وحدت نیوز(اسلام آباد) خیرالعمل ویلفیئر اینڈ ڈویلپمنٹ ٹرسٹ کی طرف سے ماہ رمضان میں ملک بھر کے مختلف اضلاع میں 3000 مستحق خاندانوں میںراشن پیکج تقسیم کیا گیا جس سے تقریبا  15000 افراد مستفید ہوئے اور یہ سلسلہ رمضان المبارک کے آخر تک جاری رہا حسب سابق راشن پیکج میں آٹا،گھی،دالیں،کھجور،پتی،بیسن،چینی،چاول، ودیگر اشیاء خوردونوش شامل تھیں ۔ خیرالعمل ویلفیئر اینڈ ڈویلپمنٹ ٹرسٹ کی طرف سے کرا چی میں 1200خاندانوں، سندھ میں نوابشاہ،دادو،حیدرآباد، جامشور،مٹیاری ٹنڈوالہ یار میں   300خاندانوں, اوچ شریف علی پور میں100 خاندان،بھکر میں50 خاندانوں، اسلام آباد میں92 خاندانوں،پنڈی میں55 خاندانوں،اٹک میں215 خاندانوں،سرگودھا میں100خاندانوں،منڈی بہائوالدین میں75 خاندانوں، گوجرانوالہ میں200 خاندانوں میں راشن تقسیم کیا گیا ودیگر اضلاع میں بھی راشن پیکج تقسیم کیا گیا۔ خیرالعمل ویلفیئر اینڈ ڈویلپمنٹ ٹرسٹ  کے چیئرمین سید باقر زیدی نے کہا ہے کہ انسانیت کی خدمت ثواب کا بہترین ذریعہ ہے مستحق اور ضرورت مندافراد کی مدد کر کے قلبی سکون و اطمینان ملتا ہے sافراد ہماری توجہ اور امداد کے منتظر ہیں ۔رمضان المبارک میں اللہ کی خوشنودی اور ضرورت مندوں کی محتاجی دور کرنے کے لیئے رفاعی کام بہتر عمل ہے ۔خیرالعمل ویلفیئر اینڈ ڈویلپمنٹ ٹرسٹ کی اولین ترجیح دکھی انسانیت کی خدمت اور مستحق ،نادار،افراد کو زندگی کی تمام بنیادی ضروریات فراہم کر کے انکو احساس محرومی سے نکالنا ہے۔ سید باقر زیدی نے کہا کہ اللہ تعالی کو انسان کا سب سے محبوب پسندیدہ عمل جو اللہ کریم کے ہاں افضل ترین عبادت ہے شمار ہوتا ہے وہ اس کی مخلوق میں ضروریات زندگی سے محروم انسانوں کی مدد کرنا ہے ایسے نیک اعمال کی ادائیگی کرنے والے انسان کو  اللہ تعالی کا قرب حاصل ہوتا ہے اور معاشرہ کا ہر فرد بھی اس شخص کو انتہائی عزت واحترام کی نگاہ سے دیکھتا ہے ۔

وحدت نیوز(اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی ڈپٹی سیکریٹری جنرل علامہ سید احمد اقبال رضوی نے سانحہ پاراچنارمیں درجنوں بے گناہ شیعہ مسلمانوں کے بہیمانہ قتل عام پر مرکزی سیکریٹریٹ سے جاری مذمتی بیان میں کہاہے کہ ملت جعفریہ کو اس عظیم سانحے پر دلی تعزیت پیش کرتا ہوں ، ایک بات جو کہ یقینی ہے کہ اس طرح کی بربریت سے پاراچنار کے مومنین جو حسینؑ ابن علی ؑکے ماننے والے ہیں کہ حوصلوں اور جذبوں کو شکست نہیں دی جاسکتی،بقول امام خمینی ؒ تم ہمیں قتل کرو اس سے ہماری قوم مذید بیدار ہو گی، البتہ پاراچنار کا سانحہ حکومت اور ریاستی اداروں کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی غفلت کا نتیجہ ہے ، پر وردگار عالم اس عظیم سانحے میں شہید ہونے والوں کی مغفر فرمائے اوران کے پسماندگان کو صبر جمیل عنایت فرمائے ۔

وحدت نیوز(اندرون سندھ) مجلس وحدت مسلمین کے زیراہتمام یوم القدس کے موقعہ پر کرکراچی، حیدر آباد،نواب شاہ ،قاصی احمد ،بدین ،ماتلی ،سجاول ،ٹھٹھہ ،خیرپور،رانی پور ،سکھر ،شکارپور،خیرپورناتھن شاہ سمیت  صوبہ سندھ کے مختلف شہروں میں احتجاجی ریلیاں نکالیں گئیں۔جن کی قیادت ایم ڈبلیو ایم کے مرکزی و صوبائی رہنماوں بشمول علا مہ  مختار امامی، مقصود علی ڈومکی ،علامہ نشان حیدر ،مولانا دوست علی سعیدی ،علامہ مبشر حسن ،علامہ علی انور،علامہ نقی حیدری ،یعقوب حسینی ،عالم کربلائی ،اکبر شاہ ،شفقت لانگا،مختار دایو،ایڈوکیٹ رحمان شاہ،میثم عابدی ،رضا نقو ی نے کی۔ریلیوں کے دوران شرکا ء نے بینرز اٹھارکھے تھے جن پر اسرائیل و امریکہ مخالف نعرے درج تھے۔قائدین نے اپنے خطابات میں صیہونی مظالم پر شدید رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے بیت المقدس کی آزادی کے لیے امت مسلمہ کی مشترکہ جدوجہد کا مطالبہ کیا۔

