وحدت نیوز(مظفرآباد) دنیا بھر کے مسلمان حضرت امام خمینی ؒ کے فرمان کے مطابق قبلہ اول بیت المقدس کی بازیابی اور مظلوم فلسطینیوں سے اظہاریکجہتی کیلئے ’’عالمی یوم القدس‘‘ مناتے ہیں۔بیت المقدس وہ مقام ہے کہ جہاں ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیائے کرام کے قدم مبارک تشریف لائے ہیں لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ آج یہی مقام یعنی قبلہ اول بیت المقدس مسلسل صیہونی شکنجہ میں جکڑا ہوا ہے، فلسطین پر امریکی و برطانوی سامراج کی سرپرستی میں سنہ1948ء میں ناجائز اور جعلی ریاست اسرائیل کا قیام عمل میں لایا گیا سنہ1967ء میں قبلہ او کو صیہونیوں نے اپنے شکنجہ میں لیا اور یہاں تک کہ سنہ1969ء میں اسی بیت المقدس کو صیہونیوں نے نذرآتش کرنے کی گھناؤنی کوشش کی جس کے نتیجہ میں بیت المقدس کو شدید نقصان پہنچا۔ان خیالات کا اظہار مجلس وحدت مسلمین کے رہنماوں طالب حسین ہمدانی،مولانا زاہد حسین کاظمی،حمید نقوی،عابد قریشی،عاطف ہمدانی،عمران سبزواری سمیت دیگر رہنماوں نے وحدت ہائوس مظفرآباد سے جاری بیان میں کیا۔


ان کا کہنا تھا کہ صیہونیوں کے مظالم کی تاریخ ستر سال سے بھی زائد کی ہے آج پوری دنیامیں مسلمان اس دن یعنی جمعۃ الوداع کو یوم القدس مناتے ہیں اور مظلوم فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے قبلہ اول کی آزادی کی جد وجہد میں شامل ہوتے ہیں۔قبلہ اول بیت المقدس کی بازیابی اورغاصب و جعلی ریاست اسرائیل کے جرائم کے خلاف اس سال جمعۃ الوداع یوم القدس ستائیس رمضان کو منایا جائے گا اور ریاست بھر میں القدس ریلیوں کا انعقاد کیا جائے گا، جبکہ مرکزی القدس ریلیمظفرآباد میں مرکزی امام بارگاہ سے عزیز چوک تک نکالی جائے گی۔ہم ریاست کی سیاسی ومذہبی جماعتوں کے قائدین سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ مسئلہ فلسطین اور قبلہ اول بیت المقدس پر صیہونی غاصبانی تسلط کے خلاف موقف پیش کریں اور فلسطین کاز کی حمایت کا اعلان کریں، ہم حکومت پاکستان سے پر زور مطالبہ کرتے ہیں کہ یوم القدس کی تقریبات کو سرکاری سطح پر منعقد کیا جائے اورریاستبھر میں جمعۃ الوداع یوم القدس کو سرکاری سطح پر منانے کا اعلان کیا جائے، موجودہ دور میں امریکی سرپرستی میں عرب دنیا کے حکمران فلسطین کاز کا سودا کرنے میں سرگرم عمل ہیں جس کی واضح مثال مکہ مکرمہ کی مقدس سرزمین پر دنیا کے سب سے بڑے شیطان امریکا کی دعوت اور پھر فلسطینیوں کی آزادی کی تحریکوں کو دہشت گرد قرار دینا واضح طور پر اشارہ ہے کہ عرب حکمرانوں نے امریکی ایماء پر فلسطین کا زکو فراموش کرنے کی گھناؤنی سازش تیار کر لی ہے، تاہم ایسے حالات میں حکومت پاکستان کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح ؒ اور علامہ اقبال ؒ کے افکار و نظریات کے مطابق مسئلہ فلسطین پر اپنا موقف پیش کرے اور فلسطین کاز کی بھرپور حمایت کا کھل کر اعلان کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ ہم پاکستان بھر کے عوام، سیاسی ومذہبی جماعتوں کے قائدین اور کارکنوں سے ابھی اپیل کرتے ہیں کہ وہ یوم القدس کے اجتماعات میں اپنی شرکت کو یقینی بنائیں، ریاست بھر کے تمام آئمہ جمعہ سے اپیل کی جاتی ہے کہ جمعۃ الوداع کو نماز جمعہ کے اجتماعات میں قبلہ اول پر صیہونی غاصبانہ تسلط کے خلاف آواز بلند کریں اور بیت المقدس کی بازیابی اور فلسطینیوں کی آزادی کی تحریکوں کی کھل کر حمایت کا اعلان کریں۔ہم صحافی برادری اور کالم نگاروں سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ اپنے زور قلم سے مسئلہ فلسطین کو اجاگر کرنے میں اپنا کردار ادا کریں اور پاکستان کے عوام تک حقائق پہنچائیں کہ کس طرح آج عالمی سامراجی قوتیں مسئلہ فلسطین کو فراموش کرنے کے لئے مسلم امہ کے درمیان تفریق اور نفرت کو ایجاد کر رہی ہیں جس کی ایک واضح مثال عرب ممالک کے قطر کے خلاف کئے گئے اقدامات ہیں، امریکی ایماء پر عرب ممالک نے قطر کا اس لئے بائیکاٹ کیا ہے کہ قطر نے فلسطین کاز کے لئے سرگرم عمل آزادی کی مزاحمتی تحریک حماس کی حمایت کی ہے جبکہ امریکا اور اس کے دیگر عرsب دوست ممالک فلسطینیوں کی مزاحمتی اسلامی تحریکوں بشمول حماس، حزب اللہ، جہاد اسلامی کو دہشت گرد قرا ر دے کر مسئلہ فلسطین سے پوری دنیا کی توجہ ہٹا نا چاہتے ہیں، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ حماس سمیت حزب اللہ اور جہاد اسلامی روز اول سے ہی غاصب صیہونی جعلی ریاست اسرائیل کے خلاف نبردآزما ہیں اور مظلوم اور نہتے فلسطینیوں اور قبلہ اول کا دفاع کر رہے ہیں۔

وحدت نیوز(لاہور) مظلوم فلسطینیوں اور کشمیریوں کے لئے آخر سانس تک صدائے احتجاج بلند کرتے رہیں گے،یہ ہمارا مذہبی فریضہ اور عین عبادت ہے،،یوم القدس ،،کو متنازعہ بنانے والے صہیونی و امریکی آلہ کار ہے جو ان کے ٹکروں پر پلتے ہیں،کشمیر اورفلسطین میں فرزندان توحید عالم کفر کے مقابلے میں سینہ سپر ہیں،مظلومین جہاں سے منسوب اس دن کو متنازعہ بنانا اسرائیل، امریکہاور بھارت کی خوشنودی حاصل کرنا ہے،جو مسلمانوں کو نسل کشی میں مصروف ہیں،ان خیالات کا اظہار مجلس وحدت مسلمین پنجاب کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ ملازم حسین نقوی نے مریدکے میں تحریک آزادی القدس کے زیر اہتمام افطار ڈنر سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

 انہوں نے کہا کہ ملت جعفریہ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس قوم نے ہر ظالم کیخلاف اور ہر مظلوم کے حمایت میں بلا رنگ و نسل ومذہب سینہ سپر رہے،ہم قبلہ اول کو فراموش کرنے والوں کو مسلم امہ کا دشمن تصور کرتے ہیں،پنجاب بھر میں انشااللہ ایک ہزار سے زائد یوم القدس پر جلوس برآمد ہونگے،انتظامیہ ان مظلومین جہاں کی حمایت میں نکلنے والے جلوسوں کو تحفظ فراہم کریں اور ان جلوسوں کے راستے میں خلل نہ ڈالے،ہم اس دن کو دینی فریضہ سمجھ کر مناتے ہیں،اور یہ ہماری ماہ صیام میں عبادت کا حصہ ہے،انہوں نے کہا غاصب صہیونی و مغربی طاقتیں دنیا میں پے درپے شکست سے دوچار ہورہے ہیں،انشااللہ وہ دن دور نہیں کہ جلد ہی مسلم امہ ظالموں کے قبضے سے قبلہ اول کو آزاد کرائیں گے اور انشااللہ اسرائیل انڈیا اور امریکہ کی نابودی کا منظر جلد ہم اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے۔

وحدت نیوز(آرٹیکل) 399سال قبل از مسیح عدالت لگ چکی تھی سقراط اپنے ہی شہر ایتھنز کے منصفوں کی عدالت میں پیش تھا ا لزام تھا کی وہ ریاست کے خدائوں کو تسلیم نہیں کرتا نو جوانوں کے ذہن خراب کر تا ہے اور اپنے عقائد و فکر پھیلانے کی کوشش کر تا ہے کمال مقدمہ تھا نہ چوری کا نہ کرپشن کا نہ منی لانڈرنگ کا مقدمہ تھا یہ تو صرف عقائد و نظریا ت پھیلانے کا مقدمہ تھا ،سقراط بہت بڑا فلاسفر تھا جس نے کہا تھا کہ "سورج ساکن ہے اور زمین اس کے گرد گھومتی ہے"یہ بات عیسائی مذہب کی میتھالوجی کے خلاف گئی تو معاملہ عدالت میں چلا گیا جب بات نظریات و عقائد پر آئی تو سقراط اپنی سوچ پر ڈٹ گیا اور اسے زہر پلا دینے کی سزا سنا دی  گئی جس بنا پر اس کی موت واقع ہوئی ۔وقت بہت بے رحم ہے سچائی اور حقیقت کو سامنے لے ہی آتا ہے ،وقت نے سقراط کے زہر پینے کے صدیوں بعد حقیقت سائنسی بنیادوں پر ظاہر کی اور واقعی سورج ساکن اورزمین اس کے گرد گھومتی ہے اسکے علاوہ سقراط جو بھی کہتا تھا سچ ہے اس بات پر یونان کے پادریوں اور چرچ نے سقراط سے معافی مانگی اور اس کو اپنا ہیرو قرار دیا وقت نے سقراط کو زندہ کیا اور اس کی سوچ کو امر کر دیاآج زہر پینے کے باوجو د سقراط پوری دنیا میں زندہ ہے سچائی اور حقیقت ہمیشہ زندہ رہتی ہے چاہے معاشرہ اس کے خلاف ہی کیوںنہ ہواس کو دبانا بھی چاہے تو یہ دب نہیں سکتی کبھی نہ کبھی کسی نہ کسی صورت میں یہ سامنے ضرور آتی ہے، سچ چھپانے سے نہیں چھپتا اور حقیقت ہمیشہ برقرار رہتی ہے اور معاشرے میں صرف وہی لوگ زندہ رہتے ہیں جو سچ اور حقیقت پر پورا اترتے ہیں نا کہ جو دھوکے اور فساد کا سبب بنتے ہیں خود دیکھ لیجیے آج دنیامیں کتنے چور ،کرپٹ ،ڈکیٹ اور لٹیرے موجود ہیں جن کی تعداد تو کم ہے لیکن ان کے متعلق نظریا ت بہت گندے ہیں کہ سننے سے کانوں میں چپ اتر آتی ہے، جبکہ اُن لوگوں کی گنتی زیادہ ہے جنہوں نے اچھے اسلوب ،نیک سوچ اور سچے جزبوںسے معاشرے میں اپنا کردار ادا کیا ہے، سقراط ایک ذہین فلاسفر تھا جس نے اپنی ذہنی شعور سے تاریکیوں میں روشنیوں کی بات کی تھی مگر معاشرے نے اسے تسلیم نہ کیا جس کے سبب صدیوں تک معاشرہ اندھیرے میں رہا لیکن وقت آنے پر ثابت ہوا سقراط سچا تھا۔

آج سے پھر ایک عدالت برپا ہے، جس میں عدالت کا منشی با آواز بلند بادشاہ سلامت نواز شریف صاحب حاضر ہوںکی صدا بلند کئے ہوئے ہے اور نواز شریف صاحب ٹال مٹول سے کام لیتے ہوئے پسینے پونچھ رہے ہیں،افسوس کہ آج انکے الفاظ انکی حسیات کا ساتھ نہیں دے رہے انکی آواز اکھڑ ی اکھڑ ی ہے سقراط اور نواز شریف کی شخصیا ت میں زمین آ سمان کا فرق ہے وہ ایک فلاسفر اور یہ ایک سیاستدان ہے ،اُس پر غلط نظریا ت پھیلانے کا الزام اور اس پر کر پشن جیسا بھیانک الزام وہ ایک عام شہری اور یہ ملک کا ایک کر پٹ حکمران وہ زہر پینے کے باوجود زندہ اور یہ زندہ ہونے کے باوجود ہسپتالوں کے چکر لگا رہا ہے، میرے خیال سے زندگی کا کوئی مقصد ہے تو وہ عزت و نیک نامی ہے کہ میرے مرنے کے بعد بھی صدیوں تک نہ سہی چلو کچھ عرصہ ہی لوگ اچھے لفظوں سے یاد تو کریں گے نہ کہ بستر مرگ پر آہو پکار سننے کو ملے یا پھر زندگی کے آخری وقت عدالتوں کے چکروں میں اور عدالت کو چکر دینے میں گزر جائے، جمہوریت و عوامی سیاست اور شریف خاندان کی نیک نامی اسی میں ہے کہ وہ رضا کارانہ طور پر اپنے اثاثے ملک میں واپس لے آئے عدالت کو حقیقت سے روشناس کرائیںاور عوام سے معافی مانگ لیں تاریخ ان کو ہمیشہ یاد رکھے گی نہ کہ علی بابا اور چالیس چور کے مترادف کہانیاںبنتی جائیںگی عدالتیں لگتی رہیں گیں اور بدنامی ،ذلت اور رسوائی کا سامنا رہے گا محترم وزیر اعظم صاحب کو یہ زہر کا پیالہ پینا ہی پڑے گا اسی میں ان کی بقا ہے اس کو پینے سے ہی آپ تاریخ میں امر ہوں گے اور لوگ آپ کو ہمیشہ یاد رکھیں گے نہیں تو یہ عدالتیں قطر تو کیا قبرکی دیوار تک آپ کے ساتھ جائیں گی شاید کہ قبر کا بھی ٹرائل ہو۔ خدا نہ کرے۔


کالم نگار۔۔عابد حسین مغل

وحدت نیوز(گلگت) خیر العمل ویلفیئر اینڈ ڈویلپمنٹ ٹرسٹ کی گرانبہا خدمات کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔اسلامی اصولوں پر مبنی فلاحی معاشرے کا قیام ہماری اولین ترجیح ہے۔بد قسمتی سے ہماری حکومتیں بے آسراخاندانوں کی کفالت کے بجائے کرپشن اور اقربا پروری کو پروان چڑھارہی ہے۔خیر العمل ویلفیئر اینڈ ڈویلپمنٹ ٹرسٹ کی جانب سے عشرہ ایتام کے حوالے سے وحدت ہائوس گلگت میں منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مجلس وحدت کے رہنما و رکن قانون ساز اسمبلی حاجی رضوان علی نے ادارے کی کارکردگی کو سراہتے ہوئے اسے مزید توسیع دینے کی سفارش کی ۔

انہوں نے کہا کہ ماہ رمضان المبارک ہمیں ایثار و قربانی کا درس دیتا ہے اور اس مہینے سے استفادہ کرتے ہوئے دکھی انسانیت کی خدمت اور بے سہارا افراد کو اپنی خوشیوں میںشامل کرکے خدا کی خوشنودی حاصل کا بہترین ذریعہ ہے۔تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مجلس وحدت کے رہنما بختاور خان نے یتیم خاندانوں کی کفالت کو قرب خداوندی کا بہترین وسیلہ قرار دیااور مخیر حضرات سے اپیل کی کہ وہ اس کارخیر میں زیادہ سے زیادہ حصہ ڈال کر معاشرے سے غربت و افلاس اور درماندگی کے خاتمے میں اپنا کردار ادا کریں۔

 مجلس وحدت مسلمین گلگت بلتستان کے سیکرٹری سیاسیات غلام عباس نے اپنے پیغام میں کہا کہ ہمارے پیش نظر صرف سیاست ہی نہیں بلکہ ہم معاشرے کی ہرسطح پر تربیت کے ذریعے اسے درست سمت دینا چاہتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اس وقت معاشرے کی اصلاح نہ ہونے کی وجہ سے ملک پر کرپٹ حکمرانوں کا اقتدار قائم ہے جو اپنی دولت کے بل بوتے پر غریبوں کے ضمیر کے سودے کرتے ہیں۔انشاء اللہ وہ دن ضرور آئے گا کہ لوگ دولت کے انبار سے منہ موڑ کر سچائی اور حقیقت کے متلاشی بن جائینگے۔

وحدت نیوز(جہلم) ماہ رمضان کی با برکت ساعتوں اور فضیلتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے مجلس وحدت مسلمین ضلع  جھلم کی تمام خواھران کی کوششوں اور مقامی خواتین کے تعاون سے دینہ میں ماہ مبارک رمضان کے پورا مہینہ ایک ورکشاپ کا انعقاد کیا گیا ۔اس ورکشاپ میں ماہ مبارک کے عشروں کی مطابقت سے موضوعات کو تقسیم کیا گیاتھا! جس میں پچوں اور بڑوں دونوں کے لیے بہترین دروس کا احتمام کیا گیا. سیکرٹری تعلیم خواھر کرن نقوی، سیکرٹری روابط خواہر حاجرہ سید اور سیکرٹری یوتھ خواہر طوبٰی  نقوی نے بہترین انداز میں خدمات انجام دیں۔

 عشرہ اول کا موضوع بہار قرآن جس میں قرآن اور قرآن سے دوری کو وضاحت کرتے ہوئے سیکرٹری تربیت خواھر سمانہ سید نے بطور احسن مستند کتب و احادیث کے ذریعے وضاحت دی جب کہ دوسرے عشرے کو جمال منتظرکا نام دیا گیا تھا جس میں معرفت امام زمن عج، آئمہ شناسی اور دشمن شناسی و حالات حاضرہ جیسے اہم موضوعات پر مباحثہ و گفتگو کی گئی.دشمن شناسی و حالات حاضرہ کے موضوع سے آگاہی کی حوالے سے جنرل سیکرٹری خواہر عقیلہ رضوی نے آج کل کے حالات کو روایات کی روشنی میں واضح کیا۔دونوں عشروں کے اختتام پر باقائدہ امتحانات لیے گئے جن میں خواتین نے پھر پور شرکت کی ۔ولادت با سعادت مولا حسن ع کے موقع پر پھر پور منقبت و قصائد پڑھے گئے اور اختتام پر خواہر عقیلہ رضوی نے صلح امام حسن ع اور زندگی امام کے موضوع کو واضح کیا۔

جب کہ آخری عشرے کو عباد الرحمٰن کا نام دیا گیا ہے اس عشرے میں اخلاقیات و آداب اور حالات حاضرہ جیسے موضوعات پر سیکرٹری تبلیغات خواہر حدیثہ سید احسن پر لیکچرز دیں رہی ہیں آخری عشرے کے اختتام پر بھی امتحان لیا جائے گا .اور عید سے ایک روز قبل اختتامی تقریب کا انعقاد ہو گا کہ جس میں امتحانات کے نتائج اور پوزیشن ھولڈرز کو انعامات تقسیم کیے جائیں گے.مجلس وحدت مسلمین دینہ جھلم شعبہ خواتین کی جانب سے شب ہائےقدر میں اعمال منعقد کیے گئے جسمیں خواتین نے بھرپور شرکت کی.یوم القدس و جمعتہ الوداع بالکل قریب ہے تو اس مناسبت سے تیاریاں زور و شور سے جاری و ساری ہیں مجلس وحدت مسلمین دینہ جھلم شعبہ خواتین کی جانب سےیوم القدس یوم مستضعفین کے عنوان پر مختلف علاقوں میں سیمینارز منعقد کیے جارہے ہیں۔

وحدت نیوز(آرٹیکل) علامہ اقبال اور مولوی حضرات کی کشمکش ضرب المثل کی حیثیت رکھتی ہے۔ اک مولوی صاحب کی سناتا ہوں کہانی، یہ دراصل اقبال کی ہی ایک نظم کا عنوان ہے۔[1] کچھ لوگوں نے اقبالیات کا مطالعہ کرنے کے لئے اور کچھ نے اقبالیات پر پردہ ڈالنے کے لئے،  اقبالیات کو کئی حصوں اور ادوار میں تقسیم کیا, تاکہ حسبِ موقع یہ کہا جاسکے کہ یہ تو اقبال کا ارتقائی یا ابتدائی دور تھا, لہذا فلاں شعر کی کوئی اہمیت نہیں، لیکن ان درجہ بندیوں کے باوجود کلیات اقبال سے ایک ہی نتیجہ نکلتا ہے کہ

الفاظ و معانی میں تفاوت نہیں لیکن
ملا کی اذاں اور مجاہد کی اذاں اور
پرواز ہے دونوں کی اسی ایک فضا میں
کرگس کا جہاں اور ہے ، شاہیں کا جہاں اور[2]

ظاہر ہے کہ اقبال ؒکی جنگ اس ملّا سے تھی، جو خود غرض تھا اور یا پھر دین کے پیغام کو نہیں سمجھتا تھا، پھر وقت گزرتا گیا اور یہ ناسمجھ مولوی بھی نسل در نسل  پھیلتے گئے، یہاں نتک کہ ممتاز مفتی کو بھی ان خود غرض یا ناسمجھ مولویوں سے شکوہ ہی رہا۔ ممتاز مفتی کے بعد تو خود غرض اور ناسمجھ مولوی حضرات کو گویا کھلی چھٹی ملی ہوئی ہے۔ کوئی پوچھنے والا نہیں اور کوئی روک ٹوک نہیں۔ ہمارے ہاں جگہ جگہ اقبال کا دھتکارا ہوا   ناسمجھ مولوی، دین کو اپنی خود غرضی کی بھینٹ چڑھا رہا ہے۔

ایک دن ہم نے بھی بزمِ خیال میں، سب سے پہلے پاکستان کہا تو ایک مولوی صاحب کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے، رونی صورت بنا کر کہنے لگے نہیں نہیں! عزیزم یوں نہیں کہتے، سب سے پہلے اسلام اور حرمین شریفین ہیں۔ ہم نے عرض کیا چلیں ٹھیک ہے، سب سے پہلے وہی جو آپ کہیں! ذرا یہ تو بتائیں کہ اگر آپ کے نزدیک سب سے پہلے اسلام ہے تو پھر یہ خادم حرمین شریفین نے ٹرمپ کی بیوی کے ساتھ مصافحہ کرکے حرام فعل انجام دیا یا نہیں!؟ وہ فوراً بولے نہیں نہیں، آپ نے دوسروں کی قبر میں تھوڑے ہی جانا ہے، اپنی اصلاح کی فکر کریں، اپنے ملک کا حال دیکھیں۔ ہم نے کہا بالکل بجا فرمایا آپ نے، سچ مچ میں  ہمارے ملک کا بہت برا حال ہے، ہماری فوج کے ریٹائرڈ جنرل کو بغیر سینیٹ کو اعتماد میں لئے، سعودی عرب کی نوکری کے لئے بھیج دیا گیا ہے، وہ فوراً بولے کہ آپ نے راحیل شریف کی قبر میں تھوڑا جانا ہے، جو ہو رہا ہے ہونے دیں، اپنی اصلاح کی فکر کریں اور بس۔ ہم نے کہا یہ بھی  ٹھیک ہے، آج کے بعد ہم صرف اپنی اصلاح کریں گے لیکن اگلے ہی دن، ہم نے دیکھا  کہ مولوی صاحب اِدھر اُدھر، ایّھا الناس! اٹھو اٹھو، شام میں جہاد کرنا ہے، افغانستان میں کیا ہو رہا ہے، حرمین شریفین کا دفاع کرنا ہے، کی صدائیں دے رہے تھے۔

ہم نے پوچھا مولانا صاحب! آپ نے ہی تو کہا تھا کہ دوسروں کو چھوڑو اور صرف اپنی اصلاح کی فکر کرو، یہ اب آپ اپنے ہی قول کے خلاف لوگوں کو  جہاد اور قیام کی دعوت دے رہے ہیں، مولوی صاحب نے پھر پینترا بدلا  اور تجوید کے مخارج کی بھرپور رعایت کرتے ہوئے بولے، برخوردار! تم سمجھے نہیں، اپنی اصلاح ضروری ہے لیکن اپنے مسلمان بھائیوں کی مدد کرنا عین فریضہ ہے۔ ہم نے کہا یہ بھی ٹھیک ہے، چلیں ہم بھی آپ کے ساتھ لوگوں کو قیام و جہاد کی دعوت دیتے ہیں اور کشمیر اور فلسطین کی آزادی کے لئے عالم اسلام کے مرکز سعودی عرب میں بین الاقوامی اسلامی کانفرنس کا مطالبہ کرتے ہیں۔ مولوی صاحب نے پھر قلابازی لی اور کہنے لگے پہلے اپنے ملک کو آزاد کراو اور پھر کشمیر اور فلسطین کی آزادی کی بات کرو، کیا تمہیں نظر نہیں آرہا کہ کتنی کرپشن ہے اس ملک میں!؟ ہم نے کہا مولانا صاحب! بالکل سو فیصد، آپ کی بات  ٹھیک ہے۔ اب ہم کرپٹ حکمرانوں کے خلاف عمران خان کا ساتھ دیتے ہیں،  مولانا صاحب چونک کر بولے، ارے عمران خان، وہ تو خود یہودیوں کا ایجنٹ ہے! داماد ہے داماد یہودیوں کا۔ ہم نے دست بستہ عرض کیا، مولوی صاحب! عمران خان نے تو کسی کو گالیاں  نہیں دیں، عدالت میں جاکر کیس کیا ہے؟ اگر آپ کے پاس عمران خان کے خلاف ثبوت ہیں تو آپ بھی کرپشن کا کیس دائر کروائیں، یہ گالیاں تو نہ دیں۔ کسی کا  داماد ہونا کوئی بری بات تو نہیں۔ فتح مکہ سے بھی پہلے خود ہمارے پیارے نبی ﷺ کے ہاں ابوسفیان جیسے بدترین دشمن کی بیٹی تھی۔ آپ رشتے داری کی وجہ سے کسی کو کوسنے کے بجائے اصولوں کی بات کریں۔

اگر ایک ارب 65 کروڑ کے اثاثوں کی بدولت نواز شریف پاکستان کے پہلے امیر ترین شخص ہیں تو عمران خان بھی ایک ارب 40 کروڑ کے اثاثوں کے ساتھ پاکستان کی دوسری امیر ترین شخصیت ہیں، اگر آپ میں اخلاقی جرات ہے تو آپ بھی عمران خان پر کرپشن کا کوئی مقدمہ دائر کروائیں۔ جب یہ سنا تو مولوی صاحب سٹپٹا گئے، پھر تیور بدلے اور فتوے کا استرا لہراتے ہوئے بولے بچے تم توبہ کرو، تم شخصیت پرستی کر رہے ہو، تم نے عمران خان کو بت بنا دیا ہے۔ ہم نے کہا قبلہ، ہمارا تو عمران خان سے کوئی لینا دینا نہیں، نہ کبھی ان کے جلسے جلوس میں  جانا ہوا اور نہ ہی کبھی ان سے ملا قات ہوئی، ہم تو اصولوں کی بات کرتے ہیں، اگر آج بھی عمران خان پر آپ ایک پائی کی کرپشن ثابت کر دیں تو ہم ان کی حمایت سے دستبردار ہونے کے لئے تیار ہیں، لیکن۔۔۔۔ لیکن۔۔۔ آپ  کے سامنے شاہ سلمان نے کفار کے ساتھ دوستی کرکے، ٹرمپ کے ساتھ رقص کرکے، اس کی بیوی سے مصافحہ کرکے، کفار کو اربوں کے ہدیے دے کر صرف اصولوں کو ہی نہیں بلکہ اسلامی اصولوں کو توڑا ہے لیکن اس کے باوجود آپ سعودی خاندان اور شاہ سلمان کی حمایت سے ایک انچ  بھی پیچھے نہیں ہٹے، بتایئے بت پرستی اور شخصیت پرستی ہم کر رہے ہیں یا آپ۔ یہ سننا تھا کہ مولوی صاحب مسکرا کر بولے! برخوردار عمرہ کرنے چلنا ہے، مفت میں ٹکٹ مل جائے گی۔ ہم نے عرض کیا جی نہیں، بہت شکریہ! البتہ وہ ایک صاحب ہیں، جنہیں سلیم صافی کہا جاتا ہے، انہی کو عمرہ کروا دیجئے گا، وہ بھی آپ کی طرح موجودہ حکومت اور سعودی خاندان کے پرستاروں میں سے ہیں، وہ آپ کی دعوت ضرور قبول کر لیں گے۔ عمرے کی دعوت اتنی پرکشش تھی کہ اس کے ساتھ ہی ہمارے خیالات کا سلسلہ ٹوٹ گیا۔

 [1] بانگ درا (حصہ اول) زہد اور رندی
[2] بال جبریل، حال و مقام


تحریر: نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree