وحدت نیوز (لاہور) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری سیاسیات سید اسد عباس نقوی کا صوبائی سیکرٹریٹ لاہور میں اہلسنت جماعتوں کے رہنماوں پیر عثمان نوری سنئیر نائب صدر ملی یکجہتی کونسل پنجاب ،محسن گیلانی رہنما نوری فاونڈیشن پاکستان،علامہ جاوید اکبر ثاقی چئیرمین تحریک وحدت اسلامی پاکستان،ڈاکٹر امجد چشتی جنرل سیکرٹری جمعیت علمائے پاکستان نیازی گروپ سے ملاقات کی،ملاقات میں اہلسنت علماء نے ماہ مبارک ربیع الاول میں شیعہ سنی وحدت کے بے مثال عملی اقدامات پر مجلس وحدت مسلمین کے سربراہ علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کا شکریہ ادا کیا،اہلسنت علماء کرام نے موجودہ ملکی صورت حال اور مشرقی وسطی میں تکفیریوں کے شکست پر پاکستان میں داعش اور تکفیریوں کے ہمدروں کے پروپیگنڈے کی بھر پور مذمت کی۔اہلسنت رہنماوں نے مجلس وحدت مسلمین کی اتحاد امت کے لئے کوششوں کو سراہتے ہوئے اس عزم کا اظہار کیا کہ پاکستان میں انشااللہ شیعہ سنی مل کر تکفیریوں کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملادیں گے،اہلسنت رہنماوں نے یمن کے سمندری حدود میں پاکستانی بحری عملے پر سعودیوں کی حملے کی مذمت کرتے ہوئے پاکستانی حکومت کی خاموشی کو قابل تشویش قرار دیا انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ سعودی سفیر کو طلب کرکے بے گناہ پاکستانیوں کے قتل پر آل سعود سے احتجاج کرے۔

وحدت نیوز (راولپنڈی) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی رہنما و شوریٰ عالی کے رکن علامہ امین شہیدی نے راولپنڈی میں چہلم سید الشہدا امام حسین علیہ السلام کے مرکزی جلوس کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ چودہ سو سال قبل میدان کربلامیں سے اٹھنے والی ہل من ناصر ینصرنا کی آواز پر آج پوری دنیا لبیک یاحسینؑ کی صدائیں بلند کر رہی ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ حسینی آج بھی زندہ و بیدار ہیں۔انہیں جبر و استبداد سے دبانے کی کوئی کوشش کبھی کامیاب نہیں ہوسکتی۔اس وقت پاکستان سمیت دنیا بھر میں ملت تشیع کے خلاف وہ باطل قوتیں متحرک ہیں جن کی اصل دشمنی اسلام سے ہے ۔ شیعت کو اسلام کا مضبوط دفاع سمجھتے ہوئے وہ اسے نشانہ بنانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہیں۔ان قوتوں کے مقدر میں سوائے ناکامی کے اور کچھ نہیں ہے۔انہوں نے کہا آل سعود کی ایما پر پاکستان میں ہمیں دیوار سے لگانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ دہشت گردی کے واقعات کے ساتھ ساتھ ہمیں ریاستی جبر کا بھی سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ملک کے مقتدر شیعہ علما اوران فعال شخصیات کوریاستی ادارے انتقام کا نشانہ بنایا رہے ہیں جن کی حب الوطنی روز روشن کی طرح آشکار ہے۔گرفتاریاں اور اس طرح کے مذموم حکومتی ہتھکنڈوں کے ذریعے ہمیں حسینی مشن سے دور نہیں رکھا جا سکتا۔ حسینی فکر کے پیروکار حق کی راہ میں قربان تو ہو سکتے ہیں لیکن اپنے اصولی موقف سے کبھی دستبردار نہیں ہو سکتے۔انہوں نے کہا کہ ہمارا جرم محض اتنا ہے کہ ہم شیعہ ہیں، ہم یزیدیت کے خلاف آواز بلند کرنا جانتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان کا مقصد دہشت گردی کا خاتمہ تھا لیکن پولیس انتظامیہ دہشت گردوں کی بجائے پُرامن شہریوں کے خلاف استعمال کر کے اس قانون کی افادیت کو مشکوک بنا رہی ہیں۔ سپیکر ایکٹ کے تحت ان لوگو ن کے خلاف مقدمات درج کیے جا رہے ہیں جو سپیکر پر رواداری، حب الوطنی اورامن و آشتی کا درس دیتے ہیں جبکہ اس کے برعکس ان لوگوں کو کھلی آزادی حاصل ہے جو سپیکر کو شر انگیزی، مذہبی تعصب اورتفرقہ بازی کے لیے استعمال کرنے میں مصروف ہیں۔ یہ نیشنل ایکشن پلان سے انحراف اورآئین و قانون کی توہین ہے۔انہوں نے کہا کہ اس وقت دنیا بھر میں مسلمان مظالم کا شکار ہیں۔ کشمیر، فلسطین،یمن،نائجیریا اور شام سمیت ہم دنیا بھر کے مظلوموں کی بلا تخصیص مذہب و مسلک حمایت کرتے ہیں ۔سعودی عرب کے مقدسات کے خلاف میلی نظر سے دیکھنے والا مسلمان نہیں ہو سکتاہے۔ حرم شریف کا دفاع ہر مسلمان پر واجب ہے۔عالم اسلام کو یہ بات سمجھنا ہو گی کہ سعودی بادشاہت الگ چیز ہے اور حرمین شریفین الگ۔ سعودی حکومت اپنی بادشاہت کو بچانے کے لیے حرم کی آڑ میں چھپ کر مسلمانوں کو گمراہ کر رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ کعبہ کو مسلمانوں کے کسی مسلک سے خطرہ نہیں بلکہ ان عناصرسے خطرہ ہے جنہوں نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہ کے مزارات کو تباہ کیا، جنہوں نے رسول زادی سلام اللہ علیہا کے مقبرے کو مسمار کیا۔علما کے لبادے میں چھپے ہوئے مغربی استعمار کے یہ ایجنٹ اسلام کے لیے اصل خطرہ ہیں۔اس پُرتشدد فکر کو شکست دینے کے لیے عالم اسلام کی تمام معتدل مذہبی قوتوں کو ایک دوسرے کے قریب آنا ہو گا۔اسلام دشمن قوتوں کی شکست عالم اسلام کے اتحاد و اخوت میں مضمر ہے۔

وحدت نیوز(آرٹیکل) آل سعود کی حکومت اور برطانیہ:سلطنت برطانیہ اور آل سعود کے مابین تعلقات کافی پرانی ہیں بلکہ یوں کہیں تو غلط نہ ہوگا کہ آل سعود کی حکومت قائم ہوئی ہے تو وہ وہابیت کی تبلیغ اور برطانیہ کی مددسے ہوا ہے ۔ آل سعود نے مذہب وہابیت کے زریعہ عرب کے سادہ لوح مسلمانوں کو اپنا ہمنوا بنایا تو دوسری طرف برطانیہ کی غلامی کے طوق کو گلے میں پہن کر سیاسی اور عسکری مدد حاصل کی۔ عرب کی سرزمین پر خصوصا مکہ و مدینہ میں جو کہ مسلمانوں کے مقدس سر زمین ہے، برطانیہ بزات خود  یا براہ راست مداخلت نہیں کر سکتا تھا، لہذا برطانیہ کو ایک ایسے مسلمان نماء گروہ کی ضرورت تھی جو برطانوی ایجنڈے پر عمل پیراہوں اور عرب کی سر زمین پر برطانیہ کے مفادات کے تحفظ کو یقینی بنائیں۔ اس کام کے لے آل سعود سے بہتر کوئی نہیں تھا جو پہلے سے ہی عربوں اور مسلمانوں کے درمیان فسادات کا بیج بو چکا تھا اور مسلمانوں کا قتل عام کیا جارہا تھا۔ آل سعود کو بھی کسی طاقت کا سہارا چاہیے تھا تاکہ وہ عرب سے باقی سلطنتوں کا خاتمہ کر سکے اور ترکوں کو نکال کر اپنی حکومت قائم کر سیکں۔

آل سعود اور برطانیہ کے مابین پہلا معاہدہ ۲۶ دسمبر ۱۹۱۵ میں جزیرہ ڈرن میں طے پایا جس میں اس بات کو یقینی بنایا گیا کہ ال سعود کی حکومت کو برطانیہ مکمل تحفظ فراہم کرگا ۔ اس کے بعد ۲۰ مئی ۱۹۲۷ کو معاہدہ جدہ وجود میں آیا جو عبد العزیز اور برطانوی حکومت کے درمیان طے پایا اور عبد العزیز کی حاکمیت کو سلطنت حجاز اور نجد کے نام سے تسلیم کیا گیا۔

بر طانیہ پہلی ریاست ہے جنہوں نے ۱۹۲۶ میں آل سعودکے ناجائز قبضہ کو باقاعدہ حکومتی سطح پر تسلیم کیا اور سفارتی تعلقات شروع کئے، سعودی عرب نے ۱۹۳۰ میں اپنا سفارت خانہ لندن میں قائم کیا۔ اس کے علاوہ ۲۰۰ معاہدات سعودیہ اور برطانیہ کے مابین طے پائے جن کی لاگت ۱۷.۵ بلین ڈالر ہے اور تیس ہزار برطانوی شہری سعودی عرب میں تجارتی اور دوسرے زرائع میں کام کر رہے ہیں۔یہ صرف برطانوی اور سعودی عرب کے تعلوقات ہیں امریکہ اور دیگر اسلام دشمن ملکوں سے اس کے تعلوقات الگ ہیں۔

سعودی حکومت اور برطانوی غلامی کے انداز کو جعفر البکی اپنے ایک کالم میں کچھ اس طرح بیان کرتے ہیں کہ:
ـ"سلطنت بر طانیہ کے دور میں سلطان نجد عبدالعزیز السعود عراق میں موجود برطانوی ہاکمشنر پرسی کاکس کے سامنے اس طرح عزت و احترام سے اپنے سر کو جھکا دیتے ہیں اورانتہائی عاجزی سے کہتے ہیں کہ آپ کا احترام میرے لئے میرے ماں باپ کی طرح ہے، میں آپ کے احسان کو کبھی نہیں بھول سکتا کیونکہ آپ نے مجھے اس وقت سہارا دیا اور بلندی کی طرف اٹھایا جب میں کچھ بھی نہ تھا میری کچھ حیثیت نہیں تھی، آپ اگر ایک اشارہ کریں تو میں اپنی سلطنت کا آدھا حصہ آپ کو دوں۔۔۔۔۔۔نہیں ۔۔نہیں اللہ کی قسم اگر آپ حکم دیں تو میں اپنی پوری سلطنت آپ کو دینے کو تیار ہوں"۔

عبد العزیز نے یہ سب باتیں اکیس نومبر ۱۹۱۲ کو" العقیر کانفرنس ـ"میں اس وقت کہا جب سلطان نجد، سلطنت عراق اور سلطنت شیخین کویت کے سر حدوں کا تعین کیا جارہا تھا۔لہذا آل سعود کی حکومت کا برطانیہ اور عالمی طاقتوں کی غلامی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے آل سعود نے اپنی حفاظت کی ذمہ داری برطانیہ اور امریکہ کو دی ہوئی ہے اور وہ اس کے بدلے ان ممالک کو تیل فراہم کرتے ہیں اور مشرق وسطیٰ میں امریکہ برطانیہ اور اسرائیل کے مفادات کے تحفظ کی ذمہ داری اپنے ذمہ لی ہے، اس وقت عالم اسلام میں جو شدت پسند گروہ اور دہشت گرد ہیں ان کو آل سعود اور مغربی طاقتیں سپورٹ کرتی ہیں۔ آل سعود نے اپنے حکومت کو پھیلانے کے لئے ہر قسم کے ظلم و ستم کو رواں رکھا یہاں تک کہ انھوں نے شرعت محمدی ؐکو اپنے مفادات کی خاطر استعمال کیا اور اپنی حکومت کو وسعت دی اور اسلام میں شدت پسندی کو فروغ دیا۔ آل سعود کی شدت پسندی کا یہ عالم ہے کہ ان کے کام کافروں سے کم نہیں ہیں۔ یہود و نصای کا جو کام تھا وہ آل سعود نے عملی میدان میں کر دیکھا یا ہے۔ آل سعود نے وہابیت کے زریعہ اسلام کے دوشن چہرہ کو مسخ کیا وہابیت کے علاوہ تمام مذاہب کی توہین کی،حتاکہ اصحابہ کرام کی مزارات اور اہل بیت ؑ کے مزارات کی بھی توہین کی ہے۔ اسی سلسلے میں حال ہی میں ایک رپورٹ شائع ہوئی ہے جس میں آل سعودکی جانب سے پیغمبر اکرم(ص)، اہل بیت ؑ اور صحابہ کے مسمار شدہ مقامات کی سوسالہ قدیمی اسناد کے ساتھ ایسی تصاویر شائع ہوئی ہیں جن سے یہ واضح ہوتا ہے کہ آل سعود نے مکہ اور مدینہ میں پائے جانے والے تمام تاریخی اور اسلامی آثار کو منہدم کر دیا ہے حتیٰ کہ پیغمبر اکرم ؐ اور جناب خدیجہ کے اس گھر کو بھی مسمار کر دیا جس میں انہوں نے باہم زندگی گزاری۔ان اخباروں نے ۳ دسمبر ۱۹۲۰ میں شائع ہونے والے رسالے "الکفاح العربی" کے شمارے ۵۲۶ سے نقل کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس رسالے میں درج زیل تصاویر کے ساتھ لکھا ہوا ہے کہ آل سعود نے اس گھر کو مسمار کر دیا ہے جس میں پیغمبر ؐ دنیا میں تشریف لائے اور نیز اس گھر کو بھی منہدم کردیا جس میں انہوں نے جناب خدیجہ بن خولد کے ساتھ زندگی گزاری نیز وہ گھر جس میں جناب فاطمہ زہرا ؑ پیدا ہوئی جو مکہ کی گلی " زفاق الحجر" میں آل سعود نے منہدم کر دیا۔اس نادر سند سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ آل سعود جو خود کو اصحاب پیغمبر کا واحد حامی سمجھتے ہیں ان کے شر سے صحابہ کے مقامات بھی محفظ نہیں رہ سکے یہاں تک کہ " المسلفلہ" کے علاقے میں جناب ابو بکر صدیق کا گھر بھی گرادیا گیا۔مصر کے اخباروں نے اس سند کو فاش کر کے تاکید کی ہے کہ اس سند کو فاش کرنے کا مقصد یہ ہے کہ آل سعود ابھی بھی تکفیری ٹولے کی حمایت میں تاریخ اسلام کے باقی ماندہ آثار کو مٹانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جیسا کہ شام ،عراق ، لیبیا اور لبنان میں داعش کی صورت میں کر رہے ہیں۔واشنگٹن میں ایک تحقیقاتی ادارے نے بھی کچھ روز قبل یہ اعلان کیا تھا کہ سعودی حکومت نے گزشتہ ۲۰ سالوں میں ۱۹۵ ایسے تاریخی آثار اور مقدس مقامات کو منہدم کر دیا ہے جو ایک ہزار سال سے زیادہ پرانے تھے۔

مکہ مکرمہ اور آل سعود کاحملہ:مکہ مکرمہ کو روز اول سے دینی اور دنیاوی اعتبار سے مرکزیت حاصل رہی ہے اس لحاظ سے یہ تمام دنیا کے انسانوں کے لئے بالعمول اور اہل اسلام کے لئے بالخصوص تاریخی کشش رکھتا ہے اس لئے اس شہر مقدس کی تاریخ کافی پورانی ہے۔ اسلام سے پہلے بھی مکہ کو عرب میں مرکزیت حاصل تھی ارد گرد کے تمام تجارتی قافلوں کا مرکز تھا اس کے علاوہ مذہبی اعتبار سے بھی مرکزیت حاصل رہی۔

دین اسلام کی اشاعت کے بعد مکہ مکرمہ کی حیثیت مزید بڑھ گئی یہاں سے پیغمبر اسلام ؐ نے دعوت اسلام کا آغاز کیا اور جہالت میں ڈوبی عربی قوم کو ایک نئی زندگی بخشی، وقت کے ساتھ ساتھ عالم اسلام کا مرکز بھی مکہ ٹھہرا اور مسلمانوں کا قبلہ کعبہ بنا اور تمام مسلمانوں کے لئے قابل احترام قرار پایا اسی لئے مسلمانوں کا سرزمین مقدس سے دلی و جذباتی لگائو ہے۔ قرآن مجید میں اس سرزمین پاک کو مکہ ، بکہ اور ام القری جیسے ذی شان ناموں سے یاد کیا گیاہے۔ سورہ آل عمران، آیت:۹۶ میں ارشاد خداوند ہے "یقینا سب سے پہلا گھر جو تمام لوگوں کے لئے مقرر ہوا وہی ہے جو مکہ میں ہے، بابرکت اور سرمایہ ہدایت تمام جہانوں کے لئے"۔ مکہ مکرمہ میں مسجد الحرام، عرفات، مشعرالحرام اور سرزمین منیٰ اور دیگر اہم ترین مقامات مقدسہ موجود ہیں۔

ٓآل سعود نے جب عرب کے باقی علاقوں پر قبضہ کر لیا تو اس نے مکہ مکرمہ اور مدینہ کی طرف دیکھنے لگا اور کسی بہانے کی تلاش میں تھاتا کہ مکہ پر حملہ کر سکیں اور آخر کار جب عبد العزیز نے دیکھا کہ شریف غالب جنگ پر آمادہ ہے تو اس نے بھی لشکر کو مکہ کی طرف بھیجا، جب شریف غالب اور عبد العزیز کے درمیان جنگ چھڑی تو یہ جنگ تقریبا نو سال تک جاری رہی ۔۔۔جاری

تحریر: ناصر رینگچن

وحدت نیوز(آرٹیکل) تاریخ آل سعود:حجاز یمن کے شمال میں واقع ہے، حجاز ملک عرب کا و ہ حصہ ہے جسے اللہ نے نور ہدایت کی شمع فروزاں کرنے کے لئے منتخب کیا اور رسول اکرم حضرت محمد ؐ کا ظہور ہوا تو اس زمین کی حیثیت دنیا پر واضح ہوگئی اسلام کا روشن چہرہ عرب کی سر زمین پر طلوع ہوا اور ساری دنیا کو اپنے روشن دین اور عمل سے منور کیا۔ اس خطہ کا مرکزی شہر مکہ مکرمہ ہے جو بے آب وگیاہ وادیوں اور پہاڑوں پر مشتمل ایک ریگستانی علاقہ ہے۔ حجاز کا دوسرا اہم شہر یثرب ہے جو بعد میں مدینہ النبی ؐ  کہلایا اور مسلمانوں کی پہلی ریاست مدینہ منورہ بنا۔ جبکہ مشرق میں طائف کا شہر ہے ، حجاز میں بدر، احد، حدیبیہ اور خیبر کی وادیا بھی قبل ذکر ہیں۔رسول اکرم ؐ کی رحلت کے بعد ملک حجاز پر خلفاء راشدین نے حکومت قائم کی اور ۶۳۲- ۶۶۱ تک ان کی حکومت رہی اس کے بعد عالم اسلام میں مزید تقسیم پیدا ہوئے اور بنو امیہ نے سر اٹھایا اور انھوں نے ۶۶۱ سے ۷۵۰ تک حکومت کی، اس کے بعد ۱۵۱۷ سے ۱۹۱۶ تک سر زمین حجاز خلافت عثمانیہ کے قبضہ میں رہا، ۱۹۱۶ میں حسین ابن علی(جن کو شریف مکہ بھی کہا جاتا ہے) نے مملکت حجاز کے نام سے سلطنت کی بنیاد رکھی جو کہ ۱۹۲۵ میں آل سعود کی ہاتھوں ختم ہوئی اور آل سعود نے اپنے نام پر سعودی عرب کے نام سے نئی حکومت کی بنیاد رکھی جو ابھی تک باقی ہے۔
بعض تاریخ دانوں کا کہنا ہے کہ سعود خاندان انزہ قبیلہ سے ہے جو تقریبا ۱۴۵۰ میں نجد میں قیام پزیر تھے۔ اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ شروع میں یہودی تھے اور چالاک قسم کے جاگیر دار تھے۔
۱۹۶۰ کی دہائی میں صوت العرب(sawt al arab broadcasting station in Cairo ) قاہرہ مصر کے ریڈیو اسٹیشن اور یمن کے سنعا نشریاتی ادارے نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ سعودی شاہی خاندان کا تعلق یہودیوں سے ہے۔ سعودیہ کے بادشاہ فیصل جنہوں نے ۱۹۶۴ تا ۱۹۷۵ تک حکومت کی ہے۔ بادشاہ فیصل نے ستمبر ۱۹۶۹ میں واشنگٹن پوسٹ کو ایک انٹر ویو دیتے ہوئے کہا کہ ہم سعودی خاندان یہودیوںکے کزنز ہیں۔جن کا ثبوت آج ہم سعودیہ کے بادشاہ سلمان اور اسرائیل کے تعلوقات کی صورت میں دیکھ رہے ہیں۔
ال سعود کی تاریخ کچھ اس طرح شروع ہوتی ہے کہ شیخ محمد بن عبد الواہاب ۱۷۰۳ میںپیدا ہوئے ان کی شخصیت نے ملت اسلامیہ میں افتراق اور انتشار کا ایک نیا دروازہ کھولا اہل اسلام میں کتاب وسنت کے مطابق جو معمولات صدیوں سے رائج تھے انہوں نے ان کو کفر اور شرک قراردیا۔ صحابہ کی قبور کی بے حرمتی کی اور مسمار کیا ایصال ثواب کی تمام جائز صورتوں کی غلط تعبیر کی اور بہت سارے دین اسلام کے کاموں کو شرک قرار دیا اور جو بھی اس راستے میْن ان کے لئے رکاوٹ محسوس ہوا اُسے قتل کیا گیا۔ عبد الوہاب نے جس نئے دین کی طرف لوگوں کو دعوت دی وہ عرف عام میں وہابیت کے نام سے مشہور ہو ا اور ان کے پیروکاروں کو وہابی کہلانے لگے۔۱۷۴۴ میں ابن سعود اور عبد الواہاب کے درمیان اتحاد بنا جو کہ محمد بن عبد الوہاب کی بیٹی اور عبد العزیز جو کہ ابن سعود کا بیٹا تھا کی شادی کی صورت میں ہوئی۔ اب ہم مزید آگے بڑھنے سے پہلے وہابیت کی وجود کے بارے مختصر گفتگو کرتے ہیں۔


وہابی فرقہ کہاں سے اور کیسے وجود میں آیا؟؟سب سے پہلے وہابی فرقہ کو بنانے والا اور اس کی  نشرو اشاعت کرنے کے لئے انتھک کوشش کرنے والا شخص محمد بن عبد الوہاب ہے جو بارہویں صدی ہجری کے نجدی علماء  میں سے تھا۔لیکن یہ معلوم ہونا چاہئے کہ وہابیت کے عقائدکو وجود بخشنے والا یہ پہلا شخص نہیں ہے بلکہ صدیوں پہلے یہ عقیدے مختلف صورتوں میں ظاہر ہوتے رہے ہیں لیکن یہ ایک فرقہ کی صورت میں نہیں تھے اور نہ ہی ان کے زیادہ طرفدار تھے۔ان میں سے چوتھی صدی میں حنبلی فرقہ کے مشہور و معروف عالم دین ابو محمد بر بہاری نے قبور کی زیارت سے منع کیا لیکن خلیفہ عباسی نے اس مسلہ کی بھر پور مخالفت کی۔حنبلی علماء میں سے عبد اللہ بن محمد عکبری مشہور بہ ابن بطہ نے پیغمبر ؐ کی زیارت اور شفاعت کا انکار کیا۔اسی طرح اس کا یہ بھی عقیدہ تھا کہ اگر کوئی شخص انبیا اور صالحین کی قبور کی زیارت کے سفر کو عبادت مانے، اس کا عقیدہ اجماع اور سنت پیغمبر ؐ کے خلاف ہے۔ساتویں اور آٹھوں صدی کے حنبلی علماء کا سب سے بڑا عالم ابن تیمیہ ہے اور محمد بن عبد الواہاب نے اکثر اور اہم عقائد اسی سے اخذ کئے ہیں۔عبد الوہاب کا سب سے اہم کارنامہ یہ تھا کہ اپنے عقائد کو ظاہر کرنے کے بعد ان پر ثابت قدم رہا اور ہبت سے نجدی حکمرانوںکو اپنے ساتھ ملالیا اور ایک ایسا فرقہ بنالیا جس کے عقائد اہل سنت کے چاروں فرقوں سے مختلف تھے۔ اور آل سعود نے اسی فرقہ کی بنیاد پر اپنی حکومت کو مستحکم کیا اور آج تک اسی کے سہارے اپنی حکومت بر قرار رکھا ہوا ہے ۔(تاریخ وہابیت، ص ۱۴)
ابن سعود جو کی پہلے سے ہی موقع کی تلاش میں تھا کہ وہ اپنے قبیلے سے نکل کر حکومت کی دائرہ کو وسیع کریں، عبد الواہاب سے اتحاد سے اس کی یہ دیرینہ خواہش پوری ہوئی اور عبد الواہاب نے مذہبی وزیر کی حیثیت سے اس دین کو پھیلانا شروع کیا تاکہ اس کے پیچھے وہ اپنے سیاسی اور عسکری اہداف کو حاصل کر سیکیں، جو بھی شخص وہابیت قبول کرتا  اسے امان ملتی اور جو مخالفت کرتا اس کے خلاف جہاد کا فتوی دے دیتے ۔ اس طرح آل سعود اور عبد الوہاب نے اسلام کی اشاعت اور مسلمانوں کی اصلاح کے نام پر اپنی ریاست کی سرحدوں کو وسیع کرتے گئے اور بلا آخر ۱۸۳ کے عرصہ میں یعنی ۱۷۴۴-۱۹۲۷  تک انھوں نے وہابی مذہب کے سہارے جزیرہ نما عرب میں موجود تمام قبائل اور مسلمانوں اور ترکوں سے جنگ کی اور بلا آخر عبد العزیز کو ۱۸۹۰ میں الراشد نے شکست سے دوچار کیا اور وہ اپنے اہل و عیال کے ساتھ کویت چلے گئے۔ انیس سو ایک میں عبد العزیز نجد سے واپس آیا اور کویت کی مدد سے ۱۹۲۷ میں اپنے آپ کو بادشاہ قرار دے کر سر زمین حجاز میں سعودی عرب کے نام سے ریاست قائم کی۔۔۔۔جاری

تحریر :ناصر رینگچن

.........شہید منیٰ ...........

وحدت نیوز (آرٹیکل) حجت الاسلام غلام محمد فخرالدین22نومبر 1971ء اسکردوکے ایک مذہبی گھرانے میں پیدا ہوئے۔مرحوم کے والدایک دین دار ،ذاکر اہل بیت،دور اندیش اور سخی انسان تھے۔ شہید نیابتدائی تعلیم اپنے آبائی گاؤں قمراہ سے حاصل کی۔۵سال کی عمر میں اپنے علاقے کے معروف استاد اخوند احمد سے قرآن سیکھنا شروع کیا۔استاد مذکور سے علوم اسلامی، احکام اور بوستان وگلستان سعدی بھی پڑھی۔ میٹرک کی تعلیم ہائی سکول سکردو سے حاصل کی۔اور پھر گورنمنٹ ڈگری کالج سکردو سے انٹرمیڈیٹ اور گریجویشن کی تعلیم مکمل کی۔ موصوف کا نام کالج کے ممتاز طلباء میں شامل ہوتا تھا۔ان کے دوستوں کے بقول وہ شروع ہی سے اسلامی آداب کے پابند، محنتی اور عظیم شخصیت کے مالک تھے۔


آپ کالج دور میں آئی ایس اوپاکستان بلتستان ڈویژن کے صدر رہے۔تحریک جعفریہ بلتستان سکردو کے جنرل سکریٹری بھی رہے۔پچھلے دو سالوں سے مجلس وحدت مسلمین قم کے سیکریٹری جنرل کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دے ہے تھے۔


پاکستان بالخصوص گلگت بلتستان کے مختلف علاقوں کے لوگ ان کی مدبرانہ،عالمانہ اورمبارزانہ زندگی کی وجہ سے ان کے گرویدہ تھے۔ وہ عمر بھر اتحاد بین المسلمین کے لیے عملاََکوشاں رہے۔ تمام مسالک و مذاہب کے لوگوں نے ان کی شہادت پر افسوس کا اظہار کیا۔


علمی سفر:۔ایک طرف آپ کو دینی تعلیم حاصل کرنے کا شوق تھا دوسری طرف آپ اپنے والدین کے اکلوتے فرزند تھے اس لئے بوڑھے والدین کو چھوڑ کرکہیں اور جانا بہت مشکل مرحلہ تھا۔ لیکن آپ کے والدین کو بھی اس بات کا احساس تھا کہ آپ کو علم دین حاصل کرنے کا بے حد شوق ہے۔ انھوں نے نہ صرف اس بات کی اجازت دی بلکہ ان کی رضامندی سیگریجویشن کے بعد ۵۹۹۱میں اعلیٰ دینی تعلیم یعنی علوم محمد وآل محمد کے حصول کے لیے حوزہ علمیہ قم تشریف لے گئے جہاں آپ نے محنت، لگن اور دیانتداری کے ساتھ کم وقت میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔رواں سال ۸۲ جنوری کوجامعہ المصطفیٰ العالمیہ ،قم سے اعزازی نمبروں کے ساتھ ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ آپ کے اساتید میں آیت اللہ جوادی آملی، آیت اللہ وحید خراسانی، آیت اللہ معرفت، آیت اللہ غلام عباس رئیسی، حجت الاسلام سید حامد رضوی، ڈاکٹرمحمد علی رضائی، ڈاکٹر محمد حسن زمانی وغیرہ شامل ہیں۔ مرحوم نے سیر و سلوک اور عارفانہ مراحل کے لیے حضرت آیت اللہ بہجت سے کسب فیض کیا۔ حوزہ علمیہ قم میں علم اصول، علم فقہ، علم حدیث، علم رجال، فلسفہ، کلام، ادبیات عرب، علوم قرآنی وتفاسیر اور دیگر علوم سے اپنا دامن بھرا۔ ظاہری علوم کے ساتھ اخلاقی، باطنی اور عرفانی کمالات کی طرف بھی بھر پور توجہ دی۔ حصول علم کے ساتھ تدریس وتالیف کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ آپ نے ملک بھر میں مختلف مقامات پر اخلاقی، تربیتی اور تبلیغی دروس کا ایک موثر سلسلہ بھی شروع کر رکھا تھا۔


شہید نے درج بالا شعبوں کے علاوہ قومی اور اجتماعی میدان میں بھی زمانہ طالب علمی سے شہادت تک بڑھ چڑھ کر حصہ لیااور ہر میدان میں اپنی علمی اور سیاسی بصیرت کی وجہ سے کامیاب وکامران رہے۔
علمی دنیا میں ابتدا سے ہی آپ کا رجحان علومِ دینیہ کی طرف تھا۔ طالب علمی کے دور میں آپ کو مذہبی سکالر بننے کا شوق تھا۔ کالج کیدور میں تنظیمی دوستوں اور کالج فیلوز کے ساتھ اکثر علمی موضوعات پر گفتگو کرتے رہتے تھے۔ بسا اوقات بحث اس حد تک طول پکڑتی کہ موضوع کی پیچیدگیوں کو سلجھانے اور اس کے حل کے لیے علماء کرام سے بھی رجوع کرنا پڑتا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ رمضان المبارک میں قتل گاہ مسجد میں درس اخلاق کے لیے حجتہ الاسلام شیخ یوسف کریمی تشریف لاتے تھے ان سے مختلف موضوعات پر استفادہ کرتے رہتے تھے۔ان کے علاوہ حجتہ الاسلام آقا علی رضوی، حجتہ الاسلام شیخ اصغر حکمت کے پاس علمی تشنگی بجھانے کے لییکثرت سے حاضر ہوتے۔


آپ ؒ علمی میدان میں آیت اللہ العظمیٰ سید ابوالقاسم خوئی اعلی اللہ مقامہ، شہید محراب آیت اللہ سید محمدباقر الصدر اعلی اللہ مقامہ اور آیت اللہ استاد شہید مطہری اعلی اللہ مقامہ کے گرویدہ تھے۔
جب تک ان کی رفاقت میسر رہی اور انھیں قریب سے دیکھنے کے جتنے بھی مواقع میسر آئے میں نے ہمیشہ ان میں مشکلات، مسائل اور رکاوٹوں سے مقابلہ کرتیہوئے منزل کی
طرف بڑھنے کا ایک خاص جذبہ دیکھا۔ مقصد کو پانے کے بعد ان کے چہرے پر طمانیت اور سرور کی جو کیفیت ظاہر ہوتی وہ ہمیشہ قابل دید ہوتی۔ ریاکاری، نمود ونمائش اور طمع وخود غرضی سے بالاتر ہو کر ہمیشہ اجتماعی مفادات اور خدمت کے جذبے سے سرشار ہو کر آگے بڑھتے تھے۔آپ دینی علوم سے خاص شغف رکھتے تھے یہی وجہ ہے کہ طالب علمی کے زمانے سے ہی آپ اخوند کے نام سے پہچانے جاتے تھے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ سکول اور کالج میں منعقدہ تقریری اور قرائت کے مقابلوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھیاور نمایاں پوزیشن بھی حاصل کرنے میں کامیاب ہوتے۔اچھے قاری ہونے ساتھ ساتھ آپ فن خطابت میں بھی اپنی مثال آپ تھے۔آپ کی تقاریر ہمیشہ فکر انگیز اور حالات حاضرہ کے مطابق ہوتیں۔ کالج کے زمانے میں آپ کی خطابت کا بڑا چرچارہا۔ یوم القدس کا پروگرام ہو یا یوم الحسین کا جلسہ اخوند صاحب کی تقاریر حالات وواقعات سے آگاہی کی وجہ سے سب پر بھاری تھیں۔ آپ ایک انقلابی سوچ کے مالک تھے۔ یہی وجہ ہے واقعہ کربلا ، انقلاب اسلامی اورنظام ولایت فقیہ آپ کے پسندیدہ موضوعات میں سے تھے۔اس کے علاوہ امام خمینی ؒ اور رہبر معظم سے عشق کی حد تک لگاؤ رکھتے تھے۔


ایام مجالس عزا میں آپ مومنین کو عصر حاضر کے مسائل اور ذمہ داریوں سے متعلق آگاہ کرتے رہے۔ اپنی گفتگو کے لیے ہمیشہ کلام خدا اور احادیث رسول سے استنباط کرتے اس کے علاوہ آپ کی تقریروں کی خاص بات یہ تھی کہ آپ نہج البلاغہ پر بھی عبور رکھتے تھے اس لیے کلام امام سے بھی مومنین کو مستفید کرتے تھے۔ دستہ امامیہ کے زیر اہتمام عاشورا ئے محرم وعاشورا ئے اسد میں حسینی چوک پر آپ کا خطاب سننے کے لیے ہزاروں عاشقان کربلاگھنٹوں آپ کا انتظار کرتے تھے۔اس کے علاوہ عشرہ محرم میں آپ سے کسب استفادہ کرنے کے لیے لوگوں کی کثیر تعداد جمع ہوتی تھی۔ پچھلے تین چار سالوں سے عشرہ محرم لاہور میں تین چار جگہوں پر پڑھتے رہے۔اس سال بھی حج سے واپسی پر عشرہ محرم لاہور میں دو تین مقامات پر پڑھنے کا پروگرام ترتیب دے رکھاتھا لیکن آپ ومن یھاجر الی اللہ ورسولہ۔۔۔۔۔۔۔۔ کا مصداق بن گئے اور سانحہ منیٰ میں اس دنیا سے ہمیشہ کے لیے امر ہوگئے۔خوف خدا اور عزاداری سید الشہدا میں آپ کا گریہ کرنا اور آنسو بہانا۔۔۔قابل دید تھا۔آپ دعائیہ اجتماعات میں گریہ وزاری کے ساتھ اللہ سے رازونیاز کرنے کا خاص سلیقہ رکھتے تھے۔ دعائے کمیل پڑھنے کا انداز بھی دل ودماغ کو مسحور کرنے دینے والا ہوتا تھا۔ان کی معیت میں پڑھی گئی دعائیں آج بھی کانوں میں رس گھولتی ہیں۔ آپ شب زندہ دار اور دن کے روزہ دار تھے۔ عشق الہی سے سرشار ہو کر کئی بار حج کی سعادت نصیب ہوئی۔اسی عشق کا تقاضا تھا کہ آپ حالت احرام میں داعی اجل کو لبیک کہتے ہوئے بارگاہ الہی میں حاضر ہوئے۔
زمانہ طالب علمی ۰۹۹۱،۱۹ میں آئی ایس اوپاکستان بلتستان ڈویڑن کیفعال صدر رہے۔دو سال آئی ایس او پاکستان بلتستان ڈویڑن کی ذیلی نظارت کے بھی رکن رہے۔ آئی ایس او کے جوانوں کے ایک بہترین مربی تھے ان کی امیدیں آپ سے وابستہ تھیں۔ آپ ہر میدان میں ان کی رہنمائی کرتے تھے۔ پاکستان میں قائد شہید علامہ عارف حسین الحسینی ؒ اور شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی اور عالمی سطح پر عالم مبارز قائد مقاومت سید حسن نصراللہ کو آپ اپنا آئیڈیل سمجھتے تھے۔


گلگت بلتستان کی سیاست پر آپ کی گہری نظر تھی1991میں گلگت بلتستان الیکشن سیبائیکاٹ کے دوران طلباء رہنما کی حیثیت سے قائد گلگت بلتستان علامہ شیخ غلام محمد الغرویؒ اور علامہ شیخ محمد حسن جعفری کے شانہ بشانہ پورے گلگت بلتستان کا دورہ کیا۔ ان دورہ جات میں شہید ایک ایسے سخن ور کے طور پر سامنے آئے جو لوگوں کے دلوں کو موہ لینے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ گویا اللہ نیانھیں فصاحت وبلاغت اور دلیل ومنطق کے ذریعے مسائل کو بیان کرنے کی ایک خاص مہارت ودیعت فرمائی تھی۔ لوگوں کو قائل کرنے اور ان میں تحرک پیدا کرنے میں آپ کا کوئی ثانی نہ تھا۔
آپ پچھلے دو سالوں سے مجلس وحدت مسلمین قم کے سیکریٹری جنرل کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دے رہے تھے۔مجلس وحدت کے قیام سے جام شہادت نوش کرنے تک آپ مرکزی رہنما کی حیثیت سے گلگت بلتستان، پاکستان اور پاکستان سے باہر مختلف فورمز پر قوم وملت کی نمائندگی کرتے رہے۔ مجلس وحدت کے قائدین کی قوم وملت کے لیے خدمات کو آپ قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ عرفات کے میدان سے علامہ امین شہیدی کو پیغام حج دیا اور دشمنوں کے شر سے ان کی حفاظت کی خصوصی دعا کی۔


دہشت گردی کے خاتمہ کے لیے بھی اپنی تقریرں اور تحریروں میں نہ صرف صدائے احتجاج بلند کی بلکہ ارباب حل وعقدکو اس کے حل کے لیے ٹھوس مشورے بھی دیے۔ اور ان سے ہمیشہ یہ اپیل کرتے کہ ملک سے اس ناسور کو ختم کرنے کے لیے گراس روٹ لیول پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح فرقہ واریت کو ختم کرنے کے لیے آپ تنگ نظری، تعصب اور مسلکی ہمدردیوں سے بالاتر ہو کر علمی اور عقلی دلیلوں کے ذریعے دوریوں کو ختم کرنے کے قائل تھے۔ آپ نہ صرف تقریب مذاہب کے قائل تھیبلکہ اتحاد امت کو عالم اسلام کی تمام مشکلات کا واحد حل قرار دیتے تھے۔آپ مزاجا سب کو لے کر چلنے کی صلاحیت رکھتے تھے یہی وجہ ہیکہ کالج لائف میں آپ کے حلقہ احباب میں اہل سنت اور اہل حدیث برادران بھی شامل تھے۔بعض اوقات کلاس کے بعد فارغ اوقات میں ان کے ساتھ مختلف موضوعات پر ڈسکشن کرتے تھے اور ان کے علماء سے ملاقات کے لیے ان کے مراکز میں جایا کرتے تھے۔


زمانہ طالب علمی سے جام شہادت نوش کرنے تک قومی اور اجتماعی مسائل کے حل کے لیے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور ہر میدان میں اپنی علمی اور سیاسی بصیرت کی وجہ سے کامیاب
وکامران رہے۔ قومی ،ملی اور مذہبی امور کی انجام دہی کی پاداش میں آپ کو پس زندان بھی ڈالا گیا مگر آمر اور ظالم لوگوں کے سامنے کبھی نہیں جھکے۔ ہمیشہ کلمہ حق بلند کرتے رہے۔
جامعہ المصطفٰی میں نہ صرف پاکستانی طلاب کی نمائندگی کرتے تھے۔بلکہ عملی اور تحقیقی کاموں میں ان کا ہاتھ بٹاتے تھے۔ کوتاہ مدت میں آپ استاد کا درجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ حوزہ علمیہ قم میں آپ تسلسل کے ساتھ لیکچر بھی دیا کرتے تھے۔ جن میں طلبا کی کثیر تعداد ذوق وشوق کے ساتھ شریک ہوتے۔ بین الاقوامی سطح کے متعددسیمینارز میں مقالے بھی پڑھے۔
سفر آخرت:۔سانحہ منیٰ کے بعد سے آپ کی شہادت کی خبر آنے تک پاکستان بالخصوص گلگت بلتستان میں جگہ جگہ آپ کی صحت وسلامتی کے لیے دعائیہ محافل کا سلسلہ جاری رہا جب طلوع ماہ محرم کیساتھ ہی آپ کی شہادت کی خبر نے پاکستان بالخصوص گلگت بلتستان میں صف ماتم بچھ گئی۔ہرطرف ایک کہرام مچ گیا۔


بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رْت ہی بدل گئی
اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا
شہید سے راقم کی آخری ملاقات سفر حج روانگی سے ایک دن پہلے سکردو میں ہوئی تھی۔
بدلا نہ تیرے بعد بھی موضوع گفتگو
تو جاچکاہے پھر بھی میری محفلوں میں ہے

 

تحریر ۔۔۔۔۔محمد علی (اسکردو۔بلتستان)

وحدت نیوز (ٹھٹھہ) مجلس وحدت مسلمین ٹھٹھہ کے زیراہتمام پریس کلب ٹھٹھہ کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا گیا ۔ مظاہرے کی قیادت مجلس وحدت مسلمین ضلع ٹھٹھہ کے سیکریٹری جنرل سید اسداللہ شاھ نے کی ۔ مظاھرین شرکاء نے ہاتھوں نے پلے کارڈز اور بینئرز اٹھا رکھے تھے، جن پر دہشتگردی کے خلاف نعرے درج تھے۔ احتجاجی مظاہرے سےسید اسداللہ شاھ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مقدس مقامات کی توہین کرنے والوں کا اسلام اور انسانیت سے کوئی تعلق نہیں سر زمین حجاز پر مقامات مقدسہ کا احترام اور حفاظت مسلم امہ کی ایمان کا حصہ ہے چندعرب اور طاغوتی طاقتوں کے پالے ہوئے دہشت گرد آج عالم اسلام کے مقامات مقدسہ کونشانہ بنا کر امت مسلمہ کوکھلے عام چیلنج کر رہے ہیں، آل سعود نے اپنے اقتدار کی بقا اور تحفظ کو حرمین شریفین سے جوڑ کر کے عالم اسلام کے جذبات کو ہمیشہ مجروع کیاہے۔دنیا کے مسلمانوں پر یہ حقیقت آشکار ہو چکی ہے کہ حرمین شریفن اور خادمین دونوں مختلف ہیں۔شام ،یمن، فلسطین، بحرین سمیت دنیا کے جن جن اسلامی ممالک میں نفرت و خونریزی کی آگ بھڑکی ہوئی ہے اس میں عرب ممالک ملوث رہے ہیں۔

Page 6 of 14

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree