وحدت نیوز (آرٹیکل) پاکستان کے قیام کا مقصد اگرچہ ایک ایسے جداگانہ وطن کا حصول تھا، جس میں تمام تعصبات بالخصوص مذہبی تفریق و تقسیم سے بالاتر ہو کر تمام مذاہب کے ماننے والوں کیلئے آزادی ہو اور وہ بے خوف و تردید نیز کسی تعصب کا شکار ہوئے بغیر اپنے عقیدے و مذہب کیمطابق اپنی عبادات کو انجام دے سکیں، اقبال و قائد رحمۃ اللہ کے خیال و فکر میں یقیناً ایسا ہی پاکستان اور ہندوستان سے جدا وطن کا حصول تھا، مگر بدقسمتی سے حضرت اقبال قیام پاکستان سے بہت پہلے اور قائد اعظم قیام پاکستان کے صرف ایک سال بعد نوزائیدہ مملکت کو بیچ منجدھار کے چھوڑ کے داغ مفارقت دے گئے، جس کے بعد ہمارے پیارے پاکستان کو ایسی نظر لگی کہ آج تک ہم تعصبات و تنگ نظریوں کا شکار چلے آ رہے ہیں۔ دہشت گردی اور فرقہ وارانہ تعصب نے ہم سے ایسے ایسے گوہر نایاب چھین لئے کہ جن کا متبادل ہمیں دکھائی نہیں دیا۔ ان شہداء، چمکتے ستاروں اور پاک سرزمین کے فرزندان میں علماء بھی ہیں اور بزرگان بھی، ڈاکٹرز بھی ہیں اور وکلا بھی، اعلٰی آفیسرز بھی ہیں اور خطیب بھی، شاعر بھی ہیں اور ادیب بھی، پروفیسرز بھی ہیں اور انجینئرز بھی، طالبعلم بھی ہیں اور تاجر بھی۔ الغرض اس تعصب و تنگ نظری کا شکار ہر طبقہ فکر اور شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے انتہائی قیمتی اور ملک کے حقیقی خدمت گذار نظر آتے ہیں۔
یہ فہرست بہت طویل ہے، کس کس کا نام لیں، کس کو روئیں، کس کس کا ماتم کریں، یہ ایک دو دن کی بات نہیں، کم از کم پینتیس برس کی لہو رنگ داستان ہے، جسے سنانے کیلئے بہت وقت درکار ہے اور لکھنے کیلئے کتابوں کا بار، انہیں میں سے ایک سید محسن نقوی ہیں، جن کا اصل نام سید غلام عباس تھا، ان کا تعلق جنوبی پنجاب کے شہر ڈیرہ غازی خان سے تھا، محسن نقوی نے 6 مئی 1947ء کو جنوبی پنجاب کے ضلع ڈیرہ غازی خاں میں سید چراغ حسن نقوی کے گھر میں آنکھ کھولی، مگر محسن نقوی نے اپنا مسکن و رہائش لاہور کو پسند فرمایا۔ انہوں نے گورنمنٹ کالج بوسن روڈ ملتان سے ایم اے اردو کیا تھا۔ اس دوران ان کا پہلا مجموعہ کلام چھپا، جس کے بعد ان کی شہرت و نام میں بلندی دیکھی گئی، اسی دوران وہ لاہور منتقل ہوگئے، جہاں 15 جنوری 1996ء کو انہوں نے لاہور کی معروف مون مارکیٹ دبئی چوک میں تکفیری دہشت گردوں کے ہاتھوں شہادت پائی۔
یہ کس نے ہم سے لہو کا خراج پھر مانگا
ابھی تو سوئے تھے مقتل کو سرخرو کرکے
سید محسن نقوی کو بطور ایک شاعر دیکھیں یا ایک بلند پایہ خطیب کے طور پر سٹڈی کریں، ان کی شخصیت کو ایک ادیب کے طور پر سامنے رکھیں یا ایک مداح اہلبیت ؑ کے طور پر، انہیں ایک قومی رہنما کے طور پہ دیکھا جائے یا ایک سیاستدان کے طور پہ، محسن نقوی کئی حوالوں سے منفرد شناخت رکھتے تھے۔ لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ ان کی شاعری انہیں ان سب حیثیتوں سے ممتاز کرتی ہے، وہ شاعر تھے، غزل گو تھے، مگر ان کی نظمیں بھی لافانی ہیں، وہ شاعری میں منفرد حیثیت و مقام کے حامل تھے، انہیں آپ جب جب پڑھیں گے، ان کے کلام سے نئی ضوفشانیاں پائیں گے، وہ ادب کے ہر رنگ اور شاعری کی ہر صنف پر ناصرف خوبصورتی سے پورے اترتے نظر آتے ہیں، بلکہ ہر ایک صنف کو اپنا رنگ دیتے دکھائی دینگے۔ ان کی شاعری میں آپ کو مقتل، قتل، مکتب، خون، گواہی، کربلا، ریت، فرات، پیاس، وفا، اشک، صحرا، دشت، لہو، عہد، قبیلہ، نسل، چراغ، خیمہ جیسے الفاظ، جن کا تعلق کسی نا کسی طرح کربلا اور اس سرزمین پر لکھی گئی ان کے اجداد کی حریت و آزادی کی بے مثال داستان سے ہے، بدرجہ اتم نظر آتا ہے۔ کربلا کی تپتی زمین پر قربانی کی جتنی داستانیں لکھی گئی ہیں، محسن نقوی نے ان کو کسی نا کسی رنگ و آہنگ میں اپنا موضوع بنایا ہے اور انہیں اپنے تئیں زندہ کرنے اور نئے پہلو اجاگر کرنے کی سعی کی ہے۔
ذرا اس کلام میں دیکھیں کہ کربلا سے درس حریت اور احساس زندگی لینے والا یہ مسافر کربلا، کس طرح حالات حاضرہ دیکھ کر، اس کا احساس کرکے اسے اپنے رنگ میں اجاگر کر رہا ہے۔۔۔۔
قتل چھپتے تھے کبھی سنگ کی دیوار کے بیچ
اب تو کھلنے لگے مقتل بھرے بازار کے بیچ
اپنی پوشاک کے چھن جانے پہ افسوس نہ کر
سر سلامت نہیں رہتے یہاں دستار کے بیچ
آج بھی ہمارے ملک میں صورتحال ویسی ہی ہے، جیسی آج سے کئی برس پہلے شہید محسن نقوی نے محسوس کی تھی۔ ہر سو بے گناہوں کا لہو بہایا جا رہا ہے اور درد و الم کی داستانیں گھر گھر اور شہر شہر رقم ہو رہی ہیں۔ اب کوئی معزز نہیں رہا، کوئی تہذیب نہیں رہی، کوئی توقیر نہیں رہی، احساس مر چکا ہے، عزتین پائمال کی جا رہی ہیں۔ ہمارے ملک کی ہر شام خون آشامیوں کی تاریک راتوں کیساتھ سامنے آتی ہے، محسن جیسا حساس شاعر اس سے لاتعلق نہیں رہ سکتا، لہذا وہ اس پر بہت ہی اداس ہوا، اگر اس کی شاعری میں قتل، مقتل، بھرے بازار جیسے الفاظ پڑھنے کو ملتے ہیں تو یہ اس کے اندر کا کربلائی ہونا ہے، جو کسی بے گناہ کے قتل پر اپنا دھیان الگ نہیں کرسکتا۔ انسان کو فکر معاش کے ذریعے جس طرح لاتعلق رکھنے کی سازش کی جاتی ہے، وہ ایک باشعور فرد ہونے کے ناطے اس سے آگاہ کر رہے تھے کہ
رزق، ملبوس، مکان، سانس، مرض، قرض، دوا
منقسم ہوگیا انساں انہی افکار کے بیچ
اور پھر محسن کا دردمند دل یہ کہتا ہے کہ۔۔۔۔
اشک اپنا کہ تمہارا نہیں دیکھا جاتا
ابر کی زد میں ستارہ نہیں دیکھا جاتا
اپنی شہ رگ کا لہو تن میں رواں ہے جب تک
زیرِ خنجر کوئی پیارا نہیں دیکھا جاتا
ذیل میں جس کلام کو پیش کر رہے ہیں، اسی میں دیکھیں کہ کتنے استعارے اور الفاظ ایسے ہیں، جن کا تعلق صحرائے کربلا پر لکھی تاریخ کی عظیم ترین داستان عشق سے ہے۔
چاہت کا رنگ تھا نہ وفا کی لکیر تھی
قاتل کے ہاتھ میں تو حنا کی لکیر تھی
خوش ہوں کہ وقت قتل مرا رنگ سرخ تھا
میرے لبوں پہ حرف دعا کی لکیر تھی
میں کارواں کی راہ سمجھتا رہا جسے
صحرا کی ریت پر وہ ہوا کی لکیر تھی
شہید محسن نقوی اگرچہ عام مشاعروں میں زیادہ نہیں دیکھے جاتے تھے اور ایسے مشاعرے و پروگرام جن کا خاص مقصد یا خاص ایجنڈا حکومتی یا کسی خاص ادبی گروہ یا سوچ و فکر کی ترویج ہوتا تھا، ان سے دور ہی دکھائی دیتے تھے، مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ وہ عوامی سطح پہ روزانہ کئی کئی مجالس پڑھتے تھے، جن میں ہزاروں لوگ ان کے سامع ہوتے تھے اور ان کو داد و تحسین دیتے تھے۔ مجالس میں انہیں لوگ بے حد عقیدت سے ملتے تھے، محسن کو بھی اپنے انہی چاہنے والوں سے محبت تھی۔ وہ کو بہ کو، شہر بہ شہر جاتے اور مجالس میں شریک ہوتے، اپنے خوبصورت عقیدت بھرے افکار سے لوگوں میں محبت اہلبیت کے چراغ جلاتے۔ انہیں صدارتی تمغہ حسن کارکردگی سے بھی نوازا گیا، اگرچہ وہ ایوارڈز اور عہدوں سے بہت بلند مقام رکھتے تھے، مگر یہ ان کی فکر کی ترویج و تسلیم کا ایک ذریعہ تھا۔ وہ بہرحال اپنے دور کے سب سے موثر قادرالکلام شاعر تھے، جنہیں عوامی پذیرائی اور محبتیں حاصل تھیں۔
مزاحمتی شاعری، جس کا ہدف عوامی شعور کی بیداری، غیر عادل حکمرانوں کا احتساب اور انصاف و مساوات قائم کرنا ہوتا ہے، محسن نقوی کے ہر کلام میں اپنے انداز میں دیکھ سکتے ہیں۔ وہ فیض احمد فیض اور حبیب جالب کے انداز کے حامل نہیں تھے، مگر ان کا طرز تخاطب اور انداز تحریر زمانہ حال و مستقبل سے ہم آہنگ ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ ان کی شاعری کو آج پڑھیں تو ایسا محسوس ہوگا کہ یہ آج کے حالات پر لکھی گئی ہے۔۔۔۔
منصب بقدر قامت کردار چاہیئے
کٹتے ہوئے سروں کو بھی دستار چاہیئے
اک صبح بے کفن کو ضرورت ہے نوحہ گر
اک شام بے ردا کو عزادار چاہیئے
ہے مدعی کی فکر نہ مجرم سے واسطہ
منصف کو صرف اپنا طرفدار چاہیئے
اگرچہ مقتل اور قتل سے متعلق ان کے بے انتہا خوبصورت اشعار ملتے ہیں، مگر اس کلام میں جو پیغام ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔۔۔۔
یہ رونقیں، یہ لوگ، یہ گھر چھوڑ جاؤں گا
اک دن میں روشنی کا نگر چھوڑ جاؤں گا
اور قاتل مرا نشاں مٹانے پہ ہے بضد
میں بھی سناں کی نوک پہ سر چھوڑ جاؤں گا
اور اسی کلام میں یہ شعر ملاحظہ کریں، کس طرح یہ مرد مجاہد اپنے نہ ہونے کی خبر دیتے ہوئے اپنے افکار کی ترو تازگی کی بات کر رہا ہے۔۔۔
آئندہ نسل مجھے پڑھے گی غزل غزل
میں حرف حرف اپنا ہنر چھوڑ جاؤں گا
ان کی سیاسی ہمدردیاں پاکستان پیپلز پارٹی کیساتھ تھیں، محسن نقوی کی پارٹی سے بے لوث محبت اور انتھک محنت و لگن کو سراہتے ہوئے غریبوں کی نمائندہ جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے لیڈر ذوالفقار علی بھٹو نے مفتی محمود کے مقابلے میں محسن نقوی کو پارٹی ٹکٹ دیا، مگر بدقسمتی سے یہ انتخابات ملتوی ہوگئے۔ جن دنوں ڈیرہ غازی خان کے فاروق لغاری بھی پاکستان پیپلز پارٹی میں ہوا کرتے تھے، وہ ان کی حکومت میں مشیر بھی بنائے گئے، جبکہ انہوں نے محترمہ بے نظیر بھٹو کی اسیری اور پہلی حکومت گرائے جانے پہ ایک لافانی نظم لکھی، جسے ایک عرصہ تک پاکستان پیپلز پارٹی کے جیالے جلسوں میں خاص طرز و ترنم میں پڑھا کرتے تھے۔ اس نظم کا عنوان "یااللہ یارسول بے نظیر بے قصور تھا" اسی طرح انہوں نے ایک اور لافانی کلام بھی لکھا، جسے وہ مجالس میں پڑھا کرتے تھے، اس نظم میں کالعدم تکفیری گروہ کی حقیقت بیان کی گئی تھی، اس کے بول کچھ یوں تھے۔۔۔۔
کل شب کو خواب میں میرے دور پرفتن
دیکھی یزیدیت کے قبیلے کی اک دلہن
آئی صدا اس کے مقابل کرو جہاد
دیکھیں یہ ہے سپاہ صحابہ کی انجمن
محسن نقوی نے چند ایک فلموں کیلئے بھی گیت لکھے، مگر وہ فلمی دنیا کے مزاج سے ہم آہنگ نہ تھے، البتہ ان کی غزلیں بالخصوص ؛آوارگی؛ کو معروف گلوکار غلام علی نے گایا، جو بہت پسند کی گئی۔ محسن نقوی نے قومیات میں بھی اپنا حصہ ڈالا، اسلام آباد کے معروف معرکہ جس میں مفتی جعفر حسین قبلہ کی قیادت میں تاریخی جدوجہد کی گئ
وہ سٹیج پر موجود تھے اور اپنے کلام و افکار و انداز سے عوام کو گرما رہے تھے۔ محسن نقوی کی شہادت کے بعد ان کے فرزند سید عقیل محسن نے ان کی مسند مجالس سنبھال رکھی ہے، جو ملک بھر میں اپنے باپ کے نام کیساتھ پہچانے جاتے ہیں۔
تحریر۔۔۔ارشاد حسین ناصر
وحدت نیوز (اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ڈپٹی سیکریٹری امور خارجہ،چیئرمین المصطفیٰ فائونڈیشن نارتھ امریکہ اور ولایت ٹی وی علامہ سید ظہیر الحسن نقوی کے والد گرامی طویل علالت کے بعد کمالیہ میں انتقال کرگئے، مرحوم سید محمد اسلم شاہ نقوی کی رحلت پر مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکریٹری جنرل علامہ راجہ ناصرعباس جعفری سمیت دیگر مرکزی قائدین بشمول علامہ حسن ظفر نقوی، علامہ امین شہیدی، علامہ احمد اقبال رضوی،علامہ شفقت حسین شیرازی، علامہ باقر زیدی، علامہ اعجاز بہشتی،علامہ اصغر عسکری، علامہ ہاشم موسوی، علامہ مختار امامی، ناصر شیرازی، مہدی عابدی، علی احمر زیدی، نثار فیضی، ملک اقرار حسین ، علامہ عبدالخالق اسدی، علامہ مبارک موسوی، علامہ آغا علی رضوی، علامہ مقصودڈومکی، علامہ اقبال بہشتی،علامہ تصور جوادی، آغا محمد رضا اور دیگر نے مرکزی سیکریٹریٹ سے جاری اپنے مشترکہ تعزیتی بیان میں علامہ سید ظہیر الحسن نقوی اور ان کے اہل خانہ سے انکے والد مرحوم سید محمداسلم شاہ نقوی کی دلسوز رحلت پر رنج وغم اور افسوس کا اظہارکیا ہے ، رہنماوں نے کہا کہ اس عظیم سانحے پر مجلس وحدت مسلمین کے تمام ذمہ داران اور کارکنان غم زدہ ہیں ، خدا وند متعال مرحوم کے تمام گناہان کبیرہ و صغیرہ کو معاف فرمائے اورانہیں جوار معصومین ؑ میں محشور فرمائے ساتھ ہی پسماندگان کو صبر جمیل عنایت فرمائے ۔
وحدت نیوز(سرگودھا) مجلس وحدت مسلمین کی مرکزی پولیٹیکل کونسل کے کوآرڈینیٹر آصف رضاایڈووکیٹ نے گذشتہ روز سرگودھا میںاین اے 68سرگودھاسےمنتخب سابق رکن قومی اسمبلی سید نصرت علی شاہ سے ان کی رہائش گاہ پر ملاقات کی اور دنوں شخصیات کے درمیان قومی وبین الاقوامی صورت حال سمیت دو طرفہ دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال کیا گیا، آصف رضا نے سید نصرت علی شاہ کو مجلس وحدت مسلمین میں باقائدہ شمولیت کی دعوت دی اور کہاکہ ہماری خواہش ہے کہ آپ مجلس وحدت مسلمین کے پلیٹ فارم سے سیاسی جدوجہد اور عوامی خدمت جاری رکھیں ،اس موقع سید نصرت علی شاہ کا کہنا تھاکہ میں ذاتی طور پر ایم ڈبلیوایم کی جدوجہد سے بہت متاثر ہوں،شیعہ سنی یونٹی کے لئے ایم ڈبلیوایم کی کاوشیں قابل تحسین ہیں میں ہر سطح پر ایم ڈبلیوایم کے ساتھ تعاون کیلئے تیار ہوں فل وقت باقائدہ شمولیت سے قاصر ہوں انشاءاللہ جلد کوئی فیصلہ کرکے آپ کو آگاہ کروں گا۔
واضح رہے کہ سید نصرت علی شاہ ماضی میں قومی اسمبلی کی نشست حلقہ این اے 68سرگودھا سے آزاد حیثیت سے منتخب ہوئے تھے،جبکہ گذشتہ انتخابات میں انہوں نے اسی حلقے میں وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کے مقابل الیکشن لڑاتھا جس میں تیسری پوزیشن حاصل کی تھی،نصرت علی شاہ علاقے میں سماجی وسیاسی حوالے سے منفرد مقام رکھتے ہیں اور اچھی شہرت کے حامل فرد ہیں سب سے بڑھ کر مجلس وحدت مسلمین کی کارکردگی سے انتہائی متاثر ہیں ۔
وحدت نیوز (اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصرعباس جعفری نے لاپتہ سماجی کارکنوں اور دیگر افرادکی تاحال عدم بازیابی پر سخت تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ سپریم کورٹ اس لاقانونیت کا از خود نوٹس لے۔ریاست کے ہر شہری کی جان و مال کاتحفظ ریاست کی اولین ذمہ داری ہے۔اگر کوئی شخص قومی مفاد کے منافی کسی غیر قانونی سرگرمی میں ملوث ہو تو اس کے خلاف طے شدہ ضابطے کے مطابق کاروائی ہونی چاہیے۔اس ملک میں جنگل کا قانون نافذ نہ کیا جائے۔سپریم کورٹ متعلقہ انتظامیہ کو عدالت میں طلب کریں لاپتہ افراد کا سراغ چند دنوں میں مل جائے گا۔
انہوں نے وزیر داخلہ کی طرف سے کالعدم جماعت کے سربراہ کو تمام الزامات سے بری الذمہ قرار دیے جانے کو نیشنل ایکشن پلان کی توہین قرار دیتے ہوئے کہا کہ فقہی اختلافات اور چیز ہے اور اس اختلاف کی بنیاد پرکسی فرقہ پر تکفیر کا فتوی دینا الگ شے ہے۔وزیر داخلہ جس شخصیت کی وکالت کر رہے ہیں اس کے زیر قیادت اجتماعات میں نیشنل ایکشن پلان کی سرعام دھجیاں اڑائی جاتی ہے۔کافر کافر کے سرعام نعرے لگائے جاتے ہیں اور ان کے باقاعدہ عسکری ونگز ہونے کے باعث اس جماعت پر پابندی لگائی گئی۔حکومتی وزرا کی اس آشیرباد نے ان ملک دشمن عناصر کے حوصلے بلند کر رکھے ہیں۔انہوں نے کہا کہ وطن عزیز کو کسی بھی صورت تکفیری سٹیٹ نہیں بننے دیا جائے گاوزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کے واضح احکامات کے باوجود متعلقہ اداروں کا پیش و پس اس حقیقت کا بین ثبوت ہے کہ حکومتی وزرا کے احکامات اسٹیبلشمنٹ کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتے۔
انہوں نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان پر اس کی روح کے مطابق عمل کرتے ہوئے دہشت گردوں اور سہولت کاروں کے گرد گھیرا تنگ کیا جائے۔نیپ کے نام پر غریب کرایہ داروں کے خلاف ایف آئی آریں کاٹی جا رہی ہیں جبکہ تکفیری فکر کا سرعام پرچار کرنے والوں کو کھلی چھوٹ حاصل ہے۔انہوں نے کہا ذمہ دار ادروں کا یہ غیر سنجیدہ پن قانون و انصاف کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔انہوں نے مطالبہ کیا ہے نیشنل ایکشن پلان کے تمام نکات پر عمل کرایا جائے تاکہ ملک میں امن قائم ہو سکے۔
وحدت نیوز (اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے کہا ہے کہ ملکی ترقی کے حکومتی دعوے محض اخباری بیانات اور جلسوں تک ہی محدود دکھائی دے رہے ہیں۔سرکاری اداروں کا کوئی پُرسان حال ہیں۔ صحت،توانائی اور تعلیم سمیت بنیادی ضروریات کے تمام شعبے عوام کو سہولیات کی بجائے مشکلات سے دوچار کرنے میں مگن ہیں۔ملک کے بیشتر حصوں میں سوئی گیس کی عدم فراہمی ،طبی سہولتوں کے فقدان اور تعلیمی اداروں کی حالت زار نے عام عادمی کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے۔انہوں نے کہا کہ پُر تعیش سفری سہولیات کا نام ترقی نہیں بلکہ عام آدمی کے معمولات زندگی کو بہتر بنایا جائے۔جہاں عوام بھوک اور بے روزگاری سے تنگ آکر خودکشیاں کرنے لگے۔مائیں بچوں کو زہر دے کر خود بھی ابدی نیند سو جائیں۔جہاں عصمت دری کی شکار خواتین کو انصاف نہ ملنے پر خودکشی کرنا پڑے۔جہاں دودھ کے نام پر مُردوں کو حنوط کرنے والے کیمیکل سے تیار شدہ محلول فروخت ہوتا ہو ۔جہاں عوام کو حلال کی بجائے حرام جانوروں کا گوشت فروخت کیا جائے وہاں ترقی کے بلند و بانگ دعوے عوام کا تمسخر اڑانے کے مترادف ہے۔انہوں نے کہا کہ آئے روز لوگ لاپتا ہو رہے ہیں۔تحقیقاتی ادارے سمجھنے سے قاصر ہیں کہ اس کاروائی میں خفیہ ایجنسیاں ملوث ہیں یا کوئی دوسرا گروہ ایسے غیر قانونی عمل سے عوام میں بے چینی پیدا کر رہا ہے۔ملک کے حالات سے ایسا لگتا ہے جیسے یہاں قانون وانصاف کی بجائے اختیارات کی حکمرانی ہے۔
انہوں نے کہا کرپٹ حکمران کا واحد ہدف اقتدار کو بچانا ہے۔انہیں ملک کی عوام سے کوئی غرض نہیں۔سیاسی اشرافیہ نے ’’لوٹو اور لوٹنے دو کی پالیسی ‘‘ کو شعار بنا رکھا ہے۔اہم قومی اداروں کے قلمدان نااہل افراد کو محض اس لیے سونپے جا رہے ہیں تاکہ میڈیا میں حکومت کا بھرپور دفاع ہو سکے ۔انہوں نے کہا کہ حکومت کو اگر’’ ذاتی کاموں‘‘ سے فرصت ملے تو قومی امور پر بھی توجہ دے۔ سکولوں اور ہسپتالوں کی حالت کو بہتر بنایا جائے۔ پڑھے لکھے بے روزگار افراد کو باوقار روزگار فراہم کرنابھی ریاست کی ہی ذمہ داری ہے
وحدت نیوز (گلگت) دوران حراست نوید حسین قیدی کو اے ٹی کے جج جمشید جدون کاقاتل قرار دیکر پھانسی دینا سمجھ سے بالاتر ہے ۔نوید حسین کو وزیر اعظم پاکستان سے رحم کی اپیل کے حق سے محروم رکھ کر اڈیالہ جیل کے ذمہ داران جرم کے مرتکب ہوئے ہیں ،ظلم و ناانصافی کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرینگے۔
مجلس وحدت مسلمین گلگت بلتستان کے ڈپٹی سیکریٹری جنرل ڈاکٹر علی گوہرنے کہا ہے کہ دنیا کی تاریخ میں یہ ایک انوکھی مثال رقم کی گئی کہ ایک قیدی جو قتل کے وقوعہ کے دوران جیل میں ہے اور پولیس تفتیش میں اس قیدی کو مجرم ٹھہرایا جاتا ہے جو پہلے سے ہی جیل میں ہے اور اس قتل میں شریک دوسرا کوئی ملزم بھی نہیں۔یہ کیسی عدالتیں ہیں جو ایک قیدی پر ایک ایسے قتل میں مجرم قراردیکر پھانسی کی سزا سنادیتے ہیں جبکہ وقوعہ کے دوران قاتل جیل میں ہوتا ہے۔انسانی حقوق کی تنظیموں،میڈیا کے ذمہ داروں اور سول سوسائٹی کے نمائندوں کیلئے یہ ایک چیلنج ہے کہ وہ اس ظلم و ناانصافی کے خلاف کس حد تک اپنی ذمہ داریاں ادا کرتے ہیں۔سپریم کورٹ ایک عورت کو تھپڑ مارنے پر تو سوموٹو ایکشن لیتی ہے لیکن ایک بے گناہ انسان کو پھانسی دینے پر کوئی ایکشن نہیں لیتی اور کیا ایسے جج کو انصاف کی کرسی پر بٹھانا انصاف اور قانون کا قتل نہیں۔انہوں نے کہا کہ اس ظلم و ناانصافی کے خلاف ہرسطح پر آواز بلند کی جائیگی ۔
انہوں نے کہا کہ گورننس آرڈر 2009 کے تحت گلگت بلتستان کے عوام کو وزیر اعظم سے اپیل کا حق دیا گیا ہے اور اس قانون کو اڈیالہ جیل کے حکام کے نوٹس میں لانے کے باوجود نوید حسین کو اس حق سے محروم رکھ کر مجرمانہ غفلت کے مرتکب ہوئے ہیں ۔جیل حکام کے اس مجرمانہ غفلت کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی جائیگی۔