وحدت نیوز(لاہور) مرکزی کردار سازی کونسل کے زیر اہتمام لاہور میں تربیتی دروس کلاس کو لیکچر دیتے ہوئے حجت الاسلام والمسلمین علامہ راجہ مصطفیٰ کہا کہ :سارے لوگ کامیابی ،خوشی اور لذت کے خواہاں ہیں ،سارے انسان خواہ وہ جہاں ہوں اور جس حال میں ہوں کامیابی ،خوشبختی ،لذت اور خوشی کے خواہاں ہوتے ہیں ۔اس خواہش میں سب لوگ یکساں ہیں خواہ وہ دیندار ہوں یا بے دین نیز اچھے ہوں یا برے ،فرق صرف اس بات میں ہے کہ بعض لوگ اپنی حقیقی کامیابی کی شناخت میں اشتباہ یا غلط فہمی کے شکار ہوتے ہیں یا عمل کے مرحلے میں اس چیز سے غافل ہوجاتے ہیں جسے وہ اپنی حقیقی کامیابی سمجھتے ہیں اور اس کی جگہ غلطی سے کسی اور چیز کو مدّ نظر رکھتے ہیں ۔
خدا پر ایمان نہ رکھنے والے یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی کامیابی دنیا اور دنیوی امور مثلا مال ،جاہ و منصب اور بیوی بچوں وغیرہ سے عبارت ہے ۔اسی لئے وہ انہی چیزوں کے حصول کی خاطر اپنی ساری توانائیاں صرف کرتے ہیں ۔ادھر خدا پر ایمان کے حامل لوگ یہ جانتے ہیں کہ ان کی کامیابی خدا کے ساتھ رابطے اور انبیاء و اولیاء کی پیروی میں نہاں ہے۔وہ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ سب سے بڑی لذت اور سب سے بر تر خوشی بھی خدا کے ساتھ محبت اور ماوراء الطبیعی عالم سے وابستہ ہیں ۔
16
یہ اور بات ہے کہ اگر وہ رضائے الہی کی خاطر کام کریں تو خدا انہیں دنیوی آسائشات اور آرام و سکون سے بھی نوازتا ہے ۔امام سجاد علیہ السلام مناجات المحبین میں خدا کے حضور یوں گڑگڑاتےہیں :
الہی من ذا الذی ذاق حلاوۃ محبتک فرام منک بدلا و من ذا الذی انس بقربک فابتغی عنک حولا ؟
میرے معبود ! کون ہوگا جو تیری محبت کی مٹھاس چکھنے کے بعد تیری جگہ کسی اور کا متلاشی ہو ؟
وہ کون ہوگا جو تیری قربت اور ہمنشینی سے مانوس ہونے کے با وجود تجھے چھوڑ کر کہیں اور جانے کا ارادہ کرے؟
سارے انسانوں کا اصل ہدف اور مقصد (یعنی خوشی ،لذت اور کامیابی کا حصول) مشترکہ ہے البتہ اگر ان میں کوئی اختلاف ہے تو وہ حقیقی کامیابی اور اس کے راستوں کی شناخت کے بارے میں ہے۔
انبیائے الہی انسانوں کو کامیابی ،فلاح اور خوشی کے علاوہ کسی چیز کی دعوت نہیں دیتے ۔انبیاء نے اس بات کی تعلیم نہیں دی کہ لوگ مشکلات اور سختیوں کو دعوت دیں اور اپنے آپ کو خوشیوں سے محروم کریں ۔انبیاء کا پیغام تو یہ ہے کہ لوگ دنیا کی حقیر اور معمولی لذتوں کی بجائے حقیقی ،دائمی اور عظیم لذتوں کو تلاش کریں ،بالکل ان والدین کی طرح جو اپنے عزیز فرزند کو دانتوں کے ذریعے بادام کا سخت چھلکا توڑنے سے منع کرتے ہیں اور کہتے ہیں : اس بادام کو کھانے کی خاطر اپنے دانتوں کو نقصان نہ پہنچاؤ تاکہ تمہارے دانت سالم رہیں اور تم طویل عرصے تک ان سے بہترین استفادہ کرتے رہو ۔
۱۷
گاہے انسان کے راستے میں سختیاں اور دشواریاں آجاتی ہیں لیکن ان کا مردانہ وار مقابلہ کرنے کے نتیجے میں کامیابی اور خوشی اس کے پاؤں چوم لیتی ہیں، بالکل اس شخص کی طرح جو کسی سرجن کے ہاتھوں آپریشن کی تکلیف سہتا ہے تاکہ اس کے نتیجے میں تندرستی اور صحت سے بہرہ مند ہو ۔عقل انسان کو اس بات میں غور و فکر کی دعوت دیتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ کامیابی اور لذت کہاں ہے ۔بالفاظ دیگر انسان ہر کام سے پہلے ماضی،حال اور مستقبل کو مدنظر رکھتے ہوئے نیز ظاہری وباطنی حقائق اور انفرادی و اجتماعی حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے تدبر کرے کہ جو کام وہ کرنا چاہتا ہے اس سے حاصل ہونے والی لذت ،کامیابی اور خوشی زیادہ ہیں یا ناکامی ،تلخی اور تکالیف ؟ اسی طرح انسان اس کام کی بجائے جن کاموں کو بجا لانا چاہتا ہے ان کا بھی اس طریقے سے جائزہ لے اور مختلف راہوں (options) میں سے اس راستے کا انتخاب کرے جو سب سے زیادہ خوشی ،لذت اور کامیابی کا موجب ہو ۔اسی لئے فرمایا گیا ہے کہ احکام خداوندی بظاہر تکلیف اور مشقت کا باعث ہیں لیکن حقیقت میں یہ احکام اللہ کے لطف،مہربانی ،رہنمائی اور نعمت سے عبارت ہیں ۔انسان ایک لذیذ غذا کی لذت سے تب بہرہ مند ہوتا ہے جب وہ غذائی مواد کو فراہم کرنے ،پکانے ،چپانے اور کھانے کی زحمت برداشت کرے کیونکہ یقینا ان زحمتوں کو جھیلے بغیر کھانے کی لذت ہر گز حاصل نہیں ہوسکتی ۔
نابردہ رنج گنج میسر نمی شود مزد آن گرفت جان برادر کہ کار کرد
زحمت اٹھائے بغیر خزانہ ہاتھ نہیں آتا۔ مزدوری وہی لیتا ہے جو محنت کرتا ہے ۔
۱۸
واضح ہوا کہ حقیقی کامیابی و خوشی اور اس منزل تک رسائی کی راہ (جو خدا کی معرفت اور محبت سے عبارت ہیں) کی پہچان بہت ضروری ہے۔
حقیقی کامیابی کے حصول کا راستہ
اگر سچ مچ سارے لوگ کامیابی و خوش بختی کے طالب ہیں تو کیا وجہ ہے کہ ہر گروہ کا راستہ دوسرے گروہوں کے راستوں سے مختلف ہے؟ کیا وجہ ہے کہ کچھ لوگ دیندار ہیں جبکہ کچھ لوگ دین سے بیزار ہیں ؟ کیا وجہ ہے کہ بعض لوگ اپنے والدین اور رشتہ داروں کے ساتھ مہربانی برتتے ہیں جبکہ بعض لوگ ان سے بے رخی کا برتاؤ کرتے ہیں ؟ کیا وجہ ہے کہ کچھ لوگ نمازی ہیں اور کچھ بے نمازی نیز بعض سچے ہیں اور بعض جھوٹے ؟
ان سوالوں کے جواب میں ہم یہ عرض کریں گے کہ اگر ہم غور کریں گے تو ہماری کارکردگی دو بنیادوں پر استوار ہے:
۱۔ افکار اور معلومات۔
۲۔ اخلاقیات اور نفسیات۔
انسانی کار کردگی پر اثر انداز ہونے والا سب سے پہلا عامل اس کی معلومات ہیں ۔فرض کریں کہ دو افراد کو ان کی آ نکھیں بند کر کے صحرا کے درمیان چھوڑ دیا جاتا ہے ۔یہ دو افراد جب اپنی انکھیں کھول کر حرکت کرنا چاہیں گے تو ان کے ذہن میں سب سے پہلے یہ سوال ابھرے گا کہ نجات کا راستہ کس طرف ہے ؟ان میں سے ایک یہ سوچے گا کہ نجات کا راستہ مشرق کی طرف ہے اور دوسرا یہ خیال کرتے ہوئے کہ نجات کا راستہ مغرب کی طرف ہے اس کی جانب چل پڑے گا ۔
ان دونوں کے راستوں کے اختلاف کی بنیاد ان دونوں کی معلومات اور شناخت کا اختلاف ہے ۔
۱۹
جو شخص سگریٹ نوشی کا عادی ہو وہ یہ گمان کرتا ہے کہ اس کی خوشی اور کامیابی کا راستہ سگریٹ نوشی ہے جبکہ سگریٹ نوشی سے بیزار شخص یہ سمجھتا ہے کہ اس کی اور اس کے معاشرے کی کامیابی تنباکو نوشی سے اجتناب کرنے میں ہے۔
انسانی اعمال و کردار کی دوسری بنیاد یا دوسرا عامل اس کے باطنی جذبات اور نفسیات ہیں ۔گاہے انسان یہ جانتا ہے کہ کوئی کام برا اور نقصان دہ ہے لیکن اس کے باوجود اسے انجام دیتا ہے ۔بطور مثال اسے معلوم ہوتا ہے کہ سگریٹ نوشی ،بڑوں کی بے احترامی ،کنجوسی ،بزدلی ،حسد ،غصہ اور زود رنجی مذموم صفات ہیں لیکن وہ اپنے اس علم اور اعتقاد کے مطابق عمل نہیں کرتا ۔
اس کے برخلاف بعض لوگ کوشش کرتے ہیں کہ اپنے علم کے مطابق عمل کریں لیکن کبھی تھکاوٹ یا غیظ و غضب سے مغلوب ہوکر جادۂ حق سے خارج ہو جاتے ہیں اور غلطی کر بیٹھتے ہیں ۔اس قسم کے افعال کی وجہ انسان کے باطنی جذبات ،اخلاقیات اور نفسیات ہوتی ہیں جو گاہے انسانی ذہن و فکر کو اس کے علم و اعتقاد کی طرف توجہ سے غافل کردیتی ہیں اور اس غفلت کی حالت میں وہ انسان اشتباہ کا شکار ہوکر کسی اور چیز میں اپنی بھلائی اور کامیابی دیکھتا ہے اور اسی کے مطابق عمل کرتا ہے ۔بطور مثال اگر چہ وہ یہ جانتا ہے کہ اس کی کامیابی عفو و در گذر ،ایثار اور مہربانی کا ثبوت دینے میں ہے، اس کے باوجود غصے کی وجہ سے یہ خیال کرتا ہے کہ اس کی کامیابی انتقام لینے اور حساب چگتاکرنے میں ہے۔یوں وہ اشتباہاً انتقام پر اتر آتا ہے ۔
خلاصہ یہ کہ حقیقی کامیابی تک رسائی اور اپنے اعمال و کردار کی اصلاح کے لئے ہمیں چاہیے کہ اپنے افکار اور باطنی جذبات و نفسیات کی اصلاح کریں۔