وحدت نیوز(آرٹیکل) اس وقت عرب ریاستوں میں سب سے بڑا ملک سعودی عرب ہے۔یہ جزیرہ نمائے عرب کے 80 فیصد رقبے پر مشتمل ہے ۔اس کا یہ رقبہ صحرا و نیم صحراہے اوریہاں کوئی بھی دریا ایسا نہیں جو پورا سال بہتا ہوا،اسی طرح یہاں بارشیں بھی بہت کم ہوتی ہیں لہذا صرف 2 فیصد رقبہ قابل کاشت ہے ۔
80 فیصد سعودی باشندے نسلی طور پر عرب ہیں ۔ ایک سروے کے مطابق سعودی عرب میں روزگار کے سلسلے میں دنیا بھر کے 70 لاکھ تارکین وطن یہاں مقیم ہیں۔
سعودی عرب میں سب سے زیادہ فٹ بال کو پسند کیا جاتا ہے ۔ ماجد عبداللہ، سامي الجابر اور ياسر القحطاني سعودی عرب میں فٹبال کے معروف کھلاڑی ہیں۔سعودی عرب میں مقبول ترین رقص ارضیٰ ہے جو قدیم بدوی روایات کا حصہ ہے ، سعودی عرب میں اس رقص کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ گزشتہ دنوں میں امریکی صدر ٹرمپ کی ریاض آمد کے موقع پر شاہ سلمان نے ضعیف العمری کے باوجود اسی رقص کے ساتھ خوشی کا اظہار کیا تھا۔
نئی نسل کو گمراہی اور فحاشی سے بچانے کے لئے سعودی عرب میں تھیٹر اور سینما پر پابندی عائد ہے تاہم بعض علاقوں میں ایسے مراکز موجود ہیں جہاں فلموں اور ڈراموں کے بجائے موسیقی اور کچھ دیگر فنون پیش کئے جاتے ہیں البتہ امریکی فلموں کی وڈیوز اور ڈی وی ڈیز کی خریدو فروخت کی قانونی اجازت ہے اور ہر جگہ دستیاب ہیں۔
سعودی عرب کے بنیادی قوانین کے مطابق سعودی عرب پر ہمیشہ پہلے بادشاہ عبدالعزیز ابن سعود کی اولادہی حکمرانی کرے گی لہذا ملک میں کسی سیاسی جماعت کے قیام کا کوئی تصور نہیں۔ انتظامی لحاظ سے یہ ملک تیرہ صوبوں میں تقسیم ہے۔
۱۷۵۰ عیسوی میں ایک بادیہ نشین قبیلے کے سردار محمد بن سعود اور محمد بن عبدالوہاب نے ایک نئی حکومت بنانے پر اتفاق کیا۔ محمد بن سعود کے پاس قبیلے کے افراد اور خون تھا جبکہ محمد ابن عبدالوہاب کے پاس امام ابن تیمیہ کے عقائد و افکار تھے۔ اس کے بعد دونوں کے ملاپ سے ایک نئی حکومت کی تحریک نشیب و فراز سے گزرتی رہی۔
پہلی جنگ عظیم کے اختتام پر جب برطانیہ و فرانس کو تیل کی طاقت کا ندازہ ہوا تو انہوں نے ۱۹۱۹ میں مشرق وسطی کو دو حصّوں میں تقسیم کیا۔اس تقسیم کے نتیجے میں عراق،اردن اور سعودی عرب سمیت کچھ ممالک برطانیہ کے جبکہ ایران،ترکی اور شمالی افریقہ، فرانس کے حصّے میں آئے۔
استعماری طاقتوں نے سعودی عرب میں آل سعود سے،کویت میں آل صباح سے،قطر میں آل ثانی سے،امارات میں آل نہیان سے اور بحرین میں آل خلیفہ سے یہ معائدہ کیاکہ اگر انہیں حکومت دی جائے تو وہ خطے میں استعماری مفادات کا تحفظ کریں گئے۔
ان معاہدوں کی روشنی میں 20 مئی 1927ء کو معاہدہ جدہ کے مطابق برطانیہ نے تمام مقبوضہ علاقوں جو اس وقت مملکت حجاز و نجد کہلاتے تھے ان پر عبدالعزیز ابن سعودکی حکومت کو تسلیم کرلیا۔ 1932ء میں برطانیہ کی رضامندی حاصل ہونے پر مملکت حجاز و نجد کا نام تبدیل کر کے مملکت سعودی عرب رکھ دیا گیا۔
اس سے پہلے۱۹۳۰ میں امریکہ نے سعودی عرب کو اپنے قابو میں کرنے کے لئے John Fillby ایک برطانوی جاسوس ” جان فیلبی” کو اپنے ایک کارندے ارنسٹ فیشر کے ذریعے خریدلیا۔ [1]
یہ شخص ۱۹۱۷ میں برطانیہ کی وزارت خارجہ میں ملازم ہواتھا اور تقریباً ۳۵ سال تک سعودی عرب میں ابن سعود کا مشیر رہاتھا۔اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ نجد میں قدم رکھنے والا یہ پہلا یورپی باشندہ ہے۔یہ اپنے زمانے کا ایک بہترین لکھاری اور مصنف بھی تھا اور اس کی کئی کتابیں بھی منظر عام پر آئی تھیں۔
اسے مشرق وسطی کے بارے میں حکومت برطانیہ کی پالیسیوں سے اختلاف تھا جب یہ اختلاف شدید ہوگیا تو ۱۹۳۰ میں اس نے برطانوی سفارت سے استعفی دے دیا۔اس کے استعفی دیتے ہی اس کی تاک میں بیٹھے امریکی کارندے نے اس گلے لگا لیا۔
اس نے ابتدائی طور پر تیل نکالنے والی ایک امریکی کمپنی میں مشاور کی حیثیت سے کام شروع کیا اور خاندان سعود سے دیرینہ تعلقات کی بنا پر سعودی عرب اور امریکہ کے درمیان تیل نکالنے کا ایک بڑا منصوبہ منظور کروایا جس سے برطانیہ کی بالادستی کو دھچکا لگا اور خطّے میں امریکی استعمار کی دھاک بیٹھ گئی۔
یہی وجہ ہے کہ امریکہ و سعودی عرب دونوں اپنے تعلقات کے سلسلے میں جان فیلبی کی خدمات کے معترف ہیں۔ سعودی عرب کے برطانیہ کے بجائے امریکہ سے تعلقات جان فیلبی کے مرہون منت ہیں۔
یاد رہے کہ سعودی عرب کو مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کی وجہ سے حرمین شریفین بھی کہا جاتا ہے۔ حرمین شریفین کی وجہ سے جہان اسلام کے اصیل اور حقیقی تاریخی آثار بھی سعودی عرب میں پائے جاتے ہیں۔ البتہ آج سے تقریباً ٨٠ سال قبل یعنی ١٣٤٤ھ/ ١٩٢٦ء میں ۸ شوال کو مدینہ منورہ اور مکہ معظمہ میں پائے جانے والے مقبروں اور مزارات کو مسمار کر دیا گیا تھا۔
ان میں سے اس وقت صرف حضور نبی اکرمﷺ کا گنبد ہی رہ گیا ہے۔ اسلامی آثار منہدم کرنے کی وجہ سے سعودی عرب کی ساکھ کو دھچکا لگا اور ہر سال آٹھ شول کو مسلمان یوم احتجاج اور یوم سوگ کے طور پر مناتے ہیں۔
سعودی عرب کے مخالفین کا کہنا ہے کہ صحابہ کرام ؓ کے گھروں اور مزارات کو مٹانے سے ان کی دل آزاری ہوئی ہے اور ان کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچی ہے۔ جبکہ سعودی حکومت کا موقف یہ ہے کہ ان آثار کو باقی رکھنا اسلام میں جائز نہیں ہے۔
اسی طرح طالبان ، القاعدہ، داعش اور دیگر شدت پسند گروہوں کی تشکیل سے فائدہ تو امریکہ کو ہوا لیکن اس طرح کے اقدامات سے سعودی عرب کی مقبولیت پرشدید منفی اثرات مرتب ہوئے۔
اس کے ساتھ ساتھ سعودی حکومت کی طرف سے ہندوستانی وزیراعظم مودی کو سب سے بڑے سیویلین ایوارڈ کا دیا جانا ،مسئلہ کشمیر پرسعودی عرب کا بھارتی پالیسی کے مطابق پاکستان پر دباو ڈالنا، پاکستان میں دہشت گردوں کا پاک فوج کو ناپاک فوج کہنا ،پاکستانی فوجیوں کے سروں کے ساتھ فٹبال کھیلنا، قائداعظم کی ریذیڈنسی کو شرک کا مرکز کہہ کر تباہ کرنا، دیگرفرقوں اور مسالک کے مراکز اور پبلک مقامات کو نشانہ بنانا، اسی طرح فوج و پولیس کے ٹھکانوں نیز پشاور آرمی پبلک سکول پر حملہ کرنا اور پاکستان کے آئین کو غیر اسلامی اور عوام کو واجب القتل کہنا اس سے پاکستان کے اندر بھی عوام میں سعودی حکومت کے خلاف بڑے پیمانے پر بے چینی پیدا ہوئی ہے۔
اسی طرح قطر کے ساتھ قطع روابط اور حماس و الاخوان کو دہشت گرد قرار دینے نیز اسرائیل سے دوستانہ تعلقات کے فروغ نے بھی سعودی عوام اور دیگر ممالک کے مسلمانوں کے ذہنوں میں بھی بہت سارے سوالات اور شکوک و شبہات پیدا کر دئیے ہیں۔
امریکی اداروں نے سعودی عرب کے حکمرانوں کو یہ باور کروایا ہو ہے کہ ان پالیسیوں سے ان کا ملک ترقی کر رہا ہے لیکن تجزیہ نگاروں کے مطابق یہ پالیسیاں سعودی عرب کے مفاد میں نہیں ہیں۔
تاریخ شاہد ہے کہ شہنشاہ ایران کی طرح جس نے بھی امریکہ سے دوستی کی اور اس کے ترقیاتی منصوبوں پر عملدرآمد شروع کیا اس کا انجام بہت برا ہوا۔
دنیا میں امریکہ ایک ایسا ملک ہے جس کی دشمنی کے بجائے اس کی دوستی نقصان دیتی ہے۔ چونکہ امریکی دوستی ایک ایسے بھنور کی مانند ہے جس کا ظاہری حسن ،ملاح کو اپنی طرف کھینچتا ہے اور اس کی اندرونی گردش کشتی کو ڈبو دیتی ہے۔
ہماری دعا ہے کہ خداوند عالم امریکہ کے شر سے تمام دنیا باالخصوص عالم اسلام کو نجات دے ۔ آمین
تحریر۔۔۔نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.