وحدت نیوز(آرٹیکل) مقتول بہت براتھا، وہ ملحد، مشرک ، ناصبی اور بدبخت تھا، اس پر یہ بھی الزام ہے کہ اس نے روس سے سول انجئیرنگ کی تعلیم بھی حاصل کی تھی لہذا وہ کافر بھی تھا، اس کے ملحد ہونے ہونے کے لئے یہ بھی کافی ہے کہ وہ کسی دینی تنظیم کا ممبر بھی نہیں تھا، الغرض وہ چرس پیتا تھا، نشہ کرتا تھا، شراب فروخت کرتا تھا۔۔۔ یہ بھی اہم بات ہے کہ مشال خان کے موبائل اورسوشل میڈیاسے کوئی توہین آمیزموادبرآمدنہیں ہوا،[1] تاہم پھر بھی آپ جو چاہیں اس کے بارے میں کہہ لیں۔
اب جنہوں نے اسے قتل کیا ہے ، ان کی اسلام دوستی، شرافت اور ان کے مہذب ہونے کا اندازہ آپ اس کےقتل کی ویڈیو دیکھ کر خود سے لگا لیجئے!؟ ہر باشعور انسان جب اس ویڈیو کو دیکھتا ہے تو اسے خود بخود یہ اندازہ ہوجاتا ہے کہ اس کے قاتل کتنے ، مہذب، اسلام پسند اور شریف شہری ہیں۔
دوسری طرف سیکورٹی اداروں کی بے بسی اور بے حسی کو اپنی جگہ رہنے دیجئے ، افسوس کی بات تو یہ ہے کہ اس ملک کی اہم سیاسی و سماجی شخصیات نے بھی اس قتل کے بعد کسی ذمہ داری کا مظاہرہ نہیں کیا۔ عمران خان سمیت اکثر شخصیات نے صرف زبانی کلامی مذمت پر ہی اکتفا کیا ہے اور کسی نے مقتول کے جنازے میں شریک ہونے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق ، مشال خان پر توہین مذہب کا الزام لگانے والوں نے ہاسٹل کے جس کمرے میں اسے گولی ماری اور تشدد کیا، اس کمرے کی دیوار پر مشال خان نے خود لکھ رکھا ہے کہ ’’اللہ سب سے بڑا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے رسول ہیں‘‘۔[2]
اب قاتلوں کی اسلام پسندی اور منصف مزاجی کا اندازہ اس سے بھی لگا لیجئے کہ مشال کے قتل کے بعد اس کی یونیورسٹی سے اس کی معطلی کا نوٹیفکیشن سامنے آ گیا۔ نوٹیفکیشن پر قتل کے دن کی ہی تاریخ لکھی ہے۔ تفتیش کاروں کیلئے سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اسی نوٹیفکیشن نے طلبہ کو مشتعل کیا؟
اگر مشال نے توہین کی تو تفتیش سے پہلے معطل کیسے کر دیا گیا؟ ایک دوسرا نوٹیفکیشن بھی اسی روز جاری کیا گیا جس میں کہا گیا کہ مشال کو معطل نہیں کیا کیا گیا بلکہ اس کے دو ساتھیوں کو معطل کیا گیا ہے۔
قابلِ ذکر ہے کہ مشال نے کچھ ماہ پہلے اپنے فیس بک اکائونٹ پر لکھا تھا کہ کسی نے اس کا جعلی فیس بک اکائونٹ بنا رکھا ہے۔ جعلی اکائونٹ سے گستاخانہ پوسٹ مشال کے قتل کے کئی گھنٹے بعد کی گئی۔ مشال زندہ ہی نہیں تھا تو اس کے جعلی اکائونٹ سے کس نے پوسٹ کی؟[3]
اگر قاتل اپنے دعووں میں سچے ہوتے تو تب بھی ان کے پاس قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کا کوئی جواز نہیں تھا اور قتل کی واردات کے بعد جعلی نوٹیفکیشنز کا جاری کروانا اور اس کے جعلی اکاونٹ سے گستاخانہ پوسٹس کا کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ قاتل کتنے سچے اور اسلام پسند ہیں۔
دوسری اہم بات یہ ہے کہ حملہ آوروں میں یونیورسٹی کے اسٹاف کے لوگ بھی موجود تھے، اسٹاف کے لوگوں کا شامل ہونا اس بات کی واضح اور شفاف دلیل ہے کہ اس کے قتل کا فیصلہ کہیں اور کیا گیا ہے۔[4]
تیسری اہم بات یہ ہے کہ مشال کو کمرے میں دو گولیاں مار کر پھر گھسیٹ کر باہر لایا گیا اور اس کے بعد مجمع عام نے اللہ اکبر کے نعرے لگاکر ثواب حاصل کیا۔ قاتل نے پہلے گولیاں ماریں اور پھر مجمع عام اس پر کود پڑا ، یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اتنے لوگوں کو پہلے سے ہی اس کام کے لئے ذہنی طور پر تیار کیا گیاتھا۔ اتنے لوگوں کا لاش کو زدوکوب کرنا اور اس پر کودنا یہ بتا رہا ہے کہ یہ کسی مشتعل شخص کی کارروائی نہیں بلکہ ایک پلاننگ کا نتیجہ ہے۔
اس طرح بلوہ عام میں لوگوں کا کسی شخص کو پیٹ پیٹ کر ماردینا اور قانونی اداروں کا اپنے آپ کو بے بس ظاہر کرنا، اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ ہمارے ملک میں قانون کے ہاتھوں سے بڑا ایک ہاتھ موجود ہے جو قانون کے ہاتھوں پر بھی اپنی گرفت رکھتا ہے۔
وہ ہاتھ اتنا طاقتور ہے کہ ہمارے سیکورٹی ادارے اس کی گرفت کے باعث بالکل بے بس ہیں، یوں تو یہ سب کو معلوم ہے اور ایک عام آدمی بھی جانتا ہے کہ یونیورسٹیوں میں کس کے قبضہ گروپس ہیں اور کون شدت پسندوں کو پال رہاہے!؟
دودھ بیچنے والے گامے سے لے کر ریڑھی لگانے والے جورے تک ،سب کو پتہ ہے کہ کون یونیورسٹیوں میں داعش اور طالبان کی فکر کو در آمد کر رہاہے، کس کے ہم فکر افراد یونیورسٹیوں کے سٹاف میں بیٹھ کر نہتے طالب علموں کا استحصال کرتے ہیں!؟ کون قانون کا لٹیرا ہے، کون دہشت گردوں کے لئے فنڈنگ کرتا ہے؟ کون ہے جو نعرہ تکبیر اور اللہ اکبر کے نعرے لگا کر قانون، مذہب اور لوگوں کی جانوں سے کھیلتا ہے!؟ کون طلبا سے طاقت اور دھونس کی زبان میں بات کرتا ہے، کون تعلیمی اداروں میں کلنک کا ٹیکہ ہے۔۔۔ سب جانتے ہیں لیکن اگر نہیں پتہ تو ہمارے سیکورٹی اداروں کو نہیں پتہ۔
سیانے کہتے ہیں کہ آپ ایک عدد گاجر لے کر اس کے دوٹکڑے کر لیں، ایک ٹکڑے کو پانی اور چینی کے شیرے میں ڈال کر رکھ دیجئے اور دوسرے کو پانی اور نمک کے محلول میں رکھ دیجئے، کچھ عرصے کے بعد ایک ٹکڑا مربّے میں اور دوسرا اچار میں تبدیل ہو جائے گا ۔ گاجر ایک ہی تھی لیکن ماحول کا اختلاف اس کے ذائقے اور تاثیر کو تبدیل کردے گا۔
اگر ہم چاہتے ہیں کہ اپنی آئندہ نسلوں کو دہشت گردی سے پاک ، پاکستان ورثے میں دیں اور اپنے ملک کی حقیقی معنوں میں حفاظت کریں تو ہمیں اپنی یونیورسٹیوں کے ماحول کو شدت پسندی سے پاک کرنا ہوگا اور یونیورسٹیوں کے اسٹاف میں موجود، طالبان اور داعش کی ہم فکر کالی بھیڑوں کے خلاف بھی سخت قانونی کارروائی کرنی ہوگی۔
تحریر۔۔۔نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.