وحدت نیوز(اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے زیر اہتمام شہید قائد علامہ عارف حسین الحسینی ؒ کی برسی کے موقع پر مہدی ؑ برحق کانفرنس کا انعقاد نیو پریڈ گراونڈ میں کیا گیا جس میں شیعہ سنی علماء ومشائخ بشمول جمیعت علمائے پاکستان (نیازی)کے چیئرمین پیر معصوم شاہ نقوی، ڈاکٹر امجد چشتی، سربراہ اتحاد امت مصطفیٰ پیر شفاعت رسول نوری، چیئرمین سنی اتحاد کونسل صاحبزادہ حامد رضا، مرکزی جنرل سیکریٹری پاکستان عوامی تحریک خرم نواز گنڈہ پورو دیگر نے خطاب کیا جبکہ جلسہ عام سے خصوصی خطاب ایم ڈبلیوایم کے سربراہ علامہ راجہ ناصرعباس جعفری نے کیا،عوامی اجتماع میں ہزاروں کی تعداد میں مرد ، خواتین، بزرگوں ، جوانوں اور بچوں نے شرکت کی ،  مہدی ؑ برحق کانفرنس کا آغا ز شام چار بجے ہونا تھا تاہم شرکا صبح سے ہی جلسہ گاہ میں پہنچناشروع ہو گئےتھے، جلسہ گاہ میں بیس ہزار کرسیاں لگائی گئیں،لنگر اور سبیل کا وافر انتظام موجود تھا،شدید گرمی کے باوجود خواتین ،بزرگوں اور بچوں کی بڑی تعداد شریک تھی، پنڈال پرجوش نعروں سے گونجتا رہا،جلسہ گاہ میں ہرجانب قومی وتنظیمی پرچموں کی بہار تھی۔

وحدت نیوز(اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے زیراہتمام شہید قائد علامہ عارف حسین الحسینی کی 29ویں برسی کے سلسلے میں مہدی ؑ برحق کانفرنس کا انعقاد پریڈ گراؤنڈ اسلام آباد میں ہوا جس میں ملک کے نامور علما، مذہبی و سیاسی رہنماؤں اور ہزاروں کی تعداد میں کارکنان، خواتین اور بچوں نے شرکت کی۔ کانفرنس سے مرکزی خطاب کرتے ہوئے مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے کہا کہ پاکستان کی 70ویں سالگرہ پر مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ حضرت امام مہدی علیہ السلام کے حوالے سے تمام مسالک کا متفقہ عقیدہ ہے کہ مہدی ؑ برحق انصاف قائم کرنے ضرور آئے گا۔ امام برحق کا انتظار ہر مسلمان کا عقیدہ ہے۔ شہید قائد عارف حسینی کا عقیدہ تھا کہ اللہ کی سرزمین پر اللہ کے نیک بندوں کی حکومت ہو۔ وہ استعماری طاقتوں اور ظالم حکمرانوں کی شناخت کرواتے رہے۔ آج کے اس اجتماع کا مقصد شہید کے افکار کو زندہ رکھنا ہے۔ شہید قائد کو ظالموں نے اس لیے ہم سے چھینا کہ وہ شہید قائد کو خرید نہیں سکتے تھے۔ شہید قائد کو ایک نظام کے تحت قتل کیا گیا۔ تکفیری قوتوں کو اس ملک میں مضبوط کیا گیا۔ پاکستان کی دوسری بڑی اکثریت شیعہ تھے۔

علامہ ناصر عباس کا کہنا تھا کہ ضیاءالحق نے شیعہ سنی دونوں کو کمزور کرنے کی کوشش کی، ملک کے اندر نفرتوں کے فروغ کے لیے تکفیریت کو رواج دیا گیا۔ ہمیں شناخت کر کے بسوں سے اتار کر قتل کیا گیا۔ پاکستان کے دشمن لوگوں کو ہم پر مسلط کیا گیا تاکہ محب وطن لوگوں کو کمزور کیا جائے۔ ہماری ملت کے نوجوانوں کو غائب کیا جا رہا ہے۔ ریاستی اداروں سے ہم یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ کیا یہ نوجوان ملک دشمن سرگرمیوں میں مصروف تھے یا انہوں نے پاکستان کے اداروں یا تنصیبات کو نقصان پہنچایا؟، اگر نہیں تو پھر کیوں انہیں گھروں سے اٹھایا جا رہا ہے۔ گلگت بلتستان میں ہمارے علما کو جیلوں میں ڈالا گیا، زمینوں پر قبضے کیے جارہے ہیں، پنجاب میں بھی ہم ریاستی اداروں کے انتقام کا شکار ہیں۔ عمران خان کے صوبے میں یوم القدس کے جلوس میں اسرائیل کے خلاف نعرے لگانے کے الزام میں مقدمات درج کیے گئے۔ عمران خان کو اپنے صوبے کی خبر لینی چاہیے۔ نواز شریف ایک بدعنوان اور نااہل شخص ہے اسے ہیرو نا بنایا جائے۔ مسلم لیگ نون کو نواز شریف کی بجائے ملک کا وفادار ہونا چاہیے۔ ہم ہر اس ادارے کے ساتھ کھڑے ہیں جو دہشت گردی کے خلاف اور عدل و انصاف کی پاسداری چاہتا ہے۔

علامہ ناصر عباس نے کہا کہ عزاداری ہماری عبادت ہے اس پر کسی قسم کی کوئی قدغن قبول نہیں کی جائے گی۔ اہلسنت ہمارے بھائی ہیں، جہاں ان کا پسینہ گرے گا وہاں ہم اپنا خون دیں گے۔ پاکستان میں ہم فعال سیاسی کردار ادا کریں گے اور دہشتگردوں کی حامی جماعتوں کی مخالفت کریں گے۔ ماڈل ٹاؤن کے شہیدوں کے ساتھ انصاف کیا جائے۔ فلسطین، یمن، کشمیر سمیت دنیا کے ہر حصے میں ظالموں کے مخالف اور مظلوموں کی حمایت کرتے ہیں۔ شہید قائد کے خون سے تجدید عہد کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان کے قومی مفادات کے استحکام کے لیے اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔

وحدت نیوز(آرٹیکل) پاکستان کے خلاف دشمن نظریاتی جنگ میں مصروف ہے، سادہ لوح لوگ آج کل بھی اس غلط فہمی میں مبتلانظرآتے ہیں کہ اگر کہیں پر آگ ،دھویں اور بارود کی گھن گرج سنائی دے تو وہاں جنگ لگی ہوئی ہے ورنہ امن ہی امن ہے۔ جبکہ چالاک دشمن آگ ،دھویں اور بارود کی کالک میں اپنا منہ کالا کرنے کے بجائےامن کے سندیسے بھیج کر،محبّت کے نغمے گاکر ،امن و آشتی کی فلمیں بناکراور ثقافتی سیمینارز منعقد کرواکےمورچے مسمار کرنے ، قلعے ڈھانے اور سادہ لوحوں کی عقلوں پر سوار ہونے میں مصروف ہے۔

 اگرہم امن اور سکون چاہتے ہیں تو ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ ہمارا مکار دشمن وہ نہیں جو جغرافیائی سرحدوں پر ہمیں گھورتاہے بلکہ ہمارا مکاردشمن وہ ہے جو ہماری نظریاتی سرحدوں کو دیمک کی طرح چاٹ رہاہے۔جو ہماری نئی نسل کو یہ کہہ رہا ہے کہ پاکستان ایک غیر اسلامی ملک ہے ، جو ہمارے نو نہالوں کو یہ سکھا رہا ہے کہ پاکستان کا آئین غیر اسلامی ہے جو ہمارے جوانوں کو یہ پڑھا رہا ہے کہ پاک فوج ناپاک فوج ہے۔

پاکستانیوں  کے درمیان ایک ایسا  پاکستان دشمن طبقہ موجود ہے جو پاکستانیوں  کوصرف اور صرف ایک مشین کے پرزےکی مانندسمجھتاہے۔یہ طبقہ پاکستانیوں  کو مختلف گروہوں اور فرقوں میں تقسیم کرکے ان کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھاتاہے۔جب پاکستانی  طاقت گروہوں،فرقوں اور اکائیوں میں تقسیم ہوجاتی ہے تو یہ لوگ  پاکستانی وسائل اورحکومتی اداروں پر قبضہ کرنے کے لئے فوج اور پولیس کے مراکز پر حملے کرنے شروع  ہوجاتے ہیں۔

یہ پاکستان  دشمنوں کی نظریاتی یلغارہی ہے جس کے باعث آج انفارمیشن ٹیکنالوجی اور علم و شعور کے دور میں بھی  بے گناہ انسان خود کش حملوں  میں مارے جا رہے ہیں۔ پاکستانی معاشرے میں کمزور اقبائل پر طاقتور قبائل  کا ظلم ، سیاسی پارٹیوں کی ناانصافی اور دھونس دھاندلی اس بات کا ثبوت ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ انسانی وسائل تو بڑھے ہیں لیکن مسائل کم نہیں ہوئے اور انسانی وسائل پر ماضی کی طرح آج بھی فرعونوں، ظالموں اور جابروں کا قبضہ ہے۔

ہم تاریخ پاکستان کا جتنا بھی مطالعہ کریں اور معاشرتی مسائل پر جتنی بھی تحقیق کریں، کتاب تاریخ میں جہاں جہاں انسان نظر آئے گا وہاں وہاں انسانی وسائل پر قابض فرعون ،شدّاد اور نمرود بھی نظر آئیں گے۔ہمیں سب سے پہلے یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ نظریہ کسے کہتے ہیں۔۔۔؟

اس کی وضاحت کے لئے ہم مندرجہ ذیل دونکات کوبیان کرنا ضروری سمجھتے ہیں:کسی بھی تحریک کی قوتِ متحرکہ کانام نظریہ ہے2۔ معاشرے کے اجتماعی شعور کانام نظریہ ہے،آپ معاشرے میں جیسا اجتماعی شعور پروان چڑھائیں گے ویسی ہی تحریک چلے گی۔ پس ہر تحریک کے پیچھے ایک اجتماعی شعور موجود ہوتاہے جسے نظریہ کہاجاتاہے۔

اسی طرح ہرنظریے کے پیچھے ایک خاص طبقہ سرگرمِ عمل ہوتاہے جو"دانشمند طبقہ"کہلاتاہے۔ یہ طبقہ ایک خاص قسم کے شعور کو پروان چڑھاتاہے۔جس معاشرے میں اجتماعی سطح پرمختلف قسم کے نظریات پروان چڑھ رہے ہوں وہاں پر مختلف نظریاتی طبقات جنم لیتے ہیں۔یہ نظریاتی طبقات رفتہ رفتہ عوام الناس کو اپنے اندر سمونا شروع کردیتے ہیں اور خود ایک نظریاتی طاقت کے طور پر ابھرنے لگتے ہیں۔

ابھرتے ہوئے مختلف نظریاتی طبقات کے درمیان اس وقت نظریاتی جنگ شروع ہوجاتی ہے جب ایک طبقہ کسی ایک چیز کو "دیومالائی" حیثیت دے دیتاہے اور دوسرا طبقہ اس کی سرے سے نفی کرنے لگتاہے۔ بالکل ایسے ہی جیسے ہمارے نزدیک پاکستان ایک مقدس سر زمین ہے لیکن ہمارے مخلافین سرے سے پاکستان کو تسلیم ہی نہیں کرتے۔

جب ایک معاشرے میں یہ صورتحال سامنے آجاتی ہے تو "اجتماعِ نقیضین"[1]محال ہونے کے باعث ایک نظریاتی طبقہ دوسرے نظریاتی طبقے کو ختم کرنے پر تُل جاتاہے۔ بالکل ایسے ہی جیسے آج کل پاکستان کے دشمن ہمیں ختم کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔

اس نظریاتی جنگ میں جیت کے لئے افرادی قوّت درکار ہوتی ہے،جسے حاصل کرنے کے لئے دانشمند "تولید نظریات"یا" افزائش نظریات"کاکام شروع کرتاہے۔ تولید یا افزائش نظریات کے کام کے لئے اسے نظریاتی کارخانوں کی ضرورت پڑتی ہے۔
ان نظریاتی کارخانوں کی مختلف صورتیں ہیں جن میں سے چند ایک مندرجہ زیل ہیں۔

شعروسخن، تحریروتقریر، فلم و ڈرامہ، آھنگ و موسیقی، اخبارو میگزین، ریڈیو اور ٹی وی، مدارس و سکول، میڈیا ومحافل۔۔۔
ان نظریاتی کارخانوں کے ذریعےدانشمند مختلف شہکار تخلیق کرتے ہیں جن کے باعث عوام النّاس مختلف نظریات سے آشناہوتے ہیں اور انہیں اپناتے ہیں۔

ایک اچھا شہکار تخلیق کرنے کے لئے ضروری ہے کہ دانشور اپنے ذوق اور استعداد کے مطابق اپنے لئےایک نظریاتی کارخانے کا انتخاب کرے اور پھر اسی نظریاتی کارخانے کے ذریعے اپنی نظریاتی مصنوعات کو معاشرتی سطح کے مطابق منظرِ عام پر لائے۔

ظاہر ہے کہ نظریاتی مصنوعات جتنی معیاری اور نفیس ہونگی لوگ اتنے ہی زیادہ ان کی طرف مائل ہونگے اور جس نظریاتی مکتب کی طرف لوگ جتنے زیادہ مائل ہونگے ، وہ مکتب بھی اتنے ہی جلدی غلبہ حاصل کرے گا اور اگر وہ مکتب مفید اور سودمند ہوا تو اس کے غلبے سے عوام النّاس کو بڑے پیمانے پر فائدہ بھی پہنچے گا۔

معیاری اور نفیس نیز ہردلعزیز نظریاتی مصنوعات تیار کرنے کے لئے ایک دانشمند کو کبھی بھی "سماجی سائنس" کے اصولوں کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ سماجی سائنس کا بنیادی اصول یہ ہے کہ ایک دانشمند جس علم پر عبور حاصل کرے اسی میں فنّی مہارت بھی حاصل کرے اور اسی میں "افزائشِ نظریات " کاکام بھی انجام دے۔

مثلاً اگر ایک شخص علمِ جغرافیہ میں عبور حاصل کرتاہے پھر فنِ خطابت بھی سیکھتاہے اورپھر بزمِ مشاعرہ میں جاکر داد لیناچاہتاہے تو وہ نہ صرف یہ کہ بزمِ مشاعرہ کے اصولوں کی خلاف ورزی کرےگا بلکہ اس نے جو علم حاصل کیاہے وہ بھی اس کے کچھ کام نہیں آئے گا اور اس کا فن بھی اس بزم میں کوئی رنگ نہیں لائے گا۔

پس دانشمند یانظریاتی رہبرکے لئے ضروری ہے کہ وہ معاشرتی ذہن سازی کے لئے حسبِ ضرورت "علم " حاصل کرے اور اس علم کے مطابق فن حاصل کرے اور پھر اسی علم و فن سے لیس ہوکر معاشرے میں اپنی مصنوعات پیش کرے۔

معاشرے میں "نظریاتی مصنوعات" پیش کرتے ہوئے دانشمند کو اس بات کا لحظہ بہ لحظہ خیال رکھناچاہیے کہ اس کی بنیاد اس کاعلم اور ہنر ہے اور یہ دونوں یعنی علم اور ہنر کسی ایک ملک ، قوم ، مذہب یا دین کی ملکیّت نہیں ہیں۔ اسی طرح دانشمند بھی کسی ایک ملک ،قوم ،مذہب یا دین سے وابستہ تو ہوتاہے لیکن ان میں سے کسی کی ملکیّت نہیں ہوتا۔ لہذا اسے تمام تر تعصّبات سے بالاتر ہوکر اپنے نظریاتی شہکاروں کے ذریعے پورے عالم بشریت کی خدمت کرنی چاہیے ۔

اسے ایسا کرنے کے لئے ان تما م رجحانات ، نظریات اور افکار کی مخالفت مول لینی پڑے گی جو عالمِ بشریت کو مختلف اکائیوں ، فرقوں اور ٹکڑوں میں تقسیم کرکے اپنے اپنے مذموم مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہیں۔

کسی بھی ملت کے نظریاتی عناصر اس کے نظریاتی جغرافیئے کا تعین کرتے ہیں۔ نظریاتی عناصر سے ہماری مراد کسی بھی قوم کے بنیادی عقائد ہیں۔ مثلاً اگرایک قوم کا یہ نظریہ ہو کہ ملت مذہب سے تشکیل پاتی ہے تواس قوم کےنظریاتی عناصر اس کے مذہبی عقائد ہونگے۔

یعنی اگر ہم یہ کہیں کہ پاکستانی ایک ملت ہیں تو ملت ِ  پاکستان  کے مذہبی عناصر توحید و رسالت و غیرہ ہونگے۔اب جب یہ ملت اپنے نظریاتی جغرافیے کا تعیّن کرلے گی تو لازمی طور پر اسے ایک زمینی جغرافیے کی ضرورت پڑھے گی۔ جب تک اس کا نظریاتی جغرافیہ محفوظ رہے گا یہ قوم ڈوب ڈوب کر ابھرتی رہے گی لیکن اگر اس کا نظریاتی جغرافیہ کھوگیا تو اس کا زمینی جغرافیہ بھی اپناوجود کھو دے گا۔

چنانچہ سمجھدار قومیں اپنی توانائیاں زمینی جغرافیئے تبدیل کرنے کے بجائے فکریں تبدیل کرنے پر صرف کرتی ہیں۔ چونکہ جہاں پر فکریں تبدیل ہوجائیں وہاں پر منٹوں میں جغرافیے خود بخود تبدیل ہوجاتے ہیں۔ہمیں پاکستانیوں کو نظریاتی طور پر پاکستانی بنانے کی ضرورت ہے۔

نظریات  میں تبدیلی لاکر جس طرح یمن کےمقداد، ایران کے سلمان، مدینے کے ایوب انصاری ، مکّے کے مہاجرین اور مدینے کے انصار کو آپس میں شیر وشکر کیا جاسکتاہے ، سب کو بھائی بھائی بنایاجاسکتاہے اسی طرح فکروں کو تبدیل کر کےخلافتِ عثمانیہ کا شیرازہ بکھیراجاسکتاہے، عظیم ہندوستان کو ناکوں چنے چبائے جاسکتے ہیں اور ایک پاکستان کے شکم سے بنگلہ دیش جنم لے  سکتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ دینِ اسلامی نے بھی نظریاتی جغرافیئے کو بہت اہمیّت دی ہے اور لوگوں پر زبردستی اپنے نظریات مسلط کرنے، ان کی جہالت سے فائدہ اٹھانے اور ان پر جبراً اپنی رائے ٹھونسنے کے بجائے انہیں تعقّل،تفکّر اور تدبّر کی طرف بلایاہے۔

 دینِ اسلام نے اپنے ماننے والوں کو قطعاً اس امر کی اجازت نہیں دی کہ وہ مالِ غنیمت اور کشور کشائی کے لئے پرامن اور صلح پسند اقوام پر شب خون ماریں۔ ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ اسلام محض ایک نظریہ نہیں ہے بلکہ مجموعہ ءِ نظریات ہے۔ اسلام انسان کے ہر شعبہ زندگی کے حوالے سے ایک جامع نظریہ رکھتاہے

۔مثلا اسلام کے پاس اقتصادی،سیاسی، علمی،اخلاقی، دشمن شناسی، دوست پروری الغرض ہر لحاظ سے ایک مکمل نظریہ موجود ہے۔آج امت مسلمہ کو اور خصوصا پاکستان کو  ضرورت ہے کہ اس کے دانشمند ،اسلامی نظریات کی علمبرداری اور رہبری کریں۔ اسلامی نظریات کو پاکستان میں  میں صحیح رہبریت اور مدیریت کی ضرورت ہے۔

بالکل ایسے ہی جیسے ظہور اسلام سے پہلے عربوں میں اور پوری دنیامیں پرستش کا نظریہ موجود تھا لیکن اس نظریے کو صحیح رہبری اور مدیریت کی ضرورت تھی۔ حضورِ اکرم  نے اس نظریے کی رہبری کی۔ اسی طرح سید جمال الدین افغانی سے پہلے بھی مسلمانوں میں "اسلامی تہذیب و تمدن" کانظریہ موجود تھا لیکن اس نظریے کی رہبری سید جمال الدین افغانی نے کی ،ا سی طرح مغربی تہذیب سے بیزاری کانظریہ پہلے سے موجود تھا لیکن علامہ اقبال نے اس نظریے کی رہبریت اور علمبرداری کی۔

موجودہ دور میں پوی دنیا، خصوصا پاکستان ، غیر  اسلامی نظریات کی زد پر ہے اورعالمِ بشریّت ظلم و ناانصافی اور جبر وتشدد کی چکی میں پس رہا ہے۔ایسے میں ضروری ہے کہ افرادِ معاشرہ پرتحقیق و تعلیم کے دروازے کھولے جائیں ،نیز ایسے دانشمندوں کی پرورش اور تربیّت کی جائے جوتمام تر تعصبات سے بالاتر ہوکر اسلامی تعلیمات و نظریات کی رہبری اور مدیریت کریں نیزاسلامی معارف کو پورے عالم بشریت کے سامنے بطریقِ احسن پیش کریں چونکہ مسلم دانشمندوں اور مفکرین کی نظریاتی کاوشوں کو منطرِ عام پر لائے بغیر شیطانی اور پاکستان کے دشمنوں کی نظریاتی یلغار کامقابلہ ممکن ہی نہیں۔

پاکستان کو حالیہ پاکستان دشمن نظریات کی یلغار سے نجات دلانے کے لئے ضروری ہے کہ مختلف سیمینارز، پروگراموں اور نمائشوں کے ذریعےمسلم مفکرین اور دانشمندوں کی سائنسی و علمی اور قلمی خدمات کو سراہاجائے،ان کی حوصلہ افزائی کی جائے اور ان کے سائنسی ، علمی و نظریاتی کارناموں کوپاکستانیوں تک پہنچایاجائے۔

اس وقت پاکستان کے سرحدی دفاع کے ساتھ ساتھ پاکستان کا نظریاتی دفاع بہت ضروری ہے۔


تحریر۔۔نذر حافی

وحدت نیوز(کراچی) مجلس وحدت مسلمین صوبہ سندھ کے سیکریٹری امور تنظیم سازی آغا منور جعفری نے کہا ہے کہ ایم ڈبلیوایم صوبہ سندھ شعبہ تنظیم سازی کی جانب سے سندھ بھر میں توسیع تنظیم مہم زوروشور سے جاری ہے، وحدت نیوزسے گفتگو کرتے ہوئے ان کاکہنا تھا کہ دادو، ٹنڈو الہیار،خیرپور،سانگھڑ،جیکب آباد، لاڑکانہ اور ٹھٹھہ سمیت دیگرسندھ کے متعدد  اضلاع میں ایم ڈبلیوایم کے نئے یونٹس کی تشکیل کا عمل تیزی سے جاری ہے، یونٹس کی تنظیم سازی کے بعد تنظیم نو کے عمل سے رہ جانے والے اضلاع کی بھی تنظیم نو کا مرحلہ بھی جلد  مکمل کرلیا جائے گا، انہوں نے کہا کہ یونٹ کسی بھی جماعت کی ریڑھ کی ہڈی ہوتے ہیں اور اسی لیئے ہم نے یونٹ سطح پر مضبوط تنظیمی ڈھانچے تشکیل دینے پر اپنی توجہ مرکوز کررکھی ہے، انشاءاللہ جلد سندھ بھر میں ایم ڈبلیوایم ایک مضبوط جماعت بن کر ابھرے گی ۔

وحدت نیوز(کوئٹہ) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے رکن شوری عالی و ممبر بلوچستان  اسمبلی سید محمد رضا رضوی( آغا رضا )کے ترقیاتی فنڈ سے محلہ بیت الاحزان میں تعمیر شدہ شہید فدا حسین ( شہید کارگل ) کمیونٹی ہال کا باقائدہ افتتاح کردیا گیا،  ایم پی اے آغا رضا نے کمیونٹی ہال کا افتتاح شہید فدا حسین کے پدر بزرگوار کے دست مبارک سے کروایا،  اس پُر وقارافتتاحی  تقریب میں علمائے کرام ،علاقہ  مکینوں اور ایم ڈبلیوایم کے کارکنان اورعہدیداران کی کثیر تعداد نے شرکت کی اور آغا رضا کے کاوشوں کو سراہا اور امید ظاہر کی کہ مستقبل میں بھی آغا رضا اسی طرح قوم و ملت کے لیے کام کرتے رہیں گے، تقریب سے خطاب کرتے ہوئے آغا رضا نے کہا کہ حلقے کی عوام کی خدمات میرا اور میری جماعت کا اولین شعار ہے، مجھے فخرہے کہ میں نے اپنے حلقہ انتخاب میں بلوچستان کی تاریخ کی ریکارڈ ترقیاتی کاموں کا آغاز کیا اور ان میں سے بیشتر تکمیل کے آخری مراحل میں ہیں اورجلد عوام ان منصوبوں سے استفادہ کریں گے۔

وحدت نیوز(اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ شہد ا کی تکریم و تعظیم کو درس اللہ تعالی اور انبیا کرام کا سکھایا ہوا ہے۔جو قوم شہیدوں کو فراموش کر بیٹھتی ہے اس ہمیشہ ناکامی دیکھنا پڑتی ہے۔علامہ عارف حسینی شہید قوم کے باوفا اور جرات مند بیٹے تھے۔انہوں نے ملک میں بسنے والے مختلف طبقوں کو ایک دوسرے کے قریب کیا۔1973 کے آئین کے نفاذ کے لیے شہید کی خدمات کو ہر سطح پر سراہا گیا۔وہ بیرونی قوتیں جو وطن عزیز کو تفرقہ اور نفرت کی آگ میں جھونکنا چاہتی تھی انہوں نے وطن عزیز میں موجود اپنے آلہ کاروں کے ذریعے قائد عارف حسینی کو شہید کرایا۔6اگست شہید قائدکی 29ویں برسی کی تقریب شایان شان اندازمیں منائی جائے گی،شہید قائد علامہ عارف حسینیؒ کی برسی کے موقع پر پریڈ گراونڈ اسلام آ باد میں  ملت جعفریہ کی بھرپور سیاسی قوت کا مظاہرہ ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ نون لیگ ایک موروثی جماعت ہے جو صرف اقربا پروری پر یقین رکھتی ہے۔اس کی جمہوری روایات سے کوئی تعلق نہیں۔پوری قوم سپریم کورٹ کے فیصلے کی مکمل طور پر حمایت کرتی ہے۔ایک ایسا شخص جو کرپشن ثابت ہونے پر نا اہل ہو گیا ہواسے ہیرو ثابت کرنے کی احمقانہ کوشش سے باز رہا جائے۔ سرکاری ٹی وی سمیت دیگر ادارے کسی بھی نا اہل شخص کو پروٹوکول دے کر عدالت عظمی کے فیصلے کی توہین کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ہمارے وزراریاست کی وفاداری کی بجائے مخصوص خاندان کی غلامی کر رہے ہیں۔پاکستان میں داعش کے خطرات موجود ہیں ۔اس عالمی دہشت گرد تنظیم کی طرف سے دی جانے والی دھمکیوں کو ہلکا نہ لیا جائے۔انہوں نے کہا کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کی رپورٹ کو بھی منظر عام پر لایاجائے۔بے گناہ انسانی جانوں کا قتل ناقابل معافی جرم ہے۔ذمہ داران کے خلاف فوری کاروائی ہونی چاہیے

۔انہوں نے کہا کشمیر اور گلگت کی عوام نے تحریک پاکستان میں غیر معمولی قربانیاں دی ہیں۔وہاں کی عوام پاکستان کے ساتھ الحاق چاہتی ہے۔نواز شریف کی نا اہلی سے ان کا کوئی واسطہ نہیں۔سی پیک کی تکمیل پاکستان کے استحکام اور ترقی کا رخ اس خطے کی طرف موڑنے میں معاون ثابت ہو گی۔یہ منصوبہ دو ممالک کے درمیان معاہدہ ہے شخصیات کا درمیان نہیں۔نواز شریف کی سبکدوشی سی پیک پرقطعاََ اثر انداز نہیں ہو سکتی۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ عائشہ گلالئی کا ایشو بظاہر پلانٹڈ اور حکومت کی جوابی کاروائی نظر آتا ہے۔

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree