The Latest

وحدت نیوز (کوئٹہ) مجلس وحدت مسلمین کوئٹہ ڈویشن کے میڈیا سیل سے جاری شدہ بیان میں کہا گیا ہے کہ ہماری جماعت پر امن اور ترقی پسند جماعت ہے خدمت ہمارا نصب العین ہے اور ہم ترقی کے خواہاں ہیں، سیاسی مخالفین ہمارے ہمارے عزائم پست کرنے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں۔مگر وہ اپنے عزائم میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔ ایم ڈبلیو ایم کوئٹہ کے سیکریٹری روابط اور کونسلر کربلائی رجب علی بلدیاتی انتخابات میں کامیاب ہوکر وارڈ نمبر12سے کونسلرمنتخب ہوئے تھے ، انتخابات کے چند مہینے بعد ان پر دھاندلی کا الزام لگایا گیا تھا اور بات عدالت میں پیش کی گئی تھی، گزشتہ روز سپریم کورٹ کے جج نے کربلائی رجب علی کے حق میں فیصلہ سنا دیا۔ کربلائی رجب علی نے کہا کہ قوم اس بات سے آگاہ ہے کہ ہم نے آج تک ان کیلئے کتنا کام کیا ہے ، افواہیں ان جماعتوں کیلئے ہتھیار ہیں جو اور کسی کام کے قابل نہیں ہوتی ہیں اور اسی ہتھیار کو ہمارے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے،تیراماہ کی قانونی جنگ کے بعد سپریم کورٹ کا فیصلہ ایم ڈبلیوایم کی فتح ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ کہ عوام کی خدمت ہمارا فرض ہے اور ہمارے راستوں کے چھوٹی موٹی رکاؤٹیں ہمیں ہمارے فرائض سے دور نہیں رکھ سکتی۔ ہماری حوصلہ شکنی کی ناکام کوشش ہمارے سیاسی مخالفین کی کم ظرفی کا نتیجہ ہے اور وہ جھوٹے پروپیگینڈوں سے ہمارا نام خراب کرنے کیلئے کوشاں ہیں۔ مجلس وحدت مسلمین کوئٹہ کے کونسلرز کربلائی عباس علی اور سید مہدی نے مقدمے میں کامیابی پر کربلائی رجب علی کو مبارک باد پیش کیا اسکے ساتھ ساتھ انہوں نے کہا کہ جہاں کہی جماعت کے نمائندگی کا موقع ملا ہے لوگوں نے ہماری حوصلہ افزائی کی ہے اور ہمیشہ ہم پر اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ ایم پی اے آغا رضا صاحب کے ترقیاتی منصوبوں اور خدمت نے ہمارے سیاسی مخالفین کو بوکھلاہٹ کا شکار کر دیا ہے اور وہ اس بات کی کوششوں میں مصروف ہیں کہ کسی طور ہماری جماعت کی بدنامی کی کوئی وجہ تلاش کرے۔

انہوں نے مزید کہا کہ عوام کی خدمت ہمارا نصب العین ہے ۔ ہم نے ہمیشہ مظلوموں کا ساتھ دیا ہے اور ظلم کے خلاف ہر میدان میں آواز بلند کی ہے۔عوام کی خدمت اور قوم کی تربیت میں ہماری جماعت ایک مثبت کردار ادا کررہی ہے اور ہماری کوششوں سے مستقبل میں ملک کو باہنر اور تربیت یافتہ قوم ملے گی۔تربیت یافتہ اور تعلیم یافتہ افراد جو قوم کو ترقی دینے میں اپنا کردار ادا کرے گے اور اس طرح کے دیگر افراد ملک و قوم کیلئے کسی سرمائے سے کم نہیں۔ بیان کے آخر میں کہا گیا کہ ہماری جماعت وطن عزیز پاکستان کے مفادات پر کام کرے والی اور عوام کی خدمت کو ترجیح دینے والی جماعت ہے اور ہمارے تمام اراکین جماعت کے اصولوں کو مدنظر رکھتے ہیں اور آئین و قانون کا احترام کرتے ہیں۔

وحدت نیوز (کوئٹہ) مجلس وحدت مسلمین کوئٹہ کے صوبائی سیکریڑی سیاسیات و ممبر بلوچستان اسمبلی آغا رضا صاحب کے فنڈ سے گورنمنٹ ( بوائز) پرائمری اسکول مومن آباد کی تزین و آرائش اور سہولیات کی فراہمی کیلئے تعمیراتی کاموں کا آغاز ہو چکا ہے، جس کی نگرانی ایم ڈبلیوایم کے رہنما سید یوسف آغا کررہے ہیں ، مذکورہ اسکول میں آغا رضا کے فنڈ سے نیا مین گیٹ نصب کیا جائے گا، انڈر گراونڈ تالاب کی تعمیر کی جائے گی، پہلی منزل پر آمدورفت  کے لیے سیڑھیاں تعمیر کی جائیں گی جبکہ اسکول کی حفاظت کیلئے باونڈری وال تعمیر کی جائے گی۔

وحدت نیوز(کوئٹہ) مجلس وحدت مسلمین کوئٹہ ڈویژن کے رکن اور کونسلر کربلائی عباس علی نے اپنے جاری کردہ بیان میں کیسکو مری آباد ڈویژن کے ایس ڈی او کی نااہلی کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ جب تک کرپٹ اور نااہل افسران ملک و قوم کے خدمت پر فائز کئے جائیں گے ، ملک کو ترقی نہیں ملے گی۔ اپنے اختیارات کے ناجائز استعمال اور قانون کی خلاف ورزی پر ایس ڈی او کیسکو مری آباد ڈویژن کی ناقص کارکردگی کا نوٹس لیا جانا چاہئے کیونکہ عہدے کا استعمال خدمت کے بجائے ذاتی مفادات کیلئے کیا جارہا ہے اور جو افراد اپنے ذاتی مفادات کو قوم کے مفادات پر ترجیح دے وہ کبھی محب وطن نہیں ہو سکتا۔ انہوں نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ہم عوامی نمائندے ہیں اور یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے علاقوں میں عوام کی خدمت کرے، انہیں جو مسائل درپیش ہیں ان پر نظر رکھیں اور ان کے حل کیلئے ہم قانونی طور پر اقدامات اٹھاتے ہیں ، جسکا حق ہمیں آئین پاکستان دیتا ہے ۔ بعض علاقوں میں ٹرانسفرمرز کئی بار خراب ہوئے ہیں اور عوام کو بجلی کی عدم دستیابی کا سامنا ہوا ہے مگر نا اہل ایس ڈی او پہلے تو عوام کے مسائل سے آگاہ ہی نہیں ہوتا اور بعداً مسلسل جد و جہد کے بعد پرانہ ٹرانسفرمر لگایا جاتا ہے، علاقے کے ضرورت کے اعتبار سے وہاں ڈھائی سو واٹ کا ٹرانسفرمر لگنا چاہئے مگر بارہاں وہی دوسو کلو واٹ کا ٹرانسفرمر لگایا جاتا ہے۔ مگر کچھ افراد اور اعلیٰ افسران جنہیں عوام کی خدمت پر فائز کیا جاتا ہے اور جنہیں ہمارا ساتھ دینا چاہئے،وہ اپنی پوزیشن سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے اختیارات کا غلط استعمال کرتے ہیں اور انکی وجہ سے ہمیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے علاقوں میں سٹریٹ لائٹس کی عدم موجودگی کا سامنا ہے، جس سے کئی مسائل جنم لے رہے تھے اور ہمیں علاقوں میں سٹریٹ لائٹس لگوانے تھے۔ ہم نے قانونی چارہ جوئی کی اور قانون پر عمل کرتے ہوئے سٹریٹ لائٹس اور بجلی کے ٹرانسفرمرز لگوانے کیلئے حکومتی نوٹس حاصل کیا اورنوٹس کے حصول کے بعد ہم وقت ضائع کئے بغیر عوام کی خدمت کیلئے نکل پڑے ، جن سڑکوں اور گلیوں میں لائٹ لگوانے کی ضرورت تھی ہم نے اپنے جائزے اور علاقہ مکینوں سے مشورے کے بعد وہاں لائٹس لگوائے مگر چند ہفتوں بعد ہی کیسکو مری آباد ڈویژن کے ایس ڈی او اسماعیل شاہ کے حکم پر متعلقہ ادارے کے نمائندوں نے تمام سٹریٹ لائٹس جمع کر دیئے اور عوام کیلئے حکومت سے حاصل کردہ ٹیوب لائٹس پر قبضہ کر لیا گیا۔ جو کہ عوام کی حق تلفی اور قانون شکنی کے مترادف ہے۔ بیان کے آخر میں انہوں نے کہا کہ ملکی ترقی کیلئے قائم کردہ اداروں میں ایسے کرپٹ افراد کی تعیناتی ملک کی پسماندگی کا اہم سبب ہے۔ نیب ایسے افسران پر کھڑی نظر رکھیں جو اپنے عہدے کا ناجائز استعمال کرتے ہیں اور حکومت اس بات کا نوٹس لے اور کیسکو مری آباد ڈویژن میں کسی قابل اور ہونہار ایس ڈی او کو تعینات کرے تاکہ عوام کے مسائل حل ہو سکے۔

وحدت نیوز (آرٹیکل) یہ مارچ کا مہینہ ،ایام فاطمیہ[س] کی راتیں ،یتیم خانہ چوک لاہور،تفتان کا سنسان سفر اور اس سفر میں عجیب  راستہ ہے،جہاں نہ آب ہے اور نہ پڑاو،پیاس اتنی ہے کہ دریا کے لب بھی خشک ہیں،خوف اتنا ہے کہ گھوڑوں کی زبانیں تالوں سے چپکی ہیں،دورتک نہ کوئی درخت ہے اور نہ سایہ،خشک زمین خون کی چند بوندوں کو ترس رہی ہے۔

لوگ پابرہنہ، سر ہتھیلیوں پہ لئےگزر رہے ہیں،کتنے ہی تو بدن ایسے ہیں کہ جن پر سر ہی نہیں اور لکیر کے اُس طرف میں کھڑا ہوں۔۔۔

لکیر کے اس طرف اِک شہر ہے جہاں ہر  قیمتی شے بکتی ہے،جہاں شیر نہیں بکتے بلکہ  شیر اس شہر میں  اپنا پیٹ پالنے کے لئے اپنے دانت بیچتے ہیں،جہاں سانپ اپنے زہر کو باقی رکھنے کی خاطر اپنے ہی  بچوں کو فروخت کر آتے ہیں،جہاں بدن تراشنے کے لئے سر کاٹ دئیے جاتے ہیں،جہاں انسان نہیں خریدے جاتے بلکہ انسانی جسم کے اعضا بکتے ہیں ،خصوصاً ہاتھ  ، زبان اور آنکھیں۔۔۔

وہ ہاتھ کہ جس میں قلم اٹھانے کی طاقت ہو

وہ زبان کہ جسمیں چکھنے کی صلاحیت ہو

وہ آنکھیں جو کچھ نہ کچھ دیکھ سکتی ہوں۔۔۔ان کی قیمت کچھ زیادہ ہی لگتی ہے۔

لوگ دوڑ رہے ہیں اس بازار کی طرف اور گردش دائرے میں ہے۔یہ دائرہ مصلحت کا ہے۔اس دائرے کی نہ کوئی ابتدا ہے اور نہ انتہا۔

دائرے کا کوئی افق بھی نہیں پھر بھی مرغ ِ سحرمجھ سے پہلے بانگِ سحر دیتاہے اور میں گلدستہ ازاں پہ کھڑے ہوکر صبح کی تھرتھراتی ہوئی لو کے پرچم  پر تھوک دیتا ہوں۔تھوکتابھی ہوں تو خون آلود ۔

ازان دینے کے لئے ایک جرات چاہیے اور میں!میں اس قبیلے کا فرد ہوں ! ہاں میں وہ نامرد ہوں کہ جو اپنے شہیدوں کی گمنام قبروں پر چھپ کر فاتحہ پڑھنے کا عادی ہوچکا ہے۔میں اپنے تاریک کمرے کے گرد ایک  دائرہ کھینچ کر ،چند اگربتیاں جلاتاہوں اور چند ٹھنڈی آہیں بھرتاہوں اور پھرسہم جاتا ہوں کہ اگربتیوں کا دھواں کہیں دروازے سے باہر نہ چلاجائے۔

میرے کارواں میں سب حُر ہیں ،سب  جانتے ہیں کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے،لیکن سب  میرے سمیت لکیر کی دوسری جانب کھڑے ہیں یعنی ابھی لشکرِ یزید سے باہر نہیں نکلے۔۔۔

 آج کی شب   اس شہر میں خوف اتنا ہے کہ درودیوار پر چیونٹیاں  رینگ رہی ہیں اور  کوئی  ایک حُر بھی ڈر کے مارے اونچی سانس نہیں لیتا۔۔۔گھوڑوں کے نتھنے سی دئیے گئے ہیں اور ٹانگیں باندھ دی گئی ہیں ۔۔۔لوگوں میں اتحاد ہوگیاہے خاموش رہنے پر،بھیک مانگ کر کھانے پر،گدائی کرکے مسجدیں بنانے پر،ظالموں کے سامنے گڑگڑانے پر۔۔۔

اب یہاں کوئی فساد نہیں ، یہاں کوئی جھگڑا نہیں ،اس شہر والوں نے ایکا کر لیا ہے دائرے میں دوڑنے پر ۔۔۔

یہ لوگ دائرے سے باہر ایک قدم بھی نہیں رکھتے ۔۔۔دوقدم تو بڑی بات ہے۔۔۔

اس حالت میں جو چند روز گزرے  اور لوگ اس حالت کے عادی ہوگئے تو پھر  لوگوں کے ہجوم میں  امیرِ  شہر  نے امن عامہ کے بارے میں  ایک لمبی تقریر کر نے کے بعد شہر کے سب سے بڑے دروازے پر یہ کتبہ نصب کروادیا “امن کے شہر میں خوش آمدید”

اب اس شہر میں تاابد  جو بچہ بھی جنم لے گا وہ پُر امن ہوگا۔

تحریر۔۔۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

عراق ۔۔۔۔ سعودی عرب اور ترکی کے چنگل میں

وحدت نیوز (آرٹیکل) عراق انبیا کی سرزمین ہے۔قدیم تہذیب و ثقافت، مناسب محل وقوع اور  تیل کے وسیع ذخایر کے حامل ہونے کے سبب عراق کا شمار ایشیا کے  انتہائی  اہم ممالک میں ہوتا ہے ۔اس کے مشرق میں ایران،  جنوب میں کویت اور سعودی عرب، مغرب میں اردن، شمال میں ترکی اور شمال مغرب میں شام میں واقع ہے۔عراق نے  کئی تہذیبوں کو جنم دیا ہے اور  اکثر انبیاء  نے یہاں اپنی زندگی گزاری ہے جس کی وجہ سے فلسطین کی طرح  اسے بھی انبیاء کی سرزمین بھی کہا جاتا ہے۔

اس  سرزمین پر متعدد حکومتیں گزری ہیں، تاہم ہم زیادہ ماضی میں نہیں جانا چاہتے بلکہ گذشتہ ایک دہائی میں عراق کے سیاسی حالات کا مختصر  جائزہ  لیتے ہیں۔
۲۰۰۳ ء میں بعثی حکومت کے خاتمے  کے بعد ۲۰۰۵ ء کے عام انتخابات میں شیعوں کو بھاری اکثریت سے  کامیابی ملی تو سعودی عرب اور انکے حواریوں پریہاں کے شیعوں کا اقتدار میں انا سخت ناگوار گزرا۔کیونکہ ایران،  حزب اللہ اور بشار اسد کی حکومت پہلے ہی سے خطے میں انکی پالیسیوں کی راہ میں رکاؤٹ تھےاور  اب پڑوسی ملک عراق میں شیعوں کے مؤثر طاقت کے طور پر ابھرنے کے بعد تو  سعودی حکام  کی نیندیں ہی اڑ گئیں اور  انہیں خطے میں اقتدار کی کشتی ڈوبتی نظر آئی۔

لہذا ۲۰۱۱ ء  میں امریکہ اور صہیونیزم کے ایماء پر ترکی اور چند دیگر  اتحادیوں کے تعاون سےدہشت گرد تنظیم "داعش" کی بنیاد رکھی  جس کا مقصدابتدائی مرحلے میں شام اور عراق پر کنٹرول حاصل کرنا تھا۔ تاہم ان دونوں ملکوں  میں انہیں بری طرح  شکست کا سامنا کرنا پڑا۔  جدید  ترین جنگی ساز و سازمان سے لیس ہونے کے باوجود پانچ برسوں کی تگ و دو کے بعد  شام میں وہ نہ صرف  بشار اسد کی حکومت کا حکومت کا تختہ الٹنے میں کامیاب نہیں ہوئے  ہیں بلکہ رفتہ رفتہ زیرِ قبضہ علاقے بھی انکے کنٹرول سے باہر ہو گئے۔  جبکہ عراق میں بھی ابتدائی چند کامیابیوں کے بعد آقای سیستانی (دام ظلہ العالی) کی جانب سےداعش کے خلاف اعلانِ جہاد سے نہ صرف انکی  پیش قدمی روکی گئی بلکہ وہ پسپا ہونے پر مجبور ہو گئے ۔

اب جب  سعودی عرب  اور ترکی کی یہ مشترکہ پالیسی کارساز نہ ہوئی  تو وہ عراق کو تقسیم کرنے کے چکر میں پڑ گئے ہیں۔ سعودی عرب نے ۲۵ برسوں سے بند سفارت خانہ دوبارہ بغداد میں کھول دیا ہے اور وہاں سے اپنی سرگرمیاں تیز کر دی ہیں۔ انہوں نے صوبہ نینوا کو "داعش" کے چنگل سے آزاد کرانے کے لیے رضاکار فورس "حشد الشعبی" کی شرکت کی مخالفت کی ہے اور عراق کے سرحدی علاقے کردستان کی خود مختاری اور استقلال کی کھول کر حمایت کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ عراق میں شیعہ سنی اختلافات کو ہوا دے کر یہاں داخلی انتشار پیدا کرنے  کی کوششیں کر رہے ہیں جبکہ انکا اگلاہدف عراقی شیعوں کو اسلامی جمہوریہ ایران کی نسبت بدظن کرکے عراقی شیعوں کو ایران سے دور رکھنا ہے۔

دوسری جانب ترک حکومت نے بھی اپنی فوج تمام تر جنگی ساز و سامان کے ساتھ موصل کے شمال مشرق میں واقع "باشقیہ" نامی قصبہ روانہ کر دی ہے جس کا مقصد عراقی فوجیوں کی جنگی تربیت بتائی گئی ہے۔ تعجب اور حیرت  کی بات یہ ہے کہ عراقی فوجیوں کی کمانڈینگ صوبہ نینوا کے سبکدوش گورنر اثیل النجیفی کے سپرد گی گئی ہے  جواس سے پہلے موصل میں داعش کے ساتھ ہمکاری کے الزام میں اپنے عہدے سے فارغ کیا جا چکا  ہے۔

در حقیقت ترکی ہمیشہ موصل ا ور صوبہ نینوا کو  اپنی آبائی سرزمین سمجھتی ہے۔ ۲۰۰۹ ء  میں  ترکی کے اس وقت کے وزیر خارجہ احمد داود اغلو نے موصل کے دورہ کے دوران اپنے خطاب میں کہا تھا کہ ایک وقت ایسا تھا جب ہمارے  آباء و اجداد گھوڑوں پر یہاں آیا کرتے تھے  اور  ایک وقت آئے  گاجب ہم جدید ترین جنگی وسائل کے ساتھ یہاں قدم رکھیں گے۔ اب وہ وقت آ چکا ہے کہ ترکی ماضی کی  تسلط پسندانہ پالیسیوں  کو زندہ رکھتے ہوئے اس علاقے پر دوبارہ قبضہ کر لیں۔

اب مسئلہ یہ ہے کہ صوبہ نینوا کو داعش کے کنٹرول سے خارج ہونے کی صورت میں اس صوبے کا مستقبل کیا ہوگا۔ کیا یہ ایک خود مختار ریاست بنے گی؟ یا یہ علاقہ ترکی کے زیرِ انتطام آئے گا؟ اور یا اس علاقے کے امور عراق کے مرکزی حکومت کے تحت چلائے جائیں گے؟

ادھر عراق کے پارلمانی رکن اور قومی سیکیورٹی کونسل کے رکن بھی فارس نیوز ایجنسی سے بات کرتے ہوئے اسے عراق کو تقسیم کرنے کی سامراجی سازشوں کا حصہ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ ایک ایسا علاقہ جو مالی اور دفاعی حوالے سے مرکزی حکومت سے لا تعلق ہو وہ  آخر کار ہی مرکزی حکومت سے کٹ ہی  جائے گا اور اس کے جدا ہوتے ہی کردستان بھی الگ ہو جائے گا کیونکہ وہاں  پہلے ہی آزادی اور خود مختاری کی تحریکیں جاری ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ سعودی عرب اور ترکی عراق میں امریکی پسند پالیسی کو عملی جامہ پہنانے کے لیے زمینہ ہموار کر رہے ہیں کیونکہ امریکہ نے عراق سے دہشت گردوں کے صفایا میں تعاون کے لیے یہ شرط رکھی ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں کامیابی کی صورت میں ملکی نظام ایک فیڈرل حکومت کے تحت چلایا جائے گا جو تین حصوں میں تقسیم ہوگی اور اس کی مرکزی حکومت بغداد میں ہوگی۔  اور داعش کے خلاف گذشتہ چند برسوں سے برسرپیکار رضاکار  شیعہ فورسز کو منحل کیا جائے گا۔
اب عراق میں فیڈرل حکومت تشکیل ہوتی ہے تو اس سے عراق کی تقسیم کے لیے راہ ہموار ہو جائے گا اور مرکزی حکومت ہمیشہ کمزور رہے گی جس سے امریکہ، اسرائیل اور خطے میں امریکہ نواز اور اسرائیل نواز ملکوں کو کوئی خطرہ نہیں رہے گا اور وہ  آسانی کے ساتھ خطے میں من پسند پالیسیاں لاگو کر سکیں گے۔

تحریر۔۔۔۔۔۔۔۔ساجد مطہری

وحدت نیوز (قم) سفیر انقلاب بانی آئی ایس او شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کی برسی کے موقع پر مجلس وحدت مسلمین شعبہ قم کے تحت مدرسہ امام خمینی ؒ میں ایک تعزیتی جلسہ منعقد کیا گیا ۔جس سے فرزند شہید دانش نقوی،رفیق شہید راشد عباس نقوی اور آقای ھادوی تہرانی نے خطاب کیا۔برسی مین بڑی تعداد میں شہید کے عقیدت مندوں نے شرکت کی۔

پاکستان کی سلامتی سب سے مقدم

وحدت نیوز (آرٹیکل)2006ء کی ذلت آمیر اسرائیلی شکست کے بعد خطے ميں اسرائیل کی حفاظت اور بچاؤ کے لئے  ایک نئی فورس کی تشکیل کی ضرورت تھی، جو مقاومت اسلامی کی ابھرتی ہوئی طاقت کا راستہ روکے اور مقاومت اسلامیہ کو کمزور کرے، مسئلہ فلسطین سے دنیائے اسلام کی توجہ ہٹائی جائے کیونکہ اس کی وجہ سے سب عرب اور مسلمان مقاومت اسلامی کی حمایت کرتے ہیں۔ جس کے لئے دہشت گرد مسلح تکفیری گروہوں کو خطے کے اندر اتارا گیا، جن کے دو اہم اہداف تھے۔

1۔ صیہونی اہداف کی تکمیل میں معاونت
2۔ مقاومت اسلامی کی افواج کو مسلمانوں کے مابین داخلی جنگ میں مصروف رکھنا۔

ان دو بڑے اہداف کے پیش نظر تکفیری دہشت گردوں کو شام و عراق کی سرزمین پر کچھ عرب ممالک کی ملی بھگت سے اتارا گیا اور داخلی جنگ کا آغاز کیا گیا، لیکن شام و عراق کی عوام نے اپنی افواج کے ساتھ مل کر ان دہشتگرد گروہوں جن میں داعش اور النصرہ شامل ہیں، کو وہ سبق سکھایا کہ ان کے آقاؤں کی بھی چیخیں نکل گئیں۔ اب چونکہ یہ تکفیری دہشت گرد گروہ اپنے منطقی انجام تک پہنچ چکے ہیں، ان کی مزید پشت پناہی اور حمایت ان عرب ممالک کو دنیا میں رسوا کر رہى ہے، کیونکہ جن بھیانک طریقوں سے ان دہشت گردوں نے لوگوں کا قتل عام کیا ہے، اس پر تو انسانیت كى جبيں جهک جاتی ہے۔

اب اگلے مرحلے میں سعودیہ اور اس کے اتحادیوں نے تکفيریت کو اہلسنت والجماعت کا نام دے کر سنی بلاک بنانے کا عزم کیا ہے، جس کا مقصد مقاومت اسلامی کہ جسے وہ شیعی بلاک کہتے ہیں، ان کے مقابل لاکھڑا کرنا ہے اور وہ اسرائیل مخالف طاقتوں کو ایک نئی جنگ میں دھکیلنا چاہتے ہیں۔ اس لئے یمن میں انصاراللہ، عراق میں حشد الشعبی اور شام و لبنان میں حزب اللہ اور فلسطین میں مقاومتی گروہوں کو دہشت گرد قرار ديا گیا ہے۔ ان مقاومتی تحريكون کو کمزور کرنے کے لئے سعودیہ نے امریکی پلاننگ پر عمل کرتے ہوئے 34 ممالک کا نام نہاد اتحاد قائم کیا ہے، کیونکہ سعودیہ و اتحادی حزب اللہ اور دیگر اسلامی مزاحمتی گروہوں کو داعش اور النصرہ کا درجہ دینا چاہتے ہیں۔ اب امریکہ و غرب بهى خطے میں اپنی بنائی ہوئی تكفيرى فورسز کو ختم یا کمزور کر رہے ہیں تو اب وہ بیلنس پالیسی پر عمل کرتے ہوئے ساتھ ہی مقاومتی تحريكون کو بھی اپنا ٹارگٹ بنا رہے ہیں۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس نام نہاد سعودی اتحاد میں پاکستان کو کیوں شامل کیا گیا ہے؟ يہ  تو صاف ظاہر ہے پاکستان کو ان جیسی چیزوں کا بہت اچھا تجربہ ہے، جس کی مثال روس کے خلاف افغانستان میں بنائے گئے اتحاد میں دیکھی جاسکتی ہے، جس کی سربراہی اس وقت بھی پاکستان کے پاس تھی، کیونکہ سعودی شہزادے پاکستانی صلاحیتوں کے معترف ہیں۔ لہذا اس لئے اب بھی اس اتحاد کی سربراہی کے لئے پاکستان کو پیشکش کی جا رہی ہے۔ اب سعودی عرب اس پاکستانی جھوٹے تجربے کو شاید وسیع پیمانے پر نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ جس میں پاکستان کو اسرائیل کی سلامتی اور وہابی سوچ کے غلبے کے لئے استعمال کیا جائے گا، کیونکہ امریکہ اور سعودیہ پاکستانیوں کی کمزوریوں سے خوب واقف ہیں اور جانتے ہیں کہ یہ لوگ مال و دولت کے لالچ میں بہت کچھ کر گزرتے ہیں۔ لہذا ایک دفعہ پھر پاکستانی بخشو کی خدمات حاصل کی جا رہی ہیں۔

لیکن اب پاکستانی عوام اور ملکی مفادات کے محافظ اداروں اور باشعور سیاست دانوں کو بروقت اس سازش کو درک کرنے اور صحیح فیصلہ کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ عوامی غفلت اور سیاسی انتشار کے دور میں 1980ء کے عشرہ میں غلط اور غير متوازن پالیسیاں بنائی گئیں، جس کے نتائج آج پوری قوم بھگت رہی ہیں۔ پاکستان اسلامی ملک ہے اور اسلام کا قلعہ ہے، اسے اسلامی ریاست ہی رہنا چاہیئے، اسے سنی یا شیعہ ریاست نہیں بننا چاہیئے۔ پاکستانی فوج نہ سنی فوج ہے اور نہ شیعہ فوج بلکہ یہ پاکستانی فوج ہے، اسے فقط پاکستان کی حفاظت کے لئے استعمال کرنا چاہیئے۔ خدارا اس عظیم فوج کو کرائے کی فوج نہ بنایا جائے۔ پاکستان انڈیا اور افغانستان کے لمبے بارڈر مسائل میں پہلے ہی الجھا ہوا ہے، اسے اپنے ایک محفوظ بارڈر پر مشکلات پیدا نہیں کرنی چاہیں۔ دہشتگردی کے خلاف جنگ اور آپریشن ضرب عضب کی کامیابی شیعہ سنی وحدت اور مذہبی تعصب کے خاتمے کے بغیر ممکن نہیں اور کوئی غلط فیصلہ مذہبی انتشار اور تعصب میں اضافے کا سبب بن سکتا ہے اور وحدت اسلامی کی ايک حد تک موجودہ فضا بھی خراب ہوسکتی ہے۔ سعودی نظام تو اپنے منطقی انجام تک پہنچ ہی چکا ہے، خدارا پاکستان کو كسى بڑے بحران سے بچایا جائے۔

تحریر: ڈاکٹر شفقت حسین شیرازی

وحدت نیوز (سکردو) مجلس وحدت مسلمین پاکستان گلگت بلتستان کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ آغا علی رضوی نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ 18 مارچ کو حکومتی ایوانوں میں عوامی غیظ و غضب اور غم و غصے کی آواز پہنچ جائے گی اور یہ مجبور و محروم عوام کا پہلا قدم ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ صوبائی اور وفاقی حکومت کے وعدے اور دعوئے صرف اور صرف انتخابات کو یرغمال بنانے کے لیے تھے، اگر صوبائی اور وفاقی حکومت گلگت بلتستان سے مخلص ہے تو گلگت اسکردو روڈ کا ٹینڈر ہی منسوخ کیوں کیا، عوام نے مینڈیٹ ترقیاتی پروگراموں کو ختم کرنے کے لیے نہیں دیا تھا بلکہ ترقیاتی کام کرنے کے لیے دیا تھا، اسی طرح آئینی حقوق کا مسئلہ جو کہ نہایت اور آسان مسئلہ ہے اسے جان بوجھ کر پیچیدہ بنایا جارہا ہے۔ مسلم لیگ نون کی وفاقی اور صوبائی دور حکومت میں بھی آئینی حقوق ملنے کا دور دور تک کوئی نشان نہیں ہے۔

آغا علی رضوی نے کہا کہ اکنامک کوریڈور میں جس انداز میں گلگت بلتستان کو قربانی کا بکرا بنایا جارہا ہے انتہائی شرمناک اور افسوسناک عمل ہے، مقتدر اداروں کو چاہیے کہ گلگت بلتستان کو اکنامک کوریڈو میں متناسب حصہ دیا جائے۔ پوری دنیا کی نگاہیں اس وقت اکنامک کوریڈور پر ہے اور اس کو ناکام بنانے پر تلی ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ عدم مساوات اور ظلم کے نتیجے میں اکنامک کوریڈور کو نقصان پہنچا تو تمام تر ذمہ داری مسلم لیگ نون کی وفاقی اور صوبائی حکومت پر عائد ہوگئی۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکومت کی انتہائی دوغلی پالیسی ہے کہ ایک طرف آئینی حقوق دینے کے لیے تیار نہیں اور دوسری طرف ٹیکس نافذ کیا جاتا ہے۔ ان تمام مظالم کے خلاف تمام جماعتیں متحد ہوچکی ہیں اور مزید کسی ظالم حکومت کو ظلم کرنے نہیں دیں گے، اٹھارہ مارچ کے اجتماع کو کامیاب اور پر امن بنانے کے لیے پوری عوام سڑکوں پر نکل آئیں۔

وحدت نیوز (اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے پشاور بم دھماکے میں قیمتی جانوں کے ضیاع پر گہرے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سرکاری ملازمین کی بس کو نشانہ بنایا جاناملک دشمن عناصر کی بزدلانہ کاروائی ہے۔دہشت گرد قوتیں ملکی سلامتی کے اداروں کے لیے چیلنج کی شکل اختیار کر تی جارہی ہیں۔ دہشت گردی پر قابو پانے کے لیے موجودہ حکومت مخلص دکھائی نہیں دے رہی۔ خیبر پختونخواہ کی حکومت کو اپنی ترجیحات کا ازسر نو تعین کرنا ہوگا۔اگر ضرب عضب شروع نہ کیا جاتا تو آج پورے ملک کو دہشت گرد جہنم بنا چکے ہوتے۔

انہوں نے کہاملک کی چاروں صوبائی حکومتوں میں دہشت گردوں کے حاشیہ بردار موجود ہیں۔ جب تک حکومت اپنی صفوں میں سے ان لوگوں کا صفایا نہیں کرتی تب تک دہشت گرد ی کے خلاف جنگ کے مطلوبہ اور خاطر خواہ نتائج حاصل نہیں کیے جا سکتے۔ایک طرف بے گناہ افراد کو شیڈول فورتھ اور نیشنل ایکشن پلان کا نشانہ بنایا جا رہا اور دوسری طرف کالعدم جماعتوں کے ان رہنماوں کو آزاد کیا جا رہا ہے جوملک میں انارکی کا بیج بونے کے لیے کھلے عام سرگرم ہیں۔قانون و انصاف کے بالادستی کے نام پر یہ دوہرا معیارملک کے حقیقی امن میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔جب تک دہشت گرد عناصر اور ان کے سہولت کاروں کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹا نہیں جاتا تب تک وطن عزیز میں آگ اور خون کا یہ کھیل بند ہوتا نہیں دیکھائی دیتا۔علامہ ناصر عباس نے پشاور بس دھماکے کی شدید مذمت کرتے ہوئے شہدا کی بلندی درجات اور پسماندگان کے لیے صبر جمیل کی دعا کی ہے۔

وحدت نیوز(کوئٹہ ) مجلس وحدت مسلمین کوئٹہ ڈویژن کے آفس سیکریٹری حاجی ناصر علی نے کہا ہے کہ اسلام امن و محبت کا نام ہے اور اسلامی نظام کو اپنانے سے ملک میں امن کی فضاء برقرار ہو سکتی ہے کیونکہ یہی نظام امن اور انصاف کا ضامن ہے۔ اسلام ہمیں جن چیزوں کا حکم دیتا ہے ہمیں ان چیزوں پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے اور جن چیزوں سے روکھتا ہے ان سے دوری اختیار کرنی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ اسلام ہمیں اتحاد و بھائی چارگی کا درس دیتا ہے جس پر عمل کرنے سے ہمارے درمیان نہ صرف محبت میں اضافہ ہوگا بلکہ آپسی اختلافات ختم ہو جائیں گے۔ اگر وطن عزیز میں عوام کو مختلف فرقوں اور ذاتوں کی بنیاد پر تقسیم کرنے کی کوشش کی گئی تو اسکا نتیجہ فرقہ واریت، آپسی جھگڑوں اور دہشتگردی کی صورت میں ہمارے سامنے آسکتا ہے، آپسی اختلافات کا تنیجہ کبھی مثبت نہیں ہو سکتا اور ایسا کرنے سے ہمیں نقصان کے سوا اور کچھ نہیں ملنے والا۔

انہوں نے مزید کہا کہ دنیا کے بیشتر غیر مسلم افراد اسلام اور اسلامی نظام کو دہشتگردی سے تعبیر کرتے ہیں، اسکی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ دہشتگردوں نے اسلام کا نام استعمال کر کے اسلام کی غلط تصویر پیش کی اور بعض مذہبی جماعتوں نے انکی بھر پور حمایت کی اور غلط تبلیغات کی وجہ سے دنیا بھر کے غیر مسلم اس نظام کو برا تصور کرتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ مسلمانوں سے جتنا ممکن ہو دوری اختیارکرے۔ بیان کے آخر میں کہا گیا کہ وطن عزیز میں بڑھتی بد عنوانی اور کرپشن اسلامی احکامات سے غفلت کا نتیجہ ہے۔جہاں ہمیں نیکی اور بھلائی کے کاموں کو فروغ دینا چاہئے وہی ہم بدعنوانی اور دیگر جرائم کے رد عمل میں خاموشی اختیار کرتے ہیں۔

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree