وحدت نیوز(اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی رہنما علامہ اعجاز حسین بہشتی کا آیت اللہ اکبر علی رفسنجانی کی رحلت پر تعزیتی بیان میں کہنا تھا کہ آیت اللہ رفسنجانی انقلاب اسلامی ایران کے ستونوں میں سے ایک ستون تھے انقلاب اسلامی میں ان کی گراں قدر خدمات کو کوئی فراموش نہیں کرسکتا۔

علامہ اعجاز بہشتی کا مزید کہنا تھا کہ آیت اللہ رفسنجانی نے بانی انقلاب آیت اللہ خمینی کے ہر فرمان پر لبیک کہا اور زندان کی صعبتیں بھی برداشت کی لیکن کھبی ظالم شاہ کے آگے سر نہیں جھکایا۔ انھوں نے انقلام اسلامی کے ساتھ ساتھ اتحاد امت مسلمہ کے لئے بھی گراں قدر خدمات انجام دئیے۔ یقینا آج ہم ایک عظیم شخصیت سے جدا ہوگئے ہیں جن کی جگہ کوئی اور پر نہیں کرسکتا۔

وحدت نیوز(مانٹرنگ ڈیسک) سابق صدر جمہوری اسلامی ایران اور مجمع تشخیص مصلحت نظام کے سربراہ آیت اللہ علی اکبر  ہاشمی رفسنجانی انتقال کرگئے۔ آیت اللہ ہاشمی حضرت امام خمینی اور رہبر معظم انقلاب اسلامی امام خامنہ ای کے دیرینہ ساتھی تھے۔ آیت اللہ ہاشمی رفسنجانی انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد ایرانی پارلیمنٹ کے پہلے اسپیکر منتخب ہوئے۔ انہوں نے انقلاب اسلامی کی کامیابی میں اہم کردار ادا کیا۔ وہ ایران کے چوتھے صدر منتخب ہوئے جو دو ادوار تک ایران کے صدر رہے۔ آیت اللہ ہاشمی رفسنجانی کئی ادوار تک ایران کی پارلیمنٹ مجلس شورائے اسلامی کے اسپیکر بھی رہے۔ آیت اللہ ہاشمی رفسنجانی اسی کے ساتھ ساتھ مجلس خبرگان رہبری یا قیادتی کونسل کے اراکین کے انتخاب کی غرض سے قائم کی جانے والی ماہرین کی کونسل کے صدر بھی رہے۔ آیت اللہ ہاشمی رفسنجانی ملک کی تشخیص مصلحت نظام کونسل کے سربراہ بھی رہے ہیں۔ وہ اسلامی انقلاب کی تحریک کے تمام میدانوں میں پیش پیش رہے اور انہیں سات بار جیل بھی جانا پڑا، وہ مجموعی طور پر ساڑھے چار سال تک جیل میں رہے لیکن ان کے عزم صمیم میں کوئی خلل واقع نہیں ہوا۔ ان کے انتقال پر ملک بھر میں 3 دن کے سوگ کا اعلان کیا گیا ہے جبکہ تعلیمی ادارے بھی تین دن تک بند رہیں گے۔ آیت اللہ ہاشمی رفسنجانی کے جسد خاکی کو شہدائے تجریش اسپتال سے حسینہ جماران منتقل کردیا ہے، جس کے بعد ان کے عقیدت مندوں کی بڑی تعداد وہاں پہنچ گئی ہے۔

آیت اللہ ہاشمی رفسنجانی پچیس اگست انیس سو چونتس کو صوبہ رفسنجان کے ضلع بہرمان کے ایک متول خاندان میں پیدا ہوئے، وہ چودہ سال کی عمر میں قم کے دینی مرکز میں تعلیم حاصل کرنے کے لئے قم چلے گئے، جہاں انہوں نے آیت اللہ العظمی بروجردی، آیت اللہ العظمی امام خمینی رح اور آیت اللہ سید محقق میر داماد، آیت محمد رضا گلپائیگانی اور آیت اللہ محمد حسین طباطبائی سے جید علمائے کرام کے سامنے زانوئے تلمذ طے کیا۔ یاد رہے کہ آیت اللہ ہاشمی رفسجانی کو اتوار کی شام تہران میں عارضہ قبل کے باعث شہدائے تجریش اسپتال میں داخل کیا گیا، تاہم جانبر نہ ہوسکے اور اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔

وحدت نیوز(آرٹیکل) ہر دینی دارہ اللہ کا گھر ہے۔وہ مسجد ہویا مدرسہ، اہل ایمان کے لئے مقدس اور محترم ہے۔کچھ عرصہ پہلےایک مدرسے کے مدیر صاحب انتقال کرگئے،عوامِ علاقہ کو مدرسے کی دیکھ بھال کی سوجھی،قوم کے ہمدرد جمع ہوئے،مولانا مرحوم کی خدمات کو سراہاگیا،مدرسے کی آمدن کا اندازہ لگایاگیا اور پھر مدرسے کو از سرِ نو فعال کرنے کے لئے سوچ بچار کی گئی۔مدرسے کو فعال کرنے کے لئے  مدیر کی ضرورت تھی۔مسئلہ بن گیا کہ  اب مدرسے کا مدیر  اور وارث کسے بنایاجائے۔!؟

اتفاق سے مولانا مرحوم کی کوئی اولاد نہیں تھی ،چنانچہ مولانا مرحوم کے ایک دور کے رشتے دار کو ڈھونڈا گیا ،پھر انہیں  دینی تعلیم حاصل کرنے کے لئے راضی کیا گیا ،جب وہ راضی ہوگئے تو انہیں دینی تعلیم حاصل کرنے کے لئے ایک دینی مرکز میں داخل کروادیاگیا۔

اب جب تک کچھ لکھ پڑھ نہیں جاتے اس وقت تک اس مدرسے کو چلانے کے لئے حوزہ علمیہ قم کی ایک فاضل شخصیت کو عارضی طور پر مدرسہ چلانے کی ذمہ داری سونپی گئی۔

اس واقعے سے جہاں ہمارے ہاں عوام کے دلوں میں  علما کےاحترام کا پتہ چلتاہے  وہیں یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے ہاں لوگ دینی اداروں کو موروثی سمجھتے ہیں ۔لوگوں کے نزدیک ایک دینی  مدرسہ ،مولانا صاحب کی ذاتی پراپرٹی ہوتا ہے لہذا اسے  نسل در نسل  مولانا صاحب کی نسل میں آگے منتقل ہونا چاہیے۔

اسی طرح بہت سارے لوگ سھم امام اور مال امام سے ادارے بناتے ہیں اور یاپھر خمس و صدقات جمع کرکے دینی اداروں کی بنیاد رکھتے ہیں اور ساتھ ہی  قانونی کاروائی کے دوران خود ہی  ان اداروں کے تاحیات سرپرست اور متولی بنتے ہیں اور بعض اوقات قانونی کاغذوں میں  اپنی آئندہ نسلوں کو بھی  ہمیشہ کے لئےمتولی درج کرواتے ہیں۔

بات صرف یہیں پر ختم نہیں ہوتی بلکہ بہت ساری مساجد کے کلین شیو اور بے نمازی متولی بھی دیکھنے کو ملتے ہیں،ایسے متولی جو پیش نماز کو ایک ملازم سے زیادہ اور مسجد کواپنی پراپرٹی سے بڑھ کر اہمیت نہیں دیتے۔اگر کہیں مسجد کا متولی خود پرہیزگار بھی  ہو اور وہ مسجد کو اپنی پراپرٹی  نہ بھی بنانا چاہے تو اس کے باوجود بھی  لوگوں کی شعوری حالت یہ ہے کہ  لوگ اس کے بعد اس کے بیٹے کوہی  مسجد کا متولی بنانے میں اپنی نمازوں کی قبولیت سمجھتے ہیں۔

آپ تھوڑا سا آگے بڑھیں اور اپنے ہاں منعقد ہونے والی دینی محافل و مجالس کے بانیان پر ایک نگاہ ڈالیں،ان میں سے بھی بہت سارے آپ کو براہ نام دیندار ،کلین شیو اور مجالس و محافل کو اپنے سٹیٹس کے لئے منعقد کروانے والے ملیں گے۔

بات آگے ہی بڑھ رہی ہے تو ذرا ان لوگوں کی بات بھی ہوجائے جن کا کوئی ذریعہ آمدن مشخص نہیں ہے اور انہوں نے اپنا ذریعہ معاش ہی دینی اداروں کی تعمیر کے لئے چندہ جمع کرنا بنا رکھا ہے۔انہوں نے برائے نام ٹرسٹ بھی بنا رکھے ہوتے ہیں تاکہ کوئی آڈٹ اور چیک اینڈ بیلنس کی بات نہ کرے،چنانچہ کتنی ہی مساجد،مدارس اورامام بارگاہوں کے چندے  سالہاسال  اکٹھے ہوتے رہتے ہیں اور وہ  ادارےہمیشہ زیر تعمیر ہی رہتے ہیں۔ بعض اوقات ایسے لوگ بڑی بڑی یونیورسٹیاں اور جدید تعلیمی ادارے بنانے کی باتیں بھی کرتے ہیں حالانکہ خود انہیں جدید تعلیم کی ہوا بھی نہیں لگی ہوتی اوراگر یونیورسٹی یا کالج بنوانے کا حربہ کارگر نہ ہوتو پھر مساجد  و مدارس کی تعمیر کے لئے ڈونرز کی تلاش میں سرگرم ہوجاتے ہیں۔

بعض دینی اداروں اور ٹرسٹ وغیرہ کی تو یہ صورتحال ہے کہ وہ پہلے سے ہی یہ کہہ دیتے ہیں کہ آپ ہمیں عادل سمجھیں اور آنکھیں بند کرکے ہماری مددکریں اور اس کے بعد یہ نہ پوچھیں کہ ہم خرچ کہاں  پرکرتے ہیں۔ان کے بقول آپ کو یقین ہونا چاہیے کہ ہم عین عدالت کے ساتھ خرچ کرتے ہیں۔چنانچہ ہمیں  اپنے ملک میں جس مقدار میں فطرانہ،قربانی کی کھالیں اور دیگر صدقات و خیرات جمع کرنے والے ادارے نظر آتے ہیں ،اس طرح  غربا میں   صدقات  تقسیم کرتے ہوئے نظر نہیں آتے اور اگر کہیں پر غربا کی مدد ہوبھی تو چیک اینڈ بیلنس نہیں ہوتا کہ جمع آوری کتنی ہوئی اور تقسیم کتنی ۔۔۔

بلکہ غربا کی مدد کرنے والے اداروں میں کلیدی شخصیات جس علاقے سے تعلق رکھتی ہوں  اکثر بجٹ بھی اسی علاقے میں انہی کے عزیزوں،دوستوں اور رشتے داروں پر ہی صرف ہوجاتاہے۔آج کے دور میں  اکثر اوقات  مسجد کی تعمیر سے لے کر سکالر شپ کے حصول تک عام آدمی کی رسائی ممکن  نہیں رہی ، چنانچہ اب اسی کے علاقے میں شاندار مسجد بنتی ہے اور اسی کو  دینی داروں کی طرف سے سکالرشپ ملتا ہے جس کے کہیں نہ کہیں  تعلقات ہوتے  ہیں۔

یاد رہے کہ ایسے میں ہمارے ہاں ایسے مخلصین کی بھی کمی نہیں جو ہر طرح کی منفعت سے بالاتر ہوکر خدمت دین کررہے ہیں۔موجودہ صورتحال کے تناظر میں جائیداد،آمدن اور موروثیت سے بالاتر ہوکر کام کرنے والے مخلص اداروں،ٹرسٹیز اور بانیان کی زمہ داری بنتی ہے کہ وہ  موروثیت اور بیت المال کے غلط استعمال کے خلاف سر جوڑ کر بیٹھیں،اسی طرح  عوام  اور خصوصا ڈونرز حضرات کی بھی شعوری سطح کو بلند کرنے کی ضرورت ہے۔

یہ ٹھیک ہے کہ ہر دینی ادارہ مقدس اور محترم ہے لیکن ڈونرز حضرات کو یہ بھی تو دیکھنا چاہیے کہ  کوئی بھی ادارہ کسی شخص یا خاندان کا ذریعہ آمدن ہے یا پھر ملک و ملت پر خرچ کرنے اور دین کی خدمت کرنے  کا وسیلہ ہے۔

ملک و ملت کی ہدایت اور  فلاح و بہبود کے لئے خرچ کرنے والوں کو یہ بھی سوچناچاہیے کہ  بنجر زمینوں پر بارش برسنے سے سبزہ نہیں اگا کرتا۔اگر ہم اپنی ملت کی حالت سدھارنا چاہتے ہیں تو پھر تحقیق کرکے اور آنکھیں کھول کر ہی صدقات و عطیات جمع کروانے چاہیے۔

آخر میں مخیر اور ڈونرز حضرات سے دست بستہ یہ عرض کرتا چلوں کہ بیت المال اگر صحیح ہاتھوں تک پہنچے گا تو اس کا استعمال بھی صحیح ہوگا اور جب بیت المال کا استعمال صحیح ہوگا تو ہماری ملی حالت بھی سدھرے گی۔

تحریری۔۔۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز (قم) ہفتہ وحدت سامراجی قوتوں اور تکفیریوں کے منہ پر طمانچہ ہے، امام خمینی کی اس آفاقی حکم کی وجہ سے آج دنیا میں مسلمانوں کے درمیان اتحاد و اتفاق کی فضا قائم ہے۔ شیعہ و سنی  اتحاد  کا ثمرہ  تکفیری اور امریکہ و اسرائیل کے ایجنڈوں کے خلاف بڑی کامیابی کی صورت میں ملی ہے، ساری دنیا میں شیعہ و سنی مل کر مسلمانوں کے خلاف عالمی سازشوں کو بےنقاب کررہے ہیں جس کی وجہ سے آج مغربی دنیا اور اس کے اتحادیوں میں صف ماتم برپا ہے، ان خیالات کا اظہار مجلس وحدت وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی رہنما و مرکزی سیکریٹری تربیت علامہ اعجاز حسین بہشتی نے قم المقدس ایم ڈبلیو ایم آفس میں ہفتہ وحدت اور جشن عید میلادالنبی و امام جعفر صادق علیہ اسلام  کی مناسبت سے علما و طلاب  سے خطاب کرتے ہوئے کہا۔

علامہ اعجاز بہشتی کا مزید کہنا تھا کہ رسول اکرم (ص) و ائمہ اہل بیت (ع ) کی زندگی اور ان کے فرامین ہمارے لئے مشعل راہ ہے، جب تک ہم قرآن و اہلیبیت سے منسلک ہے ہمیں دنیا کی کوئی طاقت شکست نہیں دے سکتی۔ ہفتہ وحدت مسلمانوں میں اتحاد و بیداری کی فضاء قائم کرنے کا اہم زریعہ ہے ہمیں چاہئے کہ ہم اس اہم وقت اور مبارک مہینہ  میں بھائی چارگی ،اتحاد و اتفاق کو فروغ دیں تاکہ اسلام و وطن عزیز پاکستان کے دشمنوں کی ہر سازش کو ناکام بنا سکیں۔

وحدت نیوز (اسلام آباد) مرجع تقلید جہان تشیع، سابق چیف جسٹس آف اسلامی جمہوریہ ایران اورمجلس خبرگان رہبری سمیت دیگر اہم اداروں کے رکن  آيت اللہ العظمٰی سید عبدالکریم موسوی اردبیلی ؒکی پرسوزرحلت پر مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی قائدین علامہ راجہ ناصرعباس جعفری ، علامہ سید حسن ظفرنقوی، علامہ سید احمد اقبال رضوی، علامہ ڈاکٹر شفقت شیرازی ودیگر نے مرکزی سیکریٹریٹ سے جاری اپنے مشترکہ تعزیتی بیان میں آيت اللہ العظمٰی سید عبدالکریم موسوی اردبیلی ؒکے انتقال پر ملال کو امت مسلمہ کیلئے بالعموم  اور ملت تشیع کیلئے بالخصوص عظیم نقصان قرار دیا ہے، رہنمائوں نے کہا کہ مرحوم آیت اللہ امام خمینیؒ کے قریبی رفقاءمیں سے ہونے کے ساتھ ساتھ انقلاب اسلامی کے ہر اول دستے میں بھی شامل تھےجنہوں نے انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد اہم سرکاری عہدوں پر فرائض منصبی باحسن وخوبی انجام دیئے ، مرحوم نے اپنی وراثت میں بہترین تعلیفات امت مسلمہ کی رہنمائی کے لئے چھوڑی ہیں ،اس جانگزارسانحے پر مجلس و حدت مسلمین پاکستان رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ خامنہ ای  ،  تمام ملت ایران  اور جہان تشیع کی خدمت اقدس میں ہدیہ تعزیت اور تسلیت پیش کرتی ہے ، خدا بحق چہاردہ معصومین ؑ ہمیں مرحوم آیت اللہ موسوی اردبیلی ؒکی سیرت کی پیروی کی توفیق عنایت فرمائے اور ان کے طفیل ہماری بخشش فرمائے ۔

وحدت نیوز(آرٹیکل) انسان مسلسل سیکھتا ہے،اپنے استادوں،ماں باپ،کتابوں،معاشرے اور دوستوں حتیٰ کہ جانوروں سے بھی سیکھتاہے۔جانوروں میں سے ایک شہد کی مکھی بھی ہے۔شہد کی مکھیاں سارا دن پھولوں کی تلاش میں سرگرداں رہتی ہیں۔ایک پھول سے دوسرے پھول کی تلاش میں ماری ماری پھرتی ہیں۔لیکن اگر ان کے چھتے پر حملہ ہوجائے تو سب متحد ہوکر دفاع کرتی ہیں۔شہد کی مکھیوں میں بھی اتنا شعور ہے کہ وہ دفاع کے وقت متحد ہوجاتی ہیں لیکن ہم انسان ہونے کے باوجود یہ سمجھنے سے عاری ہیں کہ دفاع کے وقت متحد ہوجانا چاہیے۔

جب ہمارے مقدسات پر حملہ ہوتا ہے،ہماری محترم شخصیات کی آبرو خاک میں ملائی جاتی ہے،ہمارے ہاں زائرین امام حسینؑ کی اہانت کی جاتی ہے تو ہم متحد ہوکر دفاع کرنے کے بجائے گروہوں اور پارٹیوں میں تقسیم ہوجاتے ہیں،خصوصاً زائرین کے مسائل کو پارٹیوں کی عینک لگاکر دیکھنا شروع کردیتے ہیں۔ایسے میں زائرین بے چارے اپنی مشکلات کے حل کے لئے کبھی ایک پارٹی اور ایک شخصیت سے امیدیں باندھتے ہیں اور کبھی دوسری پارٹی اوردوسری شخصیت سے۔

اس وقت مجھے یہ فرضی واقعہ یاد آتا ہے کہ ایک صاحب عمرہ ادا کرنے گئے ،جب طوافِ کعبہ سے فارغ ہوئے تو انہوں نے گھر والوں کو فون کیا کہ فلاں پیر صاحب کی قبرپر جاکر میرے لئے دعا کریں۔

ہمارے ہاں زائرین امام حسینؑ کی صورتحال بھی کچھ ایسی ہے کہ وہ جاتو امام حسینؑ کی زیارت کے لئے رہے ہیں جبکہ اپنے مسائل کے حل کے لئے پارٹیوں اور شخصیات کی قبروں سے امیدیں لگائے بیٹھے ہیں۔

زائرین کو چاہیے کہ اس سفر زیارت میں جہاں اپنے ملک کی ترقی اور خوشحالی کے لئے دعاکریں وہیں حضرت امام حسینؑ سےخصوصی طور پر یہ دعا بھی کریں کہ زائرین کوستانے والے لوگ اگر قابل ہدایت ہیں تو خدا انہیں ہدایت عطاکرے اور قابل ہدایت نہیں ہیں تو خدا جلد از جلد انہیں ہلاک کرے اور ان کے شر سے زائرین کو نجات عطاکرے۔

زائرین کو معلوم ہونا چاہیے کہ اگر زائرین مسلسل یہ دعا کریں تو میرا ایمان ہے کہ واپسی پر مطلع صاف ہوگا۔میں یہاں پرزائرین کے لئے  یہ بھی عرض کرنا چاہوں گا کہ چہلم امام حسینؑ کا ایک عملی پہلو ہے اور دوسرا نظریاتی پہلو ہے۔

عملی اعتبار سے چہلم امام حسینؑ میں شرکت ایک سنت ہے جو نسل در نسل منتقل ہوتی جارہی ہے اور نظریاتی اعتبار سے یہ چہلم کی سنت ایک نظریاتی جنگ ہے جسے نظریاتی محازوں پر لڑے جانے کی ضرورت ہے۔

کسی بھی نظریے کے دفع اور پرچار کے لئے تین چیزیں ضروری ہیں:

۱۔عمق ۲۔تحلیل ۳۔استدلال

چہلم امام حسینؑ کے حوالے سے نظریاتی طورپر ہمارا مطالعہ عمیق ہونا چاہیے۔ہمیں اس سلسلے میں اٹھنے والے سوالات اور شبھات کاعلم ہونا چاہیے اور ان کے جوابات علماکرام اور مستند کتابوں سے معلوم کرنے چاہیے،دوسرے مرحلے میں ہمیں ان عمیق معلومات کی روشنی میں تجزیہ و تحلیل کرنا آنا چاہیے۔چہلم امام حسینؑ کے سفر میں ہماری معلومات میں جو اضافہ ہو اور ہماری آنکھیں جو کچھ دیکھیں ،ہمیں اس کی صحیح تحلیل کرنی چاہیے۔تیسرے مرحلے میں ہمیں واپسی کے وقت عمیق مطالعے اور تحلیل کے ہمراہ استدلال بھی کرنا آنا چاہیے۔

یعنی ہم اس سفر کے معنوی و رواحانی مشاہدات و تجربات اور اپنے عملی مطالعات کو احسن استدلال کے ذریعے دوسروں تک پہنچائیں بھی۔

یاد رکھنے کے قابل بات یہ ہے کہ فقط چہلم کے سفر میں پیادل شرکت کرلینے سے یہ سنت ادانہیں ہوجاتی بلکہ اس کے لئے ضروری ہے کہ واپسی کے دوران ہم اس سفر کے ثمرات اپنے ہم وطنوں تک پہنچائیں۔تاکہ جو کسی بھی وجہ سے اس سفر میں شریک نہیں ہوسکے وہ بھی اس سفر کی معنوی لذت کو چکھیں۔

واپسی کے دوران بھی جہاں دعا و مناجات کرتے رہنے کی ضرورت ہے وہیں زائرین ِ امام حسین ؑ کو ستانے والوں کے لئے بھی ہدایت یا ہلاکت کی دعا کرتے رہیں۔

اس ملک کو سدھارنے کے لئے جہاں اور بہت ساری محنت اور کاوش کی ضرورت ہے وہیں ہماری دعاوں کی بھی ضرورت ہے اور دعا ایک ایسا ہتھیار ہے کہ جس کا وار کبھی خطا نہیں جاتا۔

نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

Page 10 of 26

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree