وحدت نیوز(آرٹیکل) زندگی ہرجاندار کو پیاری ہے، انسان تو اپنی زندگی کے ساتھ ساتھ دیگر جانداروں کی زندگی کے تحفظ کے لئے بھی پریشان رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ انسان جنگلی حیات کی حفاظت کے لئے کانفرنسیں کرتا ہے اور آبی حیات کے تحفظ کے لئے منصوبے بناتا ہے، اسی طرح عالمی برادری کسی قوم کو دوسری قوم پر شبخون مارنے اور جارحیت کرنے کی اجازت نہیں دیتی، بین الاقوامی برادری ، جنگی قیدیوں کی فلاح و بہبود کے لئے قوانین وضع کرتی ہے اور سزائے موت کے حقدار افراد کے لئے بھی انسانی حقوق کی پاسداری کی بات کرتی ہے۔
یہ تصویر کا ایک رخ ہے ، جبکہ دوسرا رخ یہ ہےکہ جنگلی حیات کے تحفظ کے لئے کانفرنسیں کرنے والے وزیر اور مشیر ہی جنگلی جانوروں کے شوقین نظر آتے ہیں اور حکمران اپنے شوق پورے کرنے کے لئے جنگلی حیات کے قوانین سے کھیلتے ہوئے نظر آتے ہیں، ہم ماضی کی باتیں نہیں کرتے ، ابھی دسمبر ۲۰۱۶ کی بات ہے کہ جب میڈیا کے مطابق کھپرو میں 50کلو میٹر دور اچھڑو تھر کے علاقے رانا ہوٹرمیں متحدہ عرب امارات کے شہزادے شیخ سلطان بن خالد النیہان، شیخ سلطان بن محمد النیہان، شیخ احمد بن سلیم اور شیخ حمدان بن محمد النیہان ذاتی عملے کے ہمراہ تلور کا شکار کرنے رینجرز اور پولیس کے سخت سیکیورٹی میں 20سے زائد خیموں کے شہر میں پہنچ گئے، علاقے میں ایک کلو میٹر سے زائد رقبے پر خیموں کا شہر آباد کرکے مکمل طور پر سیل کر دیا گیا ۔[1] یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ سعودی شاہی خاندان کے افراد بلوچستان میں نایاب پرندے تلور کے شکار کی غرض سے دالبندین کے ایئر پورٹ پہنچے،جہاں صوبائی وزراء اور سینیئر سرکاری افسران نے ان کا استقبال کیا۔ یاد رہے کہ سائبیریا سے ہجرت کرکے آنے والے نایاب پرندے تلور کی نسل کو معدومی سے بچانے کے لئے بلوچستان ہائی کورٹ نے نومبر 2014ء میں عرب شیوخ کو شکار گاہیں الاٹ کرنے کے اقدام کو غیر قانونی قرار دیا تھا۔[2] ایک نجی نیوز چینل کے ایک پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے معروف تجزیہ نگار حامد میر کا کہنا تھا کہ قطری شہزادے تلور کا فقط شکار نہیں کرتے بلکہ یہ لوگ جن مقاصد کے لیے تلور کھاتے ہیں بعد میں ان مقاصد کی تکمیل کے لیے کچھ اور کام بھی کرتے ہیں.میں جو غیرت اور عزت کی بات کی ہے، آپ سمجھنے کی کوشش کریں میں کھلے الفاظ استعمال نہیں کرسکتا۔ یہ حامد میر کے الفاظ ہیں کہ قطری شہزادوں کے پاکستانی میزبان صرف ان کے لیے تلور کے شکار کا بندوبست نہیں کرتے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اپنی عزت اور غیرت کے شکار کا بندوبست بھی کرتے ہیں۔[3]
یہاں قانون سے کھیلنے والے طالبان یا داعش نہیں تھے بلکہ ہمارے حکمران تھے، اسی طرح طالبان یا داعش کی دہشت گردی کو چھوڑیے اور اپنے تعلیم یافتہ اور روشن فکر کہلانے والوں کی دہشت گردی کی فکر کیجئے، لاہور میں کتنے ہی عرصے تک ڈاکٹر حضرات لوگوں کو زبردستی جعلی سٹنٹ ڈالتے رہے ہیں، یہ دکھ اپنی جگہ ابھی باقی ہے کہ یہ بھی انکشاف ہو گیا ہے کہ لاہور میں ڈاکٹر حضرات نے لوگوں کو اغوا کر کے ان کے گردے بھی نکال کر بیچنے شروع کر دئیے ہیں۔ تفصیلات کے مطابق ۳۰ اپریل ۲۰۱۷ کو ایف آئی اے کی ٹیم نے چھاپہ مارا تو اس وقت دو شہریوں کے گردے نکال کر بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ڈالے جا رہے تھے ۔جن دو شہریوں کی گردے نکالے گئے انہوں نے انکشاف کیا ہے کہ ڈاکٹروں نے اغوا کرکے زبردستی گردہ نکالا ۔[4]یہ ہیں ہماری یونیورسٹیاں اور ان سے پڑھ کر نکلنے والے مسیحا۔
اس سے ہمیں اندازہ ہوجانا چاہیے کہ دینی مدارس کو دہشت گردی کے مراکز میں تبدیل کرنے کا اصلی سہرا انہی روشن فکر لوگوں کے سر جاتا ہے جو اپنے مفادات کے لئے دینی مدارس کو بھی استعمال کرتے ہیں۔
اس کے بعد شبخون مارنے اور جارحیت کے حوالے سے آج ہم فلسطین اور کشمیر کی بات نہیں کریں گے بلکہ اپنے ہاں مردان یونیورسٹی میں مشال خان کے قتل کی ویڈیو ہی دیکھ لیجئے ، اس سے آپ کو بخوبی اندازہ ہو جائے گا کہ اپنے آپ کو مہذب کہنے اور سمجھنے والے دوسروں کے خلاف کس طرح طاقت کا ستعمال کرتے ہیں، اب تک کی اطلاعات کے مطابق مشال خان قتل کیس میں پولیس نے رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کردی ہے لیکن اس سے پہلے با اثر لوگوں اور ان کے بچوں اور عزیزوں کے نام کیس سے خارج ہو چکے ہیں۔مشال خان کیس میں اب زیادہ تر کرائے کے قاتل ہی رہ گئے ہیں۔
ہمارے تعلیمی ا داروں میں صرف صرف مشال خان جیسے لوگ ہی نہیں مارے جاتے بلکہ یہ فروری ۲۰۱۷ کی بات ہے کہ کیڈٹ کالج لاڑکانہ کے 14 سالہ طالب علم محمد احمد کو استاد نے اس قدر تشدد کا نشانہ بنایا کہ وہ مکمل ذہنی صلاحیت سے محروم ہوگیا ۔یہ کسی عام ادارے کی بات نہیں بلکہ ایک کیڈٹ کالج کی روداد ہے۔
بات کیڈٹ کالج کی ہوئی ہے تو کچھ ذکر سولجر بورڈ کا بھی کر لیتے ہیں، اس ادارے کا ایک اہم کام ریٹائرڈ فوجی حضرات کے بچوں کو سکالر شپ دینا بھی ہے۔ریٹائرڈ ہونے والےچھوٹی سطح کے فوجی حضرات کے بچوں کے نصیب میں سکالرشپ فارم آتے ہی نہیں۔ انہیں کبھی یہ کہا جاتا ہے کہ ابھی فارم ختم ہوگئے ہیں اور کبھی یہ کہا جاتا ہے کہ اب تو تاریخ ختم ہو گئی ہے۔خصوصا آزاد کشمیر میں تو کسی بڑے افیسر کی سفارش کے بغیر کسی عام فوجی کے بچے کا سکالرشپ لگ ہی نہیں سکتا۔
اب جہاں تک انسانی حقوق کی پاسداری کی بات رہ گئی ہے تو تحریک طالبان پاکستان اور جماعت الاحرار کے ترجمان احسان اللہ احسان کے اعترافی بیان کو ہی اپنے سامنے رکھ لیں۔ احسان اللہ احسان نے اپنے اعترافی بیان میں کوئی نئی بات نہیں بتائی ،موصوف نے وہی کچھ کہا ہے کہ جو سب کو پتہ ہے، ویسے بھی اس کے پاس ایسی کوئی بات نہیں جو ہمارے سیکورٹی اداروں کو پتہ نہیں۔۔۔
احسان اللہ احسان جیسے لوگ تو نہ تین میں ہیں اور نہ تیرہ میں ۔ اصل میں تو وہ لوگ حقیقی دہشت گرد ہیں جودہشت گردوں کی سرپرستی کررہے ہیں اور ان کے لئے اسمبلیوں اور سرکاری پوسٹوں پر بیٹھ کر سہولت کاری کا فریضہ انجام دے رہے ہیں، اس وقت ہماری حکومت، احسان اللہ احسان کو خواہ مخواہ ایک سیڑھی کے طور پر استعمال کر کے دہشت گردوں کو اسمبلیوں تک پہنچانے کے لئے زور لگا رہی ہے۔
یہ خود ہمیں سوچنا چاہیے کہ دہشت گردوں نے آخر پاکستانیوں کی ایسی کیا خدمت کی ہے کہ جس کی وجہ سے انہیں ہیرو بنا کر پیش کیا جا رہاہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ احسان اللہ احسان کو سزائے موت یا فلاں سزا دی جائے بلکہ میں آپ کی توجہ اس طرف دلانا چا رہاہوں کہ جو کچھ ہماری سادگی کے ساتھ ہو رہا ہے۔
راقم الحروف کے مطابق احسان اللہ احسان جیسے لوگوں کا جرم فقط دہشت گردی نہیں ہے بلکہ توہینِ اسلام اور توہین رسالت ان کا اصلی جرم ہے ، انہوں نے مساجد میں نمازیوں کو شہید کر کے اور بے گناہ لوگوں کو دھماکوں میں اڑا کر دنیا میں اسلام اور پیغمبر اسلامﷺ کی تعلیمات کو عملی طور پر مسخ کر کے شانِ رسالت میں عظیم گستاخی کی ہے۔ حقیقی معنوں میں توہین رسالت تو یہ ہے جو احسان اللہ خان اور ان کے ہمنوا کرتے چلے آرہے ہیں۔
جس طرح یہاں لاکھوں روپے کے نادہندگان اسمبلیوں میں پہنچ جاتے ہیں اسی طرح لاکھوں بے گناہ انسانوں کے قاتلوں اور توہینِ رسالت و توہین اسلام کرنے والوں کے لئے بھی ہماری اسمبلیوں کے دروازے کھلے ہوئے ہیں۔ دہشت گردوں اور کرپشن کرنے والوں کے سہولت کار سرکاری پوسٹوں پر بیٹھ کر بڑے آرام سے اپنا کام انجام دے دے رہے ہیں۔
اب دوسری طرف ہمارے ہاں پائے جانے والے دینی شعور کا اندازہ بھی لگائیے! بڑی بڑی مساجد اور دینی مدارس سے مزیّن، ہمارے معاشرے میں اسلامی تعلیمات اور دینی شعور کا یہ عالم ہے کہ ایک فرقے یا مسلک کا آدمی اب دوسرے فرقے یا مسلک کی مسجد میں نماز نہیں پڑھ سکتا۔
عید فطر کے موقع پر صدقہ و خیرات کے ریکارڈ قائم کرنے والے ملک میں اور عید قربان کے ایام میں دل کھول کر قربانیاں دینے والے دیس میں، صرف چند روز پہلے طارق نامی شخص، حالات سے تنگ آکر اپنے پانچ بچوں سمیت زہر کھا کر خود کشی کر لیتا ہے۔ پولیس کے مطابق ہلاک ہونے والے بچوں میں 4 بچیاں اور 1 بچہ شامل ہے جن کی عمریں 5 سے 12 سال کے درمیان ہیں۔
طارق کی بیوی صائمہ ایک سال قبل خلا لے کر اپنے میکے چلی گئی تھی اور اس نے دوسری شادی کر لی تھی،طارق خود اپنے بچوں کی کفالت کرتا تھا اور بچوں کی وجہ سے فکر مند رہتا تھا۔ طارق کی اہلیہ نے ایک سال قبل اس سے خلع لی تھی جس کی وجہ سے گھر میں ناچاقی تھی، دوسری جانب محمد طارق کا اپنے بھائی اور بھابھیوں سے بھی جھگڑا رہتا تھا جبکہ اس کے مالی حالات بھی ٹھیک نہیں تھے۔
ہر مہینے میں ہمارے معاشرے میں کئی طارق خودکشیاں کرتے ہیں، یہ خود کشیاں دینی مدارس و مساجد اور یونیورسٹیوں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہیں۔ ان خود کشیوں سے پتہ چلتا ہے کہ ہمارے ملک میں تعلیمی ادارے خواہ مدارس ہوں یا یونیورسٹیاں، عوام میں محبت، اخوت، بھائی چارہ ، صلہ رحمی ، برداشت اور صبر و تحمل پیدا کرنے میں ناکام ہو چکے ہیں۔
بدقسمتی سے بعض تعلیمی اداروں نے لوگوں کو اچھا انسان اور مسلمان بننے کے بجائے ، اسلحے سے مسلح کیا ،عدمِ برداشت سکھائی اور پیسہ کمانے کی مشین بنا دیا۔
جس معاشرے میں لوگوں کے ساتھ ہر طرف فراڈ ہو رہا ہو، پارٹیوں کے انتخابی منشور فقط الفاظ تک محدود ہوں، میرٹ کے بجائے رشوت سے نوکریاں ملتی ہوں اور دھونس دھاندلی سے کام چلتا ہو، قانون نافذ کرنے والے اداروں سے لوگوں کا اعتماد اٹھ چکا ہو، حکمران خود قانون سے کھیلتے ہوں! پانامہ کیس کی طرح ، عدالتیں بڑے لوگوں کے خلاف فیصلے سنانے میں احتیاط سے کام لیتی ہوں، معصوم بچوں کو کرائے کے قاتلوں میں تبدیل کیا جاتا ہو اور دہشت گردوں کو پروٹوکول ملتا ہو، سفارش کے بغیر کسی کو سکالر شپ تک نہ ملتا ہو، جہاں لوگوں کے بچے دینی مدارس میں دینی تعلیم و تربیت کے لئے جائیں لیکن انہیں خودکش بمبار اور دہشت گرد بنا دیا جائے اور اگر یونیورسٹیوں میں جائیں تو ان کی یونیورسٹیوں کا اسٹاف ہی کرائے کے قاتلوں سے انہیں قتل کروا دے، ، جہاں کیڈٹ کالجوں میں بھی بچوں پر وحشیانہ تشدد کیا جائے اور تعلیمی نظام بھی طبقاتی تقسیم کا شکار ہو۔۔۔
اس ملک میں تو والدین خود کشی سے پہلے ہی مر جایا کرتے ہیں ، خود کشی تو صرف ان کی بے بسی کا اعلان کیا کرتی ہے۔
تحریر۔۔۔نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.