وحدت نیوز(آرٹیکل) معروف لبنانی تجزیہ کار عدنان علامہ نے 3 دسمبر 2019 کے اپنے کالم میں عراق اور لبنان میں کھلی امریکی مداخلت کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ صدر ٹرامپ نے امریکی حکام کا اصلی چہرہ دنیا کے سامنے پیش کیا ہے کہ جس نے صراحت کے ساتھ اعلان کیا ہے کہ ہم عراق اور شام کے تیل کے ذخائر پر اپنا قبضہ جمانا چاہتے ہیں. 10 نومبر 2019 کی ایک پریس کانفرنس میں ٹرامپ نے واضح کہا ہے کہ عراق کے پاس دنیا کے دوسرے بڑے تیل کے ذخائر ہیں۔جنکی کی مالیت 15 ٹریلین ڈالرز ہےاور مزید کہا کہ
- عراق کی فوج (سابقہ فوج) کو جڑ سے اکھاڑ کر ختم کیا جا چکا ہے.
- اب انکے پاس ایک کمزور فوج ہے.
- اور عراقی معاشرہ ایک کرپٹ معاشرہ ہے.
اگر صرف میرے اختیار میں ہوتا تو ہم عراقیوں سے تیل کے سارے ذخائر چھین لیتے.ایک صحافی نے جب سوال کیا کہ آپ کیسے یہ تیل حاصل کر سکتے ہیں. ؟
ٹرامپ نے جواب دیا کہ وہاں پر اپنی فورسز کی ایک تعداد رکھیں گے. اور جن علاقوں میں تیل کے ذخائر ہیں ان پر قبضہ جما لیں گے. اور مزید کہا کہ " انکی ثروت و دولت حاصل کرونگا ، اور انکے تیل کو حاصل کر کے رہوں گا. "
جب اس سے سوال کیا گیا کہ انہیں اپنی آزادی حاصل کرنے کے لئے کتنی قیمت ادا کرنی چاہیئے؟
ٹرامپ نے کہا کہ " کم از کم انہیں 1.5 ٹریلین ڈالرز ہمیں ادا کرنا چاہئے. "
ایک اور انٹرویو میں ٹرامپ نے کہا کہ " میں انکی دولت اور پٹرول کو ضرور حاصل کرونگا. "
انٹرویو لینے والے صحافی نے پوچھا کہ "کیا اس طرح آپ عراق کی دولت کو تباہ نہیں کریں گے.؟ "
ٹرامپ نے کہا " نہیں نہیں ، میں آپ سے ایک بات کہنا چاہتا ہوں ، عراق نامی اب کوئی چیز وجود ہی نہیں رکھتی؛
- انکے لیڈر بد عنوان اور کرپٹ ہیں.
- عراقیوں کا کوئی وجود نہیں. ( وہ کہ جس کو عراق کی فکر ہو ).
- وہ مختلف گروہوں اور قبیلوں میں بٹے ہوئے ہیں.
میں تیل کی کمپنیوں اور ذخائر کے ارد گرد میں ایک حفاظتی باؤنڈری بناوں گا اور یہ کام لازمی طور پر ہونا چاہئے."
امریکہ کے ان ارادوں سے عراقی وزیر اعظم عادل عبدالمہدی اچھی طرح آگاہ تھے اور باقی سب سیاستدان اور آگاہ لوگ بھی اچھی طرح جانتے تھے. ایک طرف صدام کے بعد امریکہ کی سرپرستی میں جو نظام وجود میں آیا وہ امریکی خواہشات کے عین مطابق ہے اور جو امریکی ایجنڈے کی تکمیل میں مددگار ہے. اور دوسری طرف میڈیا کا کردار ، کیونکہ 80% سے زیادہ میڈیا امریکہ کے کنٹرول میں ہے اور اکثریتی میڈیا انہیں باتوں کو اٹھاتا ہے جو امریکہ چاھتا ہے.
3 اکتوبر 2019 کے کالم میں جريدة الاخبار کے صحفی نور ایوب نے لکھا کہ جب سابق وزیراعظم نے چین کے ساتھ اقتصادی تعلقات بنانے کے لئے وہاں جانے کا پروگرام بنایا تو "بغداد میں امریکہ کے سفیر ماتھیو تولر نے امریکی وزیر خارجہ مایک پومپیو کی وارننگ اور اس اقدام کے بھیانک نتائج کا پیغام انہیں پہنچایا" لیکن اس کے باوجود انھوں نے عراق کے اقتصادی استقلال اور سیاسی آزادی کے لئے اپنی کوششیں جاری رکھیں.
عراق کا کرپٹ نظام؛ ایک گھناؤنی سازش
جیسا کہ اوپر واضح ہو چکا کہ امریکہ نے ظالمانہ صدامی نظام کا خاتمہ اس لئے ہرگز نہیں کیا کہ:
- صدام ڈکٹیٹر تھا اور امریکہ عراق میں جمہوری نظام دیکھنا چاہتا تھا. کیونکہ امریکہ کے اتحادی تمام خلیجی ممالک میں کہیں بھی جمہوریت نہیں.
- وہ ظالم اور عوام کا قاتل تھا اور امریکہ ظلم کا خاتمہ اور عوام کو بچانا چاھتا تھا. کیونکہ امریکہ کی اپنی مملکت کی بنیاد ہی مقامی ریڈ انڈین اصلی امریکی عوام کے جنازوں پر قائم ہوئی.
- یا صدام نے ہمسایہ ممالک کویت اور ایران پر جنگ مسلط کی اور دیگر ہمسایہ ممالک کے امن کے لئے خطرہ تھا. ہرگز نہیں کیونکہ امریکا کی تاریخ دنیا بھر کے اکثریتی ممالک پر جنگیں مسلط کرنے سے بھری پڑی ہے.
حقیقت یہ ہے کہ جب امریکہ نے دیکھا کہ عراق کے پاس دنیا کے دوسرے بڑے تیل کے ذخائر ہیں. جن پر خطے کا ایک بدمعاش مسلط ہے. نہ تو ملک کی عوام اس سے خوش ہے اور نہ ہی ہمسایہ ممالک بلکہ ہمسایہ ممالک اور ملک کے عوام اس ظالم صدامی نظام سے نجات کے لئے اس سے مدد مانگ رہے ہیں. اس موقع کو غنیمت سمجھ کر اس نظام کی بساط لپیٹی اور اس جنگ کا بل بھی فوائد اور سود کے ساتھ اسے خلیجی ممالک اور عراق سے مل گیا. اور اس ملک کی دولت اور تیل کے ذخائر پر اپنا تسلط مضبوط کرنے کے لئے ایک فاسد نظام کی بنیاد رکھی. ایسا نظام جو مستقبل میں امریکی مفادات کا ضامن ہو. اور عراق پر امریکی تسلط اور قبضہ ہمیشہ قائم رہے.
عراق کو مفلوج کرنے اور غلام بنانے کے اقدامات
2003 میں صدامی نظام کے خاتمے کے بعد عراق پر امرکی وائس رائے بول بریمر حکومت کرتا رہا اور اسکی سرپرستی میں موجودہ عراقی کرپٹ نظام تشکیل پایا. اس عرصے میں کچھ ایسے فیصلے کئے گئے کہ جنکے نتیجے میں عراق ہمیشہ بحرانوں میں رہے گا.
1- عراقی کو کھوکھلا اور کمزور کرنے اور دفاعی صلاحیت کو سلب کرنے کے لئے اس ملک کی فوج کو ختم کر دیا گیا. کسی ملک کی فوج اس ملک کا قومی سرمایہ اور طاقت کی علامت ہوتی ہے. حکمران ڈکٹیٹر ہوں یا بادشاہ یا جمہوریت پسند سب آتے جاتے رہتے ہیں. لیکن حکومتی ادارے باقی رہتے ہیں. ان میں رد وبدل اور اصلاحات تو کی جاتی ہیں لیکن کبھی ان قومی اداروں کو تحلیل کرکے ملک میں بحران پیدا نہیں کئے جاتے. عراق میں جب لاکھوں افراد کی فوج کو تحلیل کیا گیا تو اتنی بڑی تعداد میں خاندان اس فیصلے سے متاثر ہوئے. اور انہیں ایک طرف تو آزاد اور آوارہ کر دیا دوسری طرف ملکی بجٹ سے انکو پنشن اور تنخواہیں بھی جاری رکھیں . اور بعد میں یہی تربیت یافتہ اور جنگی تجربہ کار سابق فوجی عناصر اور آفیسرز داعش کی تشکیل کے وقت کام بھی آئے.
2- مذھبی و لسانی تفرقے کو نئے نظام میں بنیادی رکن قرار دیا. عراقی قومیت کی بنیاد پر نہیں بلکہ مذھبی و لسانی بنیاد پر اقتدار اعلی کی تقسیم کر کے ان فتنوں کو ایک رسمی شکل دی. ملک کے صدر کے لئے کرد اور پارلیمنٹ کے سربراہ کے لئے سنی مذھب اور وزیراعظم کے لئے شیعہ مذھب ہونے کا قانون بنایا گیا. تاکہ جب امریکہ چاہے انہیں اختلافات کی بنیاد پر ملک کو تین حصوں میں تقسیم کر کے مزید تین کمزور تین عراق بنا دے. اس کے بعد پھر عراق نامی کوئی ملک نہیں بلکہ کردستان ، سنی ملک اور شیعہ ملک ہو گا. لیکن عراق نہیں رہے گا. اس کی طرف اوپر مذکور انٹرویو میں اشارہ کیا تھا اور کہا کہ اب عراق نامی کوئی ملک نہیں. کرد کردستان کا سوچتا ہے عراق کا نہیں اور سنی اپنے حقوق کی بات کرتا ہے عراق کے حقوق کی نہیں اور شیعہ اپنے حقوق کی بات کرتا ہے اپنے حقوق کی نہیں.
3- امریکہ نے جاہ طلب ، خود غرض اور اپنے وفادار سیاستدانوں کی ٹیم بھی بنائی ہے. جو امریکہ تسلط کو قانونی شکل دینے ، امریکی مفادات کی حفاظت کرنے اور امریکی استعماری سیاست کے مخالفین کا مقابلہ اور سرکوبی کرنے کے لئے شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار ہیں. انہیں نے اس نظام میں کرپشن کو عام کیا ہے . قومی خزانے کو لوٹنا ، جعلی کمپنیاں بنانا ، منی لانڈرنگ کرنا ، وزارتوں اور حکومتی مناصب کا غلط استعمال ، اقرباء پروری ، ذخیرہ اندوزی ، عوامی مشکلات سے چشم پوشی ، عوامی بنیادی خدمات پر تجارت اور منافع خوری وقومی مفادات کی سودہ بازی وغیرہ اس طبقے میں رس بس چکا ہے.
4- ابتداء ہی سے عراق پر تسلط جمانے کے لئے امریکہ نے تقریبا ساڑھے تین ہزار رسمی سفارتکار بغداد میں تعینات کئے. ان کے علاوہ فوجی مراکز اور چھاونیاں قائم کی. اس وقت بھی 10 ہزار امریکی فوجی رسمی طور عراق میں موجود ہیں. اب مختلف صنعتی وتجارتی و سیکورٹی کمپنیوں و سفارتکاروں اور NGO,s میں کام کرنے والے امریکیوں کی تعداد بعض اخبارات کے مطابق تقریبا چالیس ھزار تک جا پہنچی ہے.
5- 2007 سے امریکہ نے ایک کلچرل پروگرام " تبادل القیادات العراقیۃ الشابۃ " نوجوان عراقی لیڈرشپ کا تبادلہ" ایلیب( IYLEP ) پروگرام امریکہ وعراق کے مابین لانچ کر رکھا ہے. سیکنڈری اور یونیورسٹی سطح کے 1200 طلبہ و طالبات اس پروگرام میں شریک ہو چکے ہیں. 28 اکتوبر 2013 کے اعلان کے مطابق بغداد میں قائم امریکی سفارتخانہ نوجوان عراقی لیڈرشپ کے پروگراموں میں شرکت نمایاں افراد کو 4 ھفتے کے لئے تعلیمی و پریکٹیکل ورکشاپ کے لئے انہیں امریکہ کے کئی ایک علاقوں میں لجایا جائے گا. جہاں وہ متعدد ثقافتوں سے روشناس ہونگے . ویزہ ، ٹرانسپورٹ ، کلاسسز ، دروس ، رہائش ، طعام ، ثقافتی سرگرمیاں ، تعلیمی مواد ،علاج معالجہ ، جیب خرچ ، سب کچھ مفت ہو گا. اور یہ لوگ امریکیوں کے گھروں میں مہمان ہونگے. عراقی نوجوان نسل کی برین واشنگ کرنے اور عراقی نوجوان سے اسکی دینی و قومی اقدار اور شناخت چھیننے کے لئے اس قسم کے کئی ایک ادارے اب عراق میں کام کر رہے ہیں. ( GEO ) (IVLP ) جیسے منصوبے امریکی ثقافتی یلغار کا حصہ ہیں.
تحریر: علامہ ڈاکٹر سید شفقت حسین شیرازی