وحدت نیوز (مظفرآباد) سیکرٹری جنرل مجلس وحدت مسلمین آزاد کشمیر علامہ سید تصور حسین نقوی الجوادی ، ڈپٹی سیکرٹری سیکرٹری جنرل مولانا سید افتخار الحسن جعفری، سیکرٹری تعلیم مولانا سید طالب حسین ہمدانی نے وحدت ہاؤس مظفرآباد میں میڈیا سیل سے جاری مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ روہنگیا مسلم برادران کا قتل عام، اقوام متحدہ اور او آئی سی انسانی حقوق نوٹس نہیں بلکہ ہوش کے ناخن لیں ، انسانی حقوق پر آواز اٹھانے والے کھوکھلے نعرے لگایا کرتے ہیں ، عالم اسلام کی مکمل خاموشی ایک بڑا سوالیہ نشان ہے، کیا کوئی اس طرح مسلمانوں کو تن تنہا چھوڑ سکتا ہے، یمن میں جارحیت کے لیئے تو اتحاد بنائے جا سکتے ہیں ، غیر قانون غیر آئینی مداخلتوں کے لیئے تو سر جوڑے جا سکتے ہیں ، اپنے مسلمان بھائی کو کیسے مارا جاسکتا ہے اس کے لیئے پلاننگ کی جا سکتی ہیں ، نام نہاد جہادی تنظیمیں ، کالعدم تنظیمیں ان ممالک کی آشیر باد سے ملک میں آگ و خون کی ہولی تو کھیل سکتے ہیں لیکن جب بات ظلم و ستم کی المناک داستانوں کی ، جب بات نہتے و بے آسرا بچوں کے بہتے خون کی ، جب بات خواتین کی بے حرمتی کی ہو ، جب بات مردوں کے قتل عام کی ، تو مسلم دنیا کے حکمرانوں کو کیوں سانب سونگھ جاتا ، کیوں یہ اتحاد و اتفاق کا مظاہرہ نہیں کرتے ؟ کیوں یہ ایک ہو کر طاغوت کے مقابلے میں میدان میں نہیں آتے ؟ کیوں اپنے مسلمان بھائیوں کو مرتا دیکھتے رہتے ہیں ؟ کچھ کرنے کی پوزیشن ہونے کے باوجود کچھ نہیں کرتے ، یہی صورتحال اس وقت ہوئی جب امریکہ کا پالتو اسرائیل فلسطین میں غزہ کی پٹی پر ماہ رمضان کے دوران بمباری کر رہا تھا ، مسلم دنیا خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہی تھی۔
مجلس وحدت کے رہنماؤں نے کہا کہ ثابت یہ ہوتا ہے کہ مسلم ممالک کے حکمران اپنے اپنے اقتدار کے تحفظ کے لیئے تو کچھ بھی کر سکتے ہیں لیکن جس سے انہیں خطرہ ہو یا جس سے طاغوت ناراض نہ جائے وہ کام ہر گز نہیں کریں گے، چاہے وہ روہنگیا مسلمانوں کو برما کے وحشی فوجی اپنے طرح طرح کے حربوں کا نشانہ بناتے رہیں ، حالات دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے ، پتھر دل رکھنے والے حکمران اللہ کے ہاں بھی جواب دہ ہوں گے ، بروز محشر ان بچوں و مظلوموں کو کیا جواب دیں گے ۔
مجلس وحدت مسلمین کے رہنماؤں نے کہا کہ ہم حکومت پاکستان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اپنا کردار ادا کرے اس طرح کہ جیسے سعودیہ کے لیئے میدان میں کود پڑی تھی ، اگر یہ مسلم امہ کے ممالک کی واحد ایٹمی طاقت ہے تو اس کو اس بات کا بھی احساس ہونا چاہیے کہ بڑے ہونے کے ناطے مسلمانوں کا احساس کرنا ، چاہے وہ دنیا کے کسی بھی کونے میں بستے ہوں کی محافظت کے لیئے کوئی اقدامات کر سکتی ہے تو کرے ، اپنے ذاتی کاروبارکے تحفظ کے لیئے قومی سلامتی کے اداروں کو داؤ پر لگانے والے حکمران برما میں مسلمانوں کی مدد کریں ۔وہ مدد چاہے آواز کی صورت میں ہو یا سفارتکاری کی صورت میں پاکستان اپنا کردار ادا کرے۔