وحدت نیوز (مانٹرنگ ڈیسک) رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے عوام کے مختلف طبقات سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ایٹمی مذاکرات کے بعد اسرائیلی حکام نے یہ کہنا شروع کردیا کہ وہ ایران کے خدشے سے 25 سال تک آسودہ ہوگئے ہیں لیکن ا  نشاء اللہ اسرائیل آئندہ 25 سال کو نہیں دیکھ پائے گا اور آئندہ 25 سال تک اسرائیل نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہےگی اور اس مدت میں بھی اسرائیل آسودہ نہیں رہےگا۔

رہبر معظم نے فرمایا: امریکہ کی ایران کے ساتھ دشمنی آشکار ہے بعض امریکی حکام مسکراتے ہیں اور بعض ایران کے خلاف قرارداد منظور کرتے ہیں ، امریکہ مذاکرات کے ذریعہ ایران پر اپنی مرضی کو مسلط کرنے اور ایران کے اندر نفوذ پیدا کرنے کی تلاش و کوشش کررہا ہے لیکن امریکہ کی یہ کوشش بھی ماضی کی کوششوں کی طرح ناکام ہوجائے گی۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: ایٹمی مذاکرات کے علاوہ امریکہ کے ساتھ کسی دوسرے موضوع پر مذاکرات نہیں کئے جائیں گے۔

وحدت نیوز(کراچی ) جامعتہ المصطفیٰ انٹرنیشنل (ایران )کراچی چیپٹر کے سربراہ علامہ ڈاکٹرعقیل موسی نے غیرملکی خبر رساں ادارے کو انٹرویودیتے ہوئے کہا کہ اس بات کو نافقط ہم بلکہ ہمارے مخالفین اقرار کرتے ہیں کہ شیعہ مدارس کسی بھی قسم کی عسکریت پسندی یا دہشتگردی میں ملوث نہیں ہیں، اور انہوں نے شروع سے اپنے آپ کو مہد علمی کے طور پر رکھا ہے، اور معاشرے کی علمی ضرورت کو پورا کرنے کی کوشش کی ہے، اس کو ہر خاص و عام جانتا ہے، اس کو کہیں ثابت کرنے کی ضرورت نہیں ہے، جہاں تک شیعہ مدارس میں سرچ آپریشن یا دیگر کی بات ہے، تو ہماری ملکی ایجنسیوں کا حق بنتا ہے کہ وہ معلومات رکھیں کہ کون سے مدارس ہیں، کون سے طلاب ہیں، آیا غیر ملکی طلاب مدارس میں ہیں یا نہیں ہیں، لیکن اس کا انہوں نے خود ہی ایک سیٹ اپ بنایا ہے وفاق المدارس کا، پانچ اور چھ وفاق المدارس ہیں، اسی طرح وفاق المدارس شیعہ پاکستان بھی ہے، تمام شیعہ مدارس جو ہیں وہ وفاق المدارس کے انڈر میں آتے ہیں، اور وہ ان سے رابطے میں رہتے ہیں، اور ان مدارس کا سارا ڈیٹا ان کے پاس ہوتا ہے، ان کے امتحانات وہ لوگ لیتے ہیں، اگر تمام وفاق المدارس اپنا اپنا کردار صحیح ادا کریں تو میرا خیال ہے کہ اس آپریشن میں انہیں بہت آسانی مل سکتی ہے، اور بہت آسانی سے وہ معلوم کرسکتے ہیں کہ کون سے مدارس دہشتگردی میں ملوث ہیں، اور اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ کچھ مدارس ہیں جو دہشتگردی میں ملوث ہیں، اور اسے کنٹرول کرنا ضروری ہے، لیکن وفاق المدارس کے تحت ملکی ایجنسیوں کو مدارس میں آپریشن کرنے چاہئیں، اور جہاں جہاں کی ان ایجنسیوں کے پاس کنفرم معلومات ہیں کہ وہ ان چیزوں میں ملوث ہیں، ان کا قلع قمع ہونا چاہیئے، حتیٰ ان مدارس کو بند ہونا چاہیئے، اور تمام وفاق المدارس کو دہشتگردی میں ملوث مدارس کیخلاف کارروائی میں ملکی اداروں کیساتھ تعاون کرنا چاہیئے، اب پاکستان اس چیز کا مزید متحمل نہیں ہوسکتا، ہم بہت زیادہ نقصان اٹھا چکے ہیں، اے کاش کہ ہماری آنکھیں بہت پہلے کھل جاتیں، ہمارے علماء، ہمارے قائدین، ہماری تنظیمیں بہت عرصے سے اس بات کی طرف متوجہ کر رہی تھیں کہ اگر ہم نے اس وقت نہیں روکا تو آگ خود ہمارے گھروں میں لگ جائے گی، اور وہ اب لگ چکی ہے، اب ہمیں سب کو مل کر اپنا بھرپور کردار ادا کرنا ہے، اس آگ کو بجھانا ہوگا، اس حوالے سے سخت اقدامات کرنے ہونگے، دہشتگرد عناصر کو اپنے سے الگ کرنا ہوگا۔

وحدت نیوز (تہران)  رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای نے کہا ہے کہ ہم امریکہ کو اپنے ملک میں اثر و رسوخ کی اجازت نہیں دیں گے۔ اسلامی ریڈیو اور ٹی وی چینلوں کی یونین کے اجلاس کے شرکاء نے پیر کے دن تہران میں اسلامی انقلاب کے سربراہ سے ملاقات کی۔ رہبر انقلاب اسلامی نے اس موقع پر کہا کہ امریکی حکام ایٹمی معاہدے کے ذریعے ہمارے ملک میں اثر و رسوخ حاصل کرنا چاہتے تھے، لیکن ہم نے ان کے اثر و رسوخ کا راستہ روک دیا ہے اور ہم یقینی طور پر اس راستے کو بند کر دیں گے۔ ہم امریکہ کو اپنے ملک میں نہ اقتصادی اثر و رسوخ کی اجازت دیں گے اور نہ ہی سیاسی اور ثفاقتی اثر و رسوخ کی۔ انکا کہنا تھا کہ ہم پوری طاقت کے ساتھ اس اثر و رسوخ کا مقابلہ کریں گے اور اللہ تعالٰی کا شکر ہے کہ ایسا کرنے کی یہ طاقت آج ایران کے پاس موجود ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے ایٹمی معاہدے کے بارے میں کہا کہ ابھی تک یہ بھی واضح نہیں ہے کہ اسے امریکہ اور ایران میں منظوری بھی دی جائے گی یا نہیں۔ رہبر انقلاب اسلامی نے مزید کہا کہ امریکی حکام خطے میں اثر و رسوخ اور اپنے اہداف کے حصول کے درپے ہیں، لیکن ہم ان کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ وہ عراق اور شام کو تقسیم کرنے کے درپے ہے، اللہ تعالٰی کے فضل و کرم سے ایسا کبھی نہیں ہوگا۔

رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای نے یمن کے خلاف سعودی عرب کی جارحیت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ آج ہمیں یمن کے مظلوم عوام کی صورتحال پر رنج اور دکھ ہے، ہم ان کے لئے دعا گو ہیں اور ہم ان کی حتی المقدور مدد کر رہے ہیں۔ اسلامی جمہوری ایران کے سپریم لیڈر نے کہا کہ ایک ملک کو تباہ کیا جا رہا ہے اور حماقت کے ساتھ سیاسی مقاصد کو حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے فلسطین کی استقامت کو اسلامی تاریخ کا ایک روشن باب قرار دیا اور کہا کہ ہم خطے میں جاری استقامت اور فلسطین کی استقامت کا دفاع کرتے ہیں اور جو بھی اسرائیل کے خلاف جہاد کرے گا، صیہونی حکومت کو ضرب لگائے گا اور استقامت کی حمایت کرے گا، ہم اس کی ہر ممکن مدد کریں گے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے دنیا کے ذرائع ابلاغ پر صیہونزم کے تسلط کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اسلامی ریڈیو اور ٹی وی چینلوں کی یونین کے اراکین کو مخاطب قرار دیا اور کہا کہ بی بی سی کے حکام اپنے غیر جانبدار ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن وہ جھوٹ بولتے ہیں، وہ سامراجی پالیسیوں کو عملی جامہ پہناتے ہیں۔ ریڈیو ٹی وی اور عصر حاضر کے عجیب وسائل و ذرائع پر صیہونیوں کا تسلط ہے اور ان سے صیہونی اپنے مقاصد حاصل کرتے ہیں۔ ان کا مقابلہ کیا جانا ضروری ہے۔ آپ لوگوں کا کام ایک تحریک کا آغاز ہے، اس میں تیزی آنی چاہئے اور اس کی تقویت کی جانی چاہئے۔

وحدت نیوز (اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی جنرل سیکریٹری علامہ راجہ ناصرعباس جعفری نے کہا کہ کراچی میں بارہ سو افراد بجلی و پانی کی عدم دستیابی کے باعث شدید گرمی کا شکار ہو کر موت کے منہ میں چلے گے لیکن حکمرانوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔ سیکڑوں قیمتی جانوں کے ضیاع کو اس طرح نظر انداز کرنا بدترین حکومتی بے حسی ہے۔ سرکاری وسائل کو غیرضروری منصوبے پر بے دریغ خرچنے کی بجائے بنیادی ضروریات کی بلاتعطل فراہمی جسیے امور پراگر خرچہ جاتا تو آج بارہ سو گھروں سے لاشیں نہ اٹھتیں۔حکومت کی بد انتظامی اور ناقص پالیسوں نے اس ملک کو تباہی کے دھانے پر لا کھڑا کیا ہے۔اس وقت وطن عزیز دہشت گردی اور توانائی کے بحران کا شدید تر شکار ہے۔جن پر قابو پانے کے لیے ہنگامی بنیادوں پراقدامات کی ضرورت ہے۔لوڈشیڈنگ کاخاتمہ تبھی ممکن ہے جب ملک میں بجلی کی ضرورت کے مطابق مختلف ڈیم بنانے کے ساتھ ساتھ توانائی کے حصول کے متبادل ذرائعوں کے لیے تگ و دو کی جائے ۔انہوں نے کہا پڑوسی ملک ایران سے بجلی وگیس کے حصول سے سے ملک کو لوڈ شیڈنگ جیسے عذاب سے نجات مل سکتی ہے ۔مگر سعودی عرب اس میں سب سے بڑی رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ نواز شریف حکومت ملکی ترقی و استحکام کی بجائے ذاتی تعلقات اور بیرونی ڈکٹیشن کو ہمیشہ فوقیت دیتی آئی ہے۔ جس کی وجہ سے آج ہمارا یہ ملک لاتعداد سنگین مسائل میں گھرا ہوا ہے۔

وحدت نیوز (مانٹرنگ ڈیسک/بشکریہ نوائے اسلام) امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی وفات کو چھبیس سال ہو چکے ہیں اور آج دنیا بھر میں امام خمینی ؒ کی 26ویں برسی منائی جارہی ہے ۔امام خمینی ؒ نے دین و سیاست کا ایک ایسا امتزاج پیش کیا ہے اور اس میں عملی حصہ لیکر پوری دنیا پر اسلامی سیاست کا وہ عملی نمونہ پیش کیا ہے کہ جس کی مثال پوری دنیا میں نہیں ملتی ۔امام خمینی ؒ نے اُن لوگوں کا یہ نظریہ بھی غلط ثابت کیا ہے کہ دین وسیاست دو جدا مفہوم ہیں اور اُن لوگوں کے نظریہ کو بھی باطل قرار دیا ہے کہ جن کے نزدیک سیاست ایک گندا کھیل ہے جس میں علماء کو داخل نہیں ہو ناچاہیے ۔امام خمینی ؒ کی برسی کی مناسبت سے ہم پاکستان جیسے معاشرے کے سامنے امام خمینی ؒ کے اخلاقی سیاست کے نظریے کی ایک جھلک پیش کرنا چاہتے ہیں کہ جس معاشرے میں سیاسی اخلاق باختگی اپنے عروج پر ہے اور سیاست واخلاق کے باہمی تعلق کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا ۔جس معاشرے میں علماء بھی گندی سیاست اور غیر اخلاقی سیاست پر یقین رکھتے ہیں اور اس میں عملی طور پر شریک ہیں ۔لیکن امام خمینی ؒ کا اخلاقی سیاست کا نظریہ ثابت کرتا ہے کہ پاکستانی سیاست کایہ مظاہرہ سراسر غلط ہے اور ہمارے سیاستدانوں کے سیاسی طور پر نااہل ہو نے نے سیاست کو گندگی سے آلودہ کر دیا ہے ۔

در حقیقت ہمارے سیاست دان کوڈے (Coady) کے اس نظریے کہ پیروی کررہے ہیں کہ جس کے مطابق سیاست ایک آلودگی ہے ۔وہ ’’ سیاست اور آلودہ ہاتھ‘‘(Politics and the problem of dirty hands) کے عنوان سے ایک مقالے میں اس تلخ حقیقت کو ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ سیاست، پرہیزگاری اور پاکیزگی اختیار کرنے کے ساتھ سازگار نہیں۔ لہذا جو بھی سیاست کے میدان میں داخل ہونا چاہتا ہے اسے بد نامی، پستی، بدکرداری اور ہر قسم کی آلودگی کے خطرات کو قبول کرنا چاہئے، کیونکہ سیاست اور انسانی حالات کا یہی تقاضا ہے اور ’’ اگر یہ (سیاست) ہاتھ آلودہ کرنے کے معنی میں ہے تو یہ فقط انسانی حالات کی وجہ سے ہے۔‘‘ اور اس سے فرار نہیں کیا جاسکتا ہے۔

لیکن امام خمینی ؒ اس مسئلہ کو کسی اور نظر سے دیکھتے ہیں۔ ان کا اعتقاد یہ ہے کہ سیاست، اخلاقی بھی ہوسکتی ہے اور اسے اخلاقی ہونا بھی چاہئے، کیونکہ سیاست معاشرے کے وسیع شعبہ ہائے حیات میں اخلاقی وسعتوں کے پھیلاؤ اور دینی مقاصد وآرزؤں کی عملی شکل کے سوا اور کچھ بھی نہیں۔ لہٰذا امام خمینی ؒ کے نزدیک سیاست اور اخلاق ایک ہی چیز ہے امام خمینی ؒ ایک ایسے زمانے میں زندگی گزار رہے تھے کہ جب اغیار کے وسیع پروپیگنڈے اور اپنوں کے غلط اعمال کے نتیجے میں اذہان میں اسلام اور اس کی کارکردگی کے بارے میں بہت سے اہم شکوک وشبہات پیدا ہوچکے تھے۔ انہی شبہات میں سے ایک، اسلام اور سیاست کے تعلّق اور سیاست کے سلسلے میں علماء کی ذمہ داری کا مسئلہ ہے۔ ان شکوک وشبہات کے نتیجے میں، دین اور سیاست کی جدائی کا نظریہ غالب ہورہا تھا کہ جس کے امام خمینی ؒ بہت شدید مخالف تھے اور اسے استعماری سازش قرار دیتے تھے۔ وہ ہر جگہ سیاست میں اسلام کے کردار اور اسلام وسیاست کے ایک دوسرے سے جدا نہ ہونے کی بات کرتے تھے اور سیاست میں دخالت ہر مسلمان کا فریضہ جانتے تھے۔ انہوں نے شاہی حکومت کی انٹیلی جنس کے سربراہ ’’ پاکروان ‘‘ کا قصہ کئی دفعہ بیان کیا تھا کہ جس میں اس نے اپنے تئیں سیاست کی حقیقت بیان کرتے ہوئے کہا تھا کہ علماء کو اس ’’ بدمعاشی‘‘ سے بچنا چاہیے، امام خمینی ؒ فرماتے تھے کہ یہ انہی استعماری منصوبوں کا نتیجہ ہے کہ افسوس کے ساتھ جس پر ہمارے بہت سے دینداروں کا بھی اعتقاد ہے ۔حتیٰ کہ ہماری دینی ثقافت میں ’’ سیاسی مُلا ‘‘ ایک طنز اور گالی کی حیثیت اختیار کرچکا تھا۔ ’’جب کسی مولانا کا عیب بیان کرنا مقصود ہوتا تو کہا جاتا ’’فلاں سیاسی ملا ہے۔‘‘

حالانکہ اگر اسلام کے اجتماعی احکام کو نکال دیا جائے تو اس دین مبین میں سے سوائے بے روح جسد کے اور کچھ باقی نہیں رہتا۔ اسلام کا ایک بڑا حصہ، اجتماعیات پرمشتمل ہے اور اس کا اجراء کرنا بھی اقتدار اور حاکمیت کے ساتھ تعلّق رکھتا ہے۔ لہذا اسلام کو ہم ایک فردی دین اور لوگوں کی خصوصی زندگی سے مخصوص مذہب نہیں قرار دے سکتے۔ دین کو سیاست سے جدا کرنے کی بات یا تو اصل دین کے بارے میں کج فہمی کا نتیجہ ہے یا بدخواہوں کے پروپیگنڈے کا اثر ہے۔ اگر انسان ایک اجتماعی اور سیاسی مخلوق ہے اور اگر ہم دین اسلام کی جامعیت کے بھی قائل ہوں کہ جو انسانی زندگی کے تمام پہلوؤں پرمشتمل ہے تو ان سب باتوں کا منطقی نتیجہ یہ ہے کہ دین ہرگز سیاست سے جدا نہیں ہوسکتا۔ پس سیاست سے دین کی جدائی کی بحث ایک مشکوک بحث ہے ’’ اس بات کو استعمار نے پھیلایا ہے کہ دین کو سیاست سے جدا ہونا چاہئے اور علمائے اسلام کو اجتماعی وسیاسی امور میں دخالت نہیں کرنی چاہئے۔ یہ سب بے دین افراد کا پروپیگنڈا ہے۔ کیا زمانۂ پیغمبر ؐ میں سیاست دین سے جدا تھی؟ کیا اس زمانے میں بھی ایک گروہ علما کا تھا اور دوسرا سیاستدانوں اور حکمرانوں کا؟ کیا خلفاء اور حضرت امیر ؑ کے زمانہ خلافت میں سیاست دین سے جدا تھی؟ آیا اس وقت دو نظام تھے؟ یہ سب باتیں استعمار اور ان کے کارندوں نے پھیلائی ہیں تاکہ دین کو دنیوی امور اور مسلمانوں کے معاشرتی مسائل سے دور رکھ سکیں‘‘۔ امام خمینی ؒ کے نزدیک ’’ اسلام ایک ایسا مکتب ہے کہ جو غیر توحیدی مکاتب کے برعکس تمام فردی واجتماعی، مادی ومعنوی، ثقافتی وسیاسی اور فوجی واقتصادی مسائل میں دخالت اور نظارت رکھتا ہے اور اس (دین) میں کسی ایسے چھوٹے سے چھوٹے نکتے کو بھی نظر انداز نہیں کیا گیا جو انسان اور معاشرے کی تربیت اور مادی ومعنوی ترقی میں کردار ادا کرسکتا ہو‘‘۔ پس جو شخص ان دونوں میں جدائی کی بات کرتا ہے وہ درحقیقت نہ دین کی حقیقت سے آگاہ ہے اور نہ ہی سیاست کے مفہوم کو جانتا ہے۔ ’’ ہمیں سیاست سے کیا مطلب‘‘ کا معنی یہ ہے کہ اسلام کو بالکل فراموش کردینا چاہئے، اسلام کو چھوڑ دینا چاہئے اور اسلام کو (مدارس) کے حجروں میں دفن کردینا چاہئے۔ یہ ہماری کتابیں دفن ہوجانی چاہییں‘‘۔ امام خمینی ؒ کے نزدیک ’’ اسلام کی اساس ہی سیاست ہے‘‘۔ اور ’’رسول اﷲؐ نے سیاست کی بنیاد دین پر رکھی ہے۔ ’’ صدر اسلام اور زمانہ پیغمبر ؐ سے لے کر جب تک انحراف پیدا نہیں ہوا تھا، سیاست اور دین ایک ساتھ تھے‘‘۔ امام خمینی ؒ کی یہ باتیں بارہا تکرار ہوئی ہیں، خصوصاً اس مفہوم اور تعریف کے ساتھ کہ جس کے وہ سیاست کے بارے میں قائل تھے اور اس کے مطابق، یہ باتیں قابل فہم بھی ہیں اور قابل قبول بھی۔ جیسا کہ پہلے بھی گزرچکا ہے کہ امام خمینی ؒ کے نزدیک ’’سیاست، معاشرے کی ہدایت وراہنمائی کرنے اور معاشرے کی مصلحت کو اور انسانوں اور معاشرے کے تمام پہلوؤں کو مدنظر رکھنے کا نام ہے۔ ان کی اس چیز کی طرف راہنمائی کرنے کا نام سیاست ہے کہ جس میں ان لوگوں اور قوم وملت کی مصلحت ہے اور یہی چیز انبیاء ؑ سے مخصوص ہے‘‘۔ اس نظریہ کے مطابق اسلام کے تمام احکام وقوانین سیاسی جلوہ لئے ہوئے ہیں ’’دین اسلام، ایک سیاسی دین ہے۔ ایک ایسا دین ہے کہ جس کا سب کچھ سیاسی ہے حتیٰ اس کی عبادت بھی سیاسی ہے‘‘۔حتیٰ اس نگاہ سے دیکھیں تو ’’ اسلام کے اخلاقی احکام بھی سیاسی ہیں۔‘‘

امام خمینی ؒ کی نظر میں اگر انسان کو کھلا چھوڑ دیا جائے تو وہ شہوات کا قیدی اور مادی ضروریات کا اسیر بن جائے گا اور پھر اس کی معنوی تربیت اور پرورش کسی بھی تربیتی اور سیاسی مکتب میں نہیں ہوسکے گی۔ جبکہ ہر چیز کی بنیاد معنویت اور روحانیت ہے اور انسان کے اس پہلو کی اصلاح اور پرورش سے اس کی تمام دوسری مشکلات حل ہوجاتی ہیں۔ امام خمینی ؒ کی نظر میں، موجودہ دنیا کی سب سے بڑی مشکل اخلاقی مشکل ہے۔ اگر یہ مشکل حل نہ ہوسکی تو دنیا پستیوں کی طرف گرنا شروع ہوجائے گی ’’ دنیا کو جس چیز سے خطرہ ہے وہ اسلحہ، سنگینیں اور میزائیل وغیرہ نہیں ہیں، بلکہ وہ چیز ہے کہ جو ان ممالک اور انسانوں کو زوال وہلاکت کی طرف لے جا رہی ہے اور یہ زوال وانحطاط ہے جو ان ممالک کے سربراہوں اور ان حکومتوں کے کارندوں کے اخلاقی انحطاط کی وجہ سے پیدا ہورہا ہے‘‘۔

امام خمینی ؒ کی نظر میں ’’ اسلام، مادی مکتب نہیں، بلکہ ایک مادی اور معنوی مکتب ہے… اسلام انسان کی تہذیب وتربیت کیلئے آیا ہے اور اسلام اور تمام انبیاء ؑ کا مقصد انسانوں کی تربیت کرنا ہے‘‘۔ پس اس بنا پر ہر سیاسی عمل کا سرچشمہ اخلاق ہونا چاہئے لہذا معنویت وروحانیت کی طرف توجہ ضروری ہے، چونکہ ’’ یہی معنویات ہر چیز کی بنیاد ہیں‘‘۔درحقیقت سیاست بغیر اخلاق کے لوگوں کی ہدایت وراہنمائی کرنے اور ان کی حقیقی ضروریات کو پورا کرنے سے عاجز ہے ’’ بالفرض ایک ایسا شخص پیدا ہو بھی جائے کہ جو صحیح سیاست کو اجرا کرے… (لیکن)وہ سیاست، سیاست انبیاء ؑ کا ایک پہلو ہے۔ اولیاء کی سیاست بھی تھی اور اب علمائے اسلام کی بھی سیاست ہے۔ انسان کا فقط ایک پہلو نہیں ہے اسی طرح معاشروں کے بھی فقط ایک پہلو نہیں ہیں۔ انسان فقط ایک حیوان نہیں ہے کہ کھانا پینا اور پہننا اس کا تمام ہم وغم ہو۔ شیطانی سیاست ہو یا صحیح سیاست، وہ امت کے فقط ایک پہلو کی ہدایت کرتی ہے اور وہ اس کا حیوانی اور مادی پہلوہے اور اس قسم کی سیاست، اسلام میں انبیاء واولیاء کیلئے ثابت ہونے والی سیاست کا ایک ناقص سا جز ہے۔ وہ اقوام وملل اور فرد ومعاشرے کی اصلاح کرنا چاہتے ہیں۔ معاشرے اور انسان کیلئے جتنی بھی مصلحتوں کا تصور کیا جاسکتا ہے وہ ان کی طرف راہنمائی کرنا چاہتے ہیں‘‘۔
یہ امام خمینی ؒ کے اخلاقی وسیاسی نظریے کا مرکزی نکتہ ہے لہذا ہمارا سروکار دو علوم اور دو مستقل نظریوں سے نہیں ہے۔ سیاست اخلاق کا تسلسل ہے اور اخلاق، سیاست کی بنیاد۔ گزشتہ ابحاث میں غور وفکر سے یہ نکتہ بخوبی روشن ہوجاتا ہے۔ اسلام کا مقصد انسان کے مادی اور معنوی پہلوؤں کی پرورش وتربیت کرنا ہے لہذا ان دونوں پہلوؤں کو ایک ہی سمت اور ایک ساتھ حرکت کرنی چاہئے۔ جس کیلئے اسلام نے انسان کیلئے کچھ احکام اور قوانین وضع کئے ہیں۔ ان احکام میں سے کچھ تو فردی حیثیت رکھتے ہیں اور کچھ اجتماعی مقاصد لئے ہوئے ہیں، بعض تربیتی پہلو کے حامل ہیں اور بعض سیاسی حیثیت کے۔ لیکن سب کا مقصد ایک ہی ہے۔ لہذا ان احکام میں چند خصوصیات ہونی چاہئیں: اول یہ کہ ان کو انسان کے تمام وجودی پہلوؤں پرمشتمل ہونا چاہئے۔ دوم یہ کہ یہ اپنے اپنے میدان میں جامعیت کے حامل ہونے چاہئیں اور ایک دوسرے کے ساتھ تضاد بھی نہ رکھتے ہوں، بلکہ ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہوں۔ درحقیقت تمام اسلامی احکام ایسی ہی خصوصیات کے حامل ہیں۔

امام خمینی ؒ کی نظر میں ’’ اسلام میں انسان کی پوری زندگی کیلئے یعنی جس دن وہ متولدہوتا ہے اس سے لے کر قبر میں داخل ہونے تک کے احکام اور دستورات موجود ہیں‘‘۔اسی طرح ان احکام میں جامعیت اور انسجام بھی موجود ہے۔ بقول امام خمینی ؒ ’’اس انسان کیلئے کہ جو ہر چیز کا مجموعہ ہے یعنی جو عالم طبیعت سے لے کر ماورائے طبیعت اور عالم الٰہیات تک کے مراتب کا حامل ہے، اسلام کے پاس نظریہ اور لائحہ عمل موجود ہے۔‘‘ لہذا تمام اسلامی احکام پیکر واحد کی حیثیت رکھتے ہیں ’’اسلام کی دیانت فقط عبادی دیانت ہی نہیں… اسی طرح وہ صرف ایک سیاسی مذہب ہی نہیں، بلکہ عبادی بھی ہے اور سیاسی بھی۔ اس کی سیاست، عبادات میں مدغم ہے اور اس کی عبادت، سیاسیات کے ساتھ ملی ہوئی ہے، یعنی وہی عبادی پہلو سیاسی پہلو بھی ہے‘‘۔

امام خمینی ؒ صراحت کے ساتھ اخلاق اور دینی سیاست کو ایک ہی چیز شمار کرتے ہیں اور ان دونوں کی وحدت کے نظریہ پر تاکید کرتے ہوئے کہتے ہیں ’’اسلام کے اخلاقی احکام بھی سیاسی ہیں۔ یہی حکم کہ جو قرآن میں ہے جس کے مطابق مومنین آپس میں بھائی بھائی ہیں، ایک اخلاقی حکم ہے (لیکن ساتھ ہی) ایک اجتماعی وسیاسی حکم بھی ہے۔ مومنین اور اسلام کے دوسرے مختلف گروہ کہ جو خدا اور پیغمبر اسلام ؐ پر ایمان رکھتے ہیں اگر باہم برادر بن جائیں تو جس طرح ایک بھائی، بھائی پر محبت کی نگاہ ڈالتا ہے، سب گروہ ایک دوسرے پر محبت کی نگاہ ڈالیں، تو یہ بات ایک عظیم اسلامی اخلاق کے علاوہ اور عظیم اخلاقی ثمرات رکھنے کے علاوہ، ایک عظیم اجتماعی حکم بھی ہے جس کے عظیم اجتماعی اثرات ہیں۔

بہرحال، امام خمینی ؒ کے نظریہ کا خلاصہ اور ان کے افکار کا لب لباب اخلاق اور سیاست کی یگانگی اور وحدت ہے اور یہ بات اس قدر واضح ہے کہ جس کیلئے کسی استدلال کی ضرورت نہیں۔ اب جبکہ اخلاق اور سیاست ایک دوسرے میں مدغم ہوچکے ہیں تو پھر جھوٹ، ظلم وستم بے عدالتی، حق تلفی وغیرہ فردی سطح پربھی بری ہے اور اجتماعی سطح پر بھی۔ اسلامی حکمران کو ہمیشہ اخلاقی اصولوں کی پابندی کرنے کی کوشش کرنی چاہیے اور ان کی حدود سے تجاوز نہیں کرنا چاہیے۔ یہ کام اگرچہ مشکل ہے لیکن محال نہیں۔ اسلامی نظام کے حقیقی مقاصد ومصالح کی حفاظت اور طولانی مدت تک سیاسی اقتدار کا تحفظ فقط اخلاقی اصولوں کی پابندی اور ہر قسم کے دھوکہ وفریب سے دوری اختیار کرنے میں مضمر ہے۔ اس اصول اور قاعدے کو کوئی بھی مسلمان حکمران نظرانداز نہیں کرسکتا۔ سیاسی اقتدار کی حفاظت اور اخلاق کے بارے میں تاکید پر مبنی امام خمینی ؒ کا یہ قول ہمیشہ ہمارا نصب العین ہونا چاہئے کہ جس میں انہوں نے فرمایا: ’’آپ اپنے اسلامی کردار اور رفتار کے ساتھ اس تحریک کی حفاظت کریں اور اسے آگے بڑھائیں اور اس بات کی طرف متوجہ رہیں کہ خداوند متعال ہی ہماری تائید فرماتا ہے۔ لہذا ہمیں چاہئے کہ اپنے اسلامی اخلاق ورفتار کے ذریعے اس اقتدار کی حفاظت کریں کہ جس نے ہمیں فتح ونصرت تک پہنچایا ہے‘‘۔

پس نتیجہ یہ کہ نہ صرف ہمیں سیاست کو اخلاقی بنانا چاہئے ، بلکہ اخلاقی معیار کے مطابق سیاست کرنی چاہیے، کیونکہ اسلامی تعلیمات کی بنیاد اور حقیقت یہی ہے اور تاریخ بھی اس نظریے کے فروغ اور سربلندی کی گواہ ہے۔ اگر کہیں اس نظریہ نے شکست کھائی بھی ہے تواس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ نظریہ ہمیشہ شکست کھاتا رہے گا اور ناقابل عمل ہے۔ آج اکثر سیاسی مفکرین کو اس حقیقت کا ادراک حاصل ہوگیا ہے کہ فقط اخلاقی سیاست کے ذریعے ہی باقی رہنا ممکن ہے۔اور امام خمینی ؒ نے یہ نظریہ عملی طور پر ثابت کر دکھایا ہے اورعملی سیاست میں اخلاق کا مظاہرہ کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیاست کی یاد تازہ کرد ی ہے ۔


تحریر۔۔۔۔۔۔سید رمیزالحسن موسوی

وحدت نیوز (اسکردو) مجلس وحدت مسلمین کے رہنما اور بلتستان کے ہر دل عزیز شخصیت علامہ ڈاکٹر غلام محمد فخرالدین سکردو پہنچ گئے،ڈویژنل سیکرٹری سیاسیات محمد علی و دیگر کارکنان نے ان کا استقبال کیا اور قافلے کے ہمراہ قمراہ روانہ ہو گئے،ترجمان مجلس وحدت مسلمین کیمطابق علامہ صاحب مجلس وحدت مسلمین کے الیکشن مہم میں بھر پور حصہ لیں گے،اور بلتستان کے تمام حلقوں کا کل سے ہنگامی دورے شروع کریں گے،مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی رہنما وُں سید ناصر شیرازی اور علامہ اعجاز بہشتی بھی گلگت سے آج سکردو پہنچیں گے،اور بلتستان کے تمام حلقوں میں الیکشن مہم میں حصہ لیں گے،ترجمان کا کہنا تھا کہ گلگت بلتستان میں واحد قومی جماعت مجلس وحدت مسلمین ہی ہیں جن کے قائدین گذشتہ ایک ماہ سے زائد عرصے سے عوام کے درمیان موجود ہیں،باقی جماعتوں کے رہنما محض خوشگوار موسم میں سیر تفریح کے لئے آکر عوام کو سبز باغ دکھا کر واپس لوٹ جاتے ہیں۔

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree