پارا چنار۔۔۔کیا ابھی اتحاد کا وقت نہیں آیا!؟

01 اپریل 2017

وحدت نیوز(آرٹیکل) ہر آئے دن کڑیل جوان بیٹوں، کمسن بچوں اور عمر رسیدہ بوڑھوں کا نذرانہ پیش کرنا ایک زندہ قوم کی نشانی ہے۔ اور کتنے باعظمت ہیں یہ شہداء جو اپنے خون سے مکتب کی خشک جڑوں کی پھر سے آبیاری کراتے ہیں اور قوم کی خواب غفلت میں سوئی ضمیریں جنجھوڑتی ہیں، انہیں یاد دلاتی ہیں کہ کہیں دنیا کی رنگینیوں میں مگن ہو کر ہمارا مقصد بھول نہ جائیں۔ اور پھر کتنی قابلِ تحسین اور قابلِ رشک ہے وہ قوم جو شہداء کا پاکیزہ خون رائیگان نہیں جانے دیتی اور شہداء کے خون کو مقصد تک پہنچنے کا ذریعہ بنا لیتی ہے۔

گزشتہ روز یعنی ۳۱ مارچ کو ایک مرتبہ پھر پارہ چنار میں خون کی  ہولی کھیلی گئی،  قیامت خیز مناظر دیکھنے کو ملے، ہرطرف خون ہی خون بکھرا پڑا تھا، آہ و سکسیوں کی آوازیں فضا میں گونج رہی تھیں، بوڑھا باپ اپنے کمسن بیٹے کا خون پارہ لاشہ ہاتھوں میں لیے آسمان کی طرف سر اٹھائے شکر بجا لا رہا ہے تو کوئی اپنے عزیر کے گولیوں سے چھلنی جسم سے لپٹ کر رو رہا ہے۔ لیکن جس منظر نے مجھے خون کے انسو رلایا وہ ایک مرجھائی ہوئی کلی تھی جو سجدے کی حالت میں بکھری پڑی مسلمانوں سے اپنے جرم کا ثبوت مانگ رہی تھی۔

بہرحال، ہماری تاریخ  خون سے لکھی جا چکی ہے اور حق و باطل کے درمیان معرکہ صدیوں سے چلتا آرہا ہے اور چلتا رہے گا۔ لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ ہم ان قربانیوں سے کما حقہ فائدہ نہیں اٹھاتے۔ حالانکہ یہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے کہ ’’تم اس وقت تک نیکی حاصل نہیں کر سکتے، جب تک ان چیزوں کو اللہ کی راہ میں پیش نہ کرو جو تمہیں پسند ہیں‘‘۔۔۔ بہرحال ہم اتنی عظیم قربانی تو دے چکے۔ تاہم اگر اس کے باوجود ہم ایک مشترکہ پلیٹ فارم پر جمع نہیں ہوئے تو ہم نے شہداء کے خون کی پاسداری نہیں کی۔ اگر ہم نے آپس کی کدورتوں اور نفرتوں کو فراموش نہیں کیا تو ہم نے شہداء کے خون کو رائیگان جانے دیا۔

تاریخ میں بہت سی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ایران میں اسلامی انقلاب سے پہلے ۵ جون ۱۹۶۳ (۱۵ خرداد ۱۳۴۲ ھ ش) کو شاہ کے خلاف مظاہروں میں بے گناہ عوام کا خون بہایا گیا تو ایرانی قوم نے شہداء کے خون کی پاسداری کی جس سے رفتہ رفتہ اسلامی انقلاب کے لیے راہیں ہموار ہو گئیں۔

اسی طرح ۱۹۹۲ء کو حزب اللہ کے سابق راہنما سید عباس موسوی کی شہادت کی تپش ہی اسرائیلیوں کی چنگل سے لبنان کی آزادی کا باعث بنی۔  یا حال ہی میں یمن کا انقلاب ملاحظہ فرمائے۔ جس کی ابتدا ۱۴ جنوری ۲۰۱۱ کو وسیع پیمانے پر شیعوں کے قتل عام سے ہوئی۔ اور یہی قتل عام، یمن انقلاب کے لیے اولین چنگاری ثابت ہوئی۔ جس کے بعد پورے یمن میں بیداری کی لہر دوڑی گئی، لوگ سڑکوں پر آئے اور یوں ڈکٹیٹر علی عبداللہ صالح کی بائیس سالہ حکومت کا تختہ الٹ دیا۔

چلو مان لیتے ہیں کہ پاکستان میں اس وقت حالات سازگار نہیں ہیں، اور شیعہ اقلیت میں ہیں لہذا یہاں ولایت فقیہ اور شیعہ طرزِ فکر پر حکومت قائم نہیں ہو سکتی تو کم از کم پاکستان کے شیعہ متحد ہو کر ایک مقتدر قوم کے طور پر تو ابھر سکتے ہیں جو اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کریں، اور ایسی قوم بنیں جو’’آشداء علی الکفار، رحماء بینھم‘‘ کا مصداق بن کر آپس کی تمام تر تلخیوں اور کدورتوں کو پس پشت دالتے ہوئے دشمن کی آنکھ میں کانٹا اور آپس میں رحمدل بن جائیں۔

اور یہ اللہ تعالیٰ کا آٹل فیصلہ ہے کہ

خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی

نہ ہو خیال جس کو خود اپنی حالت بدلنے کا


تحریر۔۔۔ ساجد مطہری



اپنی رائے دیں



مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree