھیں بند کر لی ہیں اور اپنے مظالم و خیانت کا دائرہ بحرین تک پھیلا دیا ہے۔ یمن کے  مظلوم مسلمانوں کو حج جیسی عظیم اجتماعی عبادت سے محروم کر دیا ہے۔ حجاج کرام پر لازم ہے کہ وہ اسلام کی سر بلندی ،مسلمانوں کے درمیان اتحاد و اتفاق کے لئے دعا کریں کیونکہ مسلمان ایک خدا ایک رسول اور ایک قرآن کے ماننے والے ہیں اور ہمارے مشترکہ دشمن امریکہ و اسرائیل کی نابودی کے لئے بھی دعا کریں۔

 

 

تحریر۔۔۔محمد لطیف مطہری کچوروی

وحدت نیوز(آرٹیکل) شیعہ علاقوں میں جنگ لے جانے کی حکمت عملی
اس منصوبے کو اس طرح آگے بڑھایا جائے گا:
۱۔ بعثی لیڈرز اور متشدد سنی گروہوں (القاعدہ، داعش) کے درمیان مختلف نکات پر اتفاق ہو چکا ہے۔  حکومت کے حصول کے علاوہ شیعوں کی مخالفت پر یہ سب گروہ آپس میں متفق ہیں۔
۲۔ اس معرکے کے لیے دو سال سے تیاری جاری ہے۔ جنگ کو عراق کے وسطی اور جنوبی علاقے تک لے جانا ہے۔ اس  سے "معرکہ کبری"  کا نام دیا جائے گا اور اس کے دو مرحلے ہوں گے۔ پہلے مرحلے کو "صرخۃ الحق" اور دوسرے کو "صرخۃ الامام " کا نام دیا گیا ہے۔
۳۔ بڑی بڑی عراقی لیڈر شپ اس وقت  سعودی عرب، قطر اور ترکی کے دورے کر رہی ہیں اور یہ لیڈرز ان ممالک سے غیر محدود امداد وصول کر رہے ہیں۔
۴۔ حالیہ دنوں میں شیعہ اکثریتی علاقوں میں جو مظاہرے اور احتجاجات دکھائی دئیے وہ کسی خاص مطالبے کی خاطر نہیں تھے، بلکہ پری پلانڈ تحرک تھا۔ یہ انہی حالات کے مشابہ ہے جب داعش کے قبضے سے پہلے بڑے لیول پر مظاہرے ہوئے تھے جو عراق کے ایک تہائی علاقوں تک پھیل گئے تھے۔ لیکن طریقہ کار مختلف تھا۔
۵۔ یہ مظاہرے وسطی اور جنوبی علاقوں تک محدود رہیں گے۔ مقصد لوگوں کو موجودہ حکومت سے متنفر کرنا ہے تاکہ دھرنوں تک کی نوبت آئے اور پھر حالات خرابی کی طرف نکلیں۔ اس مرحلے کو معرکہ کبری کا نام دیا گیا ہے۔ ساتھ ہی وزارت دفاع  مختلف عناصر کی علیحدگی شروع ہوگی۔
۶۔ جو منصوبہ بنایا گیا ہے اس میں بنیادی نکتہ یہ ہے کہ داعش کو اس کے تمام عناصر (عربی، عراقی، اجنبی) وادی حوران میں منتقل کیا جائے گا ، اور پھر جنگ کو وسطی اور جنوبی علاقوں میں منتقل کیا جائے گا۔
۷۔ مظاہروں اور دھرنوں کے بعد والے مرحلے میں حالات کو اچانک خراب کیا جائے گا۔ ایک ساتھ چار مختلف صوبوں میں جنگ چھڑ جائے گی۔نخیب اور بابل کے شمالی علاقے سے داعش، حلہ اور کربلا میں داخل ہوگی ۔ وزارت دفاع فورا بغداد کی سیکیورٹی کی ذمہ داری خود لے گی اور پھر بڑی آسانی کے ساتھ بغیر جنگ کے بغداد کو ان کے حوالے کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ خفیہ پلان بھی موجود ہے جس کے بارے میں فی الحال کچھ نہیں کہہ سکتے۔

ان سب کے علاوہ قوی امکان ہے آنے والے دنوں میں داعش کا نام تبدیل کیا جائے گا۔ ترکی سے  مختلف خفیہ راستوں  سے متعدد علاقوں میں اسلحے  کی منتقلی جاری ہے جن میں اسمگلنک کے سمندری راستے بھی شامل ہیں۔

معلومات بتا رہی ہیں کہ ترکی میں مختلف ٹریننگ سنٹرز ہیں جہاں سے منحرف جماعتوں کو جن میں "صرخیہ" "یمانیہ" اور "جند السماء" جیسی تنظیمیں شامل ہیں ، کو ٹریننگ دینے کے بعد جنوبی علاقوں میں منتقل کیا جا رہا ہے۔ ہدف ان کا دینی اور سیاسی لیڈرز کو ٹارگٹ کرنا  اور مظاہرات ، احتجاجات کے ذریعے سڑکوں کو مشغول رکھنا  اور اپنےاہداف کا حصول ہے۔

جو لیڈرز اس فائل کودیکھ رہے ہیں:
۱۔ جنرل زیاد عجلی، جن کو زیاد موسوی بھی کہا جاتا ہے۔ اسی کی دھائی میں پہلے بصرہ میں اور پھر عمارہ میں  سیکیورٹی آفیسر تھے۔ان علاقوں میں اس کے وسیع تعلقات ہیں۔
۲۔ محمد رجب حدوشی۔ حسین کامل کا معاون ہے اور اس کے بعد دوسرے درجے کا اہم شخص ہے۔
۳۔ احمد رشید
۴۔جنرل فاضل حیالی
۵۔ ابو محمد عربی۔ قطر کی ایجنسی کا بندہ ہے۔
۶۔ جنرل عیال۔ صدام کے دور کا سابق آفیسراور اس کا گارڈ۔
۷۔ سعودی عرب اور ترکی کے چند دیگر بڑے اہلکار۔
اس پلان میں ہے کہ (جنوہ، تل ابیض، درنہ، یلوہ، اسبارکہ) کے علاقوں میں دہشت گردی کے کیمپ بنانا۔
حملے والے دن کو "صرخۃ الحق" یعنی حق کی چیخ کا نام دیا ہے۔
بصرہ اور ناصریہ کے علاقے کو ٹارگٹ کیا جائے گا۔  (انتہائی خطرناک کھیل کھیلا جا رہا ہے۔)


ترجمہ وترتیب۔۔۔سید عباس حسینی

وحدت نیوز(گلگت ) گلگت بلتستان میںپاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز کے مابین میثاق کرپشن موجود ہے ،دونوں جماعتیں کرپشن سے اپنا اپنا حصہ لیتے ہیں اور ظاہری طور پر ایک دوسرے کے خلاف بیانات دیکر عوام کو بیوقوف بنانے کی ناکام کوشش کررہی ہیں۔

مجلس وحدت مسلمین گلگت بلتستان کےسیکریٹری اطلاعات علی حیدرنے کہا ہے کہ پیپلز پارٹی کی سابقہ حکومت نے اپنے دور میں کرپشن کے ریکارڈ توڑ دئیے تھے اور اب مسلم لیگ نواز کرپشن میں پیپلز پارٹی کے ریکارڈ توڑ رہی ہے۔محکمہ پی ڈبلیو ڈی میں ٹھیکے جماعتی بنیادوں پر تقسیم کئے جارہے ہیں حکمران جماعت کا حصہ70فیصد جبکہ پیپلز پارٹی کا حصہ  30فیصد ہے اور ان دونو جماعتوںکے مخالفین کا حصہ زیرو فیصد ہے۔گلگت بلتستان میں جن لوگوں نے حکمران جماعت کو ووٹ نہیںدیئے انہیں دیوار سے لگایا جارہا ہے اور سرکاری ملازمتوں میں بھی باریاں لینے والی جماعتوں کا اپنا مخصوص کوٹہ ہے۔سرکاری اداروں کے اعلیٰ آفیسران دونوں جماعتوں کے دوغلے پن سے پریشان اور فرائض کی ادائیگی میں بے بس دکھائی دے رہے ہیں۔بڑے بڑے تعمیراتی منصوبوں کی تعمیر کیلئے پہلے سے کچھ ٹھیکیداروں کو پری کیا جاتا ہے اور میل ملاپ کرکے اپنے من پسند ٹھیکیدار کو کام دیا جاتا ہے۔

ذرائع سے یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ بعض ٹھیکیدار اصل لاگت سے50 فیصد کم پر ٹھیکے حاصل کرتے ہیں جس پر خود تعمیرات کے وزیر اور اسمبلی کے دیگر اراکین نالاں اور بے بس دکھائی دے رہے۔محکمہ ورکس کے وزیر نے اسمبلی فلور پر اپوزیشن اراکین کے اعتراض کے جواب میں اعتراف کیا ہے کہ خود ان کے حلقے میں ایک ٹھیکیدار نے اصل لاگت سے انتہائی کم ریٹ پر ٹھیکہ حاصل کیا ہے اور میں حیران ہوں کہ وہ منصوبہ کیسے مکمل ہوگا؟ انہوں نے چیف سیکرٹری سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس بندربانٹ کو روکنے کیلئے کردار ادا کریں۔

وحدت نیوز(مشہد مقدس) شھید قائد علامہ عارف حسین الحسینی کی انتیسویں برسی کی مناسب سے مجلس وحدت مسلمین شعبہ مشہد مقدس کی طرف سےمدرسہ سلیمانیہ کے ھال میں سیمینار بعنوان سفیر نور کا انعقاد کیا گیا۔پروگرام کا آغاز تلاوت کلام مجید فرقان حمید سے کیا گیا جس کا شرف معروف قاری سید ابراھیم رضوی نے  حاصل کیا اسکےبعد نعت رسول مقبول اور شعراءحضرات نے قائد شھید کے لئے نذرانہ عقیدت پیش کئے۔

سیمینارکےمہمان خصوصی اسلامی جمہوریہ ایران کی مایہ ناز شخصیت اور عالم اسلام کے عظیم دانشوراستاد حسن رحیم پور نے شھید قائد علامہ شہید عارف الحسینی کی زندگانی پربہترین انداز میں گفتگو کی ۔انہوں نے کہا کہ شہد کی ایک ہمہ گیر شخصیت تھےاورہمیں انکی سیرت پرعمل کرنا چاہیے ۔شہیدکو امام راحل کی معرفت اس دور میں تھی جب عالم اسلام کے بڑے بڑے عالم امام خمینی کے مخالف تھے۔شہید نے عراق اور ایران کی حکومتوں کے خلاف امام کی آواز پر لبیک کہا اور قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں اور حوزہ علمیہ نجف اور حوزہ علمیہ قم سے امام خمینی رضوان اللہ کی حمایت کے جرم میں نکال دیا گیا لیکن شہید امام کی راہ سے دست بردار نہ ہوئے اور اپنی زندگی کے آخری لمحات تک اس راہ کے راہی رہےاور اسی راہ میں انکی شہادت ہوئی کیونکہ یہ راہ خدا کی راہ ہے اور آئمہ ھدی کی راہ ہے۔

سیمینار کے آخری مقرر حجۃ الاسلام والمسلمین ڈاکٹرسید شفقت حسین شیرازی مرکزی سیکرٹری امور خارجہ نے شہید قائد کی شخصیت  پرتفصیلی گفتگو کی،سیمینار میں پاکستان کے علاوہ ایران، افغانستان، انڈیا ،بنگلا دیش کے مہمانوں نے شرکت کی

پروگرام کے آخر میں حجۃ الاسلام عقیل حسین خان سیکرٹری جنرل مجلس وحدت مسلمین شعبہ مشہد مقدس کے ساتھ سیمینار کے شرکاءنے اظہار یکجہتی کیا۔واضح رہے حجۃ الاسلام عقیل حسین خان ایک سال بے جرم وخطاقید و بند کی صعوبتیں جھیلنے کے بعد گزشتہ دنوں رہا ہوئے ہیں،اسی طرح خواہر زینب کبری آزاد کو شہید قائد کی زندگی پر فارسی زبان میں کتاب لکھنے پر حوصلہ افزائی انعام سے نوازا گیا۔

وحدت نیوز(جیکب آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان صوبہ سندہ کے صوبائی سیکریٹری جنرل علامہ مقصودعلی ڈومکی نے کہا ہے کہ نواز حکومت کی جانب سے زائرین کے لئے جان بوجھ کر مشکلات کھڑی کی گئی ہیں، کئی کئی روز تک مرد، خواتین ، بزرگ اور بچوں کو بارڈر پر روکا جاتا ہے، آخر کیوں؟ زائرین اپنے ہی ملک میں محصور اور قیدی بنائے جاتے ہیں۔ محکمہ حج و اوقاف کا شعبہ زائرین ، کیوں زائرین کے مسائل سے لا تعلق اور غیر فعال ہے۔ سکھ زائرین کے لئے سہولتوں کا اعلان کرنے والے آخر کربلامعلیٰ و مشہد مقدس کے زائرین کے لئے کیوں مشکلات میں اضافہ کر رہے ہیں۔ امریکہ اور آل سعود کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے ہم وطنوں کو دربدر کرنا کہاں کا انصاف ہے۔آخر کس قانون کے تحت ، بلوچستان بارڈر پر زائرین کو روک کر این او سی طلب کیا جاتا ہے؟

انہوں نے مطالبہ کیا کہ وفاقی وزیر داخلہ زائرین کے مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرے، نوازلیگ کی وفاقی اور صوبائی حکومت زائرین کے مسائل فی الفور حل کرے۔ ایف سی کو عوام کا خادم اور محافظ ہونا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ مجلس وحدت مسلمین قوم کی نمائندہ جماعت کی حیثیت سے قومی دکھ درد کو اپنا درد سمجھتی ہے اور ہم ہر سطح پر اس ظلم و زیادتی کے خلاف صدائے احتجاج بلند کریں گے۔ ہماری ماؤں ، بہنوں اور بیٹیوں کو کبھی سندہ بلوچستان  بارڈر پر تو کبھی ژوب کے راستے میں روک کر این او سی طلب کیا جاتا ہے جو کہ امتیازی سلوک ہے، ہم اس ملک میں دوسرے درجے کے شہری نہیں۔ امتیازی سلوک قبول نہیں کریں گے۔

وحدت نیوز(اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ڈپٹی سیکریٹری جنرل سید ناصرعباس شیرازی ایڈووکیٹ نے کوٹلی امام حسین ؑ ڈیرہ اسماعیل پر تعینات شیعہ پولیس اہلکاروں کے بہیمانہ قتل کی پرزورمذمت کرتے ہوئے خیبرپختونخوا حکومت کو شدیدتنقید کا نشانہ بنایا ہے ، مرکزی سیکریٹریٹ سے جاری مذمتی بیان میں انہوں نے کہا ہے کہ کوٹلی امام حسین ؑ جیسے حساس مقام پر بغیر کسی حفاظتی اقدام و انتظام کے پولیس اہلکاروں کی تعیناتی صوبائی حکومت کی نااہلی کی واضح دلیل ہے، تکفیری دہشت گردوں نے بزدلانہ حملے میں دو پولیس اہلکاروں ناصر حسین سکنہ سید علیاں اور یاسر عمار سکنہ کاٹھ گڑھ کو شہید کردیا جبکہ تیسرا ہلکارشدید زخمی ہے، خیبر پختونخوا میں شیعہ ٹارگٹ کلنگ کے حوالے سے عمران خان بھی اتنے ہی جواب دہ ہیں جتنے دو سرے صوبوں میں نواز شریف ہیں ۔

ناصرشیرازی نے کہا کہ ریاستی اداروں کی اندر کالی بھیڑیں موجود ہیں جن کے بارے میں مجلس وحدت مسلمین نے وزیر اعلیٰ سے لیکر اعلیٰ حکومتی اور عسکری شخصیات کو توجہ دلائی لیکن آج تک اس حوالے کوئی ٹھوس اقدام نہیں اٹھایا گیا، میں نے خود اور ہمارے وفود نے بارہا وزیر اعلیٰ کے پی کے پرویز خٹک سے ملاقات کے دوران ڈیرہ اسماعیل خان میں سکیورٹی کے ناقص انتظامات کی نشاندہی کی ، ایک جانب پہلی ہی کوٹلی امام حسین ؑ کی وقف اراضی پر محکمہ اوقاف ناجائز قابض ہے دوسری جانب سے وہاں تعینات پولیس اہلکاروں کو بغیر کسی چیک پوسٹ یابنکرکے دہشت گردوں کے رحم وکرم پر چھوڑ دینا انہیں تر نوالہ بنانے کے مترادف ہے۔

انہوں نے کوٹلی امام حسین ؑ میں پولیس اہلکاروں کے سفاکانہ قتل میں تکفیریدہشت گردوں کے ساتھ ساتھ خیبرپختونخواحکومت کو مجرم قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ڈیرہ اسماعیل خان ایک دہائی سے اہل تشیع کی مقتل گاہ بنا ہو ہےلیکن مجال ہے کہ وہاں کی حکومت کے کان پر جوں تک رینگی ہو، صوبائی حکومت کے کسی وزیر کو آج تک شہداء کے خانوادگان سے تعزیت کے دو لفظ بولنے کی توفیق حاصل نہیں ہوئی،شیعہ قتل عام میں ملوث کسی ایک مجرم کو آج تک سزا نہیں دی گئی،  پورے خیبر پختونخوا سے شیعہ ٹارگٹ کلنگ کا کوئی ایک بھی کیس ملٹری کورٹ منتقل نہیں کیا گیا۔

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree