The Latest

وحدت نیوز (سکردو) مجلس وحدت مسلمین بلتستان کے رہنماء اور ممتاز سماجی کارکن جی ایم پاروی نے اسلام آباد میں ڈاکٹر کاظم سلیم سے ملاقات کی اور بلتستان خصوصاً کھرمنگ کی سیاسی اور سماجی صورتحال پر گفتگو کی۔ ملاقات میں جی ایم پاروی نے کھرمنگ میں مسلم لیگ نون کے بعض عناصر کی طرف سے سرکاری محکموں میں بے جا مداخلت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اقتدار مافیا پچھلے پانچ سال پیپلز پارٹی کا پلیٹ فارم استعمال کرکے کرپشن اور لوٹ مار کرتے ہے، اب یہ لوگ نون لیگ کی حکومتی چھتری استعمال کرکے اپنی کرپٹ روایت کو زندہ رکھنا چاہتے ہیں اور محکمہ تعمیرات عامہ کے بعض کرپٹ آفیسران سے ملکر سرکاری ٹھیکوں میں بندر بانٹ کررہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ نون لیگ نے فوٹو سیشن کے ذریعے کھرمنگ کو جنت بنا دیا ہے لیکن عملی طور کارکرگی صفر ہے۔ تقریبا سال گزرنے کو ہے لیکن سیلاب متاثرین کی ابتک بحالی نہیں ہوسکی، بعض جگہوں پر اپنی پارٹی کے لوگوں کو نوازنے کیلئے غلط سروے کے ذریعے کروڑوں کے تخمینے بنوائے گئے۔ ڈاکٹر کاظم سلیم نے اس موقع پر کہا کہ کرپشن اور بدعنوانی معاشرتی بیماری ہے، اس کا تعلق کسی خاص پارٹی سے نہیں بلکہ بیمار لوگ ہر معاشرے میں پائے جاتے ہیں، ضرورت اس امر کی ہے کہ معاشرہ ایسے افراد کی حوصلہ شکنی کرے تاکہ معاشرے میں اچھی روایات کو پنپنے کا موقع مل سکے۔ اگر ایسا نہیں کیا گیا تو یہ من حیث القوم ہم سب کی بدبختی ہوگی۔

وحدت نیوز(کوئٹہ)مجلس وحدت مسلمین کے رہنما و ممبر بلوچستان اسمبلی آغاسید محمد رضا نے  ( Glow )گلو آرگنائزیشن کے صدر عباس علی کو مبلغ ایک لاکھ تیس ہزار روپے کا چیک دےدیا.یاد رہے کہ پچھلے سال ( Glow )گلو آرگنائزیشن کی جانب سے فوٹوگرافرز ورکشاپ کا انعقاد کیا گیا تھا.جن میں 15 فوٹوگرافرز نے حصہ لیا. ایم پی اے آغا رضا نے نیو جنریشن فوٹو گرافرز کی حوصلہ افزائی کے لیے فی کس پانچ ہزار روپے کا اعلان کیا تھا. علاوہ ازیں گلو آرگنائزیشن کے لیے ایک عدد ملٹی میڈیا پروجیکٹر دینے کا وعدہ بھی کیا تھا.

وحدت نیوز (اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے جے آئی ٹی اورمختلف میڈیا رپورٹس میں سانحہ عاشورہ کراچی میں ایک سیاسی جماعت کے ملوث ہونے کے انکشاف پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ سانحہ عاشورہ کراچی کے حوالے سے تحقیقاتی اداروں کی متضاد رپورٹیں تفتیشی عمل کو مشکوک بنا رہی ہیں۔اس واقعہ میں ملوث ایک کالعدم مذہبی جماعت کے کچھ کارکنوں کی ماضی میں بھی گرفتاری ظاہر کی گئی ہے۔تحقیقاتی اداروں کی حالیہ رپورٹ سے مزید پیچیدگیاں اور ابہام پیدا ہو رہے ہیں۔یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ جوگرفتاریاں پہلے عمل میں لائیں گئیں انہیں درست تسلیم کیا جائے یا جے آئی ٹی کی موجودہ رپورٹ کو قابل اعتبار سمجھا جائے۔حکومت ملت تشیع کے بے گناہ افراد کے قتل میں ملوث ان افراد کو منظر عام پر لائے جن کے خلاف ٹھوس شواہد موجود ہیں۔سانحہ عاشورہ میں ملوث دہشت گرد مذہبی ہوں یا سیاسی ملٹری کورٹ میں اسپیڈی ٹرائل کے زریعے فوری عبرت ناک سزادی جائے۔

انہوں نے کہا کہ قاتل کسی بھی رعایت کے قطعی مستحق نہیں ان کا تعلق چاہے کسی بھی سیاسی یا مذہبی جماعت سے ہو ۔دہشت گردی میں ملوث ہر شخص کا کیس فوجی عدالت میں بھیجا جائے تاکہ کڑے احتساب کا عمل بغیر کسی دباو کے بلاتاخیر اپنے انجام کی طرف بڑھے۔علامہ ناصر عباس نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے سانحہ عاشور کراچی،سانحہ علمدار روڈ کوئٹہ،سانحہ ہزارہ ٹاون کوئٹہ، سانحہ حیات آباد اور سانحہ شکارپورسمیت ملک بھر میں ہونے دہشت گردی کے تمام واقعات کا ٹرائیل فوجی عدالتوں میں کیا جائے ان واقعات میں ملوث افراد اور ان کے سہولت کاروں کو عبرت ناک سزائیں دی جائیں۔ جب تک ان مذموم عناصر کی بیخ کنی نہیں ہوتی تب تک ملک میں پائیدار امن کا قیام اور دہشت گردی کے عفریت سے چھٹکارا ممکن نہیں۔

وحدت نیوز (روہڑی )مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مر کزی رہنماء اور شہداء کمیٹی کے چیئرمین علامہ مقصود علی ڈومکی نے روہڑی میں منعقدہ شہدائے وقار اسلا م کا نفرنس سے خطاب کیااور سید عاطف رضاشاہ کی رہائش گاہ پرصحافیوں سے گفتگو کی۔

اس موقع پر علامہ مقصود علی ڈومکی نے کہا کہ آج دنیا بھر میں وقار اسلام کے خلاف ، انسان دشمن سامراجی قوتیں بر سر پیکار ہیں، کیوں کہ اسلام کا وقارعالمی استعماری ایجنڈا کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ دہشت گرد گروہ امریکہ اور اسرائیل کے پیدا کردہ ہیں، جنہیں آل سعود اور سامراجی ممالک کی مکمل سر پرستی حاصل ہے۔ مزاحمتی بلاک کاسامراج دشمن کردار عالم انسانیت کے لیے امن کی امیداور روشنی کی کرن ہے۔حزب اللہ لبنان،ایک مہذب اوراعلیٰ انسانی اقدار کی علمبردار جماعت ہے۔جس نے کبھی ظلم و تشدد اور دہشت گردی نہیں کی ۔ حزب اللہ، امت مسلمہ اور عالم عرب کے لئے فخر و زینت ہے۔

انہوں نے کہا کہ شکارپور اور جیکب آبادسمیت سندہ بھر میں دہشت گردی کے مراکز اور سہولت کار موجود ہیں جن کے خلاف فوجی آپریشن کی ضرورت ہے۔ سندہ میں دھشت گردی کے لئے مستونگ کے دھشت گرد آتے ہیں۔ مستونگ دھشت گردی کا گڑہ بن چکا ہے، پاک فوج مستونگ میں دھشت گردی کے مراکز کے خلاف آپریشن کلین اپ کرے۔

وحدت نیوز (کراچی) سانحہ عاشورہ کے حوالے سے تفتیشی رپورٹ میں ہونے والے انکشافات کے بعد سانحہ عاشورہ اور بولٹن مارکیٹ کے جلاو گھیراو کا مقدمہ آرمی کورٹ میں چلایا جائے، حکومت سانحہ عاشورہ میں ملوث دہشتگردوں کو فوری کیفر کردار تک پہچائے ، عدالتی رپورٹس کو جلد عوام کے سامنے لایا جائے اور ملت جعفریہ کو اس حوالے سے اعتماد میں لیا جائے، ان خیالات کا اظہار مجلس وحدت مسلمین کراچی ڈویژن کے ڈپٹی جنرل سیکریٹری جنرل سید رضانقوی نے سانحہ عاشورہ پرریاستی اداروں کی جانب سے ملزمان کی جی آئی ٹی رپورٹ میں ہونے والے انکشافات کے بعد کیا۔

رضا نقوی نے کہا کہ سانحہ عاشورہ کے حوالے سے ریاستی اداروں کی رپورٹ پر مجلس وحدت مسلمین سمیت ملت جعفریہ کو سنگین تشویش ہے جبکہ اس حوالے سے سیاسی جماعت بھی اپنے موقف کو واضح کرے،رضانقوی نے کہاکہ سانحہ عاشورہ کے بعد ایک منعظم سازش کے تحت ملت جعفریہ کے جوانوں کو بولٹن مارکیٹ کے جلاو گھیراو میں ملوث کرنے کی کوشیش کی تھی اور جھوٹے مقدمات درج کیے تھے ریاستی اداروں کی رپورٹ نے ان جھوٹے مقدمات اور ملت جعفریہ کو بدنام کرنے کی سازش پر پانی پھیر دیا ہے۔

رضا نقوی نے بتایا کہ 28دسمبر۲۰۰۹ یوم عاشور ہ کے روز لائٹ ہاوس کے قریب ہونے والے اس بم دھماکہ میں ۵۰ سے زائد عزادار شہید ہوئے تھے جبکہ۱۰۰ سے زائد شدید زخمی تھے،انہوں نے وفاقی و صوبائی حکومت سمیت ریاستی اداروں سے مطالبہ کیا کہ انصاف کے فوری حصول اور ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لئے سانحہ عاشورہ کے کیس کو ملٹری کورٹ میں بھیجا جائے، عدالتی رپورٹ کو بھی عوام کے سامنے لانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ملت جعفریہ کو بھی اس حوالے سے اعتماد میں لیا جائے اور اسی سال چہلم امام حسین علیہ سلام کے موقع پر اربعین امام حسین کے جلوس میں شامل ہونے وانے والی بس کو نشانہ بنانے اور جناح اسپتال میں بم دھماکہ کرنے والے دہشتگردوں کے چہرے بھی بے نقاب کیئے جائیں،ایم ڈبلیو ایم صوبائی و کراچی کابینہ کا اجلاس طلب کر لیا ہے اور بہت جلد اپنے لائحہ عمل کا اعلان کریں گے۔

وحدت نیوز (کراچی) مجلس وحدت مسلمین پاکستان صوبہ سندھ کے سیکرٹری جنرل علامہ مختارامامی نے صوبائی شوری ٰکے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ایم ڈبلیوایم 27مارچ کو بھٹ شاہ میں عظیم الشان بیداری امت کانفرنس منعقد کرے گی سندھ بھر سے ہزاروں عاشقان محمد ﷺ شریک ہوں گے، بیداری امت کانفرنس ‘‘ میں سندھ بھرسے علماء، ماتمی انجمنوں، ذاکرین ، خطباء ، نوحہ خوانوں، منقبت خوانوں سمیت ملت جعفریہ کے تمام اہم اداروں اور عوام کی شرکت کو یقینی بنایا جائے گا۔جبکہ کانفرنس کے انتظامات کو حتمی شکل دینے کے لئے مرکزی ، صوبائی اور ضلعی اراکین پر مشتمل چھ رکنی کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے،اس سلسلے میں مختلف ذیلی کمیٹیاں بھی تشکیل دی جائیں گی جو جلسہ کے کامیاب انعقاد میں اپنا کردار ادا کریں گی اور اس حوالے سے بہت جلد دوسرا اجلاس صوبائی سیکرٹریت سولجربازار کراچی میں منعقد کیا جائے گا اجلاس میں ڈپٹی سیکرٹری جنرل عالم کربلائی ،مولانا نشان حیدر ،شفقت لنگا،حیدر زیدی ،آصف صفوی ناصر حسینی اور امتاز شاہ بھی موجد تھے ان کا مزید کہنا تھا کہ بیداری امت کانفرنس ملک خداداد پاکستان کے استحکام میں سنگ میل ثابت ہوگی، جس میں مجلس وحدت مسلمین کے سربراہ علامہ راجہ ناصرعباس جعفری ملکی وبین الاقوامی صورت حال کے پیش نظر جماعت کی پالیسی بیان کریں گے۔

خلیجی ممالک کی اسرائیل نوازی

وحدت نیوز (آرٹیکل) ہر باضمير اور غيرت مند خواه وه مسلم ہو يا غير مسلم، عرب ہو يا عجم مزاحمت اسلامی حزب الله اور مقاومت كو قدر كی نگاه سے ديكهتا ہے، كيونكہ قومی انحطاط، مذہبی انتشار اور دينی اقدار سے دوری كے اس دور ميں جب استكباری اور صہيونی قوتيں انسانيت كی تذليل اور آزاد و خود مختار ممالک كی تضحیک كر رہی ہیں، ايسے نازک دور ميں ايک مختصر سی جماعت "حزب الله لبنان" جو تمام تر مذاہب و اديان، رنگ و نسل كی قيود سے بالا تر ہو كر ظالم و مظلوم، مستكبر و مستضعف،ناجائز تسلط و قبضہ اور حريت و آزادی كے مفاہیم كو اجاگر كرتے ہوئے مظلوم و مستضعف اقوام كيلئے حريت و آزادی كی اميد بن جاتی ہے۔ دوسری طرف بعض ضمير فروش اور استعماری و صہيونی ايجنٹ حكمران ہیں کہ جو حزب الله كو دہشتگرد قرار ديكر صہيونی اور مغربی وفاداری كا حق ادا كرتے ہیں۔

يہ وه ڈکٹیٹر و ملوک اور امراء ہیں كہ جن كے ہاتھ لاكهوں، عراقی، شامی، يمنی اور ديگر ممالک كے بيگناه شہريوں كے خون سے رنگين ہیں۔ داعش، النصرہ، القاعدہ اور طالبان طرز كے دہشتگرد مسلح گروه بنانے والی اور انہيں ہر قسم كی مدد اور پشت پناہی كرنيوالی ان دہشتگرد حكومتوں کو قطعاً يہ حق حاصل نہیں ہے كہ وہ دہشتگردی كے سرٹيفكيٹ تقسيم كريں۔ وه خليجی ممالک جو اپنی عوام كو خود سکیورٹی اور امن فراہم نہیں كرسكتے اور اس کے لئے دوسرے ممالک سے بھیک مانگتے نظر آتے ہیں، انہوں نے پورے خطے كے امن كو تباه كر ديا ہے۔ وه خطے ميں امريكہ، غرب اور اسرائيليوں كے سب سے بڑے ايجنٹ ہیں۔ اس لئے انہوں نے اپنے آقاؤں کے اشاروں اور تعليمات پر پورے جہان اسلام ميں تكفيريت اور مذہبی تعصب پهيلانے پر كهربوں ڈالرز كی سرمايہ کاری کی، دين اسلام كی دشمنی ميں ابو جهل اور ابو لہب سے بهی بڑھ گئے اور امت مسلمہ كی وحدت كو پاره پاره كيا۔ وه اب يہوديوں كی تعليمات كے مطابق پورے خطے كو فرقہ واریت كی آگ ميں دهكيلنا چاہتے ہیں۔ انكی دہشتگردی كی تاريخ تو بہت لمبی ہے، ہم يہاں پر فقط ماضی قريب ميں كئے جانے والے اقدامات كا تذكره كرتے ہیں۔

خليجی حكومتوں اور امراء كی دہشتگردی كی چند مثاليں:
1۔ انہوں نے اپنی فوجيں بحرين ميں داخل كركے وہاں کی اكثريتی عوام كے حقوق کی پرامن جدوجہد كا گلا گھوٹنے كی كوشش كی۔
2۔ پهر عراق كی تقسم كے ايجنڈے كو پورا كرنے كيلئے عراق كے داخلی امور ميں فقط مداخلت و مذهبی منافرت نہیں پهيلائی بلكہ اسے بارود كے ڈھیر پر لا كهڑا كيا۔
3۔ ليبيا كی تباہی ميں يہ لوگ برابر كے شريک ہیں۔ انہوں نے جمهوريت كے نام پر تاريخ ميں پہلی بار ايک برادر ملک پر مغربی ممالک سے ملكر چڑهائی كی اور فضائی حملوں ميں شريک ہوئے۔ گويا ان خليجی ممالک ميں عوام كو آزادياں نصيب ہیں اور جمہوريت كا نظام قائم ہے۔
4۔ پانچ سال كا عرصہ گزر چكا ہے كہ يہی دہشتگرد امراء ملک شام كو تباه كرنے اور عوام كی منتخب حكومت كے خاتمے كيلئے ایڑی چوٹی كا زور لگا رہے ہیں۔ انكے مجرمانہ ہاتھ لاكهوں بے گناہوں كے خون سے رنگین ہیں۔ انہوں نے اس جنگ كے ذريعے اسرائيل کی وه خدمت كی ہے، جس كا  يہودی كبهی تصور بهی نہیں كرسكتے تهے۔
5۔ خليجی امراء كا سب سے بڑا جرم يمن جيسے ہمسایہ مسلم ملک پر جنگ مسلط كرنا ہے۔ وه شخص جسے عوام مسترد كرچكی ہے، اسے واپس حكومت پر لانے كے لئے اتنی بڑی تباہی، پورے ملک كی بربادی اور ہزاروں بيگناه معصوم بچوں اور خواتين كا قتل، انكے مكروه چہروں پر وه بدنما داغ ہے، جسے تاريخ بشريت كبهی فراموش نہیں كريگی۔ جب بهی سفاکوں اور انسانيت كے قاتلوں كے نام كی فہرست بنے گی تو يہ خليجی امراء اور حاكم سر فہرست ہونگے۔

تمام دنيا اور بالخصوص لبنانی عوام كو خبردار ہو جانا چاہيئے كہ اب ان ظالم حكومتوں كا عراق و شام كی تباہی كے بعد اگلا ہدف لبنان ہے، وه اسرائيل كی خاطر وہاں پر خانہ جنگی كا نقشہ بنا چکے ہیں اور اسرائيل كے خلاف مقاومت كا ہراول دستہ، حزب الله لبنان انكا اگلا ہدف ہے۔ وه حزب الله كو اسكی حمايت كرنے والی عوام سے جدا كرنا چاہتی ہیں۔ صہيونی ايجنٹ مشرق وسطٰى كی ابهرتی ہوئی قوت بلاک مقاومت كو مذہبی رنگ دينا چاہتے ہیں، اسرائيلی اہداف كی تكميل كرتے ہوئے سنی ممالک كے اتحاد كے ذريعے آل سعود لبنانی و فلسطينی مقاومت كو ايک اور داخلی بحران ميں وارد كرنا چاہتے ہیں۔ خطے سے آشنائی ركهنے والا ہر شخص جانتا ہے كہ وه لبنانی مقاومت جس كی سربراہی حزب الله كے پاس ہے، اس ميں فقط شيعہ مذہب كے لوگ نہیں بلكہ اس مقاومت ميں لبنانی اہل سنت، مسيحی اور درزی مذہب كے لوگ بهی پیش پيش ہیں اور تمام سياسی و مذہبی و قومی جماعتيں اپنی اس مقاومت كی حفاظت كرتی ہیں۔

تمام خليجی ممالک کے اسرائيل كے ساتھ پس پرده تعلقات تو بہت پہلے سے تهے، ليكن اب نہ صرف وفود كے تبادلے اور خطے كے مسائل پر مشورے ہی نہیں ہوتے بلكہ مشتركہ پاليسی بنا كر اور اسرائيل كا شريک كار بن كر ميدان ميں اتر چكے ہیں۔ بحرين كا بادشاه جب اسرائيلی حکام کا  پرتپاک استقبال كرتا ہے تو كہتا ہے كہ اسرائيل محض خطے كی طاقت ہی نہیں بلكہ خطے كا محافظ بهی ہے۔ حقيقی اہل سنت اعلان كرچكے ہیں كہ سعودی بادشاه كو حق نہیں كہ وه اہل سنت مذہب كی سربراہی كا دعوىٰ كرے۔ وه اسرائيل جو پوری امت مسلمہ اور سب عرب عوام كا كهلا دشمن ہے اور انكے مابين كئی ايک جنگيں ہوچکی ہیں، جس نے مسلمانوں كے قبلہ اول اور انبياء كرام كی مقدس سرزمين فلسطين پر ناجائز قبضہ جما ركها ہے اور لاكهوں فلسطينيوں اور اہل سنت مسلمانوں كا قاتل ہے۔ اس خطے كے سب شيعہ و سنی مسلمان اور عرب و عجم اسرائيل كے اس ناپاک وجود كو برداشت نہیں كرتے، ليكن لمحہ فكريہ يہ ہے كہ آج خليجی حكمرانوں كے نزديک اسرائيل دوست، پارٹنر اور خطے كا محافظ ہے اور ظالم استعماری و استكباری قوتوں كے غرور و تكبر كو خاک ميں ملانے والى جماعت اور امت مسلمہ كی عزت و آبرو كی محافظ حزب الله دہشتگرد ہے۔ يہ امت مسلمہ كے ساتھ بہت بڑی خيانت ہے اور اس كی جتنی بهی مذمت كی جائے كم ہے۔


تحرير۔۔۔۔علامہ  ڈاكٹر سيد شفقت حسين شيرازی

وحدت نیوز(آرٹیکل)سلیمان کتانی(Solomon Katani) کا نام تو آپ سب سے سنا ہوگا۔ یہ ایک مسیحی محقق ہیں۔ ان کی پیدائش امریکہ میں ہوئی اور دو سال کی عمر میں والدین سمیت لبنان آئے۔ بیس سال تک مختلف یونیورسٹیز اور مدارس میں تدریس سے منسلک رہے۔ انہوں نے اپنی زندگی میں حضرت محمدؐ پر ۹ جلدکتابیں تحریر کیں اور ان کی صاحبزادی پر ایک مستقل کتاب لکھنے کے ساتھ ساتھ  ان کے علم کے وارثو ں میں سے حضرت علی ؑ سے لیکر امام موسیٰ کاظم ؑ تک ہر امام پر کتاب تحریرکی۔ موصوف نے "فاطمة الزہرا، وتر فی غمد" میں پیغمبر خاتم (ص)کی لخت جگر کی مختلف خصوصیات پر قلم فرسائی کی۔﴿۱﴾
 
فاطمہ ؑ وہ باعظمت خاتون ہیں جو حس لطیف، پاک معدن، دریا دل اور نورانیت سے سرشار اور عقل﴿کامل﴾ کی حامل ہیں۔ مناسب یہی ہے کہ ایسی شخصیت کے بارے میں کتاب لکھی جائے اور ان سے نمونہ اخذ کیا جائے۔ عرب دنیا ﴿دوسرے تمام تر مسائل و مشکلات کے ساتھ ساتھ﴾ اپنے گھریلو سسٹم کو بافضیلت بنانے کی طرف محتاج ہیں تاکہ اپنے معاشرے کی ساخت کو مضبوط بنا کر اپنی باشرافت تاریخ کو جاری و ساری رکھ سکیں۔ آپ ہی کے ذریعے وہ  اپنے ان تمام  اجتماعی مسائل کا حل نکال سکتے ہیں۔﴿۲﴾
 
مسیحی دانشور سلیمان کتانی اپنی کتاب کی ابتدا میں لکھتے ہیں، حضرت فاطمة الزہراؑ کا مقام و رتبہ اس سے کہیں زیادہ  بلند و برتر ہے کہ جس کی طرف تاریخ و روایات اشارہ کرتی ہیں اور ان کی عزت و وقار اس سے کہیں زیادہ ہے جن کی طرف ان کے زندگی نامہ لکھنے والوں نے  قلم فرسائی کی ہے۔ حضرت زہراؑ کی مرکزیت کو بیان کرنے کے لیے یہی کافی ہے کہ آپ کے والد گرامی محمدؐ، شوہر گرامی علیؑ اور آپ کے صاحبزادے حسنؑ و حسینؑ ہیں۔ آپ ساری کائنات کی خواتین کی پیشوا ہیں۔ اپنی کتاب کے آخر میں راقم یوں رقمطراز ہے، اے دختر مصطفٰی فاطمہ! اے وہ ذات جس نے زمین کو اپنے شانوں پر بلند کردیا۔ اپنی  پوری زندگی میں صرف دو مرتبہ  آپ نے تبسم کیا۔ پہلی مرتبہ جب آپ بستر بیماری پر پڑی تھی تو جونہی ﴿آپ کے والد گرامی نے﴾  آپ کو یہ خوش خبری سنائی کہ مجھ سے سب سے پہلے آپ کی ملاقات ہوگی۔ دوسری مرتبہ اس وقت آپ کے چہرے پر مسکراہٹ تھی جب آپ اپنی جان کو جان آفرین کے حوالے کر رہی تھی۔ آپ نے ہمیشہ پاکیزگی اور پاکدامنی کے ساتھ الفت و محبت کی زندگی گزاری۔ آپ وہ پاکیزہ ترین ماں ہیں جو دو پھولوں کو دنیا میں لائیں اور ان کی پرورش کا فریضہ بھی نبھایا۔ آپ طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ اس  فانی دنیا کا مذاق اڑا کر راہی ابد ہوگئیں۔ اے محمد مصطفٰی (ص) کی دختر گرامی! اے علی مرتضیٰ کی شریک حیات! اے حسنؑ و حسینؑ کی مادر گرامی! اے پوری دنیا اور ہر زمانے کے خواتین کی سرور و سالار!(۳)
 
وہ اس کتاب میں رقمطراز ہے، بہادری یہ نہیں کہ جسمانی طاقت یا تخت و تاج کے سہارے کسی کا مقابلہ کیا جائے بلکہ حقیقت میں بہادری  یہ ہے کہ عقل و منطق اور فہم و فراست سے میدان مقابلہ میں اترے۔ ایسے میں اہداف مشخص ہو جاتے ہیں اور اس کے بارے میں پروگرامینگ  بھی کی جاسکتی ہے۔ حضرت زہراؑ کی بہادری بھی اسی صورت میں نمودار ہوگئی۔ آپ نے لوگوں کی ہدایت کے ہدف کو پانے کے لیے مؤثر طریقے اپنائے جبکہ آپ کے بازو نازک و کمزور اور آپ کے پہلو ضعیف تھے۔ ﴿۴﴾
 
سلیمان کتانی کا کہنا ہے کہ آپ نے دو ہستیوں  یعنی اپنے والد گرامی اور شوہر نامدار کے سایے میں زندگی گزاری۔ دو خوشبوؤں اور پیغمبر و امام کے دو بیٹوں حسن ؑ اور حسینؑ کو آپ نے اپنی آغوش میں پروان چڑھایا۔ دو لطافتوں یعنی لطافت جسمانی اور لطافت احساسی کو اپنے گود میں لیا۔ آپ نے دو عصروں یعنی عصرجاہلیت اور عصر بعثت کا مشاہدہ کیا۔ آپ نے اپنے والد گرامی کو دو طرح کی محبت فراہم کی یعنی بیٹی کی محبت اور ماں کی محبت۔ آپ دو طرح کی آگ میں جلتی رہیں یعنی محرومیت کی آگ اور فقدان کی آگ۔ آپ نے بہت سارے مصائب جھیلیں۔
 
اے فاطمہ! اے زیور عفت سے آراستہ زبان کی مالک! اے زیور کرامت سے سرشار گلوئے اطہر کی مالک! تیرا رشتہ کتنا پیارا ہے جس کی خوشبو دخت عمران تک پھیلی ہوئی ہے۔ اے مصطفٰی کی لخت جگر!
فاطمہؑ کو اللہ تعالی کے لطف و کرم سے جمال کے ساتھ ساتھ عقل کامل، باطنی پاکیزگی اور  قوہ جاذبہ بھی نصیب ہوئی۔
 
آپ نے ایک بہت ہی باعظمت باپ اور قطب ﴿عالم امکان﴾ کی توجہ کو اپنی طرف مبذول کرایا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کے والد گرامی کی نسل آپ ہی کے ذریعے جاری و ساری رہی۔ یہ بھی ایک ایسا ذخیرہ ہے جس سے یکے بعد دیگرے  ہر دور کے انسانی نسلیں بعنوان  ارث مستفید ہوتی رہیں گی۔ آپ کی نسلوں نے اتنی ترقی کی کہ مرور زمان کے ساتھ ساتھ ایک وقت میں فاطمہ کے نام سے مصر میں ایک حکومت تشکیل پائی اور انھوں نے اپنی توان کے مطابق آپ کے نام سے استفادہ کیا۔ مصر میں فاطمی حکومت اور جامعة الازہر دونوں آپ کے اسم سے متبرک ہوگئے۔ مسلمانوں نے بالخصوص شیعوں نے آپ کو اب بھی فراموش نہیں کیا ہے۔ کیونکہ آپ پیغمبر اکرمؐ کے نزدیک سب سے زیادہ پیاری ہیں۔
 
حضرت فاطمہ ؑ نے فدک کا تقاضا اپنی ذاتی پراپرٹی بڑھانے کے لیے  نہیں کیا بلکہ آپ اس کے ذریعے اسلام کے استحکام اور پائیداری کے خواہاں تھیں۔ آپ اس کی پیداوار کو جزیرة العرب میں موجود تمام افراد تک پہنچانا چاہتی تھیں کیونکہ وہ سب فقر و تنگدستی میں مبتلا تھے۔ خصوصا فکری اور روحانی بھوک نے تو  ان کو اچک ہی لیا تھا۔ یہاں پر فاطمہ ؑ نے اپنے ارث کے حصول کے لیے قیام کیا۔ آپ  اس  تقاضے کے ذریعے اجتماعی حس جو مردہ ہوچکی تھی کو دوبارہ زندہ کرنا چاہتی تھیں۔
 
فرانس کے محقق لوئی ماسینیون Louis Massignon کا کہنا ہے، حضرت ابراہیم کی اولاد اور ان کی دعائیں بارہ ایسے نور کی خبر دیتی ہیں جو حضرت فاطمہ ؑ سے منشعب ہوں گے۔ حضرت موسیٰ ؑ کی تورات حضرت محمدؐ اور ان کی دختر اور ان کے بارہ فرزندوں کی آمد کی خبر دیتی ہے۔ جیسے اسماعیل، اسحاق اور حسن و حسین علیھم السلام۔ حضرت عیسیؑ کی انجیل محمدؐ کی آمد کی خبر کے ساتھ ہی یہ بشارت بھی دیتی ہے کہ پیغمبر اکرم ؐ کے ہاں ایک بابرکت صاحبزادی پیدا ہوگی جس سے دو صاحبزادے وجود میں آئیں گے۔
 
ڈائنا ڈی سوزا D.Disvza ہندوستان کی ایک مسیحی محقق ہیں۔ وہ فاطمہ زہرا ؑ کے حوالے سے ایک واقعہ نقل کرکے اس پر تبصرہ کرتی ہے۔ واقعہ یوں ہے، ایک  دن حضرت محمدؐ نے اپنی صاحبزادی فاطمہؑ سے فرمایا، کیا کوئی ایسی خاتون ہے جس کی دعا آسمان تک پہنچنے سے پہلے ہی مقام قبولیت تک پہنچ جائے؟ حضرت فاطمہؑ اپنے والد بزرگوار کے بیان کیے ہوئے اس معیار پر اترنے والی خاتون سے ملاقات کی آرزومند تھیں۔ ایک دن آپ ایک لکڑہارے کی بیوی سے ملاقات کی خاطر ان کے ہاں گئیں۔ جونہی ان کے گھرکے سامنے پہنچی آپ نے اندر داخل ہونے کے لیے  اس سے اجازت طلب کی۔ اس خاتون نے یہ کہہ کر آپ سے معذرت خواہی کی کہ میرے شوہر ابھی یہاں نہیں ہیں اور میں نے ان سے آپ کو گھر لانے کی اجازت بھی نہیں لی ہے لہذٰا آپ واپس چلی جائیے اور کل تشریف لائیے تاکہ میں ان سے اس حوالے سے اجازت لے سکوں۔ حضرت فاطمہؑ واپس لوٹ آئیں۔ جب اس عورت کا شوہر رات کو گھر آیا تو اس نے حال چال دریافت  کیا۔ اتنے میں اس خاتون نے کہا کہ اگر پیغمبر اکرم ؐ کی بیٹی حضرت فاطمہؑ ہمارے ہاں آنا چاہے تو کیا ان کے لیے اجازت ہے؟ اس نے جوابا کہا، وہ آ سکتی ہیں۔ اگلے روز حضرت فاطمہؑ حضرت امام حسینؑ کو اپنے ہمراہ لیے دوبارہ اس کے پاس آئیں اور حسب سابق ان سے اندر داخل ہونے کی اجازت مانگی۔ اس خاتون نے دوبارہ یہ کہہ کر معذرت کی کہ میں نے صرف آپ کے لیے میرے شوہر سے اجازت لی ہے لیکن آپ کے ساتھ اس وقت آپ کا صاحبزادہ بھی ہے لہذٰا میں اجازت نہیں دے سکتی ہوں۔ حضرت فاطمہ دوبارہ لوٹ آئی۔ رات کو جب اس عورت کا شوہر واپس لوٹ آیا  اور حال احوال دریافت کیا تو اس کی بیوی نے پوچھا: کیا پیغمبر اکرمؐ کے گھرانے سے کوئی ہمارے ہاں آئے تو اس کے لیے اجازت ہے؟ اس نے اثبات میں جواب دیا۔ اس طرح حضرت فاطمہ ؑ تیسری مرتبہ لوٹ آئیں اور اس لکڑہارے کی بیوی سے ملاقات کی۔
 
اس داستان کا اخلاقی پہلو یہ ہے کہ عورت کو ہر وقت اپنے شوہر کا مطیع رہنا چاہیے۔ اسی عورت کے بارے میں حضرت محمدؐ نے فرمایا  یہ سب سے پہلے جنت جانے والی خاتون ہے۔ اگر ہم نے ایک قدرتمند خاتون بن کر رہنا ہے تو ہمیں شہامت، حضرت مریم ؑو حضرت فاطمہؑ سے لینا چاہیئے۔ ان کے شجاعانہ اقدامات کا احترام کرنا چاہیئے۔ ہمیں چاہیے کہ ان کی اس شہامت کو ہم اپنے بیٹے بیٹیوں، بہن بھائیوں، دوستوں اور رشتہ داروں تک منتقل کریں۔ ان کی سیرت کو ہم اپنی سیرت بنا لیں اور ہم اپنے ذریعے اپنی نسلوں تک منتقل کریں۔ صرف اسی صورت میں ہی ہم طاقتور بن کر رہ  سکتے ہیں اور صرف اسی صورت میں ہی ہم نے اپنی ماؤں کا احترام بجا لایا ہے۔﴿۵﴾


حوالہ جات:
۱:پائیگاہ علمی فرہنگی محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمThis email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
2: نقد و بررسی شخصیت حضرت فاطمہ زہراؑ از نگاہ مستشرقان با رویکرد قرآنی،  محمد عسکری، ص ۹۹ تا ۱۱۳
۳: سلیمان کتانی، فاطمة الزہراء وتر فی غمد،ص۳۲۔۲، ناقل منزلت حضرت زہراؑ در احادیث، مکاتب علی،۱۴۸ تا ۱۵۶
۴:پائیگاہ علمی فرہنگی محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.۵: نقد و بررسی شخصیت حضرت فاطمہ زہراؑ از نگاہ مستشرقان با رویکرد قرآنی،  محمد عسکری، ص۱۲۱تا۱۲۲۔ ۹۹ تا ۱۱۳

 

تحریر۔۔۔۔۔۔۔۔سید محمد علی شاہ الحسینی

وحدت نیوز (آرٹیکل) مٹھاس ،انسان کو پسند ہے،انسان چاہتا ہے کہ اس کی زندگی کے تمام شعبوں میں شیرینی اور مٹھاس ہی ہو۔دینِ اسلام بھی یہی چاہتا ہے کہ انسانی معاشرے سے منکرات کو ختم کر کےحیاتِ انسانی کو  حسنات کی  شیرینی سے معمور کیا جائے۔انسانی دنیا میں اتنی بڑی تبدیلی ایک دم ممکن نہیں۔پھل  کبھی بھی ایک دن میں پک کر میٹھا نہیں ہوتا۔

ایک بیج کو زمین کے اندر مدتوں کیمیائی اور حیاتیاتی عمل سے گزرنا پڑتاہے جس کے بعد وہ ایک پودے کی صورت میں زمین کے اوپر تند و تیز ہواوں اور سورج کی گرم شعاوں کا مقابلہ کرنے کے قابل بنتاہے۔اس کے باوجود ایک پودے کو کھینچ کر زبردستی درخت نہیں بنایاجاسکتا۔

درخت بننے کے لئے بھی ایک پودے کو  مسلسل مٹی ،پانی،گیس اور ہوا کے ساتھ ساتھ موسمی تغیرات کی ضرورت پڑتی ہے۔ان مراحل سے گزرے بغیر پودا درخت نہیں بن سکتا۔درخت بننے کے بعد بھی پودے کو مسلسل موسمی تربیّت کے مراحل طے کرنے پڑتے ہیں تب جاکر اس پر شگوفے کھلتے ہیں اور پھل اگتے ہیں۔
کسی غنچے کو طاقت کے ساتھ مروڑ کر پھول نہیں بنایاجاسکتا اور کسی پھول کومسل کر یادبا کر قوت و طاقت سے  پھل بھی نہیں بنایا جاسکتا۔جب پھل لگ جاتاہے تو پھر ایک دن میں پک کر میٹھا نہیں ہوجاتا۔پھل بھی سورج کی کرنوں اور چاندنی کی آغوش میں مقررہ عمل طے کرنے کے بعدہی میٹھا اور شیرین ہوتاہے۔
انسانی و اسلامی تہذیب  کا شجر بھی اسی طرح ہے۔انسانی تہذیب کو بھی آگے بڑھنے اور ارتقاء کرنے کے لئے مختلف ادوار سے گزرنا پڑتاہے۔بہترین تہذیب سے بہترین ثقافت جنم لیتی ہے اور بہترین ثقافت سے بہترین تمدن وجود میں آتا ہے اور بہترین تمدن اپنی گود میں بہترین اقوام کو پروان چڑھاتاہے۔

ایک محقق کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنی تحقیقات کے دوران انسانی تہذیب کے ارتقائی مراحل کی رعایت کرے۔اسے تہذیب ،ثقافت اور تمدن کے فرق کو مدّنظر رکھتے ہوئے،اسے تہذیب و ثقافت اور تمدن کی ارتقائی سطح کو بھی ماپنا چاہیے۔مخاطبین کی ذہنی سطح کی پیمائش کے بعد ہی ان کی اصلاح ِ احوال کے لئے نسخہ تجویز کرنا چاہیے۔یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ ہر تحقیق ہر میدان میں کام نہیں آسکتی،ہر بات ہر شخص پر یکساں اثرات مرتّب نہیں کرتی اور ہر مریض کے لئے ایک ہی نسخہ کارگر ثابت نہیں ہوتا۔

انسانی تہذیبوں کے درمیان اسلامی تہذیب کو یہ انفرادیت حاصل ہے کہ دیگر اقوام جس قدر اپنی تہذیب سے دور ہوتی گئیں انہوں نے ترقی کی اور مسلمان جس قدر اپنی تہذیب سے دور ہوتے گئے انہوں نے تنزّل کیا۔تہذیب کوئی ایسی شئے نہیں ہے جو خود بخود ایک نسل سے دوسری نسل میں تبدیل ہوجاتی ہے۔بلکہ تہذیب کے ایک نسل سے دوسری نسل میں  منتقل ہونے کے لئے ضروری ہے کہ موجودہ نسل اپنی آئندہ نسل کے حالات کے مطابق اپنی تہذیبی روایات کی تعبیرِ نو اور تعمیرِ نو کرے  تاکہ آئندہ نسل اپنی موروثی تہذیب کے سائے میں افکارِ نو کو پروان چڑھا سکے۔

صدرِ اسلام میں صفہ کی درسگاہ اور مسجد النبی[ص]  کے زیرِ سایہ جو تہذیب پروان چڑھی وہ خالصتا ایک علمی  و فکری تہذیب تھی۔اسی علمی و فکری تہذیب نے ایک علمی و متمدن قوم کو جنم دیا جس کی آغوش میں سعدی،  فارابی،رومی،سینا،جابر بن حیان اور طوسی جیسی گرانقدر شخصیات نے جنم لیا۔
مختلف حالات و واقعات کے پیشِ نظر جیسے جیسے مسلمان اپنی نسلِ نو کو اپنی علمی تہذیب سے دور کرتے گئے وہ غیروں کے محتاج ہوتے چلے گئے۔حتّی کہ اب نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ اب اسلامی ممالک میں تہذیب بھی غیر مسلم مالک سے درآمد کی جارہی ہے۔

موجودہ صدی کے سماجی ،صنعتی اور سیاسی انقلابات بتا رہے ہیں کہ یہ صدی مسلمانوں میں بیداری اور ان کی اپنی تہذیب کی طرف بازگشت یعنی پلٹنے کی صدی ہے۔آج کے مسلمان کو اپنی عظمتِ رفتہ کے کھوجانے کا احساس ہوچکاہے اور اپنی اصلی تہذیب کی طرف پلٹنے کے لئے ہاتھ پاوں ماررہاہے۔ایسے میں اسلامی دنیا کی بنیادوں میں ایک ایسا مافیا بھی دیمک کی طرح  اپنا کام دکھارہاہے جو عالمِ اسلام کو اس کی علمی و فکری میراث کی طرف پلٹانے کے بجائے فقط نماز روزے اور طہارت کے احکام تک محدود رکھنا چاہتاہے۔

پاکستان کے ایک مایہ ناز محقق مختار مسعود کے مطابق انہیں زندگی میں دو  طرح کے استاد ملے۔ایک نے انہیں بچپن میں کہا کہ خبردار قلم کو ہاتھ نہیں لگانا ،یہ صرف تمہاری پڑھنے کی عمر ہے جب تعلیم مکمل کر لو پھر لکھنا شروع کرنا جبکہ دوسرے استاد نے کہا کہ ابھی سے لکھنا شروع کرو تب جاکر برسوں بعد کچھ لکھ پاو گے۔

ان کے بقول اگر میں پہلے والے استاد کی بات پر چلتاتو آج تک کچھ بھی نہ کرپاتا ۔یہ دوسرے استاد کی بات پر عمل کرنے کا نتیجہ ہے کہ میں نے اب تک بہت کچھ کرلیاہے۔
اسی طرح ہمارے ارد گرد بہت سارے ایسے لوگ ہیں جو طالبعلموں کو تعلیم کے راستے سے ہٹانے کے لئے اس طرح کے نظریات کی ترویج کرتے ہیں کہ  پڑھائی لکھائی کا کیا فائدہ ہے،تعلیم چھوڑو اورچلو قوم کی خدمت کرو۔یہ تعلیم کے بغیرقوم کی خدمت کا نعرہ اس ہمدردی اور خضوع و خشوع کے ساتھ لگاتے ہیں کہ اچھے خاصے طالب علم کا دل بھی پڑھائی سے اچاٹ ہوجاتاہے۔

تعلیم و خدمت کو ایک ساتھ لے کر چلنے کی ضرورت ہے۔نہ ہی تو خدمت کے بغیر تعلیم کسی کام کی ہے اور نہ ہی ایسی خدمت امت مسلمہ کے حق میں ہے جو تعلیم کے بغیر ہو۔ تعلیم  وتربیت اور تحقیق ِ نوو تولید علمی کے بغیر خدمت ایسے ہی ہے جیسے نور کے بغیر چراغ ۔
“علم دشمن مافیا” دن بدن دانستہ یا نادانستہ طور پر مسلمانوں کی نسلِ نو کے دماغوں کو دیمک کی طرح چاٹ رہاہے۔ آج کون نہیں جانتا کہ ہمیں اسلامی  بیداری کی موجودہ صدی میں اپنی ملت کو حقیقی اسلامی تہذیب سے مرتبط کرنے کے لئے علمی و فکری شخصیات کی اشد ضرورت ہے۔
ہمیں ایسی علمی و فکری شخصیات کی ضرورت ہے جو  ہمیں مشرق و مغر ب کی علمی و اقتصادی،فکری و نظریاتی،سائنسی و  معاشرتی غلامی سے نجات دلاکر حقیقی اسلامی تہذیب  کے ساتھ متصل کریں۔

یہ سب کچھ ایک دم نہیں ہوسکتا اس کے لئے ہمیں مسلسل تگ و دو اور جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے اور اس کا پہلا قدم یہ ہے کہ ہم  اپنے  اسکولز،مدارس،کالجزاور یونیورسٹیز کے طالبعلموں کو ” علم دشمن مافیا” سے محفوظ کر یں،انہیں تعلیم ترک کرنے کے بجائے تعلیم مکمل کرنے کی ترغیب دیں اور تعلیم کے ساتھ ساتھ خدمت کرنے کا ہنر بھی سکھائیں،اسی طرح ان کے ہاتھوں میں کلاشنکوف یا چندے کے باکس تھمانے کے بجائے،ان کی اخلاقی و علمی  تربیت  کریں اور ان کی تحقیقی   و مدیریتی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کے لئے منصوبہ بندی کریں۔

ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ پھل ایک دن میں پک کر میٹھا نہیں ہوجاتا، پھل بھی سورج کی کرنوں اور چاندنی کی آغوش میں مقررہ عمل طے کرنے کے بعدہی میٹھا اور شیرین ہوتاہے۔ انسانی و اسلامی  تہذیب  کا شجر بھی اسی طرح ہے۔اس شجر کے ثمر آور ہونے کے لئے ضروری ہے کہ ہم اپنی ملت کے  نونہالوں کو علم دشمن  مافیا سے بچائیں چونکہ تعلیم  وتربیت اور تحقیق ِ نوو تولید علمی کے بغیر اسلام  اور مسلمانوں کی خدمت کا نعرہ لگانا ایسے ہی ہے جیسے نور کے بغیر چراغ  لے کر کسی کی  رہنمائی کے لئے نکل پڑنا۔


تحریر۔۔۔۔۔۔نذر حافی

وحدت نیوز (آرٹیکل) صدیوں پرانی  بات ہے کہ  موجودہ عربستان میں ایک عظیم الشان  بادشاہ ہوا کرتاتھا ۔اس کی سلطنت   کی حدود  ،ایک یا دو ملکوں تک نہیں ، بلکہ پورے موجودہ عربستاں ، روم و فارس تک پھیلی ہوئیں تھیں ۔ مگر دنیا کے دیگرتمام سلطانوں  سے ہٹ کر اس بادشاہ  میں بہت ساری  خوبیاں و خصوصیات تھیں  کہ جس کے سبب یہ عظیم سلطان  موجودہ تمام بادشاہوں اور آئندہ آنیوالے تمام رہبروں و لیڈروں کےلیے ،ایک رول مڈل و نمونہ ِعمل کے طور پر باقی رہا اور رہے گا ۔کہ جن میں اس کا انتہائی  رحم دل ، خوش اخلاق ،سخی ، شجاع ،خوبصورت و باقی تمام کمالات عالیہ سے لبریز ہونا شامل تھا۔مشکل یہ تھی کہ جس قوم میں اس عظیم لیڈر نے آنکھ کھولی ،اس کی موجودہ صورت حال انتہائی آلودہ ، پست اور اندھیروں میں  ڈوبی ہوئی تھی ۔ ایسے وقت میں اس عظیم انسان نے اپنے کردار سے اس قوم کو ذلت و پستی کے گھپ اندھیروں سے باہر نکلا۔اس کی زوجہ یعنی ملکہ جو کہ ایک انتہائی مال دار خاتون تھی نے  بادشاہ ِوقت کی  تحریک میں  اس کا بھرپور ساتھ دیا ۔یہاں تک کہ اس نے اپنے مال کاذرّہ ذرّہ ،اپنے شوہر کے مِشن پر قربان کردیا۔زندگی کا پہیہ اسی طرح چلتا رہا  اور خداوند متعال نے ان کو بیٹوں سے نوازا ۔مگر افسوس کہ  سلطان کے تمام بیٹے بچپنے میں ہی انتقال کرگئے ۔اس پر بھی انہوں نے خداوند متعال کی  حمد و ثنا بجھا لائی اور کبھی بھی ان کی زبا ن پر شکوہ جاری نہیں ہوا۔چند   ہی عرصہ بعد اللہ تبارک وتعالیٰ  نے ان کو ایک پھول جیسی بیٹی عطا کی ۔جس پر سلطان نے بیٹی  کو اپنا سرمایہءِ زندگی سمجھتے ہوئےاس پر  فخر محسوس کیا  اور اس رحمت خداپر  دونوں نے اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کیا ۔ابھی وہ بچی تقریباً پانچ سال ہی کی تھی کہ وہ معصوم ،آغوش مادر سے محروم ہوگی ۔کہ جس پر اس کی پرورش کی ذمہ داری خود  اس کے والد بزرگوار نے اٹھائی ۔سلطان ِوقت نے اپنی  بیٹی کی تربیت کچھ اس طرح سے کی کہ بعد میں اسی بیٹی کا کردار زمانے کے لیے نمونہِ عمل قرار پایا۔یہاں قابل فکر نکتہ یہ  ہے کہ اسی  بیٹی کے جوان ہونے پر  ،اسی عربستاں ،روم وفارس کے سلطاں نے جب اپنی بیٹی کی شادی کی تو  انتہائی سادگی سے ،نہ  کہ آج ہماری طر ح کم از کم 8سے 10لاکھ لگا کر ۔اس کے باوجود کہ اس کے پاس شرق و غرب کی  سلطنت  تھی ،اس کی بیٹی کے جہیز پر نگاہ ڈالنے سے انسان حیرت کے سمندر میں طوطہ زن ہوجاتاہے ۔کہ جس میں فقط ایک پیراہن ،چار تکیے ،ایک چکی ،ایک تانبے کا طشت ،ایک چمڑے کا ظرف ،و چند مٹی کے برتن شامل تھے۔اور دوسری طرف وہی بیٹی ،جب ایک بیوی کے روپ میں  شوہر کے گھر جاتی ہے ،تو وہی سلطاں ِعالم کی بیٹی گھر کے سارے کام کرتی ہوئی نظر آتی ہے ۔جن  میں آٹا گوندھنا،روٹی بنانا ،چکی چلانا ، و جھاڑو دینے سے لے کر گھر کے دیگر تمام چھوٹے بڑے کام شامل تھے ۔وہ  تربیت ِیافتہ خاتون، بیٹی کے ساتھ ساتھ ایک ایسی زوجہ  تھی کہ جس کی زندگی کے مطالعے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس نے کبھی بھی اپنے شوہر سے ایسی فرمائش نہیں کی، کہ جسے اس کا شوہر پورا نہ کرسکے ۔اپنے شوہر کے ساتھ انتہائی مہربان اور اس کی زندگی سچ سے لبریز تھی ۔جبکہ اسی خاتون کے تاریخی کردار کو اگر پردہ داری  کے لحاظ سے پرکھا  جائے تو  اس   کی پردہ داری کا اندازہ  اس واقعہ سے لگایا جاسکتاہے ، کہتے ہیں کہ ایک دفعہ اس خاتون کے گھر اس کے والد کے ساتھ ایک نابینا  شخص ان کےہاں آیا ۔تو فوراً ہی اس پاکیزہ خاتون نے اپنے آپ کو ایک چادر میں چھپا لیا ۔اس پر اس کے والد بزرگوار نے کہا کہ تم نے اپنے آپ  کو چادر میں کیوں چھپا لیاہے؟ جبکہ یہ شخص تو  نابینا  ہے ۔تو اس پر اس خاتون نے جواب دیا ،کہ  بے شک یہ نابینا ہے اور کچھ نہیں دیکھ سکتا مگر میں تو بینا ہوں اور میں تو اس کو دیکھ سکتی ہوں ۔لہذا میں نے اپنے آپ کو چھپایا ہے ۔اسی طرح جب کسی موقعہ پر اس خاتون  سےکہ جو ایک  اچھی بیٹی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک باکردار زوجہ بھی تھی  سوال پوچھا کیا  گیاکہ ، آپ کی نظر میں  عورتوں کے لیے سب سے بہتر چیز کیاہے؟تو  اس پر اس خاتون نے اتنا خوبصورت جواب دیا کہ جسے تاریخ نے ہمیشہ کےلیے  اپنے سینے میں محفوظ کرلیا  ۔"کہا کہ عورتوں کے لیے سب سے بہترین چیز یہ ہے کہ وہ کسی غیر مرد کو نہ دیکھیں اور کوئی غیر مرد اِن کو نہ دیکھے"۔اس شہزادی کی تربیت  اسقدر پاکیزہ تھی کہ جس اندازہ لگانا ممکن نہیں ۔فقیروں و محتاجوں  کی حاجت  روائی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ۔ایک دفعہ گھر کے باہر کسی محتاج  نے پرانے لباس کی درخواست کی ۔مگر ہوا یہ کہ اس خاتون نے اپنا نیا  شادی والا لباس محتاج کو عطا کیا اور خود پیوند شدہ لباس زیب ِتن کرلیا ۔الغرض یہ تاریخ کا ایک ایسا کردار ہے کہ جو تمام معنوی کمالات و صفات عالیہ سے پُر ہے  ۔اور یہ کردار آج بھی ہماری  ماؤں ،بہنوں و بیٹیوں کے  لیے مکمل نمونہِ عمل ہے ۔ ایک ایسی مشعل ِراہ ہے کہ جس کی روشنی میں    چلتے ہوئے وہ اپنی زندگی کے بہترین لمحات کو طے کے سکتیں ہیں ۔اور یاد رہے کہ  یہ بیٹی کوئی اور نہیں بلکہ سید الانبیاء رسول گرامی ِ قدر  حضرت محمدمصطفیٰ(ص) کی دختر نیک اختر  سیدۃالنساء العالمین حضرت  فاطمۃ الزھراء(س) ہیں ۔یہ ایک بیٹی اور زوجہ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک ایسی ماں بھی ہیں کہ جس نے اپنی تربیت سے  زمانے کو حسنؑ و حسینؑ جیسے رہبران و لیڈر دیے۔بلاشبہ حضرت زھراء(س) آج اور آئندہ آنیوالی تمام انسانیت کے لیے اسوہ حسنہ ہیں ۔آپکؑی ولادت باسعادت جمعےکے دن 20 جمادی الثانی ،بعثت کے 5ویں سال سرزمین مکّہ میں ہوئی ۔آپکؑا اسم مبارک فاطمہ (س)جبکہ مشہور ترین القاب  میں سے  زھراء ،بتول ،صدیقہ الکبریٰ، عذرا،طاہرہ ،اور سیدۃالنساءالعالمین ہیں ۔آپکؑی والدہ ماجدہ  ملیکۃ العرب سیدہ خدیجہ الکبریٰؑ  ہیں ۔آپکؑی شہادت 11 ھجری  مدینہ منورہ  میں ،رحلت ِ رسول خداؐ  کے 75یا 95 دن بعد ہوئی۔آپکؑی وصیت کے مطابق آپکؑو شب ِ تاریخی  میں سپرد خاک کیا گیا اور قبر کے نشان کو مٹادیاگیا کہ جو آج تک مخفی ہے ۔آپکؑی  عظمت وفضیلت میں  رسول خداؐ کی مشہور حدیث کہ جس میں  آپؐ نے فرمایا کہ "فاطمہؑ  میرا  جگر کا ٹکڑا  اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے،جس نےفاطمہؑ کو ناراض کیا اسنے مجھ محمدؐ کو ناراض کیا اور جس نے فاطمہ ؑ کو خوش کیا اس نے مجھ محمدؐ کو خوش کیا "[1]۔

لہذا آج معاشرے میں پھر سے جناب سیدہ ؑ کی زندگی کے تمام پہلو اُجاگر کرنے کی ضرورت ہے ۔تاکہ اس جامع کردار کے ذریعے آج کے ترقی یافتہ معاشرے میں موجود جاہلانہ رسومات کو ان کی جڑ سمیت تہ تیغ کیا جاسکے۔

 

 

      

تحریر۔۔۔۔۔۔ساجد علی  گوندل

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree