لال مسجد اتنی طاقتور نہیں بلکہ ہمارے حکمران بزدل ہیں،علامہ اصغر عسکری کا بین الاقوامی خبررساں ادارے کو انٹرویو

29 February 2016

وحدت نیوز(مانٹرنگ ڈیسک) علامہ اصغر عسکری کا بنیادی تعلق جنوبی پنجاب کے ضلع بھکر سے ہے، ان کا شمار ملک کے متحرک اور فعال علمائے کرام میں ہوتا ہے، انہی خدمات کے نتیجے میں انہوں نے قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں، اس وقت وہ انچارج مرکزی سیکرٹریٹ ایم ڈبلیو ایم اور مجلس وحدت مسلمین پنجاب کے ترجمان کی حیثیت سے اپنی ملی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں، جبکہ جامع الرضا(ع)اسلام آباد میں مدرس کے فرائض بھی سرانجام دے رہے ہیں، اسلام ٹائمز نے داعش کی پاکستان میں موجودگی، لال مسجد، دہشت گردی اور دیگر اہم موضوعات سے متعلق علامہ اصغر عسکری کا انٹرویو کیا، جو قارئین کے پیش خدمت ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: شہید باقر النمر نفس ذکیہ کے قتل پر پاکستان میں احتجاج کم ہوا، شہید کا چہلم بھی خاموشی سے گزر گیا، کیا وجوہات ہیں۔؟
علامہ اصغر عسکری: شہید باقر النمر ایک آفاقی شخصیت تھے اور ان کی سعودی عوام کے حقوق کے لئے بھرپور جدوجہد انکے بلند ویژن کی علامت ہے۔ دنیا بھر میں ان کا بھرپور تعارف تھا، اسی لئے ان کی شہادت پر امریکن صدر بھی بیان دینے پر مجبور ہوتا ہے اور برطانیہ کا وزیراعظم بھی مذمتی بیان جاری کرتا ہے۔ جہاں تک پاکستان میں اس سانحے پر احتجاج کی بات ہے، تو میرے خیال میں تقریبا ملک کے تمام بڑے شہروں میں بھرپور احتجاج ہوئے اور اسلام آباد میں ایک ہفتہ کے اندر تین بڑی ریلیاں ہوئیں۔ اگرچہ آپ کی بات درست ہے کہ جس سطح پر احتجاج ہونا چاہئے تھا، وہ نہیں ہو پایا۔ تمام شیعہ جماعتیں اگر اپنی ذمہ داری ادا کرتیں تو شاید اس سے بڑھ کر احتجاج ہوسکتا تھا۔ جہاں تک چہلم کی بات ہے تو تعزیتی ریفرنس بہت سے شہروں میں ہوئے کراچی، لاہور، فیصل آباد، ملتان اور اسلام آباد وغیرہ میں ایک لمبی لسٹ ہے ہمارے پاس، چونکہ ہم نے ایم ڈبلیو ایم کے مرکزی سیکرٹریٹ سے تمام اضلاع میں رابطے کئے، ہمارے علم میں ہے کہ کہاں کہاں شہید باقر النمر کو خراج تحسین پیش کیا گیا۔ اسلام آباد، لاہور، کراچی میں اس حوالے سے بہت بڑے بڑے اجتماعات ہوئے۔ جس میں شہید کی شخصیت کو خراج تحسین پیش کیا گیا۔

اسلام ٹائمز: پاکستانی فوج سعودی اتحاد میں شامل ہے، اور آئندہ دنوں میں چونتیس ملکوں کے اتحاد میں اہم کارروائیاں بھی کرسکتی ہے۔ مجلس وحدت مسلمین کا کیا ردعمل ہے۔؟
علامہ اصغر عسکری: دیکھئے! 34 ممالک کے اتحاد کا ڈرامہ اب دنیا کے سامنے آچکا ہے۔ سعودی حکومت اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے۔ ورنہ دنیا کو معلوم ہے کہ جس اتحاد میں دہشت گردی اور داعش کے خلاف فرنٹ لائن پر جو ممالک ہیں، اس کا انجام کیا ہوسکتا ہے اور وہ اتحاد کس حد تک چل سکتا ہے۔ ابھی کل کی خبر ہے کہ متحدہ عرب امارات نے یمن سے اپنی فوجیں واپس بلانے کا اعلان کیا ہے، چونکہ ان کو بہت زیادہ نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ پھر دوسری بات یہ ہے کہ سعودیہ پہلے یمن کی جنگ سے تو نکلے، پھر شام جانے کی بات کرے۔ یمن کے انصار اللہ ہی سعودی حکومت کے خاتمے کا باعث بنیں گے اور جہاں تک پاکستان کی بات ہے تو پاکستانی حکومت بھی سمجھتی ہے کہ اس اتحاد کا حصہ بننے کی کھل کر بات نہیں کی۔ چونکہ پاکستان جانتا ہے کہ افغان وار میں جا کر اسے کتنا بڑا نقصان اٹھانا پڑا۔ ہاں ملکوں کے آپس میں دفاعی معاہدے ہوتے ہیں۔ سعودیہ کے ساتھ پاکستان کے کچھ دفاعی معاہدے ہیں۔ فوجی تربیت ہے، وغیرہ وغیرہ۔ اگر حکومت پاکستان اس اتحاد کا باقاعدہ حصہ بن کر شام کے خلاف کارروائی کی حمایت کرتی ہے تو اس کے خلاف نہ صرف مجلس وحدت مسلمین بلکہ پاکستان کی عوام بھرپور احتجاج کرے گی۔ کیونکہ ملکی مفاد ہمیں سب سے زیادہ عزیز ہے اور اس پر کبھی سودے بازی نہیں کرنے دیں گے۔

اسلام ٹائمز: پاک فوج دہشتگردوں کیخلاف پرعزم ہے لیکن دہشتگردی کا عفریت ختم ہونیکا نام نہیں لے رہا، گذشتہ دنوں جامع القائم ٹیکسلا پر بھی دہشتگردانہ حملے کی کوشش کی گئی، کیا حکمت عملی ہونی چاہیے۔؟
علامہ اصغر عسکری: اس میں کوئی شک نہیں کہ ضرب عضب نے دہشت گردوں کی کمر توڑ دی ہے اور دہشت گردوں کو چھپنے کی جگہ نہیں مل رہی، مگر صرف فوج کافی نہیں ہے بلکہ حکومت اور عوام کو بھی ساتھ دینا ہوگا۔ نیشنل ایکشن پلان کے 22 نکات پر کتنی سنجیدگی سے عمل ہوا ہے؟ ایک اہم سوال ہے؟ ہمارے وزیر داخلہ صاحب اعتراف تو کرتے ہیں کہ بعض مدارس میں دہشت گردی میں ملوث ہیں، مگر ان مدارس میں سے کسی ایک مدرسہ کے خلاف کوئی کارروائی ہوئی؟ اس مائنڈ سیٹ کو ختم کرنا یہ فوج کا نہیں بلکہ حکومت کا کام ہے۔ آج بھی انہیں مدارس میں دوسرے مسالک کے لوگوں کا کفر پڑھایا جا رہا ہے اور پھر اس میں علما و مفتیاں کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ کالعدم جماعتوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی، بلکہ ملک کی بعض سیاسی و مذہبی جماعتیں انہیں اپنے ساتھ بٹھاتی ہیں۔ ان سے تعاون کرتی ہیں۔ تو جب تک یہ تمام طبقات اپنی ذمہ داریاں ادا نہیں کریں گے، پاکستان میں امن ایک خواب رہے گا۔

اسلام ٹائمز: جنوبی پنجاب میں ٹارگٹڈ آپریشن کی بات کی گئی، تاہم عمل درآمد نظر نہیں آرہا، کیا کہیں گے۔؟
علامہ اصغر عسکری: جنوبی پنجاب دہشت گردوں کا گڑھ ہے، کے پی کے، کراچی، اندورن سندھ بلکہ بلوچستان میں جہاں جہاں دہشت گردی ہو رہی ہے۔ اس کے دہشت گردوں کا تعلق جنوبی پنجاب سے ہوتا ہے، لیکن حکومت چونکہ سنجیدہ نہیں ہے، خاص طور پر پنجاب حکومت کو اپنے اقتدار سے سروکار ہے۔ عوام مرتی ہے تو مرتی رہے۔ یہ ان کا مسئلہ نہیں، ہاں جس دن یہ دہشت گرد ان حکمرانوں کو آنکھیں دکھاتے ہیں اور انکے لئے خطرہ بنتے ہیں تو پھر وہ انکو مار بھی دیتے ہیں، جیسے ملک اسحاق کو مارا گیا۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ آج تک کسی حکومت کی ترجیج کبھی عوام رہی ہی نہیں ہے بلکہ اپنے مفادات کے لئے اس ملک میں سیاست ہوتی ہے۔ ہمارا ہمیشہ مطالبہ رہا ہے کہ جنوبی پنجاب اور اندرون سندھ میں بھی ٹارگٹڈ آپریشن کیا جائے۔ جب تک ان علاقوں میں آپریشن نہیں ہوگا۔ دہشت گردی کا خاتمہ ممکن نہیں ہے اور یہاں آپریشن نہیں ہوگا کیونکہ حکومت کے بعض وزرا کے ان دہشت گردوں سے رابطے ہیں اور وہ ان کی سرپرستی کرتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: لال مسجد مافیا اس قدر طاقتور کیوں ہے کہ وزیر داخلہ بھی کوئی اقدام اٹھا نہیں پا رہا۔؟
علامہ اصغر عسکری: دیکھئے! لال مسجد کے خلاف کیوں کارروائی نہیں کی جاتی، آج حکمرانوں سے پاکستان کی پوری عوام کا یہی سوال ہے کہ کیا وجہ ہے وزیر داخلہ صاحب ایک طرف تو کہتے ہیں کہ مولانا عبدالعزیز کے خلاف کوئی FIR نہیں ہے، ہوگی تو کاروائی کریں گے اور جب FIR کا ریکارڈ دیا جاتا ہے تو پھر نہ صرف کوئی کارروائی نہیں ہوتی بلکہ اسلام آباد کی انتظامیہ کے لوگ رات کی تاریکی میں مولانا کو تھانے لاتے ہیں، تاکہ FIR ختم کرائی جا سکے، جبکہ کسے نہیں پتہ کہ لال مسجد نے دہشت گردوں کو نہ صرف پناہ دی بلکہ ان کی حوصلہ افزائی بھی کی ہے۔ اس مائنڈ سیٹ کو بنانے اور باقی رکھنے میں لال مسجد کا کردار ہے۔ ملک کے آئین کو وہ تسلیم نہیں کرتے۔ ان کے خلاف تو غدارِ وطن کا مقدمہ چلنا چاہئے۔ میں سمجھتا ہوں کہ لال مسجد اتنی طاقتور نہیں بلکہ ہمارے حکمران بزدل ہیں، ورنہ حکومتوں کے پاس بڑی طاقت ہوتی ہے۔ ہمارے حکمرانوں کو اپنا مفاد اور اپنا اقتدار عزیز ہے، وہ کبھی کسی ایسی مشکل میں نہیں پڑنا چاہتے، جس سے انکے اقتدار اور مفاد کو ذرہ برابر خطرہ ہو۔

اسلام ٹائمز: وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کئی پریس کانفرنسز میں بارہا کہہ چکے ہیں کہ پاکستان میں داعش کا کوئی وجود نہیں، آپ اس حوالہ سے کیا موقف رکھتے ہیں۔؟
علامہ اصغر عسکری: دیکھئے! اب میڈیا اتنا آزاد ہے کہ لوگوں کو دھوکہ نہیں دیا جاسکتا۔ وزیر داخلہ کا یہ بیان کہ داعش کا پاکستان میں وجود نہیں ہے، حقیقت میں اپنی نااہلی چھپانے کے لئے ہے، ورنہ کون نہیں جانتا کہ سب سے بڑا سپورٹر خود مولوی عبدالعزیز ہے اور پھر پاکستان بھر میں جو لوگ ابو بکر بغدادی کو ویلکم کہہ رہے ہیں اور داعش کی وال چاکنگ کر رہے ہیں، یہ کون ہیں؟ ہمارے حکمران کہتے ہیں کہ یہ کالعدم جماعتیں ہیں، باقاعدہ کوئی داعش کا سٹریکچر نہیں ہے۔ یہ دھوکہ دینے کے مترادف ہے۔ داعش ایک آئیڈیالوجی کا نام ہے۔ جو لوگ بھی اس آئیڈیالوجی کے حامی ہیں، وہ داعش ہیں۔ اگرچہ وہ اپنے آپ کو داعش سے منسلک نہ کرتے ہوں۔ اصل وجہ وہی ہے جس کی طرف میں نے اشارہ کیا کہ اگر وزیر داخلہ صاحب یہ مان بھی لیں کہ پاکستان میں داعش کا وجود ہے، تو پھر خود ان کی کارکردگی زیر سوال آتی ہے اور کبھی اس کو ماننے کے لئے تیار نہیں ہونگے۔ بہرحال جس دن ہمارے حکمران ان دہشتگردوں کے خلاف سنجیدہ ہوگئے، تو پھر ملک میں امن قائم ہو جائے گا۔ جن لوگوں کو پھانسی دی گئی ہے، آپ لسٹ اٹھا کر دیکھیں 360 افراد میں سے صرف 25 فیصد دہشت گرد تھے، ورنہ تو عام ذاتی جھگڑوں میں جو لوگ ملوث تھے، ان کو پھانسی ہوئی ہے۔



اپنی رائے دیں



مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree