وحدت نیوز(قم) مجلس وحدت مسلمین قم کی خبر رساں ادارے شفقنا کے چیف ایڈیٹر توقیر عباس کے ساتھ ایک نشست ہوئی۔ نشست کا آغاز تلاوت قرآن مجید سے کیا گیا، جس کے بعد آفس سیکرٹری مختار مطہری نے نشست کے ایجنڈے کو بیان کیا۔ ایجنڈے کے مطابق ایم ڈبلیو ایم قم کے شعبہ جات کے مسئولین نے اپنے اپنے شعبوں کی فعالیت سے معزز مہمان کو آگاہ کیا۔ اس دوران مسئولین سے اراکین اجلاس خصوصاً مہمان شخصیت نے مختلف سوالات بھی کئے۔ سیکرٹری سیاسیات و ارتباطات عاشق حسین آئی آر اور سیکرٹری فرہنگ و ثقافت منتظر مہدی نے تمام سوالات کے بطریقِ احسن جوابات دیئے، ایم ڈبلیو ایم قم کے مختلف تنظیمی امور اور تعلیمی و اجتماعی سرگرمیوں کے بارے میں اپنی فعالیت کو بھی بیان کیا۔

اس کے بعد شفقنا کے چیف ایڈیٹر توقیر عباس نے وحدتِ اسلامی کی خاطر اسلامی میڈیا اور تنطیموں کے حوالے سے نہایت جامع گفتگو کی۔ انہوں نے کہا کہ تمام اسلامی تنظیموں کو باہمی اختلافات ختم کرنے کے لئے آخری حد تک جانا چاہیے اور اسلامی میڈیا کو بھی اس سلسلے میں ذمہ داری کا مظاہر کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ قم المقدس ایک علمی و معنوی مرکز ہے اور پورے عالم اسلام بلکہ عالم بشریت کی نگاہیں، ہدایت و رہبری، فلاح و بہبود، تعلیم و تربیت اور نجات کے لئے اسی سرزمین پر لگی ہوئی ہیں۔ لہذا مختلف شعبوں کے حوالے سے اسلامی ماہرین کی تربیت  اور وحدت و اتحاد کی خاطر یہاں سے بھرپور کام ہونا چاہیے۔ نشست کے آخر میں اجلاس میں ہونے والی گفتگو کا خلاصہ بیان کیا گیا اور دعائے امام زماں ؑ کے ساتھ یہ نشست اختتام پذیر ہوئی۔

وحدت نیوز(آرٹیکل) صحافت ایک  مقدس مشن ہے۔مشن تقدس کے بغیر کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔تقدس کو بددیانتی ٹھیس پہنچاتی ہے۔آج ہی "اسلام پرستی یا فرقہ پرستی؟" کے عنوان سے ایک کالم میری نظروں سے گزرا۔ پڑھ کر نہایت دکھ ہوا ۔دکھ  اس وجہ سے بھی ہوا کہ لکھنے والے سنئیر صحافی خورشید ندیم تھے۔ میں حیران رہ گیاکہ  اتنے تعلیم یافتہ اور تجربہ کار صحافی کی ایران کے بارے میں معلومات اتنی  کم ہیں !اور پھر دکھ اس بات کا بھی ہوا کہ موصوف نے اپنی کم علمی کا تدارک کئے بغیر ہی  ایران کے بارے میں اندھا دھند کالم لکھ مارا ہے۔

موصوف نے اپنے کالم میں سب سے پہلے ایرانی صدر حسن روحانی کو تنقید کا نشانہ  بناتے ہوئے کہاہے کہ  ایرانی صدر نے اپنے خطاب میں کہا تھا کہ " اہل تشیع کے دفاع کے لیے کسی جگہ مداخلت سے گریز نہیں کریں گے"۔

اب اسے موصوف کی کم علمی کہا جائے یا پھر موصوف کو معلومات فراہم کرنے والے گروہ کی شیطانیت ۔حقیقت یہ ہے کہ ایرانی صدر نے یہ بیان شیعوں کے حوالے سے نہیں بلکہ مقامات مقدسہ کے حوالے سے دیاتھا کہ اگر کہیں شام یا عراق میں شیعوں کے مقامات مقدسہ کو خطرہ لاحق ہوا تو  ان مقامات کی حفاظت کے لیے ایران براہ راست میدان میں اترے گا ۔

 یہ صرف ایرانی صدر کی بات نہیں بلکہ دنیا کا ہر مسلمان مقامات مقدسہ کی حفاظت کو اپنا اولین فریضہ سمجھتا ہے۔بات یہیں تک رہتی تو پھر بھی کوئی بات نہ تھی ،موصوف نے اس کے بعد ایران کے اسلامی انقلاب  کو شیعہ سنی تقسیم کازمہ دار ٹھہرایاہے۔

یہ الزام آسمان پر تھوکنے کے مترادف ہے چونکہ  یہ تو ہر باشعور پاکستانی کو پتہ ہے کہ   انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد سے گذشتہ پینتیس سالوں میں ایران ہمیشہ دنیا بھر کے مظلوموں کا حامی رہا ہے چاہے وہ غیر مسلم ہی کیوں نہ ہوں اور ایران نے ہمیشہ شیعہ سنی وحدت کی بات کی ہے۔

۶ اپریل ۱۹۹۲ ء سے ۱۴ دسمبر تک سربیا اور بوسنیا ہرزیگووینا کے درمیان جنگ میں ایران نے بوسنیا کا بھرپور ساتھ دیا، حالانکہ وہاں کوئی مسلک کی بات نہیں تھی، کیونکہ بوسنیا کے لوگ مسلکی حوالے سے شیعہ نہیں تھے۔ فلسطینی سرزمینوں پر ۱۹۴۸ء سے قابض اسرائیل کے مقابلے میں ایران نے ہمیشہ حماس جیسی حریت پسند تنظیموں کی مالی اور دفاعی مدد کی ہے، حالانکہ فلسطین میں اکثریت سنی مسلمانوں کی ہی ہے اور دوسری جانب انکے اپنے  ہم مسلک عرب حکمران اپنی عیاشیوں میں مست ان مظالم پر ٹس سے مس نہیں ہو ئے اور انہی عرب حکمرانوں نے طالبان، القاعدہ اور داعش جیسی دہشت گرد تنظیموں کی بنیاد رکھ کر دنیا بھر میں مسلمانوں کو بدنام کر دیا ہے اور پاکستان کے حوالے سے تو انکی وطن مخالف پالیسیاں کسی بھی محبِ وطن پاکستانی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔  پاکستان میں انہی کے اشاروں پر پہلےسنی کو شیعہ سے لڑایا گیا اور اب سنیوں میں بھی رخنہ ڈال کر دیوبندیوں کو بریلویوں سے لڑایا جا رہا ہے۔

موصوف نے یہاں تک لکھا ہے کہ "تہران میں دو میلین سنی بستے ہیں لیکن انہیں مسجد بنانے کی اجازت نہیں" لگتا ہے جناب عصرِ حجر میں زندگی گزار رہے ہیں۔ کیونکہ تہران میں سنی دو میلین نہیں بلکہ انکی تعداد انتہائی محدود ہے جو کاروبار کے سلسلے میں یہاں مقیم ہیں۔  رہی یہ بات کہ انہیں مسجد بنانے کی بھی اجازت نہیں ہے تو انکے اطلاع کے لیے میں کالم کے آخر میں تہران میں سنیوں کے چند اہم مساجد اور مراکز کا اڈریس دیتا ہوں تاکہ دوبارہ ایسے غیر عاقلانہ الزامات لگانے سے پرہیز کریں۔

موصوف کو اس قدر تاریکی میں رکھا گیاہے کہ وہ یہ بھی نہیں جانتے کہ ایران میں سنیوں کوشیعوں کے مساوی  حقوق حاصل ہیں، یہاں تک کہ ایران کے سپریم لیڈر کو منتخب کرنے والی کمیٹی (شوریٰ خبرگان) میں بھی سنی علماء موجود ہیں اور حال ہی میں عام انتخابات کے ذریعہ سے صوبہ سیستان و بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سنی حنفی مسلک عالم دین مولوی نذیر احمد سلامی اس کمیٹی کے رکن منتخب ہو چکے ہیں جنہوں نے دینی تعلیم کراچی میں حاصل کی ہے اور ان کا شمار مفتی محمد شفیع کے خاص شاگروں میں ہوتا ہے۔

موصوف نے اپنے کالم میں اصلاح پسند مسلم رہنماؤں کی لمبی فہرست بنائی ہے میں اس کے جواب میں صرف اتنا کہوں گا کہ پہلے آپ لاعلمی اور تعصب کی تاریکی سے نکلیں اور پھر اصلاح پسندی کی بات کریں۔آپ کے پاس تو ابھی تک ایران کے بارے میں ابتدائی معلومات بھی نہیں ۔

حقیقت یہ ہے کہ محترم خورشید ندیم صاحب دور سے ایران کو نشانہ بنا رہا ہے، اس کی مثال دوسرے سنئیر صحافی جاوید چودھری کی سی ہے جو دو ماہ قبل پاکستانی وزیر اعظم کے ہمراہ وفد میں سعودی عرب سے ایران آئے تھے۔ اس نے پہلے کالم میں ایران کے خلاف لکھنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی لیکن تہران میں چند گھنٹوں کی سکو نت کے بعد جب انہوں نے نزدیک سے ایران کو دیکھا تو "تہران، پہلی محبت کی نظر میں" کے عنوان سے الگے کالم میں ایرانیوں کے گن گانے لگا تھا۔

جناب خورشید ندیم! کبھی فرصت ہو تو مطالعے کے لئے کچھ وقت نکالئے اور اگر آپ کے بس میں ہو تو معلومات فراہم کرنے والے لوگوں اور ذرائع کو بدل کر دیکھئے !یقین جانئے دنیا اس سے مختلف ہے جیسی آپ کو دکھائی گئی ہے۔


تحریر۔۔۔۔ ساجد مطہری

وحدت نیوز(آرٹیکل) آسمان فضیلت کی مدحت سرائی  ممکن نہیں۔کس کی کیا مجال ہے  جو بوستان فضیلت کی شاخ درخت پر  بلبل   کی طرح بیٹھ کر آسمان فضیلت پر فائز ہستی کی مدح سرائی کا فریضہ نبھا سکے۔  ساتھ ہی جہاں پر بھی کوئی فضیلت کے عنصر کا مشاہدہ کرے تب وہاں  اپنی بساط کے مطابق اس  صاحب فضیلت کی تعریف و تمجید  کو اپنا  وطیرہ بنا کر اس کی مدح  وستائش میں لگ جانا انسانی وجود کا شروع سے ہی  ایک خاصہ رہا ہے۔

 بسا اوقات وہ  مداح اپنے ممدوح کی فضیلتوں کےبیان کا  حق بھی کافی حد تک  ادا کرتا ہے۔ ایسا اس وقت ممکن ہوتا ہے جب ممدوح ایک عام انسان ہو نے کے ساتھ ساتھ بعض منفرد خصوصیات کے بھی حامل ہوں لیکن اگر موصوف عالم مادہ میں منحصر نہ ہو بلکہ جسمانی کمالات سے سرشار ہونے کے علاوہ ملکوتی فضائل کے بھی حامل ہوں تب یہ مدح خواں فضیلتوں کی فضا میں معمولی پرواز کے بعد اس کے بیان کا پر گرنا شروع ہوجائے گااور اس فضا میں حیران و سرگردان رہنے کے بعد دوبارہ زمین پر واپس پہنچ جائے گا۔ حضرت زہراؑ کا وجود مبارک بھی اس کا ایک بارز مصداق ہے۔

آپ کا حسب بھی بے مثال ہے اور نسب بھی بے نظیر۔ اگر آپ کے والد بزرگوار حضرت محمد مصطفی ؐ تمام انبیاء سے افضل ہیں تو  آپ پوری جہاں کی خواتین سے افضل و برتر ہیں۔آپ کے دو شہزادے جنت  کےجوانوں کے سردار ہیں تو آپ کا شوہر گرامی  ان شہزادوں سے بھی بافضیلت ہیں۔ آپ کےحسب و نسب پر آج بھی ساری دنیا  رشک کرتی ہے۔آپ فضیلت کے وہ بحر بیکراں ہیں جس کی تہ تک چودہ سو سال سے زیادہ مدت گزرنے کے باوجود  آج تک کوئی  رسائی حاصل نہ کر سکا۔ بلکہ  تحقیقی میدان میں وسعت آنے کے ساتھ ساتھ دن بہ دن آپ کی فضیلتوں  کے نئے دریچے کھلتے چلے جارہے ہیں۔ آپ وہ بافضیلت خاتون ہیں جس کی سیرت پوری بشریت کے لیے ایک بہترین نمونہ عمل ہے۔ آپ نے رہتی دنیا تک کی خواتین کو یہ درس دیا کہ کس طرح  عبادت الٰہی بجا لانا ہے، کیسے والد کے گھر میں زندگی گزارنا ہے، امور شوہر داری کو کیسے  بطریق احسن نبھانا ہے، بچوں کی تربیت کس پیرائے میں انجام دینا ہے، کیسے مشکلات سے نمٹنا ہے، کیسے راز داری کی رعایت کرنا ہے، کیسے نامحرموں سے اپنے کو دور رکھنا ہے، کیسے  حیا و عفت کا مظاہرہ کرنا ہے، کیسے غریبوں، مسکینوں ، یتیموں اور بے نواؤں کی مدد کرنا ہے۔غرض آپ تمام اوصاف حمیدہ سے آراستہ پیراستہ ہونے کے علاوہ تمام آلائشوں سے پاک و پاکیزہ عصمت کے مقام پر فائز تھیں۔ لہذاآپ کی زندگی کا ہر گوشہ ہر انسان کے لیے ایک بہترین اور مثالی  نمونہ عمل ہے۔

آپ کی  عظمت کے اظہارلیے یہی کافی ہے کہ آپ کی شان و منزلت میں نہ صرف شیعوں اور دوسرے مسلمانوں نے کتابیں لکھی ہیں بلکہ مسیحی اور دوسرے غیر مسلم دانشوروں نے بھی اپنی توانائی کے مطابق قلم فرسائی کی ہیں۔اپنی گزشتہ تحریر میں غیر مسلم دانشوروں کی عقیدت کے کچھ نمونے پیش کرنے کی سعادت حاصل کی تھی آج ہم بالترتیب بعض اہل سنت علماء کے اظہار عقیدت کو الفاظ کے روپ میں اتارنے  کی کوشش کرتے ہیں:

1.     روایات کی نقل میں بہت ہی احتیاط برتنے کے باوجود معروف  اہل سنت محدث بخاری نے  صحیح بخاری میں یہ روایت نقل کی ہے کہ پیغمبر اکرمؐ نے ارشاد فرمایا: فاطمہ جنت کی خواتین کی سردار ہیں۔  ساتھ ہی یہ بھی نقل کیا کہ آپ ؐ نے فرمایا: فاطمہ میرے وجود کا حصہ ہے جس نے ان کو ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا ہے۔﴿۱﴾

2.     مسلم نے صحیح مسلم میں نقل کیا ہے کہ پیغمبر اکرمؐ نے فرمایا: فاطمہ میرے بدن کا حصہ ہے۔ جس نے اس کو ناراض کیا اس نے اپنے پیغمبر کو ناراض کیا اور جس نے ان کو خوش رکھا اس نے اپنے پیغمبر کو خوش رکھا ہے۔﴿۲﴾

3.     حاکم نیشاپوری مستدرک میں حضرت عائشہ سے نقل کرتے ہیں  کہ پیغمبر اکرمؐ نے اپنی رحلت کے وقت حضرت فاطمہ ؑ سے فرمایا: میری بیٹی!کیا آپ امت اسلامی اور پوری دنیا کے خواتین  کی شہزادی  بننا پسند نہیں کرتیں۔﴿۳﴾

4.     فاطمہ زہرا ؑ عبدالحمید معتزلی کی نگاہ میں:

رسول خداؐ فاطمہؑ کا لوگوں کی توقع  سے زیادہ اور  غیرمعمولی  احترام کیا کرتے تھے۔ یہاں تک کہ باپ بیٹی کی محبت سے بھی زیادہ۔ ایک مرتبہ نہیں بلکہ بارہا عمومی اور خصوصی محفلوں میں آپ ؐ نے  فرمایا: یہ دنیا کی تمام خواتین کی سردار اور عمران کی دختر گرامی مریم کی مانند ہیں۔ قیامت کے دن "موقف" سے گزرتے وقت منادی عرش سے ندا دے گاکہ اے محشر والو! اپنی نظروں کو جھکائے رکھنا کیونکہ محمدؐ کی دختر گرامی یہاں سے گزر رہی ہیں۔

جب زمین پر رسول اکرمؐ فاطمہؑ کو  حضرت علیؑ کے عقد میں دے رہے تھے  تو اس وقت خداوندعالم نے آسمان پر فرشتوں کو گواہ بنا کر انہیں علیؑ کے عقد میں دیا۔

یہ کوئی  من گھڑت احادیث میں سے نہیں  بلکہ معتبر حدیث ہےکہ پیغمبر اکرم ؐ نے بارہا فرمایا: جس نے انھیں  اذیت پہنچائی اس نے مجھے اذیت پہنچائی۔ جس نے انھیں  ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا ہے۔ وہ میرے  وجود کا حصہ ہے۔ جو  ان کے﴿عظمت﴾ بارے میں شک کرے اس نے مجھے شک کی نگاہ سے دیکھا ہے۔ جس نے ان کا حق چھینا اس نے مجھے بے چین کردیا ہے۔ ﴿۴ ﴾

5.      فخر رازی :معروف مفسر فخر رازی  سورہ کوثر  کی تفسیر کے ذیل میں مختلف صورتوں کو ذکر کرنے کے بعد ایک صورت  یہ بیان کرتے ہیں کہ کوثر سے مراد پیغمبر اکرمؐ کی اولاد ہیں۔ ان کا کہنا ہے: اس آیت کی شان نزول دشمنوں کی طرف سے پیغمبر اکرمؐ کو  طعنہ دینا ہے۔دشمنوں کا کہنا تھا:محمدابتر ﴿ مقطوع النسل یعنی اپنے بعد بچے وغیرہ کا  نہ چھوڑنے والا﴾ہیں۔ اس آیت کا ہدف یہ ہے کہ خداوندعالم نے حضورؐ کی نسل میں اتنی برکت عطا کی ہےکہ مرور زمان کے ساتھ ساتھ ان کی نسل بڑھتی رہی۔ دیکھئے کہ کتنی بڑی تعدادمیں خاندان اہل بیت ؑ سے تعلق رکھنے والوں کو قتل کیا گیالیکن اس کے باوجود دنیا پیغمبرؐ کی اولاد سے بھری پڑی ہے۔ جبکہ بنو امیہ تعداد میں کثرت میں ہونے کے باوجود بھی  ان کا کوئی ایک معتبر شخص موجود نہیں ہے۔ اس کے برعکس آپ پیغمبر اکرمؐ کی اولاد پر نظر دوڑائیں تو ان کی اولاد علماء  اور دانشوروں سے پر ہیں۔باقر، صادق، کاظم، رضا۔۔۔۔ جیسے افراد خاندان رسالت سے باقی ہیں۔ ﴿۵ ﴾

6.     سیوطی:  ہمارا اعتقاد یہ ہے کہ کائنات کی خواتین میں سے  سب سے افضل مریم ؑ و فاطمہؑ ہیں۔

7.     آلوسی: اس حدیث کی رو سے کہ "بیشک فاطمہ بتول گزشتہ اور آنے والی تمام خواتین سے افضل ہیں" کائنات کی تمام خواتین پر ان کی افضلیت ثابت ہوتی ہے کیونکہ وہ رسول خداؐ کی روح رواں ہیں اس حوالے سے آپ کو عائشہ پر بھی برتری حاصل ہے۔

8.     سہیلی: موصوف اس مشہور حدیث کو نقل کرنے کے بعد " فاطمہ میرے بدن کا حصہ ہے" اس پر یوں تبصرہ کرتا ہے: میں کسی کو بھی بضعة رسول اللہ کی مانند نہیں سمجھتا ہوں۔

9.     ابن الجکنی: صحیح ترین قول کی بنا پر فاطمہ ؑ تمام خواتین سے افضل ہیں۔

10.  شنقیطی: بیشک حضرت زہراؑ کی سروری اسلام کی ایک واضح و روشن حقیقت ہے۔ یہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ کیونکہ زہراؑ پیغمبر اکرمؐ کے وجود کا حصہ ہیں۔ جس نے زہراؑ کو اذیت دی اس نے پیغمبر اکرمؐ کو اذیت دی ہے اور جس نے زہراؑ کو ناراض کیا اس نے پیغمبرؐ کو ناراض کیا ہے۔

11.  توفیق ابو علم: ان کی عظمت اور بلند ی  کے اثبات کے لیے یہی کافی ہے کہ آپ ہی پیغمبر اکرمؐ کی اکلوتی بیٹی ،علی کرم اللہ وجہہ کی باشرف شریک حیات اور حسنؑ و حسینؑ کی مادر گرامی ہیں۔ زہرا ؑوہ باعظمت ہستی  ہیں جس کی طرف کروڑوں عقیدت مند اپنی  عقیدت کا والہانہ اظہار کرتے ہیں۔زہراؑ آسمان نبوت پر ساطع ہونے والا شہاب ثاقب اور آسمان رسالت پر چمکنے  والا روشن ستارہ ہیں۔ آخری تعبیر آپ کے لیے میں یہی استعمال کروں گا کہ خلقت میں سب سے زیادہ بلند مرتبہ  آپ ہی کو نصیب ہوا ہے۔یہ ساری تعبیریں حضرت زہراؑ کی فضیلت کی دنیا کا صرف ایک چھوٹا سا گوشہ ہے۔ ﴿۶﴾

12.  زرقانی: جس حقیقت کو امام مقریزی، قطب الخضیری اور امام سیوطی نے واضح دلیلوں کے ذریعے انتخاب کیا ہے اس کے مطابق فاطمہؑ  کائنات کی تمام خواتین بشمول حضرت مریم  سے  افضل ہیں۔

13.  سفارینی:  لفظ سیادت کے ذریعے فاطمہؑ کا خدیجہ اور مریم سے بھی  افضل ہونا ثابت ہے۔

14.  شیخ رفاعی: بہت سارے قدیم علماء اور دنیا کے دانشوروں کی تصدیق کے مطابق فاطمہؑ تمام خواتین سے افضل ہیں۔

15.  ڈاکٹر محمد طاہر القادری: بعض احادیث سے چار خواتین کی افضلیت کی نشاندہی ہوتی ہے۔البتہ یہ احادیث سرور جہان﴿حضرت فاطمہ ؑ﴾ کی تمام  خواتین پر افضلیت کے منافی نہیں۔ کیونکہ بقیہ تین خواتین﴿ مریم، آسیہ اور خدیجہ﴾ کی افضلیت اپنے اپنے زمانے سے مختص ہے جبکہ سرور جہاں کی افضلیت عام اور مطلق ہے اور ان کی افضلیت ہر زمانے اور پوری دنیا  کے خواتین پر ثابت ہے۔ ﴿۷﴾

ان تمام علماء کے آراء کو جمع کرنے پر ہم اس نتیجے تک پہنچ جاتے ہیں کہ گزشتہ اور موجودہ تمام علماء اور دانشوروں کا اس بات پر اجماع قائم ہے کہ  حضرت فاطمہ زہراؑ کائنات کی تمام خواتین سے افضل و برتر ہیں۔آپ کی خوشنودی  مول لینا رسول اکرمؐ کی خوشنودی مول لینے کے مترادف  ہے اور رسول ؐکی رضامندی خدا   کی رضامندی ہے اور خدا کی رضامندی عبادت ہے۔ پس حضرت زہرا ؑ سے عقیدت کا پاس رکھنے کے ساتھ ساتھ اس کا اظہار بھی عبادت ہے۔ اسی  طرح آپ کو ناراض کرنا رسولؐ کو ناراض کرنے کی مانند ہے اور جو رسولؐ کو ناراض کرے اس نے خدا کو ناراض کیا ہے۔ جو خدا کی ناراضگی مول لے  اس کی جگہ جہنم ہے پس حضرت زہراؑ کو ناراض کرنے والا اور آپ کو اذیت دینے والا دونوں بھی  جہنمی ہیں۔آج اگر ہماری خواتین سیدہ کونین سے درس لیں تو حسنؑ و حسینؑ  کی سیرت پر چلنے والے بچوں اور زینبؑ و ام کلثومؑ کا کردار پیش کرنے والی بیٹیوں کی تربیت کرسکتی ہیں۔جہاں رسول اکرم(ص) پوری انسانیت کے لیے نمونہ عمل ہیں وہاں حضرت فاطمہؑ پوری بشریت کے لیے بالعموم اور صنف نسوان کے لیے بالخصوص نمونہ عمل ہیں۔جہاں پیغمبراکرم (ص) تمام انبیاء سے افضل ہیں وہاں حضرت زہراؑ کائنات کی تمام خواتین سے افضل وبرتر ہیں۔اللہ تعالی ہم سب کو حضرت زہراؑ کی سیرت کو اپنانے کی توفیق دے آمین ثم آمین!

تحریر۔۔۔۔۔محمد علی شاہ حسینی

وحدت نیوز (آرٹیکل) آسمان فضیلت کی مدحت سرائی  ممکن نہیں۔کس کی کیا مجال ہے  جو بوستان فضیلت کی شاخ درخت پر  بلبل   کی طرح بیٹھ کر آسمان فضیلت پر فائز ہستی کی مدح سرائی کا فریضہ نبھا سکے۔  ساتھ ہی جہاں پر بھی کوئی فضیلت کے عنصر کا مشاہدہ کرے تب وہاں  اپنی بساط کے مطابق اس  صاحب فضیلت کی تعریف و تمجید  کو اپنا  وطیرہ بنا کر اس کی مدح  وستائش میں لگ جانا انسانی وجود کا شروع سے ہی  ایک خاصہ رہا ہے۔

 بسا اوقات وہ  مداح اپنے ممدوح کی فضیلتوں کےبیان کا  حق بھی کافی حد تک  ادا کرتا ہے۔ ایسا اس وقت ممکن ہوتا ہے جب ممدوح ایک عام انسان ہو نے کے ساتھ ساتھ بعض منفرد خصوصیات کے بھی حامل ہوں لیکن اگر موصوف عالم مادہ میں منحصر نہ ہو بلکہ جسمانی کمالات سے سرشار ہونے کے علاوہ ملکوتی فضائل کے بھی حامل ہوں تب یہ مدح خواں فضیلتوں کی فضا میں معمولی پرواز کے بعد اس کے بیان کا پر گرنا شروع ہوجائے گااور اس فضا میں حیران و سرگردان رہنے کے بعد دوبارہ زمین پر واپس پہنچ جائے گا۔ حضرت زہراؑ کا وجود مبارک بھی اس کا ایک بارز مصداق ہے۔

آپ کا حسب بھی بے مثال ہے اور نسب بھی بے نظیر۔ اگر آپ کے والد بزرگوار حضرت محمد مصطفی ؐ تمام انبیاء سے افضل ہیں تو  آپ پوری جہاں کی خواتین سے افضل و برتر ہیں۔آپ کے دو شہزادے جنت  کےجوانوں کے سردار ہیں تو آپ کا شوہر گرامی  ان شہزادوں سے بھی بافضیلت ہیں۔ آپ کےحسب و نسب پر آج بھی ساری دنیا  رشک کرتی ہے۔آپ فضیلت کے وہ بحر بیکراں ہیں جس کی تہ تک چودہ سو سال سے زیادہ مدت گزرنے کے باوجود  آج تک کوئی  رسائی حاصل نہ کر سکا۔ بلکہ  تحقیقی میدان میں وسعت آنے کے ساتھ ساتھ دن بہ دن آپ کی فضیلتوں  کے نئے دریچے کھلتے چلے جارہے ہیں۔ آپ وہ بافضیلت خاتون ہیں جس کی سیرت پوری بشریت کے لیے ایک بہترین نمونہ عمل ہے۔ آپ نے رہتی دنیا تک کی خواتین کو یہ درس دیا کہ کس طرح  عبادت الٰہی بجا لانا ہے، کیسے والد کے گھر میں زندگی گزارنا ہے، امور شوہر داری کو کیسے  بطریق احسن نبھانا ہے، بچوں کی تربیت کس پیرائے میں انجام دینا ہے، کیسے مشکلات سے نمٹنا ہے، کیسے راز داری کی رعایت کرنا ہے، کیسے نامحرموں سے اپنے کو دور رکھنا ہے، کیسے  حیا و عفت کا مظاہرہ کرنا ہے، کیسے غریبوں، مسکینوں ، یتیموں اور بے نواؤں کی مدد کرنا ہے۔غرض آپ تمام اوصاف حمیدہ سے آراستہ پیراستہ ہونے کے علاوہ تمام آلائشوں سے پاک و پاکیزہ عصمت کے مقام پر فائز تھیں۔ لہذاآپ کی زندگی کا ہر گوشہ ہر انسان کے لیے ایک بہترین اور مثالی  نمونہ عمل ہے۔

آپ کی  عظمت کے اظہارلیے یہی کافی ہے کہ آپ کی شان و منزلت میں نہ صرف شیعوں اور دوسرے مسلمانوں نے کتابیں لکھی ہیں بلکہ مسیحی اور دوسرے غیر مسلم دانشوروں نے بھی اپنی توانائی کے مطابق قلم فرسائی کی ہیں۔اپنی گزشتہ تحریر میں غیر مسلم دانشوروں کی عقیدت کے کچھ نمونے پیش کرنے کی سعادت حاصل کی تھی آج ہم بالترتیب بعض اہل سنت علماء کے اظہار عقیدت کو الفاظ کے روپ میں اتارنے  کی کوشش کرتے ہیں:

1.     روایات کی نقل میں بہت ہی احتیاط برتنے کے باوجود معروف  اہل سنت محدث بخاری نے  صحیح بخاری میں یہ روایت نقل کی ہے کہ پیغمبر اکرمؐ نے ارشاد فرمایا: فاطمہ جنت کی خواتین کی سردار ہیں۔  ساتھ ہی یہ بھی نقل کیا کہ آپ ؐ نے فرمایا: فاطمہ میرے وجود کا حصہ ہے جس نے ان کو ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا ہے۔﴿۱﴾

2.     مسلم نے صحیح مسلم میں نقل کیا ہے کہ پیغمبر اکرمؐ نے فرمایا: فاطمہ میرے بدن کا حصہ ہے۔ جس نے اس کو ناراض کیا اس نے اپنے پیغمبر کو ناراض کیا اور جس نے ان کو خوش رکھا اس نے اپنے پیغمبر کو خوش رکھا ہے۔﴿۲﴾

3.     حاکم نیشاپوری مستدرک میں حضرت عائشہ سے نقل کرتے ہیں  کہ پیغمبر اکرمؐ نے اپنی رحلت کے وقت حضرت فاطمہ ؑ سے فرمایا: میری بیٹی!کیا آپ امت اسلامی اور پوری دنیا کے خواتین  کی شہزادی  بننا پسند نہیں کرتیں۔﴿۳﴾

4.     فاطمہ زہرا ؑ عبدالحمید معتزلی کی نگاہ میں:

رسول خداؐ فاطمہؑ کا لوگوں کی توقع  سے زیادہ اور  غیرمعمولی  احترام کیا کرتے تھے۔ یہاں تک کہ باپ بیٹی کی محبت سے بھی زیادہ۔ ایک مرتبہ نہیں بلکہ بارہا عمومی اور خصوصی محفلوں میں آپ ؐ نے  فرمایا: یہ دنیا کی تمام خواتین کی سردار اور عمران کی دختر گرامی مریم کی مانند ہیں۔ قیامت کے دن "موقف" سے گزرتے وقت منادی عرش سے ندا دے گاکہ اے محشر والو! اپنی نظروں کو جھکائے رکھنا کیونکہ محمدؐ کی دختر گرامی یہاں سے گزر رہی ہیں۔

جب زمین پر رسول اکرمؐ فاطمہؑ کو  حضرت علیؑ کے عقد میں دے رہے تھے  تو اس وقت خداوندعالم نے آسمان پر فرشتوں کو گواہ بنا کر انہیں علیؑ کے عقد میں دیا۔

یہ کوئی  من گھڑت احادیث میں سے نہیں  بلکہ معتبر حدیث ہےکہ پیغمبر اکرم ؐ نے بارہا فرمایا: جس نے انھیں  اذیت پہنچائی اس نے مجھے اذیت پہنچائی۔ جس نے انھیں  ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا ہے۔ وہ میرے  وجود کا حصہ ہے۔ جو  ان کے﴿عظمت﴾ بارے میں شک کرے اس نے مجھے شک کی نگاہ سے دیکھا ہے۔ جس نے ان کا حق چھینا اس نے مجھے بے چین کردیا ہے۔ ﴿۴ ﴾

5.      فخر رازی :معروف مفسر فخر رازی  سورہ کوثر  کی تفسیر کے ذیل میں مختلف صورتوں کو ذکر کرنے کے بعد ایک صورت  یہ بیان کرتے ہیں کہ کوثر سے مراد پیغمبر اکرمؐ کی اولاد ہیں۔ ان کا کہنا ہے: اس آیت کی شان نزول دشمنوں کی طرف سے پیغمبر اکرمؐ کو  طعنہ دینا ہے۔دشمنوں کا کہنا تھا:محمدابتر ﴿ مقطوع النسل یعنی اپنے بعد بچے وغیرہ کا  نہ چھوڑنے والا﴾ہیں۔ اس آیت کا ہدف یہ ہے کہ خداوندعالم نے حضورؐ کی نسل میں اتنی برکت عطا کی ہےکہ مرور زمان کے ساتھ ساتھ ان کی نسل بڑھتی رہی۔ دیکھئے کہ کتنی بڑی تعدادمیں خاندان اہل بیت ؑ سے تعلق رکھنے والوں کو قتل کیا گیالیکن اس کے باوجود دنیا پیغمبرؐ کی اولاد سے بھری پڑی ہے۔ جبکہ بنو امیہ تعداد میں کثرت میں ہونے کے باوجود بھی  ان کا کوئی ایک معتبر شخص موجود نہیں ہے۔ اس کے برعکس آپ پیغمبر اکرمؐ کی اولاد پر نظر دوڑائیں تو ان کی اولاد علماء  اور دانشوروں سے پر ہیں۔باقر، صادق، کاظم، رضا۔۔۔۔ جیسے افراد خاندان رسالت سے باقی ہیں۔ ﴿۵ ﴾

6.     سیوطی:  ہمارا اعتقاد یہ ہے کہ کائنات کی خواتین میں سے  سب سے افضل مریم ؑ و فاطمہؑ ہیں۔

7.     آلوسی: اس حدیث کی رو سے کہ "بیشک فاطمہ بتول گزشتہ اور آنے والی تمام خواتین سے افضل ہیں" کائنات کی تمام خواتین پر ان کی افضلیت ثابت ہوتی ہے کیونکہ وہ رسول خداؐ کی روح رواں ہیں اس حوالے سے آپ کو عائشہ پر بھی برتری حاصل ہے۔

8.     سہیلی: موصوف اس مشہور حدیث کو نقل کرنے کے بعد " فاطمہ میرے بدن کا حصہ ہے" اس پر یوں تبصرہ کرتا ہے: میں کسی کو بھی بضعة رسول اللہ کی مانند نہیں سمجھتا ہوں۔

9.     ابن الجکنی: صحیح ترین قول کی بنا پر فاطمہ ؑ تمام خواتین سے افضل ہیں۔

10.  شنقیطی: بیشک حضرت زہراؑ کی سروری اسلام کی ایک واضح و روشن حقیقت ہے۔ یہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ کیونکہ زہراؑ پیغمبر اکرمؐ کے وجود کا حصہ ہیں۔ جس نے زہراؑ کو اذیت دی اس نے پیغمبر اکرمؐ کو اذیت دی ہے اور جس نے زہراؑ کو ناراض کیا اس نے پیغمبرؐ کو ناراض کیا ہے۔

11.  توفیق ابو علم: ان کی عظمت اور بلند ی  کے اثبات کے لیے یہی کافی ہے کہ آپ ہی پیغمبر اکرمؐ کی اکلوتی بیٹی ،علی کرم اللہ وجہہ کی باشرف شریک حیات اور حسنؑ و حسینؑ کی مادر گرامی ہیں۔ زہرا ؑوہ باعظمت ہستی  ہیں جس کی طرف کروڑوں عقیدت مند اپنی  عقیدت کا والہانہ اظہار کرتے ہیں۔زہراؑ آسمان نبوت پر ساطع ہونے والا شہاب ثاقب اور آسمان رسالت پر چمکنے  والا روشن ستارہ ہیں۔ آخری تعبیر آپ کے لیے میں یہی استعمال کروں گا کہ خلقت میں سب سے زیادہ بلند مرتبہ  آپ ہی کو نصیب ہوا ہے۔یہ ساری تعبیریں حضرت زہراؑ کی فضیلت کی دنیا کا صرف ایک چھوٹا سا گوشہ ہے۔ ﴿۶﴾

12.  زرقانی: جس حقیقت کو امام مقریزی، قطب الخضیری اور امام سیوطی نے واضح دلیلوں کے ذریعے انتخاب کیا ہے اس کے مطابق فاطمہؑ  کائنات کی تمام خواتین بشمول حضرت مریم  سے  افضل ہیں۔

13.  سفارینی:  لفظ سیادت کے ذریعے فاطمہؑ کا خدیجہ اور مریم سے بھی  افضل ہونا ثابت ہے۔

14.  شیخ رفاعی: بہت سارے قدیم علماء اور دنیا کے دانشوروں کی تصدیق کے مطابق فاطمہؑ تمام خواتین سے افضل ہیں۔

15.  ڈاکٹر محمد طاہر القادری: بعض احادیث سے چار خواتین کی افضلیت کی نشاندہی ہوتی ہے۔البتہ یہ احادیث سرور جہان﴿حضرت فاطمہ ؑ﴾ کی تمام  خواتین پر افضلیت کے منافی نہیں۔ کیونکہ بقیہ تین خواتین﴿ مریم، آسیہ اور خدیجہ﴾ کی افضلیت اپنے اپنے زمانے سے مختص ہے جبکہ سرور جہاں کی افضلیت عام اور مطلق ہے اور ان کی افضلیت ہر زمانے اور پوری دنیا  کے خواتین پر ثابت ہے۔ ﴿۷﴾

ان تمام علماء کے آراء کو جمع کرنے پر ہم اس نتیجے تک پہنچ جاتے ہیں کہ گزشتہ اور موجودہ تمام علماء اور دانشوروں کا اس بات پر اجماع قائم ہے کہ  حضرت فاطمہ زہراؑ کائنات کی تمام خواتین سے افضل و برتر ہیں۔آپ کی خوشنودی  مول لینا رسول اکرمؐ کی خوشنودی مول لینے کے مترادف  ہے اور رسول ؐکی رضامندی خدا   کی رضامندی ہے اور خدا کی رضامندی عبادت ہے۔ پس حضرت زہرا ؑ سے عقیدت کا پاس رکھنے کے ساتھ ساتھ اس کا اظہار بھی عبادت ہے۔ اسی  طرح آپ کو ناراض کرنا رسولؐ کو ناراض کرنے کی مانند ہے اور جو رسولؐ کو ناراض کرے اس نے خدا کو ناراض کیا ہے۔ جو خدا کی ناراضگی مول لے  اس کی جگہ جہنم ہے پس حضرت زہراؑ کو ناراض کرنے والا اور آپ کو اذیت دینے والا دونوں بھی  جہنمی ہیں۔آج اگر ہماری خواتین سیدہ کونین سے درس لیں تو حسنؑ و حسینؑ  کی سیرت پر چلنے والے بچوں اور زینبؑ و ام کلثومؑ کا کردار پیش کرنے والی بیٹیوں کی تربیت کرسکتی ہیں۔جہاں رسول اکرم(ص) پوری انسانیت کے لیے نمونہ عمل ہیں وہاں حضرت فاطمہؑ پوری بشریت کے لیے بالعموم اور صنف نسوان کے لیے بالخصوص نمونہ عمل ہیں۔جہاں پیغمبراکرم (ص) تمام انبیاء سے افضل ہیں وہاں حضرت زہراؑ کائنات کی تمام خواتین سے افضل وبرتر ہیں۔اللہ تعالی ہم سب کو حضرت زہراؑ کی سیرت کو اپنانے کی توفیق دے آمین ثم آمین!

 

تحریر۔۔۔۔۔محمد علی شاہ حسینی


حوالہ جات:

۱:  صحیح بخاری، ص۶۸۴، حدیث ۳۷۶۷

۲: صحیح مسلم، ص ۱۲۱۸، حدیث۶۲۰۲

۳: حاکم نیشاپوری، مستدرک صحیحین، ص۹۴۶

۴: عبدالمجید  ابن ابی الحدیدمعتزلی، شرح نہج البلاغہ، ج۹، ص۱۹۳

۵: تفسیر فخررازی، ج۳۲،ص۱۲۴

مذکورہ بالا حوالوں کو مکاتب علی نے اپنی تحقیق منزلت حضرت زہرا در احادیث کے ص۱۴۵۔ ۱۵۶میں نقل کیا ہے۔

۶: محمد یعقوب بشوی،شخصیت حضرت زہرا در تفاسیر اہل سنت، ص۱۹

۷: www. Ahlibeyt.pwrsemani.ir                                       

وحدت نیوز (قم) سفیر انقلاب بانی آئی ایس او شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کی برسی کے موقع پر مجلس وحدت مسلمین شعبہ قم کے تحت مدرسہ امام خمینی ؒ میں ایک تعزیتی جلسہ منعقد کیا گیا ۔جس سے فرزند شہید دانش نقوی،رفیق شہید راشد عباس نقوی اور آقای ھادوی تہرانی نے خطاب کیا۔برسی مین بڑی تعداد میں شہید کے عقیدت مندوں نے شرکت کی۔

وحدت نیوز (آرٹیکل) ہر باضمير اور غيرت مند خواه وه مسلم ہو يا غير مسلم، عرب ہو يا عجم مزاحمت اسلامی حزب الله اور مقاومت كو قدر كی نگاه سے ديكهتا ہے، كيونكہ قومی انحطاط، مذہبی انتشار اور دينی اقدار سے دوری كے اس دور ميں جب استكباری اور صہيونی قوتيں انسانيت كی تذليل اور آزاد و خود مختار ممالک كی تضحیک كر رہی ہیں، ايسے نازک دور ميں ايک مختصر سی جماعت "حزب الله لبنان" جو تمام تر مذاہب و اديان، رنگ و نسل كی قيود سے بالا تر ہو كر ظالم و مظلوم، مستكبر و مستضعف،ناجائز تسلط و قبضہ اور حريت و آزادی كے مفاہیم كو اجاگر كرتے ہوئے مظلوم و مستضعف اقوام كيلئے حريت و آزادی كی اميد بن جاتی ہے۔ دوسری طرف بعض ضمير فروش اور استعماری و صہيونی ايجنٹ حكمران ہیں کہ جو حزب الله كو دہشتگرد قرار ديكر صہيونی اور مغربی وفاداری كا حق ادا كرتے ہیں۔

يہ وه ڈکٹیٹر و ملوک اور امراء ہیں كہ جن كے ہاتھ لاكهوں، عراقی، شامی، يمنی اور ديگر ممالک كے بيگناه شہريوں كے خون سے رنگين ہیں۔ داعش، النصرہ، القاعدہ اور طالبان طرز كے دہشتگرد مسلح گروه بنانے والی اور انہيں ہر قسم كی مدد اور پشت پناہی كرنيوالی ان دہشتگرد حكومتوں کو قطعاً يہ حق حاصل نہیں ہے كہ وہ دہشتگردی كے سرٹيفكيٹ تقسيم كريں۔ وه خليجی ممالک جو اپنی عوام كو خود سکیورٹی اور امن فراہم نہیں كرسكتے اور اس کے لئے دوسرے ممالک سے بھیک مانگتے نظر آتے ہیں، انہوں نے پورے خطے كے امن كو تباه كر ديا ہے۔ وه خطے ميں امريكہ، غرب اور اسرائيليوں كے سب سے بڑے ايجنٹ ہیں۔ اس لئے انہوں نے اپنے آقاؤں کے اشاروں اور تعليمات پر پورے جہان اسلام ميں تكفيريت اور مذہبی تعصب پهيلانے پر كهربوں ڈالرز كی سرمايہ کاری کی، دين اسلام كی دشمنی ميں ابو جهل اور ابو لہب سے بهی بڑھ گئے اور امت مسلمہ كی وحدت كو پاره پاره كيا۔ وه اب يہوديوں كی تعليمات كے مطابق پورے خطے كو فرقہ واریت كی آگ ميں دهكيلنا چاہتے ہیں۔ انكی دہشتگردی كی تاريخ تو بہت لمبی ہے، ہم يہاں پر فقط ماضی قريب ميں كئے جانے والے اقدامات كا تذكره كرتے ہیں۔

خليجی حكومتوں اور امراء كی دہشتگردی كی چند مثاليں:
1۔ انہوں نے اپنی فوجيں بحرين ميں داخل كركے وہاں کی اكثريتی عوام كے حقوق کی پرامن جدوجہد كا گلا گھوٹنے كی كوشش كی۔
2۔ پهر عراق كی تقسم كے ايجنڈے كو پورا كرنے كيلئے عراق كے داخلی امور ميں فقط مداخلت و مذهبی منافرت نہیں پهيلائی بلكہ اسے بارود كے ڈھیر پر لا كهڑا كيا۔
3۔ ليبيا كی تباہی ميں يہ لوگ برابر كے شريک ہیں۔ انہوں نے جمهوريت كے نام پر تاريخ ميں پہلی بار ايک برادر ملک پر مغربی ممالک سے ملكر چڑهائی كی اور فضائی حملوں ميں شريک ہوئے۔ گويا ان خليجی ممالک ميں عوام كو آزادياں نصيب ہیں اور جمہوريت كا نظام قائم ہے۔
4۔ پانچ سال كا عرصہ گزر چكا ہے كہ يہی دہشتگرد امراء ملک شام كو تباه كرنے اور عوام كی منتخب حكومت كے خاتمے كيلئے ایڑی چوٹی كا زور لگا رہے ہیں۔ انكے مجرمانہ ہاتھ لاكهوں بے گناہوں كے خون سے رنگین ہیں۔ انہوں نے اس جنگ كے ذريعے اسرائيل کی وه خدمت كی ہے، جس كا  يہودی كبهی تصور بهی نہیں كرسكتے تهے۔
5۔ خليجی امراء كا سب سے بڑا جرم يمن جيسے ہمسایہ مسلم ملک پر جنگ مسلط كرنا ہے۔ وه شخص جسے عوام مسترد كرچكی ہے، اسے واپس حكومت پر لانے كے لئے اتنی بڑی تباہی، پورے ملک كی بربادی اور ہزاروں بيگناه معصوم بچوں اور خواتين كا قتل، انكے مكروه چہروں پر وه بدنما داغ ہے، جسے تاريخ بشريت كبهی فراموش نہیں كريگی۔ جب بهی سفاکوں اور انسانيت كے قاتلوں كے نام كی فہرست بنے گی تو يہ خليجی امراء اور حاكم سر فہرست ہونگے۔

تمام دنيا اور بالخصوص لبنانی عوام كو خبردار ہو جانا چاہيئے كہ اب ان ظالم حكومتوں كا عراق و شام كی تباہی كے بعد اگلا ہدف لبنان ہے، وه اسرائيل كی خاطر وہاں پر خانہ جنگی كا نقشہ بنا چکے ہیں اور اسرائيل كے خلاف مقاومت كا ہراول دستہ، حزب الله لبنان انكا اگلا ہدف ہے۔ وه حزب الله كو اسكی حمايت كرنے والی عوام سے جدا كرنا چاہتی ہیں۔ صہيونی ايجنٹ مشرق وسطٰى كی ابهرتی ہوئی قوت بلاک مقاومت كو مذہبی رنگ دينا چاہتے ہیں، اسرائيلی اہداف كی تكميل كرتے ہوئے سنی ممالک كے اتحاد كے ذريعے آل سعود لبنانی و فلسطينی مقاومت كو ايک اور داخلی بحران ميں وارد كرنا چاہتے ہیں۔ خطے سے آشنائی ركهنے والا ہر شخص جانتا ہے كہ وه لبنانی مقاومت جس كی سربراہی حزب الله كے پاس ہے، اس ميں فقط شيعہ مذہب كے لوگ نہیں بلكہ اس مقاومت ميں لبنانی اہل سنت، مسيحی اور درزی مذہب كے لوگ بهی پیش پيش ہیں اور تمام سياسی و مذہبی و قومی جماعتيں اپنی اس مقاومت كی حفاظت كرتی ہیں۔

تمام خليجی ممالک کے اسرائيل كے ساتھ پس پرده تعلقات تو بہت پہلے سے تهے، ليكن اب نہ صرف وفود كے تبادلے اور خطے كے مسائل پر مشورے ہی نہیں ہوتے بلكہ مشتركہ پاليسی بنا كر اور اسرائيل كا شريک كار بن كر ميدان ميں اتر چكے ہیں۔ بحرين كا بادشاه جب اسرائيلی حکام کا  پرتپاک استقبال كرتا ہے تو كہتا ہے كہ اسرائيل محض خطے كی طاقت ہی نہیں بلكہ خطے كا محافظ بهی ہے۔ حقيقی اہل سنت اعلان كرچكے ہیں كہ سعودی بادشاه كو حق نہیں كہ وه اہل سنت مذہب كی سربراہی كا دعوىٰ كرے۔ وه اسرائيل جو پوری امت مسلمہ اور سب عرب عوام كا كهلا دشمن ہے اور انكے مابين كئی ايک جنگيں ہوچکی ہیں، جس نے مسلمانوں كے قبلہ اول اور انبياء كرام كی مقدس سرزمين فلسطين پر ناجائز قبضہ جما ركها ہے اور لاكهوں فلسطينيوں اور اہل سنت مسلمانوں كا قاتل ہے۔ اس خطے كے سب شيعہ و سنی مسلمان اور عرب و عجم اسرائيل كے اس ناپاک وجود كو برداشت نہیں كرتے، ليكن لمحہ فكريہ يہ ہے كہ آج خليجی حكمرانوں كے نزديک اسرائيل دوست، پارٹنر اور خطے كا محافظ ہے اور ظالم استعماری و استكباری قوتوں كے غرور و تكبر كو خاک ميں ملانے والى جماعت اور امت مسلمہ كی عزت و آبرو كی محافظ حزب الله دہشتگرد ہے۔ يہ امت مسلمہ كے ساتھ بہت بڑی خيانت ہے اور اس كی جتنی بهی مذمت كی جائے كم ہے۔


تحرير۔۔۔۔علامہ  ڈاكٹر سيد شفقت حسين شيرازی

Page 13 of 26

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree