وحدت نیوز(لاہور) دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کامیابی کے لئے قومی اداروں کیساتھ ساتھ ذرائع ابلاغ کے اداروں کو بھی اپنی ذمہ داری کا احساس کرنا چاہیئے،من گھڑت اور مفروضے پر مبنی خبروں کی تشہیر کے نتائج قتل وغارت گری اور معاشرے میں بگاڑ کا سبب بنتا ہے،پاراچنار واقعے کا ذمہ دار بھی وہی میڈیا ہاوُس ہے جس نے من گھڑت اور مبالغے پر مبنی رپورٹ شائع کرکے کے دہشت گردوں کو کرم ایجنسی پر یلغار کا موقع دیا،ان خیالات کا اظہار مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری سیاسیات سید ناصر شیرازی نے کارکنان سے خطاب میں کیا ،انہوں نے کہا میڈیا میں موجود کچھ کالی بھیڑیں معاشرے میں فساد اور ملک میں عدم استحکام پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں،صحافت کے مقدس پیشے کے ذریعے اصلاح معاشرہ اور مظلوموں کے حقوق کا دفاع کیا جاتا ہے،لیکن یہاں ایک مخصوص سوچ کے حامل کچھ افراد بغیر تحقیق بغیر ثبوت کے خبروں کو اپنی رپورٹ کاحصہ بنا کر اصل حقائق کو مسخ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں،ایسے لوگ ہی پاراچنار جیسے واقعات کے اصل ذمہ دار ہیں،انہوں نے کہا کہ میڈیا ہاوسسز کے مالکا ن کو چاہیئے ایسے کالی بھیڑوں کو اپنے ادارے کا حصہ نہ بننے دیں کیونکہ یہ صحافت کے نام پر محض اپنے بیرونی آقاوُں کے ایجنڈے کی تکمیل کے لئے کام کر رہے ہوتے ہیں،پاکستان میں دہشت گردی کے سب سے زیادہ متاثرہ فریق کو انصاف دلانے میں اگر ہماری صحافتی ادارے اپنا کردار ادا نہیں کر سکتے تو کم از کم ان کے خلاف ہونے والی عالمی سازشوں کا بھی حصہ نہ بنیں،انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں قربانی دینے والوں کو بدنام کرنے کی کوشش کرنے والے کبھی بھی ملک و قوم اور انسانیت کا دوست نہیں ہو سکتے۔

وحدت نیوز (آرٹیکل) اقوام کو حادثات اور سانحات سے  بچانے کی تدابیر دانشمند اور مفکرین  کیا کرتے ہیں۔کسی شخص کا اگر دماغ مفلوج ہوجائے تو اس کا باقی بدن باہمی ربط کھو دیتاہے اور وہ الٹی سیدھی حرکات شروع کردیتاہے ،جسکی وجہ سے کہتے ہیں کہ یہ شخص پاگل ہوگیاہے۔

بالکل اسی طرح کسی بھی ملت میں دانشمندوں کی حیثیت دماغ کی سی ہوتی ہے۔اگرکہیں پر دانشمند حضرات اچھائیوں کی ترغیب دیں تو لوگ اچھائیوں کی طرف آنے لگتے ہیں اور اگر برائیوں کی تبلیغ کریں تو لوگوں میں برائیاں عام ہونے لگتی ہیں۔جس ملت کے دانشمند حضرات اپناکام چھوڑدیں اور اپنی ذمہ داریاں ادا نہ کریں تووہ ملت پاگلوں کی طرح الٹی سیدھی حرکات کرنے لگتی ہے اور اس ملت کے کسی بھی فرد کو کچھ پتہ نہیں چلتاکہ اس کے ساتھ کیا ہونے والاہے اور اسے کیا کرناچاہیے۔ یعنی جس ملت کے دانش مند افراد میدان میں رہتے ہیں وہ ملت میدان میں قدم جمائے رکھتی ہے اور جس ملت کے دانشمند افراد میدان خالی چھوڑدیں اس ملت کے قدم میدان سے اکھڑجاتے ہیں۔

کوئی بھی ملّت اس وقت تک انقلاب برپانہیں کرسکتی جب تک اس کے صاحبانِ فکرودانش اس کی مہار پکڑکرانقلاب کی شاہراہ پر آگے آگے نہ چلیں۔اگرکسی قوم کی صفِ اوّل دانشمندوں سے خالی ہو توایسی قوم وقتی طور پر بغاوت تو کرسکتی ہے یاپھر کوئی نامکمل یابے مقصد انقلاب تولاسکتی ہے لیکن ایک حقیقی تبدیلی اور بامقصد انقلاب نہیں لاسکتی۔

کسی بھی معاشرے میں دانشمندوں کی حیثیت،بدن میں دماغ کی سی ہوتی ہے،دماغ اگراچھائی کاحکم دے تو بدن اچھائی کاارتکاب کرتا ہے ،دماغ اگر برائی کاحکم دے تو بدن برائی انجام دیتاہے،دماغ اگر دائیں طرف مڑنے کاحکم دے توبدن دائیں طرف مڑجاتاہے اور اگر دماغ بائیں طرف مڑنے کا کہے توبدن۔۔۔

جیساکہ تحریک ِ پاکستان کے دوران ہم دیکھتے ہیں کہ برّصغیرکے مسلمانوں کی قیادت،علمائ،شعرائ،خطبائ،وکلائ،معلمین،مدرسّین،واعظین اور صحافی حضرات پرمشتمل تھی،انہوں نے نہتّے مسلمانوں کو طاغوت و استعمارکے خلاف کھڑاکردیااور ان کی قیادت میں برّصغرکی ملت اسلامیہ اپنے لئے ایک نیاملک بنانے میں کامیاب ہوگئی لیکن قیامِ پاکستان کے بعدحصولِ اقتدار کی دوڑشروع ہوئی توجاگیرداروں،صنعتکاروں،وڈیروں اور نوابوں نے دانشمندوں کودھتکارکرایک طرف بٹھادیا۔

صحافت کوملازمت بنایاگیا،علماء کو مسجدو مدرسے میں محدودکیاگیا،خطباء اور وکلاء کو فرقہ وارانہ اور لسانی تعصبات میں الجھایاگیا،معلمین ،مدرسین اور شعراء کافکرِ معاش کے ذریعے گلہ گھونٹاگیا۔ جس سے ملکی قیادت میں پڑھے لکھے اوردینی نظریات کے حامل باشعور افراد کاکردار ماندپڑتاگیا اور صاحبانِ علم و دانش کے بجائے رفتہ رفتہ بدمعاشوں،شرابیوں اور لفنگوں کاسکّہ چلنے لگا۔

ملکی قیادت ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں منتقل ہوتی گئی جن کا علم و دانش اور ملت و دین سے دورکاواسطہ بھی نہیں تھا۔چنانچہ یہ نئی قیادت جیسے جیسے مضبوط ہوتی گئی ملتِ پاکستان ،قیام ِ پاکستان کے اہداف اور اغراض و مقاص سے دور ہوتی چلی گئی۔دیکھتے ہی دیکھتے پاکستان کو ایک لادین ریاست بنانے اور اس کے قیام کے اغراض و مقاصد کومٹانے کے لئے،نظریہِ پاکستان کو مشکوک قراردیاجانے لگا،انسانیت کے نام پر تقسیم ِ برّصغیر کو غلط کہاجانے لگااوردین دوستی کو انسانیت دوستی کی راہ میں رکاوٹ بنا کر پیش کیاجانے لگا۔جس سے نظریہ پاکستان کی جگہ کئی لسانی و علاقائی تعصبات نے جنم لیا اور ملت پاکستان لڑکھڑانے لگی ،یہ لڑکھڑاتی ہوئی ملت ١٩٧١ء میں دودھڑوں میں بٹ گئی اور پاکستان دوٹکڑوں میں تقسیم ہوگیا۔

١٩٧١ء سے لے کر ١٩٧٧ء تک باقی ماندہ پاکستان ،فوج اور سیاستدانوں کے ہاتھوں میں بازیچہء اطفال بنارہا،بالکل ایسے ہی جیسے آج سے پانچ سوسال پہلے اٹلی بازیچہء اطفال بناہواتھا،ایسے میں اٹلی کی طرح پاکستان کی قیادت میں ایک میکاویلی ابھرا۔۔۔

پاکستان کا یہ میکاویلی١٩٢٤ء میں جالندھرمیں پیداہوا،ابتدائی تعلیم اس نے جالندھر اوردہلی میں ہی حاصل کی،١٩٤٥ء میں اس نے فوج میں کمیشن حاصل کیااور دوسری جنگِ عظیم کے دوران برما،ملایا اور انڈونیشیامیں اس نے فوجی خدمات انجام دیں،برّصغیرکی آزادی کے بعد اس نے پاکستان کی طرف ہجرت کی،١٩٦٤ء میں اسے لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے پر ترقّی دی گئی اور یہ سٹاف کالج کوئٹہ میں انسٹرکٹر مقرر ہوا،١٩٦٠ء سے ١٩٦٨ء کے دوران اسے اردن کی شاہی افواج میں خدمات انجام دینے کا موقع بھی ملا،مئی ١٩٦٩ء میں اسے آرمڈڈویژن کا کرنل سٹاف اور پھربریگیڈئیر بنادیاگیا،١٩٧٣ء میں یہ میجرجنرل اوراپریل ١٩٧٥ء میں لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے پرفائزہوا اور یکم مارچ ١٩٧٦ء کو یہ پاکستان آرمی کا چیف آف آرمی سٹاف بنا۔بالاخر١٩٧٧ء میں یہ پاکستان کے اقتدار کابلاشرکت غیرے مالک بننے میں کامیاب ہوگیا۔

اس کے مکمل فوجی فوجی پسِ منظر کی وجہ سے بڑے بڑے سیاسی ماہرین اس سے دھوکہ کھاگئے اوربڑے بڑے تجزیہ کار اس کی شخصیت کا درست تجزیہ نہ کرسکے۔

علمی و سیاسی دنیا آج بھی اس مرموزوپراسرارشخص کے بارے میں اس مغالطے کی شکارہے کہ یہ صرف ایک فوجی آدمی تھا اور کچھ نہیں۔حالانکہ اگر یہ صرف فوجی ہوتاتویحیٰ خان کی طرح عیاشیاں کرتا اور مرجاتایاپھر ایوب خان کی طرح دھاندلیاں کرتا اور رخصت ہوجاتااور اس کاشر اس کے ساتھ ہی دفن ہوجاتالیکن اس کے فکری بچے پاکستان کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے ہیں اور ان کی مزید افزائشِ نسل ہورہی ہے،اس کے قائم کئے ہوئے تھنک ٹینکس اور دینی مدرسے،اس کے پالے ہوئے سیاستدان،اس کے نوازے ہوئے صحافی،اس کے بھٹکائے ہوئے ملّا،اس کے تربیت دیے ہوئے متعصب لسانی و علاقائی لیڈرپاکستان کی شہ رگ کو آج بھی مسلسل کاٹ رہے ہیں۔

١٩٧١ء کے سیاسی بحران کے بعدپاکستان میں جدیدلادین سیاست کابانی اور پاکستانی میکاویلی ضیاء الحق،فوجی وردی پہن کر پاکستانی سیاست کے افق پر چمکا۔

اس نے اپنے گیارہ سالوں میں اٹلی کے میکا ویلی کی طرح ایک نئے سیاسی فلسفے کی بنیادیں فراہم کیں۔اٹلی کے میکا ویلی کا کہنا تھا کہ

"سیاست کا دین اور اخلاق سے کوئی تعلق نہیں" ۔

چونکہ اٹلی کے میکاویلی کا پسِ منظر علمی اور سیاسی تھا لہذا اس کا سیاسی فلسفہ بہت جلد علمی حلقوں میں زیرِ بحث آیا اور اس پر لے دے شروع ہوگئی لیکن پاکستان کا میکاویلی بظاہرصرف اور صرف" فوجی "تھاجس کے باعث علمی و فکری حلقوں میں اس کی شخصیت کو سنجیدگی سے زیرِ بحث لانے کے قابل ہی نہیں سمجھا گیا اور یہی ملتِ پاکستان کے دانشوروں سے بھول ہوئی۔

حتّیٰ کہ ذولفقار علی بھٹو سے بھی یہ غلطی ہوئی کہ وہ خود کو تو دنیائِ سیاست کا ناخدااور اسے فقط "فوجی" سمجھتے رہے۔تجزیہ نگار اظہر سہیل کے مطابق جنرل ضیاء الحق ،جنہیں بھٹو نے ٨ جرنیلوں کو نظراندازکرکے چیف آف آرمی سٹاف بنایاتھا،انھیں دن میں دومرتبہ مشورے کے لئے بلاتے تھے اور وہ ہردفعہ پورے ادب کے ساتھ سینے پر ہاتھ رکھ کر نیم خمیدہ کمر کے ساتھ یقین دلاتے:

 سر! مسلّح افواج پوری طرح آپ کا ساتھ دیں گی۔میرے ہوتے ہوئے آپ کو بالکل فکرمند نہیں ہوناچاہیے۔[2]

 اس نے اپنی عملی زندگی میں جس فلسفے کو عملی کیا وہ اٹلی کے میکاویلی سے بھی زیادہ خطرناک تھا،اگر اس کی تمام تقریروں کو سامنے رکھ کراوراس کے دور کی تاریخ کے ساتھ ملاکردیکھاجائے ،نیز اس کے ہم نوالہ و ہم پیالہ جرنیلوں کی یاداشتوں کا مطالعہ کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے عہد کی اسلامی شخصیات کے بیانات کو بھی مدِّ نظر رکھا جائے تو اس کی فکروعمل کا خلاصہ کچھ اس طرح سے سامنے آتاہے:

 "سیاست کا دین و اخلاق سے کوئی تعلق نہیں لیکن سیاست کو دین و خلاق سے جدا کرنے کے بعد اس کا نام پھر سے دینی و اخلاقی سیاست رکھ دینا چاہیے"۔

موصوف کی دین ِ اسلا م اورشریعت کے نام پر ڈرامہ بازیوں کودیکھتے ہوئے ایک مرتبہ پشاور میں قاضی حسین احمد کوبھی یہ کہناپڑاکہ شریعت آرڈیننس قانونِ شریعت نہیں بلکہ انسدادِ شریعت ہے۔ [3]

اس نے لادین سیاست کا نام دینی سیاست رکھ کرپاکستان کے دینی و سیاسی حلقوں کی آنکھوں میں اس طرح دھول جھونکی کہ اس کی نام نہاد دینداری کی چھتری کے سائے میں بڑی بڑی نامی و گرامی دینی و سیاسی شخصیتیں آکر بیٹھ گئیں۔اسے پیرومرشد اور مردِ مومن اور مردِ حق کہاجانے لگا،اس نے اپنی مکروہات و خرافات کو نعوزباللہ "نظامِ مصطفیۖ "کہنا شروع کردیا اورجب اپنا یہ حربہ کامیاب دیکھاتوامریکی اشارے پراپنے خود ساختہ نظام ِ مصطفیٰ ۖ کے جال میں جہادِ افغانستان کا دانہ ڈالا، کسی طرف سے کسی خاص مزاحمت کا سامنا نہ کرنا پڑاتواس نے شریعت آرڈیننس،زکوٰة آرڈیننس اور پتہ نہیں دین کے نام پر کیسے کیسے آرڈیننس جاری کئے اورلوگوں کو کوڑے مارے۔۔۔اس ساری کاروئی کے دوران جو بھی اس کی مخالفت میں سامنے آیا اس نے اسے اپنی مخصوص سیاست کے ذریعے راستے سے ہٹادیا،یعنی بغل میں چھری اور منہ میںرام رام کا عملی مظاہرہ کیا ،اس نے زوالفقار علی بھٹو سے جان چھڑوانے کے لئے عدالتی کاروائی کو استعمال کیا،بظاہر اس نے اپنے آپ کو عدالتی فیصلوں کا پابند بنا کر پیش کیا لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس نے بھٹو کو قتل کروانے کے لئے ،بھٹو کے شدیدمخالف ججز کولاہور ہائی کورٹ اورسپریم کورٹ میں تعینات کیا،اس بات کا اعتراف جیوٹی وی پر افتخاراحمد کو انٹرویو دیتے ہوئے جسٹس نسیم حسن شاہ  نے بھی کیا تھا۔

 یادرہے کہ جسٹس نسیم حسن شاہ کاتعلق ان چار ججوں سے ہے جنہوں نے لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے بھٹو کو دی جانے والی سزائے موت کو باقی رکھاتھا،انٹرویو میں جسٹس صاحب کا کہناتھاکہ بھٹوکے قتل کا فیصلہ حکومتی دبائوکی بناء پر کیاگیاتھا۔پنجاب کے سابق گورنر مصطفیٰ کھر نے بھٹو کے قتل کے بعد٢١مئی ١٩٧٩ء میں ڈیلی ایکسپریس لندن کو ایک بیان دیا تھاجس کے مطابق بھٹو کو پھانسی سے قبل ہی تشدد کر کے ہلاک کردیاگیاتھا اور پھر اس ہلاکت کو چھپانے کے لئے عدالتی کاروائی سجائی گئی اور بھٹو کی لاش کو سولی پر لٹکایاگیا۔ ان کے مطابق بھٹو پر تشددیہ اقبالی بیان لینے کی خاطر کیاگیاتھاکہ میں نے اپنے ایک سیاسی حریف کو قتل کرایاہے۔

 اگرآپ ضیاء الحق کی عملی سیاست اورشخصیت کاتجزیہ کریں تو آپ دیکھیں گے کہ موصوف اپنی " عملی سیاست" میں اتاترک اور شہنشاہِ ایران کے جبکہ فکری سیاست میں میکاویلی کے ہم پلّہ تھے یاان سے بھی کچھ آگے ۔جس کی ایک واضح مثال یہ ہے کہ انھوں نے جب جونیجو حکومت برطرف کی تو انہوں نے کہاکہ وہ کوئی اہم کام کرنے سے پہلے استخارہ کرتے ہیں،اس لئے اسمبلی توڑنے کا جو قدم انھوں نے اٹھایاہے اس کے بارے میں بھی تین دن تک استخارہ کیاہے۔

گزشتہ سال ۱۶ دسمبر ۲۰۱۴کو  انہی دنوں میں ضیاالحق کے نظریاتی  پیروکاروں نے  پشاور کے آرمی پبلک سکول پر حملہ کر کے

9 اساتذہ ، 3 فوجی جوانوں کو ملا کر کُل 144 بچوں کو شہید کردیا تھا۔ سانحہ بنگلہ دیش کے بعد یہ پاکستان کی تاریخ کا  ایسا دردناک با ہے جو ہمیشہ ہمارے دانشمندوں کے ضمیر کو جھنجوڑتا رہے گا۔

اس سانحے کا جتنا ذمہ دار ایک فوجی جنرل ہے اتنے ہی وہ سول مفکرین اور سیاستدان بھی ہیں جو ضیاالحق کو اپنا پیرومرشد  کتے چلے آرہے ہیں اور یا جنہوں نے کبھی ضیائی فکر کو سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی۔

ہمارے ملک میں دہشت گردی کے دیگر واقعات کی طرح اس سانحے کے ذمہ دار بھی ضیائی کیمپ کے تربیت یافتہ ہیں۔

۱۶ دسمبر کا سانحہ ہماری آرمی کو بھی اس امر کی یاددہانی کرواتا ہے کہ جب تک اس ملک کی کلیدی پوسٹوں اور عسکری اداروں میں ضیاالحق کے مقلدین موجود رہیں گے،ایسے سانحات کو نہیں روکا جاسکتا۔

کسی حساس مزاج شاعر کے بقول

پھولوں کا اور کلیوں کا

چمن میں خوں کیا ہے جنہوں نے

درندہ کیسے کہہ دوں ان کو

کہ اتنے زیادہ ظالم تو

درندے بھی نہیں ہوتے

 

 

 

!

منابع

بادشا،نکولومیکاویلی،مقدمہ،مترجم محمود حسین ·

 جنرل ضیاء کے ١١ سال از اظہرسہیل

 ضیاکے آخری ١٠سال از پروفیسرغفوراحمد

 · جنرل ضیاکے آخری دس سال از پروفیسر غفور احمد

 · اورالیکشن نہ ہوسکے از پروفیسر غفور احمد

 ·بھٹو ضیاء اور میں ازلفٹیننٹ جنرل(ر)فیض علی چشتی

 ·اسلوب سیاست،خطبات علامہ عارف حسین الحسینی

 

 

 


نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

انصاف کا تقاضاء

وحدت نیوز(آرٹیکل) کچھ دنوں پہلے بیروت اور پیرس میں بم دھماکے ہوئے جس میں سینکڑوں بے گناہ لوگوں کی جانیں ضائع ہوئی اور سینکڑوں زخمی ہوئے، یقیناًیہ دنوں واقعات انتہائی دلخراش اور افسوسناک تھا جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے،کیونکہ ایک بے گناہ انسان کا قتل ساری انسانیت کا قتل ہے،۔لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بعض اوقات اپنے بھی غیر وں جیسا سلوک کرتے ہیں بلکہ اپنوں کی خاموشی دشمن کی تیر سے ذیادہ سخت ہوتا ہے، پیرس کے واقع پر ساری دنیا نے افسوس اور دکھ کا احساس کیا اور سب نے اپنے اپنے حساب سے اہلیان پیرس کے ساتھ اظہار یکجہتی کیے،کسی نے ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی تو کسی نے بڑی بڑی بلڈنگوں پر فرانس کا پرچم لہرایا ،تو فیس بک پر سب نے پروفائل پیکس پر فرانس کا جھنڈا لگایا۔میں ان اظہار ہمدردیوں کا مخالف نہیں ہوں اور نہ ہی میں کسی ظالم اور ظلم کے حق میں ہوں میں یاں پر بس صرف ان عوام کو اور ساری دنیا کے انسانوں کو فلسطین کی طرف لیجانا چاہتا ہوں، جہاں روزانہ بے گناہ انسانوں کا قتل عام ہوتا ہے، خواتین کو سر عام گولیاں مار دیا جاتا ہے، پر امن مسلمانوں کو مسجد اقصٰی میں نماز ادا کرنے سے روک دیا جاتا ہے، غریب مسلمانوں کا جو اپنے آباو اجداد سے فلسطن میں رہ رہے ہیں اور جن کی کئی نسلیں فلسطین کی سر زمین میں مدفون ہیں ان کے گھروں کو مسمار کیا جاتا ہے اور ان کو بے گھر و آسرا کھلے آسمان تلے ہجرت یاخیموں تک محدود کر دیا جاتا ہے، اور جو کوئی اپنی مظلومیت پر آواز بلند کرتا ہے تواُس پر دھشت گرد ، انتہاپسند کا ٹھپہ لگا کر یا تو مار دیا جاتا ہے یا سلاخوں کے پیچھے بیج دیا جاتا ہے، حتاکہ ان کے معصوم بچوں تک کو گرفتا کیا جاتا ہے۔


جی ہاں فلسطین میںیہ کوئی نئی بات نہیں جب سے اسرائیل کے ناجائز وجود کا قیام عمل میں آیا ہے تب سے آج تک فلسطن پر ظلم بڑھتا جا رہا ہے، کچھ مہینہ پہلے اقوام متحدہ کے عمارت پر فلسطن کا جھنڈا لہرایا گیا جس سے مسلمان ممالک کافی خوش ہوئے، کہ شاید اب مسلۂ فلسطن کی کوئی راہ حل سامنے آجائے،لیکن میرے نزدیک اقوام متحدہ کی عمارت پر فلسطن کا جھنڈا لہرانے سے مراد فلسطن کے مظلومین کا ساتھ دینا نہیں تھا بلکہ اسرائیل کو گرین سگنل دے رہا تھا کہ اب فلسطین پر جتنا ہو سکے تیزی سے ظلم و ستم کو بڑھا دو ، اقوام متحدہ نے فلسطین کے جھنڈے کو تو تسلیم کیا ہے مگر فلسطین کے حقوق اور اسرائیل کے ناجائز قبضہ سے نظریں چرالی۔اور اگر ہم دیکھیں تو فلسطین کا جھنڈا لہرانے کے بعد اسرائیلی ظلم و بر بریت میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے اور ساری دنیا خاموش ہے جیسے کہ وہاں کچھ ہو ہی نہیں رہا ، بین الا اقوامی ادارہ(Red Crescent) ریڈ کریسنٹ کی رپورٹ کے مطابق صرف اکتوبر کے مہینہ میں اسرائیلی فوجیوں کے حملوں میں چھبیس سو افراد زخمی ہوئے ہیں جن کو ربڑ اور اصلی گولیوں سے نشانہ بنایا گیا، ایک اور رپورٹ کے مطابق دو مہینوں میں ایک ہزار بچے گرفتار ہوئے اس کے علاوہ روزانہ فلسطینی شہید ہو رہے ہیں اسرائیلی بر بریت کا یہ عالم ہے کہ ان کی شیلنگ سے ایک آٹھ ماہ کی بچی بھی شہد ہوئی۔ابھی یہ ظلم کم نہیں ہوئے تھے کہ اسرائیل نے اب ایک اور قانون تیار کیا ہے جس کی رو سے چودہ سال سے کم عمر کے بچوں کو گرفتار کرنا اور ان کو قید کرنا قانونی قرار دیا ہے جوکھولے عام انسانی حقوق کی پالی ہے۔حال ہی میں فلسطینی ادارے، فلسطینی پریزینرز سوسائٹی(Palestinian Prisoners Society) کی جانب سے ایک رپورٹ شایع ہوا ہے جس میں ان کاکہنا ہے کہ اسرائیل کی جیلوں میں ۴۰۰ فلسطینی بچے موجود ہے جن کی عمریں ۱۳ سے ۱۷ سے تک کے ہے اور ان بچوں کو اسرائیلی فوجیوں نے فلسطین کے مختلف علاقوں سے گرفتار کیا ہے۔


اب ذراامریکہ کی طرف دیکھیں جو اپنے آپ کو دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں عالمی چیمپین ،اور انسانی حقوق کے علمبردار سمجھتا ہے، فلسطین میں اسرائیلی مظالم کا برابر کے شریک ہے، بش کے زمانہ میں امریکہ اسرائیل کے درمیان دس سال کا معاہدہ ہوا تھا جس میں امریکہ ہر سال ۳ بلین ڈالر فوجی امداد کی مد میں اسرائیل کو دے گا، جو ۲۰۰۷ تا ۲۰۱۷ تک تھا، ابھی ہال ہی میں یہ معاہدہ ختم ہونے سے پہلے اسرائیلی وزیر عظم کے دورہ امریکہ کے دوران مزید دس سالہ معاہدہ طے پایا ہے جس میں امریکہ ہر سال ۳ بلین سے بڑھ کر ۵ بلین ڈالر اسرائیل کو فوجی امداد کی مد میں ادا کرے گا جو ۲۰۱۸ سے ۲۰۲۸ تک ہوگا،میرا امریکہ سے گزارش ہے کہ امریکہ اسرائیل جیسے دہشت گرد کومشرق وسطی میں رکھ کر ہر سال امریکی عوام کے ٹیکس سے ڈالر بیچنے کے بجائے اسرائیلیوں کو امریکہ میں ہی بسا لے، امریکہ میں ایک اورا سٹیٹ کا اضافہ ہوگا ااور اسرائیل وہاں خوش بھی ہونگے اور کسی دشمن کا خوف بھی نہیں ہوگا اور نہ ہی فلسطنی حماس اور لبنانی حزب اللہ کے حملے ہونگے، اسرئیلی وہاں خوشی سے رہنگے امریکہ کی پریشانی بھی کم ہوگی،ادھر فلسطینی اپنے وطن میں خوشی سے رہنگے بلکہ مشر ق اسطٰی کی امن و سلامتی بھی بحال ہونگے کیونکہ مشرق وسطی کے تمام دہشت گردوں کو اسرائیل کی سر پرستی حاصل ہے تاکہ وہ اپنی اجارہ داری قائم رکھ سکے، اور مسلمانوں میں تفرقہ بازی پیدا کریں لیکن امریکہ ایسا کبھی نہیں کرے گا کیونکہ یہ ان کی مفاد میں نہیں ہے۔
افسوس ہے اُن انسانی حقوق کے علمبرداروں پر اور اُن مسلم ممالک خصوصا عرب ممالک پر جنہوں نے پیرس کے سانحہ پر تو آسمان سر پر اٹھا لیا مگر کبھی فلسطین کے شہیدا کے لئے ایک منٹ کی خاموشی اختیار نہیں کی اور نہ ہی فیس بک اور بلڈنگوں پر فلسطین کا پر چم لہرایا سوائے کچھ ممالک کے ،بلکہ حد تو یہ ہے کہ مسلمانوں نے یہ تک کہہ دیا کہ اگر اسرائیل فلسطین کا جنگ ہو تو میں اسرائیل کا ساتھ دونگاجب مسلمان حکمرانوں کا یہ عالم ہو اور وہ اپنی تمام تر تاقتوں کے باوجود مٹھی بھر دشمن کے سامنے غلام بن کر رہنگے تو دشمن ہمارے ہی وسائل سے ہمیں قتل کرینگے ۔ مشرق وسطی میں اسرائیل کو یہ جرات بھی مسلم حکمرانوں کی وجہ سے حاصل ہوئی جو اپنے اقتدار ااور مفاد کی خاطر اسلام کے دشمنوں کو گلے سے لگا یا اور ان کو بسا نے میں اور طاقتور ہونے میں مدد فراہم کی، افسوس ہے مسلمانوں پر جو ایک چھوٹے سے علاقہ اور قبلہ اول کو دشمنوں کی شر سے نہیں بچا سکا اور اپنوں کے مارے جانے پر خوشی اور کافروں کے مرنے پر غم زدہ ہوتے ہیں، افسوس ہے عرب ملکوں اور حکمرانوں پر ، عرب والے اگر صرف عرب ہونے کے ناطے بھی جمع ہو جائے تو فلسطین سے اسرائیل کا ناجائز وجود ختم ہو جائے مگر عربوں نے اپنے ضمیر کے ساتھ انسانیت اور دین و ایمان کو بھی فروع کیا سوائے کچھ لو گوں کے جو دشمن کے سامنے میدان عمل میں ڈٹے ہوئے ہیں۔


ہمیں مسلمان ہونے کے ناطے سوچ نا چاہیے کہ آج ہم مظلومین کی حمایت نہیں کرینگے تو کل ہماری باری پر کون ہماری مدد کرے گا،نہج البلاغہ میں اما علی ؑ کے بارے میں ایک واقع ملتا ہے کہ ایک دفعہ امام کو یہ خبر ملی کی شہر امبار میں دشمنوں نے حملہ کر کے ایک کافر زمی عورت کے گھر میں داخل ہو کر اس کے گلے سے گلہ بند یا ہار چھین لیا ہے حضرت علی ؑ یہ سن کر غصے میں لوگوں کو مخاطب ہو کر کہا کہ اگر یہ واقعہ سنے کے بعد کوئی شخص مر جائے تو علی کہ کہو نگایہ اس کی غیر ت کا تقاضہ تھا کہ اس کے حکومت کے حدود میں دشمن حملہ کریں اور وہ اس کی مدد نہ کر سکیں،اور وہ بھی کافرزمی عورت لیکن یاں تو معاملہ ہی الگ ہے اسرائیل جیسا غاصب فلسطین میں داخل ہو کر مسلمان فلسطینی نوجوان لڑکی کو بناء کسی جرم کے سر عام گولی مار تے ہیں، اور معصوم بچوں کوگرفتار کر کے تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے گھروں کو مسمار کیا جاتا ہے مگر ساری انسانیت خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں؟؟


تحریر : ناصر رینگچن

وحدت نیوز (آرٹیکل) امام حسین (ع) اور انکے باوفا ساتھیوں کا چہلم منانے کے لئے دیگر ملکوں کی طرح پاکستان سے بھی عاشقان اور موالیانِ سیدالشہداء (ع) کے قافلے کربلا کی جانب رواں دواں ہیں، لیکن انہیں اپنے دیس میں ہی طرح طرح  کی مشکلات کا سامنا ہے، ان قافلوں میں سے بعض قافلے ایسے بھی ہیں جو بیس دنوں سے اپنے سفر کا آغاز کرچکے ہیں، تاہم وہ ابھی تک ایران بارڈر تک بھی نہیں پہنچ سکے ہیں۔ میری آج کی ٹیلی فونک معلومات کے مطابق زائرین کو کانوائے بنانے کے بہانے سے ژوب، کویٹہ سمیت ملک کے مختلف مقامات پر رشوت وصول کرنے کے لئے زبردستی روک لیا جاتا ہے، یاد رہے کہ زائرین کو ایسے علاقوں میں بھی روکا جاتا ہے، جو زندگی کی ابتدائی سہولیات سے بھی محروم ہیں اور جب یہ قافلے ایران کے بارڈر تفتان پہنچتے ہیں تو پاکستانی دفتر کے سامنے کئی کلو میٹر تک لمبی قطاریں لگ جاتی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ پورے راستے میں تعینات پولیس اور فوجی افسران گاڑیوں میں سوار زائرین سے بھاری رشوت  وصول کرتے ہیں۔

ملک کے ریاستی اداروں، ذرائع ابلاغ کے ٹھیکیداروں اور خاص طور پر آرمی چیف سے ہمارا سوال یہ ہے کہ آخر ہمیں کس جرم کی سزا دی جا رہی ہے؟ کیا آئینِ پاکستان کے مطابق نواسہ رسولؐ کے چہلم میں شریک ہونا جرم ہے؟ آخر سرکاری اہلکاروں کو کھلی چھٹی کیوں دی گئی ہے؟ پاکستانی ذرائع ابلاغ اس مسئلے میں خاموش کیوں ہیں؟ ہم اعلٰی حکام کو یہ یاد دلانا چاہتے ہیں کہ ہمارے دشمن ممالک اور ایجنسیاں حکومتی اداروں، خاص طور پر مسلح افواج سے عوام کا اعتماد ختم کرنا چاہتی ہیں، یہ رشوت خور سرکاری کارندے دراصل دشمن ایجنسیوں کے ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں۔ لہذا انہیں فوری طور پر لگام دی جائے۔ ہماری زائرین سے بھی گزارش ہے کہ زائرین کو ستانے والے اور رشوت لینے والے اہلکاروں کی ویڈیوز بناکر سوشل میڈیا میں شیئر اور مجرمین کو بے نقاب کریں۔ زائرین کربلا، ستانے والے یزیدیوں سے ہرگز نہ ڈریں۔
یہ درس کربلا کا ہے
خوف بس خدا کا ہے


رپورٹ:۔۔۔۔ساجد مطہری

وحدت نیوز (تہران) رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای نے کہا ہے کہ علاقے کے لئے امریکہ کا طویل المیعاد منصوبہ سبھی ممالک اور اقوام بالخصوص ایران اور روس کے لئے نقصان دہ ہے، انہوں نے کہا کہ ہوشیاری اور باہمی تعاون کے ذریعے اس منصوبے کو ناکام بنانے کی ضرورت ہے۔ گیس برآمد کرنے والے ممالک کی تنظیم کے سربراہی اجلاس میں شرکت کے لئے تہران پہنچنے پر روس کے صدر پوتن نے رہبر انقلاب اسلامی سے ملاقات کی۔ رہبر انقلاب اسلامی نے روسی صدر سے ملاقات میں تہران اور ماسکو کے درمیان دوطرفہ علاقائی اور عالمی تعاون میں توسیع کا خیر مقدم کرتے ہوئے علاقائی مسائل خاص طور پر شام کے معاملے میں روس کی موثر موجودگی کی تعریف کی۔ رہبر انقلاب اسلامی نے روس کے صدر پوتن کو آج کی دنیا میں ایک ممتاز شخصیت قرار دیا اور ایران کے ایٹمی معاملے میں روس کی کوششوں کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ یہ معاملہ ایک نتیجے تک پہنچ گیا ہے، لیکن ایران کو امریکہ پر کوئی اعتماد نہیں ہے اور وہ اس معاملے میں پوری دقت کے ساتھ اور آنکھیں کھول کر امریکہ کے کردار و اقدامات پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ ایران کے سپریم لیڈر کا کہنا تھا کہ ہم امریکہ کو ہرگز قابل اعتماد نہیں سمجھتے، اسی لئے ہم نہ تو شام کے مسئلے اور نہ ہی کسی اور ایشو پر امریکہ سے دو طرفہ مذاکرات کر رہے ہیں اور نہ مستقبل میں ایسا کریں گے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے خاص طور پر گذشتہ ڈیڑھ برسوں کے دوران مختلف مسائل کے بارے میں روسی صدر کے موقف کو صحیح اور جدت پسندی پر مبنی قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ امریکیوں کی ہمیشہ کوشش رہتی ہے کہ وہ اپنے حریفوں کو پسپائی اختیار کرنے پر مجبور کریں، لیکن آپ نے امریکیوں کی اس پالیسی کو ناکام بنا دیا۔ رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمٰی خامنہ ای نے شام کے مسئلے میں ماسکو کے اقدامات اور فیصلے کو بھی علاقائی اور عالمی سطح  پر روس کی ساکھ میں بہتری اور خود روسی صدر پوتن کی مقبولیت میں اضافے کا باعث بتایا۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے کہا کہ امریکیوں کی کوشش ہے کہ وہ شام پر تسلط جمائیں اور اس کے بعد پورے خطے پر کنٹرول حاصل کریں اور یہ منصوبہ سبھی اقوام اور ممالک خاص طور پر روس اور ایران کے لئے خطرناک ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے شام کے قانونی اور منتخب صدر بشار الاسد کو حکومت سے ہٹانے کے حوالے سے امریکیوں کے اصرار کو واشنگٹن کی ناکام پالیسیوں میں سے قرار دیا اور کہا کہ شام کے صدر نے پورے ملک میں ہونے والے انتخابات کے ذریعے عوام کے سبھی طبقات کا ووٹ حاصل کیا، اس لئے امریکیوں کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ شام کے عوام کی خواہشات اور فیصلے کو نظر انداز کریں۔

روس کے صدر ولادیمیر پوتن نے بھی اس ملاقات میں رہبر انقلاب اسلامی کے گرانقدر تجربات کی جانب اشارہ اور ان سے اپنی ملاقات پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ روس اور ایران کے درمیان مختلف میدانوں بالخصوص ایرو اسپیس اور جدید ٹیکنالوجی کے میدان میں روز افزوں تعاون سے مطمین ہیں۔ انہوں نے کہا کہ علاقائی اور عالمی مسائل کے حل میں بھی روس ایران کے ساتھ تعاون سے خوش ہے۔ روسی صدر کا کہنا تھا کہ روس ایران کو اپنا اطمینان بخش اور قابل بھروسہ اتحادی سمجھتا ہے۔ ولادیمیر پوتن نے کہا کہ روس اپنے اتحادیوں کی پشت میں خنجر نہیں گھونپتا۔ روس کا اگر کسی ایشو پر اپنے دوستوں کے ساتھ اختلاف نظر ہو تو ہم اسے گفتگو اور مذاکرات کے ذریعے حل کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔ ولادیمیر پوتن نے رہبر انقلاب اسلامی کے اس موقف کہ امریکہ میدان جنگ میں اپنے اہداف حاصل کرنے میں ناکامی کو مذاکرات کی میز پر محقق کرنا چاہتا ہے، کاملاً اتفاق کیا اور کہا کہ ہم اس طرف پوری طرح متوجہ ہیں اور ہرگز امریکہ کو ایسا نہیں کرنے دیں گے۔ روسی صدر نے شام کے معاملے میں ایران اور روس کے موقف کو بہت قریب بتایا اور کہا کہ روس کا موقف ہے کہ شام کا بحران صرف سیاسی طریقے سے ہی حل ہوسکتا ہے۔

وحدت نیوز (قم) چہلم سیدالشہداؑ کے موقع پر زائرین کربلا سے سرکاری اہلکاروں کا رشوت وصول کرنا انتہائی شرمناک فعل ہے۔ ان خیالات کا اظہار گذشتہ روز ایم ڈبلیو ایم قم کے اراکین کابینہ نے ایک ہنگامی اجلاس میں کیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق گذشتہ روز پاکستان سے قم پہنچنے والے زائرین نے ایم ڈبلیو ایم کے سیکرٹری جنرل گلزار احمد جعفری اور دیگر مسئولین سے ملاقاتوں کے دوران بتایا ہے کہ پاکستان سے ایران آنے والے زائرین کو ستانا اور لوٹ مار کرنا سرکاری کارندوں کا معمول بن چکا ہے، کانوائے کو رشوت بٹورنے کے لئے ایک ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ ٹرانسپورٹر حضرات سواریوں سے چندہ اکٹھا کرکے سرکاری چوکیوں پر رشوت جمع کراتے ہیں۔ قدم قدم پر زائرین کو رشوت لینے کے لئے ہراساں کیا جاتا ہے۔ کہیں پر کوئی پرسانِ حال نہیں ہے۔

زائرین نے افسوس کرتے ہوئے کہا کہ اب تو پاکستان آرمی کے جوان بھی پولیس کی طرح رشوت کی دوڑ میں شامل ہوگئے ہیں۔ اس صورتحال پر ایم ڈبلیو ایم قم نے فوری طور پر ایک ہنگامی اجلاس بلایا، جس میں یہ طے کیا گیا ہے کہ صدر پاکستان، چیف آف آرمی سٹاف اور وزیراعظم سمیت تمام اعلٰی حکام کو فوری طور پر صورتحال کی سنگینی سے آگاہ کیا جائے اور حکام سے مطالبہ کیا جائے کہ فوری طور پر زائرین کو پریشان کرنے والے اور رشوت خور اہلکاروں کے خلاف کارروائی کی جائے۔ ایم ڈبلیو ایم قم کی ایکشن کمیٹی نے زائرین کے بیانات کو قلمبند اور دیگر شواہد کو جمع کرکے بین الاقوامی اداروں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی طرف رجوع کرنے کے پروگرام پر عملدارآمد شروع کر دیا ہے۔

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree