وحدت نیوز(آرٹیکل)سلیمان کتانی(Solomon Katani) کا نام تو آپ سب سے سنا ہوگا۔ یہ ایک مسیحی محقق ہیں۔ ان کی پیدائش امریکہ میں ہوئی اور دو سال کی عمر میں والدین سمیت لبنان آئے۔ بیس سال تک مختلف یونیورسٹیز اور مدارس میں تدریس سے منسلک رہے۔ انہوں نے اپنی زندگی میں حضرت محمدؐ پر ۹ جلدکتابیں تحریر کیں اور ان کی صاحبزادی پر ایک مستقل کتاب لکھنے کے ساتھ ساتھ  ان کے علم کے وارثو ں میں سے حضرت علی ؑ سے لیکر امام موسیٰ کاظم ؑ تک ہر امام پر کتاب تحریرکی۔ موصوف نے "فاطمة الزہرا، وتر فی غمد" میں پیغمبر خاتم (ص)کی لخت جگر کی مختلف خصوصیات پر قلم فرسائی کی۔﴿۱﴾
 
فاطمہ ؑ وہ باعظمت خاتون ہیں جو حس لطیف، پاک معدن، دریا دل اور نورانیت سے سرشار اور عقل﴿کامل﴾ کی حامل ہیں۔ مناسب یہی ہے کہ ایسی شخصیت کے بارے میں کتاب لکھی جائے اور ان سے نمونہ اخذ کیا جائے۔ عرب دنیا ﴿دوسرے تمام تر مسائل و مشکلات کے ساتھ ساتھ﴾ اپنے گھریلو سسٹم کو بافضیلت بنانے کی طرف محتاج ہیں تاکہ اپنے معاشرے کی ساخت کو مضبوط بنا کر اپنی باشرافت تاریخ کو جاری و ساری رکھ سکیں۔ آپ ہی کے ذریعے وہ  اپنے ان تمام  اجتماعی مسائل کا حل نکال سکتے ہیں۔﴿۲﴾
 
مسیحی دانشور سلیمان کتانی اپنی کتاب کی ابتدا میں لکھتے ہیں، حضرت فاطمة الزہراؑ کا مقام و رتبہ اس سے کہیں زیادہ  بلند و برتر ہے کہ جس کی طرف تاریخ و روایات اشارہ کرتی ہیں اور ان کی عزت و وقار اس سے کہیں زیادہ ہے جن کی طرف ان کے زندگی نامہ لکھنے والوں نے  قلم فرسائی کی ہے۔ حضرت زہراؑ کی مرکزیت کو بیان کرنے کے لیے یہی کافی ہے کہ آپ کے والد گرامی محمدؐ، شوہر گرامی علیؑ اور آپ کے صاحبزادے حسنؑ و حسینؑ ہیں۔ آپ ساری کائنات کی خواتین کی پیشوا ہیں۔ اپنی کتاب کے آخر میں راقم یوں رقمطراز ہے، اے دختر مصطفٰی فاطمہ! اے وہ ذات جس نے زمین کو اپنے شانوں پر بلند کردیا۔ اپنی  پوری زندگی میں صرف دو مرتبہ  آپ نے تبسم کیا۔ پہلی مرتبہ جب آپ بستر بیماری پر پڑی تھی تو جونہی ﴿آپ کے والد گرامی نے﴾  آپ کو یہ خوش خبری سنائی کہ مجھ سے سب سے پہلے آپ کی ملاقات ہوگی۔ دوسری مرتبہ اس وقت آپ کے چہرے پر مسکراہٹ تھی جب آپ اپنی جان کو جان آفرین کے حوالے کر رہی تھی۔ آپ نے ہمیشہ پاکیزگی اور پاکدامنی کے ساتھ الفت و محبت کی زندگی گزاری۔ آپ وہ پاکیزہ ترین ماں ہیں جو دو پھولوں کو دنیا میں لائیں اور ان کی پرورش کا فریضہ بھی نبھایا۔ آپ طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ اس  فانی دنیا کا مذاق اڑا کر راہی ابد ہوگئیں۔ اے محمد مصطفٰی (ص) کی دختر گرامی! اے علی مرتضیٰ کی شریک حیات! اے حسنؑ و حسینؑ کی مادر گرامی! اے پوری دنیا اور ہر زمانے کے خواتین کی سرور و سالار!(۳)
 
وہ اس کتاب میں رقمطراز ہے، بہادری یہ نہیں کہ جسمانی طاقت یا تخت و تاج کے سہارے کسی کا مقابلہ کیا جائے بلکہ حقیقت میں بہادری  یہ ہے کہ عقل و منطق اور فہم و فراست سے میدان مقابلہ میں اترے۔ ایسے میں اہداف مشخص ہو جاتے ہیں اور اس کے بارے میں پروگرامینگ  بھی کی جاسکتی ہے۔ حضرت زہراؑ کی بہادری بھی اسی صورت میں نمودار ہوگئی۔ آپ نے لوگوں کی ہدایت کے ہدف کو پانے کے لیے مؤثر طریقے اپنائے جبکہ آپ کے بازو نازک و کمزور اور آپ کے پہلو ضعیف تھے۔ ﴿۴﴾
 
سلیمان کتانی کا کہنا ہے کہ آپ نے دو ہستیوں  یعنی اپنے والد گرامی اور شوہر نامدار کے سایے میں زندگی گزاری۔ دو خوشبوؤں اور پیغمبر و امام کے دو بیٹوں حسن ؑ اور حسینؑ کو آپ نے اپنی آغوش میں پروان چڑھایا۔ دو لطافتوں یعنی لطافت جسمانی اور لطافت احساسی کو اپنے گود میں لیا۔ آپ نے دو عصروں یعنی عصرجاہلیت اور عصر بعثت کا مشاہدہ کیا۔ آپ نے اپنے والد گرامی کو دو طرح کی محبت فراہم کی یعنی بیٹی کی محبت اور ماں کی محبت۔ آپ دو طرح کی آگ میں جلتی رہیں یعنی محرومیت کی آگ اور فقدان کی آگ۔ آپ نے بہت سارے مصائب جھیلیں۔
 
اے فاطمہ! اے زیور عفت سے آراستہ زبان کی مالک! اے زیور کرامت سے سرشار گلوئے اطہر کی مالک! تیرا رشتہ کتنا پیارا ہے جس کی خوشبو دخت عمران تک پھیلی ہوئی ہے۔ اے مصطفٰی کی لخت جگر!
فاطمہؑ کو اللہ تعالی کے لطف و کرم سے جمال کے ساتھ ساتھ عقل کامل، باطنی پاکیزگی اور  قوہ جاذبہ بھی نصیب ہوئی۔
 
آپ نے ایک بہت ہی باعظمت باپ اور قطب ﴿عالم امکان﴾ کی توجہ کو اپنی طرف مبذول کرایا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کے والد گرامی کی نسل آپ ہی کے ذریعے جاری و ساری رہی۔ یہ بھی ایک ایسا ذخیرہ ہے جس سے یکے بعد دیگرے  ہر دور کے انسانی نسلیں بعنوان  ارث مستفید ہوتی رہیں گی۔ آپ کی نسلوں نے اتنی ترقی کی کہ مرور زمان کے ساتھ ساتھ ایک وقت میں فاطمہ کے نام سے مصر میں ایک حکومت تشکیل پائی اور انھوں نے اپنی توان کے مطابق آپ کے نام سے استفادہ کیا۔ مصر میں فاطمی حکومت اور جامعة الازہر دونوں آپ کے اسم سے متبرک ہوگئے۔ مسلمانوں نے بالخصوص شیعوں نے آپ کو اب بھی فراموش نہیں کیا ہے۔ کیونکہ آپ پیغمبر اکرمؐ کے نزدیک سب سے زیادہ پیاری ہیں۔
 
حضرت فاطمہ ؑ نے فدک کا تقاضا اپنی ذاتی پراپرٹی بڑھانے کے لیے  نہیں کیا بلکہ آپ اس کے ذریعے اسلام کے استحکام اور پائیداری کے خواہاں تھیں۔ آپ اس کی پیداوار کو جزیرة العرب میں موجود تمام افراد تک پہنچانا چاہتی تھیں کیونکہ وہ سب فقر و تنگدستی میں مبتلا تھے۔ خصوصا فکری اور روحانی بھوک نے تو  ان کو اچک ہی لیا تھا۔ یہاں پر فاطمہ ؑ نے اپنے ارث کے حصول کے لیے قیام کیا۔ آپ  اس  تقاضے کے ذریعے اجتماعی حس جو مردہ ہوچکی تھی کو دوبارہ زندہ کرنا چاہتی تھیں۔
 
فرانس کے محقق لوئی ماسینیون Louis Massignon کا کہنا ہے، حضرت ابراہیم کی اولاد اور ان کی دعائیں بارہ ایسے نور کی خبر دیتی ہیں جو حضرت فاطمہ ؑ سے منشعب ہوں گے۔ حضرت موسیٰ ؑ کی تورات حضرت محمدؐ اور ان کی دختر اور ان کے بارہ فرزندوں کی آمد کی خبر دیتی ہے۔ جیسے اسماعیل، اسحاق اور حسن و حسین علیھم السلام۔ حضرت عیسیؑ کی انجیل محمدؐ کی آمد کی خبر کے ساتھ ہی یہ بشارت بھی دیتی ہے کہ پیغمبر اکرم ؐ کے ہاں ایک بابرکت صاحبزادی پیدا ہوگی جس سے دو صاحبزادے وجود میں آئیں گے۔
 
ڈائنا ڈی سوزا D.Disvza ہندوستان کی ایک مسیحی محقق ہیں۔ وہ فاطمہ زہرا ؑ کے حوالے سے ایک واقعہ نقل کرکے اس پر تبصرہ کرتی ہے۔ واقعہ یوں ہے، ایک  دن حضرت محمدؐ نے اپنی صاحبزادی فاطمہؑ سے فرمایا، کیا کوئی ایسی خاتون ہے جس کی دعا آسمان تک پہنچنے سے پہلے ہی مقام قبولیت تک پہنچ جائے؟ حضرت فاطمہؑ اپنے والد بزرگوار کے بیان کیے ہوئے اس معیار پر اترنے والی خاتون سے ملاقات کی آرزومند تھیں۔ ایک دن آپ ایک لکڑہارے کی بیوی سے ملاقات کی خاطر ان کے ہاں گئیں۔ جونہی ان کے گھرکے سامنے پہنچی آپ نے اندر داخل ہونے کے لیے  اس سے اجازت طلب کی۔ اس خاتون نے یہ کہہ کر آپ سے معذرت خواہی کی کہ میرے شوہر ابھی یہاں نہیں ہیں اور میں نے ان سے آپ کو گھر لانے کی اجازت بھی نہیں لی ہے لہذٰا آپ واپس چلی جائیے اور کل تشریف لائیے تاکہ میں ان سے اس حوالے سے اجازت لے سکوں۔ حضرت فاطمہؑ واپس لوٹ آئیں۔ جب اس عورت کا شوہر رات کو گھر آیا تو اس نے حال چال دریافت  کیا۔ اتنے میں اس خاتون نے کہا کہ اگر پیغمبر اکرم ؐ کی بیٹی حضرت فاطمہؑ ہمارے ہاں آنا چاہے تو کیا ان کے لیے اجازت ہے؟ اس نے جوابا کہا، وہ آ سکتی ہیں۔ اگلے روز حضرت فاطمہؑ حضرت امام حسینؑ کو اپنے ہمراہ لیے دوبارہ اس کے پاس آئیں اور حسب سابق ان سے اندر داخل ہونے کی اجازت مانگی۔ اس خاتون نے دوبارہ یہ کہہ کر معذرت کی کہ میں نے صرف آپ کے لیے میرے شوہر سے اجازت لی ہے لیکن آپ کے ساتھ اس وقت آپ کا صاحبزادہ بھی ہے لہذٰا میں اجازت نہیں دے سکتی ہوں۔ حضرت فاطمہ دوبارہ لوٹ آئی۔ رات کو جب اس عورت کا شوہر واپس لوٹ آیا  اور حال احوال دریافت کیا تو اس کی بیوی نے پوچھا: کیا پیغمبر اکرمؐ کے گھرانے سے کوئی ہمارے ہاں آئے تو اس کے لیے اجازت ہے؟ اس نے اثبات میں جواب دیا۔ اس طرح حضرت فاطمہ ؑ تیسری مرتبہ لوٹ آئیں اور اس لکڑہارے کی بیوی سے ملاقات کی۔
 
اس داستان کا اخلاقی پہلو یہ ہے کہ عورت کو ہر وقت اپنے شوہر کا مطیع رہنا چاہیے۔ اسی عورت کے بارے میں حضرت محمدؐ نے فرمایا  یہ سب سے پہلے جنت جانے والی خاتون ہے۔ اگر ہم نے ایک قدرتمند خاتون بن کر رہنا ہے تو ہمیں شہامت، حضرت مریم ؑو حضرت فاطمہؑ سے لینا چاہیئے۔ ان کے شجاعانہ اقدامات کا احترام کرنا چاہیئے۔ ہمیں چاہیے کہ ان کی اس شہامت کو ہم اپنے بیٹے بیٹیوں، بہن بھائیوں، دوستوں اور رشتہ داروں تک منتقل کریں۔ ان کی سیرت کو ہم اپنی سیرت بنا لیں اور ہم اپنے ذریعے اپنی نسلوں تک منتقل کریں۔ صرف اسی صورت میں ہی ہم طاقتور بن کر رہ  سکتے ہیں اور صرف اسی صورت میں ہی ہم نے اپنی ماؤں کا احترام بجا لایا ہے۔﴿۵﴾


حوالہ جات:
۱:پائیگاہ علمی فرہنگی محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمThis email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
2: نقد و بررسی شخصیت حضرت فاطمہ زہراؑ از نگاہ مستشرقان با رویکرد قرآنی،  محمد عسکری، ص ۹۹ تا ۱۱۳
۳: سلیمان کتانی، فاطمة الزہراء وتر فی غمد،ص۳۲۔۲، ناقل منزلت حضرت زہراؑ در احادیث، مکاتب علی،۱۴۸ تا ۱۵۶
۴:پائیگاہ علمی فرہنگی محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.۵: نقد و بررسی شخصیت حضرت فاطمہ زہراؑ از نگاہ مستشرقان با رویکرد قرآنی،  محمد عسکری، ص۱۲۱تا۱۲۲۔ ۹۹ تا ۱۱۳

 

تحریر۔۔۔۔۔۔۔۔سید محمد علی شاہ الحسینی

وحدت نیوز (آرٹیکل) مٹھاس ،انسان کو پسند ہے،انسان چاہتا ہے کہ اس کی زندگی کے تمام شعبوں میں شیرینی اور مٹھاس ہی ہو۔دینِ اسلام بھی یہی چاہتا ہے کہ انسانی معاشرے سے منکرات کو ختم کر کےحیاتِ انسانی کو  حسنات کی  شیرینی سے معمور کیا جائے۔انسانی دنیا میں اتنی بڑی تبدیلی ایک دم ممکن نہیں۔پھل  کبھی بھی ایک دن میں پک کر میٹھا نہیں ہوتا۔

ایک بیج کو زمین کے اندر مدتوں کیمیائی اور حیاتیاتی عمل سے گزرنا پڑتاہے جس کے بعد وہ ایک پودے کی صورت میں زمین کے اوپر تند و تیز ہواوں اور سورج کی گرم شعاوں کا مقابلہ کرنے کے قابل بنتاہے۔اس کے باوجود ایک پودے کو کھینچ کر زبردستی درخت نہیں بنایاجاسکتا۔

درخت بننے کے لئے بھی ایک پودے کو  مسلسل مٹی ،پانی،گیس اور ہوا کے ساتھ ساتھ موسمی تغیرات کی ضرورت پڑتی ہے۔ان مراحل سے گزرے بغیر پودا درخت نہیں بن سکتا۔درخت بننے کے بعد بھی پودے کو مسلسل موسمی تربیّت کے مراحل طے کرنے پڑتے ہیں تب جاکر اس پر شگوفے کھلتے ہیں اور پھل اگتے ہیں۔
کسی غنچے کو طاقت کے ساتھ مروڑ کر پھول نہیں بنایاجاسکتا اور کسی پھول کومسل کر یادبا کر قوت و طاقت سے  پھل بھی نہیں بنایا جاسکتا۔جب پھل لگ جاتاہے تو پھر ایک دن میں پک کر میٹھا نہیں ہوجاتا۔پھل بھی سورج کی کرنوں اور چاندنی کی آغوش میں مقررہ عمل طے کرنے کے بعدہی میٹھا اور شیرین ہوتاہے۔
انسانی و اسلامی تہذیب  کا شجر بھی اسی طرح ہے۔انسانی تہذیب کو بھی آگے بڑھنے اور ارتقاء کرنے کے لئے مختلف ادوار سے گزرنا پڑتاہے۔بہترین تہذیب سے بہترین ثقافت جنم لیتی ہے اور بہترین ثقافت سے بہترین تمدن وجود میں آتا ہے اور بہترین تمدن اپنی گود میں بہترین اقوام کو پروان چڑھاتاہے۔

ایک محقق کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنی تحقیقات کے دوران انسانی تہذیب کے ارتقائی مراحل کی رعایت کرے۔اسے تہذیب ،ثقافت اور تمدن کے فرق کو مدّنظر رکھتے ہوئے،اسے تہذیب و ثقافت اور تمدن کی ارتقائی سطح کو بھی ماپنا چاہیے۔مخاطبین کی ذہنی سطح کی پیمائش کے بعد ہی ان کی اصلاح ِ احوال کے لئے نسخہ تجویز کرنا چاہیے۔یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ ہر تحقیق ہر میدان میں کام نہیں آسکتی،ہر بات ہر شخص پر یکساں اثرات مرتّب نہیں کرتی اور ہر مریض کے لئے ایک ہی نسخہ کارگر ثابت نہیں ہوتا۔

انسانی تہذیبوں کے درمیان اسلامی تہذیب کو یہ انفرادیت حاصل ہے کہ دیگر اقوام جس قدر اپنی تہذیب سے دور ہوتی گئیں انہوں نے ترقی کی اور مسلمان جس قدر اپنی تہذیب سے دور ہوتے گئے انہوں نے تنزّل کیا۔تہذیب کوئی ایسی شئے نہیں ہے جو خود بخود ایک نسل سے دوسری نسل میں تبدیل ہوجاتی ہے۔بلکہ تہذیب کے ایک نسل سے دوسری نسل میں  منتقل ہونے کے لئے ضروری ہے کہ موجودہ نسل اپنی آئندہ نسل کے حالات کے مطابق اپنی تہذیبی روایات کی تعبیرِ نو اور تعمیرِ نو کرے  تاکہ آئندہ نسل اپنی موروثی تہذیب کے سائے میں افکارِ نو کو پروان چڑھا سکے۔

صدرِ اسلام میں صفہ کی درسگاہ اور مسجد النبی[ص]  کے زیرِ سایہ جو تہذیب پروان چڑھی وہ خالصتا ایک علمی  و فکری تہذیب تھی۔اسی علمی و فکری تہذیب نے ایک علمی و متمدن قوم کو جنم دیا جس کی آغوش میں سعدی،  فارابی،رومی،سینا،جابر بن حیان اور طوسی جیسی گرانقدر شخصیات نے جنم لیا۔
مختلف حالات و واقعات کے پیشِ نظر جیسے جیسے مسلمان اپنی نسلِ نو کو اپنی علمی تہذیب سے دور کرتے گئے وہ غیروں کے محتاج ہوتے چلے گئے۔حتّی کہ اب نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ اب اسلامی ممالک میں تہذیب بھی غیر مسلم مالک سے درآمد کی جارہی ہے۔

موجودہ صدی کے سماجی ،صنعتی اور سیاسی انقلابات بتا رہے ہیں کہ یہ صدی مسلمانوں میں بیداری اور ان کی اپنی تہذیب کی طرف بازگشت یعنی پلٹنے کی صدی ہے۔آج کے مسلمان کو اپنی عظمتِ رفتہ کے کھوجانے کا احساس ہوچکاہے اور اپنی اصلی تہذیب کی طرف پلٹنے کے لئے ہاتھ پاوں ماررہاہے۔ایسے میں اسلامی دنیا کی بنیادوں میں ایک ایسا مافیا بھی دیمک کی طرح  اپنا کام دکھارہاہے جو عالمِ اسلام کو اس کی علمی و فکری میراث کی طرف پلٹانے کے بجائے فقط نماز روزے اور طہارت کے احکام تک محدود رکھنا چاہتاہے۔

پاکستان کے ایک مایہ ناز محقق مختار مسعود کے مطابق انہیں زندگی میں دو  طرح کے استاد ملے۔ایک نے انہیں بچپن میں کہا کہ خبردار قلم کو ہاتھ نہیں لگانا ،یہ صرف تمہاری پڑھنے کی عمر ہے جب تعلیم مکمل کر لو پھر لکھنا شروع کرنا جبکہ دوسرے استاد نے کہا کہ ابھی سے لکھنا شروع کرو تب جاکر برسوں بعد کچھ لکھ پاو گے۔

ان کے بقول اگر میں پہلے والے استاد کی بات پر چلتاتو آج تک کچھ بھی نہ کرپاتا ۔یہ دوسرے استاد کی بات پر عمل کرنے کا نتیجہ ہے کہ میں نے اب تک بہت کچھ کرلیاہے۔
اسی طرح ہمارے ارد گرد بہت سارے ایسے لوگ ہیں جو طالبعلموں کو تعلیم کے راستے سے ہٹانے کے لئے اس طرح کے نظریات کی ترویج کرتے ہیں کہ  پڑھائی لکھائی کا کیا فائدہ ہے،تعلیم چھوڑو اورچلو قوم کی خدمت کرو۔یہ تعلیم کے بغیرقوم کی خدمت کا نعرہ اس ہمدردی اور خضوع و خشوع کے ساتھ لگاتے ہیں کہ اچھے خاصے طالب علم کا دل بھی پڑھائی سے اچاٹ ہوجاتاہے۔

تعلیم و خدمت کو ایک ساتھ لے کر چلنے کی ضرورت ہے۔نہ ہی تو خدمت کے بغیر تعلیم کسی کام کی ہے اور نہ ہی ایسی خدمت امت مسلمہ کے حق میں ہے جو تعلیم کے بغیر ہو۔ تعلیم  وتربیت اور تحقیق ِ نوو تولید علمی کے بغیر خدمت ایسے ہی ہے جیسے نور کے بغیر چراغ ۔
“علم دشمن مافیا” دن بدن دانستہ یا نادانستہ طور پر مسلمانوں کی نسلِ نو کے دماغوں کو دیمک کی طرح چاٹ رہاہے۔ آج کون نہیں جانتا کہ ہمیں اسلامی  بیداری کی موجودہ صدی میں اپنی ملت کو حقیقی اسلامی تہذیب سے مرتبط کرنے کے لئے علمی و فکری شخصیات کی اشد ضرورت ہے۔
ہمیں ایسی علمی و فکری شخصیات کی ضرورت ہے جو  ہمیں مشرق و مغر ب کی علمی و اقتصادی،فکری و نظریاتی،سائنسی و  معاشرتی غلامی سے نجات دلاکر حقیقی اسلامی تہذیب  کے ساتھ متصل کریں۔

یہ سب کچھ ایک دم نہیں ہوسکتا اس کے لئے ہمیں مسلسل تگ و دو اور جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے اور اس کا پہلا قدم یہ ہے کہ ہم  اپنے  اسکولز،مدارس،کالجزاور یونیورسٹیز کے طالبعلموں کو ” علم دشمن مافیا” سے محفوظ کر یں،انہیں تعلیم ترک کرنے کے بجائے تعلیم مکمل کرنے کی ترغیب دیں اور تعلیم کے ساتھ ساتھ خدمت کرنے کا ہنر بھی سکھائیں،اسی طرح ان کے ہاتھوں میں کلاشنکوف یا چندے کے باکس تھمانے کے بجائے،ان کی اخلاقی و علمی  تربیت  کریں اور ان کی تحقیقی   و مدیریتی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کے لئے منصوبہ بندی کریں۔

ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ پھل ایک دن میں پک کر میٹھا نہیں ہوجاتا، پھل بھی سورج کی کرنوں اور چاندنی کی آغوش میں مقررہ عمل طے کرنے کے بعدہی میٹھا اور شیرین ہوتاہے۔ انسانی و اسلامی  تہذیب  کا شجر بھی اسی طرح ہے۔اس شجر کے ثمر آور ہونے کے لئے ضروری ہے کہ ہم اپنی ملت کے  نونہالوں کو علم دشمن  مافیا سے بچائیں چونکہ تعلیم  وتربیت اور تحقیق ِ نوو تولید علمی کے بغیر اسلام  اور مسلمانوں کی خدمت کا نعرہ لگانا ایسے ہی ہے جیسے نور کے بغیر چراغ  لے کر کسی کی  رہنمائی کے لئے نکل پڑنا۔


تحریر۔۔۔۔۔۔نذر حافی

وحدت نیوز (آرٹیکل) صدیوں پرانی  بات ہے کہ  موجودہ عربستان میں ایک عظیم الشان  بادشاہ ہوا کرتاتھا ۔اس کی سلطنت   کی حدود  ،ایک یا دو ملکوں تک نہیں ، بلکہ پورے موجودہ عربستاں ، روم و فارس تک پھیلی ہوئیں تھیں ۔ مگر دنیا کے دیگرتمام سلطانوں  سے ہٹ کر اس بادشاہ  میں بہت ساری  خوبیاں و خصوصیات تھیں  کہ جس کے سبب یہ عظیم سلطان  موجودہ تمام بادشاہوں اور آئندہ آنیوالے تمام رہبروں و لیڈروں کےلیے ،ایک رول مڈل و نمونہ ِعمل کے طور پر باقی رہا اور رہے گا ۔کہ جن میں اس کا انتہائی  رحم دل ، خوش اخلاق ،سخی ، شجاع ،خوبصورت و باقی تمام کمالات عالیہ سے لبریز ہونا شامل تھا۔مشکل یہ تھی کہ جس قوم میں اس عظیم لیڈر نے آنکھ کھولی ،اس کی موجودہ صورت حال انتہائی آلودہ ، پست اور اندھیروں میں  ڈوبی ہوئی تھی ۔ ایسے وقت میں اس عظیم انسان نے اپنے کردار سے اس قوم کو ذلت و پستی کے گھپ اندھیروں سے باہر نکلا۔اس کی زوجہ یعنی ملکہ جو کہ ایک انتہائی مال دار خاتون تھی نے  بادشاہ ِوقت کی  تحریک میں  اس کا بھرپور ساتھ دیا ۔یہاں تک کہ اس نے اپنے مال کاذرّہ ذرّہ ،اپنے شوہر کے مِشن پر قربان کردیا۔زندگی کا پہیہ اسی طرح چلتا رہا  اور خداوند متعال نے ان کو بیٹوں سے نوازا ۔مگر افسوس کہ  سلطان کے تمام بیٹے بچپنے میں ہی انتقال کرگئے ۔اس پر بھی انہوں نے خداوند متعال کی  حمد و ثنا بجھا لائی اور کبھی بھی ان کی زبا ن پر شکوہ جاری نہیں ہوا۔چند   ہی عرصہ بعد اللہ تبارک وتعالیٰ  نے ان کو ایک پھول جیسی بیٹی عطا کی ۔جس پر سلطان نے بیٹی  کو اپنا سرمایہءِ زندگی سمجھتے ہوئےاس پر  فخر محسوس کیا  اور اس رحمت خداپر  دونوں نے اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کیا ۔ابھی وہ بچی تقریباً پانچ سال ہی کی تھی کہ وہ معصوم ،آغوش مادر سے محروم ہوگی ۔کہ جس پر اس کی پرورش کی ذمہ داری خود  اس کے والد بزرگوار نے اٹھائی ۔سلطان ِوقت نے اپنی  بیٹی کی تربیت کچھ اس طرح سے کی کہ بعد میں اسی بیٹی کا کردار زمانے کے لیے نمونہِ عمل قرار پایا۔یہاں قابل فکر نکتہ یہ  ہے کہ اسی  بیٹی کے جوان ہونے پر  ،اسی عربستاں ،روم وفارس کے سلطاں نے جب اپنی بیٹی کی شادی کی تو  انتہائی سادگی سے ،نہ  کہ آج ہماری طر ح کم از کم 8سے 10لاکھ لگا کر ۔اس کے باوجود کہ اس کے پاس شرق و غرب کی  سلطنت  تھی ،اس کی بیٹی کے جہیز پر نگاہ ڈالنے سے انسان حیرت کے سمندر میں طوطہ زن ہوجاتاہے ۔کہ جس میں فقط ایک پیراہن ،چار تکیے ،ایک چکی ،ایک تانبے کا طشت ،ایک چمڑے کا ظرف ،و چند مٹی کے برتن شامل تھے۔اور دوسری طرف وہی بیٹی ،جب ایک بیوی کے روپ میں  شوہر کے گھر جاتی ہے ،تو وہی سلطاں ِعالم کی بیٹی گھر کے سارے کام کرتی ہوئی نظر آتی ہے ۔جن  میں آٹا گوندھنا،روٹی بنانا ،چکی چلانا ، و جھاڑو دینے سے لے کر گھر کے دیگر تمام چھوٹے بڑے کام شامل تھے ۔وہ  تربیت ِیافتہ خاتون، بیٹی کے ساتھ ساتھ ایک ایسی زوجہ  تھی کہ جس کی زندگی کے مطالعے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس نے کبھی بھی اپنے شوہر سے ایسی فرمائش نہیں کی، کہ جسے اس کا شوہر پورا نہ کرسکے ۔اپنے شوہر کے ساتھ انتہائی مہربان اور اس کی زندگی سچ سے لبریز تھی ۔جبکہ اسی خاتون کے تاریخی کردار کو اگر پردہ داری  کے لحاظ سے پرکھا  جائے تو  اس   کی پردہ داری کا اندازہ  اس واقعہ سے لگایا جاسکتاہے ، کہتے ہیں کہ ایک دفعہ اس خاتون کے گھر اس کے والد کے ساتھ ایک نابینا  شخص ان کےہاں آیا ۔تو فوراً ہی اس پاکیزہ خاتون نے اپنے آپ کو ایک چادر میں چھپا لیا ۔اس پر اس کے والد بزرگوار نے کہا کہ تم نے اپنے آپ  کو چادر میں کیوں چھپا لیاہے؟ جبکہ یہ شخص تو  نابینا  ہے ۔تو اس پر اس خاتون نے جواب دیا ،کہ  بے شک یہ نابینا ہے اور کچھ نہیں دیکھ سکتا مگر میں تو بینا ہوں اور میں تو اس کو دیکھ سکتی ہوں ۔لہذا میں نے اپنے آپ کو چھپایا ہے ۔اسی طرح جب کسی موقعہ پر اس خاتون  سےکہ جو ایک  اچھی بیٹی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک باکردار زوجہ بھی تھی  سوال پوچھا کیا  گیاکہ ، آپ کی نظر میں  عورتوں کے لیے سب سے بہتر چیز کیاہے؟تو  اس پر اس خاتون نے اتنا خوبصورت جواب دیا کہ جسے تاریخ نے ہمیشہ کےلیے  اپنے سینے میں محفوظ کرلیا  ۔"کہا کہ عورتوں کے لیے سب سے بہترین چیز یہ ہے کہ وہ کسی غیر مرد کو نہ دیکھیں اور کوئی غیر مرد اِن کو نہ دیکھے"۔اس شہزادی کی تربیت  اسقدر پاکیزہ تھی کہ جس اندازہ لگانا ممکن نہیں ۔فقیروں و محتاجوں  کی حاجت  روائی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ۔ایک دفعہ گھر کے باہر کسی محتاج  نے پرانے لباس کی درخواست کی ۔مگر ہوا یہ کہ اس خاتون نے اپنا نیا  شادی والا لباس محتاج کو عطا کیا اور خود پیوند شدہ لباس زیب ِتن کرلیا ۔الغرض یہ تاریخ کا ایک ایسا کردار ہے کہ جو تمام معنوی کمالات و صفات عالیہ سے پُر ہے  ۔اور یہ کردار آج بھی ہماری  ماؤں ،بہنوں و بیٹیوں کے  لیے مکمل نمونہِ عمل ہے ۔ ایک ایسی مشعل ِراہ ہے کہ جس کی روشنی میں    چلتے ہوئے وہ اپنی زندگی کے بہترین لمحات کو طے کے سکتیں ہیں ۔اور یاد رہے کہ  یہ بیٹی کوئی اور نہیں بلکہ سید الانبیاء رسول گرامی ِ قدر  حضرت محمدمصطفیٰ(ص) کی دختر نیک اختر  سیدۃالنساء العالمین حضرت  فاطمۃ الزھراء(س) ہیں ۔یہ ایک بیٹی اور زوجہ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک ایسی ماں بھی ہیں کہ جس نے اپنی تربیت سے  زمانے کو حسنؑ و حسینؑ جیسے رہبران و لیڈر دیے۔بلاشبہ حضرت زھراء(س) آج اور آئندہ آنیوالی تمام انسانیت کے لیے اسوہ حسنہ ہیں ۔آپکؑی ولادت باسعادت جمعےکے دن 20 جمادی الثانی ،بعثت کے 5ویں سال سرزمین مکّہ میں ہوئی ۔آپکؑا اسم مبارک فاطمہ (س)جبکہ مشہور ترین القاب  میں سے  زھراء ،بتول ،صدیقہ الکبریٰ، عذرا،طاہرہ ،اور سیدۃالنساءالعالمین ہیں ۔آپکؑی والدہ ماجدہ  ملیکۃ العرب سیدہ خدیجہ الکبریٰؑ  ہیں ۔آپکؑی شہادت 11 ھجری  مدینہ منورہ  میں ،رحلت ِ رسول خداؐ  کے 75یا 95 دن بعد ہوئی۔آپکؑی وصیت کے مطابق آپکؑو شب ِ تاریخی  میں سپرد خاک کیا گیا اور قبر کے نشان کو مٹادیاگیا کہ جو آج تک مخفی ہے ۔آپکؑی  عظمت وفضیلت میں  رسول خداؐ کی مشہور حدیث کہ جس میں  آپؐ نے فرمایا کہ "فاطمہؑ  میرا  جگر کا ٹکڑا  اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے،جس نےفاطمہؑ کو ناراض کیا اسنے مجھ محمدؐ کو ناراض کیا اور جس نے فاطمہ ؑ کو خوش کیا اس نے مجھ محمدؐ کو خوش کیا "[1]۔

لہذا آج معاشرے میں پھر سے جناب سیدہ ؑ کی زندگی کے تمام پہلو اُجاگر کرنے کی ضرورت ہے ۔تاکہ اس جامع کردار کے ذریعے آج کے ترقی یافتہ معاشرے میں موجود جاہلانہ رسومات کو ان کی جڑ سمیت تہ تیغ کیا جاسکے۔

 

 

      

تحریر۔۔۔۔۔۔ساجد علی  گوندل

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز (اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان شعبہ تبلیغات کے مرکزی سیکریٹری علامہ اعجاز بہشتی نے اپنے ایک بیان میں روضہ حضرت زینب ؑ کے قریب ہونے والے بم دھماکوں کی مذمت کی اور شام کے صورت حال پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ شام میں جنگ بندی مشرق وسطیٰ میں کشیدگی کو ختم کرنے کے لئے نہایت مثبت قدم ہے جو شامی صدر بشار السد کی کامیابی اور دہشت گرد اور انکے اتحادیوں کی شکست ہے ۔ حضرت زینب سلام علیہا کی روضہ مبارک کے پاس بم دھماکہ اور بے گناہ لوگوں کی شہادت کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے ، بے گناہ انسانوں کو قتل کرنے والے یہ دہشت گرد در حقیقت امریکہ، اسرائیل کے ایجنٹ ہیں ۔ لیکن مسلمانوں کے لئے لمحہ فکریہ یہ ہے کہ دفاع حرمین کا نعرہ لگا نے والے نواسی رسول حضرت زینب ؑ کے روضہ کی دفاع کے موقع پر خاموش ہیں، جن دہشت گرد گروں کی جانب سے نواسی رسول حضرت زینب ؑ کی روضہ کو خطرہ ہے انہی دہشت گردوں سے مکہ و مدینہ اور سول اکرم ؐ کے روضہ کو بھی خطرہ ہے اور ان کی شر سے کوئی مسلمان محفو ظ نہیں ہے ۔لہذا ہمیں اس وقت اسلام کے اصل چہرہ کو دہشت گردوں اور عالمی سازشوں سے بچا نا ہے اور دشمنان اسلام کو بے نقاب کرنا ہے تاکہ ساری دنیا پر حقیقت اسلام اور محبت دین محمدی ؐ واضح ہو۔ اسلام کو بچا نے کے لئے ضروری ہے کہ ہم اپنے اندر اتحاد اور شعور کی فضاء کو قائم کریں اور دشمنان اسلام کی ہر سازش سے ہوشیار رہے تاکہ ہم دشمن کی ہر سازش کا بر وقت مقابلہ کر سکیں۔

وحدت نیوز (آرٹیکل) اسلامی تعلیمات میں بلا کسی تفریق و امتیاز کے انسانی فضائل و کمالات (جو کہ انسانوں کی برتری کا معیار ہیں) کی نسبت مردو عورت دونوں کی طرف دی گئی ہے
    فضائل و کمالات کا منشاانسان کا جسم نہیں ہے بلکہ اس کی روح اور نفس ہے اور روح کے اعتبار سے مرد اور عورت میں کوئی فرق نہیں ہے
    وہ آیتیں جو علم اور جہالت، ایمان اور کفر، عزّلت اور ذلّت، سعادت اور شقاوت، فضیلت اوربرائی، حق و باطل، سچّائی اور جھوٹ، تقویٰ اور فسق، اطاعت اور عصیاں، فرمانبرداری اور سرکشی، غیبت اور عدمِ غیبت، امانت اور خیانت اور ان جیسے دیگر امور کوکمالات اور نقائص جانتی ہیں اور ان میں سے کوئی بھی اچھائی یا برائی نہ مذکّر ہے نہ مؤنّث اس کا مفہوم یہ ہے کہ مسلمان یا کافر کا بدن، عالم یا جاہل، پرہیزگاریا فاسق، صادق یا کاذب نہیں ہے
    دوسرے الفاظ میں علمی اور عملی مسائل میں جو کہ فضیلت اور کمال کا معیار ہیں اگرکہیں بھی مذکّر اور مؤنّث کی بات نہیں ہے، تو یقیناً روح جو کہ ان صفات سے مزین ہے، وہ بھی مذکّر و مؤنّث کے دائرہ سے خارج ہوگی
    مرحوم علّامہ طباطبائی اس سلسلہ میں یوں رقم طراز ہیں: مشاہدہ اور تجربہ کی رو سے یہ بات ثابت ہے کہ مردو عورت ایک ہی نوع کے دو افراد ہیں دونوں کا تعلّق فردِ انسانی سے ہے، چونکہ جو کچھ مردوں میں آشکار ہے وہی عورتوں میں بھی پایا جاتا ہے
    کسی بھی نوع کے آثار اور علامات کا ظہور اس کے خارجی وجود کا مظہر ہوا کرتا ہے لیکن عین ممکن ہے کہ ان دو صنفوں کے مشترکہ آثار و علامات میں شدّت اور کمی پائی جاتی ہو لیکن یہ اختلاف اس بات کا باعث نہیں بنتا کہ دونوں صنفوں کی حقیقت میں کسی قسم کا کوئی فرق پایا جاتا ہو
    یہاں سے یہ حقیقت عیاں ہو جاتی ہے کہ وہ نوعی فضائل اور کمالات جو ایک صنف کی حد امکاں میں ہیں وہ دوسری صنف کے لئے بھی ممکن ہیں، اس کی ایک مثال وہ فضائل اور کمالات ہیں جو ایمان اور اطاعتِ پروردگار کے سایہ میں مرووعورت دونوں حاصل کرسکتے ہیں، وہ جامع ترین کلام جو اس حقیقت کو بیان کرتا ہے یہ آیت ہے
 أَنِّي لاَ أُضِيعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِنْکُمْ مِنْ ذَکَرٍ أَوْ أُنْثَی بَعْضُکُمْ مِنْ بَعْضٍ(۱)
میں تم میں سے کسی کا عمل ضائع نہیں کروں گا خواہ وہ مرد ہو یا عورت، تم ایک دوسرے کا حصّہ ہو
    اس کے علاوہ سورۂ احزاب میں اسی حقیقت کو تفصیلی طور پر بیان کیا گیا ہے اور مردو عورت کی معنوی خصوصیات کو ترازو کے دو پلڑوں کی طرح ایک ساتھ قرار دیا گیا ہے اور دونوں کے لئے کسی امتیاز کے بغیر ایک ہی جزا قرار دی گئی ہے، انسانی روح کے اعتبار سے دونوں کو ایک ہی مقام عطا کیا گیا ہے، دوسرے الفاظ میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ اس سورہ میں مردوں اور صنف نسواں اور ان کی ممتاز صفات کو ایک جامع عبارت میں بیان کیا گیا ہے اور ان دونوں صنفوں کے اعتقادی، اخلاقی، عملی صفات اور جزا کو یکساں قرار دیا گیا ہے۔
ارشادِ ربّ العزّت ہے
إِنَّ الْمُسْلِمِينَ وَ الْمُسْلِمَاتِ وَ الْمُؤْمِنِينَ وَ الْمُؤْمِنَاتِ وَ الْقَانِتِينَ وَ الْقَانِتَاتِ وَ الصَّادِقِينَ وَ الصَّادِقَاتِ وَ الصَّابِرِينَ وَ الصَّابِرَاتِ وَ الْخَاشِعِينَ وَ الْخَاشِعَاتِ وَ الْمُتَصَدِّقِينَ وَ الْمُتَصَدِّقَاتِ وَ الصَّائِمِينَ وَ الصَّائِمَاتِ وَ الْحَافِظِينَ فُرُوجَہُمْ وَ الْحَافِظَاتِ وَ الذَّاکِرِينَ اللَّہَ کَثِيراً وَ الذَّاکِرَاتِ أَعَدَّ اللَّہُ لَہُمْ مَغْفِرَۃً وَ أَجْراً عَظِيماً (۳)
بیشک مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں اور مومن مرد اور مومن عورتیں اور اطاعت گزار مرد اور اطاعت گزار عورتیں اور سچّے مرداور سچّی عورتیں اورصابر مرد اور صابر عورتیں اور فروتنی کرنے والے مرد اور فروتنی کرنے والی عورتیں اور صدقہ دینے والے مرد اور صدقہ دینے والی عورتیں روزہ رکھنے والے مرد اور روزہ رکھنے والی عورتیں اور اپنی عفّت کی حفاظت کرنے والے مرد اور عورتیں اور خداکا بکثرت ذکرکرنے والے مرد اور عورتیں، اللہ نے ان سب کے لئے مغفرت اور عظیم اجر مہیّا کر رکھا ہے
    مشہور ومعروف مفسّر مرحوم طبرسی مجمع البیان میں رقمطراز ہیں، جب جنابِ جعفرابن ابی طالب کی زوجہ اسماء بنت عمیس اپنے شوہر کے ہمراہ حبشہ سے واپس آئیں تو رسالت مآب حضرت ختمیٔ مرتبتﷺ کی ازواج سے ملاقات کے لئے گئیں، اس موقع پر آپ نے ازواجِ رسولﷺ سے جو سوالات معلوم کئے ان میں سے ایک یہ بھی تھا کہ آیا قرآن میں عورتوں کے سلسلہ میں بھی کوئی آیت نازل ہوئی ہے ؟ انہوں نے جواب دیا، نہیں،ان کے بارے میں کوئی آیت نازل نہیں ہوئی ہے، اسماء بنت عمیس پیغمبراکرمﷺ کی خدمت میں شرفیاب ہوئیں اور عرض کی اے خدا کے رسول! عورت کی ذات خسارہ و نقصان میں ہے ،رسولِ خداﷺ نے فرمایا تم نے کہاں سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے؟
اس نے عرض کی
’’اسلام اور قرآن میں عورتوں کے لئے مردوں جیسی کسی فضلیت کو بیان نہیں کیا گیا ہے‘‘
    اس موقع پر مذکورہ آیت نازل ہوئی، جس نے خواتین کو اس بات کا اطمینان دلایا کہ خدا کے نزدیک قرب اور منزلت کے اعتبار سے مرداور عورت میں کوئی فرق نہیں ہے، دونوں برابر ہیں، سب سے زیادہ اہمیت اس بات کی ہے کہ یہ دونوں عقیدہ،عمل اور اسلامی اخلاق سے آراستہ ہوں ۔
    مذکورہ آیت میں مردوں اور عورتوں کے لئے دس صفات کو بیان کیا گیا ہے جن میں بعض صفات کا تعلّق ایمان کے مراحل،یعنی زبان سے اقرار، دل سے تصدیق اوراعضاء و جوراح سے عمل سے ہے۔ ان میں سے کچھ صفات زبان، شکم اور جنسی شہوت کے کنٹرول سے مربوط ہیں، یہ تین صفتیں انسانی اور اخلاقی زندگی میں سرنوشت ساز کردار ادا کرتی ہیں، مذکورہ آیت کے ایک دوسرے حصّہ میں سماج کے محروم اور پسماندہ طبقہ کی حمایت، سخت اور ناگوار واقعات کے سامنے صبر اور بردباری  اور ان تمام پسندیدہ صفات کی پیدائش اور بقا کے اصلی عامل یعنی یادِ خدا کا تذکرہ کیا گیا ہے
آیتِ کریمہ کے آخر میں ارشاد ہو رہا ہے کہ:
پروردگارِ عالم نے ان مردوں اور عورتوں کے لئے اجرِ عظیم مہیّا کر رکھا ہے جو مذکورہ صفات سے مزین ہو ں پروردگارِ عالم پہلے مرحلہ میں بخشش کے پانی سے ان کے گناہوں (جوان کی روح کی آلودگی کا سبب ہیں) کو دھودیتا ہے، اس کے بعد انہیں اس اجرِ عظیم سے نوازتا ہے جسے خدا کے سوا کوئی نہیں جانتا ۔
عورت کی پاک و پاکیزہ زندگی، ایمان اور نیک عمل کی مرہونِ منّت ہے،قرآنِ مجید کی آیات میں عورت کی انسانی شخصیت کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے اوراسے مردوں کے ہم پلّہ قرار دیا گیا ہے، ارشاد ربّ العزّت ہے
مَنْ عَمِلَ صَالِحاً مِنْ ذَکَرٍ أَوْ أُنْثَی وَ ہُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّہُ حَيَاۃً طَيِّبَۃً وَ لَنَجْزِيَنَّہُمْ أَجْرَہُمْ بِأَحْسَنِ مَا کَانُوا يَعْمَلُونَ(۵)
جو شخص بھی نیک عمل کرے گا وہ مرد ہو یا عورت بشرطیکہ صاحبِ ایمان بھی ہو ہم اسے پاکیزہ حیات عطا کریں گے اور انہیں ان اعمال سے بہتر جزا دیں گے جو وہ زندگی میں انجام دے رہے تھے۔
    مذکورہ آیت میں پاکیزہ حیات کو ایمان اور نیک عمل کے نتیجہ کے طور پر ایک کلّی قانون اور اصول کی شکل میں بیان کیا گیا ہے، حیاتِ طیّبہ سے مراد ایک ایسے معاشرے کا قیام ہے جس میں سکھ چین، امن و امان، صلح اور دوستی، محبّت، باہمی تعاون اور دیگر انسانی اقدار کا دور دورہ ہو جس سماج میں ظلم، سرکشی، استکبار،جاہ طلبی اور خواہشات ِنفسانی کی پیروی سے وجود میں آنے والے دکھ درداور ظلم و ستم کی دور دور تک کوئی خبر نہ ہو، پروردگارِ عالم ایسے معاشرے کے افراد کو ان کے اعمال کے مطابق بہترین جزا دے گا ۔
    مذکورہ آیت میں اس حقیقت کو صراحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے اور ان تنگ نظر افراد کو دندان شکن جواب دیا گیا ہے جو ماضی اور حال میں عورت کی انسانی شخصیت کے بارہ میں شک و شبہ میں مبتلا تھے اور اس کے لئے مرد کے انسانی مرتبہ سے پست مرتبہ کے قائل تھے، یہ آیت عالمِ انسانیت کے سامنے عورت کے سلسلہ میں اسلام کے نقطۂ نظر کو بیان کر رہی ہے اور اس بات کا اعلان کر رہی ہے کہ کچھ کوتاہ فکر اور تنگ نظر افراد کے برعکس اسلام مردوں کا دین نہیں ہے بلکہ وہ عورتوں کو بھی مردوں کے برابر اہمیت دیتا ہے
    اس مقام پر سب سے اہم نکتہ جو لائق ذکر ہے وہ یہ ہے کہ اگر چہ مفسّرین نے پاکیزہ حیات کے بارے میں مختلف آراء و نظریات اور تفاسیر پیش کی ہیں، مثال کے طور پر بعض مفسّرین نے حیاتِ طیّبہ کو رزقِ حلال اور بعض دیگر نے قناعت اور اپنے حصّہ پر راضی رہنے بعض دوسرے مفسّرین نے پاکیزہ زندگی کو روزمرّہ زندگی میں عبادت اور رزقِ حلال سے تعبیر کیا ہے، لیکن اس لفظ کا مفہوم اس قدر وسیع ہے کہ مذکورہ تمام معنیٰ اور ان کے علاوہ دیگر معانی بھی اس کے دائرہ میں آسکتے ہیں، حیاتِ طیّبہ سے مراد وہ زندگی ہے جو تمام برائیوں، ہر قسم کے ظلم و ستم، خیانتوں، عداوتوں، اسارتوں، ذلّتوں اور حق تلفیوں اور ان جیسی دیگر مذموم صفات سے پاک و پاکیزہ ہو ۔
قرآنِ مجید میں مثالی خواتین کا تذکرہ:
    قرآن مجید کی نگاہ میں فضائل و کمالات کے حصول میں مردوعورت کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ اس آسمانی کتاب میں صرف کلّیات کو ہی بیان نہیں کیا گیا ہے بلکہ ان تعلیمات کو عینی شکل میں بیان کر نے کے لئے عالمِ انسانیت کے سامنے بعض مثالی خواتین کو پیش کیا ہے
قرآنِ مجید کی داستانوں اورقصّوں کی روح اخلاقی اور انسانی مسائل ہیں، وہ ان اہم مسائل کو قصّہ اور داستان کے سانچے میں بیان کرتا ہے، ان قصّوں اور داستانوں میں بھی عورت کا کردار بہت نمایاں ہے۔
دوسرے الفاظ میں یوں کہا جا سکتا ہے:
     حضرت ابراہیم ِ خلیل علیہ السّلام اور جنابِ سارہ:
    قرآنِ مجید نے اخلاقی اور انسانی فضائل و کمالات کو بیان کرتے وقت جہاں صاحب فضیلت مردوں کا تذکرہ کیا ہے وہیں مثالی خواتین کا نام بھی لیا ہے چونکہ نیک کردار مردو عورت دونوں ہی دیگر افراد کے لئے نمونۂ عمل بن سکتے ہیں، یعنی نیک کردار مردو عورت اچھے مردو عورت کے لئے نمونۂ عمل ہیں اور بد کردار مردوعورت، برے مردو عورت کے لئے اسوہ ہیں
    حضرت ابراہیم علیہ السّلام کا شمار اولوالعزم پیغمبروں میں ہوتا ہے جن کو بڑھاپے کے عالم میں فرشتوں نے ایک عالِم اور بردبار فرزند کی بشارت دی، چنانچہ یہی خوشخبری فرشتوں نے آپ کی زوجہ کو بھی دی فرشتوں نے جنابِ ابراہیم علیہ السّلام سے کہا
 فَبَشَّرْنَاہُ بِغُلاَمٍ حَلِيمٍ‌  (۶)
    پھر ہم نے انہیں ایک نیک دل فرزند کی بشارت دی
دوسرے مقام پر ارشاد ہوتا ہے۔
إِنَّا نُبَشِّرُکَ بِغُلاَمٍ عَلِيمٍ‌  (۷)
ہم آپ کو ایک فرزندِ دانا کی بشارت دینے کے لئے اترے ہیں
جناب ابراہیم علیہ السّلام نے فرمایا:
 قَالَ أَ بَشَّرْتُمُونِي عَلَی أَنْ مَسَّنِيَ الْکِبَرُ فَبِمَ تُبَشِّرُونَ‌  (۸)
اب جب کہ بڑھاپا چھا گیا ہے تو مجھے کس چیز کی بشارت دے رہے ہو۔
اس کے بعد ارشاد ہوتا ہے
 قَالُوا بَشَّرْنَاکَ بِالْحَقِّ فَلاَ تَکُنْ مِنَ الْقَانِطِينَ‌ . قَالَ وَ مَنْ يَقْنَطُ مِنْ رَحْمَۃِ رَبِّہِ إِلاَّ الضَّالُّونَ‌  (۹)
انہوں نے کہا
ہم آپ کو بالکل سچّی بشارت دے رہے ہیں خبردار! آپ مایوسوں میں سے نہ ہو جائیں
ابراہیمؑ نے کہا کہ:
رحمتِ خدا سے سوائے گمراہوں کے کون مایوس ہو سکتا ہے
گذشتہ آیات سے اس بات کا استفادہ ہوتا ہے کہ حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام پر بڑھاپا چھا چکا تھا لیکن فرشتوں نے آپ سے کہا: آپ مایوس نہ ہوں، چونکہ فرشتوں کی بشارت اور خوشخبری ہمیشہ ہی سچّی اور حق ہوا کرتی ہے،اس کے علاوہ کوئی بھی مؤمن شخص کبھی بھی مایوسی کا شکار نہیں ہوتا،چونکہ مایوسی کے معنیٰ ہیں( معاذاللہ )خدا کی قدرت اور توانائی کے بارے میں بدگمانی، یہ مایوسی کفر کی حد تک ہے، کسی بھی انسان کو ناامّیدی اور مایوسی کا حق نہیں ہے ۔
    قرآن ِ مجید جنابِ ابراہیم علیہ السّلام کی زوجہ کی بشارت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے ’’ وَ امْرَأَتُہُ قَائِمَۃٌ فَضَحِکَتْ فَبَشَّرْنَاہَا بِإِسْحَاقَ وَ مِنْ وَرَاءِ إِسْحَاقَ يَعْقُوبَ‘‘ (۱۰ ) ابراہیم کی زوجہ اسی جگہ کھڑی تھیں یہ سن کر ہنس پڑیں تو ہم نے انہیں اسحاق کی بشارت دے دی اور اسحاق کے بعد پھر یعقوب کی بشارت دی چونکہ خدا کےفرشتے صرف صاحبانِ کمال اور برگزیدہ افراد پر نازل ہوتے ہیں اور الٰہی وحی اور حقائق کو ان پر نازل کرتے ہیں لہٰذا مذکورہ بالا آیات سے یہ استفادہ کیا جاسکتا ہے کہ جناب ابراہیم علیہ السّلام کی زوجہ بھی آپ کی ذاتِ گرامی کی طرح کمال کے اعلیٰ درجہ پر فائز تھی جس کی بنا پر فرشتوں کی بشارت کی سزاوار قرار پائیں ۔
فرعونی ظلم و ستم کا مقابلہ کرنے والی خواتین:
ظلم و ستم سے پیکار کے میدان میں مرد و زن دونوں موجود ہوتے ہیں لیکن فرعون کے ظلم و ستم کا مقابلہ کرنے میں خواتین کا کردار حیرت انگیز ہے، قرآن ِ مجید نے ایسی تین خواتین کا تذکرہ کیا ہے جنہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السّلام کی حفاظت اور تربیت میں نمایاں کردار ادا کیا ہے، جناب موسیٰ کی مادرِ گرامی، ان کی بہن اور فرعون کی بیوی نے جناب موسیٰ کی پرورش کا بیڑا اٹھایا، ان خواتین نے اس دور کے ناگفتہ بہ سیاسی حالات کا مقابلہ کیا اور اپنی جان کو ہتھیلی پر رکھ کر جنابِ موسیٰ کی جان بچائی
جب حکمِ الٰہی کے مطابق جناب ِ موسیٰ کی مادرگرامی نے اپنے جگرگوشہ کو صندوق میں ڈال کے دریائے نیل کی موجوں کے حوالہ کردیا تو ان کی بہن سے کہا : اس صندوق کا پیچھا کرو۔فرعون کی زوجہ نے فرعون سے کہا : اس بچّہ کو قتل نہ کرو شاید اس سے ہمیں فائدہ پہنچے یا ہم اس کو گود لے لیں، قرآن ِ مجید کا ارشاد ہے
أَوْحَيْنَا إِلَی أُمِّ مُوسَی أَنْ أَرْضِعِيہِ فَإِذَا خِفْتِ عَلَيْہِ فَأَلْقِيہِ فِي الْيَمِّ (۱۱)
وَ قَالَتْ لِأُخْتِہِ قُصِّيہِ فَبَصُرَتْ بِہِ عَنْ جُنُبٍ وَ ہُمْ لاَ يَشْعُرُونَ(۱۲)
"اور ہم نے مادرِ موسیٰ کی طرف وحی کی کہ اپنے بچّے کو دودھ پلاؤ اور اس کے بعد جب اس کی زندگی کا خوف پیدا ہو تو اسے دریا میں ڈال دو، اور انہوں نے اپنی بہن سے کہا کہ تم بھی ان کا پیچھا کرو تو انہوں نے دور سے موسیٰ کو دیکھا جب کہ ان لوگوں کو اس کا احساس بھی نہیں تھا۔"
فرعون کی بیوی نے بھی کہا:
 قُرَّۃُ عَيْنٍ لِي وَ لَکَ لاَ تَقْتُلُوہُ عَسَی أَنْ يَنْفَعَنَا أَوْ نَتَّخِذَہُ وَلَداً وَ ہُمْ لاَ يَشْعُرُونَ(۱۳)
"یہ تو ہماری اور تمہاری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے لہٰذا اسے قتل نہ کرو کہ شاید یہ ہمیں فائدہ پہنچائے اور ہم اسے اپنا فرزند بنالیں اور وہ لوگ کچھ نہیں سمجھ رہے تھے۔"
 فرعون کے زمانہ میں نوزائیدہ بچّہ کی صنف معلوم کرنے کے لئے ہر دودھ پلانے والی عورت کا پیچھا کیا جاتا تھا، تاکہ لڑکا ہونے کی صورت میں اسے قتل کردیا جائے، اس خطرناک ماحول میں جنابِ موسیٰ کی بہن کی طرف سے ایک دائی کی تجویز کوئی معمولی اقدام نہیں تھا بلکہ ایک خطرناک اقدام تھا، موت سے روبرو ہونے کا مقام تھا اور وہ بھی ایک ایسے ماحول میں جہاں جنابِ موسیٰ علیہ السّلام کی مادرِگرامی کا حاملہ ہونا اور بچّہ کو پیدا کرنا سب صیغۂ راز میں تھا، یہ تجویز اور بھی زیادہ خطرناک تھی، لیکن اس پر عمل ہوا اور فرعون کی زوجہ کی تجویز کو بھی قبول کر لیا گیا۔
جنابِ مریم، ان کا مرتبہ اور مقام:
جنابِ مریم بھی ان خواتین میں سے ہیں جن کے مرتبہ، عظمت اور کرامت کا ذکر قرآن مجید میں آیا ہے، قرآن مجید نے آپ کی ذاتِ والا صفات کو صاحبانِ ایمان کے لئے نمونۂ عمل  قرار دیا ہے،
 ارشاد ہوتا ہے :
 وَ مَرْيَمَ ابْنَۃَ عِمْرَانَ الَّتِي أَحْصَنَتْ فَرْجَہَا فَنَفَخْنَا فِيہِ مِنْ رُوحِنَا وَ صَدَّقَتْ بِکَلِمَاتِ رَبِّہَا وَ کُتُبِہِ وَ کَانَتْ مِنَ الْقَانِتِينَ‌(۱۴)
 اور مریم بنت عمران کو بھی (اللہ مثال کے طور پر پیش کرتا ہے ) جس نے اپنی عصمت کی حفاظت کی تو ہم نے اس میں اپنی روح پھونک دی اور اس نے اپنے رب کے کلمات اور اس کی کتابوں کی تصدیق کی اور وہ فرمانبرداروں میں سے تھی
 آیاتِ قرآن سے استفادہ ہوتا ہے کہ جنابِ مریم کی کفالت حضرتِ زکریا علیہ السّلام کے ذمّہ تھی، جب بھی جنابِ زکریا محرابِ عبادت میں جنابِ مریم کی ملاقات کے لئے جایا کرتے تھے تو وہاں قسم قسم کے میوہ اور غذائیں دیکھتے تھے، جنابِ مریم علیہا السّلام ان پھلوں اور غذاؤں کے سلسلہ میں فرمایا کرتی تھیں کہ یہ سب خدا کی طرف سے ہے، پروردگارِ عالم نے  انہیں بے حساب نعمتوں سے نوازا ہے
 ارشادِ ربّ العزّت ہے
کُلَّمَا دَخَلَ عَلَيْہَا زَکَرِيَّا الْمِحْرَابَ وَجَدَ عِنْدَہَا رِزْقاً قَالَ يَا مَرْيَمُ أَنَّی لَکِ ہٰذَا قَالَتْ ہُوَ مِنْ عِنْدِ اللہِ إِنَّ اللہَ يَرْزُقُ مَنْ يَشَاءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ(۱۵)
جب زکریا علیہ السّلام محرابِ عبادت میں داخل ہوتے تو مریم کے پاس رزق دیکھتے اور پوچھتے کہ یہ کہاں سے آیا اور مریم جواب دیتیں کہ یہ سب خدا کی طرف سے ہے وہ جسے چاہتا ہے رزقِ بے حساب عطا کردیتا ہے۔
 قرآن کے اعتبار سے یہ بات مستند ہے کہ فرشتے جنابِ مریم سے گفتگو کیا کرتے تھے اور آپ کی باتوں کو سنا کرتے تھے،
ارشاد ہوتا ہے
 وَ إِذْ قَالَتِ الْمَلاَئِکَۃُ يَا مَرْيَمُ إِنَّ اللہَ اصْطَفَاکِ وَ طَہَّرَکِ وَ اصْطَفَاکِ عَلَی نِسَاءِ الْعَالَمِينَ‌ .
يَا مَرْيَمُ اقْنُتِي لِرَبِّکِ وَ اسْجُدِي وَ ارْکَعِي مَعَ الرَّاکِعِينَ‌ (۱۶(۱۶)
 اور اس وقت کو یاد کرو جب ملائکہ نے مریم کو آواز دی کہ خدا نے تمہیں چن لیا ہے اور پاکیزہ بنادیا ہے اور عالمین کی عورتوں میں منتخب قرار دے دیا ہے اے مریم! تم اپنے پروردگار کی اطاعت کرو، سجدہ کرو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔
پس عورت بھی عالمِ ملکوت تک رسائی حاصل کرسکتی ہے، وہ بھی فرشتوں کی مخاطب قرار پاسکتی ہے ۔مردوں اور عورتوں میں عفّت اور پاکدامنی کےمتعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔
قرآنِ مجید نے عفیف اور پاک دامن انسان کے تعارف کے لئے مرداور عورت دونوں کی مثال پیش کی ہے، اس میدان میں مرد اور عورت دونوں ہی جلوہ افروز ہیں
قرآن ِ مجید نے مردوں میں سے حضرت یوسف علیہ السّلام اور عورتوں میں سے جناب مریم علیہا السّلام کو عفّت اور پاکدامنی کے نمونہ کے طور پر پیش کیا ہے، حضرتِ یوسف بھی امتحان میں مبتلا ہوئے اور اپنی عفّت کی وجہ سے نجات حاصل کی، جنابِ مریم علیہا السّلام کا بھی امتحان لیا گیا وہ بھی اپنی عفّت کے سایہ میں نجات سے ہمکنار ہوئیں۔
قرآنِ مجید نے حضرتِ یوسف علیہ السّلام کے امتحان کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے
 وَ لَقَدْ ہَمَّتْ بِہِ وَ ہَمَّ بِہَا لَوْ لاَ أَنْ رَأَی بُرْہَانَ رَبِّہِ (۱۷)
اور یقینا اس (مصری) عورت نے ان سے برائی کا ارادہ کیا اور وہ بھی ارادہ کر بیٹھتے اگر اپنے رب کی دلیل نہ دیکھ لیتے،
اس عورت نے جنابِ یوسف علیہ السّلام کا پیچھا ضرور کیا لیکن جناب ِ یوسف نے نہ صرف یہ کہ گناہ کا ارتکاب نہیں کیا بلکہ اس کے مقدّمات کو بھی فراہم نہیں کیا بلکہ انہوں نے اس گناہ کا تصوّر بھی نہیں کیا چونکہ وہ اپنے پرودگار کی دلیل کا مشاہدہ کرچکے تھے، ان پر الزام لگانے والے آخر کار ان کی بے گناہی کے اعتراف پر مجبور ہوگئے
 الْآنَ حَصْحَصَ الْحَقُّ أَنَا رَاوَدْتُہُ عَنْ نَفْسِہِ وَ إِنَّہُ لَمِنَ الصَّادِقِينَ(۱۸)
توعزیزمصر کی بیوی نے کہا:
اب حق بالکل واضح ہو گیا ہے کہ میں نے خود انہیں اپنی طرف مائل کرنے کی کوشش کی تھی اور وہ صادقین میں سے ہیں
ان الفاظ کے ذریعہ عزیزِ مصر نے جنابِ یوسف علیہ السّلام کی طہارت کی گواہی دی اور بتایا کہ نہ فقط جنابِ یوسف برائی کی طرف مائل نہیں ہوئے بلکہ برائی بھی ان کی طرف مائل نہیں ہوئی
 کَذٰلِکَ لِنَصْرِفَ عَنْہُ السُّوءَ وَ الْفَحْشَاءَ مِنْ (۱۹)
یہ تو ہم نے اس طرح کا انتظام کیا کہ ان سے برائی اور بدکاری کا رخ موڑ دیں،
 قرآن کا ارشاد ہے کہ ہم نے گناہ کو بھی اس بات کی اجازت نہیں دی کہ وہ جنابِ یوسف کی طرف جائے
حضرت یوسف تمام عالم انسانیت کے لئے عفّت اور طہارت کا نمونہ ہیں حضرتِ مریم بھی ملکہ ٔ عفّت کے اعتبار سے جنابِ یوسف سے کسی درجہ کم نہیں ہیں بلکہ وہ جنابِ یوسف کی ہم پلّہ یا ان سے بھی بالا ہیں، چونکہ قرآنِ مجید جناب مریم کی حالت کو بیان کرتے ہوئے
 فرماتا ہے
قَالَتْ إِنِّي أَعُوذُ بِالرَّحْمٰنِ مِنْکَ إِنْ کُنْتَ تَقِيّاً (۲۰ )
 اور انہوں نے کہا کہ اگر تو خوفِ خدا رکھتا ہے تو میں تجھ سے خدا کی پناہ مانگتی ہوں،
 جنابِ مریم نہ صرف یہ کہ بذاتِ خود گناہ کی طرف مائل نہیں ہیں بلکہ اس فرشتہ کو بھی امربالمعروف کرتی ہیں جو انسانی شکل وصورت میں متمثّل ہوا تھا اور فرماتی ہیں اگر تم خوفِ خدا رکھتے ہو تو یہ فعل انجام نہ دو حالانکہ حضرتِ یوسف نے خدا کی دلیل اور برہان کا مشاہدہ کیا جس کی وجہ سے یہ قبیح فعل انجام نہیں دیا۔
نتیجہ اور ماحصل :
اس مقالہ میں انسانی اقدار کے حصول میں مردو عورت کی برابری کو بیان کیا گیا اور اس حقیقت کو ثابت کیا گیا کہ مردو عورت یکساں طور پر راہِ تکامل اور کمال کو طے کرسکتے ہیں اور میدانِ عمل میں بھی فضائل و کمالات سے یکساں طور پر مزین ہو سکتے ہیں بعض کامل مردوں اور خواتین کو بطورِ مثال پیش کیا گیا تاکہ یہ واضح کیا جاسکے کہ یہ ہمسری اور یکسانیت محض تھیوری اور نظریہ تک محدود نہیں ہے بلکہ عملی میدان میں بھی یہ دونوں صنفیں ان اقدار سے ہمکنار ہوئی ہیں ۔


تحریر : آیۃ اللہ العظمی جوادآملی حفظ اللہ تعالیٰ
ترتیب و تدوین : ظہیرالحسن کربلائی


 حوالہ جات
۱۔ سورہ آل عمران، آيہ ۱۹۵.
۲۔الميزان، ج 4، ص 94.
۳۔ سورہ احزاب، آيہ 35.
۴۔ مجمع البيان، ج 7، ص 357  358؛ نورالثقلين، ج 4، ص 275.
۵۔ سورہ نحل، آيہ 97.
۶۔سورہ صافات، آيہ 101.
۷۔سورہ حجر، آيہ 53.
۸۔سورہ حجر، آيہ 54.
 ۹۔حوالہ سابق، آيہ 56
10. سورہ ہود، آيہ 71.
11. سورہ قصص، آيہ 7.
12. سورہ قصص، آيہ 11.
13. سورہ قصص، آيہ 9.
14. سورہ تحريم، آيہ 12.
15. سورہ آل عمران، آيہ 37.
16. سورہ آل عمران، آيہ 42 / 43.
17. سورہ يوسف، آيہ 24.
18. سورہ یوسف، آيہ 51.
19. سورہ يوسف، آيہ 44.
20. سورہ مريم، آيہ 17.

وحدت نیوز (آرٹیکل) گلوبل ویلج کانام تو آپ نے سنا ہی ہوگا،یہ کوئی افسانوی بات نہیں بلکہ میدانی حقیقت ہے۔آج جدید ٹیکنالوجی نے ،سچ مچ میں ہماری اس دنیا کو گلوبل ویلیج میں بدل دیا ہے۔ ماضی کی  مشکلات اب جدید ٹیکنالوجی کی بدولت کافی حد تک حل ہوگئی ہیں۔ وسائل نقل و حمل کا مسئلہ ہو یا مواصلات کا، پہلے دنیا ومافیہا سے لوگ بے خبر ہوتے تھے لیکن آج ان سہولیات کی بدولت پل پل کی خبروں سے انسان آگاہ رہ سکتے ہیں۔ پہلے سالوں کی مسافت اب ہفتوں میں اور مہینوں کی مسافت اب دنوں اور گھنٹوں میں بدل گئی ہے۔ پہلے جس کام کے انجام دینے کے لیے دسیوں افراد درکار ہوتے تھے اب ایک جدید مشین ان سب سے بہتر انداز میں اس کام کو انجام دیتی ہے۔ٹیلی فون اور موبائیل کے فقدان کے باعث لوگ اپنے عزیزوں سے سالوں بے خبر ہوتے تھے  اب جدید ٹیکنالوجی نے مختلف طریقوں سے ایسے بہت سارے مسائل کو حل کیا ہےاور فاصلوں کو بہت حد تک کم کردیا ہے۔وہاں  بدقسمتی سے وسائل میں اضافے کے ساتھ ساتھ مختلف اخلاقی، اعتقادی، معاشرتی، خاندانی، فکری اورتربیتی حوالے سےبہت ہی خطرناک مسائل بھی جنم لے رہے ہیں۔ پہلے جن مسائل کے بارے میں سوچا بھی نہیں جاسکتا تھا آج کل وہ عملی صورت پر رونما ہورہے ہیں۔ پہلے لوگ ایک دوسرے کے بھائی  کی طرح زندگی گزارتے تھے، ایک دوسرے کے دکھ درد میں بھرپور شریک ہوتے تھے، غریبوں کی خوب مدد کرتے تھے اور بے سہاروں کا سہارا بنتے تھے، مریضوں کی  تیمار داری کرتے تھے، ایک دوسرے کا غم بانٹتے تھے، بزرگوں کا احترام اور علماء کے دربار میں رہنے کو اپنا شرعی اور اخلاقی فریضہ سمجھتے تھے، اپنے ہر  اہم کام میں اپنے علاقے کے عالم دین سے مشورہ کرتے تھے اور اس کے حکم کی تعمیل کرتے تھے، مشکلات کی بھرمار ہونے کے باوجود خوشحال رہتے تھے، عیش و نوش کی محفلوں کا سوچنابھی دور کی بات تھی،  طور اطوار اب سے بہت ہی مختلف تھے،ناموس کا احترام بہت زیادہ کیا جاتا تھا اور طلاقوں کی شرح نہ ہونے کے برابر تھی۔ بے حیائی اور بے حجابی آٹے میں  نمک کے برابر تھی۔

موجودہ زمانے میں جدید ٹیکنالوجی  جوں جوں ترقی کر رہی ہے  انسان کی  انسانیت و  اخلاقیات، محبت و الفت، شرافت و دیانت، عبادت و ریاضت، عدالت و صداقت، رحمت و ہمدلی، آداب و احترام، اطعام و اکرام ، غریب پروری و تیمارداری میں رفتہ رفتہ واضح کمی بھی رونما ہورہی ہے اور اب انسان انسانیت سے نکل کر مشین کا روپ دھار رہا ہے۔ ایسی ایجادات کی نمود سے پہلےیہ تمام اخلاقی اقدار کافی حد تک برقرار تھے۔

انسانیت کی جگہ اب مادیت لےرہی ہے، محبت کی جگہ اب نفرت اپنا گھر بسا رہی ہے، شرافت و دیانت کے مقام پر بدمعاشی اور خیانت قابض ہوتی جارہی ہے، عبادت و ریاضت کی جگہ اب ساز و سرود غصب کررہا ہے، عدالت و صداقت پر اب ظلم وفریب  شب خوں مار رہا ہے، رحمت و ہمدلی کی جگہ اب شقاوت و نفرت حاکم ہوتی جارہی ہے۔علماء کی ہمنشینی اب عذاب محسوس کرنے لگ گئے ہیں اور ان پر مختلف قسم کا الزام لگاکر انھیں سرکوب کرنے کی کوشش کرنا ایک عام سی بات بن گیا ہے۔ ان سے معاشرے کےایک حاذق روحانی ڈاکٹر کے طور پر اپنی روحانی بیماریوں کا علاج کرانے کی بجائے اپنے ذاتی مقاصد کے لیے انھیں استعمال کرنے کی ناکام کوشش کرنا اب روز مرہ کا معمول بن چکا ہے۔ پہلے خواتین اپنے ماں باپ کی اجازت کے بغیر گھرسے نکلنا اپنے لیے ننگ و عار سمجھتی تھیں اور محدود وسائل کے باعث ان کا ہر کام  والدین، بھائی اور دوسرے عزیزوں کی  زیر نظر ہوتا تھا جس کے سبب بے حیائی عجوبہ سی لگتی تھی اور ہماری خواتین حیا  کا  پیکر شمار ہوتی تھیں۔ لیکن اب جدید کمیونیکیشن کی بدولت موبائیل، فیس بک اور وٹس اپ جیسی سہولیات کا سہارا لیکر  رفتہ رفتہ عشق و عاشقی کے نام پر غلط روابط کے ذریعے بے حیائی کا بازار گرم ہوتا جارہا ہے۔طلاقوں کی شرح میں روز بہ روز ترقی ہوتی جارہی ہے۔ گھروں  کی چاردیواری کی حرمت بھی اب بری طرح پامال ہوتی جارہی ہے اور آزادی کے نام پر  فحاشی  اور عریانیت کو  دن بہ  فروغ ملنے کے ساتھ ساتھ  خانوادگی زندگی بھی اجیرن بنتی جارہی ہے۔ انھیں سہولیات کا سہارا لیکر مغرب کی بوسیدہ  ثقافت ہماری پاکیزہ  ثقافت کو بری طرح متاثر کر رہی ہے۔ تمدن کے نام پر اسلامی تہذیب کے پرخچے اڑائے جارہے ہیں۔

نشے اور اخلاقی برائیوں میں رفتہ رفتہ اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ پاکستان میں گزشتہ سال ۶۷لاکھ  بالغ افراد نے منشیات استعمال کیا۔ ۴۲ لاکھ سے زائد افراد نشے کے عادی ہیں۔ ان میں سے تیس ہزار سے بھی کم افراد کے لیے علاج معالجے کی سہولیت میسر ہے۔ کل آبادی کا ۴فیصد بھنگ پی رہا ہے۔ آٹھ لاکھ سات ہزار افراد افیون استعمال کر رہے ہیں۔ مردوں میں بھنگ اور خواب آور ادویات کی شرح زیادہ ہے جبکہ خواتین سکون فراہم کرنے والی ادویات بھی استعمال کرتی ہیں۔ تقریبا سولہ لاکھ افراد ادویات کو بطور نشہ استعمال کرتے ہیں۔ منشیات کی وجہ سے سالانہ لاکھوں افراد داعی اجل کو لبیک کہہ رہے ہیں۔ ﴿۱﴾ یہی وجہ ہے کہ آج کے جدید نظام زندگی سے تنگ آکر لوگ اب اپنی سابقہ طریق زندگی کے لیے ترس رہے ہیں۔جس کا واضح ثبوت  حال ہی میں اٹلی میں  دس لاکھ سے بھی زیادہ افراد کا اپنے قدیم گھریلو سسٹم کی بحالی کے لیے احتجاج کرنا ہے۔﴿۲﴾

آخر اس کا سبب کیا ہے؟  اس کی بنیادی وجہ  ہمارے اعتقادات کی کمزوری،اسلامی اقدار سے  ہماری دوری اور نئی نسل کی صحیح اسلامی تربیت سے ہمارا چی چرانا ہے۔ہمیں چاہیے کہ اپنے بچوں کی ایسی تربیت کریں  جس کے بعد وہ ان تمام مشکلات کا مردانہ وار مقابلہ کرسکیں۔ جب ہم ان کی درست تربیت کے ذریعے ان کے اعتقادات کو مضبوط بنائیں گے تب اسلامی اقدار کی نسبت ان کے ذہنوں میں ایک احترام تشکیل پائے گا۔ جب یہ اقدار  ان کے ذہنوں پر حاکم رہے  گا تب خود بہ خود اسلامی قوانین پر عمل کرنے کے لیے وہ تیار ہوجائیں گے۔ جب وہ اسلامی اصولوں پر عملی میدان میں بھی پابند ہوجائیں گے تب ثقافتی یلغار انھیں  منحرف نہیں کر سکے گا۔

کائنات میں اللہ تعالی نے کوئی چیز بری خلق نہیں کی ہے۔ ہر چیز انسان کے کمال اور اس کی ترقی کے لیے ہے۔  اسی طرح جدید ٹیکنالوجی میں بھی صرف منفی پہلو نہیں بلکہ اس کے فوائد بھی  ناقابل انکار ہیں۔ کیا ہم صرف اس کی منفی جہت کو دیکھ کر اس کے قریب ہی نہ جائیں؟ نہیں نہیں۔ اس قدر احتیاط کی ضرورت نہیں ہے۔﴿البتہ کم عمر ی میں بچوں کا  کمپیوٹر استعمال کرنا  ان کی ذہنی صلاحتیوں میں کمی کا سبب بنتا ہے۔ اسی لیے خود بلگیٹ نے اپنے بچوں کو کبھی کمپیوٹر استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی۔ اسی طرح اوباما کی بیوی نے بھی پندرہ سال ہونے تک اپنے بچے کو کمپیوٹر کے قریب تک جانے  نہیں دیا۔ یہ ہم ہیں جو دوسروں کی نقل اتارتے اتارے اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈال دیتے ہیں۔﴾ ہماری کمزوری یہ ہوتی ہے کہ اس جدید ٹیکنالوجی کو مثبت انداز میں فائدہ مند بنانے کی بجائے اسے منفی کاموں کے لیے ہی استعمال کرتے ہیں۔بالفرض اگر کوئی فیس بک پر کسی نامحرم کی تصویر لگا دے تب مرور زمان کے ساتھ ساتھ  جتنے لوگ اسے دیکھ کر گمراہ ہوتے جائیں گے اس گناہ میں وہ تصویر لگانے والا برابر کا شریک رہے گا خواہ وہ خود زندہ ہو یا  مر چکا ہو۔ اس گناہ کا حصہ اسے قبر میں بھی ملتا رہے گا۔ اسی طرح کوئی اچھی بات وہاں شیئر کرتا ہے تب جتنے لوگ اس سے استفادہ کریں گے اس کے ثواب میں بھی وہ شخص برابر کا  شریک رہے گا خواہ وہ قید حیات میں  ہو یا ابدی سفر پر روانہ ہوچکا ہو۔  جس طرح چھری خود سے کوئی بری چیز نہیں، رائفل کوئی خطرناک چیز نہیں، کلہاڑا کوئی دردناک چیزنہیں۔ لیکن جب ہم ان چیزوں کو اپنے مصرف میں استعمال کرنے کی بجائے ان سے  غلط کام لینا شروع کردیتے ہیں تب ان میں منفی رخ پیدا ہوجاتا تھا۔ جس چھری کو سبزی اور گوشت کاٹنے کے لیے استعمال ہونا چاہیے تھا، جس ہتھیار کو اپنے ملک دشمن  کافر و مشرکین کو سرکوب کرنے کے لیے بروکار لانا چاہیے تھا جس کلہاڑے سے لکڑی اور دوسری سخت چیزیں کاٹنا چاہیے تھا اب اگر ان سے کسی مسلمان  کا گلہ کاٹے ، کسی بے گناہ  کی جان سے کھیلے اورکسی عزیز  کا خون بہائے تو اس میں ان چیزوں کی کوئی غلطی نہیں بلکہ اس استعمال کرنے والے کا قصور ہے۔ بنابریں جدید ٹیکنالوجی خود سے کوئی خطرناک چیز نہیں لیکن جب ہم اسے اپنے منفی مقاصد کو پانے کے لیے استعمال کرتے ہیں تب اس کے مفید اثرات ناپید ہوجاتے ہیں اور اس کی جگہ مضر اثرات معاشرے میں پھیل جاتے ہیں۔ لہذا ہماری بنیادی ذمہ داری یہ ہے کہ ان سہولیات سے  ہماری نسلوں کو صرف اور صرف معاشرے کی ترقی اور تکامل کے کاموں میں استعمال کرنے کی تلقین کریں۔جس فیس بک کے ذریعے پیغمبر اکرمؐ اور ان کی پاک آل کا پیغام  دنیا تک پہنچا سکتا ہے، ہمارے اعتقادات سے دنیا کوآشنا کیا جاسکتا ہے، معاشرتی اصلاح کی باتیں شیئر کرسکتے ہیں، ظالموں کے خلاف آواز اٹھا سکتے ہیں، مظلوموں کی حمایت کا اعلان کرسکتے ہیں اور اپنے عزیزوں کی زیارت کرسکتے ہیں۔ اسی سے اگر غلط فائدہ اٹھاکر فحاشی پھیلانے، نفرت ایجاد کرنے، فساد برپا کرنے اور اسلامی اقدار کو پامال کرنے والی چیزوں کے لیے استعمال کرے تب یہ معاشرے ،گھر اور ملک  بلکہ پوری دنیا کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتی ہے۔ البتہ موجودہ زمانے کے تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے والدین ، بھائیوں اور رشتہ داروں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ اپنی ماں بہنوں کے ہاتھوں ضرورت سے زیادہ موبائیل وغیرہ نہ تھمائیں بالخصوص جن کی ابھی تک شادی بھی نہیں ہوئی ان کے ہاتھوں ایسی چیزوں کا تھمانا ایسا ہی ہے جیسے ایک غیر ممیز بچے کے ہاتھ میں آگ کا انگارا دینا۔ لہذا ان کو ہمیشہ تحت نظر رکھنا اشد ضروری ہے۔

یہ حقیقت ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ ہاری ہوئی جنگ کو دوبارہ جیت میں تبدیل کیا جاسکتا ہےمگر تہذیب  و ثقافت کی شکست پوری قوم کو تباہ و برباد کردیتی ہے۔ آج کل زیادہ تر انٹرنیٹ کا استعمال فحش و بے حیائی و اخلاقی بگاڑ کی طرف دعوت، مذہبی جذبات کو مجروح کرنے اور غلط معلومات کو پھیلانے میں ہورہا ہے۔ آج کل سوشل نیٹ ورکینگ کا چلن فروغ پارہا ہے۔ فیس بک کا استعمال لڑکے لڑکیوں کو نشے کی لت کی طرح لگ جاتا ہے اور اس میں نئی نئی دوستیاں صنف مخالف سے ہوتی ہیں اور پھر معاملات پیار، شادی اور زنا تک پہنچ جاتے ہیں۔ فیس بک اور انٹرنیٹ کے غلط استعمال سے لڑکے لڑکوں کی اخلاقی قدروں کے ساتھ ساتھ ذہنی و جسمانی صلاحیتوں پر بھی کاری ضرب لگتی ہے۔ لہذا گھر کے ذمہ دار افراد کو اپنے گھر والوں کی آئی ڈی وغیرہ وقتا فوقتا چیک کرتے رہنا چاہیے۔ ساتھ ہی پولیس اور دوسرے ذمہ دار ادارے اپنی ذمہ داریوں کو صحیح معنوں میں نبھائے نہ کوئی وجہ نہیں کہ معاشروں سے جرم  کا تدارک نہ ہوسکے۔ اس لیے جوابدہی کے نظام کو بھی بہتر بنانا ہوگا۔(3) بنابریں جہاں جدید ٹیکنالوجی زندگی میں آسانیوں کا سبب ہے وہاں پر اس کا غلط استعمال انسانی زندگی کو اجیرن بھی بنا سکتا ہے۔


تحریر۔۔۔۔۔ سید محمد علی شاہ الحسینی

Page 14 of 26

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree