وحدت نیوز (کوئٹہ) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کوئٹہ ڈویڑن کے سیکریٹری جنرل سید عباس علی نے بیان دیتے ہوئے کہاہے کہ بلاک شناختی کارڈز کا مسئلہ ایک معمہ بن چکا ہے عوام کے لوہے کے بنائے ہوئے جوتے بھی پگھل گئے لیکن بلاک شناختی کارڈ کا مسئلہ حل نہ ہوسکا دس پندرہ سالوں عوام اپنا روز گار و کاروبار چھوڑ کر نادرا کے مختلف دفاترکی چکریں کاٹ رہے ہیں لیکن انکا مسئلہ حل نہیں ہو رہا ، اس مسئلے پر واضح پالیسی کا فقدان ہے حکومت اور ادارے کوئی پالیسی  وضع کریں اتنے عرصے میں ایک نسل بوڑھی اور دوسری نسل جوان ہو جاتی ہے لیکن بلاک شناختی کا فیصلہ ہی نہیں ہو پاتا ہمارے جوانوں کا مستقبل داؤ  پر  لگا ہوا ہے وہ گلی کوچوں اور بازاروں میں  آزادانہ گھوم پھیر سکتے ہیں نہ ہی کسی تعلیمی ادارے میں داخلہ لے کر اپنی تعلیم جاری رکھ سکتے ہیں بلاک شناختی کی وجہ سے ایک نسل تباہ ہو رہی ہیں ادارے اپنی غلط پالیسیوں کی سزا عوام کو دے رہے ہیں شناختی کارڈ بلاک کرنا بہت آسان اور ان بلاک کرنا تقریباً ناممکن ہے  جس کی وجہ سے نادرا ملازمین نے شناختی کارڈ بنانے کو اپنا کاروبار بنا لیا ہے صرف رشوت نہ دینے پر شناختی کارڈز بلاک کئے جاتے ہیں اور شناختی بلاک کرنے پر ان سے کوئی انکوائری نہیں کی جاتی جس کی وجہ سے نادرا ملازمین جو کے ٹیکسوں پر پل رہے ہیں نے افسر شاہی نظام قائم کر رکھا ہے اور  نادرا آفسز میں بادشاہت قائم کرکے عوام کے ساتھ انتہائی ناروا سلوک اختیار کئے ہوئے ہیں جس ملک کے ادارے عوام کی عزت نہیں کرتی وہ ملک کبھی بھی ترقی نہیں کر سکتا حکومت اور ادارے جلد از جلد واضح پالیسی وضع کر کے مختصر ترین مدت معین کرکے مقررہ وقت پر بلاک شناختی کے فیصلے کریں اسی طرح شناخت کارڈ ناجائز بلاک کرنے پر نادرا ملازمین کے لیے سزائیں مقرر کریں تا کہ کوئی بھی بلا جواز عوام کے شناختی کارڈ بلاک نہ کر سکے۔

وحدت نیوز (مظفرآباد )علامہ تصور الجوادی پر قاتلانہ حملہ کے سلسلہ میں بِلامعاوضہ قانونی امداد کی فراہمی ،سنٹرل بار ایسوسی ایشن نے سینئر وکلاء پر مشتمل9رکنی ٹیم تشکیل دیدی ۔اعلان کردہ لیگل ٹیم علامہ تصور الجوادی اور اُنکی اہلیہ کو بِلامعاوضہ قانونی امداد فراہم کریگی ۔یاد رہے رواں ماہ 15فروری کومجلس حدت مسلمین کے رہنما معروف عالم دین تصور حسین نقوی الجوادی پر کئے گئے قاتلانہ حملہ کے بعد سنٹرل بار ایسوسی ایشن کی جانب سے بِلامعاوضہ قانونی مدد فراہم کرنے کا اعلان کیا گیا تھا ۔جسکے بعد گذشتہ روز راجہ آفتاب احمد خان ایڈووکیٹ (صدر سنٹرل بار)کی سربراہی میں سنٹرل بار ایسوسی ایشن نے درج ذیل معزز اراکین بارہارون ریاض مغل (جنرل سیکرٹری)شیرزمان اعوان ایڈووکیٹ ،مہر علی شاہ ایڈووکیٹ ،شرافت حسین نقوی ایڈووکیٹ ،اشفاق حسین کاظمی ایڈووکیٹ ،ناصر مسعود مغل ایڈووکیٹ ،ممتاز علی نقوی ایڈووکیٹ پر مشتمل کمیٹی کا اعلان کردیا ہے ۔لیگل کمیٹی کے اعلان کے بعد لیگل کمیٹی کے اراکین نے اظہار خیال کرتے ہوئے اس عزم کا اعادہ کیا ،کہ ریاست کے پُرامن ماحول کی بقاء کیلئے وکلاء برادری مثبت روایات قائم کرنے کا سلسلہ جاری رکھے گی ۔کشمیر کاز کو تقویت پہنچانے کیلئے آزادکشمیر میں امن و استحکام ’’آکسیجن ‘‘کی حیثیت رکھتا ہے ۔اور وکلاء برادری اپنے حصے کا کردار ادا کرنے کیلئے پُرعزم ہے ۔شہری حلقوں نے سنٹرل بار ایسوسی ایشن کی جانب سے علامہ تصور الجوادی پر قاتلانہ حملے کیس میں متاثرہ خاندان کو بِلامعاوضہ قانونی معاونت فراہم کرنے کیلئے کیمٹی کی تشکیل کا خیرمقدم کیا ہے اور اس توقع کا اظہار کیا ہے کہ پُرامن ماحول کے استحکام کیلئے ہر طبقہ اپنا کردار ادا کریگا ۔تاکہ دشمن قوتیں تحریک آزادی کے بیس کیمپ میں انارکی پھیلانے کی سازشوں میں کامیاب نہ ہوسکیں ۔

وحدت نیوز(آرٹیکل) جو لوگ وسطی اور جنوبی ایشیا کی نفسیات جاننے والے عصرِ حاضر کے مغربی لکھاریوں سے واقف ہیں وہ برطانوی مورخ ولیم ڈال رمپل سے بھی واقف ہوں گے۔گذشتہ ہفتے سیہون میں قلندر کے مزار پر خود کش حملے کے بعد اخبار گارڈین میں ان کا ایک مضمون چھپا۔ایک جگہ لکھتے ہیں،

’’چند برس پہلے جب میں سیہون گیا تو قلندر کے مزار سے زرا فاصلے پر ایک حویلی میں قائم مدرسے کے نوجوان مہتمم سلیم اللہ سے ملاقات ہوئی۔سلیم اللہ ایک پڑھا لکھا آدمی ہے۔اس نے بلا لاگ و لپیٹ شریعت و تصوف پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔بقول سلیم اللہ ہم مزار پرستی کے مخالف ہیں۔قرآنی تعلیمات اس بابت بالکل واضح ہیں کہ مردے کچھ نہیں دے سکتے بھلے وہ ولی ہی کیوں نہ ہوں۔قبر پرستی اور بت پرستی ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔میری بات لکھ لو کہ طالبان کی مزید شدت پسند شکل پاکستان میں آ رہی ہے۔خلافت قائم ہونے کے بعد یہ ہمارا فرض بن جائے گا کہ تمام درگاہیں اور مزارات ڈھا دیں۔اور اس کا آغاز یہاں سیہون سے ہوگا۔

ولیم ڈال رمپل لکھتے ہیں کہ سلیم اللہ کا تعلق جس مذہبی طبقے سے ہے اس کے پانچ ہزار مدارس ملک کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے ہیں اور مزید ڈیڑھ ہزار مدرسے صرف سندھ میں کھولے جا رہے ہیں۔ہارورڈ یونیورسٹی اور عالمی بینک کے ایک حالیہ تحقیقی مطالعے کے مطابق اس وقت پاکستان میں معلوم مدارس کی تعداد آٹھ ہزار کے لگ بھگ ہے اور یہ تعداد انیس سو سینتالیس کے مقابلے میں ستائیس گنا ہے۔


مسلمانوں کی تاریخ میں بنیاد پرستوں اور تصوف کے ماننے والوں کے مابین کھینچا تانی ہمیشہ سے ہے۔مگر چند عشرے قبل تک اس کش مکش میں الفاظ و دلائل کے ہتھیار استعمال کیے جاتے تھے۔تصوف اور اس کے مراکز اور صوفیوں کی درگاہوں یا مزارات کو ایک خاص نظریے کے تحت نشانہ بنانا یا انھیں منہدم کردینے کا عمل بھی دو سو برس سے زیادہ پرانا نہیں اور یہ طرح جزیرہ نما عرب میں اٹھارویں صدی کے مبلغ عبدالوہاب اور ان کے پیرو کاروں نے ڈالی مگر انہدام یا پابندی کا عمل زیادہ تر جزیرہ نما عرب تک ہی محدود رہا۔

برِ صغیر میں انیسویں صدی کے وسط میں جنم لینے والے دیوبندی اور پھر بریلوی مکاتیب فکر کے مابین بدعت و شرک کی تشریحات کے مسائل پر مناظروں کی حد تک تو مچیٹا چلتا رہا مگر ابھی اس اختلاف نے جان لیوا انتہا پسندی کی شکل اختیار نہیں کی تھی۔گولی نے دلیل کی جگہ نہ لی تھی۔حتیٰ کہ افغانستان پر سوویت قبضے کے بعد اگلے دس پندرہ برس میں سعودی حمایت یافتہ افغان مجاہدین کے عروجی دور میں بھی درگاہوں اور مزاروں کو ہاتھ نہیں لگایا گیا۔خود طالبان کے چھ سالہ دورِ اقتدار میں کابل میوزیم میں موجود دورِ کفر کی نشانیوں کی توڑ پھوڑ اور بامیان صوبے میں گوتم بدھ کے دو دیوہیکل سنگی مجسموں کو ڈائنامائٹ سے اڑانے کے سوا صوفی مراکز یا مزارات پر حملوں کا کوئی بڑا واقعہ دیکھنے کو نہیں ملتا۔

مگر پاکستان کے قبائلی علاقوں میں جب مقامی طالبان نے زور پکڑا اور اس سے پہلے افغان سوویت جنگ کے زمانے میں بالحضوص خیبر پختون خواہ اور بلوچستان کے ان مدارس سے جو دیوبند کی علمی روایت سے غیر مطمئن ہو کر تکفیری نظرئیے کے تحت پروان چڑھے۔

ان مدارس سے فارغ التحصیل یا ان مدارس کے اساتذہ سے متاثر ہونے والے کالجوں اور یونیورسٹیوں کے طلبا نے نہ صرف شدت پسند تنظیمیں تشکیل دیں بلکہ گولی کو دلیل سے بدلنے کی کوشش کی اور اس کے جواز کے لیے نظریاتی لٹریچر کی تیاری اور اشاعت کا کام شروع کیا۔بجائے اس کے کہ ریاست یا مختلف مکاتیبِ فکر کے با اثر علما معاشرے کو جوڑنے کے بجائے منتشر کرنے کی ان کوششوں اور رجحانات کو پھیلنے سے روکنے کی بروقت فکری کوشش کرتے۔الٹا انھوں نے یا تو خاموشی میں عافیت جانی یا پھر خود بھی نئی ہوا کے ساتھ چل پڑے۔

چنانچہ نائن الیون کے بعد پاکستان میں ریڈیکلائزیشن کا عمل جتنا تیز ہوا اور اس کے توڑ کی کوششیں جتنی فرسودہ اور سست ہوتی گئیں اس کے نتیجے میں زندہ مخالفین کے ساتھ ساتھ قبروں کے مکین بھی لپیٹ میں آتے چلے گئے۔پہلے تحریکِ طالبان پاکستان اور القاعدہ کے ہم خیال نوجوانوں نے یہ کام شروع کیا۔ اور اب متشدد انداز میں نظریے کو حلق سے اتارنے والی جدید مشین داعش اور اس کی حلیف مقامی تنظیموں کی شکل میں متحرک ہو چکی ہے۔

پچھلے بارہ سال میں جتنے مزاروں اور درگاہوں کو نشانہ بنایا گیا ان کی تعداد گذشتہ آٹھ سو برس کی برصغیری تاریخ میں نشانہ بننے والی درگاہوںسے بھی زیادہ ہے۔اگر بڑی درگاہوں پر ہونے والے موٹے موٹے حملے ہی گننے بیٹھیں تو بلوچستان میں جھل مگسی کے علاقے میں پیر رکھئل شاہ کی درگاہ کو انیس مارچ دو ہزار پانچ کو نشانہ بنایا گیا۔اس خود کش حملے میں لگ بھگ پچاس افراد ہلاک ہوئے۔

ستائیس مئی دو ہزار سات کو اسلام آباد میں بری امام کے مزار پر خود کش حملے میں اٹھائیس جانیں گئیں۔گیارہ اپریل دو ہزار چھ کو نشتر پارک میں عید میلاد النبیؐ کے اجتماع پر حملے میں سنی تحریک اور جماعت اہلِ سنت کی تنظیمی قیادت صاف ہو گئی۔ لگ بھگ تریسٹھ ہلاکتیں ہوئیں۔( واضح رہے کہ اس وقت تک لال مسجد اسلام آباد آپریشن نہیں ہوا تھا جسے شدت پسندی میں پھیلاؤ کا کلیدی محرک بتایا جاتا ہے )۔

اٹھائیس دسمبر دو ہزار سات کو پشاور کے مضافات میں عبدالشکور ملنگ بابا کا مزار اڑا دیا گیا ، تین مارچ دو ہزار آٹھ کو گاؤں شیخاں میں ابو سعید بابا کے چار سو برس پرانے مزار پر خود کش حملے میں دس افراد ہلاک ہوئے۔پانچ مارچ دو ہزار نو کو پشتو ادب کے دماغ رحمان بابا کے مزار کو اڑا دیا گیا۔اسی مہینے  میں نوشہرہ میں بہادر بابا اور اپریل دو ہزار نو میں بونیر میں پیر بابا کے مزار پر حملہ ہوا۔یکم جولائی دو ہزار دس کو لاہور میں داتا دربار پر بم حملے میں پینتیس زائرین ہلاک اور پونے دو سو زخمی ہوئے۔

سات اکتوبر دو ہزار دس کو کراچی میں عبداللہ شاہ غازی مزار پر حملے میں آٹھ ہلاکتیں اور ساٹھ زخمی ہوئے۔اکتیس دسمبر دو ہزار پندرہ کو شکار پور میں امام بارگاہ پر خودکش حملے میں ساٹھ سے زائد ہلاکتیں ہوئیں۔بارہ نومبر دو ہزار سولہ کو خضدار میں شاہ نورانی کی درگاہ پر خود کش حملے میں تریسٹھ افراد ہلاک اور سو سے زائد زخمی ہوئے اور اب سیہون کی درگاہ پر حملہ۔اس پورے عرصے میں محرم اور دیگر بیسیوں مذہبی جلوسوں اور اجتماعات کو بھی نشانہ بنایا گیا۔

مطلب یہ ہوا کہ اب گفتگو کا دور ختم ہوا۔بات گالی سے شروع  اور گولی پر ختم ہوگی۔اب دلیل میں نہیں بم میں دم ہونا چاہیے۔اگر تو مزارات اور درگاہوں کا معاملہ کفر اور اسلام اور مشرک و مومن کا ہے تو پھر تو اتنی درگاہوں پر حملوں کے بعد وہاں جانے والے بیشتر زائرین کو عقل آجانی چاہیے تھی۔ مگر میں نے جن جن درگاہوں کا زکر کیا وہاں تو آج بھی زندگی پوری شد و مد سے جاری و ساری ہے۔ان درگاہوں اور مزاروں میں مدفون ہستیوں کے عمل میں کوئی تو ایسی بات ہوگی کہ لوگ اب بھی کھچے چلے جا رہے ہیں ، نعرے لگا رہے ہیں ، رقص کر رہے ہیں ، لنگر بانٹ رہے ہیں ، کھا رہے ہیں ، نقد نذرانے دے رہے ہیں ، قوالی پر حال کھیل رہے ہیں وغیرہ وغیرہ۔

میں ذاتی طور پر مزار پرست نہیں مگر کسی کو اگر کسی مزار پر جا کے آنند مل رہا ہے تو مجھے کیا ؟ کسی کا کوئی دکھڑا سننے والا نہیں اور وہ قبر کو اپنا دکھڑا سنا کے ہلکا ہو رہا ہے تو برا کیا ہے ؟  آخر مہنگے مہنگے ماہرینِ نفسیات کے پاس بھی تو لوگ دکھڑا سنانے ہی جاتے ہیں۔اگر میں کسی کو کھانا نہیں کھلا پارہا اور ہزاروں بھوکوں کا ان درگاہوں پر صبح شام پیٹ بھر رہا ہے تو میں کیوں جلوں ؟ اگر کوئی دھمال ڈال کر چند لمحے کے لیے اس دنیا سے کسی اور دنیا میں جانا چاہتا ہے تو میں کون ہوں اس کے قدم روکنے والا؟ جس کے صحن میں دیوانہ ناچ رہا ہے اسی کو برا نہیں لگ رہا تو میں اتنا برا کیوں مانوں گویا میرے صحن میں ناچ رہا ہو۔یہ ہستیاں جنھیں اس دنیا سے رخصت ہوئے سیکڑوں برس ہو گئے اگر آج بھی دکھ کی ماری خلقت کسی زندہ پرہیزگار عالمِ دین سے زیادہ ان قبر میں لیٹے ہوؤوں کو اپنے دکھ کا مداوا سمجھ رہی ہے تو زرا سوچئیے کہ اس خلقت کا دکھ کتنا بڑا ہے ؟

یہ ہستیاں اپنے لاکھوں کروڑوں چاہنے والوں کے لیے شائد اس لیے آج زندہ ہیں کہ انھوں نے اپنی زندگی میں کسی عقیدے سے نفرت نہیں کی ، کسی کے فنڈز سے کلاشنکوف خرید کر کسی کے سر پے رکھ کے اسے مسلمان نہیں کیا۔ان کے دستر خوان پر جو بھی آ جائے آجائے ، جو بھی دعا کے لیے ہاتھ اٹھانے کو کہے کہے ، مسلمان ہوگیا تو سو بسم اللہ نہ بھی ہوا تو مخلوقِ خدا تو ہے اور اسی سبب احترام ِ انسانیت کا حقدار بھی۔

تعجب ہے جب لشکرِ اسلام حجاز سے نکلا اور اسپین تا ہندوستان و وسطِ ایشیا تک پھیل گیا تو کسی فاتح صحابی یا سپاہ سالار کا خیال اس جانب کیوں نہ گیا کہ راہ میں آنے والی کسی غیرِ اسلام عبادت گاہ ، مجسمے یا مزار کو نہیں بچنا چاہیے۔اگر واقعی یہ رواج شرعاً جائز ہوتا تو آج طالبان کو بدھا کا مجسمہ اڑانے کے لیے کہاں نصیب ہوتا ؟ یا داعش اور اس کے علاقائی اتحادیوں کو کوئی بھی مزار یا درگاہ تباہ کرنے کے لیے کہاں سے ملتے ؟ تو کیا اسلاف کا ایمان آج کے مسلمانوں کے ایمان سے کم تھا ؟


تحریر۔۔۔۔وسعت اللہ خان

وحدت نیوز (اسلام آباد) وحدت یوتھ پاکستان کے زیر اہتمام ہمارا عزم’’خوشحال اور سرسبز پاکستان‘‘ کے عنوان سے شجر کاری مہم کا آغاز مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے پریس کلب کے سامنے پودا لگا کر کیا۔اس موقعہ پر مختلف سکولوں کے بچے اورمذہبی و سماجی شخصیات بھی موجود تھیں۔شرکا سے خطاب کرتے ہوئے علامہ راجہ ناصر عباس نے ملک کو آلودگی سے بچانے اور صحت افزا ماحول کو یقینی بنانے کے لیے شجر کاری کی ضرورت پر زور دیا۔اس مہم کے دوران اسلام آباد میں ایک ہزار اور ملک بھر میں ایک لاکھ پودے لگائے جائیں گے ۔انہوں نے کہا اس مہم کو قومی مہم میں بدلنے کی ضرورت ہے۔انتہا پسندی ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کر رہی ہے۔دہشت گردی کے خاتمے کے لیے تجاویز و آرا کے تبادلے اور فوجی عدالتوں کے قیام سے متعلق گفت و شنید کے لیے ایم ڈبلیو ایم نے آل پارٹیز کانفرنس بلانے کا فیصلہ کیا جو 28فروری کواسلام آباد میں ہو گی۔

وحدت نیوز (اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین کے شعبہ وحدت یوتھ پاکستان کے زیر اہتمام ہمارا عزم ’’خوشحال اور سرسبز پاکستان‘‘ کے عنوان سے شجر کاری مہم شروع کی جا رہی ہے۔ جس کے دوران ملک بھر میں ایک لاکھ پودے لگائیں جائیں گے۔ شجر کاری مہم کا افتتاح بروز ہفتہ  اسلام آباد پریس کلب کے سامنے مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری پودا لگا کر کریں گے۔ اسلام آباد کے ڈپٹی میئر ذیشان نقوی اور سی ڈی اے کے اعلیٰ افسران کے علاوہ نامور مذہبی، سیاسی و سماجی شخصیات موقع پر موجود ہوں گی۔ وحدت یوتھ پاکستان کے مرکزی رہنما وفا عباس کے مطابق پریس کلب تا بلیو ایریا ایک ہزار پودے لگانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ وحدت یوتھ خوشحال اور سرسبز پاکستان کی عملی تعبیر کے لیے پورے عزم کے ساتھ کوشاں ہے۔

وحدت نیوز (سہیون شریف) مجلس وحدت مسلمین صوبہ سندھ ضلع جامشورو کے زیر اہتمام درگاہ شریف حضرت لعل شہباز قلندر میں تحفظ مزارات  اولیاء اللہ کانفرنس رکن صوبائی اسمبلی بلوچستان آغا رضا نے کہا کہ پاکستان میں داعش کی سرگرمیاں بڑھتی جارہی ہے،سیہون میں دہشتگردی سے عوام میں تفرقہ ڈالنے کی کوشش کی گئی،ملک میں فرقہ واریت کی کوئی گنجائش نہیں، ملک میں سب سے زیادہ ملت جعفریہ کو دہشتگردی کا نشانہ بنایا گیا۔حکومت عوام کو تحفظ فراہم کرے ناکہ عوام کی مشکلات میں اضافہ کا سبب بنے،دہشت گردی اسکول مزارات اور بازار بند کرنے سے نہیں بلکہ دہشت گردوں کی پھانسی سے ختم ہوگی، اولیاء اللہ کے مزارات امن کے مراکز ہیں، یہاں دہشت گردی کرنے والے پاکستان کے دشمن ہیں، اسلام کے دشمن ہیں، ان کا قلع قمع کرنے کیلئے ضروری ہے آپریشن رد فساد کا دائرہ ان عناصر کی جانب بھی بڑھایا جائے کہ جن کو ضیائی اسٹیبلشمنٹ نے اپنے مفادات کے لئے پالا تھا، آج ان سے چھٹکارا حاصل کئے بغیر آریشن رد فساد کی کامیابی ممکن نہیں، کوئٹہ کے شہداء کے خانوادے سیہون شریف دھماکے کے شہداء کے ساتھ ہیں۔صوبائی حکومت عوام سے مخلص نہیں، سانحہ سیہون کے بعد صوبہ میں مریضوں کو بہترین طبی سہولیات فراہم کی جائے۔

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree