وحدت نیوز (آرٹیکل) دور کسی گاؤں میں ایک غریب کسان رہتا تھا۔ اس کے تمام تر جائیداد ایک کھیت، رہنے کے لئے ایک کمرہ اور ایک گھوڑا تھا کمرہ کے ساتھ ہی گھوڑے کو باندھنے کے لئے چھوٹا سا اصطبل تھا یہ اصطبل اس قدر چھوٹا تھاکہ گھوڑا اِدھر اُدھر ہل نہیں سکتا تھا۔ کسان رات کو گھوڑے کو اصطبل میں بند کرتااور صبح نکال کر اس چھوٹی سی کھیت کے پاس چرانے لے جاتااور اس پر سفر کرتا اور محنت مزدوری کر کے اپنے پیٹ کی آگ بجھاتا تھا۔
کسان کا گھوڑے کو بند کرنے کا طریقہ کچھ مختلف تھا وہ شام ہوتے ہی گھوڑے کو سر کی طرف سے اصطبل کے دروازے کے پاس کھڑا کرتا اور پیچھے سے مار کر اسے آگے کی جانب دھکیلتا اور پھر گھوڑے کو اندر اصطبل میں بھیج کر دروازہ بند کرتا تھا۔ جب صبح گھوڑے کو نکالنا ہوتا تو پیچھے کی جانب سے رسی کو پکڑ کر کھینجتا یوں گھوڑا ریورس پوزیشن میں ہی پیچھے کی طرف آتے اور اصطبل سے باہر نکلتا۔
ایک دن کوئی امیر شخص وہاں آیااور اس نے وہ گھوڑا خریدنا چاہا اس امیر شخص نے گھوڑے کی قیمت ادا کی اور گھوڑے کو لے کر واپس اپنے گھر پہنچا۔ امیر شخص نے جب اس گھوڑے کی عادتیں دیکھیں تو کافی پریشان ہو،ا ہوا کچھ یوں کہ اس امیر شخص کے پاس بیس کے قریب گھوڑے موجود تھے اور ان کے لئے اس نے بڑا اصطبل خانہ بنوایا ہوا تھا تاکہ گھوڑے آرام سے اس میں بیٹھ سکیں اور گھوم پھر سکیں، لیکن غریب آدمی کے گھوڑے کی عادتیں باقی سب سے مختلف تھی۔۔۔اس بڑے اصطبل خانہ میں بھی یہ گھوڑا بالکل سیدھے طریقہ سے داخل ہوتا تھا اور تھوڑا سا چل کر رک جاتا تھا اور ہوشیار پوزیشن میں کھڑا رہتا تھا اور نہ ہی ادھر اُدھر ہلتا جلتا تھا، باقی سارے گھوڑے ادھر ادھر پھرتے تھے مگر یہ گھوڑا اپنی جگہ پر ساکت کھڑا رہتا، امیر مالک کو مزید حیرت تب ہوئی جب صبح اس نے اصطبل خانے کا دروازہ کھولا تو سارے گھوڑے باہر نکل آئے مگر اُس غریب کا گھوڑا لاکھ کوشش کے باوجود باہر نہیں نکلا نہ ہی وہ دائیں بائیں موڑا،امیر آدمی جب تمام طرح سے ناکام ہوچکاتو اس نے غریب آدمی کو بلا نے بھیجا اور تمام واقعہ سنایا، غریب آدمی اپنے گھوڑے کی عادتوں سے واقف تھا وہ سمجھ گیا کہ کس طرح گھوڑے کو باہر نکلنا ہے۔ غریب آدمی اصطبل خانے گیا اور دیکھا کہ دروازہ کھولا ہوا ہے مگر گھوڑا اپنے جگہ پر ساکت کھڑا ہے غریب آدمی نے گھوڑے کی رسی کو پکڑا اور پیچھے کی جانب کھنچا رسی کو کھنچنا تھا کہ گھوڑا فورا ریورس پوزیشن میں پیچھے کی جانب چلنا شروع کیا اور اس طرح اصطبل خانے سے باہر نکل آیا اور پھر باقی گھوڑوں کی جانب جانے لگا امیر آدمی اس گھوڑے کی حرکت دیکھ کر حیران رہ گیا۔
ایسے ہی کچھ صورت حال پاکستانی عوام کی بھی ہے ہم لوگ ہر وقت ظلم، ناانصافی، غربت، بے روز گاری، دہشت گردی اور کرپشن وغیرہ کا رونا روتے ہیں۔ آئے روز کہی نہ کہی مظاہرے، خودکشی، خودکش بم دھماکہ اور اسکولوں پر حملوں جیسے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں اور عوام بھی اس کے عادی ہوچکے ہیں۔ پہلے ایسے سانحات کبھی کبھی رونما ہوتے تھے لیکن اب ایسے واقعات کا ہونا تعجب نہیں ہوتا بلکہ کم اور زیادہ کے مرنے پر بات ہوتی ہے اور کم نقصان پر شکر ادا کرتے ہیں ۔
ناانصافی کا بول بالا ہے امیر امیر سے امیر تر اور غریب غریب سے غریب تر ہو تا جا رہا ہے....آبادی مسلسل بڑھ رہی ہے اور بے روزگاری عام، حکمران ملکی اقتصاد کو بہتر بنانے کے بجائے اپنی اقتدار کو بچا نے میں مصروف ہے، قومی خزانے خالی ہیں، قرضے مسلسل بڑھ رہے ہیں مگر حکمرانوں کے پرسنل اکاؤنٹس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، ان کے بچے غیر ملکی اعلی اسکولوں اور یونی ورسٹیوں میں پڑھتے ہیں اور غریب کے پاس اتنی بھی وسعت نہیں کی گلی محلے میں کھولے ہوئے کاروباری اسکولوں میں اپنے بچوں کو پڑھا سکیں۔ عوامی آمدو رفت کی سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار اور ذاتی فائدہ مند والی سڑکیں اور میٹرو آباد۔۔میڑو تو بنا یا گیا ہے مگر اس روڑ پر چلنے والے رکشے گاڑیوں کے لئے کوئی متبادل نظام نہیں۔
بحر حال تمام تر مشکلات اور اشرف المخلوقات ہونے کے باوجود ہم پاکستانیوں میں اور اس گھوڑے میں کوئی فرق نہیں ہم چارر سال غربت، بے روزگاری، ناانصافی اور ظلم کا رونا روتے ہیں مگر جیسے ہی الیکشن قریب آتے ہیں ہم اپنے پورانے رویش پر واپس آجاتے ہیں اور ان ہی حکمران جماعتوں کے پیچھے پڑ جاتے ہیں جن کو کئی دفعہ آزما چکے ہیں اور ان کے ہرجھوٹ اور فریب سے ہم واقف ہوچکے ہیں ، جنہوں نے ہر دفعہ عوام کو لولی پوپ اور جھوٹے دعووں کے سوا کچھ نہیں دیا اور اپنی حکومتی مدت پوری کرنے کے بعد ملک کو مزید قرضوں میں ڈوبو کر عوام کے تن سے لباس اتار کر چلے جاتے ہیں۔۔۔۔ہم بھی اپنی عادتوں سے مجبور انہی حکمران جماعتوں کو ووٹ دے کر ان کو اقتدار میں لے آتے ہیں پھر کچھ مہینوں کے بعد احتجاج جلسہ جلوس اور رونا دھونا شروع ہو جاتا ہے۔
عوام کو ان حکمرانوں کے تمام تر مفادات کا علم ہے مگر پھر بھی ہر بار ایک ہی غلطی دہرا تے ہیں کیونکہ ہم نے اپنے لگام کو ان حکمرانوں کے ہاتھوں میں دیا ہوا ہے اور وہ جس طرح چاہیں ہمیں چلاتے ہیں اور ہمیں اس چیز کا عادی بنا دیا گیا ہے کہ ان کے سوا کوئی نہیں پاکستان میں تمام تر طاقت ان ہی چند خاندانوں کے پاس ہے اور ہم بھی اپنی طاقت(عوامی طاقت) سے بے خبر اس کے عادی ہوچکے ہیں۔ نہیں معلوم وہ وقت کب آئے گا کہ ہم سندھی ،بلوچی، پنجابی ، مہاجراور دیگر علاقائی و خاندانی سیاست کے فریب کردہ خول سے باہر نکلیں گے اور اپنے زہن کو وسیع کر کے ملکی اور عوامی مفادات کے لئے کام کریں تاکہ وطن عزیز پاکستان کو درپیش مسائل کا حل نکال سکیں اور عالمی دنیا میں پاکستان کے امیچ کو بہتر بنایا جاسکیں، مگر افسوس ہم اس وسیع دنیا میں جہاں تمام تر سہولیات اور آرائش موجود ہیں، زندگی گزارنے کے اصول موجود ہیں اسلام اور قرآ ن موجود ہیں جس سے ہم اپنی تمام مشکلات کا حل نکال سکتے ہیں مگر ہم نے صرف چند پیسوں کے عوض، کچھ دنیا داری کی لالچ میں ہمیشہ اپنی غلامی کی عادتوں کو بر قرار رکھا ہوا ہے جس کی وجہ سے ہم نے اس وسیع اورروشن دنیا کو بھی اپنے اوپر تنگ کیا ہو ہے۔
تحریر۔۔۔۔۔۔ ناصر رینگچن