پرتگال ، علامہ راجہ ناصرعباس کی صحت وسلامتی کیلئے دعائیہ تقریب، حکومت سے مطالبات کی منظوری کا مطالبہ
وحدت نیوز(پرتگال) پاکستان میں ۵۰ دنوں سے زیادہ بھوک ہڑتال پر بیٹھے مجلس وحدت مسلمین کے سیکریٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس کے مطالبات کو فالفور منظور کیا جائے۔پرتگال میں بسنے والے پاکستانیوں کا حکومت وقت سے مطالبہ اور علامہ صاحب کی صحت و سلامتی کے لیے دعائیہ تقریب منعقد ہوئی ۔ گذشہ شب پرتگال میں رمضان المبارک کے اختتام پر مومنین نے الوداع رمضان کا روح پرور پروگرام ترتیب دیا جس میں جہاں مومنین نےبارگاہ الہی میں دعاؤں اور مناجات سے اپنے اور دیگر مومنین کے لیے طلب مغفرت کی وہاں ملک میں امن اور سلامتی کے لیے دعائیں کیں بالخصوص ناصر ملت علامہ راجہ ناصر عباس کی صحت و سلامتی اور انکی نصرت و ظفریابی کے لیے حضرت ثانی زہرا سلام اللہ علیہا کی بارگاہ میں خصوصی توسل کیا۔پروگرام کے اختتام پر امامہ زمانہ (عج) کے ظہور کی تعجیل کے لیے بھی دست دعا بلند کیا گیا اور اس عید کو علامہ راجہ ناصر عباس کے حکم کے مطابق عید شہدا کےطور پر منانے کا عزم کیا جسکا اظہار تمام مومنینِ جہان نماز عید پر بازؤں پر سیاہ رنگ کی پٹیوں کو پہن کر کریں گے۔
وحدت نیوز(آرٹیکل) اخلاق سے افکار واقدار کو تبدیل کرنے کا نام اسلام ہے۔اسلامی اخلاق کا منبع انسان کا ضمیر ہے۔اگر انسان کا ضمیر زندہ ہوتو وہ کبھی بھی اخلاقیات کو پامال نہیں کرتا۔کوئی بھی شخص جتنا بے ضمیر ہوتاہے اتناہی بداخلاق اور منہ پھٹ بھی ۔
زمانہ جاہلیت میں لوگ بد اخلاقی پر اتراتے تھے،ظلم کرنے پر فخر کرتے تھے،لڑائی جھگڑے کو بہادری سمجھتے تھے اور اخلاقی معائب کو انسانی کمالات کا نام دیتے تھے۔
انبیائے کرام اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے زبردستی لوگوں کی عادات نہیں بدلیں بلکہ اپنی سیرت و اخلاق کو لوگوں کے سامنے پیش کرکے ان کے مردہ ضمیروں کو زندہ کیا۔
چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ الٰہی نمائندے پتھرکھاتے ہوئے تو نظر آتے ہیں لیکن مارتے ہوئے نہیں،اسی طرح گالیاں سہتے ہوئے تو دکھائی ہیں لیکن دیتے ہوئے نہیں۔
الٰہی نمائندوں نے اپنے روشن کردار کےذریعے اہلِ دنیا کی تاریک سوچ کوروشن افکار میں تبدیل کیا ہے۔
مقامِ فکر ہے کہ اگر الٰہی نمائندے بھی ظالموں سے مقابلے کے لئے ظلم کا راستہ ہی اختیار کرتے ،وحشت و بربریت کے خاتمے کے لئے وحشت و بربریت کو ہی استعمال کرتے تو آج دنیا کا حال کیا ہوتا!!!؟
الٰہی نمائندوں کی زحمات اور نظریات کا خلاصہ یہ ہے کہ مقدس ہدف تک پہنچنے کے لئے وسیلہ بھی مقدس ہونا چاہیے۔
پاکستان کو دہشت گردی سے پاک کرنا ایک مقدس ہدف ہے ،لیکن اس ہدف کو کسی غیر مقدس وسیلے سے حاصل کرنے کی کوشش کرنا اتنا ہی قبیح ہے جتنا کہ خود دہشت گردی۔
حضرت حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ کے چبائے ہوئے جگر سے لے کرسبطِ رسولؐ کے تابوت پر لگے ہوئے تیروں نیز میدان کربلا میں مرجھائے ہوئے لبوں کی تاریخ شاہد ہے کہ مظلوموں نے کبھی بھی ظالموں کے نقشِ قدم پر قدم نہیں رکھا۔
اہلِ حق نے کبھی بھی اخلاقی اقدار کو پامال نہیں کیا اور انسانی کرامت کی دھجیاں نہیں اڑائیں۔
پوری تاریخ بشریت میں الٰہی نمائندوں کی یہی اخلاقی فتح ہی ظالموں کی شکست کا سبب بنتی رہی ہے۔یہ ایک روشن حقیقت ہے کہ دنیائے ظلم ہمیشہ اعدادو شمار اور لاولشکر کے اعتبار سے برتر ہونے کے باوجود اہل حق کی اخلاقی جرات کے ہاتھوں مغلوب ہوتی رہی۔
اس وقت پاکستان کی کربلا میں بھی ظالموں کے خلاف ایک احتجاج جاری ہے۔ اگر ہم نے اس احتجاج کو موثر بنانا ہے تو پھراپنی مظلومیت بھری تاریخ سے سبق لینا ہوگا۔ہر سال دس محرم الحرام کو نواسہ رسول ؐ سے اظہار یکجہتی کے لئے اورجمعۃ الوداع کو یوم القدس کے سلسلے میں پوری دنیامیں ظلم کے خلاف احتجاج کیا جاتاہے۔یہ احتجاج بظاہر خالی ہاتھ کیا جاتاہے۔۔۔
کیا کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ دس محرم الحرام اور یوم القدس کو ہونے والے اس احتجاج کا کوئی فائدہ نہیں!؟
حق بات تو یہ ہے کہ اس احتجاج کے فوائد و ثمرات کومکمل طور پر ابھی تک عقل بشر درک نہیں کرسکی۔
دس محرم الحرام اور یوم القدس کا عالمی احتجاج ہمیں یہ پیغام دے رہاہے کہ اگر احتجاج کو اس کی زمانی و مکانی شرائط اور زینبی[ع]حوصلے کے ہمراہ انجام دیا جائے تو خالی ہاتھوں اور لبیک یا حسین[ع] کے نعروں سے بھی قصر شاہی کی بنیادوں کو ہلایاجاسکتاہے۔
اگر سیدِ سجادؑ کے اخلاق کے مطابق بے ضمیروں کو جگایاجائے تو بہتے ہوئے اشکوں سے بھی ظلم کی آگ بجھائی جاسکتی ہے۔
اگر ہم تخریب،تنقید اور اخلاقی پستی سے جان چھڑواکر اپنی زندہ ضمیری،خوش اخلاقی،سیاسی تقویٰ اور بصیرت کا ثبوت دیں تو آج بھی پاکستان میں یہ خالی ہاتھ احتجاج اور لانگ مارچ کوفہ و شام کے بازاروں کا منظر پیش کرسکتاہے ۔
اگر ہمارے اپنے ضمیر جاگ جائیں،ہمارے اپنے تنظیمی و اجتماعی اخلاق کی اصلاح ہوجائے تو پھر۔۔۔
بلا شبہ۔۔۔
یہ فقط عظمت کردار کے ڈھب ہوتے ہیں
فیصلے جنگ کے تلوار سے کب ہوتے ہیں
جھوٹ تعداد میں کتنا ہی زیادہ ہو سلیم
اہلِ حق ہوں تو بہتر بھی غضب ہوتے ہیں
نذرحافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
وحدت نیوز(گلگت) گلگت بلتستان میں شیعہ سنی کا مسئلہ نہیں،اقربا پروری کی انتہا ہوگئی ہے غیر منصفانہ اقدامات کوچشم پوشی کرنے کیلئے مذہب کا کارڈ استعمال کیا جارہا ہے۔اسمبلی کی آڑ میں اصول پسند آفیسران کو بلیک میل کرکے غیر قانونی کام کرنے پر مجبورکیا جارہا ہے جو کہ شرمناک عمل ہے۔سیکرٹری ایجوکیشن نے محکمے میں اصلاحات لائے ہیں جس کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
مجلس وحدت مسلمین گلگت بلتستان کے ترجمان محمد الیاس صدیقی نے کہا ہے کہ حکومتی عہدوں پر براجمان بعض لوگ اسمبلی کی آڑ میں سرکاری آفیسروں کو بلیک میل کرنے کی مذموم کوششوں میں لگے ہوئے ہیں اور ان کے ناجائز کام نہیں ہوتے ہیں تو اسمبلی میں ان فرض شناص آفیسروں کے خلاف قراردادیں پیش کی جارہی ہیں جبکہ اسمبلی میں جن اہم قومی ایشوز پر بات ہونی چاہئے وہاں ان کی توجہ ہی نہیں۔ گلگت بلتستان کا سب سے اہم ایشو اقتصادی راہداری کے حوالے سے اسمبلی کی کارکردگی مایوس کن ہے اور محض مرکزی حکومت کے ہر ناجائز اقدام کو بھی حکمران قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں جو کہ علاقے کے مفادات کا سودا کرنے کے مترادف ہے۔
انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت بھی پیپلز پارٹی حکومت کی طرح سکردو روڈ کے حوالے سے جھوٹ پر جھوٹ بولی جارہی ہے۔انہوں نے کہا کہ محکمہ پی ڈبلیو ڈی میں ایک گروہ وزیر اعلیٰ کا نام استعمال کرکے اعلیٰ آفیسروں کو بلیک میل کرنے پر لگا ہوا ہے جو کہ حکومت کے میرٹ پالیسی کے دعووں کی دھجیاں اڑانے کے مترادف ہے۔وزیر اعلیٰ کا گریبان اگر پاک صاف ہے تو اس گروہ کے خلاف ایکشن لیں اور تمام ٹھیکے اوپن ٹینڈرز کے ذریعے عمل میں لائے جائیں۔
وحدت نیوز(لاہور) پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے لاہور میں پاکستان کے مختلف علاقوں سے آئے ہوئے وفود سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ مجلس وحدت مسلمین کے رہنما راجہ ناصر عباس، انکی دیگر لیڈر شپ اور کارکنوں کے آئینی، قانونی اور جائز احتجاج کو 53روز گزر گئے، مگر کوئی حکومتی کارندہ ٹس سے مس نہیں ہوا، جو بے حسی کی انتہا ہے۔ عوامی تحریک کے سندھ، بلوچستان اور جنوبی پنجاب سے آئے ہوئے رہنماؤں اور مختلف وفود سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان کے کرپٹ حکمرانوں کے نزدیک مظالم کے شکار عوام کے احتجاج کی کوئی وقعت نہیں، لوگ جب تک اپنے مقتولوں کی لاشیں اٹھا کر وزیراعلٰی ہائوس، گورنر ہائوس، وزیراعظم ہائوس یا پارلیمنٹ کے باہر دھرنے نہ دیں، تو ایف آئی آر تک درج نہیں ہوتی، اس ظلم کے نظام نے کمزور کو انصاف سے محروم کر رکھا ہے۔
ڈاکٹر طاہر القادری نے کہا کہ اس بات پر کوئی دوسری رائے نہیں ہے کہ دہشتگردوں کے ہمدرد موجودہ حکمرانوں نے قومی ایکشن پلان کی روح کو ختم کر دیا ہے اور سیاسی مخالفین کو مارا جا رہا ہے، یہی باتیں مجلس وحدت مسلمین کی قیادت کر رہی ہے اور ہم ان کے موقف کی مکمل تائید و حمایت کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکمران جواب دیں کہ 2010ء سے 2016ء کے درمیان شیعہ کمیونٹی کے 34 سو سے زائد افراد کی ٹارگٹ کلنگ کیوں ہوئی؟ اور اس قتل و غارت گری کے منصوبہ ساز اور ذمہ دار گرفت میں کیوں نہیں آئے۔ انہوں نے کہا کہ ایم ڈبلیو ایم کے رہنماؤں نے پارہ چنار میں شیعہ کمیونٹی کے افراد کی جائیدادوں پر قبضے کی جو بات کی ہے، اس کا سنجیدگی سے نوٹس لیا جائے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ مجلس وحدت مسلمین کے رہنمائوں کے اصولی اور جائز مطالبات پورے کئے جائیں۔
وحدت نیوز(مظفرآباد) جمعۃ الوداع کو یوم قدس کے طور پر منایا جائے گا، ریاست گیر احتجاجی ریلیاں نکالی جائیں گی ، ان خیالات کا اظہارسیکرٹری جنرل مجلس وحدت مسلمین پاکستان آزاد جموں و کشمیر علامہ سید تصور حسین نقوی الجوادی نے کابینہ اجلاس سے خطاب کے دوران کیا ،انہوں نے کہا کہ امام خمینیؒ کے فرمان کے مطابق ہر سال جمعۃ الوداع کو یوم قدس کے طور پر منایا جاتا ہے ، اس دفعہ 25رمضان بروز جمعہ یوم قدس کے موقع پر ریاست بھر میں ریلیاں نکالی جائیں گی ، فلسطین کے مسلمانوں سے بھرپور اظہار یکجہتی کیا جائے گا ، یوم قدس مظلوموں و محروموں کی حمایت کا د ن ہے، دنیا میں جہاں جہاں ظلم ہو رہا ہے ہم اس کے خلاف آواز بلند کرتے رہیں گے ۔ قبلہ اول کی آزادی تک ہماری یہ جدوجہد جاری رہے گی ، قبلہ اول کی آزادی عالم اسلام کے اتحاد میں مضمر ہے ، شیطان بزرگ امریکہ کا پرورش کردہ ملک اسرائیل دنیا کے نقشے سے مٹ جائے اگر مسلمان ایک ہو جائیں ، اسرائیل اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کبھی بھی نہیں کر سکتا اگر عالم اسلام اتحاد و یکجہتی کے ذریعے فلسطین کی حمایت میں آواز بلند کریں ، اگر اپنی بادشاہت کے بچاؤ کے لیے ملکوں کے اتحاد بنائے نہیں جاسکتے ہیں تو ہم سوال اٹھاتے ہیں کہ کیوں مظلوم فلسطینیوں کی حمایت کے لیے کوئی اتحاد نہیں بنایا جاتا ، علامہ تصور جوادی نے عوام الناس سے اپیل کی ہے کہ وہ مظلوم فلسطینیوں ، کشمیریوں حتیٰ جہاں جہاں بھی کوئی مظلوم ہے اس کی حمایت میں باہر نکلیں اور اپنے حصے کا کردار ادا کرتے ہوئے آواز حق بلند کرنے میں مدد کریں۔
وحدت نیوز(آرٹیکل) اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں شیعہ قتل عام کوئی نئی بات نہیں ،یہ گذشتہ پینتیس برسوں سے وقفے وقفے اور تسلسل سے جاری ہے،اس کے مختلف فیزز ہم نے دیکھے ہیں،اور اس کی کئی اقسام سامنے آئی ہیں،کبھی تو یہ اہدافی قاتلوں کے ذریعے کسی شخصیت ،کسی عزادار،کسی نامی گرامی شیعہ رہنما،کسی ڈاکٹر،کسی استاد ،کسی پروفیسر یا ایجوکیشنسٹ،کسی شاعر،کسی مذہبی رہنما،کسی سیاسی شخصیت،کسی متولی،کسی نوحہ خوان،کسی ذاکر،کسی عالم دین کو نشانہ بناتے ہیں اور کبھی ان قاتلوں کے ذریعے اجتماعی قتل عام کا خونی کھیل کھیلا جاتا ہے اور کسی بڑے اجتماع،کسی مجلس،کسی جلسے،کسی جلوس،کسی ریلی،کسی نماز باجماعت،کسی درگاہ،کسی دربار،کسی امام بارگاہ کو بیگناہوں کے خون سے رنگین کیا جاتا ہے، اگر ہم ملت تشیع کے مجموعی رویہ اور ری ایکشن کو دیکھیں تو بلا شک و شبہ یہ ایک پرامن قوم کے طور پہ سامنے آئے گی،سینکڑوں جنازے سامنے رکھ کے چار دن انتہائی بے ضرر احتجاج و دھرنے کی مثال کسی اور کے پاس نہیں ہماری ہی ہے جبکہ ہمارے مخالفوں کی تاریخ اور کارنامے اٹھائیں تو ایسا لگتا ہے کہ ملک پاکستان ان کا وطن نہیں بلکہ یہ ہندوستان یا اسرائیل کے شہری ہیں جو پاکستان کے ساتھ دشمنی کر رہے ہیں،آپ خود اندازہ لگائیں کہ اگر امریکہ نے کسی قبائلی ایریا میں کسی دہشت گرد گروپ کو کسی ڈرون کا شکار کیا ہے تو اس کا رد عمل پاکستان کو دیا جاتا ہے،پاکستانی عوام اور اس کے اثاثوں کو نقصان پہنچا کر فخریہ اس کی ذمہ داری لی جاتی ہے،مزے کی بات یہ ہے کہ اس کیلئے ہمارے وہ مہربان مذہبی جغادری بھی قائل نظر آتے ہیں جو بظاہر سیاسی جماعتیں ہیں مگر ان کی اصل طالبانائزیشن ہی ہے۔
لہذا یہ پاکستان افواج کو شہید کہنے سے کتراتے ہیں جبکہ دہشت گردوں کا کوئی سرغنہ مارا جائے تو اس کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھاتے ہیں جو اس ملک کے ّآئین سے روگردانی اور انحراف کے مترادف سمجھا جانا چاہیئے،کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم نے آج تک کبھی بھی کہیں بھی برے سے برے حالات میں بھی پاکستان کی سیکیورٹی اداروں اور فورسز کو نشانہ نہیں بنایا،جبکہ ہمارے مقابل دہشت گرد گروہ نے اس ملک کے ہزاروں قیمتی فوجیوں و افسران کو نشانہ بنا کر فخریہ اس کو تسلیم کیا ہے اس کے باوجود ہم دیکھتے ہیںکہ سیکیورٹی اداروں اور متعصب حکمرانوں کا رویہ مکتب تشیع کے پیروان کے ساتھ انتہائی جانبدارانہ اور متعصبانہ رہتا ہے،کئی ایک واقعات و حادثات نے ثابت کیا ہے کہ ہمیں خواہ مخواہ رگڑا جاتا ہے،ہم سے تعصب برتا جاتاہے،ہمیں توہین آمیز سلوک کا شکار کیا جاتا ہے،ہمیں دوسرے درجے کے شہری سمجھا جاتا ہے، کبھی کبھی ایسا لگتا ہے کہ ہمیں اقلیتی شہریوں جیسے حقوق بھی حاصل نہیں ان کیلئے تو آواز بلند کرنے والے بہت زیادہ ہوتے ہیں،عالمی ادارے و میڈیا بھی ان کی زبان بن جاتا ہے مگر ہمارے ساتھ ہونے والی زیادتیوں پر کسی کے کان پہ جوں تک نہیں رینگتی۔
اتنے سارے واقعات اور حادثات کے باوجود ہم کیا کریں کہاں جائیں ۔کیا اس کے بعد بھی ہم خاموش ہو کر گھروں میں بیٹھ جائیں اور اپنے آپ کو اہل کوفہ کی پیروی میں لگا دیں ۔کیا مختلف علاقوں سے لوگوں کا ہجرت کر جانا اور آبادیوں کا خالی ہو جانا، ہماری آنکھیں کھولنے کے لئے کافی نہیں؟ کیا کئی لوگوں کا خوف کی وجہ سے مذہب چھوڑ دینا کافی نہیں؟عزاداری اباعبداللہ الحسین علیہ السلام پر قدغنیں شیعہ نسل کشی اور ٹارگٹ کلنگ کاجو بازار گرم ہے ۔کیا ہم اس پر بھی خاموش رہیں ؟۔نیشل ایکش پلان کو تبدیل کر کے شیعہ اور سنی (بریلوی) کی جانب موڑنے اور انہی دومکتب فکر کے خلاف آئے دن مقدمات کے اندراج ،خطباء و واعظین پر پابندی ،جلوس عزاء اور ماتم داری کے سامنے رکاوٹوں پر بھی ہم خواب غفلت میں پڑے رہیں ؟۔تو کب اور کہاں سے اس ظلم کے خلاف قیام کریں گے ؟کیا اب بھی کو ئی عذر باقی ہے ؟ اگر آج جب ہمارے خلاف ہمارے ملک میں بڑی بڑی سازشوں کا احساس کرکے ناصر ملت حجۃ الاسلام والمسلمین علامہ ناصر عباس جعفری نے اپنی قوم کے دفاع اور اپنی ملت کے حقوق کی بازیابی کے لئے ایک عظیم اور خاموش احتجاجی تحریک کا آغاز کیا ہے اور آج کئی دنوں سے اپنی صداقت کو ہر عام و خاص سے منوا لیا ہے اوراپنےپر مشقت اس سفر کو ماہ مبارک کے مہینے میں بھی جاری رکھا ہوا ہے، تو کیا اس مجاہد عالم باعمل کے اس جہاد نے کیا ہمارے لئے حجت تمام نہیں کر دی؟
ظلم کے خلاف جدوجہد کا درس ہمیں دین اسلام سے ملتا ہے۔ ظلم کے خلاف خاموش رہنا غیر اسلامی اور دین محمدی ﷺسے متصادم ہے۔ اس وقت دنیا میں دو طاقتیں برسرپیکار ہیں۔ ایک طاقت ظالموں کی اور دوسری مظلوموں کی ہے۔ ہم نے ظالم کے خلاف ہمیشہ سینہ سپر رہنا ہے۔ دنیا بھر میں جو جو حکومتیں ظالمین کی تائید کرتی ہیں، وہ ظلم کی حکومتیں ہیں، ان کے خلاف قیام کرنا واجب ہے۔ وطن عزیز کو گذشتہ تین دہائیوں سے قاتلوں، ظالموں اور لٹیروں نے یرغمال بنایا ہوا ہے۔ اس مادر وطن کو ان کے شکنجے سے چھڑانا ہے۔
آئیے !
اپنے آئینی حقوق کی باز یابی کےلئے عید کے بعد اپنے آپ کو ایک عظیم اور تاریخی لانگ مارچ کے لئے آمادہ کریں جس کا رخ ظالم حکومت کے ایوانوں کی طرف ہو گا اوراس پیغام کو گھر گھر تک پہنچائیں ۔
تحریر۔۔۔۔۔۔ظہیرالحسن کربلائی