وحدت نیوز(لاہور)لاہور مرکزی کردار سازی کونسل کے زیر اہتمام تربیتی دروس کا سلسلہ جاری ہے ۔علمائے کرام نے ولایت فقیہ کے عنوان سے حاضرین کو لیکچر دیئے ۔ حجت الاسلام والمسلمین علامہ محمد علی فضل نے لیکچر دیتے ہوئے کہا کہ ولایت فقیہ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ دین اسلام انسان کی تمام فطری ضروریات کا مکمل حل پیش کرتا ہے۔ وہ ولایت جو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ اور ائمہ علیہم السلام کے لیے ثابت ہے وہی ایک فقیہ کے لیے بھی ثابت ہے اس بات میں اس وقت تک کوئی شک و شبہ نہیں کیا جا سکتا جب تک کوئی دلیل اس کے خلاف نہ ہو۔ ولایت فقیہ کا موضوع کوئی نیا موضوع نہیں ہے بلکہ اس مسئلہ پر بہت پہلے سے ہی بحث ہوتی رہی ہے۔ میرزا شیرازی کا تنباکو کی حرمت پر جو فتویٰ تھا اس کی حیثیت چونکہ حکومتی حکم کی تھی لہذا دوسرے فقہا کے لیے بھی اس کا ماننا واجب تھا۔ ایک قلیل تعداد کو چھوڑ کر ایران کے بڑے علما کی اکثریت نے اس فتوے کو تسلیم کیا تھا۔ ایسا نہیں تھا کہ کچھ لوگوں کے اختلاف کو سلجھانے کی خاطر یہ حکم عدالتی فیصلہ کی طرح کا کوئی حکم ہو بلکہ مسلمانوں کے مفاد کو نظر میں رکھتے ہوئے انہوں نے حکم ’’ثانوی‘‘ کے عنوان سے یہ حکومتی حکم صادر فرمایا تھا۔ جب تک عنوان موجود تھا یہ حکم بھی باقی تھا اور جیسے ہی عنوان ہٹایا حکم بھی اٹھا لیا گیا۔مرزا محمد تقی شیرازی جنہوں نے جہاد کا حکم دیا تھا جس کا نام’’دفاع‘‘ رکھا گیا سبھی علماء نے اس حکم پر عمل کیا تھا کیوںکہ وہ حکم حکومتی حکم تھا۔کہا جاتا ہے کہ کاشف الغطا نے بھی اس طرح کے بہت سے مطالب بیان فرمائے ہیں۔ متاخرین علما نراقی نے رسول خدا ﷺ سے مربوط تمام شئونات (اختیارات) کو فقہا کے لیے بھی ثابت جانا ہے۔
مرحوم آقائے نائینی بھی فرماتے ہیں کہ یہ مطلب ’’مقبولہ عمر ابن حنظلہ‘‘ سے استفادہ کیا جا سکتا ہے (جس کی وضاحت بعد میں بیان کی جائے گی)۔اسلامی معاشرے کو اگر کوئی چیز بچا سکتی ہے تو وہ’’ اسلامی حکومت‘‘ ہے۔ امام خمینی(رہ) کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے اسلام کی حکمرانی کی بحث چھیڑی جسے وہ ولایت فقیہ سے تعبیر کرتے تھے۔ ولایت فقیہ کا مبنا و نظریہ انتہائی مستحکم ہے۔ قدیم زمانے سے اب تک اگر کسی نے اس بحث کو نہیں چھیڑا یا اسے کنارے پڑے رہنے دیا تو اس کی وجہ یہ رہی کہ ان کی سوچ یہ تھی کہ جو چیز عملی نہیں ہو سکتی اس کے بارے میں بحث کر نے کا کیا فائدہ۔ اس سے ہٹ کر جب انسان فقہا کی کتابوں میں دیکھتا ہے تو اسے یہ پتا چلتا ہے کہ فقہا میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں ہے جو غیر اسلامی حاکم کی حکمرانی کو قبول کرتا ہو (فقہ کے مختلف ابواب میں انسان اس بات کو ملاحظہ کر سکتا ہے)۔یہ بات مسلمات میں سے ہے اس کی اگر مثال پیش کیا جائے تو جو تعبیرات صاحب جواہر نے ولایت فقیہ کے بارے میں استعمال کی ہیں وہ بالکل واضح ہیں۔ صاحب جواہر ولایت فقیہ کے دائرہ کار کو صرف ولایت بر صغار (چھوٹوں پر ولایت) تک محدود نہیں سمجھتے بلکہ اس سے بالاتر دوسرے اہم فقہی ابواب جیسے باب جہاد میں فقیہ کی ولایت کی توسیع کے قائل ہیں او اس مسئلہ کو اسلامی فقہ کے واضح مطالب میں سے جانتے ہیں۔ مرحوم نراقی اور آپ ہی کی طرح کے لوگوں نے اس سلسلے میں اچھی خاصی بحث کی ہے۔ اس فکر کی بنیاد بہت ہی مضبوط ہے اور اس کو امام خمینی(رہ) نے پیش کیا ہے۔
امام خمینی(رہ) نے فقہ کے محکم قاعدوں کی مدد سے ۱۳۴۷ہجری شمسی میں نجف اشرف جیسے فقاہت کے مرکز میں ولایت فقیہ کی خاموش اور فراموش شدہ بحث کو دوبارہ زندہ کیا۔ ولایت فقیہ، شیعہ فقہ کے مسلمات میں داخل ہے۔ بعض کم پڑھے لکھے لوگ یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ ولایت فقیہ امام خمینی(رہ) کی ایجاد ہے ان کے علاوہ کوئی اور اس کا قائل نہیں ہے ان کا یہ کہنا ان کی لا علمی کا نتیجہ ہے۔ جو لوگ فقہا کے کلام سے واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ ولایت فقیہ کا مسئلہ شیعہ فقہ کے روشن اور واضح مسائل میں سے ایک ہے۔ جو کام امام خمینی(رہ) نے کیا وہ یہ تھا کہ آپ نے اس فکر کو مضبوط اور مستحکم دلائل کے ساتھ اس کی کیفیت کو ان آفاق سے ہم آہنگ کر دیا جو عصر حاضر کی سیاست اور اس کے بارے میں مختلف مکاتب فکر رکھتے تھے اس طرح سے کہ جدید سیاسی مکاتب فکر اور سیاسی مسائل سے آشنا لوگوں کے لیے یہ فکر قابل فہم ہونے کے ساتھ ساتھ قابل قبول ہو جائے۔