وحدت نیوز (کراچی) مجلس وحدت مسلمین کراچی ڈویژن کے سیکریٹری جنرل سید میثم رضا عابدی نےسوشل میڈیا پر جاری اپنے ایک بیان میں کہاہے کہ معروف شیعہ عالم دین مولانا اظہرحسین نقوی نے باقائدہ مجلس وحدت مسلمین میں شمولیت کا اعلان کردیاہے، میثم رضاعابدی کے مطابق مولانا اظہر حسین نقوی کو ایم ڈبلیوایم کراچی ڈویژن میں سیکریٹری امور روابط کی ذمہ داری تفویض کی گئی ہے ، انہوں نے اس امید کا اظہارکیا کہ مولانا موصوف کی ایم ڈبلیوایم میں شمولیت باعث برکت ہو گی اور وہ اپنی فعالیت سے وحدت کے پیغام کے پرچار کیلئے تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لائیں گے، واضح رہے کہ مولانا اظہر حسین نقوی اس کے قبل مختلف دینی وسیاسی پلیٹ فارمز پر مکتب تشیع کی نمائندگی کے فرائض انجام دے چکے ہیں ۔
وحدت نیوز (لاہور) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکریٹری جنرل علامہ راجہ ناصرعباس جعفری آئندہ ہفتے سینٹرل پنجاب کے پانچ روزہ دورے کا آغا زکریں گے، تفصیلات کے مطابق ایم ڈبلیوایم کے مرکزی سیکریٹری جنرل علامہ راجہ ناصرعباس جعفری 23جنوری کو منڈی بہاوالدین سے اپنے تنظیمی دورے کا آغا زکریں گے ، منڈی بہاوالدین میں پیغمبر امن کانفرنس اور محسن ملت جعفریہ ، آئی ایس او کے سابق رہنما ، معروف استاد مرحوم محمد اقبال ساہی کے چہلم کے اجتماع سے خطاب اور دوروز قیام کے بعد25جنوری کو فیصل آباد، 26جنوری کو جھنگ، 27کو ساہیوال اور 28کولاہور پہنچیں گے،اپنے پانچ روزہ دورے کے دوران پنجاب کے صوبائی رہنماوں کے ہمراہ علامہ راجہ ناصرعباس جعفری مختلف نوعیت کے عوامی اجتماعات سے خطاب کریں گے،شیعہ سنی علمائے کرام اور ماتمی انجمنوں کے سالاروں سے ملاقاتیں بھی متوقع ہیں جبکہ وہ شہداءاور مرحومین کے اہل خانہ سے تعزیتیں بھی کریں گے۔اطلاعات کے مطابق مختلف اضلاع میں ایم ڈبلیوایم کے کارکنان کی جانب سے علامہ راجہ ناصرعباس جعفری کے شاندار استقبال کی تیاریاں بھی زور وشور سے جاری ہیں ۔
۔
وحدت نیوز(آرٹیکل) دو شیعہ نشین قصبے سوریہ کے شمال مغرب محافظہ ادلب (ادلب ڈویژن) میں واقع ہیں. چاروں اطراف سے تکفیری دہشتگردوں نے گذشتہ تقریبا تین سال سے محاصرہ کر رکھا ہے. ان دونوں قصبوں کی آبادی 30 ہزار کے لگ بھگ تھی. ابھی اس وقت تقریبا 18 ھزاہ لوگ رہتے ہیں. ادلب شہر پر تکفیریوں نے ترکی کمانڈوز اور امریکہ ،غرب ، سعودیہ ، قطر وغیرہ کی مدد سے تازہ دم دستوں اور جدید تریں جنگی اسلحہ سے قبضہ کر لیا. اس وقت سے یہ لوگ مکمل حصار میں آ چکے ہیں کیونکہ نکلنے کے تمام تر راستے بند کر دیئے گئے . یہ علاقے ترکی بارڈر سے تقریبا 17 کلو میٹر پر واقع ہیں. ادلب ڈویژن کی سرحد مغرب سے ترکی ، مشرق سے حماۃ ڈویژن اور شمال سے حلب اور جنوب سے لاذقیہ ڈویژن سے ملتی ہیں. فوعہ اور کفریا نے مقاومت اور قربانیوں کی عظیم مثالیں رقم کی ہیں. انکے صبر واستقامت کی وجہ سے ادلب ڈویزن کو مکمل طور پر تکفیریوں دھشگردوں کے قبضے میں نہیں آ سکا. یہ لوگ کہ جنکے 80% گھر دہشتگردوں کی بمباری سے تباہ ہو چکے ہیں. انکی امداد کا کوئی راستہ نہیں. تقریب50 کلو میٹر دور تک سیرین آرمی کا وجود نہیں. ان سب علاقوں پر سعودی ،امریکی اور ترکی واسرائیلی ایجنٹ قابض ہیں. دھشگردوں نے بجلی اور پانی کنکشن تقریبا اڑھائی سال سے کاٹ دیئے ہیں. چاروں اطراف سے ہزاروں بار انھوں نے پوری طاقت کے ساتھ حملے کئے لیکن سلام ہو اس خطے کے بہادر عوام پر جنھوں نے ہزاروں شہید تو دئیے لیکن اپنی زمینی حدود کو ناپاک دشمن کے وجود سے آلودہ نہیں ہونے دیا اور زن ومرد اور پیر و جوان سب نے ملکر دفاع کیا۔
کبھی کبھی شام حکومت کے ھیلی کاپٹرز بلندی سے انکے لئے امداد سامان پھینکتے ہیں.تو ضروریات زندگی اور علاج ومعالجہ کی دوائیں انہیں مل جاتی ہیں. اور کبھی یہ امداد بھی دشمن کے علاقے میں گرتی ہے یا انکے گولوں اور میزائلوں کا نشانہ بن جاتی ہے۔
انھوں نے مریضوں اور زخمیوں کے علاج کے لئے اپنی مدد آپ کے تحت بعض گھروں میں صحت کے مرکز بنائے. انھیں بھی دشمن نے میزائلوں اور گولہ باری سے تباہ کر دیا ہے . جو سبزیاں اور اناج اپنی زمینوں میں کاشت کرتے ہیں وھی کھاتے ہیں اور جو مویشی پالتے ہیں انھیں سے ضروریات پوری کرتے ہیں . پینے کے پانی کو نکالنے اور فصلوں کی سیرابی کے لئے پاور کی ضرورت ہوتی ہے. لیکن بجلی، گیس، ڈیزل اور پٹرول نہ ہونے کے سبب سابقہ ٹیوب ویل اور موٹریں نہیں چلتیں.وہ اب نئے کنویں خود کھود کر کچھ پانی دیسی طریقوں سے نکالتے ہیں. بارود اور گرد غبار اور غذا کی قلت اور ادویات کی عدم فراھمی وجہ سے موذی امراض اور وبائیں پھیل رہی ہیں. انکی کسمپرسی کا کوئی پرسان حال نہیں. ہزاروں رپورٹس انسانی حقوق کے دعویداروں اور اقوام متحدہ کو باقاعدہ مل چکی ہیں. لیکن ان کا قصور یہ ہے کہ وہ شیعہ مسلک سے تعلق رکھتے ہیں. اس لئے دنیا نہ انکے انسانی حقوق کو تسلیم کرتی ہے اور نہ کلمہ شھادت پڑھنے کے باوجود انکے مسلمانی حقوق کو قبول کرتا ہے۔
حلب کے عوام کی جھوٹی اور من گھڑت مظلومیت پر واویلا کرنے والے بین الاقوامی اور مقامی میڈیا چینلز اور انسانی حقوق کے علمبردار نام نہاد علماء وخطباء سیاسی ومذھبی جماعتیں اور شخصیات اور حکومتیں کیوں گنگ اور خاموش ہیں. کیوں ان مظلوموں کو سوشل میڈیا اور پرنٹ والیکٹرانک میڈیا میں کوریج نہیں دیتے.
یہ لوگ بارہا اعلان کر چکے ہیں کہ ہم کربلا والے ہیں. بنی امیہ کے فوجیوں نے کل 61 ہجری کو کربلا کے ریگزار پر فرزند رسول خدا حضرت امام حسین علیہ السلام کا محاصرہ کیا تھا اور پانی بھی بند کیا تھا.جوانان جنت کے سردار کو اپنے اس زمانے کے میڈیا میں باغی بنا کر شھید کیا تھا. اور دختران رسول کریم کے خیموں کو چاروں طرف سے آگ لگائی اور انکے خیموں کو راکھ کیا تھا. آج تاریخ ایک بار پھر دھرائی جا رہی ہے. کہتے ہیں کہ ہم اس حصار، آگ وبارود سے گھبرانے والے نہیں. اور اس زمانے کے یزیدی لشکر کا مقابلہ اپنے آقا ومولا اور انکے اصحاب با وفا کی طرح ڈٹ کر کریں گے. اور اپنے وطن کے دفاع اور اپنی ملت کی عزت و کرامت کی خاطر اپنی جانوں کا نذرانہ میدان کربلا عصر میں پیش کریں گے۔
آج ہر غیرتمند اور با ضمیر انسان اور مسلمان کی زمہ داری ہے کہ وہ انکی صداء ہل من نا صر ینصرنا اور ھل من مغیث یغیثنا ، پر لبیک کہے. اور دنیا کی نگاھوں سے اوجھل ہونے والے اس ظلم کو آشکار کرے. یہ دو قصبے تکفیریت اور دھشتگردی کے سمندر کے درمیان ایک جزیرہ کی صورت اختیار کر چکے ہیں. آئیں ان ہزاروں انسانوں اور مسلمانوں کو بچانے کے لئے بھرپور آواز بلند کریں. تاکہ عالمی ضمیر جاگ کر انہیں بچانے کے اقدامات کرے. اور دھشتگردی کا خاتمہ ہو. اور ظالمانہ حصار کی زنجیریں پاش پاش ہو جائیں۔
تحریر۔۔۔ علامہ ڈاکٹر سید شفقت حسین شیرازی
وحدت نیوز (گلگت) گلگت سے تعلق رکھنے والے نوجوان نوید حسین کو 10 جنوری کی صبح اڈیالہ جیل راولپنڈی میں انسداد دہشتگردی جی بی کی عدالت کے جج جمشید کے قتل کے الزام میں پھانسی دی گئی تھی۔ نوید حسین پر الزام عائد تھا کہ انہوں نے دوران حراست جیل سے نکل کر مذکورہ جج کو قتل کے دوبارہ جیل میں پناہ لی ہے۔ نوید حسین کو اسی منفرد اور ناکردہ جرم کی پاداش میں تختہ دار پر لٹکایا گیا تھا۔ اس کیس پر مجلس وحدت مسلمین پاکستان گلگت بلتستان کے ترجمان الیاس صدیقی نے اپنے ردعمل میں اس قتل کی مذمت کی تھی اور دعویٰ کیا تھا کہ انہیں پھانسی دینے کے لئے عدالتی تقاضے پورے نہیں کئے گئے۔ انہوں نے موقف اپنایا تھا کہ دنیا کی تاریخ میں یہ ایک انوکھی مثال رقم کی گئی کہ ایک قیدی جو قتل کے وقوعہ کے دوران جیل میں ہے اور پولیس تفتیش میں اس قیدی کو مجرم ٹھہرایا جاتا ہے۔ یہ کیسی عدالتیں ہیں، جو ایک قیدی پر ایک ایسے قتل میں مجرم قرار دیکر پھانسی کی سزا سنا دیتی ہیں جبکہ وقوعہ کے دوران قاتل جیل میں ہوتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا تھا کہ گورننس آرڈر 2009ء کے تحت جی بی کے عوام کو وزیراعظم سے اپیل کا حق دیا گیا ہے اور اس قانون کو اڈیالہ جیل کے حکام کے نوٹس میں لانے کے باوجود نوید حسین کو اس حق سے محروم رکھ کر مجرمانہ غفلت کے مرتکب ہوئے ہیں۔ جیل حکام کے اس مجرمانہ غفلت کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی جائیگی۔
الیاس صدیقی کے مذکورہ بیان پر انسداد دہشتگردی عدالت جی بی کے جج راجہ شہباز خان نے انکے خلاف عدالتی نوٹس جاری کر دیا۔ عدالت نے اپنے نوٹس میں کہا کہ الیاس صدیقی نے اخبارات میں عدالت کے نازیبا اور تحقیر آمیز جملے استعمال کر کے معزز عدالت کی توہین کی ہے اور سیکشن 37 بی انسداد دہشتگردی ایکٹ 1997ء کے تحت قانونی کارروائی کا مجاز عدالت کو ہے۔ عدالت مذکورہ سیکشن کے تحت جواب طلب کرتی ہے اور 17 جنوری کو عدالت عالیہ میں وضاحت طلب کرتی ہے۔ واضح رہے کہ جی بی کی معزز عدالت کی جانب سے یہ پہلا کیس تھا جس پر ٹرائل کرنے کے بعد ملزم کو پھانسی دی گئی، جبکہ شہید ضیاءالدین رضوی کے قاتلوں کی پھانسی تاحال نہیں ہو سکی ہے۔ انسداد دہشتگردی کی عدالت میں خطے کی تاریخ کے سنگین دہشتگردی کے واقعات بھی ایک طویل عرصے سے زیر سماعت ہیں۔ ان اندوہناک واقعات میں سانحہ چلاس، سانحہ کوہستان، سانحہ بابوسر اور سانحہ نانگا پربت شامل ہے۔ شاہراہ قراقرم پر شناختی کارڈ دیکھ کر قتل کرنے والوں کی ویڈیوز منظر عام پر آنے کے باوجود انکے جرائم تاحال عدالتوں میں ثابت نہیں ہو سکے ہیں۔ انہیں عدالتوں میں نوید حسین کا الزام ثابت بھی ہو جاتا ہے اور پھانسی کی سزا بھی سنانے کیساتھ اپیل کا حق بھی چھین لیا جاتا ہے۔ اور اگر کوئی عدالت عالیہ کے ان اقدامات کی مذمت کرے تو توہین عدالت کا کیس بنایا جاتا ہے۔ دوسری جانب گلگت بلتستان میں انسداد دہشتگردی کی عدالت کا قیام جی بی کی موجودہ آئینی حیثیت کے مطابق قانونی ہے یا نہیں سپریم کورٹ آف پاکستان فیصلہ دے چکی ہے۔ اس فیصلے کی روشنی میں سپریم کورٹ سمیت دیگر عدالتوں کے فیصلے جی بی میں غیر آئینی اور غیر قانونی عمل ہے۔ اس فیصلے کی روشنی میں سپریم کورٹ آف پاکستان بھی انسداد دہشتگردی عدالت جی بی کی توہین کی مرتکب ہے۔
وحدت نیوز(حیدرآباد) معروف سیاسی وسماجی شخصیت سید کرم علی شاہ کی جانب سے مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی وصوبائی رہنماوں علامہ مختارامامی، علامہ دوست علی سعیدی ، عالم کربلائی ودیگر کے اعزازمیں عشائیہ دیا گیا،اس موقع پر کرم علی شاہ اور ایم ڈبلیوایم کے رہنماوں کے درمیان سندھ بالخصوص مٹیاری کی سیاسی صورت حال اور آئندہ الیکشن کے حوالے سے تفصیلی گفتگوہوئی،اس موقع پر ایم ڈبلیوایم کے صوبائی رہنماشفقت حسین لانگااور ضلع مٹیاری کے رہنماسید فدا حسین شاہ بھی موجود تھے۔
وحدت نیوز(کوئٹہ) مجلس وحدت مسلمین کوئٹہ ڈویژن کے زیر اہتمام شہدائے سانحہ علمدار روڈ2013کی چوتھی برسی پر عظیم الشان اجتماع شہداءچوک پر منعقد کیا گیا، اس اجتما ع میں ہزاروں کی تعداد میں خواتین وحضرات سمیت خانوادہ شہداء نےشرکت کی جبکہ مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی ڈپٹی سیکریٹری جنرل علامہ سید احمد اقبال رضوی ، مرکزی رہنما علامہ اعجاز بہشتی ، علامہ ہاشم موسوی، علامہ جمعہ اسدی، علامہ ولایت جعفری، رکن بلوچستان اسمبلی سید محمد رضا اور چیئرمین سنی اتحاد کونسل صاحبزادہ حامد رضا نے خصوصی خطاب کیا۔
اس موقع پر مقررین نے نے کہا ہے کہ 10 جنوری 2013 پاکستان کی تاریخ کا وہ سیاہ ترین دن تھا، جس دن اہل جور وستم نے ظلم و بربریت کی ایک بدترین مثال قائم کردی۔ جہاں علمدار روڈ پر نہتے اور بے گناہ 86 افراد کو زندگی کی نعمت سے محروم کردیا گیا اور سینکڑوں لوگ اس دھماکے میں زخمی اور اپاہج ہوگئے۔ کتنے گھرانے ایسے تھے جو اپنے واحد سرپرست سے محروم ہوئے۔ کتنی ماوؤں کے گود اپنے لاڈلے اور کتنے بچے جو باپ کے سایے سے محروم ہوئے۔ یوں تو سفاک دہشتگردوں نے بارود کے ذریعے اِن شہدا کے جسموں کے ہزارو ں ٹکڑے کر دیئے۔ مگر اِن پاکیزہ اجساد کاہر ٹکڑا اتنا پُر تاثیر ثابت ہوا کہ پاکستان کے طول و ارض سے لے کر دُنیا کے کونے کونے تک انسانی ضمیر کو جنجھوڑ کر رکھ دیا اور انھیں ظلم کے خلاف علم بغاوت لے کر باہر نکلنے پر مجبور کر دیا۔ یہ وہ پاک و مقدس لہو ہے جس نے اپنی حرارت سے سخت ترین سردی میں فضا کو ایسا گرمایا کہ لوگوںنے پورا ہفتہ سڑک پر گزار دیا اور اپنی ہمت سے اُس وقت کے کرپٹ اور ظالم صوبائی حکومت کو گھر کا راستہ دکھایا۔ مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے۔ کہ آج تک اُن قاتلوں کو نہ تو پکڑا گیا اور نہ ہی انکا پیچھا کیا گیا۔ جو بذات خود وفاقی و صوبائی حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے مُنہ پر ایک بدنما داغ ہے، جو کبھی نہیں دھول سکتی۔ بیان کے آخر میں موجودہ صوبائی حکومت اور وفاق سے یہ مطالبہ کیا گیا کہ 10جنوری 2013 اور باقی سانحات کے شہداء کے قاتلوں کو جلد سے جلد گرفتار کرکے کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