وحدت نیوز (چوک اعظم) مجلس وحدت مسلمین چوک اعظم کے سیکرٹری جنرل مصور خان نے سعودی حکومت کے ہاتھوں ممتاز عالم دین آیت اللہ شیخ باقر النمرکی شہادت پر گہرے غم و غصے کا اظہارکرتے ہوئے ۔انہوں نے کہا ہے کہ سعودی حکومت کی اس بربریت اور وحشیانہ اقدام نے عالم اسلام کی سب سے بڑی دہشت گرد حکومت کا چہرہ آشکار کر دیا ہے۔شیخ باقر النمر اتحاد بین المسلمین کے حقیقی داعی تھے۔انہوں نے امت مسلمہ کے خلاف امریکہ اور اسرائیل کے غاصبانہ تسلط کی ہمیشہ مذمت کی۔انہوں نے کعبہ کی مقدس آمدن کو شراب و کباب اور عالم اسلام کی تباہی پر خرچ کرنے کے خلاف آواز بلند کی ۔انہیں سعودی عرب کے بادشاہوں کی حکومت نے موروثی بادشاہت کے اس غیر اسلامی نظام کو تنقید کا نشانہ بنانے کی پاداش میں موت کی سزا سنا دی۔ یمن ،شام سمیت دنیا کے بیشتر ممالک میں جمہوریت کے فروغ کے لیے اپنے تمام تر وسائل فراہم کرنے والے ملک سعودی عرب میں اپنے شہری کو اظہار رائے کی بھی آزادی حاصل نہیں۔اقوام عالم کو اس واقعہ کا سخت نوٹس لینا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ سعودی عرب میں شیخ نمر کی شخصیت ہر دلعزیز،قابل احترام اور غیر متنازعہ تھی۔سعودی حکومت اپنے اس اقدام سے عرب میں اٹھنے والے مختلف تحاریک کو دبانے کی مذموم کوشش کی ہے جو آل سعود کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوں گے۔سعودی حکومت کے جارحانہ اقدام دنیا بھر میں سعودی حکومت کے خلاف نفرت میں اضافے کا باعث بن رہے ہیں۔امت مسلمہ کو اس حقیقت کا ادراک ہو چکا ہے کہ سعودی حکومت استعماری طاقتوں کے گٹھ جوڑ سے امت مسلمہ کے مفادات کے خلاف سرگرم ہے۔شیخ باقر سمیت سینتالیس افراد کے سرقلم کرنے کے احکامات پر عمل درآمد سعودی رعونت کا عملی اظہار ہے ۔

وحدت نیوز (لیہ) مجلس وحدت مسلمین ضلع لیہ کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل سید عدیل عباس شاہ نے کہا ہے کہ شہید آیت اللہ شیخ باقر النمر کی شہادت فرقہ وارانہ نہیں، انسانی مسئلہ ہے، اس معاملہ کو شیعہ، سنی مسئلہ کا رنگ نہ دیا جائے۔ اپنے ایک بیان میں ان کا کہنا تھا کہ سعودی حکومت نے آیت اللہ شیخ باقر النمر سمیت 47 افراد کو بے گناہ شہید کرکے ظلم عظیم کیا ہے، جس کی دنیا بھر کے نہ صرف اہل تشیع بلکہ ہر مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے نے شدید مذمت کی ہے، شہید شیخ باقر النمر کا قصور صرف یہی تھا کہ انہوں نے آل سعود کی بادشاہت اور مظالم کیخلاف آواز حق بلند کی، شہید نے ہمیشہ مسلمانوں کے مابین اتحاد و وحدت کی بات کی، ان کا مزید کہنا تھا کہ حکومت پاکستان سعودی عرب اور ایران کے مابین کشیدگی کم کرانے کیلئے کردار ادا کرے، اور 34 رکنی اتحاد سے خود کو الگ رکھے، کیونکہ شیخ باقر النمر کی شہادت اس اتحاد کا پہلا تحفہ ہے۔ انہوں نے بعض اخبارات میں شیخ باقر النمر کو ایرانی عالم دین قراردینے کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ شیخ باقر النمر کا تعلق سعودی عرب سے تھا، اور ان کا شمار سعودی عرب کے معروف علمائے کرام میں ہوتا تھا۔

وحدت نیوز (گلگت) تمام دہشت گرد تنظیموں کے تانے بانے آل سعود کی ناجائز حکومت سے ملتے ہیں،سیاسی مخاصمت کی بناء پر آیت اللہ باقر النمر کو تختہ دار پر چڑھاکر سعودی حکمرانوں نے اپنی شدت پسندی کا ثبوت فراہم کیا ہے۔شام، عراق،بحرین ،یمن اور افغانستان میں دہشت گردی کا بازار گرم کرنے والے تمام دہشت گرد گروہوں کی آل سعود سپانسر کررہے ہیں۔

مجلس وحدت مسلمین گلگت بلتستان شعبہ خواتین کی کوارڈینیٹر خانم سائرہ ابراہیم نے اپنے ایک بیان میں آیت اللہ باقر النمر کی پھانسی پر آل سعود کی سخت مذمت کرتے ہوئے کہا کہ شہید باقر النمر کی شہادت سے سعودی عرب میں بیداری کی لہر میں مزید اضافہ ہوگا۔آیت اللہ باقر النمر نے ریاستی ظلم و ستم کے خلاف آواز بلند کی تھی اور آل سعود کے صیہونی ریاست سے درپردہ تعلقات پر سے پردہ اٹھایا تھا۔ان کاجرم صرف یہ تھا کہ انہوں نے برسوں سے سعودی عرب پر مسلط شخصی اقتدار کو چیلنج کیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ دنیا حقائق کو پیش نظر رکھے اور اندھے پن میں سعودی حکمرانوں کی سپورٹ کرنے کی بجائے مظلوم کا ساتھ دینا چاہئے۔عرب ممالک میں شہنشاہیت اور شخصی حکومتیں قائم ہیں جہاں انسانی حقوق سلب کئے جارہے ہیں جن کے بارے میں انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں بار ہا احتجاج کرتی رہی ہیں۔یمن میں ایک شخصی حکومت کی بحالی کو بہانہ بناکر مظلوم یمنی عوام پر کرائے کے فوجیوں سے قتل و غارت کا بازار گرم کیا ہوا ہے اس کے علاوہ بھی ان کے گھناؤنے جرائم کی تفصیل بہت لمبی ہے۔انہوں نے کہا کہ باقر النمر کا قتل نفس ذکیہ کا قتل ہے ان کا خون ناحق آل سعود کو صفحہ ہستی سے نابود کردے گا۔انہوں نے حکومت پاکستان کی اس ناحق ظلم پر خاموشی کو انتہائی مضحکہ خیز قرار دیا اور مطالبہ کیا حکومت سعودی اتحاد سے باہر نکل جائے اور ایک طاقتور اسلامی ملک ہونے کے ناطے آل سعود کی حمایت کرنے کی بجائے مسلم ممالک کے مابین ثالثی کا کردار ادا کرے۔

وحدت نیوز (قم) امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کے مرکزی صدرعلی مہدی نے وفدکے ہمراہ مجلس وحدت مسلمین شعبہ قم المقدس کے دفترکا دورہ کیا، وفدمیں سابق مرکزی صدرعادل بنگش اور فرزند شہیدڈاکٹر محمد علی نقوی سید دانش نقوی سمیت دیگر بھی شامل تھے، اس موقع پر دوطرفہ تنظیمی امور پر گفتگو کی گئی اور سیاسی صورتحال،تنظیمی نظم و نسق اورتعلیم و تربیت جیسے امور زیرِ بحث لائے گئے، ایم ڈبلیوایم شعبہ قم کے سیکریٹری جنرل علامہ گلزار جعفری نے معززمہمانان گرامی کا آمد پر شکریہ ادا کیا،ملاقات کے بعد ایم ڈبلیو ایم قم کی طرف سے مہمانوں کے اعزاز میں عشائیہ بھی دیاگیا۔

وحدت نیوز (آرٹیکل) سادہ لوحی کی بھی انتہاہوتی ہے،ہمارے ہاں کے سادہ لوح پاکستانی  خادمین حرمین شریفین کا نام دے کر  سعودی بادشاہوں کو خلیفۃ اللہ کہہ رہے ہیں  ہیں  جبکہ ہمارے ہاں کے خود غرض اور سعودی نمک خوار سعودی بادشاہوں کی اتباع کو دینِ اسلام کہہ رہے ہیں ۔حقیقت یہ ہے کہ سعودی حکمرانوں کا ایجنڈا ہر ممکنہ طریقے سے  اسرائیل کے بچاؤ اور امریکہ  کے اہداف کو پایہ تکمیل تک پہنچانا ہے۔

سعودی حکمرانوں کو اللہ اولیائے اللہ اور دینِ اسلام سے کوئی ہمدردی نہیں،انہیں کسی مسلمان،کسی ولی خدا اور کسی اسلامی مسلک پر کبھی رحم نہیں آتا۔ان کی ساری ہمدردیاں یہودیوں،عیسائیوں اور کفار سے وابستہ ہیں۔ شاید آپ کو تعجب ہورہاہو یا آپ مجھے ایک متعصب شخص سمجھ رہے ہوں لیکن اس میں تعجب یا تعصب کی کوئی بات ہی نہیں۔آپ خود سے تحقیق کر کے دیکھ لیں۔

ایک قاعدہ ہے" کل شیئ یرجع الی اصلہ" ہر چیز اس کی اپنی اصل کی طرف پلٹتی ہے۔ آل سعود کی اصل یہودیت ہے  اور موجودہ آل سعود کے آباو ادجداد کا تعلق خیبر کے یہودی قبیلے عنزہ یا ہمان سے ہے۔ (1) اور قرآن مجید بھی یہود کو مسلمانوں کا ابدی دشمن قرارد ے رہا ہے۔ (2) یہ لوگ کبھی مسلمانوں کا خیرخواہ قرار پانہیں سکتے۔ آج کل عالم اسلام کو جتنی مشکلات کا سامنا ہے ان سب کی بازگشت سعودی حکومت کی طرف پلٹتی ہے۔ نائجیریا میں سینکڑوں افراد کے قتل کا مسئلہ ہو یا یمن میں آٹھ ہزار سے زائد بے گناہ مسلمان شہریوں کا  کشت و خوں ،  شام میں لاکھوں  مسلمان بے گھراور کسماپرسی کے عالم میں ہونے کا مسئلہ ہو یا امریکہ اور اسرائیل کی سربراہی  میں وہاں  ہزاروں لوگوں کا قتل عام کا مسئلہ،  ایران پر امریکی پابندیوں کا مسئلہ ہو یا بحرین میں آل خلیفہ کے مظالم کا معاملہ  غرض مسلمانوں کے تمام مشکلات کا سرچشمہ آل سعود ہی ہے۔

نہ سعودی عرب میں مذہبی آزادی ہے نہ فکری آزادی نہ حکومتی مظالم کے خلاف آواز اٹھانے کا حق ہے اور نہ اپنے حق کا دفاع کرنے کی قدرت۔ جس کا واضح ثبوت کل ہی آیت اللہ باقرالنمر کو  بے دردی سے شہید کرنا ہے۔ اسلام تو مذہبی آزادی کا حکم دیتا ہے۔ (3) فکر ی آزادی کی دعوت دیتا ہے(4)نہ ظلم کرنے کا حکم دیتا ہے اور نہ ہی ظلم سہنے کا(5)

مومنو! ناامید نہ ہونا چراغ امید کو اپنے دلوں میں روشن رکھنادشمنوں کے مظالم سے مرعوب نہ ہونا کیونکہ ہم وہ قوم ہیں جو تاریخ میں بہت سارے نشیب و فراز کا مشاہدہ کرتے آئے ہیں۔ دشمن تو  ابتداتاریخ میں ہی ہمیں محو کرنا چاہتے تھے اور ابھی تک اپنے ان ناپاک عزائم پر تلے ہوئے ہیں۔ نام نہاد مسلمانوں نے توسقیفے سے ہی ولایت کے نور کو بجھانے کی کوشش کی  اور خلافت کو ملوکیت میں بدلنے کی نئی بدعت قائم کردی پھر مرور زمان کے ساتھ ساتھ کربلا کی سرزمین پر چراغ ہدایت کو گل کرنے اور ظلمت کو ہمیشہ کے لیے سایہ فگن کرنے کی بھرپور کوشش کی گئی  اور وہ اپنے اس  زعم باطل میں مگن ہوگئےتھے کہ اس کے بعد کبھی ہدایت کا چراغ روشن نہیں ہوگا لیکن انھیں کہاں معلوم تھا کہ امام سجاد ؑ اور ثانی زہرا حضرت زینبؑ حیدری اور حسینی شجاعت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہمیشہ کے لیے اس چراغ ہدایت کو گل ہونے نہیں دیں گے۔  اسی طرح یہ سلسلہ جاری و ساری ہے اور قیام قیامت تک یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ البتہ یاد رکھنا کہ آخر کاری فتح ہماری ہی ہوگی اور بشریت کو ان ظالموں کے چنگل سے نجات دینے والا ہمارا ہی ہوگا۔ کیونکہ قرآن کا وعدہ ہے کہ میرے صالح بندے ہی اس زمین کے جانشین ہوں گے۔اس دنیا کی چند روزہ  زندگی میں  اللہ تعالی ان ظالموں کو مختصر مدت کے لیے ڈھیل دیتا ہے تاکہ ان کو ابدی ہلاکت میں مبتلا کرئے۔(6)

اب تو سلب آزادی کی انتہا ہوگئی اور شہید آیت اللہ باقر النمر کو مظلومانہ شہیدکیا گیا۔ نہ انھوں نے کسی کے قتل کا فتوی جاری کیا، نہ کسی مسلمان کے خون کو حلال کیا، نہ کسی کی ناموس کی توہین کی، نہ حکومت کے خلاف کوئی بغاوت کی، نہ کسی کا حق غصب کیا، نہ کسی کی توہین کی، نہ کسی دہشتگردی  کے واقعے میں ملوث ہوئے،  نہ کسی کا  "برین واش" کرکے اسے خودکش دھماکے پر وادار کیا،  نہ بے گناہ انسانوں کے قتل کو جہاد کا نام دیا، نہ جہاد النکاح کے ذریعے کسی کی ماں بہن کو دوسروں کے لیے جائز التصرف قرارد یا،  نہ کسی کے حق پر شب خوں مارا، نہ کسی دہشتگرد تنظیم کی سرکردگی کی، نہ کسی وہابی مسجد میں دھماکہ کرایا، نہ کسی دہشتگرد کے ساتھ تعاون....پھر انہیں کس جرم میں شہید کیا گیا؟  ان کا جرم صرف یہ تھا کہ وہ معارف اہل بیت علیھم السلام کا پرچار کرتے تھے، اسلام کے حقیقی اصولوں سے لوگوں کو روشناس کراتے تھے، اسلام کا صحیح چہرہ لوگوں کے سامنے عیاں کرتے تھے، لوگوں کو ان کے شہری حقوق سے محرومی کا احساس دلاتے تھے، حکومت کی شہریوں کے درمیان تبعیض کی مخالفت کرتے تھے اور اجتماعی عدالت کے نہ ہونے کے خلاف آواز اٹھاتے تھے(6) کیا کسی شہری کا اپنے شہری اور مذہبی حقوق کے لیے صدائے احتجاج بلند کرنا دہشتگردی ہے؟ کیا ظالم حکومت آل سعود کے مظالم سے پردہ چاک کرنا اولی الامر کی مخالفت شمار ہوتی ہے؟ کیا شرابی، کبابی اور حرم سرا میں  عیش و نوش میں مصروف رہنے والے ایسے حکمران اولی الامر کا مصداق  قرار پاسکتے ہیں؟ کیا لوگوں کے درمیان اجتماعی شعور بیدار کرنا جرم ہے؟ ....

شاید آل سعود یہ گمان کرتے ہوں کہ ایک یا چند نمر کو شہید کرنے سے شیعہ کمزور ہوجائیں گے اور ان کے خلاف  آواز نہیں اٹھائیں گے اور ساکت ہوکر ان کے تمام مظالم پر سسکیاں لیتے ہوئے مظلومانہ زندگی گزاریں گے اور ان کی ظالمانہ حکومت کے خلاف سعودی عرب اور دنیا کے گوش و کنار میں  بے حس تماشائی بنے رہیں گے۔ اگر تمہاری یہ سوچ ہے تو یہ تمہاری بھول ہے؟ تشیع وہ ملت ہے جس نے ابتدا تاریخ سے ہی حزب اختلاف میں رہنے کے باوجود اپنا تشخص نہیں کھویا، کبھی کسی کی غلامی کو قبول نہیں کیا، کبھی کسی کے ظلم  پر  خاموش  نہیں رہے، کبھی  دنیا کے کسی بھی ملک میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم پر سکوت اختیار نہیں کیا، کبھی کسی امریکا یا اسرائیل جیسے استعماروں کے پنجے میں  آکر ان کا آلہ کار نہیں بنا۔ کیوں؟  اس کی وجہ کیا ہے؟ اس کا سبب کیا ہے؟میری نظر میں اس کا واحد سبب ہمارا کربلا سے متمک ہونا ہے۔ ہم بادشاہ حریت اباعبداللہ الحسین ؑ کو اپنا آقا و مولی مانتے ہیں اور انھیں  اپنے لیے نمونہ عمل قرار دیتے ہیں۔ جس نے  کربلا کی تپتی صحرا میں ہمیں یہ  درس دیا ہے کہ "ذلت ہم سے بہت ہی دور ہے"(7) ظالموں کی ہمراہی میں زندگی گزارنے کے مقابلے میں عزت کی موت سعادت ہے" (8)

ہوسکتا ہے کہ ظاہری طور پر چند روز تم اپنی حکومت و اقتدار کے نشے میں مست رہ کر دوسرے مسلمانوں بالخصوص علما حقہ کے خون سے اپنے ہاتھ رنگتے رہو لیکن یاد رکھو وہ وقت دور نہیں کہ جہاں امام حسینؑ نے بہتر افراد کے ساتھ ہزاروں سے جنگ کرکے ان  کے دشمنوں کو قیامت تک آنے والوں کے لیے  نشان عبرت بنا دیا وہاں ان بے گناہ شہیدوں کا خون بھی عنقریب رنگ لائے گا اور تمہارے دیوان اقتدار میں لرزہ طاری کرے گا اور تمہاری بھی وہ حالت ہوجائے گی جو حال ہی میں دوسرے ظالم و جابر حکمرانوں کا ہوا ہے۔ ہم تم سے صرف اتنا ہی کہیں گے کہ:

ہم صلیبوں پہ چڑھے زندہ گھڑے پھر بھی بڑھے       وادی مرگ بھی منزل گہہ  امید بھی

ہاتھ کٹتے رہے پھر مشعلیں تابندہ رہیں                     رسم جو ہم سے چلی باعث تقلید بنی                           

شب کے سفاک خداؤں کو خبر ہوکہ نہ ہو                   جو کرن قتل ہوئی شعلہ خورشید بنی

 

تحریر۔۔۔۔۔سید محمد علی شاہ الحسینی

⁠⁠⁠مشکل کی گھڑی

وحدت نیوز (آرٹیکل) دنیا کی سیاست اور معیشت میں وطن عزیز پاکستان کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے، چاہے دنیا کی دو سپر طاقتیں امریکہ اور روس ہوں یا دنیا کی معیشت پر اجارہ داری قائم کرنے والا ملک چین،کسی بھی طاقتور ملک کی کہانی اور دنیا کے بڑے سانحات پاکستان کے نام کے بغیر ختم نہیں ہوتے۔ کولڈ وار ہو یا دہشت گردوں کے خلاف جنگ پاکستان کی شمولیت یا مدد کے بغیر حل نہیں ہو سکتے۔ امریکہ نے اگر روس کو ڈرانا ہو تو بھی پاکستان کی ضرورت یا روس کو خطے میں اپنے مفادات کا خیال رکھنا ہو تو بھی پاکستان کی ضرورت، چین نے اپنے اقتصاد کو مزید فروغ دینا ہو اور خطے میں اہم اتحادی بننا ہو تو بھی وطن عزیز پاکستان کی ضرورت ہوتی ہے، مسلم ممالک کو مدد کی ضروت ہو یا عربوں کا برم غرض ہر صورت میں عالمی طاقتوں سے لیکر عربوں تک سب کو کسی نہ کسی صورت میں پاکستان کی مدد یا حمایت کی ضرورت ہے ، مگر سالوں سے ہم نے یک طرفہ کھیل دیکھا ہے اور زیادہ تر نقصان اٹھایا ہے لہزا اب ہماری حکومت کو چاہیے کہ وہ اپنی فارن پالیسی کو واضح کریں اور دنیا کوبتا دیں کی اب پاکستان کسی یک طرفہ پالیسی کا حامی نہیں ہوگا۔
مشرق وسطی کے بدلتے حالات اور آئے روز رونما ہونے والے حالات نے پاکستان کی اہمیت اور کردار کو مزید تقویت پہنچائی ہے۔ اب ایسے نازک حالات ہیں کہ پاکستان کو پھونک پھونک کر قدم اٹھانے کی ضرورت ہے اور اب تک الحمد اللہ پاکستان کسی سازش کا حصہ بنے سے محفوظ ہے اور اپنی پالیسی کو اسٹیٹ کے مفاد میں رکھے ہوےُ ہے۔ لیکن کچھ ممالک جو  پاکستان کو اپنا مخلص اور سچا دوست بھی مانتے ہیں اور پریشان بھی دیکھائی دے رہے ہیں ان ممالک نے انتہائی کوشس کی کہ پاکستان بھی مشرق وسطی کے ممامک عراق و شام کی طرح آگ و خون کی لپیٹ میں آجاےُ مگر ہر دفعہ وہ ناکام رہے۔ ابھی حال ہی میں سعودی حکام نے 34 ممالک پر مشتمل دہشت گردوں کے خلاف ایک اتحاد تشکیل دیا جس میں پاکستان بھی شامل ہے مگر جن ممالک میں دہشت گردوں کے خلاف جنگ ہو رہی ہے یعنی عراق اور شام اور دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں ان کا اتحادی ایران سعودیہ کے اس اتحاد میں شامل نہیں ہے جس سے صاف ظاہر ہے کہ یہ اتحاد سعودی عرب نے دہشت گردوں کے خلاف جنگ کے لئے نہیں بلکہ اپنی بادشاہت اور ظالم چہرہ کو چھپانے کے لئے بنایا ہے کیونکہ حقیقت میں القاعدہ اور طالبان سے لیکر داعش تک تمام دہشت گردوں کو مالی، مذہبی اور انفرادی امداد سب سے زیادہ سعودی حکومت یعنی آل سعود سے ملتی  جو اب مسلم امہ پر واضح ہوئی تو وہ اپنے اس سازشی چہرہ کو چھپانے کے لئے اتحاد کا ڈھنڈورا پیٹ رہا ہے تاکہ ایک دفعہ پھر سادہ لوح مسلمانوں کو بے وقوف بنایا جاسکے لیکن اب یہ آل سعود کی بھول ہے اب مسلمان بیددار ہیں اور کسی خائن حکمران کی باتوں میں نہیں آئینگے۔ ان حالات میں پاکستان نے اچھا موقف اپنایا حکومت کا کہناتھا ہم اس اتحاد میں شامل ہیں مگر کسی جمہوری حکومت کو گرانے اور دوسرے ممالک کے اندرونی مسائل میں مداخلت کی حمایت میں نہیں اور نہ ہی کسی خانہ جنگی کا حصہ ہونگے۔اب جب پاکستان نے اپنے آپ کو بچانے کی کوشس کی تو اس کے بدلے میں داعش جیسے دہشت گردوں کو تیزی سے پاکستان میں پھیلانا شروع کر دیا گیا. ان دہشت گروں میں اعلی تعلیم یافتہ لوگوں کے ساتھ ساتھ خواتین کی کثیر تعداد بھی شامل ہے۔ تکفیری دہشت گرد داعش نے ان خواتین کو اسلام کے نام پر اپنے طرف مائل کیا ہے اور ان کی عزت و آبرو برباد کی جارہی ہے اوراب تک  کئ خاندان اجڑ چکے ہیں جن کی مثال حال ہی میں لاہور سے شام جانے والی خواتین کا گروہ ہے جن کے شوہر پاکستان میں پریشان ہیں اور بیویاں بچوں کو ورغلا کر شام میں جہاد النکاح کے نام پر نام نہاد مجاہدین کی حوس پورا کررہی ہیں۔ پھر بھی قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کار کردگی کو سراہنا چاہئیے جنہوں نے مزید سینکڑوں گھروں کو اجاڑ نے سے بچا یا اور کراچی اور پنجاب سے دہشت گردوں کے نیٹ ورک کو پکڑا جن میں اکثریت خواتین کی تھی۔ پاکستان کے سیکیورٹی اداروں کی اس کاروائی سے دشمن ایک دفعہ پھر پریشان ہے ۔ پاکستان کے دشمنوں کی ہمیشہ سے یہی خواہش رہی کہ پاکستان میں فرقہ واریت اور لسانی فسادات پیدا ہوں تاکہ پاکستان کو اندورنی طور پر کمزورکیا جاسکے اور دنیا میں بدنام کیا جا سکے۔ پاکستان کے سیکیورٹی اداروں نے دشمن کی اس سوچ کو ناکام بنایا اور ان کی سوچ کو سوچ کی حد تک محدود کر دیا ہے۔ داعش کے خلاف آرمی چیف اور سیکرٹری خارجہ کے بیان بھی قابل تعریف ہیں اور امید بھی یے کہ پاک فوج داعش کو پاکستان میں پہنپنے نہیں دے گی اور آوآئی سی کی موجودگی میں کسی نئے اتحاد میں بھی شامل نہیں ہونگے، لیکن سعودی پریشر میں پاکستان نے سعودی عرب کے بنائے ہوئے نام نہاد 34 ممالک کے اتحاد میں شامل ہونے کا اعلان تو کیا ہے مگر اپنی پالیسی بھی کسی حد تک واضح کی ہے جو قابل تعریف ہے،اور یہ بھی امید کی جاتی ہے کہ اس اتحاد کے اثر کو پاکستان میں اور پاکستان کی خارجہ پالیسی پر اثرانداز ہونے نہیں دینگے. اس اتحاد میں شامل ہونا ایسا ہی ہے جیسے امریکہ کی خوشنودی کے لئے روس سے دشمنی مول لی گئ تھی اور طالبان جیسے دہشت گردوں کی تربیت کرنی پڑی تھی جس کا صلہ آے پی ایس کے بچوں کی مظلومانہ شہادت کے طور پر ملا۔

سعودی حکومت نے ابھی اس اتحاد کی کاغذی کاروائی بھی ہونے نہیں دی تھی کہ اپنے مقاصد کو ظاہر کرنا شروع کر دیا اور سعوی عرب کے شہری اور سیاسی لیڈر شیخ نمر سمیت 47 لوگوں کا سر قلم کر دیا اور حقیقت میں یہ اس اتحاد کے سر کو قلم کیا گیا ہے اور دہشت گردوں کے خلاف جنگ کے جھوٹے نقارے کو بجایا گیا ہے . جس سے کڑوڑوں مسمانوں کی دل آزاری ہوئی اور مسلم ممالک بلکہ ساری دنیا میں اس انسانیت سوز ظلم پر مظاہرے پھوٹ پڑے جو کہ اب شدت اختیار کر چکے ہیں اور ایران اور عراق میں سعودی سفارت خانوں کو نشانہ بنایا گیا جس کی وجہ سے ایران سعودی کشیدگی مزید بڑھ گئی اور سفارتی تعلقات ختم ہو گےُ اب سعودی عرب اپنے مظالم کو چھپانے اور اپنی بقا کے لئے اپنے اتحادیوں کو استعمال کرنا چاہتا ہے جو کہ عملی طور پر شروع ہو چکا ہے اور سوڈان نے بھی ایران کے سفارت کاروں کو ملک سے نکل جانے کی دھمکی دی ہے  اور بحرین اور کویت نے اپنے سفارت کاروں کو واپس بلا لیا ہے۔ادھر سعودی چاہتے ہیں کہ باقی اتحادی بھی سعودی اشارے پر ناچیں یعنی آل سعود اپنے تخت کو بچانے کے لیے مسلم ممالک کو استعمال کر رہے ہیں جس سے مسلم ممالک میں فرقہ واریت کو تقویت ملے گی اور تمام مسلمان اپنے اصل دشمن امریکہ اسرائیل اور یہودیوں کو بھول کر آپس میں دست و گریباں ہو جائینگے جس سے تمام تر فائدہ مغربی ممالک اور اسلام دشمنوں کو حاصل ہوگا۔ ان حالات میں وطن عزیز پاکستان کا کر دار نہایت اہمیت کا حامل ہے کیوںکہ پاکستان کے ایران اور سعودیہ دونوں سے قریبی تعلقات ہیں اور پاکستان کو چاہیے کہ ان تعلقات کو بروےُکار لاتے ہوئے مسلم ممالک میں ثالث کا کردار ادا کرے اور ان کشیدگیوں کو کم کرنے کی کوشش کرےتاکہ  تمام مسلمانوں کا دل جیت سکے اور امت مسلمہ کو مزید مشکلات سے بچایا جاسکے ۔ یہ  پاکستان کی اسٹیبلشمینٹ اور سیاسی اکابرین کے لئے امتحان کی کھڑی ہے اور اب تک کے سیاسی بیانوں سے یہ واضح ہو رہا ہے کہ انشااللہ پاکستان سب سے پہلے اپنے تحفط کرے گا اور عالم اسلام کے مسائل میں کسی ایک فریق کا حمایتی نہیں بنے گا اور تمام مسلمان ممالک کے بہتری کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلہ کرے گا اور مسلم ممالک کی کشدگی کو کم کرنے کے ساتھ ساتھ وطن عزیز میں داعش کے بڑھتے ہوےُاثر و رسوخ کو بھی ختم کرے گا اگر پاکستان میں داعش کے اثر کو فوری ختم نہیں کیا گیا تو یہ دہشت گرد پاکستان کو خانہ جنگی کی طرف لے جانے میں دیر نہیں لگائیں گے.
⁠⁠⁠⁠

تحریر۔۔۔۔ناصر رینگچن

Page 9 of 14

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree