وحدت نیوز (آرٹیکل) یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ اسلامی جمہوری ایران اور سعودی عرب کے تعلقات انتہائی نازک مرحلے میں داخل ہو گئے ہیں، دونوں ملکوں کے درمیان تناؤ اور کشیدگی انتہا کو پہنچ چکی ہے، اس تناؤ اور کشیدگی  کا جائزہ لینے کے لئے ہمیں کچھ نہ کچھ دونوں ممالک کے ماضی پر بھی نگاہ ڈالنی پڑے گی۔

خلافتِ عثمانیہ کے خاتمے کے بعد ایران اور سعودی عرب کے ۹۰ برسوں پر محیط دوطرفہ تعلقات ہمیشہ نشیب و فراز کے شکار رہے ہیں، اگرچہ کسی موڑ پر بھی یہ تعلقات دوستانہ اور قریبی نہیں تھے، دونوں ملکوں کے درمیان تناؤ اور کشیدگی کا آغاز اس وقت شروع ہوا جب  آل سعود نے برسراقتدار آتے ہی ایک طے شدہ سمجھوتے اور سوچے سمجھے منصوبے کے تحت وہابی افکار کا پرچار شروع کر دیا اور جنت البقیع میں واقع آئمہ معصومین (ع)  اورصحابہ کرام کے مزارات؛  خاص طور پر رسول اللہ (ص) کے لخت جگر جناب فاطمہ (س) کے مزار کو مسمار کر دیا جو آج بھی آل سعود کے دامن پر ایک بدنما دھبہ ہے۔

ظاہر سی بات ہے کہ آل سعود نے اس ظالمانہ اقدام سے دنیا بھر کے شیعوں کے سینوں میں چھری گونپ دی لہذا ایک شیعہ اکثریت مملکت کے ناطے ایرانی شیعوں کے دل بھی اس واقعے سے داغ دار ہوئے۔ جس  کے بعد دونوں ملکوں کے تعلقات ۳۴  برسوں تک  معطل رہے اور اس دونوں ملکوں کے سربراہانِ مملکت نےایک  دوسرے ملک کا دورہ نہیں کیا۔

وقت کا پہیہ چلتا رہا ، ۱۹۷۹ میں امام خمینی (رہ) کی قیادت میں ایران کا اسلامی انقلاب کامیابی سے ہمکنار ہوا اور عالمی سامراجی طاقتوں کے ایماء پر ڈیکٹیٹر صدام حسین کے توسط سے ایران پر جنگ مسلط کی گئی تو سعودی عرب نے عراق کی بعثی حکومت کا بھرپور ساتھ دیا جس سےدونوں ملکوں کے درمیان دوطرفہ تعلقات مزید کشیدہ ہو گئے۔

۳۱ جولائی  ۱۹۸۷ کو  مکہ مکرمہ میں ایرانی حجاج مشرکین سے بیزاری کے سلسلے میں پُرامن احتجاج کر رہے تھے کہ اس دوران سعودی انتظامیہ نے مظاہرین کو تشدد کا نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں چار سو سے زائد افراد شہید ہو گئے، اس اقدام کے ردِعمل میں تہران میں مشتعل ہجوم نے سعودی سفارت خانے پر حملہ کیا اور یوں دونوں ملکوں کے سفارتی تعلقات منقطع ہو گئے۔

اکسیویں صدی کے اوائل میں دونوں ملکوں کے تعلقات میں کچھ بہتری آئی تھی،  تاہم جب  رفتہ رفتہ  ایران خطے میں ایک طاقتور کے طور پر ظاہر ہونے لگا  تو خطے میں ایران کے دو بڑے دشمن اسرائیل اور سعودی عرب  ایران کی برق رفتار ترقی سے بوکھلاہٹ کے شکار ہو گئے، لہذا وہ مسلسل ایران کے ایٹمی تنصیبات کو تباہ کرنے کے لیے عالمی اداروں کو اعتماد میں لینے کی کوششیں کرنے لگے تاہم وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکے، جب وہاں سے مایوسی ملی تو سعودی عرب نے اسرائیل کو ہی ایران پر حملے کی پیشکش کی اور اسے یقین دلایا کہ ایران کے خلاف جنگ کا سارا خرچ ہم برداشت کریں گے۔

اسی طرح انہوں نے ایران میں امن و امان خراب کرنے کے لیے "جنداللہ"  نامی دہشت گرد گروہ کی بنیاد رکھی جو گذشتہ  ایک دہائی دہائی سے ایرانی سرحد پر دہشت گردانہ واقعات کرتی رہی ہے۔ اس گروہ کے کمانڈر عبدالمالک ریگی تھے جس نے گرفتاری کے بعد میڈیا کے سامنے اعتراف کیا کہ  وہ  تمام دہشت گردانہ کاروائیاں سعودی آقاؤں کو خوش کرنے کے لیے کرتے رہے ہیں۔

وقت کے ساتھ ساتھ دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی بڑھتی گئی، گذشتہ سال  یہ کشیدگی اس وقت انتہا کو پہنچ گئی جب ایرانی زائرین کا یک کاروان  عمرہ ادا کرنے کے بعد واپس ایران آ رہا  تھا کہ  جدہ ہوائی اڈے پر سکیورٹی اہلکاروں کے غیر اخلاقی حرکت کے باعث ایرانی حکومت کو عمرہ پر پابندی لگانی پڑی۔اور اسی سال حج کے موقع پرحج انتظامیہ کی مجرمانہ غفلت کے نتیجے میں ہزاروں حجاج دم گھٹنے اور پاؤں تلے دبنے سے شھید ہوگئے، ان میں ساڑھے چار سو سے زائد  تعداد ایرانیوں کی تھی اور ستم بالائے ستم یہ کہ ان کی لاشوں کو بھی ایران کے حوالے کرنے سے انکار کر دیا گیا تھا۔

اب گذشتہ دنوں سعودی عرب نے شیعہ عالم دین آیۃ اللہ شیخ باقر النمر (رہ) کا سر قلم کر دیا، ان کا جرم یہ تھا کہ وہ ایک  حق گو  اور نڈر عالم دین تھے، وہ سعودی حکمرانوں کے عیاشیوں اور عوام کے ساتھ غیر منصفانہ سلوک پر خاموش نہیں رہ سکتے تھے، انہوں نے شیعہ سنی تمام مسلمانوں کے حقوق کے لیے آواز بلند کر دی تھی جس سے ظالم اور سفاک سعودی حکمرانوں کی نیندیں آڑ گئیں تھیں، لہذا اقتدار کے نشے میں مست خونخوار سعودی حکمرانوں نے حق کی آواز دبانے کی کوشش کرتے ہوئے شہید باقر النمر (رہ) کو اپنے راستے سے ہمیشہ کے لیے ہٹا دیا، یقینا انہوں نے اس اقدام سے اپنے جنازے میں آخری کیل پیوست کی ہے، انہیں نہیں معلوم کہ یہ مقدس اور بے گناہ خون لاکھوں  باقر النمر(رہ) کو جنم دے گا جو ان کے ۹۰ سالہ اقتدار کو خاک میں ملائے گا۔

 بہرحال زہد و تقویٰ کے پیکر آیۃ اللہ باقر النمر (رہ) کی شہادت پر پوری دنیا میں غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی،  دنیا کے ہر گوشے میں اس ظالمانہ اقدام کے خلاف ریلیاں نکالیں گئیں، دیگر مسلمانوں کی آواز سے آواز ملاتے ہوئے ایران کے شیعہ سنی مسلمانوں نے مل کر احتجاجی جلوس نکالے اور اس ظالمانہ اقدام کی شدید مذمت کی، اس موقع پر کمین میں بیٹھے فرصت طلب سامراجی قوتوں کے کارندے بھی مظاہرین میں شامل ہو گئے، جنہوں نے جلتی آگ پر تیل چھڑکنے کا کام کر دیا اور مشتعل مظاہرین کو بھڑکایا جس کے بعد سعودی سفارت خانے پر پھتراؤ ہوا اور اشتعال زا مواد پھینکے گئے،  یوں سعودی حکومت نے اپنا سفیر واپس بلالیا اور ایک مرتبہ پھر دونوں ملکوں کے تعلقات منقطع ہو گئے۔

در حقیقت اس اقدام سے ان کا مقصد سعودی عرب کی حالیہ جنایات پر پردہ ڈال کر اس واقعہ سے عالمی رائے عامہ کی توجہ ہٹانا تھا  اور اس مقصد میں وہ کامیاب بھی ہوئے، کیونکہ ان دنوں سامراجی قوتوں کے زیرِ سایہ عالمی ذرایع ابلاغ سعودی مظالم پر تنقید کرنے کے بجائے سعودی سفارت خانے پر حملے کو کوریج دیتے رہے ہیں۔

اب آخر میں سعودی عرب کے ۳۴ ممالک پر مشتمل دہشت گردی کے خلاف اتحاد کی تشکیل کا پس منظر جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ کیا سعودی عرب اور اس حواری واقعی طور پر دہشت گردی کا خاتمہ چاہتے ہیں یا وہ " چور بھی کہے چور چور" کا مصداق بن کر اپنے آپ سے دہشت گردوں کی پشت پناہی کا الزام ہٹانا چاہتا ہے اور پس پشت اس کے عزائم کچھ اور ہیں؟

تو عرض یہ ہے کہ دہشت گردی کے خلاف ایک ایسے ملک کا اتحاد تشکیل دینا مضحکہ خیز ہے جس نے سب سے پہلے سرکاری طور پر طالبان کی حکومت تسلیم کی تھی، بہرحال سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس اتحاد کا مقصد کیا ہے؟  کیا خانہ کعبہ کو خطرہ لاحق ہوا ہے؟ اگر ایسی بات ہے تو وہ اللہ  دوبارہ اپنے گھر کی حفاظت کرے گا جس نے ابابیلوں کے ذریعہ ابرھہ اور اس کے لشکر کو کھائے ہوئے بھوسے میں بدل دیا تھا اور اگر انہیں  القاعدہ، جبھۃ النصرہ اور داعش جیسی دہشت گرد گروہوں سے  خطرہ ہے تو وہ  توساری  سعودی عرب کے دست پروردہ ہیں جو عملی طور پر خطے میں انکے  مفادات کے تحفظ کے لیے سرگرمِ عمل ہیں۔  جبکہ امریکا اور اسرائیل جیسے تسلط پسند ممالک سے بھی انہیں خائف نہیں ہونا چاہیے کیونکہ انہوں نے فرمانِ الہی [1] کو پس پشت ڈال کر مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلنے والے اسرائیل اور امریکا کو اپنا ہم پیمان بنایا ہوا ہے،  پس ان سے خوف کس بات کی اور ڈر کس بات کا؟! لہذا بات صاف واضح ہے کہ سعودی عرب کو  خطے میں ایران کا باعزت  اور خود مختاروجود برداشت نہیں ہو رہا اور کسی نہ کسی بہانے سے ایران کو اپنے راستے سے ہٹانے کی کوششیں کی جارہی  ہیں۔ تاہم وہ اس مقصد  میں کامیاب نہیں ہوں گے کیونکہ اس وقت  اسلامی جمہوریہ ایران دینا کا واحد ملک ہے جو (اشداء علی الکفار و رحماء بینھم) کا مصداق بن کر سامراجی قوتوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے ہوئےہے۔ ایران دنیا کا واحد ملک ہے جس نے امیرالمؤمنین امام علی (ع)  کے اس فرمان کو اپنے لیے مشعلِ راہ بنایا ہوا ہے کہ "ظالم کے دشمن اور مظلوم کے حامی بنو" چاہے وہ مظلوم مسلمان ہوں یا غیر مسلم، شیعہ ہوں یا سنی، وہ مسلمان بوسنیا کے ہوں یا فلسطین اور یمن کے، انکا تعلق  عراق کے ہو یا شام سے، وہ  نائیجریا کے رہنے والے ہوں یا میانمار کے۔ اور  یہ اللہ تعالیٰ کا  قرآن میں سچا وعدہ ہے کہ "اللہ  کا گروہ ہی غالب آنے والا ہے" [2]
 

[1]۔ اے ایمان والو، تم یہود و نصاریٰ کو اپنا دوست نہ بناؤ۔ وہ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں اور جو تم میں سے اس کو دوست بنائے گاوہ انہی میں سے ہے۔ ( سورہ مائدہِ آیہ ۵۱۔)

[2] ۔ فَإِنَّ حِزْبَ اللَّهِ هُمُ الْغَالِبُونَ (سورہ مائدہ آیہ ۵۶)

 

 

تحریر۔۔۔۔۔ساجد مطہری

وحدت نیوز (قم) امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کے مرکزی صدرعلی مہدی نے وفدکے ہمراہ مجلس وحدت مسلمین شعبہ قم المقدس کے دفترکا دورہ کیا، وفدمیں سابق مرکزی صدرعادل بنگش اور فرزند شہیدڈاکٹر محمد علی نقوی سید دانش نقوی سمیت دیگر بھی شامل تھے، اس موقع پر دوطرفہ تنظیمی امور پر گفتگو کی گئی اور سیاسی صورتحال،تنظیمی نظم و نسق اورتعلیم و تربیت جیسے امور زیرِ بحث لائے گئے، ایم ڈبلیوایم شعبہ قم کے سیکریٹری جنرل علامہ گلزار جعفری نے معززمہمانان گرامی کا آمد پر شکریہ ادا کیا،ملاقات کے بعد ایم ڈبلیو ایم قم کی طرف سے مہمانوں کے اعزاز میں عشائیہ بھی دیاگیا۔

وحدت نیوز (مانٹرنگ ڈیسک) رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای نے سعودی عرب کے مظلوم و مومن عالم دین کو شہید کرنے پر اس ملک کی حکومت کے ہولناک جرم کی شدید مذمت کی ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے اتوار کی صبح تہران میں اپنے فقہ کے درس خارج میں معروف عالم دین شیخ باقر النمر کو شہید کئے جانے سے متعلق سعودی حکومت کے جرم اور یمن و بحرین میں بھی اسی طرح کے جرائم کے ارتکاب کے سلسلے میں عالمی برادری کے احساس ذمہ داری کی ضرورت پر تاکید کی۔ انہوں نے کہا کہ یقیناً اس مظلوم شہید کا، ناحق بہایا جانے والا خون، جلد اپنا رنگ لائے گا اور سعودی حکمرانوں کو الٰہی انتقام سے دوچار کر دے گا۔ رہبر انقلاب اسلامی نے کہا کہ اس مظلوم عالم نے نہ تو عوام کو ہتھیاروں کے ساتھ تحریک چلانے کی ترغیب دلائی اور نہ ہی کسی خفیہ سازش کا اقدام کیا بلکہ اس عالم دین نے صرف سعودی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا اور دینی غیرت کی بنیاد پر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا مظاہرہ کیا۔ آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای نے شیخ باقر النمر کی شہادت اور ان کا خون ناحق بہائے جانے کو سعودی حکومت کی ایک بڑی سیاسی غلطی قرار دیا اور کہا کہ خداوند متعال، بے گناہوں کے خون کو کبھی معاف نہیں کرے گا اور سعودی حکمرانوں کو، خون ناحق بہانے کا جلد ہی خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔

رہبر انقلاب اسلامی نے جمہوریت و آزادی اور انسانی حقوق کا دم بھرنے والوں کی خاموشی اور حکومت پر تنقید اور اس کے خلاف احتجاج کرنے کی وجہ سے بے گناہوں کا خون بہانے والی سعودی حکومت کی حمایت کئے جانے پر، شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ عالم اسلام اور پوری دنیا کو چاہیے کہ معروف سعودی عالم دین شیخ باقر النمر کی دردناک شہادت کے بارے میں اپنی ذمہ داری کو سمجھے اور اس کا مظاہرہ کرے۔

آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای نے سعودی فوجیوں کے ہاتھوں بحرینی عوام کی ایذا رسانی اور ان کے رہائشی مکانات و مساجد کی مسماری و تباہی اور اسی طرح یمنی عوام پر گذشتہ دس مہینوں سے جاری بمباری کو سعودی جارحیت کے دیگر نمونوں سے تعبیر کیا اور کہا کہ صداقت کے ساتھ انسانیت و انسانی حقوق کی حمایت کرنے اور انصاف پسندی کا مظاہرہ کرنے والوں کو چاہیئے کہ ان تمام واقعات اور جرائم کا جائزہ لیں اور اس سلسلے میں ہرگز خاموش نہ بیٹھیں۔ رہبر انقلاب اسلامی نے کہا کہ یقیناً خدا کا لطف و کرم اور اس کی رحمت، شہید باقر النمر کے شامل حال ہوگی اور بلاشبہ ان ظالموں کو انتقام الہی کا سامنا کرنا پڑے گا کہ جنھوں نے اس مظلوم عالم دین کی شہادت میں اپنا کردار ادا کیا اور یہ الہی انتقام ہی، وہ چیز ہے جو تسلّی کا سرچشمہ ہے۔

وحدت نیوز (آرٹیکل) نائجیریا کا دارلحکومت ابوجا ہے،اس کے پڑوسی ممالک میں چاڈ،کیلیفورنیا،کیمرون،وینزیلا اورتنزانیہ  شامل ہیں،یہ بر اعظم افریقہ کاایک  انتہائی اہم اسلامی ملک ہے،اس کا رقبہ 923768مربع کلومیٹر  اور آبادی تقریباً ۱۸ کروڑ نفوس سے تجاوز کرچکی ہے۔آٹھویں صدی میں شمالی افریقہ کے مراکش، الجزائر، لیبیا، تیونس، مصر اور مشرق سے سوڈان، صومالیہ، یمن اور سعودی عرب جیسے مسلمان ممالک کے ذریعے اس ملک میں اسلام داخل ہوا اور بعد ازاں یہاں مسلمانوں کی حکومت تشکیل پائی، بیسویں صدی کا سورج اس  ملک پر برطانوی تسلط کا پیغام لے کر طلوع ہوا،۱۹۶۰ تک نائیجریا برطانیہ کی غلامی میں ایک نوآبادی بن کررہا،اس دور میں  عیسائیت کو  نائیجیریا میں خوب پھیلایا گیا،تعلیمی اداروں میں  بائبل اور عیسائیت کی تعلیم کو لازمی قرار دیا گیا اور مشرقی علاقوں کے قبائل نے  اسی عہد میں عیسائیت اختیار کی۔

نائیجیریا میں اسلام عیسائیت کے لئے ایک کھلا چیلنج ہے،شروع سے ہی تبلیغِ دین میں عیسائیت کو براہِ راست مسلمانوں کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا،مسلمان آبادی کے لحاظ سے آج بھی وہاں ایک بڑی اکثریت  ہیں،۱۹۶۰ عیسوی میں نائیجریا کی آزادی ایک عیسائی جنرل برونسی  کے خونی انقلاب کی بھینٹ چڑھ گئی،اسلامی لیڈر شپ کا قتلِ عام کیا گیا،اس قتلِ عام سے مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان مزید نفرتیں پیدا ہوئیں۔

بعد ازاں عیسائیوں اور مسلمانوں کی نسبتاً مخلوط حکومت وجود میں آگئی،۱۹۶۷ ؁ میں ایک عیسائی فوجی کرنل اجوکو نے مرکزی حکومت سے بغاوت کرکے مشرقی نائیجریا میں  بیافرا کے نام سے نئی حکومت بنا لی،پٹرول سے مالا مال یہ منطقہ  چونکہ عیسائی آبادی پر مشتمل تھا ،چنانچہ مغربی حکومتوں نے اس کا خیرمقدم کیا،کرنل اجوکو کی بغاوت کو مرکزی حکومت نے جلد ہی کچل دیا ،البتہ اس کچلنے میں ۱۰ لاکھ افراد لقمہ اجل بن گئے۔

اس عیسائی کرنل کی بغاوت کے صرف  چند سالوں کے بعدیعنی ۱۹۷۰ کے عشرے میں  عالمی عیسائیت کے ادارے نےبرّ اعظم افریقہ کو ایک عیسائی برِّ اعظم میں تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا،ڈالروں کی بارش کی گئی اور عیسائی مبلغین کی ایک بڑی کھیپ  مختلف شکلوں میں مغرب اور امریکہ سے برِّ اعظم افریقہ میں داخل ہوئی۔

ٹھیک اسی عشرے میں یعنی  ۱۹۷۸؁  کو نائیجیریا میں انجمن اسلامی  سورہ نائیجیریا کا سیکرٹری جنرل   شیخ ابراہیم زکزاکی کو منتخب کیا گیا ۔شیخ ابراہیم زکزاکی مالکی مسلک سے تعلق رکھتے تھے،وہ ۱۹۸۰؁ میں ایران میں اسلامی انقلاب کی سالگرہ کے موقع پر ایران آئے،ایران میں ان کی ملاقات دوسری مرتبہ  امام خمینیؒ سے ہوئی،اس سے پہلے وہ پیرس میں بھی امام ؒ سے ملاقات کرچکے تھے،اس دوسری ملاقات  سے ان کی زندگی اور افکارو نظریات میں بھی ایک انقلاب برپاہوا، واپسی پر۸۰ کی  دہائی میں ہی انہوں نے ایک اور تنظیم  انجمن اسلامی کی بنیاد رکھی،انجمنِ اسلامی کی بنیاد کا مقصد مسلمانوں کو آپس میں متحد کرنا اور دشمنوں کی سازشوں سے آگاہ کرنا تھا۔مسلمانوں کی وحدت اور دشمن شناسی کے پرچار کے باعث  ،عیسائیت ،وہابیت اور صہیونیت کی مثلث ان کی  تاک میں لگ گئی۔

مسلمانوں میں بیداری اور وحدت کی تبلیغ،خصوصاً مسئلہ فلسطین پر آواز اٹھانےکے باعث  انگلش،ہسپانوی،عربی ،فارسی اور ہداسائی جیسی زبانوں پر مسلط اس مسلمان لیڈر کو اب تک  ۹ مرتبہ جیل میں ڈالا گیا ہے،آخری مرتبہ شیخ کو۱۹۹۶ میں گرفتار کرکے ۱۹۹۸ میں رہاکیاگیا۔

لوگوں کو اسلام سے متنفر کرکے عیسائی بنانے کے لئے ۲۰۰۲میں بوکوحرام کی بنیاد ڈالی گئی۔شیخ نے تمامتر مشکلات کے باوجودشعور و بیداری کا سفر جاری رکھا ,وقت کے ساتھ ساتھ بوکوحرام جیسے ٹولے عوام النّاس میں متنفر ہوتے گئے اور شیخ کی مقبولیت میں اضافہ ہوتا گیا۔”شیطانی مثلث” کے ایجنڈے کے مطابق بوکوحرام نے بچوں کو قتل کر کے،عورتوں کو اغوا کرکے اور بے گناہ انسانوں کا خون بہاکر اسلام کو بدنام کرنے کا جو منصوبہ بنایا تھا وہ شیخ کی شخصیت کے باعث ناکام ہوگیا۔

لوگ بوکوحرام کے بجائے شیخ کو اسلام کا ماڈل سمجھنا شروع ہوگئے،لوگوں کی اکثریت نے بلاتفریق مذہب و مسلک شیخ کی آواز پر لبّیک کہنا شروع کردیا ،شیخ کی عوامی مقبولیت کے باعث  اسلامی اتحاد کو بھی فروغ ملا اور یوم القدس کو بھی  مسلمان مل کر بنانے لگے۔ہر سال یوم القدس کی شان و شوکت  میں اضافہ ہونے لگا اور یوم القدس کے پروگراموں میں تمام اسلامی مسالک کے نمائندے بھرپور شرکت کرنے لگے۔

دوسری طرف ““شیطانی مثلث” “کے پالتو درندے” بوکوحرام “کے نام سے فقط درندگی تک محدود ہونے لگے اور شیخ زکزاکی حقیقی اسلام کی نمائندگی کرنے لگے۔چنانچہ گزشتہ سال یوم القدس کے موقع پر شیخ کے تین بیٹوں  سمیت  تقریبا تیس سے زائد افرادکو شہید کیاگیا۔۲۰۱۴ میں یوم القدس کے موقع پر ہونے والی  شہادتوں کے ذریعے  “شیطانی مثلث” نے عالمِ اسلام کی بے حسی اور بے خبری کا اندازہ لگایا اور اس سال شیخ کی بیداری اور شعور کی لہر کو کچلنے کے لئے  بھرپور حملہ کیا ۔

یہ دوسرا حملہ پہلے سے بھی زیادہ شدید تھا،شیخ کے  باقی رہ جانے والے بیٹے اور بیوی سمیت ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کو شہید کیا گیا جبکہ شیخ کو زخمی حالت میں کسی نامعلوم مقام پر منتقل کردیا گیا۔

بالکل وہی درندگی جو  نائیجیریا میں بوکوحرام کے کارندے کرتے ہیں  ان کے آقاوں  نے بھی کی۔ اب ان ظالم  درندوں کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ   ظلم کی رات  چاہے کتنی  ہی طویل کیوں نہ ہو سویرا ضرورہوتا ہے۔

جب تک دنیا میں اسلام کو بدنام کرنے کے لئے طالبان،داعش اور بوکوحرام جیسے گروہ بنائے جاتے رہیں گے،زکزاکی بھی جنم لیتے رہیں گے۔دنیا کب تک دھوکہ کھائے گی ،میڈیا کب تک خاموش رہے گا،انسانی حقوق کے ادارے کب تک بے حسی کا مظاہرہ کریں گے۔۔۔بالاخر شہیدوں کا لہو رنگ لائے گا ۔۔۔ضرور رنگ لائے گا
کتاب سادہ رہے گی کب تک؟؟
کبھی تو آغاز باب ہو گا۔۔۔
جنہوں نے بستی اجاڑ ڈالی،،
کبھی تو انکا حساب ہوگا۔۔۔۔
سکون صحرا میں بسنے والو۔۔
ذرا رتوں کا مزاج سمجھو۔۔
جو آج کا دن سکوں سے گزرا۔۔
تو کل کا موسم خراب ہو گا۔۔۔۔۔۔
بلاشبہ۔۔۔ کل کا موسم ظالموں کے لئے خراب ہوگا۔۔۔۔


تحریر۔۔۔۔۔۔نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز (کوئٹہ) مجلس وحدت مسلمین کے کونسلر کربلائی رجب علی نے علاقے کے عوام کی ایک وفد سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سوئی سدرن گیس کمپنی اور کیسکو کی کارکردگی انتہائی ناقص ہے ۔ لوگ سردی میں ٹھٹھرنے اور احتجاج پر مجبور ہیں۔ انھوں نے کہا کہ غریب اور مجبور عوام کے گھروں میں گیس اور بجلی موجود نہیں ، جبکہ معتبر حاکم اور مقتدر طبقات کو اس سے کوئی سروکار نہیں۔ صوبائی حکومت شہریوں کو گیس کی فراہمی یقینی بنانے کے لیے اقدامات اُٹھائے۔ گیس اور بجلی نہ ہونے کے باعث ہماری ماوں اور بہنوں کو امور خانہ داری میں مسائل کا سامنا ہے تو دوسری جانب بلوچستان سے نکلنے والی گیس پورے ملک میں میسر ہے مگر صوبائی دارالحکومت کے عوام اس سے محروم ہیں ۔ گیس کی عدم فراہمی کے باعث عام شہری کے معاملات زندگی بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ یہ پہلی بار نہیں ہو رہا ہے کہ ہر سال گیس پریشر میں کمی کے خلاف عوام سراپا احتجاج ہوتے ہیں لیکن کمپنی کی نااہل انتظامیہ نے اس مسئلے کو کبھی سنجیدگی سے نہیں لیا۔ عوام پر نئے ٹیکس لگائے جارہے ہیں۔ مگر عوام کو ریلیف دینے لیے لیے کچھ نہیں کیا جا رہا ہے۔ وفاق گیس کمی کو سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا ہے ۔ کمپنی درجن بھر کے ٹیکسز کے ساتھ بل بھیج رہی ہے مگر گیس بحران سے بے خبر ہے۔ اگر گیس کی فراہمی کو یقینی نہ بنایا تو احتجاج پر مجبور وہونگے ، جس کی ذمہ داری حکومت ، گیس کمپنی اور کیسکو پر ہوگی۔

وحدت نیوز (قم) ہفتہ وحدت مسلمانوں کو خلوص دل سے آپس میں جمع ہونے کا پیغام دیتا ہے،ان خیالات کا اظہار ایم ڈبلیو ایم قم کے آفس سے جاری کردہ ایک اعلامیے میں کیا گیاہے۔ جاری شدہ اعلامیے کے مطابق ایم ڈبلیو ایم قم کے سیکرٹری جنرل حجۃ الاسلام گلزار احمد جعفری،سیکرٹری سیاسیات عاشق حسین آئی آر اور آفس سیکرٹری مختار مطہری نے  پوری ملت اسلامیہ کو یہود و ہنود اور آلِ سعود کے خلاف متحد ہونے کی ضرورت پر زور دیاہے۔انہوں نے کہا کہ اگر آلِ سعود مسلمانوں سے غداری نہ کریں تو دشمنانِ اسلام ،مسلمانوں کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree