وحدت نیوز(کوئٹہ) مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی رہنما علامہ سید ہاشم موسوی ، رکن بلوچستان اسمبلی سید محمد رضا، صوبائی ڈپٹی سیکریٹری جنرل کیپٹن حسرت ،ڈویژنل رہنماعباس علی، کربلائی رجب علی، علامہ ولایت جعفری،رشید علی طوری، کربلائی اکبر ودیگر نے کوئٹہ پریس کلب میں ہنگامی پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ صحافی برادری ہماری مظلومیت کو ہمارے ان بے حس حکمرانوں تک پہنچائے جن کو ہزاروں میل دور برطانیہ اور امریکہ میں دہشتگردی کے واقعات تو نظر آتے ہیں لیکن اپنے ہی ناک کے نیچے ہونے والی دہشتگردی نظر نہیں آتی۔جو امریکہ ،یورپ میں دہشتگردی کی مذمت کرتے ہوئے متاثرین سے اظہار ہمدردی تو کرتے ہیں لیکن اپنے ہی ملک کے عوام کو لہو لہان ہوتے دیکھ کر بھی ہمدردی کے دو بول نہیں بول سکتے۔
رہنمائوں نے کہا کہ سانحہ اسپنی روڈ میں اسلام کے نام پر دہشتگردوں نے ماہ رمضان المبارک میں روزے کی حالت میں ایک جوان اور خصوصاً ایک خاتون کے سر پر گولیاں مار کر جس بے غیرتی اور بزدلی کا مظاہر ہ کیا ہے اسکی مثال عالم کفر میں بھی نہیں ملتی۔کوئٹہ میں یہ دوسرا واقعہ ہے جس میں خاتون کو خصوصی طور پر نشانہ بنا کر انہیں شہید کیا گیا اور اسلامی اقتدار اور بلوچستان کے قبائلی روایات کے منافی ہے،اس درد ناک سانحے پر اسلام کے نام لیواسیاسی و مذہبی جماعتوں ،قوم پرست و قبائلی روایات کے دعوایدار شخصیات ،پارٹیوں اور صوبائی حکومت و اراکین اسمبلی کا خاموش رہنا اور اس واقعے پر اظہار ہمدردی ،یکجہتی اور تعزیت نہ کرنا دہشتگردی کے واقعے سے بھی زیادہ شرمناک فعل ہے۔
انہوں نے کہا کہ آج ان مظلوم شہداءکا رسم قل اور سوئم ہے جس میں تمام سیاسی جماعتوں ،مذہبی سکالرز اور خصوصاً صوبائی حکومت کے نمائندوں کو شریک ہونا چاہیئے تھا تا کہ دہشتگردوں کیخلاف ہم اپنی یکجہتی اور اتحاد کا مظاہر ہ کرتے ،ایسا لگتا ہے کہ یا تو یہ ،لوگ دہشگردی کے اسے واقعے پر راضی ہیں یا سب پر ان بزدل دہشتگردوں کا خوف طاری ہے۔مغوی چینی باشندوں کی بازیابی کیلئے سیکورٹی اداروں کی کاروائی خوش آئند بات ہے لیکن میرا اپنے ان سیکورٹی اداروں سے یہ سوال ہے کہ چینی باشندوں کی بازیابی کیلئے آپ سخت ترین ،دشوار گزار پہاڑیوں میں بنائے گئے سرنگوں کے اندر سے دہشتگروں کو ڈھونڈ کر انہیں کیفر کردار تک پہنچا سکتے ہو،لیکن شہر کے اندر بھرے بازار میں ہزاروں کی تعداد میں پاکستانی شہریوں کا قتل عام کیا گیا۔ہزارہ قبرستان میں آئے دن سانحات کی وجہ سے جگہ تنگ پڑ چکی ہے۔ یہ دہشتگرد کہاں سے آتے ہیں؟بزدلانہ کاروائی کے بعد کہاں فرار ہوتے ہیں؟کہاں چپ جاتے ہیں؟اور کہاں سے انکی تربیت ہوتی ہے؟
سیکیورٹی اداروں کو اپنے ہی باشندوں کے قاتل نظر کیوں نہیں آئے؟ انکے خلاف سنجیدہ کاروائی کیوں نہیں ہوتی؟انکے محفوظ ٹھکانوں کا خاتمہ کیوں نہیں کیا جاتا؟ کوئٹہ شہر زیادہ بڑا شہر نہیں ہے چند ایک مخصوص بڑے روڈ اور علاقے میں اسکے باوجود حکومت اور ادارے اس چھوٹےسے شہر کو تحفظ دینے میں ناکام نظر آرہے ہیں۔ہمارا شروع سے ہی یہی موقف ہے کہ دہشتگرد کسی ایک قوم یا ایک مکتبہ فکر کے دشمن نہیں ہیں بلکہ یہ پاکستان اور پاکستانی عوام کے مشترکہ دشمن ہیں ہمیں متحد ہوکر انکا مقابلہ کرنا چاہیئے۔جب سیاسی پارٹیاں اور سماجی شخصیات اسے فرقہ واریت سمجھ رہی تھیں ہم اسی وقت سے کہہ رہے تھے کہ خدارا اسے فرقہ واریت نہ کہا جائے یہ کھلم کھلا دہشتگردی ہے اور ایک دن اس آگ میں ہم سب جلیں گے آج وہ دن آگیا ہے کہ صحابہ کرام اور اسلام کا نام استعمال کرنے والے ان دہشتگردوں کے شر سے کوئی قوم ، کوئی قبیلہ اور کوئی مکتب فکر یہاں تک کے ہمارے قومی ادارے بھی محفوظ نہیں رہے۔
رہنمائوں کا مزید کہنا تھاکہ دہشتگردی کی عفریت کے خاتمے کیلئے ضروری ہے کہ ان کے خلاف ہم سب متحد ہو ،دہشتگردوں کو صحابہ کرام ? اور اسلام کانام استعمال نہ کرنے دیں ،دہشتگردوں کے مذہبی سپورٹ کا خاتمہ کیا جائے تاکہ وہ مذہب کے نام پر نوجوانوں اور عوام کو دھوکہ نہ دے سکے ،حکومت اور ادارے دہشتگردوں کے خلاف سنجیدہ کاروائیاں عمل میں لاکر انکا مکمل صفایا کریں ،دہشتگروں کے مالی سپورٹ کو روکا جائے اور ان کے ہر قسم کے سہولت کاروں کو بھی کیفر کردار تک پہنچائے۔ان تما م حالات میں پولیس کا محکمہ ایک مفت خور اور ناکارہ محکمہ بن چکا ہے دہشتگردی کے خاتمے میں پولیس کا کردار سب سے زیادہ اہم ہے لیکن بلوچستان پولیس کی حالت انتہائی ابتر ہے ،پولیس کے ناک کے نیچے دہشتگرد انہ کاروائیاں ہوتی ہیں لیکن پولیس ٹس سے مس تک نہیں ہوتی اور نہ ہی کوئی ان سے پوچھنے والا ہے۔اسپینی روڈ پر اکثر واقعات پولیس چوکی کے صرف 10میٹر کے فاصلے پر رونما ہوتے ہیں ،حالیہ دہشتگردی کا واقعہ بھی پولیس چوکی کے صرف چند میٹر کے قریب ہی ہوا ہے لیکن چوکی پر تعینات پولیس ملازمین نے کوئی کاروائی نہیں کی،ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ مذکورہ چوکی پر تعینات پولیس ملازمین ،علاقہ ایس ایچ او اور ڈی ایس پی کو فوری طور پر معطل کر کے انہیں بھی شامل تفتیش کی جائے۔