The Latest
وحدت نیوز (مظفرآباد) سید غفران علی کاظمی سیکرٹری جنرل مجلس وحدت مسلمین مظفرآباد نے نو منتخب عہدیداروں ڈپٹی سیکرٹری جنرل سید کرامت کاظمی، سیکرٹری تنظیم سازی و روابط سید ممتاز نقوی، سیکرٹری یوتھ آغا زوریب علی سے حلف لیا۔ حلف برداری کی تقریب وحدت ہائوس مظفرآباد میں ہوئی جس میں کابینہ اراکین کے علاوہ دیگر معززین نے شرکت کی سیکرٹری جنرل سید غفران علی کاظمی نے سیرت علی ابن ابی طالب ؑ پر روشنی ڈالتے ہوئے کہاکے سیاست ِعلوی ہماری میراث ہے اور اسے عملی جامہ پہنانے کی ہر ممکن کوشش کریں گے اور معاشرے میں موجودبحرانوں کا سد باب کریں گے انھوں نے مزید کہا کہ مجلس وحدت مسلمین دین اسلام کی سر بلندی اور شعیہ سنی وحدت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ دین اسلام کی سر بلندی ،تنظیم کے اعراض ومقاصد و نظریات کو بہتر سمجھنے ، اس کے ساتھ عہد و پیمان باندھنے کے حصول کے لیے سعی و کوشش کرنے والا ہر عاقل و بالغ فرد اس کا عہدیدار بن سکتا ہے۔
وحدت نیوز (قم) گذشتہ روز شہداء سانحہ چلاس اور کوئٹہ شہر میں ہونے والی حالیہ ٹارگٹ کلنک کے حوالے سے دفتر مجلس وحدت مسلمین قم میں ایک تحلیلی نشست منعقد ہوئی، جس میں علماء کرام اور طلاب نے شرکت کی۔ اس نشست سے گفتگو کرتے ہوئے مجلس وحدت قم کے سیکرٹری جنرل محمد موسٰی حسینی نے کہا کہ ایک عرصے سے کوئٹہ میں منظم انداز سے شیعہ نسل کشی جاری ہے۔ کوئٹہ میں سخت سکیورٹی کے باوجود نہتے اور مظلوم لوگوں کو شناخت کے بعد قتل کر دیا جاتا ہے اور قاتل ہمیشہ فرار ہو ہو جاتے ہیں، یہ حکومت اور ریاستی اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کی جان و مال کی حفاظت کرے۔ واقعہ چلاس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ اپنی نوعیت کی بدترین دہشت گردی تھی، جس میں مسلح تکفریوں نے بےگناہ مسلمانوں کو قتل کیا تھا، لیکن افسوس کی بات ہے کہ ان قاتلوں کو آج تک سزا نہیں دی گئی۔
وحدت نیوز (سکردو) مجلس وحدت مسلمین پاکستان گلگت بلتستان کے سیکرٹری جنرل علامہ آغا علی رضوی نے پاکستان آرمی کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کے نام کھلا ختم لکھ دیا ہے۔ انہوں نے اپنے خط میں جی بی کو درپیش مسائل کی نشاندہی کرتے ہوئے آرمی چیف سے توقع ظاہر کی ہے کہ وہ خطے کو محرومی سے نکالنے، مسائل کو حل کرنے اور عوام کا معیار زندگی بلند کرنے میں کردار ادا کریں گے۔ آغا علی رضوی کی جانب سے لکھے گئے خط کا متن کچھ یوں ہے:
محترم جناب چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ صاحب
السلام علیکم!
آج ہم اس ریاستی ادارے کے سربراہ سے مخاطب ہو رہے ہیں، جو وطنِ عزیز پاکستان کے استحکام و سلامتی کے ضامن اور اسکی نظریاتی و جغرافیائی سرحدوں کے محافظ ہیں۔ ہم سیاسی جماعتوں، وفاقی حکومتوں اور سول بیوروکریسی کی ستر سالہ عدم توجہی اور ناانصافیوں کے بعد مایوس ہو کر جذبۂ حب الوطنی سے سرشار گلگت بلتستان کے محروم و مجبور عوام کی نمائندگی کرتے ہوئے آپ کی توجہ پاکستان کے اس عظیم خطے کے مسائل کی طرف مبذول کروانا چاہتے ہیں، جو دفاعی، ثقافتی، اقتصادی، جغرافیائی، نظریاتی اور سیاحتی نکتۂ نگاہ سے وطنِ عزیز کا حسین و جمیل چہرہ ہے۔ قدرتی وسائل کے ساتھ ساتھ اس خطے کے انسانی وسائل بھی پاکستان کے لئے عظیم سرمایہ ثابت ہوتے رہے ہیں۔ پاکستان کی آزادی کے بعد اس خطے کے عوام نے اپنی مدد آپ کے تحت بے سر و سامانی کے عالم میں نظریاتی بنیادوں پر ڈوگرہ راج کے خلاف مسلسل جدوجہد کرکے آزادی حاصل کی اور سبز ہلالی پرچم تلے زندگی گزارنے کو اعزاز سمجھا اور آج تک یہی اعزاز اس خطے کے لئے طرۂ امتیاز ہے اور رہے گا۔ ملک پر آنے والے سخت حالات چاہے معرکۂ سیاچن ہو، معرکۂ کرگل ہو یا دہشتگردوں کے خلاف جاری آپریشز، یہاں کے سپوتوں نے ملک و قوم کے لئے بے پناہ قربانیاں دیں اور آج بھی اس خطے کا بچہ بچہ پاکستان کا محافظ اور جانثار ہے۔ اس کے علاوہ یہاں کی مذہبی رواداری، امن پسندی اور تہذیب و ثقافت پاکستان کا روشن چہرہ ہے۔ گلگت بلتستان میں موجود بین المسالک ہم آہنگی، اخوت و بھائی چارہ پوری دنیا کے لئے روشن مثال ہے۔
محترم آرمی چیف صاحب! گلگت بلتستان کے عوام گذشتہ ستر سالوں سے پاکستان سے الحاق کی تحریک چلا رہے ہیں اور یہ دنیا کی پہلی تحریک ہے، جو کسی ملک سے الحاق کے لئے چل رہی ہے، مگر تاہنوز اس خطے کو پاکستان کا مکمل آئینی حصہ نہیں بنایا گیا۔ دوسری طرف وفاقی سیاسی جماعتوں، حکومتوں اور بیوروکریسی کی طرف سے یہاں کے عوام کو تعلیمی، سیاسی، معاشی، معاشرتی اور شعوری طور پر اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کی کبھی کوشش نہیں کی گئی۔ اس سلسلے میں خطے کو درپیش تعلیمی اور صحت کے مسائل کو حل کرنے کے لئے پاکستان آرمی کے چند ادارے متحرک ہیں، جو کہ قابل ِ تحسین مگر آبادی کے تناسب کے حساب سے ناکافی ہیں۔ اعلٰی تعلیمی ادارے، پروفیشنل تعلیمی ادارے، میڈیکل و انجینئرنگ کالجز کا فقدان اور سکولوں میں معیارِ تعلیم کا اطمینان بخش نہ ہونا افسوسناک ہے۔ اسی طرح صحت کا شعبہ بھی مسلسل نظر انداز ہو رہا ہے اور پورے خطے میں کوئی معیاری ہسپتال موجود نہیں۔ ترقیاتی منصوبوں کی ترجیحات اور معیار بھی غیر تسلی بخش ہیں۔ پورے خطے میں کسی میگا پروجیکٹ پر بھی کام نہیں ہو رہا، جو یہاں کے ہزاروں اعلٰی تعلیم یافتہ بیروزگار جوانوں کے روزگار کا ذریعہ بن سکے۔ اس خطے کے عوام کی ایک بڑی تعداد پینے کے صاف پانی سے بھی محروم ہے، جبکہ خطے میں دنیا کے سب سے بڑے صاف پانی کے ذخائر گلیشیرز کی شکل میں موجود ہیں اور یہاں سے نکلنے والا دریا آدھے پاکستان کو سیراب کرتا ہے، لیکن اِسی خطے کی اراضی بنجر و غیر آباد ہے۔
وطنِ عزیز پاکستان میں جاری توانائی کے مسائل کا نہ صرف حل اس خطے سے ہوسکتا ہے بلکہ اس خطے میں موجود ہزاروں میگاواٹ توانائی کے امکانات ملکی معیشت کو بھی سنبھالا دے سکتے ہیں، مگر تعجب یہ ہے کہ ابھی تک خود یہاں بجلی و پانی کے بحران کا سلسلہ رُکنے کا نام نہیں لے رہا۔ اس وقت گلگت اسکردو روڈ کی تعمیر کا کام پاکستان آرمی کی نگرانی میں جاری ہے اور توقع یہ ہے کہ اس کی معیاری اور بروقت تکمیل خوش اسلوبی کے ساتھ انجام پائے گی۔ ایک طویل عرصے سے کرگل لداخ روڈ بند ہے جبکہ مظفر آباد اور لاہور سے سرحد کے آر پار منقسم خاندان آپس میں مل سکتے ہیں اور تجارت کرسکتے ہیں جبکہ گلگت بلتستان کے ساتھ یہ امتیازی سلوک جاری ہے۔ ہم آپ کی توجہ اس بات کی طرف بھی مبذول کرانا چاہتے ہیں کہ اس خطے کو ہمیشہ مسئلہ کشمیر کے ساتھ منسلک رکھا گیا اور اسی آڑ میں یہاں ناانصافیاں عروج پر رہیں۔ یہاں کے عوام اخلاقی، دینی اور سیاسی طور پر مسئلہ کشمیر کو اپنا مسئلہ سمجھتے ہیں اور کشمیر کے عوام کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں، لیکن یہاں کی مسلمہ متنازعہ حیثیت کے باوجود نہ صرف کشمیر میں رائج قوانین لاگو نہیں بلکہ متنازعہ علاقوں کے وہ قانون جو خطے کی مضبوطی اور ترقی کا ضامن ہے، بھی لاگو نہیں ہے۔ یہاں غیر قانونی طور پر سٹیٹ سبجیکٹ رُول کو ختم کرکے نوتوڑ رُول ایکٹ نافذ کیا گیا ہے اور اب جب چاہے، اس کی آڑ میں عوامی اراضی کو ہتھیا لیا جاتا ہے اور اس میں شرمناک پہلو یہ ہے کہ یہاں کی عوامی اراضی پر قبضہ کرنے کے لئے ادارے خالصۂ سرکار کے قانون کا سہارا لیتے ہیں، جو کہ جنگِ آزادی کی توہین اور اس خطے کے پاکستان سے الحاق کو مسترد کرنے کے مترادف ہے۔ کسی بھی ادارے کو اراضی کی ضرورت ہو تو لینڈ ایکوزیشن ایکٹ کے ذریعے زمین حاصل کی جاسکتی ہے، لیکن یہاں جبر کے ذریعے عوام میں بے چینی پھیلانے کی کوشش ہوتی ہے اور اس سلسلے میں آئینِ پاکستان کی بالادستی اور عوامی حقوق کے لئے قانونی و عوامی جدوجہد کرنے والوں کے گرد گھیرا تنگ کر دیا جاتا ہے۔
ہمیں انتہائی مسرت ہے کہ پاکستان کے روشن مستقبل کے ضامن منصوبے سی پیک کا ایک تہائی کے قریب حصہ شاہراہ گلگت بلتستان سے گزرتا ہے اور یہ نہ صرف پاکستان کے لئے گیم چینجر منصوبہ ہے بلکہ اس سے خطے پر بھی مثبت اثرات مرتب ہونگے۔ اس اہم منصوبے پر دشمن طاقتوں کی بھرپور نگاہیں ہیں اور وہ چاہتی ہیں کہ یہ اہم معاشی منصوبہ خدا نخواستہ ناکام ہو جائے، اس کے سدباب کے لئے ٹھوس بنیادوں پر اقدامات کی ضرورت ہے۔ اس اہم پروجیکٹ کے تحفظ کے لئے جی بی کے عوام کھڑے ہیں اور اس سلسلے میں وفاقی حکومت کا جانبدار اور افسوسناک رویہ بھی قابلِ غور ہے کہ اس عظیم منصوبے میں محروم و مجبور اس خطے کے عوام کے لئے متناسب حصہ نہیں دیا گیا۔ دوسری طرف جب سے سی پیک کا منصوبہ یہاں سے گزرا ہے، کبھی گندم سبسڈی کو ختم کرکے، کبھی پرُامن علماء اور عوام کو شیڈول فورتھ میں ڈال کر، کبھی ناجائز ٹیکس نافذ کرکے اور کبھی خالصۂ سرکار کے نام پر عوامی حساس ایشوز کو چھیڑ کر خطے میں بے چینی پھیلانے کی حکومتی کارروائیاں کی جا رہی ہیں، جو کہ کسی طور ملکی مفاد میں نہیں ہیں۔ دوسری طرف اس حساس خطے میں گراس رُوٹ لیول تک مغربی اداروں کی رسائی ہے، جو کہ خطے کی تہذیب و ثقافت اور پاکستان کی نظریاتی و دفاعی پوزیشن کے لئے بھی کسی خطرہ سے کم نہیں۔
ہم تمام حکومتوں سے مایوس ہوکر پاکستان آرمی جو کہ ہر مشکل وقت میں وطنِ عزیز کا سہارا رہی ہے، سے توقع رکھتے ہیں کہ خطے کی حساسیت، دفاعی و تزویراتی اہمیت کے پیشِ نظر یہاں کی مکمل آئینی حیثیت کا تعین یا سٹیٹ سبجیکٹ رول کی بحالی سمیت متنازعہ علاقہ کے تمام حقوق کی فراہمی، سی پیک میں متناسب حصہ، کرگل لداخ روڈ کی واگزاری، دیامر بھاشا ڈیم کی مکمل رائیلٹی، اعلٰی تعلیم و صحت کے اداروں کا قیام، خالصۂ سرکار کے نام پر عوامی اراضی کی بندر بانٹ کا خاتمہ، ترقیاتی منصوبوں کے اجراء اور اداروں میں جاری بدعنوانی کا خاتمہ کرانے میں اپنا بھرپور کردار ادا کرے گی۔
وطن عزیز پاکستان کی سلامتی اور پاک فوج کی سربلندی کی نیک تمناوں کے ساتھ۔
والسلام
آغا علی رضوی
سیکرٹری جنرل مجلس وحدت مسلمین پاکستان گلگت بلتستان
وحدت نیوز (اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے سالانہ مرکزی کنونشن کا آغاز جامعہ الصادقؑ اسلام آباد میں ہو چکا ہے۔شب شہدا کی پر وقار تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مرکزی ڈپٹی سیکریٹری جنرل ایم ڈبلیو ایم علامہ احمد اقبال رضوی نے شہدائے پاکستان خصوصا مادر وطن کی حفاظت کرتے ہوئے جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والے فرزاندان پاکستان کو زبردست انداز میں خراج تحسین پیش کیا آپ کا کہنا تھا کہ شہدا ہمارے حقیقی ہیروز ہیں جو قومیں اپنے شہدا کو یاد رکھتی ہیں انہیں دنیا کی کوئی طاقت ختم نہیں کر سکتی شہدا کی یاد منانا شہادت سیکم نہیں شہدا نے اپنے حصے کی ذمہ داری بخوبی ادا کی ہے اب یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ شہداکے مشن کو جاری رکھنے کی بھر پور کوشش کریں۔دہشت گردوں نے اسلام کے نام پر دین کو من پسند ڈگر پر چلانے کی کوشش کی آج داعش اور دیگر دہشت گرد تنظیمیں اسلام کے تشخص کو داغدار کرنا چاہتی ہیں۔ ان سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے حضرت علی ? کی جرات اور افکار کی پیروی کرنا ہو گی۔
مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے تین روزہ مرکزی سالانہ کنونشن کا آغازجامعہ الصادق جی نائن اسلام آباد میں ہو گیا ہے۔کنونشن میں شرکت کے لیے بلوچستان،سندھ،گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر سمیت پاکستان کے مختلف شہروں سے رہنماؤں اور تنظیمی کارکنوں اسلام آباد پہنچ چکے ہیں۔کنونشن میں صوبائی و ضلعی رہنماؤں کی جانب سے اپنے اپنے علاقوں کی تنظیمی کارکردگی پر رپورٹس پیش کی جائیں گی۔آج 6اپریل بروزہفتہ تقریب میں تین اہم نشستیں ہوں گی جس سے مرکزی سیکرٹری جنرل ایم ڈبلیوا یم علامہ راجہ ناصر عباس جعفری ،علامہ احمد اقبا ل رضوی، وزیر قانون بلوجستان آغا محمد رضا سمیت مرکزی لیڈران خطاب کریں گے ۔تقریب کی دوسر ی نشست میں اخلاقی لیکچرز اور جماعت کے مختلف شعبہ جات کی سالانہ کارکردگی رپورٹس پیش کی جائیں گئیں۔تقریب کی آخر دن 8اپریل ایک سیمینار بعنوان وحدت اسلامی اورپاکستان کا استحکام کا انعقاد کیا جائے گا جس میں ملک کے نامور شیعہ سنی علما اورسیاسی قائدین شریک ہوں گے اور پاکستان کو درپیش مسائل،پاکستان کے استحکام کے لئے کوششوں اورعصر حاضر میں امت مسلمہ کے مابین وحدت و اخوت کی ضرورت و اہمیت پر گفتگو کی جائے گی۔ شرکا اور مختلف رہنماؤں کے درمیان سوال جواب کی نشست بھی تقریب کا حصہ ہو گی۔کنونشن کے اختتام پر پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کے نمائندوں سے خطاب بھی کیا جائے گا۔
وحدت نیوز (آرٹیکل) زندگی کوشش اور کاوش کا نام ہے، اچھائی کے کے لئے کوشش اور بھلائی کے لئے کاوش کبھی رائیگاں نہیں جاتی، فرعون وقتی طور پر بچوں کا خون بہا سکتے ہیں اور ماوں کے حمل گرا سکتے ہیں لیکن موسیٰ ؑ کی ولادت کو نہیں روک سکتے۔ دنیا میں اچھائی اور برائی، خیر اور شر، موسیٰ و فرعون کی جنگ ہر دور میں لڑی گئی اور لڑی جاتی رہے گی۔ اچھائی اور بھلائی کی خاطر مارے جانے والے تاریخ کے تاریک صفحات پر اُمید کے روشن ستارے بن کر جگمگاتے ہیں،انہی روشن ستاروں سے آنے والی نسلیں رہنمائی حاصل کرتی ہیں اور اپنے قلم کو عصا بنا کر وقت کے نیل کو دولخت کرتی ہیں۔
گزشتہ دنوں سیالکوٹ کے مصر میں ایک فرعون صفت مسلم لیگ ن کے یوسی چیئرمین عمران اسلم چیمہ نے اپنی ڈیوٹی پر مامور نہتے صحافی کو گولیاں مار کر موت کے گھاٹ اتار دیا۔تفصیلات کے مطابق سمبڑیال میں نوائے وقت کے نمائندے ذیشان اشرف بٹ کو بیگووالہ کے دوکانداروں نے شکایت کی کہ چیئرمین یونین کونسل بیگووالہ نے ناحق دکانداروں پر ٹیکس عائد کر رکھا ہے ۔ شکایت ملنے پر نمائندہ نوائے وقت ذیشان اشرف بٹ یونین کونسل بیگووالہ کے ن لیگی چیئرمین عمران اسلم چیمہ سے معلومات لینے کیلئے جب اس کے دفتر پہنچا اور دکانداروں کی شکایت کے بارے میں آگاہی حاصل کرنے کی کوشش کی تو عمران اسلم چیمہ طیش میں آگیا جس پر اس نے اور اسکے ساتھیوں نے آتشیں اسلحہ سے فائرنگ کرکے ذیشان اشرف بٹ کو شدید زخمی کر دیا اور بعد ازاں موقع پر ہی یہ صحافی جاں بحق ہو گیا۔
یہ اپنی نوعیت کا پہلا یا آخری قتل نہیں ہے، جب تک یہ دنیا باقی ہے اس میں نیکی اور برائی کا ٹکراو ہوتا رہے گا، بے شک نون لیگی چئیرمین اپنے اس کارنامے پر اتراتا ہوگا اور مختلف لوگوں نے ا اس بہادری پر مبارکبادی کے ڈونگرے بھی برسائے ہونگے لیکن سوچنے کا مقام یہ ہے کہ ہم لوگ کس دور میں جی رہے ہیں۔؟کس صدی میں سانس لے رہے ہیں ؟اور کیوں ہمارے اخلاقی رویے ابھی تک پتھروں کے دور کا پتہ دے رہے ہیں۔؟
یہ قتل کسی شدت پسند تنظیم نے نہیں کیا بلکہ ایک ملک گیر سیاسی تنظیم کے چئیر مین نے کیا ہے ، یہ ہمارے ہاں کی سیاسی تنظیموں کا حال ہے تو پھر شدت پسند تنظیموں سے گلہ ہی کیا کیا جائے۔ بات صرف کسی ایک سیاسی تنظیم تک محدود نہیں بلکہ جس کے پاس طاقت ہے اس کا یہی حال ہے، اور وہ اسی طرح طاقت کے نشے میں مست ہے، مشال خان کا قتل ہوا تو اس کے پیچھے بھی سیاسی ہاتھ تھا اور راجپوتانہ ہسپتال میں گزشتہ سال ایک ڈاکٹر کی ہٹ دھرمی کے باعث ایک مریضہ دم توڑگئی تو کئی دنوں کے احتجاج اورہڑتال کے باوجود اس ڈاکٹر کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی ، اس مریضہ کا قصور بھی یہ تھا کہ وہ ایک صحافی “ کامران کورائی” کی ماں تھی۔
یہ لوگ جنہیں حق اور سچ بولنے کی پاداش میں نشانِ عبرت بنا دیا جاتا ہے، جنہیں جھوٹ کو بے نقاب کرنے کے صلے میں صلیبوں پر گاڑھ دیا جاتا ہے، جنہیں کلمہ حق لکھنے کی سزا کے طور پر موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے، یہی وہ لوگ ہیں جوآگے چل کر تاریخ کا عنوان بنتے ہیں ،جن کے صبر سے قومیں بیدار ہوتی ہیں اور جن کی کوششوں سے انسانی نسلیں فرعونوں سے آزادی حاصل کرتی ہیں۔ایسے لوگ ہر دور میں کٹتے اور مرتے تو رہے ہیں لیکن کبھی ان کے حوصلے میں کمی نہیں آئی۔
یہ بے گناہ کے خون میں تر بتر عمران اسلم چیمہ کا کردار نہیں بلکہ نون لیگ کا اصلی چہرہ ہے۔ یہ چہرہ قوم کے ہر مہذب اور باشعور شخص کو جھنجوڑ رہا ہے، یہ چہرہ ہمیں خوابِ غفلت سے بیدار کر رہا ہے ، یہ چہرہ ہم سب سے پوچھ رہاہے کہ ہم آخر کب تک اپنی آئندہ نسلوں کو فرعونوں کے رحم و کرم پر چھوڑے رکھیں گے۔
ذیشان اشرف بٹ اپنے سرخ لہو سے ہمارے لئے یہ پیغام چھوڑ گیا ہے:
تجھے خبر نہیں شاید کہ ہم وہاں ہیں جہاں
یہ فن نہیں اذیت ہے زندگی بھر کی
یہاں گلوئے جنوں پر کمند پڑتی ہے
یہاں قلم کی زباں پر ہے نوک خنجر کی
(فراز)
تحریر۔۔۔نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
وحدت نیوز(کوئٹہ) مجلس وحدت مسلمین کوئٹہ ڈویژن کے میڈیاسیل سے جاری بیان میں ایم ڈبلیوایم کے رہنما کامران علی ہزارہ نے کہاکہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی جارحیت قابل مذمت ہے۔ پچھلے ستر سال سے بھارت نے ظلم و بربریت کا بازار گرم کر رکھا ہے، اب تک ہزاروں کشمیری بھائیوں کو دہشت گردی کی بھینٹ چڑھا کر شہید کر دیا گیا ہے۔ سینکڑوں خواتین کی بے حرمتی کی گئی، ہزاروں نوجوانوں کو تشدد کا نشانہ بنا کر عمر بھر کے لئے معذور کر دیا گیا، پھر بھی کشمیری بھائیوں کے حوصلے پست نہیں کئے جاسکتے۔ پوری کشمیروادی کو لہولہان کر دہا گیا بھارتی قابض افواج نے جس طرح کشمیر میں بیہمانہ اور ظالمانہ کاروائیاں کی ہیں اس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ گزشتہ چند دنوں میں سینکڑوں نوجوانوں کو بد ترین تشدد کا نشانہ بنا کر شہید کر دیا گیا۔ عالمی اداروں کی بھارتی مظالم پر خاموشی قابل افسوس ہے۔ مجلس وحدت مسلمین مشکل وقت میں کشمیریوں کو تنہا نہیں چھوڑے گی۔
انہوں نے مزید کہاکہ ہے کہ حق خود ارادیت کشمیریوں کا حق ہے۔ بھارت انسانیت سوز مظالم کے ذریعے مقبوضہ کشمیر کے عوام کو ان کے حق سے دستبر دار نہیں کر سکتا۔ اس لئے اب وقت آگیا ہے کہ دُنیا کشمیریوں کو اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق استصواب رائے کا حق دلوائے۔ پاکستان کے عوام کشمیریوں کے ساتھ سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح کھڑے ہیں۔ ہم اس مشکل گھڑی میں کشمیری بھائیوں کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں۔
وحدت نیوز (کراچی) مجلس وحدت مسلمین کراچی کے رہنماعلامہ مبشر حسن کا کہنا ہے کہ اکیس ارب میں فروخت کی جانے والی کے الیکٹرک اب ساتھ ہراز پانچ سو ارب روپے منافع کما چکی ہے۔آخر کیوں معاشی حب کراچی کی ایک کروڑ سے زائد صافین عوام کو پورے ملک میں سب سے زیادہ مہنگی فی یونٹ قیمت پر بجلی دی جارہی ہے۔85فیصد سے زائد ریکوری والے علاقوں کو میں آخر کیوں اعلانیہ و غیر اعلانیہ بلا جواز لوڈشیڈنگ کی جارہی ہے اورکے الیکٹرک اوور بلنگ کے نام پراربوں روپے سے بھتہ وصول کر چکی ہے،ان خیالات کا اظہار انہوں نےصوبائی سیکریٹریٹ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا، اس موقع پر احسن عباس رضوی،عارف رضازیدی ،علامہ علی انورجعفری،ناصرحسینی،میر تقی ظفر،عون علی ،ثمرزیدی ، علی عباس زیدی سمیت دیگر رہنما موجود تھے۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ 9 سالوں سے کے الیکٹرک کا آڈٹ نہیں ہوا تانبا چور،اووربلنگ ،میٹر ٹیمپرنگ سمیت دیگر طریقوں سے شہر کی عوام کو لوٹ رہی ہے و فاقی و صوبائی حکومتیں جواب دیں کے ایک نجی پرائیویٹ کمپنی کو سرکاری پولیس اسٹیشن کیوں اور کس بنیاد پر دیا گیا ہے ۔ عوام کو بجلی کے بلوں پر دھمکیاں لکھنا پولیس اہلکاروں کے زریعہ حراساں کرنے کا سلسلہ بند کیا جائے۔کے الیکٹرک سندھ حکومت سے سستی بجلی کیوں نہیں خریدتی گیس سے بجلی تیار کرنے والی بد دیانت کے الیکٹرک انتظامیہ عوام کو لوٹنے کا سلسلہ بند کرے کے الیکٹرک کی نجکاری شہر قائد کی عوام کے ساتھ زیادتی ہے جس کی پر زور مذمت کرتے ہیں ۔
علامہ مبشر حسن کا کہنا تھا کہ پاکستان کی تاریخ میں آج تک کسی کمپنی نے ایک وقت میں ساڑھے پانچ ہزار ملازمین کو جبری طور پر نہیں نکالا۔ کے الیکٹرک انتظامیہ کی جانب سے نکالے جانے والے ساڑھے پانچ ہراز ملازمین کے ساتھ ہیں شہر کی عوام کو مذید معاشی بدحالی اور بے روزگای کی طرف دھکیلا جارہا ہے انتظامیہ کے اس ظالمانہ اقدام کی مذمت کرتے ہیں ہم صدر مملکت ،وزیر اعظم پاکستان صوبائی وزیر اعلی سمیت چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار ،آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ کے الیکٹرک کو فوری قومی تحویل میں لیا جائے۔ قومی احتساب ادارے نیب کے زریعہ ادارے میں موجود کرپٹ انتظامیہ کے خلاف فوری کاروائی کرے گزشتہ 9 سالوں سے کے الیکٹرک کا آڈٹ نہیں ہوا فوری آڈٹ کیا جائے اور ادارے میں موجود کرپٹ آفسران کے خلاف کاروائی کی جائے۔
انہوں نے مزید کہاکہ کے الیکٹرک گیس کمپنی کے اربوں روپے کے واجبات ادا کرے پیٹرول پر بجلی پیدا کرے۔ اوور بلنگ کے نام پر مذید بھتہ خوری بند کی جائے۔شہر قائد کو بلا تعطل بجلی فراہم کی جائے۔اس حوالے سے مجلس و حدت مسلمین نے کے الیکٹرک کے خلاف مرحلہ وار مہم کا آغاز کر دیا ہے اور پہلے مرحلہ کے الیکٹرک کے خلاف عوام کی آگاہی کیلئے تشہیری مہم کے حوالے سے شہر میں بینرز آویزہ کر دیئے گئے ہیں۔دوسرے مرحلے میں شہر قائد کے مختلف اضلاع میں کے الیکٹرک انتظامیہ کے خلاف احتجاج کیا جائے کا اور شہر بھر میں بلا وجہ لوڈشیڈنگ اور اووربلنگ سمیت دیگر شکایات کے حوالے سے احتجاجی کیمپ لگائے جائیں کے جس میں عوام اپنی شکایات درج کر وا سکیں گے۔شہر کی عوام کوظالمانہ اقدامات پر قانونی تحفظ فراہم کرنے کیلئے عدلیہ میں بھی جایا جائے گا۔
وحدت نیوز (جیکب آباد) مجلس وحدت مسلمین صوبہ سندہ کے سیکریٹری جنرل علامہ مقصودعلی ڈومکی نے کہا ہے کہ اسرائیل سے محبت اور دوستی کا ہاتھ ملاکرکر بن سلمان نے آزادی فلسطین کی تحریک سے غداری کی ہے اور آل سعود کے مکروہ چہرے کو بے نقاب کیا ہے، اب امت مسلمہ پر یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ آل سعود سے حرمین شریفین کو شدید خطرہ ہے۔ امریکہ اور عالمی سامراج کی خوشنودی آل سعود کے لئے خدا و رسول ﷺ کی خوشنودی پر مقدم ہے۔ امریکہ برطانیہ اور شیاطین عالم کو خوش کرنے کے لئے وہابیت کو فروغ دینے کا بیان آل سعود کا اقبال جرم ہے۔ ہر گذرتے دن کے ساتھ حق اپنی صداقت کے ساتھ آشکار ہوتا جارہا ہے جبکہ باطل اور اس کا مکروہ چہرہ ہر روز پہلے سے زیادہ بے نقاب ہو رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کوئٹہ میں تسلسل کے ساتھ شیعیان علی ؑ اور ہزارہ مومنین کا قتل تشویشناک ہے۔ حکومت کے بلند وبالا دعووں کے باوجود بلوچستان سے لشکر جھنگوی اور داعش کے تربیتی مراکز کو ختم نہیں کیا جارہا۔ ملت جعفریہ کو وطن عزیز پاکستان سے محبت کی سزا دی جارہی ہے۔ ڈیرہ اسماعیل خان اور کوئٹہ کے مومنین اکیلے نہیں ہیں ،پوری قوم ان کے درد کو محسوس کر رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ امت مسلمہ اور ملت جعفریہ کے خلاف ملکی اور عالمی سطح پر جو سازشیں تیار کی گئی ہیں، ان کا مقابلہ بصیرت، شعور، صبر و استقامت اور جہد مسلسل ہی سے ممکن ہے۔ پاکستان میں بسنے والے چھ کروڑ شیعہ اپنی الٰہی ذمہ داریوں کو سمجھیں اور ان ذمہ داریوں کو ادا کرنے کے لئے میدان عمل میں آجائیں۔
وحدت نیوز (اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کا تین روزہ مرکزی تنظیمی سالانہ کنونشن کا آغازآج 6اپریل سے جامع الصادق جی نائن اسلام آباد میں ہو رہا ہے۔کنونشن میں شرکت کے لیے بلوچستان،سندھ،گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر سمیت پاکستان کے مختلف شہروں سے رہنماؤں اور تنظیمی کارکنوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔کنونشن میں صوبائی و ضلعی رہنماؤں کی جانب سے اپنے اپنے علاقوں کی تنظیمی کارکردگی پر رپورٹس پیش کی جائیں گی۔8اپریل کنونشن کے آخر سیشن پر بعنوان وحد ت اسلامی اور استحکام پاکستان سیمینار کا انعقاد کیا جائے گا ،سیمینارمیں ملک کے نامور شیعہ سنی علما اورسیاسی اکابرین شریک ہوں گے اور عصر حاضر میں امت مسلمہ کے مابین وحدت و اخوت کی ضرورت اور پاکستان کے استحکام پر گفتگو کی جائے گی۔کنونشن کے اختتام پر پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کے نمائندوں سے خطاب بھی کیا جائے گا۔
وحدت نیوز(آرٹیکل) سوشل میڈیا کی اہمیت اور معاشرے پر اس کے کردار سے ہر کوئی واقف ہے۔ یہ بات بھی نئی نہیں رہی کہ دنیا بھر میں خاص کر نئی نسل اسی سوشل میڈیا کے توسط سے بہت اہم امور بھی انجام دیتے ہیں اور بہت ہی قبیح ترین کام بھی۔ ترقی یافتہ ممالک میں کیا کچھ ہورہا ہے، عام طور پر ان کی خبریں ہمارے ہاں بہت کم پہنچتی ہے۔ اور جو کچھ پہنچتی ہے وہ بھی سوشل میڈیا کے ہی طفیل۔ جبکہ زبان و بیان کی مشکلات اور دلچسپیوں کی تفریق کیساتھ ساتھ سوشل میڈیا ذرایع کی اپنی پالیسیوں کے تحت دنیا میں سوشل سرکلز بھی ملکوں، معاشروں، مذاہب، اور زبانوں کے حساب سے ہی ایک دوسرے علاقے، زبان، معاشرہ اور ملک کے باسی تک پہنچ پاتا ہے۔ مثلا پاکستانی اردو اور انگریزی میں آئے پوسٹ تو دیکھتے ہی رہتے ہیں، لیکن ایسا کم ہی ہوتا ہے کہ عربی، چائنیز،یا ہندی زبانون میں پبلک فورمز میں کئے پوسٹ بھی بار بار آپ کے سامنے آتا رہے۔ زمانے کا تقاضا ہے کہ ہم ان جدید ذرائع کو بہتر انداز میں اور مثبت کاموں کیلئے استعمال کرنا سیکھیں اور اپنی نسلوں کو سکھائے۔ لیکن دیکھا یہ جاتا ہے کہ ہم مثبت کم جبکہ منفی سرگرمیوں کیلئے زیادہ استعمال کرتے ہیں۔ اور اسی وجہ سے سکول اور کالج کے طلباٗ خاص طور پر متاثر ہوتے نظر آتے ہیں۔ اس زمانے کو ثقافتی یلغار کا زمانہ بھی شاید اسی لئے کہا جاتا ہے کیونکہ دنیا سرد جنگ کے خاتمے کے بعد سے باقاعدہ جنگ سے کترانے لگے ہیں اور سمجھ لیا ہے کہ جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں۔ افغانستان، عراق، لیبیا، شام، یمن کی جنگوں سے کسی کی جیت نہیں ہوئی۔ چین جیسا اقتصادی سپر پاور اس حقیقت کو پہلے ہی درک کر چکا تھا۔ اب زمانہ سوشل جنگوں کا ہے اور ہمارے سامنے عرب سپرنگ، ویلویٹ ریوولیوشن، اور دیگر مثالیں موجود ہیں کہ سوشل میڈیا پر اب مختلف معاشرے باقاعدہ جنگیں لڑ رہی ہیں
چائینہ مجبور ہے کہ وہ اپنی معاشیت اور ثقافت کو بیرونی یلغار سے بچانے کیلئے مغربی سماجی ویب سائٹس پر پابندی لگادیں۔ یہی کچھ حال روس کا ہے۔ ایران سمیت دیگر کئی ممالک نے بھی بیرونی ممالک کی سماجی ویب سائٹس کو بند کردیئے، پاکستان میں بھی کافی عرصۃ فیس بک اور یوٹیوب بند رکھا گیا۔ حال ہی میں فیس بک پر الزام لگا کہ کڑوڑوں صارفین کا ڈیٹا امریکی انتخابات کے دوران ناجائز طریقے سے استعمال ہوئے، فیس بک کے بانی نے معذرت بھی کی اور اب امریکا اور برطانیہ میں ان کے خلاف کیسز بھی چل رہے ہیں۔ مسلمان ممالک خصوصا پاکستان کی اپنی کوئی سماجی ویب سائٹ تو ہے ہی نہیں، بیرونی دنیا کے ان اداروں اور سائٹس پر ہماری چلتی نہیں۔ پابندی ہم سے لگنی نہیں کیونکہ استعمال کئے بنا کسی نے رہنا نہیں۔ چاہے بڑے ہوں یا چھوٹے۔ اور استعمال کرنیمیں کوئی قباحت اور مسئلہ بھی بظاہرنہیں۔ یہ بات تو طے ہے کہ کسی بھی چیز کی بہتات اچھی نہیں ہوتی۔ اور سوشل میڈیا کے استعمال میں کوئی باقاعدہ گائیڈ لائن یا طریقہ کار نہ ہوں تو اسکے مضر اثرات سے کوئی نہیں بچ سکتا۔ ہم شاید فی الحال اس چیز کو درک نہیں کرپائے، لیکن آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہمارے سامنے امریکا جیسی ترقی یافتہ ممالک بھی مجبور ہیں کہ وہ سوشل میڈیا کے مثبت استعمال کو یقینی بنانے کیلئے باقاعدہ سرکاری فنڈ ز میں سے بجٹ مختص کرے۔ ہر ریاست میں محکمہ تعلیم کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ سکولوں میں بچوں کو تعلیم دینے کے ساتھ ساتھ ان کے والدین کو یہ بھی سکھائے کہ ان کے بچوں کو سوشل میڈیا استعمال کرنے کے آداب کیسے سکھائے جائیں۔کیوں؟ کیوں کہ ان کے تجربات ہوچکے ہیں ماں باپ گھر میں کتنا ہی خیال کیوں نہ رکھے، سکول میں کتنی اچھی تعلیمی نظام کیوں نہ ہو اگر طالبعلم کا حلقہ احباب،خصوصا آج کل کے زمانے میں سوشل نیٹ ورک اچھے نہ ہوں تو وہ کسی اور راہ لگ جانے میں دیر نہیں کرتا۔امریکہ اپنی نئی نسل کو سوشل میڈیا پر کس طرح کے کردار ادا کرنے اور سکھانے پر مجبور ہیں۔؟ انہیں ایسا کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اور ایسا کرنے سے کیا کچھ فرق پڑیگا؟ اسطرح کے سوالات تفصیل طلب ہے۔
کچھ سالوں سے امریکی ریاستوں کی حکومتیں باقاعدہ کوشش کررہی ہیں کہ تعلیمی نظام کو بہتر ٹریک پر رکھنے کیلئے سوشل میڈیا کے بہتر استعمال کو یقینی بنائی جائے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ امریکی شہر نیویارک حکومت کے محکمہ تعلیم نے ] طلبا کے سوشل میڈیا کے رہنمائی خطوط کے لیے والدین اور اہل خانہ کی رہنمائی[ کے نام سے باقاعدہ بارہ سال اور اس سے کم عمر کے بچوں کیلئے الگ اور بارہ سال سے زیادہ عمر کے بچوں کیلئے الگ گائیڈ لائن وضع کئے اور ان کو دنیا کے مختلف زبانوں میں تحریرکرنے کے ساتھ ساتھ والدین کی رہنمائی کیلئے ویڈیوز اور دوسروں کے آرا تک شامل کرکے شایع کردیئے۔نیویارک سٹی گورئمنٹ اور سکولز کی مرکزی ویب سائٹ پر بھی ڈال دیئے۔]جسکا خلاصہ اس تحریر میں شامل ہیں[۔ اور شہر کے ہر سکول اور ہر سکول میں پڑھنے والے بچوں کے والدین کو بھی ظاہر ہے پہنچا دی گئی ہیں تاکہ۔۔۔؟ سوال یہ ہے کیا یہ بات نیو یارک حکومت تک محدود ہے؟ کیا دوسری قومیں ہماری طرح ہیں؟ نہ سکولوں میں تعلیم کا بہتر نظام، نہ نئے تقاضوں کے مطابق تعلیم و تربیت؟ یقینا نہیں، چائینہ، یورپ، رشیا، اور دنیا بھر میں سوشل میڈیا اتھکس کو اب ضروری سمجھا جاتا ہے۔ بچوں اور بچوں کیوالدین کی تربیت کی جاتی ہے۔ انکو سوشل میڈیا کے آداب باقاعدہ پڑھائے اور سکھائے جاتے ہیں۔ دوسری طرف ہم ہیں پاکستانی، خصوصا گلگت بلتستانی۔ مسلمان ہیں۔ سماجی و دینی اقدار ہیں۔ بہت ساری ذمہداریاں ہیں سب پر۔ سرکاری پالیسیوں کو تورکھیں اپنی جگہ وہ تو دو انچ تارکول سڑک پر چڑھا کے احسان عوام پر ڈالتے ہیں۔ لیکن والدین؟ اکثریت خود ٹیکنالوجی سے واقف نہ تعلیم اتنی کہ دنیائی حوادث سے آشنائی ہو۔ اور ان حوادث کیلئے اپنے بچوں کی کوئی رہنمائی کرسکیں۔ نتیجتا، بچے اپنی راہ خود چنتے نکلتے جاتے ہیں، اچھے کو برا سمجھے، یا کچھ برے لوگ برائی کو ہی اچھا بنا کر انکو سمجھائے، بچارے والدین کو تو پتہ ہی نہیں چلتا۔ جب سالہا سال شہروں میں رہنے کے بعد اور بعض تو اپنے ہی گھر میں ہی رہتے ہوئے کسی اور سوچ کا مالک بن چکنے اور والدین، اخلاق، اطوار، روایات، سب کے سامنے سینہ سپر ہوکر کھڑے ہونے تک بے خبر رہتے ہیں۔ باتیں لمبی ہوجارہی ہے۔ مختصرا۔سوشل میڈیا کے بارے میں اپنے بچوں کی رہنمائی پر توجہ دیں۔۔ اگر والدین اور گھر کے بڑے نہیں دینگے تو کل کو پچھتائیں گے۔اس کیلئے کم از کم شیطان بزرگ امریکہ کی طرفسے اپنے شہریوں کیلئے پیش شدہ رہنمائی (اردوزبان میں تحریر لنک مضمون کے آخر میں ) کا ہی ایک بار مطالعہ کر لیں۔۔۔
خلاصتا چند اہم نکات درج ذیل ہیں:
۱۔ شہ سرخی مشق: اگر آپ کا بچہ ایک اخبار کے مضمون کا عنوان ہوتا تو یہ اس مضمون کے ساتھ کیسی شہ سرخی دیکھنا چاہیگی؟ شہ سرخی کو تحریر کریں۔ دوستوں، اہل خانہ اور مشہور افراد کی شہ سرخیاں کیسی ہو سکتی ہیں۔ آپ کی اور آپ کے بچے کی موجودہ آن لائن جگہوں پر موجود تصاویر اور پوسٹس کی نوعیت کا جائزہ لیں۔ کیا یہ آپ دونوں کے پسندیدہ عنوان سے میل کھاتی ہیں؟ اگر نہیں، تو کیا مستقبل کی پوسٹس ایسی ہونی چاہئیں؟ ۲۔ بچے کو پتہ ہونا ضروری ہے کہ آپ کے بچے کے پوسٹ سے انکے اساتذہ، دوست، رشتے دار کیا تاثر لیتے ہیں؟یعنی اسکی شخصیت اور سوچ کیسی ہے۔ ذاتی حساس معلومات کو پوسٹ نہ کریں۔اپنے بچے کو بتائیں کہ اپنا پتہ، تاریخ پیدائش، یا دیگر ذاتی معلومات کو پوسٹ کرنا کیوں غیر محفوظ ہے اور شناخت کی چوری (آئی ڈینٹٹی تھیفٹ) کا کیا مطلب ہے۔ ۳۔ تعارف، پس منظر کس طرح سے لکھ کر پیش کرتے اور کیسی تصاویر شیر کرتا ہے؟ عام لوگوں کو ان سے کیا تاثر مل رہا ہے؟ ۴۔ بچے کو جاننا لازمی ہے کہ وہ ذمہ داری کے ساتھ پوسٹ کریں - اپنے سامعین کو ذہن میں رکھیں، اس کیلئے والدین کا اپنے بچے کیساتھ ایک مشترکہ اکاونٹ بنانا، پرائیوسی کا خیال، دوستیاں وغیرہ مل کرنا، بات چیت جاننے والوں سے ہی کرنا،۔۔ جو چیز پوسٹ کی جارہی ہیں اسکی ضرورت، اہمیت، افادیت سے واقف کاری بہت اہم ہے۔ ۵۔ اپنے آن لائن سرگرمیوں کے نتائج کے بارے میں سوچیں اور یہ جانیں کہ یہ کس کو بطور دوست، یا فالو کرنے والا وغیرہ شامل کررہے ہیں۔ ذاتی حساس معلومات کو پوسٹ نہ کریں، معلومات کو راز رکھیں، سکول سے ملنے والی بچوں کی آن لائن سرگرمیوں پر مبنی رپورٹ پر غور کریں، بچے کے اکاونٹ کو خود فالو کریں، دوست بنائے رکھیں اور انکی رہنمائی کرتے رہیں۔ ۶۔ سائبر غندہ گردی کی دھمکیوں کو سنیجیدہ لیں۔ پنے بچے کے اسکول کے دوستوں اور ان کے ساتھ ملکر کرنے والی سرگرمیوں پر نظر رکھیں، گھر پر طرز عمل سے آگاہ رہیں، اگر آپ کو شک ہے کہ آپ کے بچہ کیساتھ کوئی غندہ گردی کر رہا ہے تو صورت حال کو سمجھنا اہم ہے۔ ۷۔ اپنے بچے کی آن لائن برادریوں میں مثبت رہنے کی حوصلہ افزائی کریں۔ایسے دیگر افراد کی نشان دہی کریں جو مثبت انداز میں شرکت کرتے ہیں۔ ۸۔ اس بات پر دھیان دیں آپ کے بچے کا رویہ ایک دم کیوں تبدیل ہو جاتا ہے۔ روزہ مرہ کی سرگرمیوں سے خارج ہونا، آن الئن اور ٹیکسٹ کرتے وقت غصہ کرنا، جب کسی بالغ کی آمد ہو تو جلدی سے اپلیکشنز کو بند کرنا، یا اس بارے میں بات چیت کرنے سے اجتناب کرنا کہ یہ کمپیوٹر پر کیا کر رہے ہیں۔ ۹۔ حالات حاضرہ کو استعمال کریں۔ خبروں میں واقعات اور دوستوں اور اہل خانہ کی صورت حال ذمہ داری کے ساتھ پوسٹ کرنے کے بارے میں بات چیت کرنے کے عمدہ مواقع فراہم کرتی ہیں۔ ''ہمیں یہ جاننے کی ضرورت کیوں ہے؟'' جیسے سوال کا تیار جواب فراہم کرتا ہے۔
تحریر: شریف ولی کھرمنگی( بیجنگ)