انہوں نے کہا کہ قبلہ اول پر اسرائیل کا غاصبانہ قبضہ امت مسلمہ کی قوت ایمانی پر کاری ضرب ہے۔عالم اسلام کو اپنے مقدسات کی حفاظت کو مقدم رکھنا چاہیے۔اس وقت عالم اسلام استعماری قوتوں کے نشانے پر ہے۔یہود و نصاری کے مفادات اور اہداف مشترک ہیں۔تاریخ کے اس نازک دور میں مسلمان حکمرانوں کو اعلی بصیرت اور دور اندیشی کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے۔اسرائیل نے فلسطین کے مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کر رکھا ہے لیکن مسلمان ممالک اسرائیل کے اس جارحانہ طرز عمل کے خلاف کسی غیرمعمولی ردعمل کا اظہار کرنے کی بجائے اس کے ساتھ کاروباری رابطے استوار کرنے میں مصروف ہیں جو نا صرف اخلاقی تنزلی ہے بلکہ حکم ربانی سے بھی صریحاََ انحراف ہے۔اسرائیل کی بجائے مسلمان ممالک کے خلاف عرب ممالک کا اتحاد ان کی ترحیجات اور اہداف کو سمجھنے کے لیے کافی ہے۔انہوں نے کہا کہ امام خمینی کے حکم کے مطابق یوم القدس مظلوموں کی حمایت کا عالمی دن ہے۔ دنیا کا ہر ذی شعور جو ظلم کو انسانی تقاضوں کی توہین سمجھتا ہے وہ اس دن کی حمایت میں آواز بلند کرتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ فلسطین کے مظلوم مسلمانوں اور بیت المقدس پر اسرائیلی جارحیت کے خلاف آج ملک بھر میں مجلس وحدت مسلمین کے زیر اہتمام مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔

وحدت نیوز(لاہور)جمعتہ الوداع پر ملک بھر میں مجلس وحدت مسلمین کے زیر اہتمام مظلومین جہاں خصوصاََ فلسطین میں برسوں سے جاری صہیونی و امریکی مظالم اور قبلہ اول پر غاصبانہ قبضے کیخلاف ملک کے چاروں صوبوں سمیت گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں ہزاروں مقامات پر القدس ریلیاں و جلوس نکالے گئے،پنجاب میں لاہور شیخوپورہ،قصور،ننکانہ صاحب،ساہیوال،اوکاڑہ،پاکپتن،سرگودھا،فیصل آبادچینوٹ،جھنگ،بھکر،میانوالی،ملتان،رحیم یارخان،ڈی جی خان،مظفر گڑھ،گجرانوالہ،گجرات،جہلم،راوالپنڈی اسلام آباد سمیت دیگر اضلاع سے سینکڑوں ریلیاں نکالی گئی،لاہور میں مرکزی القد ریلی اسلام پورہ لاہور سے بعد از نماز جمعہ نکالی گئی جو کہ مگرب کے قریب اسمبلی ہال پہنچ کر اختتام پزیر ہوئی،ریلی میں بڑی تعداد میں مرد خواتین بچے شریک تھے،شدید گرمی اور حبس کے باوجود شرکاء پرعزم تھے،ہاتھوں میں پلے کارڈ تھا اسرائیل امریکہ اور ان کے حواریوں کیخلاف نعرے لگاتے رہے،لاہور میں مرکزی ریلی کی قیاد ت مجلس وحدت مسلمین کے رہنما علامہ حسن ہمدانی اور آئی ایس او لاہور کے صدر علی کاظمی نے کی،جبکہ ریلی میں علامہ جواد نقوی ،علامہ حیدر موسوی،علامہ جواد موسوی،علامہ محمد اسماعیل،علامہ محمد علی جوہری،علامہ حسین نجفی،علامہ ناظم رضا عترتی،افسر حسین خان،سید حسنین زیدی سمیت دیگر علماء و عمائدین شریک تھے،ریلی سے خطاب کرتے ہوئے مجلس وحدت مسلمین کے رہنما علامہ حسن ہمدانی نے کہا کہ،یوم القدس یو احیاء اسلام ہے،اور ہر مسلمان پر فرض ہے کہ وہ قبلہ اول پر اسرائیلی و امریکی غاصبانہ قبضے کیخلاف آواز بلند کرے،عالم اسلام کے تمام تر مشکلات کا ذمہ دار امریکہ اسرائیل اور ان کے آلہ کار فرعونی گروہ ہے،ان شااللہ ہم اپنی آخری سانس تک مظلومین جہاں کے حق میں آواز بلند کرتے رہیں گے،اور اس راستے میں کسی بھی قسم کی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔

ریلی سے آئی ایس اور کے رہنما علی کاظمی نے بھی خطاب کیا انہوں نے کہا کہ غاصب اسرائیل اور امریکہ کیخلاف آواز بلند کرنا ہی ایک سچے مسلمان ہونے کی دلیل ہے،دنیا بھر کے مظلوموں کو اگر دیکھا جائے تو ان پر ہونے والے مظالم کے پیچھے امریکہ و اسرائیل کا ہاتھ ہوگا،کیونکہ یہ ناسور استعماری طاقتیں انسانیت کے دشمن ہیں،ہم فلسطینی بھائیوں کو کبھی فراموش نہیں کریں گے،ام مظلوموں کے حق میں آواز بلند کرنا ہمارا شرعی ذمہ داری ہے اور اس عمل سے ہمیں کوئی بھی نہیں روک سکتا،ریلی سے سابق چئیرمین آئی او پاکستان افسر حسین خان نے بھی خطاب کیا انہوں نے کہا کہ فلسطین،کشمیر سمیت دنیا کے ہر کونے میں جہاں جہاں بھی ظلم بربریت کا بازار گرم ہے اس کے ذمہ دار اسرائیل ،امریکہ اور ان کے حواری ہیں،پاکستان میں دہشتگردی اور دہشتگردوں کے سرپرست اسرائیل امریکہ اور بھارت ہے،یوم القدس دراصل ان استعماری طاقتوں کے مکروہ عزائم اور منحوس چہروں کو بے نقاب کرنا ہے،مسلم امہ ہوش کے ناخن لیں اور خدائے بزرگ و برتر پر یقین رکھیں امریکی اسرائیلی اتحاد سے باہر نکلیں،اس اتحاد کا انجام انتہائی خوفناک دکھائی دے رہا ہے،آل سعود میں خاندانی جنگ شروع ہونے کو ہے،ایسے میں پاکستان کو اپنے آپ کو اس دلدل سے بچانا ہوگا،یمن میں آل سعود امریکہ اسرائیل مل کر مسلمانوں کی نسل کشی کر نے میں مصروف ہیں،ہم امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو مسلم امہ اور اسلامی نظریات افکار کے دشمن سمجھتے ہیں،ہم انشااللہ اپنا یہ ایمانی فریضہ سرانجام دیتے رہیں گے،ریلی کے اختتام پر فلسطین ،کشمیر ،یمن اور شام کے مسلمانوں کے حق میں قراداد بھی مظور کئے گئے امریکی صدر ٹرمپ،اسرائیلی صدر نیتن یاہو کے پتلے بھی جلائے گئے۔

وحدت نیوز(ملتان) رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو ملک بھر میں یوم القدس کے طور پر منایا گیا، ملک بھر میں مجلس وحدت مسلمین اور امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے زیراہتمام بیت المقدس کی آزادی اور اسرائیل کے خلاف احتجاجی مظاہرے اور ریلیاں نکالی گئیں، ملک کے دیگر شہروں کی طرح ملتان میں بھی امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن اور مجلس وحدت مسلمین کے زیراہتمام امام بارگاہ شاہ گردیز سے چوک گھنٹہ گھر تک القدس ریلی نکالی گئی، ریلی نماز جمعہ کے بعد شروع ہوئی اور مختلف راستوں سے ہوتی ہوئی چوک گھنٹہ گھر پر اختتام پذیر ہوئی، ریلی کی قیادت مجلس علمائے شیعہ یورپ کے جنرل سیکرٹری علامہ سید رضا حیدر رضوی، مجلس وحدت مسلمین جنوبی پنجاب کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل محمد عباس صدیقی، صوبائی سیکرٹری سیاسیات مہر سخاوت علی ،صوبائی ترجمان ثقلین نقوی،امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے سابق مرکزی صدر یافث نوید ہاشمی، مرکزی رہنما میثم جعفری،ڈویژنل صدر عاصم حسین،جامعہ شہید مطہری کے پرنسپل علامہ قاضی نادر حسین علوی نے کی، ریلی میں عوام کی بڑی تعداد نے شرکت کی، ریلی کے شرکاء نے فلسطینی پرچم،فلسطینی رہنمائوں کی تصاویراور بیت المقدس کاماڈل اُٹھا رکھا تھا۔

 ریلی سے خطاب کرتے ہوئے علامہ قاضی نادر حسین علوی نے کہا کہ یوم القدس صرف یوم فلسطین نہیں بلکہ اُمت اسلامی کا دن ہے،مسلمانوں کاقابض صیہونیوں کے خلاف احتجاج کا دن ہے، پاکستانی حکومت کو چاہیے کہ جس طرح حرمین شریفین کی حفاظت کے لیے سابق آرمی چیف اور فوجیوں کو تعینات کیا ہے حالانکہ اسے خطرہ ہی نہیں ہے اسی طرح بیت المقدس کی عزت اور ناموس کی حفاظت کے لیے اقدامات اُٹھائے، بعض نام نہاد مسلمان ممالک کی جانب سے اسرائیل کی پشت پناہی اور اسلام دشمنی کا واضح ثبوت ہے، اُنہوں نے مزید کہا کہ 39ممالک کا نام نہاد اتحاد فلسطین کی حمایت اور اسرائیل کے خلاف لڑتا ہوا کیوں نظر نہیں آتا؟ اس کا مطلب ہے کہ یہ نام نہاد اتحاد اسلام کے تحفظ کے لیے نہیں بلکہ اپنی بادشاہت کی بقاء کےلئیے ہے۔

 ڈویژنل صدر ڈاکٹر عاصم سرانی نے ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یوم القدس ،یوم اللہ اور یوم رسول اللہ ہے، جس کا مطلب ہے کہ ہم تمام مسلمان اپنے مظلوم فلسطینی بھائیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کریں، دنیا بھرمیں یوم القدس رہبر کبیر امام خمینی رحمتہ اللہ کے حکم پر منایا جاتا ہے، اُنہوں نے مزید کہا کہ قبلہ اول کی آزادی ناگزیز ہے، مگر افسوس کہ اس کی آزادی کے لیے آج تک کسی نام نہاد حجازی حکمرانوں سے ایک لفظ بھی ادا نہیں ہوا، وہ اتحاد جو مظلوموں پر ظلم کرنے کے لیے بنایا جاتا ہے اگر ظالموں کے خلاف استعمال ہوتا تو آج قبلہ اول آزاد ہوتا،یوم القدس صیہونی طاقتوں کے خلاف اُٹھ کھڑے ہونے کا دن ہے، بیت المقدس کی آزادی اور مظلوم فلسطینیوں کے حقوق کی آزادی تک باطل قوتوں کے سامنے نعرہ حق بلند کرتے رہیں گے۔

 آئی ایس او کے مرکزی رہنما میثم جعفری نے کہاکہ یوم القدس کے موقع پر امت مسلمہ کی خاموشی کسی لمحہ فکریہ سے کم نہیں ہے، پاکستانی قوم مظلوم اور نہتے فلسطینی بھائیوں کی جرء ا ت اور استقامت کو سلام پیش کرتی ہے، وہ وقت دور جب فلسطین ان صیہونی طاقتوں کے چنگل سے آزاد ہوگا، آئے دن بیت المقدس کی پامالی انتہائی تکلیف دہ ہے جو 58مسلم ممالک کا منہ پر طمانچہ ہے، شیطان بزرگ امریکہ کی سرپرستی میں اسرائیل دنیا بھر میں ظلم وبربریت کی مثال بن چکا ہے، آج کے دن ہم اس بات عزم کرتے ہیں کہ بیت المقدس کی آزادی تک اس سفر کو جاری رکھیں گے۔ ریلی کے آخر میں امریکہ اور اسرائیل کے پرچم بھی نذرآتش کیے گئے،امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ اور اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہوکے پتلے بھی نذرآتش کیے گئے، اور ملکی سلامتی کے لیے خصوصی دعا بھی کرائی گئی۔ اس موقع پرمولانا غضنفر حیدری، مولانا مجاہد عباس گردیزی،مولانا تقی دانش، سید علی حیدر،جلال حیدر کلاچی، تنصیر حیدر اور دیگر بھی موجود تھے۔

وحدت نیوز(آرٹیکل) ہم سب سے پہلے قارئین کو یہ بتانا چاہیں گے کہ وہ لوگ جنہوں نے اہلِ فلسطین پر شب خون مارا اور بیت المقدس پر قبضہ کیا، انہیں اصطلاحی طور پر صہیونی کہا جاتا ہے۔

جب ہم صہیونزم یا صہیونی کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ صہیون یروشلم کا ایک پہاڑ ہے۔ جس پر حضرت داود کا مزار بھی ہے۔ ابتداء میں یروشلم کا شہر یروشلم کے گرد واقع دوبلند و بالا پہاڑوں کے درمیان میں بسا تھا۔

یہ دونوں پہاڑ آج بھی یروشلم کے گرد مشرق و مغرب میں باہم مقابل واقع ہیں۔ ان میں سے مشرقی پہاڑ موریہ کہلاتا ہے جبکہ مغربی پہاڑ کو صہیون کہتے ہیں۔ صہیون اپنی قامت میں موریہ سے بلند تر ہونے کے ساتھ ساتھ حضرت سلیمان ؑ کے زمانے سے ہی یہودیوں کے درمیان تقدس اور احترام کی علامت ہے۔

 یہودیوں نے 27 اگست 1897ء میں سوئزر لینڈ میں صہیونیت کو منظم تحریک کی صورت دینے کیلئے ایک کانفرنس منعقد کی، جس میں اعلان کیا گیا کہ صہیونیت فلسطین میں یہودیوں کیلئے ہوم لینڈ حاصل کرنے کیلئے اپنی جدوجہد کا آغاز کرتی ہے اور اس مقصد کیلئے کانفرنس نے کچھ قواعد و ضوابط کی منظوری بھی دی۔

بعد ازاں انجمن محبّین صہیون کے نام سے ایک تنظیم بنا کر اپنے منصوبے پر یہودیوں نے باقاعدہ کام شروع کیا اور بالآخر یہ گروہ فلسطین پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہوگیا۔

 چنانچہ جب صہیون کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے تو اس سے مراد تمام یہودی نہیں ہوتے بلکہ صرف وہ یہودی مراد ہوتے ہیں جو انجمن محبّین صہیون سے مربوط یا اُن کے ہم فکر ہوتے ہیں۔

 یہودیوں نے اسرائیل کی صورت میں فلسطین پر قبضے کی خاطر جو انجمن بنائی اُس کا نام اُنہوں نےانجمن  محبّین صہیون اس لیے رکھا چونکہ صہیون کا پہاڑ عرصہ قدیم سے یہودیوں کے لئے محترم ہے اور اس طرح وہ اپنی انجمن کو صہیون پہاڑ کی طرف نسبت دے کر دنیا بھر کے یہودیوں کو ایک پلیٹ فارم اور ایک نظریئے یعنی محبتِ صہیون پر اکٹھا کرنا چاہتے تھے۔

 کتب تواریخ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ یہودی بطور ِقوم خدا کی نعمتوں کو ٹھکرانے کے باعث اور انبیاءِ خدا کو ناحق قتل کرنے کے علاوہ اپنی اخلاقی ابتری اور باطنی مکر و فریب کے باعث زوال کا شکار ہوئے تھے۔

 فرعون کے زمانے میں جب یہ شاہی استبداد کا نشانہ بن رہے تھے تو خدا نے حضرت موسٰی کی صورت میں ان کیلئے نجات دہندہ بھیجا۔ حضرت موسٰی نے فرعون کے سامنے قطعی طور پر دو ہی مطالبے رکھے کہ اوّلاً تو اللہ تعالٰی کی ربوبیت اور حاکمیت کا اعتراف کرے اور ثانیاً بنی اسرائیل پر اپنے مظالم بند کرے۔

 حضرت موسٰی ایک طرف تو بنی اسرائیل کی خاطر فرعون سے ٹکرا رہے تھے جبکہ دوسری طرف بنی اسرائیل کی مکاریوں اور عدم تعاون سے روز بروز مسائل میں گرفتار ہوتے جا رہے تھے۔

 چنانچہ حکم خداوندی سے آپ نے اسرائیلیوں کو ایک قافلے کی صورت میں بحیرہ احمر کے راستے کی طرف سے ہجرت کرنے کا حکم سنایا۔

 حضرت موسٰی کی قیادت میں یہ قافلہ روانہ ہوا تو فرعون بھی اس کے تعاقب میں نکل پڑا۔ اذنِ خداوندی سے حضرت موسٰی نے اپنا عصا دریا نیل کے سینے پر مار کر بنی اسرائیل کو دریا عبور کرایا اور ان کے تعاقب میں آنے والا فرعون اسی نیل میں غرق آب ہوگیا۔

 دریا عبور کرکے بنی اسرائیل حضرت موسٰی کے ہمراہ کوہ سینا تک پہنچے اور اسی مقام پر تورات مقدس کے متعدد احکامات بھی نازل ہوئے، اسی طرح ایک سال گزر گیا۔ ایک سال بعد حضرت موسٰیؑ پر یہ حکم نازل ہوا کہ بنی اسرائیل کے ہمراہ فلسطین کو فتح کرلو کہ وہ تمہاری میراث میں دیا گیا ہے۔

 جس کے بعد آپ نے فلسطین کا جائزہ لینے کیلئے دشتِ فاران کا رخ کیا اور پھر دشت فاران سے ایک وفد کو فلسطین کے حالات کا تجزیہ و تحلیل کرنے کیلئے بھیجا۔

اس زمانے میں فلسطین کے باشندے کفر و شرک اور گمراہی میں مبتلا تھے، چنانچہ حضرت موسٰی کی قیادت میں بنی اسرائیل کے ذریعے سے ایک الٰہی حکومت کے نفاذ کی خاطر اہلیان فلسطین کی اصلاح کی خاطر اور خود بنی اسرائیل کے عزت و وقار اور مقام و مرتبے کی بلندی کی خاطر حضرت موسٰی کو یہ حکم دیا گیا تھا۔ لیکن بنی اسرائیل نے حضرت موسٰی سے صاف کہہ دیا کہ اے موسٰی، تم اور تمہار رب دونوں جاو اور لڑو، ہم تو یہاں بیٹھے ہیں۔

حضرت موسٰی کی دل آزاری کرکے بنی اسرائیل نے غضبِ خداوندی کو للکارا، جس کے بعد 40 برس تک اکرام خداوندی نے اُن کی طرف سے منہ پھیرے رکھا اور وہ دشت فاران و صین میں خاک چھانتے رہے۔

 40 سال  کےبعد حضرت موسٰی نے بنی اسرائیل کو پھر سے یکجا کیا اور موآب، حسبون اور شطیم کے علاقے فتح کئے اور یہیں کہیں کوہِ عباریم پر حضرت موسٰی وصال فرما گئے۔ ان کے بعد حضرت یوشع ان کے خلیفہ بنے، جنہوں نے دریائے اردن کو عبور کرکے فلسطین کے شہر اریحاً کو فتح کیا اور یہ اریحاً ہی فلسطین کا پہلا مفتوحہ شہر ٹھہرا۔

اریحاً کو سب سے پہلے مفتوح کرنے کے بعد بنی اسرائیل رفتہ رفتہ پورے فلسطین میں پھیل گئے۔ جیسا کہ پہلے بیان کیا جاچکا ہے کہ فلسطین پر بنی اسرائیل کو قبضہ دلانے کا مقصد الٰہی حکومت کا قیام تھا لیکن اپنے متعصبانہ رویے کی بناء پر بنی اسرائیل الٰہی حکومت کے نفاذ کیلئے متحد ہونے کے بجائے قبائلی دھڑوں میں منقسم ہوکر فلسطین کے گمراہ باسیوں کے ساتھ مخلوط ہوگئے۔

 اس اختلاط سے بنی اسرائیل کی بطور ملت قوت کمزور ہوگئی اور فلسطین کی غیر مفتوحہ اقوام نے بنی اسرائیل کی درگت بنانی شروع کر دی۔

 چنانچہ بنی اسرائیل مجبور ہوگئے کہ وہ مختلف دھڑوں کے بجائے مل کر ایک مضبوط حکومت قائم کریں۔ اس طرح ایک اسرائیلی ریاست کی بنیاد پڑی، جس پر حضرت طالوت، حضرت داود اور حضرت سلیمان نے حکومت کی۔

حضرت سلیمان کے بعد اسرائیلیوں کی رگِ شیطنت پھر سے پھڑکی اور انہوں نے آپس میں شب خون مار کر اس ریاست کے دو ٹکڑے کر دیئے ایک ٹکڑا سلطنت اسرائیل کہلایا اور دوسرے کا نام سلطنت یہود ٹھہرا۔

بعد ازاں بابل کے بادشاہ بخت نصر نے حملہ کرکے سلطنت یہود کو، اور آشور کے حکمران سارگون نے حملہ کرکے سلطنت اسرائیل کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ بابل کی سلطنت کو زوال آیا اور ایرانی فاتح خسرو نے بابل کو مفتوح کرنے کے بعد بنی اسرائیل کو دوبارہ اپنے وطن میں آباد ہونے کی اجازت دیدی۔

98 قبل مسیح میں شام کی سلوقی سلطنت کے فرمانروا نے فلسطین پر شب خون مارا، جس کے بعد یہودیوں نے سلوقی حکمرانوں کے خلاف ”مکابی“ نامی بغاوت برپا کرکے سلوقیوں کو فلسطین سے بے دخل کر دیا۔ لیکن 63 قبل مسیح میں رومن فاتح جنرل پومپی نے بیت المقدس پر حملہ کرکے یہودیوں کو مغلوب کرلیا لیکن چونکہ رومن براہِ راست فلسطین پر حکومت کے خواہاں نہ تھے، اس لئے اُنہوں نے فلسطینیوں کے ذریعہ سے ہی فلسطین کے انتظامات چلانے کی سعی کی اور اسی کوشش میں فلسطین کی سلطنت ڈگمگاتی ہوئی ہیرود اعظم کے ہاتھ لگی جو ایک مکار یہودی تھا۔

 64ء اور 66ء کے درمیانی عرصے میں یہودیوں نے رومن کے حکمرانوں کے خلاف علم بغاوت بلند کر دیا۔

 رومنی حکومت نے یہودیوں کو اس طرح بغاوت کی سزا دی کہ اس کے بعد لمبے عرصے تک یہودی کہیں یورش برپا نہ کرسکے۔

 بعد ازاں 667ء میں شر انگیزیوں کے باعث اُنہیں حجاز سے باہر نکالا گیا۔ حجاز کے بعد اُنہوں نے شام کا رخ کیا، جہاں سے 890ء میں ان کے فتنوں کے باعث انہیں بے دخل کر  دیا گیا، پھر یہ معتوب قوم پرتگال میں گھسی، جہاں سے انہیں 920ء میں نکال دیا گیا۔

 پھر یہ سپین میں داخل ہوئے جہاں سے انہیں 1110ء میں فرار ہونا پڑا۔ سپین کے بعد انہوں نے انگلینڈ کو مسکن بنایا۔ جہاں سے انہیں 1290ء میں نکالا گیا، پھر یہ فرانس میں آٹپکے، جہاں سے انہیں 1306ء میں بھاگنا پڑا۔ پھر انہوں نے بیلجیئم میں داخل ہوکر بیلجیئم کے آرام و سکون کو غارت کیا، جہاں سے انہیں 1370ء میں بھگایا گیا۔

پھر یہ ذیگوسلاویہ میں آدھمکے، جہاں سے انہیں 1380ء میں نکال دیا گیا اور پھر یہ دوبارہ فرانس میں داخل ہوگئے، جہاں سے انہیں 1434ء میں دوبارہ نکال دیا گیا۔

 پھر انہوں نے ہالینڈ کا رخ کیا، جہاں سے انہیں 1442ء میں باہر دھکیلا گیا۔ جس کے بعد یہ روس میں داخل ہوئے، جہاں سے 1510ء میں انہیں جان بچانے کیلئے بھاگنا پڑا، پھر یہ اٹلی میں گھسے 1540ء میں اٹلی کے صبر کا پیمانہ بھی لبریز ہوگیا، پھر اٹلی سے بھاگ کر جرمنی پہنچے، لیکن 1551ء میں جرمنی نے بھی ان پر شب خون مارا پھر یہ ترکی میں گھسے، اہلیان ترک نے اسلامی رواداری اور مذہبی فراخدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہودیوں کو ہر طرح کا تحفظ اور حقوق فراہم کئے۔

 چنانچہ ترکی کو مسکن بنانے کے بعد یہودیوں نے سکھ کا سانس لیا اور پھر 17ہویں صدی میں انہوں نے اپنی مذہبی سرگرمیوں کو وی آنا میں مرکزیت دی اور پھر اٹھارہویں اور انیسویں صدی میں مسلسل منظم اور فعال ہوتے چلے گئے۔ لیکن اس سارے دورانئے میں انہوں نے انتہائی رازداری اور خفیہ حکمت عملی کا سہارا لیا اور اس طرح فلسطین پر اپنے دوبارہ قبضے کی خواہش کو منظر عام پر آنے سے روکے رکھا۔

فلسطین پر یہود کے دوبارہ قبضے کی فکری تحریک اُس وقت منظر عام پر آئی جب 1862ء میں ایک جرمن یہودی موسٰی ہیٹس کی کتاب ”روم اور یروشلم“ مارکیٹ میں آئی۔

 اس کتاب میں لکھا گیا کہ یہودیوں کی عالمی حکومت کا مرکز یہوا کی بادشاہت کا اصل وطن فلسطین ہے۔ اس کتاب کے بعد اسی موضوع پر یہودی مفکرین نے دھڑا دھڑ کتابیں لکھ کر دنیا بھر کے یہودیوں کو فلسطین پر قبضے کی تشویق دلائی۔

 1896ء میں ایک یہودی صحافی تھیوڈر ہرزل نے ریاست یہود کے نام سے ایک کتاب لکھی البتہ بعض محققین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اُس نے ریاست یہود کے نام سے ایک رسالہ شائع کیا۔

اس کتاب یا رسالے میں اُس نے ریاست یہود کے جغرافیائی اور نظریاتی بارڈرز کے خدوخال ابھارے۔ اُس نے ریاست یہود کے جغرافیائی بارڈر کوہِ یورال سے نہر سویز تک پھیلایا اور نظریاتی طور پر یہودیوں کی راہنمائی اس طرح کی کہ اوّلاً یہودی ایک علاقے میں جمع ہوجائیں اور ثانیاً یہ کہ دیگر ممالک یہودیوں کی خودمختاری اور ان کے لئے علیحدہ وطن کی ضرورت کو تسلیم کریں۔

 انگلینڈ میں مقیم یہودی کمیونٹی کے سربراہ لارڈ اتھس چائلڈ نے اس صحافی کی بھرپور مالی اعانت کی، جس کے باعث ہرزل 1897ء میں سوئزرلینڈ میں صہیونیوں کی کانفرنس منعقد کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ اس کانفرنس نے فلسطین پر یہودیوں کے قبضے کیلئے کلیدی کردار ادا کیا۔

 یہ صحافی اپنی موت سے پہلے صہیونی آبادکاری بینک اور یہودی بیت المال جیسے ادارے بنانے میں بھی کامیاب ہوگیا اور اس طرح یہود نے فلسطین کو لقمہ تر کی طرح نگلنے کے خواب دیکھنے شروع کر دیئے۔

 ڈاکٹر ہرزل کے بعد صہیونی تحریک کا صدر مقام کولون منتقل ہوگیا اور صہیون نے اپنے خواب کو عملی جامہ پہنانے کے لئے انجمن محبّین صہیون کے ذریعے عملی سرگرمیوں کا آغاز کر دیا۔

 اس وقت ساری دنیا صہیونیوں کے ان اقدامات پر خاموش تماشائی بنی رہی اور اس خاموشی کی اہم وجہ صہیونیوں سے چھٹکارا حاصل کرنے کی عالمی خواہش تھی، چونکہ صہیونی باری باری متعدد اقوام کو ڈس چکے تھے۔

 یہ لوگوں کے بچوں کو اغوا کرکے نہ صرف قربانیوں کی بھینٹ چڑھا دیتے تھے بلکہ سازش اور مکر کے میدان میں اتنے جری تھے کہ پانی کے چشموں اور تالابوں میں زہر بھی ملا دیتے تھے۔

 چنانچہ ساری عالمی برادری ان سے چھٹکارا اور نجات چاہتی تھی، اس لئے تمام اقوام نے اپنی عافیت اسی میں سمجھی کہ یہودیوں کو عربوں کے درمیان گھسنے دیا جائے، تاکہ ان کا تمام مکر و فریب عربوں تک محدود ہوجائے۔

 چنانچہ یورپ نے یہودیوں کی خصوصی اعانت کی اور ان کو عرب ریاستوں کے مرکز میں گھسا دیا۔ پہلی جنگ عظیم کے دوران یہودیوں نے جرمنی کے خلاف برطانیہ سے معاہدہ کیا، جس کی رو سے برطانیہ نے اعلان ِ باالفور میں صہیونی اغراض و مقاصد کی حمایت کا وعدہ کیا۔ یہودیوں کی اس طرح کی ساز باز مختلف نوعیتوں میں پورے یورپ سے جاری رہی، یہاں تک کہ 1948ء میں اسرائیل کو دنیا کے نقشے پر وجود مِل گیا۔

 مسئلہ فلسطین اس وقت بین الاقوامی سطح پر ابھرا جب 1948ء میں برطانیہ نے فلسطین پر یہودیوں کے قبضے کو قانونی رنگ دینے کے لئے اقوام متحدہ کے سکرٹری جنرل کو اجلاس منعقد کرنے کے لئے خط لکھا۔

اقوام متحدہ نے آسٹریلیا، کنیڈا، یوگو سلاویہ، ہند، ہالینڈ اور ایران سمیت چند دیگر ریاستوں کے نمائندوں پر مشتمل ایک کمیشن تشکیل دیا، اس کمیشن کے قیام کا مقصد یہ تھا کہ سرزمین فلسطین کا دورہ کرکے وہاں کے مقیم یہودیوں اور فلسطینیوں کا موقف سنے، نیز نزدیک سے فلسطین کی صورتحال کا جائزہ لیکر اقوام متحدہ کو اپنی رپوٹ پیش کرے۔ فلسطین کا دورہ کرنے کے بعد یہ کمیشن کسی مشترکہ نتیجے تک نہ پہنچ سکا اور یوں دو دھڑوں میں بٹ گیا۔

ایک دھڑے کی رائے یہ تھی کہ فلسطین کو داخلی طور پر عربی اور یہودی دو حکومتوں میں تقسیم کیا جائے، جبکہ مرکزی حکومت، بیت المقدس میں متمرکز ہو کر کام کرے۔

دوسرے دھڑ ے کی رائے یہ تھی کہ فلسطین کو مستقل طور پر یہودی اور عربی نامی دو حصوں میں تقسیم کیا جائے۔ یہودیوں نے دوسرے دھڑے کی رائے کو سراہا اور ایک مستقل یہودی ریاست کے قیام کے لئے کھل کر میدان سیاست و میدان جنگ میں اتر آئے۔ اقوام متحدہ نے بھی یہودیوں کو مایوس نہیں کیا اور تقسیم فلسطین کے فارمولے کو منظور کر لیا۔

 اسی سال برطانیہ نے فلسطین سے نکلتے ہوئے اپنا تمام تر جنگی ساز و سامان یہودیوں کے حوالہ کر دیا۔ یہ ہتھیار یہودیوں کے ہاتھوں میں پہنچنے کی دیر تھی کہ انہوں نے مسلمانوں پر شب خون مارنا شروع کر دیا اور پے در پے مسلمانوں کی املاک پر قابض ہوتے چلے گئے، اس شب خون اور قتل و غارت کے نمایاں نمونے دیر یاسین، اور ناصرالدین نامی علاقے ہیں۔

 اسی لمحے کہ جب برطانیہ نے یہودیوں سے ملی بھگت کرکے فلسطین سے باہر قدم رکھا تو یہودیوں نے بھی ْاسرائیل کے قیام کا اعلان کر دیا۔

 اِدھر اسرائیل کے قیام کا اعلان ہونا تھا، اُدھر اُس وقت کے امریکی صدر "ٹرومن" نے سرکاری طور پر اسرائیل کو تسلیم بھی کرلیا۔

برطانیہ، امریکہ اور یہودیوں کے گٹھ جوڑ کے مقابلے کے لئے اسی سال مصر، اردن، لبنان، عراق، اور شام پر مشتمل عرب افواج کے دستوں نے فلسطین میں اپنے قدم رکھے اور لمحہ بہ لمحہ جیسے جیسے جنگ کے شعلے بھڑکتے گئے، مسئلہ فلسطین عالمی برادری کے لئے ایک چیلنج کی حیثیت اختیار کرتا گیا۔

عرب ریاستوں نے اپنے عربی مزاج کے مطابق  ، اس مسئلے میں بھی عربی و عجمی کی تقسیم کو باقی رکھا اور سب سے پہلے تو اسے عربوں  کا مقامی اور داخلی مسئلہ قرار دینے کی کوشش کی،  اور اس مسئلے کو عرب ممالک کا مسئلہ بنا کر اقوام عالم کے سامنے پیش کیا۔

امریکہ و اسرائیل نے اس کے بعد  عرب حکمرانوں کے درمیان پھوٹ ڈالنے اور عربوں کو ایک دوسرے کے مقابلے میں لانے کیلئے  بھرپور کام کیا۔

 سامراج کی سازشوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ عرب حکمراں تحریک آزادی فلسطین اور بیت المقدس کی آزادی کو فراموش کرکے اپنی اپنی سلطنت کے استحکام اور جاہ و حشمت کی خاطر ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی اس مسئلے کو سرد خانے میں ڈالنے پر آمادہ ہوگئے۔

اسرائیل نے بھی دن بدن عرب ریاستوں کو اپنی طاقت و وحشت سے خوف و ہراس میں مبتلا کئے رکھا اور فلسطینوں کے خون سے ہولی کھیلتا رہا، یہاں تک کہ ایران میں اسلامی انقلاب کے سورج نے طلوع کیا۔

تحریک آزادی فلسطین کے سلسلے میں 1979ء تک فرزندان توحید خون کی قربانیاں تو پیش کر رہے تھے لیکن عرب ریاستوں نے ان کی مدد کرنا چھوڑ دیا تھا۔  ایران میں اسلامی انقلاب نے فلسطین کو عربی مسئلے کے  بجائے اسلامی مسئلے طور پر اٹھایا،  جس کے بعد مسئلہ فلسطین دوبارہ ایک اسلامی مسئلے کے طور پر ابھرا اور مسلمانوں نے از سرِ نو بیت المقدس کو یہودیوں سے آزاد کرانے  کے لئے سوچنا شروع کر دیا۔

 ایران میں اسلامی انقلاب کے بانیوں نے دنیا بھر کے مسلمانوں کو رمضان المبارک کے آخری جمعۃ المبارک کو یوم قدس کے طور پر منانے کی دعوت دی۔ اس کے بعد دنیائے اسلام نے  یوم القدس  کو بھرپور طریقے سے منعقد کرنا شروع کر دیا اور یوں فلسطینیوں کو نئی ہمت اور حوصلہ ملا، یہی وجہ ہے کہ اب فلسطینی سعودی عرب یا خلیجی ریاستوں کی مدد اور امریکہ و اسرائیل کی مخالفت کی پرواہ نہیں کرتے۔ آج اس وقت جب ساری خلیجی ریاستیں امریکہ و اسرائیل کی گود میں جا کر بیٹھ گئی ہیں، اس کے باوجود فلسطینی بچے پتھر لے کر ٹینکوں سے لڑ رہے ہیں۔ اسرائیلی   ٹینکوں پر   پتھر  برسانا  در اصل طمانچہ ہے ان ممالک کے منہ پر جو فلسطینیوں کو تنہا چھوڑ کر امریکہ و اسرائیل کی دوستی کا راگ الاپ رہے ہیں۔ بلاشبہ فلسطینی  ، غلامی کے باوجود آزاد اور بہادر  ہیں  جبکہ  فلسطینیوں سے غداری کرنے والے آزادی کے باوجود غلام  اور بزدل ہیں۔

اسرائیل مردہ باد۔۔۔ فلسطین زندہ باد


تحریر۔۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree