The Latest

وحدت نیوز(چکوال) علامہ راجہ ناصرعباس جعفری کی بھوک ہڑتال و استقامت نے ملت جعفریہ کےخلاف سازش کو بے نقاب کیا،امیر المومنین حضرت علی علیہ سلام کی زندگی سے ہمیں دو سبق بالخصوص زہن نشین کرنے چاہیے ایک امور میں نظم اور دوسر ا ظالموں کے دشمن اور مظلوموں کا دوست بن کر رہنا۔مظلوموں کی حمایت بڑے بڑے گناہوں کا کفارہ ہیں ۔ ان خیالات کا اظہار نثار علی فیضی نے چکوال میں ضلعی عمائدین، علماءکرام ، زعماءاور تنظیمی عہدیداران و کارکنان سے افطار ڈنر کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ ان سے قبل رکن شوریٰ عالی علامہ محمد اقبال بہشتی ، مرکزی آفس کے مولانا علی شیر انصاری اور ضلعی سیکرٹری جنرل مولانا سید اعجاز حسین نقوی نے بھی حالات حاضرہ، رمضان المبارک اور پروگرام کے غرض و غائیت پر گفتگو کی۔

پروگرام سے مزید گفتگو کرتے ہوئے برادر نثار علی فیضی نے کہا کہ پاکستان بنانے والوں کی نسلیں آج پاکستان بچانے کی جنگ لڑ رہے ہیں ۔ جبکہ تحریک پاکستان کی مخالفت کرنے والے آج پاکستان کو تکفیریت و سلفیت کے منحوس سائے میں لے جانے چاہتے ہیں۔ پاکستان کی بنیادوں کو کھوکھلا کرنے والی مذہبی انتہا پسندی ہمارے ریاستی اداروں اور حکمرانوں کے اذہان پر بھی اثر انداز ہو چکی ہے جس کے نتیجے میں دہشتگرد محفوظ پناہ گاہوں میں اپنے مذموم عزائم کی تکمیل کے لیے سرگرم ہیں۔

قائد اعظم کے پاکستان میں وطن سے محبت اور وفاداری کرنے والوں کو بسوں سے اتار کر شناختی کارڈ دیکھ کرقتل کیا جاتا ہے۔ اس قوم کے ہونہار طلبائ، شعبوں کے ماہرین ، باصلاحیت وکلائ، قابل اساتذہ اور اتحاد و وحدت کے داعی علماءکو ایک ایک کرکے قتل کیا جاتا ہے۔ اقبال کے پاکستان میں ایک ماں کہتی ہے کل رات پوتا پیدا ہوا آج بیٹا شہید ہوگیا کل بیٹے کو پال پوس کر جوان کیا آج پوتے کو کیسے پالوں گی۔ وطن کی شاہراووں پر قوم کے معمارایک پرنسپل کی لاش اوندھے منہ گھنٹوں پڑی رہی لیکن بے حس حکمرانوں کو کوئی فرق نہیں پڑا۔ اسی ملک میں بچوں کو سکول چھوڑنے جانے والے باپ کو قتل کردیا جاتا ہے اور چند روز بعد انہی بچوں کے چچا کوبھی اسی طرح قتل کیا جاتا ہے۔ ڈیرہ اسماعیل خان میں ایک وکیل دھشتگردوں کے ہاتھ قتل ہو کر اپنے موٹرسائیکل کے نیچے گھنٹوں پڑ ا رہتا ہے لیکن بازار میں خوف و بے حسی کے مارے لوگ اس کے قریب نہیں آتے۔ یہ قائد کا پاکستان تو نہیں یہ اقبال کا پاکستان تو نہیں۔ ہمارے حکمران اور ریاستی ادارے اس سارے ظلم وستم پر نا صرف خاموش ہیں اور مجرمانہ غفلت و بے حسی کے مرتکب ہورہے ہیں بلکہ بعض جگہوں پر محسوس ہورہا ہے کہ دھشتگردوں اور ان کے عزائم مشترک ہیں ۔ آج وہ علاقے جو سالہا سال طالبان دھشتگردوں نے لشکر کشی کے زریعے حاصل نہ کرسکے صوبائی حکومت اور ریاستی ادارے خالصہ سرکار اور جبر و زور دستی کے زریعے ان پر قبضہ کررہے ہیں۔ ستم بالا ستم یہ ہے کہ ان تما م قربانیوں کے باوجود ریاستی ادارے شہید اعتزاز حسن ، مہران بیس کے شہید یاسر، کوئٹہ کے شہید میجر علی جواداور سب سے بڑھ کر قائد اعظم محمد علی جناح کے ہم مسلک مسلمانوں کی حب الوطنی پر شک کرتے ہیں۔

ضرب عضب کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ دھشتگردوں کی کمر ٹوٹتی اور متاثرین کو ریلیف پہنچتا مگر المیا یہ ہوا کہ دہشتگردی کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے بننے والے نیشنل ایکشن پلان کو ڈائیورٹ کر کے دھشتگردوں کو ریلیف پہنچا نے اور متاثرین کو مزید خوف ہراس میں مبتلا کرنے کی سازشیں ہور ہی ہیں۔ آج پنجاب میں درود سلام پڑھنے والوں پر لاﺅڈ سپیکر ایکٹ کے زریعے پرچے کاٹے جارہے ہیں۔ سالہا سال سے منعقد ہونے والی عزاداری کے لائسنس منسوخ کیے جارہے ہیں۔ اتحاد و وحدت کے داعی علماءو زاکرین پر بین الاضلاع و بین الاصوبائی پابندیا لگائی جارہی ہیں ۔ شیڈول فور میں پر امن شیعہ اکابرین کو شامل کر کے امن وامان کی صورتحال خراب کی جارہی ہے۔پارہ چنار میں شعبان کے جشن میں شرکت کرنے والے نعت خوانوں اور علماءکرام پر پابندی لگائی جاتی ہے اور اس ظلم پر احتجا ج کرنے والوں پر ایف سی کی جانب سے ڈائریکٹ فائرنگ کر کے معصوم انسانوں کو قتل کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد کئی افراد کو گرفتار کرکے جیلوں میں بھیجا جاتا ہے اور تشدد کے زریعے انہیں مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ قبول کریں کے یہ فائرنگ انھوں نے کی۔ ایسے واقعات حکومت اور ریاستی اداروں کے دوہرے معیار و غیر منصفانہ طرز عمل ہماری قوم میں احساس محرومی اور نفرتوں کو اجاگر کر رہی ہے۔

اس ساری صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے مجلس وحدت مسلمین کے سربراہ علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے ایک ماہ قبل بھوک ہڑتال کا فیصلہ کیا جواب ایک ملک گیر بلکہ بین الاقوامی احتجاجی تحریک میں تبدیل ہوچکی ہے ۔اس احتجاجی کیمپ میں سو سے زائد مختلف سیاسی و مذہبی جماعتوں کے مرکزی رہنماوں نے وفود کے ہمراہ احتجاجی کیمپ کا دورہ کیااور ایم ڈبلیو ایم کی مرکزی قیادت کو مکمل تعاون کا یقین دلاتے ہوئے کہا کہ آپ کے مطالبات اصولی اور آئین پاکستان کے عین مطابق ہیں جس کے لیے ہم آپ کے ساتھ کھڑے ہیں۔تا ہم ہمارے اس خاموش اور پرامن احتجاج کو حکومت کمزوری سمجھ رہی ہے۔حکومتی بے حسی اور مطالبات کی منظوری پر غیر سنجیدہ رویے کے خلاف اب یہ تحریک عید الفطر کے بعد ایک نئے مرحلے میں داخل ہورہی ہے۔ اس مرحلے میںملک گیر احتجاجی دھرنے ، اہم شاہراہوں کی بندش ، لاہور میں بڑا احتجاج اور پھر ملک گیر لانگ مارچ شامل ہے۔پروگرام کے شرکاءنے اپنے نعروں کے زریعے جذبات کا اظہار کیا اور علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کے ساتھ بھر پور اظہار یکجہتی کرتے ہوئے لانگ مارچ اور اس سے پہلے کے تمام مراحل میں بڑ ھ چڑھ کر حصہ لینے کا اعلان کیا۔

وحدت نیوز(اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان نے 21 جولائی کو ملک کی تمام اہم شاہراہیں بند کرکے ملک کو جام کرنیکا اعلان کر دیا ہے۔ اکیس جولائی کو دن دو بجے سے لیکر رات آٹھ بجے تک ملک کی تمام اہم شاہراہیں بند کی جائیں گی اور حکومت کو اپنے مطالبات کی طرف متوجہ کیا جائیگا۔ یہ فیصلہ ایم ڈبلیو ایم کی مرکزی کابینہ کے اجلاس میں کیا گیا۔ ذرائع کے مطابق اگر حکومت نے مطالبات پر پیش رفت نہ کی تو پنجاب اسمبلی کے سامنے طویل دھرنا دیا جائیگا۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ سات اگست کو علامہ عارف الحسینی کی برسی کا عظیم اجتماع اسلام آباد میں منعقد کیا جائیگا، جس میں اہم اعلانات کئے جائیں گے۔ یاد رہے کہ علامہ ناصر عباس جعفری تیرہ مئی سے مطالبات کے حق میں نیشنل پریس کلب کے سامنے بھوک ہڑتال پر ہیں، ان کا کہنا ہے کہ وہ پرامن طریقے سے شیعہ حقوق کی جانب حکومت کی توجہ مبذول کرا رہے ہیں لیکن حکومت کوئی توجہ نہیں دے رہی۔

وحدت نیوز (اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے سربراہ علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے بھوک ہڑتالی کیمپ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک میں بڑھتی ہوئی لاقانونیت اور ٹارگٹ کلنگ کے واقعات نے امن و امان کی صورتحال کو مفلوج کر رکھا ہے۔وفاقی و صوبائی حکومتیں یوم علی علیہ السلام کے موقعہ پر ملک بھر میں ہونی والی مجالس اور جلوسوں کو فول پروف سیکورٹی مہیا کرے۔کسی بھی ممکنہ ناخوشگوار واقعہ کی ذمہ دار متعلقہ حکومت اور انتظامیہ پر ہو گی۔تمام جلوسوں کے روٹس کی بھرپور نگرانی کی جائے۔داخلی راستوں پر واک تھرو گیٹ نصب کیے جائیں اور جلوس پر جانے والے مومنین کے لیے سیکورٹی کے نام پر مشکلات یا رکاوٹیں نہ پیدا کی جائیں ۔

انہوں نے کہا کہ حکومتی نااہلی اور دہشت گردوں کی کاروائیوں نے اس مادر وطن کو جہنم بنا کر رکھ دیا ہے۔ حتی الوسع ہماری کوشش رہی ہے کہ حکومت ہمارے پُرامن احتجاج اور مطالبات کو تسلیم کریں لیکں گزشتہ 42 دن سے لگے ہوئے اس احتجاجی کیمپ کی طرف حکومت کی کسی مقتدر شخصیت کا رُخ نہ کرنا اس امر کی دلیل ہے کہ اس ملک میں صرف دہشت گردوں کے مطالبات تسلیم کیا جاتے ہیں ۔حکومت کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے اس ملک میں قانون شکن ہونا لازم قرار دے دیا گیا ہے۔مجلس وحدت مسلمین اس ملک کی پُر امن اور محب وطن جماعت ہے ۔ہم متشدد اورمنافقانہ سیاست کو گناہ سمجھتے ہیں۔عید کے بعد ہم نے اس احتجاج کو دھرنوں کی شکل دینی ہے۔ملک کی تمام اہم شاہراوں پر بھرپور افرادی قوت کے ساتھ دھرنے دیے جائیں گے۔حکومت کی مسلسل بے حسی کے جواب میں ہمارے پاس سوائے دھرنوں کے اور کوئی آپشن موجود نہیں ۔دھرنوں کے بعد لانگ مارچ کی تاریخ کا اعلان کیا جائے گا۔

انہوں نے کہا امجد صابری کا قتل اس فکر کو آشکار کرتا جو اس ملک کی موجودہ بدترین صورت حال کی ذمہ دار ہے۔دنیا بھر میں پاکستان کو شناخت دینے والے شخص کو حُب رسول ﷺ و آل رسول ﷺ کی سزا موت کی شکل میں دی گئی۔اسی طرح چیف جسٹس کے بیٹے کااغوار اور کسی بھی پیش رفت میں تاحال ناکامی تحقیقاتی اداروں کی شرمناک کارکردگی کو ظاہر کر رہے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں علامہ ناصر نے کہا کہ ہماراکسی بھی ایسی جماعت سے اتحاد نہیں جو وطن عزیز میں عدم استحکام پیدا کرنا چاہتی ہو۔ہماری کسی بھی حکومت سے کوئی مخالفت نہیں۔ ہم پر یہاں پر حکومت گرانے یا کردار کشی کے لیے نہیں بیٹھے ہوئے بلکہ اپنے جائز مطالبات اور قوم و ملک کی سلامتی کے لیے بھوک ہڑتال پر ہیں۔ جو شر پسند ہمارے اس احتجاج کو کسی ایجنڈے کا حصہ قرار دیتے ہیں وہ اس بات کو اپنے دماغ میں بٹھا لیں کہ اگر ہمارے مطالبات پر آج ہی تسلیم کر لیے جاتے تو ہم اپنا احتجاج آج ہی ختم کرنے پر تیار ہو جائیں گے۔انہوں نے کہا ہے کہ ملک کی دیگر سیاسی جماعتوں کا دباو نتیجہ خیز دکھائی دے رہا اور عید کے بعد نون لیگ کی حکومت زیادہ دور تک چلتی ہوئی نظر نہیں آتی۔

وحدت نیوز (ملتان) مجلس وحدت مسلمین جنوبی پنجاب کے صوبائی سیکرٹری جنرل علامہ سید اقتدار حسین نقوی نے کراچی میں عالمی شہرت یافتہ قوال امجد فرید صابری کی ٹارگٹ کلنگ کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ امجد صابری حقیقی عاشق رسول و اہلبیت تھے جس کے جُرم میں اُنہیں شہید کیا گیا۔ ملتان سے جاری بیان کے مطابق علامہ اقتدار نقوی کا مزید کہنا تھا کہ کراچی میں جاری آپریشن کی کامیابیوں کے دعوے، رینجرز کی موجودگی، دہشت گردوں کی کمر توڑنے کے دعوے اور حالیہ واقعات سیکیورٹی اداروں کے لیے لمحہ فکریہ ہیں۔ دو روز قبل کراچی سے چیف جسٹس کے بیٹے کا اغواء، ایک ڈاکٹر کا قتل اور دن دیہاڑے امجد صابری کی ٹارگٹ کلنگ کراچی آپریشن پر سوالیہ نشان ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ جب بھی کوئی دہشت گردی کا واقعہ ہوتا ہے رسمی اعلانات اور بیانات آنا شروع ہوجاتے ہیں لیکن عملی طور پر کوئی کردار ادا نہیں کیا جا رہا ہے۔ کراچی میں ڈاکٹر، انجینیئرز، وکلاء اور پروفیسر ز کا قتل عام معمول بن چکا ہے۔ اگر سیکیورٹی اداروں نے اپنی نااہلی دور نہ کی تو عوام آپریشن ضرب عضب پر سوال اُٹھانے پر مجبور ہوجائیں گے۔ اُنہوں نے کہا کہ مجلس وحدت مسلمین پاکستان میں امن کی خواہاں ہے لیکن کسی پر بھی ظلم برداشت نہیں کرے گی۔ پاکستان میں ملت جعفریہ سب سے زیادہ دہشت گردی کا شکار رہی ہے لیکن ہماری حکومتوں کی ترجیحات دہشت گردی کے خاتمے کی بجائے پیسہ بنانا ہے۔

وحدت نیوز(کراچی) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے وحدت ہاوس سے جاری بیان میں کہا کہ متحدہ قومی موومنٹ کے قائد جانب الطاف حسین کی جانب سے ملک میں جاری شیعہ نسل کشی اور انتہا پسندی کے خلاف مجلس وحدت المسلمین کی بھوک ھڑتال کی حمایت و یکجہتی پہ انکا شکریہ ادا کیا۔انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے متحدہ کے قائد جناب الطاف حسین کی طرف سے ملتْ تشیع کے موقف کی حمایت قابل ستائش ہے۔ ملک کو انتہا پسندی کے عفریت سے چھٹکارا دلانے کے لیے تمام اعتدال پسند سیاسی و مذہبی قوتوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکھٹا ہونا ہو گا۔مذہبی انتہاپسندی اور تکفیریت کا فروغ وطن عزیز کے استحکام اور قومی امن و سلامتی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔انہوں نے کہا کہ حکومت قانون نافذ کرنے والے اداروں کو سیاسی و مذھبی مخالفین کے خلاف استعمال کرنے کی بجائے ملک دشمن کالعدم تنظیموں کی سرکوبی کے لیے استعمال کرے۔

انہوں نے کہا کہ اگر نیشنل ایکسن پلان کو سیاسی و مذھبی مخالفین کے خلاف استعمال کرنے کی بجائے دہشت گردوں کے خلاف استعمال کیا جاتا تو امجد صابری جیسا عاشق رسول ( ص) اور خرم ذکی شہید نہ ہوتے۔ انہوں نے کہا کہ کراچی اپریشن پہ متحدہ قومی موومنٹ کے تحفظات دور کیے جائیں اور ریاستی ادارے ملک دوست قوتوں کو دشمن گرداننے کی پالیسی ختم کریں۔ انہوں کے مطالبہ کیا کالعدم تنظیموں اور انکے سہولت کاروں کے خلاف نیشنل ایکشن پلان کے تحت فوری کاروائی کا آغاز کیا جائے تاکہ ملک میں دیرپا امن کا قیام ممکن ہوسکے۔ علامہ ناصرعباس جعفری نے امید ظاہر کی ہے کہ مظلومیت کے حق اور ظلم کے خلاف ہماری آواز کو ایم کیو ایم پارلیمنٹ میں بھی بلند کرے گی۔انہوں نے ملک کی تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں کا شکریہ ادا کیا جن کے مرکزی رہنماوں نے احتجاجی کیمپ میں آکر اظہار یکجہتی کیا۔

وحدت نیوز(آرٹیکل)لیں جی امجد صابری بھی مر گئے ،مرنا تو سب کو ہے۔موت تو سب کو آتی ہے ۔لیکن وہ کیسے مرے!

بھائی صاحب وہ مرے نہیں بلکہ مار دئیے گئے!

کس نے مار دئیے !؟

کچھ لوگ موت کا کاروبار بھی  تو کرتے ہیں۔یہ  بھی ایک پیشہ ہے۔۔۔اوریہ پیشہ بڑی طاقتوں کی ایما پر حاصل کیا جاتاہے۔

ہوں!یہ تو ہم جانتے ہی ہیں کہ بڑی طاقتیں اپنے بڑے بڑے مفادات کے لئے چھوٹے موٹے لوگوں کو ملازمتیں دیتی ہیں۔

اگر یہ جانتے ہیں تو پھر یہ بھی تو آپ جانتے ہی ہونگے کہ۔۔۔ ملازموں کی  بھی مختلف اقسام ہوتی ہیں،بعض ہرکام کرنے پر اتر آتے ہیں اور بعض اپنی شخصیت کا لحاظ کرتے ہیں۔اسی طرح کچھ نوکرپکے وفادار اور کچھ ہڈ حرام ہوتے ہیں۔

جی جی کیوں نہیں!!!دنیا میں ہر جگہ ہڈ حرام لوگوں کے ساتھ محدود پیمانے پر کام کیا جاتاہے جبکہ وفاداروں کو ہمراز بنایاجاتاہے اور ان سے اہم کام لئے جاتے ہیں۔

بس پھر یہ  بھی سمجھ لیجئے کہ انسان کُشی  ہڈ حرام لوگوں کا کام نہیں بلکہ استعمار کے وفاداروں کا مخصوص پیشہ ہے۔استعمار کے وفادار ملازم انسانوں کو مارتے ہیں اور استعمار اُن کے مارے ہوئے انسانوں کی لاشوں کو بھنبوڑتا ہے۔

جی قارئین محترم!انسانوں کو دو طرح سے مارا جاتاہے،جسمانی طور پر بھی اور ذہنی طور پر بھی۔جس طرح جسمانی طور پر ٹارگٹ کلنگ کی جاتی ہے اسی طرح ذہنی طور پرمارنے کے لئے بھی افراد کی ٹارگٹ  کلنگ ہی کی جاتی ہے۔یاد رہے کہ جسمانی طور پر کسی کی ٹارگٹ کلنگ ،ذہنی ٹارگٹ کلنگ کی نسبت بہت آسان ہے۔

ذہنی طور پر ہر کوئی نہیں مرتا اور نہ ہی ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہوتاہے۔اس کے لئے سب سے پہلے استعمار کے آلہ کار مختلف اقوام و ممالک کے درمیان  کم ظرف اور احساس کمتری کے ڈوبے ہوئے لوگوں کا انتخاب کرتے ہیں۔کسی بھی کم ظرف انسان کی شناخت یہ ہے کہ وہ پس پردہ  رہنے کی صورت میں سازش اور غیبت کرتاہے جبکہ مدِّ مقابل کے سامنے آنے کی صورت میں اس کی خوشامد،چاپلوسی یا توہین کرتاہے۔قابلِ ذکر ہے کہ چاپلوسی کی طرح توہین بھی کم ظرفی کے ترکش کا تیر ہے۔

جب ایران کے اسلامی انقلاب کی کامیابی نے استعمار کے اوسان خطا کئے تو  استعمار نے ایسے ہی افراد کو ہمارے ملک میں بھی ڈھونڈا۔وہ لوگ جو درپردہ اسلامی انقلاب  کے خلاف  استعماری طاقتوں کو گرین سگنل دیتے تھے اور آمنے سامنے اسلامی انقلاب کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتے تھے یا پھر اس انقلاب کی توہین کرتے تھے،استعمار نے ان لوگوں کو ڈھونڈا اور یوں در پردہ سازشیوں نیز توہین اور خوشامد کرنے والوں کے لئے دہشت گردی کے تربیتی کیمپ لگائے،انہیں درہم و دینار اور اسلحے سے مالا مال کیا اور پھر انہیں مجاہدینِ اسلام کہہ کر ان کے ذریعے سادہ لوح افراد کی ذہنی ٹارگٹ کلنگ کی گئی۔

لوگ جوق در جوق ان کیمپوں میں انسان کشی کی تربیت حاصل کرتے رہے اور پھر اپنے ہی بھائیوں کے گلے کاٹنے پر اتر آئے۔

پھر اس مُلک میں کوئی شاعر،ادیب،صحافی،استاد،موسیقار،قوّال،امام بارگاہ،مسجد،مندر،کلیسا،سکول،یونیورسٹی،پولیس ،فوج ۔۔۔کچھ بھی محفوظ نہیں رہا۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ  اہلیانِ پاکستان کی اتنے بڑے پیمانے پر ذہنی ٹارگٹ کلنگ کس نے کی؟

کس نے لوگوں کو دہشت گردی کی تربیت حاصل کرنے پر زہنی طور پر آمادہ کیا؟

کیا وہابی علما،دیوبندی مدارس اور اہلحدیث کہلوانے لوگ اس کے ذمہ دار ہیں؟!

کیا سپاہِ صحابہ اور لشکر جھنگوی  کے لوگ اتنی بڑی ذہنی تبدیلی کے موجد ہیں؟!

آپ پاکستان میں شدت پسندی اور دہشت گردی کی تاریخ کا عمیق مطالعہ اور تجزیہ و تحلیل کرکے دیکھ لیں ،آپ کو صاف نظر آئے گا کہ دہشت گردی کے راستے میں استعمال ہونے والے لوگ خواہ کسی بھی مسلک یا ٹولے سے تعلق رکھتے ہوں،اُن کی حیثیت ایک ٹشو پیپر سے زیادہ نہیں ہے۔

ٹشوپیپر کی طرح استعمال ہونے والے کسی ملت میں کوئی ذہنی  تبدیلی یا فکری انقلاب نہیں لاسکتے۔اس تبدیلی کے پیچھے وہ مکار ذہن کام کررہا ہے جو شیعہ کے ساتھ بیٹھتا ہے تو شیعہ کاز کی بات کرتاہے،سنی کے ساتھ بیٹھتا ہے تو اہل سنت کی مظلومیت پر ٹسوے بہاتا ہے اور وہابیوں کے ساتھ بیٹھتا ہے تو وہابیوں کے علاوہ باقی سب کو ختم کرنے کی باتیں کرتاہے۔

وہ دینی قوتیں جنہوں نے پاکستان میں اسلامی انقلاب کے لئے عوامی ذہن کو تیار کرنا تھا ،خود اُن کے ذہنوں پر دہشت گردوں کا خوف سوار کردیاگیاہے۔اگرچہ مجموعی طور پر ایک خاص  مسلک نے پاکستان میں بے گناہ لوگوں کو قتل کرنے کی ایک خونی تاریخ رقم کی ہے۔

لیکن اس سے اُس مسلک کو فائدے کے بجائے نقصان ہی پہنچاہے،خود اس مسلک کی مساجد و مدارس اور مفتیوں  کے بارے میں لوگوں کو یہ پتہ چل گیاہے کہ یہ سعودی عرب اور اسرائیل کے مفادات کی جنگ لڑرہے ہیں۔

کل امجد صابری کو شہید کیا گیا۔اس سے پہلے قاری سعید چشتی کو بھی خون میں نہلایاگیاتھا،یہ شہادتیں ایسے ہی نہیں ہورہیں۔ان شہادتوں کے  پیچھے کچھ درپردہ سازشیں ہیں،کچھ ممالک ہیں،کچھ طاقتیں ہیں ،کچھ پارٹیاں ہیں،کچھ ریاستی  ادارے  اورکچھ سازشی عناصر ہیں ۔۔۔جن کے ہوتے ہوئے قاتل گرفتار نہیں ہوتے اور دہشت گردی پر قابونہیں پایاجاسکتا۔۔۔ انہیں پہچاننا ضروری ہے ۔۔۔جب تک دہشت گردوں کے سہولت کاروں،سرپرستوں اور شریکِ جرم  اداروں کو بے نقاب نہیں  کیاجاتا جرائم پیشہ عناصر کو لگام نہیں دی جاسکتی۔

بات یہ نہیں کہ امجد صابری کو موت آگئی ۔۔۔

مرنا تو سب کو ہے،

موت تو سب کو آتی ہے ،

لیکن  کل ایک مقتول کے  قاتل مرگئے ۔۔۔

شرمندگی کی موت

ندامت کی موت

شکست کی موت

کل آواز کو قتل کرنے کی کوشش کی گئی

بھلا آواز بھی قتل ہوئی ہے کبھی

کل عقیدت کو مٹانے کی سعی کی گئی

بھلا  مٹانے سےعقیدت بھی مٹی ہے کبھی

شاید یہ نامراد قاتل

اپنی محرومی کے احساس سے شرمندہ ہیں

خود نہیں رکھتے تو اوروں کے بجھاتے ہیں چراغ

یہی وجہ ہے کہ

 مقتول مرانہیں بلکہ زندہ ہوگیا ہے

ہمیشہ کے لئے امر ہوگیاہے

من مات علی حب آل محمد۔۔۔

 

 

 

تحریر۔۔۔۔۔۔۔۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز(کراچی) مجلس وحدت مسلمین رہنماؤں کے وفد نے صوبائی سیکرٹری جنرل علامہ مقصود علی ڈومکی کی قیادت میں شہید امجد صابری کے جنازہ میں شرکت کی اور لواحقین سے اظہار تعزیت کیا اس موقع پر علامہ باقر عباس زیدی, علامہ علی انور, علامہ صادق جعفری ,سیکرٹری سیاسیات علی حسین نقوی موجود تھے رہنماؤں شہید امجد صابری کہ جنازہ کے بعد میڈیا گفتگو میں کہنا تھا کہ وفاقی و سندھ حکومت نے کراچی آپریشن کے نام پر اربوں روپے جھونک دیے مگر نتائج حاصل کرنے میں بری طرح ناکام رہی۔ملک بھر میں دہشتگردی کے خلاف بنائے جانے والا نیشنل ایکشن پلان بھی ناکام نظر آتا ہے دوسری جانب جس آپریشن کا کپتان اپنی ٹیم منتخب کرنے کا اختیار نہ رکھتا ہو وہ آپریشن کو کس طرح منطقی انجام تک پہنچا سکتا ہے۔ شہر قائد کو اجرتی قاتلوں اور شدت پسند مذہبی تنظیم کے غنڈوں نے یر غمال بنا رکھا ہے۔ جب تک اداروں اور حکومت میں موجود ذمہ داران اپنی آنکھوں سے تعصب کی عینک نہیں اتاریں گے اسوقت تک کراچی آپریشن سے مثبت نتائج حاصل نہیں کیئے جاسکتے۔

اس موقع پر علی حسین نقوی نے کہا کہ کراچی میں کالعدم مذہبی تنظیم کے دھشتگرد کھلے عام دندناتے پھرتےہیں جب کہ قانون کا اطلاق صرف امن پسند مظلوم عوام پر ھورھا ھے۔ کراچی میں چیف جسٹس کے بیٹے کو دن دھاڑے اغوا کرلیا جاتا ہے مگر تین دن گزرجانے کے باوجود کوئی سراغ نہیں ملتا اگر یہ نا اہلی نہیں تو اور کیا ہے۔ رہنماؤں نیامجد صابری کی شہادت پر انکے اہل خانہ سے تعزیت کا اظہار کیا اور کہا کہ امجد صابری پاکستان کا ایک اثاثہ تھے یہ محب وطن عاشق رسول (ص) و اہلبیت علیہ السلام تھے اور امجد صابری وحدت مسلمین کے داعی تھے جن کی کمی ہمیشہ محسوس ہوگی. رہنما ؤں نے سندھ حکومت سے مطالبہ کیا کہ امجد صابری کے قتل میں ملوث سفاک دہشتگردوں کو فلفور کرفتار کیا جائیاور کالعدم ملک دشمن مذہبی شدت پسند تنظیموں بھر پور کاروائی کرکے انہیں کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔

پاکستان خودسے کب ملے گا؟

وحدت نیوز(آرٹیکل) پاکستان کی معیشت کا حجم ڈھائی سو بلین ڈالر ہے۔ اس معیشت میں پچھلے آٹھ برس سے ساڑھے چار تا چھ فیصد سالانہ کے حساب سے اضافہ ہو رہا ہے۔پاکستان کے زرِ مبادلہ کے ذخائر گذشتہ انہتر برس میں اتنے نہیں تھے جتنے آج ہیں ( بائیس ارب ڈالر سے زائد )۔ڈالر کے مقابلے میں روپے نے پچھلے تین برس سے مسلسل کمر باندھ کے رکھی ہوئی ہے۔رواں برس پاکستانی اسٹاک ایکسچینج براعظم ایشیا میں سب سے بہترین پرفارمر ہے۔پاکستان میں موجودہ شرحِ سود گذشتہ بیالیس برس میں سب سے کم ہے۔ پاکستان میں افراطِ زر کی شرح تین فیصد کے آس پاس ہے جس کے سبب اشیائے زندگی کے نرخوں میں استحکام پایا جاتا ہے۔

اگلے مالی سال کے لیے جو وفاقی بجٹ پیش کیا گیا، وہ پچھلے کئی عشروں میں سب سے زیادہ زراعت و صنعت دوست کہا جا رہا ہے۔گذشتہ تین برس کے دوران قومی گرڈ میں مزید ایک ہزار میگاواٹ سے زائد بجلی ڈالی گئی ہے اور حکومت کا یہ دعویٰ محض ہوائی نہیں کہ دو ہزار اٹھارہ تک لوڈ شیڈنگ پر بہت حد تک قابو پا لیا جائے گا۔موجودہ حکومت کے معاشی اعتماد کا یہ عالم ہے کہ آنے والے دونوں کے معاشی انڈیکیٹرز کے بارے میں سوچ کر آئی ایم ایف کا ساڑھے چھ ارب ڈالر سے زائد کے امدادی پروگرام کا کشکول اگلے چند ماہ کے دوران توڑ دینے کے لیے بے چین ہے۔

امن و امان کے حالات بھی پہلے سے بہت بہتر ہیں۔ ضربِ عضب کے نتائج نکلنے شروع ہوگئے ہیں۔پراپرٹی ، اسٹاکس اور صنعتی سیکٹر میں جنبش محسوس ہو سکتی ہے۔ملکی معیشت کا انجن یعنی کراچی پھر سے ہارن بجا کر اپنی موجودگی کا احساس دلانے لگا ہے۔مڈل کلاس  کی جیب میں پیسہ اچھل رہا ہے تو ریسٹورنٹ اور ہوٹل انڈسٹری بھی انگڑائی لے رہی ہے۔

یہ سب اس سب کے باوجود ہے کہ کرپشن کا زور اب تک نہیں ٹوٹا ، سیاسی حکومت تین برس بعد بھی خود کو تنے ہوئے رسے پر محسوس کر رہی ہے اور حزبِ اختلاف ہو کہ اسٹیبلشمنٹ ، بدلتے علاقائی حالات سمجھنے کے لیے سرنگی بینائی ( ٹنل ویژن ) کو بصیرت سمجھنے پر بضد ہیں۔

نتیجہ یہ ہے کہ اتنے حوصلہ افزا اقتصادی انڈیکیٹرز کے باوجود غیر ملکی سرمایہ کار پاکستان کی جانب راغب ہونے سے ہچکچا رہا ہے۔گذشتہ نو ماہ کے دوران پاکستان میں لگ بھگ ایک ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا عندیہ ملا اور وہ بھی پہلے سے موجود آٹوموبیل اور فوڈ پروسیسنگ انڈسٹری وغیرہ میں۔

پاکستان کی تمام تر توجہ اس وقت پندرہ برس کے دورانئیے پر پھیلے چائنا پاکستان اکنامک کاریڈور منصوبے کی طرف ہے۔اور بے یقین و مشکوک فیصلہ سازوں کو یوں لگ رہا ہے، گویا تمام ہمسائیہ ممالک اور امریکا پاکستان  کے گرد گھیرا تنگ کر کے اس منصوبے سے محروم کرنا چاہتے ہیں یا ہتھیانا چاہتے ہیں۔ہر طرف سازشوں کے جال تنے ہیں۔کون دوست ، کون دشمن ، کون دوست نما دشمن ؟  کچھ سجھائی نہیں دے رہا۔بس جو ہو رہا ہے غلط اور خلاف ہی ہو رہا ہے۔

مزے کی بات ہے کہ دو برس پہلے جب چائنا پاک اکنامک کاریڈور کے بارے میں صرف باتیں ہو رہی تھیں تو پاکستان خود کو اتنا تنہا محسوس نہیں کر رہا تھا۔اقتداری کاریڈورز میں کچھ ایسی باتیں سننے میں آتی تھیں کہ بس عالمی پابندیاں اٹھنے کی دیر ہے، ایران پاکستان گیس پائپ لائن گیم چینجر بن جائے گی۔وسطی ایشیا سے ٹیپی ( ترکمان۔افغان۔پاک۔انڈیا ) گیس پائپ لائن آئے گی اور بجلی بھی اور جنوبی و وسطی ایشیا کی منڈی یکجائی کے خوشحال سفر پر روانہ ہو جائے گی۔

لیکن کل کے ممکنہ ساجھے دار آج کے دشمن نظر آ رہے ہیں۔پہلے صرف بھارت سے مسلح تصادم کی تاریخ تھی، اب افغانستان سے بھی مسلح جھڑپوں کی روایت پڑ گئی ہے۔جب تک یاریاں اور مفادات و امکانات تھے تب تک پاک افغان بارڈر ہو کہ پاک ایران سرحد ’’ حسابِ دوستاں در دل ’’ والا معاملہ تھا۔اب یہ ہے کہ سب سے پہلے بارڈر کنٹرول ، اس کے بعد کچھ اور۔

بارڈر کنٹرول یقیناً قائم ہونے چاہئیں تاکہ ناپسندیدہ عناصر کی آمد جامد اور غیر قانونی سرگرمیوں پر نگاہ رکھی جا سکے۔لیکن بارڈر کنٹرول احساس ِ عدم تحفظ  یا معاندانہ جذبے کے زیرِ اثر قائم کرنے کا مطلب اپنے خول میں سمٹنے جیسا ہے۔طورخم گیٹ چاہ بہار سمجھوتے سے پہلے قائم ہو جاتا تو معمول کی بات ہوتی۔لیکن اس کی تعمیر میں ملا اختر منصور کی ہلاکت کے بعد سے غیر معمولی جلدی مچانا معمول کی بات نہیں۔ایران برسوں سے کہہ رہا تھا کہ تافتان پر بارڈر کنٹرول کے لیے پاکستان بھی گیٹ قائم کرے مگر پاکستان دوستانہ لیت و لعل سے کام لیتا رہا۔اب پاکستان ازخود تافتان پر گیٹ بنا رہا ہے جس کا افتتاح چودہ اگست کو ہو جائے گا۔

حالانکہ بے چین چین کو ہونا چاہیے جو اربوں ڈالر کا سرمایہ لا رہا ہے۔مگر چین خاصا پرسکون ہے۔جو ممالک پاکستان کے خیال میں پاکستان  کا گھیراؤ  کر رہے ہیں، ان سب سے چین کے بہت اچھے عامل تجارتی تعلقات ہیں۔مثلاً بھارت کو چین کے مقابل کھڑا کرنے کے لیے کوشاں امریکا چین کا سب بڑا اقتصادی پارٹنر بھی ہے۔خود بھارت تمام تر جھگڑوں اور مسابقت کے ہوتے چین کا دسواں بڑا اقتصادی پارٹنر ہے۔چین کی پاکستان سے جتنی دو طرفہ تجارت ہے اس سے تین گنا تجارت ایران کے ساتھ ہے۔

پاکستان کو خوف ہے کہ امریکا افغانستان میں ایک کلیدی رول دینے  کے لیے بھارت کی پیٹھ ٹھونک رہا ہے اور بھارت اپنے سافٹ پاور امیج سے افغانیوں کے دل جیت رہا ہے۔ مگر چین کو افغانستان کا ہمسایہ ہونے کے باوجود ایسا کوئی خوف نہیں۔وہ افغان مسئلے کے حل کے لیے کوشاں چہار ملکی گروپ کا عامل فریق بھی ہے ، افغانستان میں سرمایہ کاری بھی کر رہا ہے اور اس کے تمام افغان فریقوں سے تعلقات بھی پاکستان کی نسبت زیادہ بہتر ہیں۔

تو پھر پاکستان پر  اچانک اپنے گھیراؤ کا اتنا خوف کیسے طاری ہوگیا ؟ اگر واقعی یہ خوف حقیقت پر مبنی ہے تو پھر ہر سمت ہاتھ پاؤں چلانے اور بار بار ’’ہم کسی سے کم نہیں’’  کی تکرار کیا دنیا کو سنانے  کے لیے ہے یا اپنے خوف پر قابو پانے کے لیے ہے۔

یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ پاکستان پہلے تو اطمینان سے بیٹھ کر پانی پئے۔پھر کچھ گہرے گہرے سانس لے کر اعصاب نارمل کرے اور پھر سوچے کہ اب تک اس سے کیا اچھا کیا برا سرزد ہوا۔اس کی خواہشات کیا ہیں اور وسائل کتنے ہیں۔کہیں اس کی خواہشات وسائل سے زیادہ تو نہیں ؟ اسے اپنی بقا کی جنگ معاشی اسلحے سے لڑنی ہے یا پھر ادھاری دساوری بندوق سے ؟ چین جو اس وقت واحد طاقتور دوست ہے ، آخر کیا وجہ ہے کہ وہ اتنی ٹینشن میں نہیں اور ہم اس کے سائے میں بیٹھنے کے باوجود اس قدر ٹینشن میں ہیں ؟ کیا چین کو ہماری طرح معاملات کی نزاکت کا ادراک نہیں یا پھر ہم نرگسیت کی دلدل میں  دھنستے  چلے جا رہے ہیں؟

یہ جائزہ معقولیت کی نگاہ سے تب ہی ممکن ہے جب پاکستان کی خود سے ملاقات کا بندوبست ہو۔کوئی بتائے گا کہ ستر برس میں پاکستان کی اپنے سے کتنی ملاقاتیں ہوئیں؟
متعصب ایف آئی اے اور پنجاب پولیس کے تکفیری افسران کے ہاتھوں لاہور ائیرپورٹ سے گرفتار ہونے والی پاکستانی شہری سیدہ مسرت بانو رہا ہوگئیں، جبکہ انکی رہائی سے ریاستی اداروں میں چھپے تکفیری افسران کی سازشیں بھی ناکام ہوگئیں ،جبکہ یوں کہا جائے وہ ذلیل و خوار ہوگئے کہ جنہوں نے آل رسول (ص)  میں سے ایک سید زادی پر دہشتگردی اور فرقہ ورانہ فسادات کروانے کا بے بنیاد اور بھونڈا الزام لگایا تھا۔


تحریر۔۔۔۔۔۔وسعت اللہ خان

بھوک ہڑتال کیوں ۔۔۔ ؟؟؟؟؟

وحدت نیوز(آرٹیکل) عالمی استکباری صہیونی ایجنڈے کے مطابق یہ نااہل کرپٹ اور ظالم حکمران اور بعض اداروں میں موجود کالی بھیڑیں مملکت خدادادِ پاکستان کو ناامنی ، تباہی و بربادی کی آخری حد تک پہنچا چکے ہیں۔ جس کے چند نمونے مندرجہ ذیل ہیں۔

۱۔پاکستان میں کراچی سے پارا چنارتک شیعہ ،سنی ،عیسائی،ہندواور مختلف مذاہب کے پیروکاروں کے عدم تحفظ اور مسلسل ٹارگٹ کلنگ پر ریاستی اداروں کی مجرمانہ خاموشی۔
۲۔تکفیریوں کا نام بدل بدل کر بھارت و اسرائیلی پلان کے مطابق ملک دشمن و اسلام دشمن سرگرمیوں کی ،ریاستی سرپرستی و حوصلہ آفزائی جبکہ دوسری طرف مسلمانوں کے مذہبی رسومات  جیسے جشن میلاد،اذان میں درود و سلام ،  عزاداری کی مجالس اورجلوسوں میں حکومت کی طرف سے ناروا رکاوٹیں۔
۳۔ملک کے بعض علاقوں مثلاً پاراچنار و گلگت میں لوگوں کے ہزاروں ایکڑ رقبہ پر حکومت کے قبضے اورآبادی کے تناسب کو تبدیل کرنے کی حکومتی سازش۔
۴۔اسرائیلی و استکباری اشاروں پر بننے والے نام نہاد اسلامی فوجی اتحاد کے بعد، مسلکی بنیادوں پر پاکستان کی تقسیم کی سازش ۔
۵۔کراچی ، کوئٹہ ، ڈی آئی خان، پشاور اور پارا چنار میں بے گناہ لوگوں(سیاسی و مذہبی شخصیات ، ڈاکٹرز، انجینئرز،ججز،وکلاء ، پروفیسرز، نمازیوں اور عزاداروں ) کے قتل عام روکنے میں حکومتی عسکری اداروں کی ناکامی، اور فورسسز میں موجود بعض کالی بھیڑوں( جیسے پارا چنار میں کمانڈنٹ ملک عمر) کے حکم پر بے گناہ عوام پر فائرنگ و قتل عام ریاستی و عسکری اداروں کو خواب غفلت سے بیدار کرنے اور ان کو متوجہ کرنے کے لئے سینکڑوں پریس کانفرسوں ، احتجاجوں، دھرنوں اور لانگ مارچوں کے بعدہم نے بھوک ہڑتال کا فیصلہ کیا۔
    
قارئین محترم ؛آپ گواہ ہیں کہ ہم کئی برسوں سے یہ کہہ رہے ہیں کہ تعصب کی اندھی آگ میں یہ ملک جل کے راکھ ہو سکتا ہے،اگر حکمرانوں اور ملکی سلامتی کے ذمہ داروں نے اپنا کردار ادا نہ کیا تو ہر سو دہشت و وحشت راج کرے گی،بد قسمتی سے ایسا ہی ہو رہا ہے ،ڈیرہ اسماعل خان میں جہاں کچھ عرصہ سے ٹارگٹ کلنگ رک گئی تھی ایک بار پھر اس فتنے نے پورے زور کیساتھ سر اٹھا لیا ہے،اور اب دن دیہاڑے ،کھلے عام ،بھرے بازاروں اور پولیس چیک پوسٹس کے سامنے اہل تشیع کو ٹارگٹ کیا جا رہا ہے،انہیں چن چن کے مارا جاتا ہے 19مارچ کے دن ایک شیعہ پولیس کانسٹیبل اظہر حسین کو شہید کیا گیا،اس کے بعد 22مارچ کو ایک امام بارگاہ کے متولی ایڈووکیٹ سید رضی الحسن کو دن دیہاڑے بھرے بازار میں راہ چلتے موٹر سائیکل سواروں نے سر میں گولیاں مارکے شہید کیا گیا،جس کی سی سی کیمرہ فوٹیج میں نمایاں طور پہ دیکھاجا سکتا ہے،معلوم ہوا ہے کہ اس واردات کے مرتکب قاتلوں کو شہر میں لگے ہوئے چالیس کیمروں میں دیکھا گیا ہے پھر بھی کسی نے زحمت نہیں کی کہ دہشت گردوں کی تصویریں جاری کرتے تاکہ ان کو پہچان کے نشاندہی کی جا سکتی،اس کے بعد ہم نے دیکھا کہ 5 مئی کو ڈیرہ اسماعیل خان میں ہی دو مختلف وارداتوں میں ایک پروفیسر اختر علی،ایک ٹیچر مختیار بلوچ اور دو ایڈووکیٹس عاطف علی اور علی مرتجز کو سرکلر روڈ پر نشانہ بنایا گیا یہ دونوں وارداتیں چند منٹوں کے وقفے سے ہوئیں،ایک ہی دن چار پروفیشنلز کا قتل کسی قومی سانحہ سے کم نہیں تھا،اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ سندھ بالخصوص کراچی میں 3اپریل کو جامعہ کراچی سے فزکس میں گولڈ میڈل حاصل کرنے والے ہاشم رضوی کو نشانہ بنایا گیا،8  اپریل کو دو مومنین شاہد حسین اور علی سجاد کو ٹارگٹ کیا گیا،8 اپریل کو ہی سول سوسائٹی کے معروف قومی کارکن خرم ذکی کو نشانہ بنایا گیا خرم ذکی نے تکفیری قوتوں کو نتھ ڈالی ہوئی تھی اور ان کے خلاف توانا آواز بن چکے تھے،انہیں شدید جانی خطرہ تھا مگر سند ھ کی نااہل حکومت نے انہیں کسی قسم کی سیکیورٹی نا دی جس کا فائدہ دہشت گرد گروہ نے اٹھایا آخر انہیں ہم سے چھین لیا،خرم ذکی کو جن لوگوں سے خطرہ تھا وہ بہت ہی واضح تھے لہذا ن کیخلاف ہی ایف آئی آر کٹوائی گئی مگر نہایت افسوس کہ حکمران ان قاتلوں کو لگام ڈالنے کے بجائے انہیں کھلا چھوڑ رہے ہیں ، قاتل سرکاری گارڈز کی معیت میں پورے ملک میں گھومتے پھرتے ہیں ،جلسے جلوس کرتے ہیں،للکارتے ہیں،روزانہ نیشنل ایکشن پلان کا جنازہ نکالتے ہیں اور اسے پائوں میں روندتے ہیں مگر انہیں کوئی نہیںپوچھتا،خرم ذکی کا غم اور دکھ ابھی تازہ تھا کہ پاراچنار میں معصوم اور بے گناہ مومنین کو نشانہ بنایا جاتا ہے ،امام حسین ؑ کے جشن ولادت کے عنوان سے جانے والے علما ء کو کرم گیٹ پر روک کر بری طرح ضدوکوب کیا جاتا ہے اس پر جب قبائلی احتجاج کرتے ہیں تو ایف سی کے متعصب اہلکار سڑک پر پرامن طور پہ بیٹھے عوام کو گولیوں سے بھون دیتے ہیں ،تین مومنین شہید اور دس سے زائد زخمی ہوتے ہیںجنہیں ایف آئی آرز میں نامزد کیا جاتا ہے،یہ ظلم اور تشدد کسی بھی قوم و معاشرے کی تباہی کیلئے اور لوگوں کو بغاوت کیلئے تیار کرنے کیلئے کافی ہے مگر اس کے باوجود ہم نے امن کا راستہ اختیار کیا ہے اور اپنی آواز ایوانوں تک پہنچانے کیلئے کسی کو نقصان نہیں پہنچایا بلکہ بھوک ہڑتال کر کے اپنے آپ کو زحمت اور سختی کا شکار کیا ہے ، اگر ہم اس ملک کے وفادار نا ہوتے تو تخریب کا راستہ اختیار کرتے ،اس ملک کے دشمنوں کی طرح خود کش دھماکے کرتے،بم چلاتے،فورسز کو نشانہ بناتے ،ملک کی اینٹ سے اینٹ بجاتے مگر مکتب تشیع جو آئمہ کا مکتب ہے جو اہلبیت کا مکتب ہے جو کربلا کا مکتب ہے ہمیں اس کا درس نہیں دیتا ہم نے دنیا تک اپنے آواز پہنچانے کیلئے باوقار تہذیب یافتہ اقوام کا راستہ منتخب کیا ہے،ہم اس سے قبل جلوس نکال چکے،ریلیاں نکال چکے،دھرنے دے چکے،حتیٰ کہ لانگ مارچ کا تجربہ بھی کر چکے ،اب یہ طریقہ اختیار کیا ہے تاکہ دنیا ہماری آواز کو دبانہ سکے،ہمیں نظر اندازنہ کر سکے۔


تحریر۔۔۔۔۔۔ظہیرالحسن کربلائی

وحدت نیوز(ٹھٹھہ) مجلس وحدت مسلمین ضلع ٹھٹھہ کی شوری کا اجلاس حسینی مسجد میں ضلعی سیکریٹری جنرل سید اسداللہ شاہ کی صدارت میں ہوا۔ جس میں قائد وحدت علامہ راجہ ناصر عباس جعفری صاحب کے 41 دن سے جاری بھوک ہڑتال پر انہیں خراج تحسین پیش کیا گیا اور ان کی صحت و سلامتی اور توفیقات میں اضافے کے لئے دعا کی گی، جس کے بعد اجلاس کا باقاعدہ کاروائی شروع کی گئی۔

ضلعی سیکریٹری جنرل سید اسداللہ شاہ نے گذشتہ روز صوبائی اجلاس کی کاروائی سے کابینا کو آگاہ کیا۔ اور اپنی باقی کابینہ کا بھی اعلان کیا جس میں سیکریٹری شعبہ نشر واشاعت کے لئے برادرخلیل الرحمان کھتری اور شعبہ تعلیم کے لئے برادر سجاد حسین رند کو منتخب کیا۔ پوری کابینہ نے انہیں مبارکباد پیش کی۔ ضلعی سیکریٹری جنرل سید اسداللہ شاہ  نے کہا کہ عام پاکستانی کے لئے دو وقت کی روٹی مسئلہ بن گئی ہے پانی کا بحران سرچڑھ رہا ہے انرجی نام کی چیز ملک سے رخصت ہورہی ہے ایک مخصوص سوچ کو پاکستانیوں پر مسلط کرنے کے لئے اقدامات کئے جارہے ہیں ہم اس صورتحال میں خاموش نہیں رہ سکتے ہم علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کی قیادت میں ملکی سلامتی کے لئے سڑکوں پر آنے کے لئے تیار ہیں ہماری پر امن تحریک کو پوری دنیا میں سراہا جارہا ہے ہم اپنی مظلومیت سے ظلم کا مقابلہ کریں گے اورمخصوص فرقہ اور مخصوص سوچ کے ہاتھوں قائداعظم اور علامہ اقبال کے پاکستان کو یرغمال نہیں ہونے دیں گے۔

صوبائی ڈپٹی سیکریٹری جنرل علامہ دوست علی سعیدی نے بھی ضلعی اجلاس میں خصوصی شرکت کی اور انہوں نے کہا کہ یہ ٹھٹھہ کی خوش قسمتی کہ اچانک میری آمد ہوئی اجلاس سے خطاب میں کہا کہ مجلس وحدت مسلمین پاکستاب وہ واحد جماعت ہے جو بلاتخصیص مذہب ومسلک ، رنگ ونسل وطن عزیزکے محروموں کے حقوق کی جدوجہد میں مصروف عمل ہے، علامہ راجہ ناصرعباس جعفری جیسا شجاع اور نڈرلیڈر ملت جعفریہ کیلئے کسی نعمت سے کم نہیں، پاکستان کے اہل تشیع نہ صرف دہشت گردی کا شکار ہیں بلکہ حکومتی مظالم نے بھی ان کے لیے زندگی اجیرن کر رکھی ہے۔شہریوں کے جان ومال کے تحفظ کو یقینی بنانا ریاست کی اولین ذمہ داری ہے اس دوران انہوں نے امام حسن مجتبیٰ کی ولادت کی مبارکباد دی اور کچھ منٹ جشن محفل خطاب کیا۔ بعد ازاں ضلعی کابینہ کی طرف سے صوبائی ڈپٹی سیکریٹری جنرل علامہ دوست علی سعیدی کو ضلعی سیکریٹری جنرل سید اسداللہ شاہ نےاجرک کا تحفہ پیش کیا گیا آخر میں دعائے خیر ادا کی گئی۔

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree