The Latest
بلوچستان کے شہر حب سے تعلق رکھنے والے مجلس وحدت مسلمین صوبہ بلوچستان کے سیکرٹری شعبہ امور جوانان سید رحیم شاہ دوپاسی جامشورو کے قریب ایک روڈ حادثے میں انتقال کر گئے۔ ان کی نماز جنازہ حب کی مرکزی امام بارگاہ میں ادا کی گئی، اور امام بارگاہ کے احاطے میں تدفین کی گئی۔ تفصیلات کے مطابق مرحوم سید رحیم شاہ اپنی فیملی کے ہمراہ حیدرآباد سے حب جارہے تھے کہ ان کی گاڑی کا اگلا ٹائر نکلنے کی وجہ گاڑی حادثہ کا شکار ہوگئی جس کے نتیجے میں سید رحیم شاہ موقع پر ہی انتقال کرگئے جبکہ ان کے بہنوئی اور گھر کے دیگر افراد سول ہسپتال حیدرآباد میں زیر علاج ہیں۔
اس موقع پر حب میں سید رحیم شاہ کی نماز جنازہ میں ایم ڈبلیو ایم پاکستان کے مرکزی سیکریٹری اطلاعات نثار عابدی، کراچی ڈویژن کے سیکریٹری تنظیم سازی میثم رضا و دیگر بھی موجود تھے۔ اس موقع پر نثار عابدی نے مرحوم سید رحیم شاہ کے والد پیر سید شیر شاہ دوپاسی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سید رحیم شاہ کا اچانک انتقال بلوچستان اور بالخصوص حب کے مومنین کے لئے بہت بڑا نقصان ہے، مرحوم سید رحیم شاہ کی حب میں عزاداری کے فروغ کے لئے کی جانے والی خدمات کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ خدا سید رحیم شاہ کی روح کو آئمہ کرام (ع) کے جوار رحمت میں جگہ عنایت فرمائے۔
ایم ڈبلیو ایم نے قوم کی سوچ بدل کر اسے بہادر بنا دیا ہے
شیعہ علماء کونسل اگر ملک بھر میں اہل تشیع امیدواروں کو سپورٹ کرتی ہے تو ایم ڈبلیو ایم بھرپور ساتھ دیگی، ناصر شیرازی سیکرٹری سیاسیات مجلس وحدت مسلمین پاکستان کی اسلام ٹائمز نامی سائیڈ کو انٹریو
ناصر عباس شیرازی: جب ہم کسی مذہبی سیاسی جماعت کی بات کرتے ہیں تو مجلس وحدت مسلمین مروجہ سیاسی جماعتوں میں سے نہیں۔ ایسی مروجہ سیاسی جماعتیں جو اپنے سیاسی اہداف کے حصول کے لیے ہر طریقہ استعمال کرتی ہیں اور اپنے مقاصد کے لیے ہر راستہ اختیار کرتی ہیں، ایم ڈبلیو ایم ایسی سیاسی جماعتوں سے بالکل مختلف ہے، کیونکہ مجلس وحدت مسلمین اصولوں کی سیاست کرنا چاہتی ہے۔ وطن عزیز پاکستان میں ایم ڈبلیو ایم اسلام ناب محمدی (ص) کا نفاذ چاہتی ہے، اسی لیے دیگر تمام مروجہ سیاسی جماعتوں سے ایم ڈبلیو ایم کی سیاست کا انداز بالکل جدا ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ مجلس وحدت مسلمین درحقیقت ملت جعفریہ کی نمائندہ جماعت ہے۔ پاکستان میں ملت تشیع کو بے توقیر کر دیا گیا ہے اور ملکی سیاست میں بھی ملت تشیع کو پس دیوار لگا دیا گیا ہے۔ قومی معاملات میں بھی ملت تشیع کو نظرانداز کیا جا رہا ہے۔ پس مجلس وحدت مسلمین کا نقط آغاز یہ ہے کہ ہم نے سب سے پہلے ملت تشیع کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنا ہے اور اس کے بعد ملت تشیع میں بیداری پیدا کرنے کا مرحلہ ہے۔ اس کے بعد ہم شعور و آگاہی دے کر ووٹ کے ذریعے ملت تشیع کو طاقتور بنائیں گے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ واحد مکتب تشیع جس نے آج تک پاکستان کے خلاف سوچا تک بھی نہیں اور مکتب تشیع محب وطن ہے۔ علاوہ ازیں نہ ہی ملت جعفریہ ملک دشمن قوتوں کی آلہ کار بنی۔ پاکستان میں سب سے زیادہ قربانی دینے والی قوم نے اب تک اپنے ہاتھوں سے حب الوطنی کا پرچم نہیں چھوڑا۔ فکری طور پر بھی یہی وہ مکتب و ملت ہے جس نے پاکستان کو بنایا تھا اور آئندہ پاکستان کو مزید آگے ترقی کی راہ پر گامزن کرسکتا ہے۔
ہم غیر شعوری طور پر مروجہ سیاسی جماعتوں کے انداز کا حصہ ضرور ہیں، جیسے اسی سسٹم میں لوگ اپنا کاروبار کر رہے ہیں، اسی سسٹم میں لوگ اپنی تعلیم کو جاری رکھے ہوئے ہیں اور اپنے روزمرہ کے امور کو چلا رہے ہیں۔ ہر ایک کی خواہش یہی ہے کہ یہاں پر اسلامی نظام قائم ہو اور ہماری بھی یہی خواہش ہے۔ اسلامی نظام کے تحت پاکستان میں تشیع کا قدرت مند ہونا انقلاب امام زمانہ(ع) کی بنیادی ضروریات میں سے ہے۔ قدرت مند تشیع ہی امام زمانہ(ع) کی صحیح معنوں میں مدد کر سکتی ہے۔ پس اسی لیے یہ نقط? ہمارے لیے بہت اہم ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ایم ڈبلیو ایم مروجہ سیاسی نظام کا حصہ نہیں۔ ہم حق باوسیلہ حق کے قائل ہیں اور ہم اپنے ہدف کے حصول کے لیے ہر قسم کے راستے کو منتخب نہیں کریں گے۔
تیسری بات
’’ اگر تحریک اسلامی ملک بھر میں شیعہ امیدواروں کی سپورٹ کے لیے کوئی اعلان کرتی ہے تو ایم ڈبلیو ایم ہر صورت ان کا بھرپور ساتھ دے گی۔ ‘‘
یہ ہے کہ فی الحال ہمارے پاس کوئی چارہ نہیں۔ عاقل وہ نہیں ہوتا جو اچھائی و برائی میں سے کسی ایک کا انتخاب کرے، بلکہ عاقل وہ ہوتا ہے جو دو برائیوں میں سے ایک یا دو خامیوں میں سے کم خامی یا کم برائی کا انتخاب کرے۔ پس ہم ایک آزاد مملکت کا قیام چاہتے ہیں اور اس کا مرحلہ آغاز اضطراری صورت میں اسی سسٹم کے اندر ہے۔ جس طرح اسی سسٹم میں رہتے ہوئے حزب اللہ لبنان کا ایک مضبوط سیٹ اپ ہے اور اس کا سیاسی سیٹ اپ بھی موجود ہے جو اپنے تشیع کا بھی تحفظ کرتی ہے، اپنی لبنانی شناخت کا بھی تحفظ کرتی ہے اور ان کے ساتھ ساتھ اپنی اسلامی شناخت کی بھی حفاظت کرتی ہے۔ پاکستان کے اندر اسی سسٹم میں رہتے ہوئے اضطراری طور پر ہمیں اپنی شیعہ شناخت، اسلامی شناخت اور پاکستان کے حوالے سے بھی اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنا ہے۔ مجلس وحدت مسلمین پاکستان ان ذمہ داریوں کو ادا کرنے کے لیے زمینہ فراہم کر رہی ہے۔
بعض حلقوں میں سوالات اٹھائے گئے کہ ایم ڈبلیو ایم کی وجہ سے شیعہ قوم تقسیم در تقسیم ہو گئی ہے، مثلاً کچھ لوگ ایم ڈبلیو ایم کو ووٹ دیں گے اور کچھ ان لوگوں کے کہنے پر جو پہلے سے موجود ہیں۔؟
ناصر عباس شیرازی: دیکھیں! شیعہ ووٹ کہاں تقسیم نہیں، کیا یہ درست نہیں کہ پی پی پی شیعہ ووٹ بینک کو اپنا سمجھتی ہے اور اسے یہ ووٹ جاتا ہے۔ جھنگ، بھکر و پنجاب کے دیگر بعض حلقوں میں مسلم لیگ ن یہ نہیں سمجھتی کہ شیعہ ووٹ بینک ان کے لیے بہت ہی کارآمد ہے۔ اگر ملک میں شیعہ ووٹ ایک کروڑ بھی ہو تو یہ پہلے ہی تقسیم شدہ ہے، ہم اس میں کیا کردار ادا کرسکتے ہیں۔ ہم تو صرف اسی تقسیم شدہ ووٹ کو نکال کر اسے ایک جگہ اکھٹا کر رہے ہیں، ہم اس کو وحدت کی لڑی میں پرونا چاہتے ہیں۔ ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ تشیع کا ووٹ یعنی مکتب آل محمد (ع) کا ووٹ مختلف سیاسی پارٹیوں و گروہوں میں تقسیم نہ ہو۔ ایسے لوگوں کو شیعہ ووٹ نہ ملیں جو اہل تشیع کے حقوق پر ڈاکہ ڈالتے ہیں، پاکستان کی عزت اور سلامتی کو بھی پامال کریں اور شیعہ اس سارے عمل میں ان کا بالواسطہ طور پر ساتھ دیں۔ ہم یہ چاہتے ہیں کہ شیعہ ووٹ کی بناء4 پر آزاد ہو کر خود پالیسی میکر بنیں اور انشاء4 اللہ یہ جلد ہوگا۔ پس اس سے یہ ثابت ہوا کہ ووٹ تقسیم نہیں ہو رہا بلکہ شیعہ ووٹ کو ہم ایک جگہ اکٹھا کر رہے ہیں۔
اسلام ٹائمز: کیا ایسے امکانات موجود ہیں کہ شیعہ علماء کونسل اور ایم ڈبلیو ایم کم از کم سیاسی ایجنڈے پر متفق ہوں، تاکہ شیعہ ووٹ کو تقسیم ہونے سے بچایا جاسکے اس کی طاقت سے اپنے اہداف کو حاصل کیا جاسکے۔؟
ناصر عباس شیرازی: بدقسمتی سے ایم ایم اے بھی پاکستان میں ناکام ہوئی۔ نہ صرف یہ کہ ایم ایم اے سیاسی طور پر ناکام جماعت
’’ ہم تکفیری گروہوں کو ووٹ کی طاقت کے ساتھ پارلیمنٹ میں نہیں گھسنے دیں گے۔ ‘‘
ہے بلکہ مذہبی حوالے سے بھی ناکام نظر آتی ہے۔ ہم یہ چاہتے ہیں کہ جو بھی پلیٹ فارم ہو، اس میں موجود تمام مذہبی و سیاسی جماعتیں آپس کے اختلافات کو بھلا کر کام کریں۔ جب آپ سیاسی اہداف کی بات کرتے ہیں تو ظاہر ہے کہ مولانا فضل الرحمن صاحب اور ہمارے سیاسی ایجنڈے میں بہت زیادہ فرق ہے۔ اسی طرح دیگر سیاسی جماعتوں سے بھی ہمارا ایجنڈا مختلف ہے۔ اگر تحریک اسلامی ملک بھر میں شیعہ امیدواروں کی سپورٹ کے لیے کوئی اعلان کرتی ہے تو ایم ڈبلیو ایم ہر صورت میں ان کا بھرپور ساتھ دے گی۔ اس کے علاوہ تحریک اسلامی اگر پارلیمنٹ سے تکفیری گروہوں کو باہر نکالنے کے لیے بھی کوئی کردار ادا کرتی ہے تو مجلس وحدت مسلمین کا بھی یہی ایجنڈا ہے۔ ہم تکفیری گروہوں کو ووٹ کی طاقت کے ساتھ پارلیمنٹ میں نہیں گھسنے دیں گے۔ اگر کوئی بھی شیعہ سیاسی جماعت ہمارے اس ایجنڈے کے ساتھ کام کرتی ہے تو ہم ان کے ساتھ بھرپور تعاون کی یقین دہانی کراتے ہیں۔
اسلام ٹائمز: کیا کسی ایک جماعت کے ساتھ کھڑا نہ ہونے سے مسائل پیدا نہیں ہونگے، کیا ایم ڈبلیو ایم کے ورکرز تقسیم نہیں ہوجائیں گے کہ ایک حلقے میں آپ کسی پیپلزپارٹی کے امیدوار کو سپورٹ کر رہے ہوں اور ساتھ والے حلقے میں ق لیگ کے امیدوار کو سپورٹ کر رہے ہوں۔؟
ناصر عباس شیرازی: ایک وقت میں اگر آپ نے پی پی پی کو سپورٹ کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے پی پی پی کے ایجنڈے کی سپورٹ کی۔ ہم پی پی پی کے ایجنڈے کی سپورٹ نہیں کرسکتے، مسلم لیگ ن اور ق کے ایجنڈے کی بھی سپورٹ نہیں کرسکتے۔ اس کے بعد ہم شخصیات کی بات کرتے ہیں۔ ہم کسی ایک پارٹی کے ساتھ اتحاد بھی نہیں کرسکتے۔ ہم پارلیمنٹ میں صرف معتدل لوگوں کو بھیجنا چاہتے ہیں۔ تکفیری گروہوں کے لوگوں کو پارلیمنٹ سے دور رکھنا چاہتے ہیں۔ ہم مکتب اہل بیت علیہم السلام کے ماننے والوں کی تعداد کو پارلیمنٹ میں بڑھانا چاہتے ہیں۔ پس ہم اس ایجنڈے کو مستقل طور پر چلائیں گے اور کسی بھی سیاسی جماعت کے ساتھ اتحاد نہیں کریں گے۔
اسلام ٹائمز: جھنگ کا حلقہ بہت ہی اہم ہے، وہاں پر ایم ڈبلیو ایم کسے سپورٹ کریگی، یعنی اختر شیرازی کو یا پھر امان اللہ خان سیال کو؟ کچھ لوگوں کا کہنا یہ ہے کہ شیخ وقاص اکرم کو ہرانے کے لیے ایم ڈبلیو ایم نے اختر شیرازی کو الیکشن کے لیے کھڑا کیا ہے۔؟
ناصر عباس شیرازی: پہلی بات یہ کلیئر ہونی چاہیے کہ اختر شیرازی صاحب کو ہم نے الیکشن کے لیے کھڑا نہیں کیا، بلکہ وہ خود اس سیٹ کے لیے امیدوار کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ اس حوالے سے ان کے پاس اپنے دلائل اور ثبوت ہیں۔ اس کے باوجود ہم نے وہاں کے لیے ابھی کوئی فیصلہ نہیں کیا۔ جھنگ میں ہمارا ٹارگٹ یہ ہے کہ وہاں پر لوگوں کو جنہوں نے یرغمال بنایا، ہم انہیں یرغمال نہیں بننے دیں گے۔ آپ نے شیخ وقاص اکرم کی بات کی تو شیخ صاحب نے کبھی بھی شیعوں کو سہولیات نہیں دیں بلکہ شیخ وقاص صاحب تو یہ سمجھتے ہیں کہ شیعوں کی مجبوری یہ ہے کہ انہوں نے تکفیری گروہوں کے مدمقابل ان کا ساتھ ضرور دینا ہے، اس کے علاوہ شیعوں کے پاس کوئی چارہ نہیں۔ اس تمام صورتحال کے باوجود شیعہ اب بیدار ہوچکے ہیں اور وہ اپنا اچھا برا خود خوب سمجھتے ہیں۔ اختر شیرازی صاحب کا الیکشن کے لیے کھڑا ہونا بھی شیعہ بیداری کا واضح ثبوت ہے۔
مجلس وحدت مسلمین جھنگ کے حوالے سے ابھی مزید اجلاس کرے گی اور ان اجلاسوں میں فیصلے کی روشنی میں کسی بھی امیدوار کی سپورٹ کی جائے گی۔ امان اللہ خان سیال صاحب ہماری
’’ ہم یہ لوگوں کو باور کرا رہے ہیں کہ ہمارا ووٹ بالآخر طاقت ہے اور اس طاقت کو وہاں استعمال ہونا چاہیے جہاں ہماری ملت کو سہولیات ملیں، ہماری ملت کو فائدہ پہنچے۔ ایسا نہ ہو کہ ہم ووٹ مثال کے طور پر پی پی پی کو دیں اور اس کے باوجود بھی ملک میں شیعہ نسل کشی جاری ہو۔ ‘‘
بہت ہی پرانی سیاسی شخصیت ہیں اور ان کی بہت ساری کاوشیں ہیں۔ امان اللہ خان سیال اس الیکشن میں اختر شیرازی صاحب کے مدمقابل کھڑے نہیں ہوئے۔
اسلام ٹائمز: مجلس وحدت مسلمین پاکستان کی اب تک سیاسی بڑی کامیابی کیا ہے، جسے دیکھ کر ایم ڈبلیو ایم سے کوئی امیدیں وابستہ کی جا سکیں۔؟
ناصر عباس شیرازی: مجلس وحدت مسلمین بالآخر لوگوں کو ایک نظام کی طرف دعوت دے رہی ہے۔ ایم ڈبلیو ایم لوگوں کو خدا کے نظام کی طرف بلا رہی ہے۔ زیادہ تر لوگ ایم ڈبلیو ایم کی طرف اس لیے آ رہے ہیں چونکہ یہ جماعت الٰہی جماعت ہے اور اس کا ہدف و مقصد بھی الٰہی ہے۔ آزادی کی کئی قسمیں ہیں، جیسے سوشل آزادی، اقتصادی آزادی، سیاسی آزادی، جبکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ ہم اس وقت سیاسی غلام ہیں۔ ہم پاکستان میں سیاسی طور پر غلام ہیں، کہیں مسلم لیگ ن، کہیں مسلم لیگ ق، کہیں پی پی پی وغیرہ کے، ہم شیعوں کو اسی سیاسی غلامی سے نجات دلا رہے ہیں، انہیں آزادی دلانا چاہتے ہیں۔ ہم یہ لوگوں کو باور کرا رہے ہیں کہ ہمارا ووٹ بالآخر طاقت ہے اور اس طاقت کو وہاں استعمال ہونا چاہیے، جہاں ہماری ملت کو سہولیات ملیں، ہماری ملت کو فائدہ پہنچے۔ ایسا نہ ہو کہ ہم ووٹ مثال کے طور پر پی پی پی کو دیں اور اس کے باوجود بھی ملک میں شیعہ نسل کشی جاری ہو۔ وہ لوگ جو شیعہ نسل کشی میں ملوث ہوں اور ہمارا ووٹ بھی انہی کو جا رہا ہو۔
پس یہی پیغام ہم نے عام کرنا ہے اور اپنی قوم کو بیدار کرنا ہے اور انہیں شعور و آگاہی دینی ہے۔ اسی سلسلے میں ہمیں بہت کامیابی بھی ملی ہے۔ میں نے گزشتہ دنوں لیہ، کراچی، جھنگ، ڈیرہ اسماعیل خان، بھکر، لاہور، سرگودھا، فیصل آباد، شیخوپورہ سمیت ملک کے دیگر علاقوں کا دورہ کر چکا ہوں، جہاں شیعہ بیلٹ کی ایک بڑی اکثریت کا یہ کہنا ہے کہ ہمیں جو ایم ڈبلیو ایم کی قیادت کہے گی ہم وہی کام کریں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم نہ کسی وڈیرے کو ووٹ دیں گے، نہ کسی چوہدری کو اور نہ ہی کسی لوکل سیٹ اپ کی بناء4 پر ووٹ دیں گے بلکہ ہم وسیع تر مفادات کی خاطر ایم ڈبلیو ایم کی قیادت کے کہنے پر ووٹ دیں گے۔ مجلس وحدت مسلمین کی لوگوں کو دی ہوئی سیاسی آزادی کا نقط? آغاز ہی اس الٰہی جماعت کی کامیابی ہے۔
اسلام ٹائمز: پاکستان کی سیاست کی ڈائنمکس کو مدنظر رکھتے ہوئے بتائیں کہ کیا ایسا ممکن ہے کہ مذہب کے نام پر ووٹ مل جائیں اور کوئی جماعت بڑی کامیابی سمیٹ کر حکومت بنا سکے، بقول کسی سیاستدان کے کہ انہیں قربانی کی کھالیں، چندہ اور زکوا? تو مل سکتی ہے لیکن ووٹ نہیں ملتا۔؟
ناصر عباس شیرازی: پہلی بات تو یہ ہے کہ پاکستان میں صرف مذہبی بنیاد پر ہی ووٹ ملتا ہے۔ پاکستان میں جو اعلانیہ طور پر سیکولر جماعت ہو اور مذہب کا نام بھی نہ لیتی ہو، اس کو ووٹ نہیں ملتا۔ اگر آپ پیپلز پارٹی کی بات کریں تو کیا یہ وہی جماعت نہیں کہ جنہوں نے قادیانیوں کو کافر قرار دیا تھا، کیا پی پی پی وہی جماعت نہیں کہ جس نے جمعہ کی چھٹی کا اعلان کیا تھا، پس یہی مذہبی دباؤ ہے۔ یہ تمام اقدامات صرف اور صرف اپنے آپ کو مذہبی ثابت کرنے کا ایک حصہ ہیں۔ پاکستان میں مذہب ایک بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ مذہبی جماعتوں پر بھی لوگ اعتماد کرتے ہیں۔ ایم ایم اے نے خود لوگوں کے اعتماد کو توڑا۔ ہمارے ہاں بدقسمتی تو یہ ہے کہ مذہبی سیاستدان اپنے آپ کو اچھا مذہبی ثابت تو کر لیتے ہیں، ایک اچھا سیاستدان ثابت نہیں کرسکتے ہیں۔
جب لوگ مذہبی سیاستدان کو ووٹ دیتے ہیں اور بعد میں دیکھتے ہیں کہ اس میں اور مثال کے طور پر عمران خان میں کوئی فرق نہیں یا کسی اور سیکولر سیاستدان میں فرق نہیں، (یہ بھی دیگر لوگوں کی طرح بدیانتی ہی کرتا ہے) تو پھر مذہبی رشتہ ختم ہو جاتا ہے۔ مجلس وحدت مسلمین ایک ایسا پلیٹ فارم ہے کہ جو اپنے وسیع تر اہداف کے لیے اپنے سات ڈیپارٹمنٹ کے ذریعے ووٹ کو بروئے کار لائے گی۔ ہمارے ڈیپارٹمنٹ میں مبلغین، ذاکرین، خیرالعمل فاؤنڈیشن، امور جوانان، شعبہ
’’ مجلس وحدت مسلمین بھی صاف و شفاف پانی کا وہ چشمہ ہے، جس نے پوری ملت کو شیر کی طرح زندہ رہنے کا فن سکھایا۔ ‘‘
خواتین و دیگر ہیں، یہ ایسے ڈیپارٹمنٹ جو ملکر اچھی کوآرڈینیشن کے طور پر کام کریں گے تو انشاء4 اللہ آپ دیکھیں گے کہ لوگ ووٹ بھی دیں گے اور ایم ڈبلیو ایم ایک واضح سیاسی تبدیلی بھی ضرور لائے گی۔
اسلام ٹائمز: ایم ایم اے کی ماضی کے مقابلے میں کتنی کامیابی کے امکان موجود ہیں۔؟
ناصر عباس شیرازی: میرے خیال میں مخصوص حلقوں کے ذریعے شائد افراد پارلیمنٹ میں آنے میں کامیاب ہو جائیں، ایم ایم اے کا سب سے زیادہ فائدہ مولانا فضل الرحمان کو پہنچے گا، باقی شائد اب یہ اس پوزیشن میں نہیں ہوگی کہ یہ صوبے میں حکومت بناسکے۔ میں ایم ایم اے کو ملاء4 ملٹری الائنس سمجھتا ہوں اور یہ مسلسل اپنا سابقہ کردار ہی ادا کرے گا۔
اسلام ٹائمز: آئندہ الیکشن ہوتے ریکھ رہے ہیں اور اگر ہوں گے تو کیا صورتحال بن پائے گی۔؟
ناصر عباس شیرازی: بظاہر تو یہی لگ رہا ہے کہ الیکشن اپنے مقررہ وقت پر ہو جائیں گے، لیکن سیاسی تجریے سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ الیکشن اپنے وقت پر نہیں ہوں گے۔
اسلام ٹائمز: سوال اٹھایا جاتا ہے کہ مجلس وحدت مسلمین نے کونسا ایسا کام کیا ہے جو پہلے نہیں ہو پا رہا تھا، کیا ٹارگٹ کلنگ رکی، کیا قوم کے مسائل حل ہوئے۔ وہی احتجاج، وہی دھرنوں کی سیاست، وہی مینار پاکستان کا اجتماع، کچھ بھی تو نہیں بدلا۔؟
ناصر عباس شیرازی: یہ آپ کا بہت ہی اچھا سوال ہے۔ میں پہلے عرض کر دوں کہ پہلے بھی پاکستان میں تشیع کا وجود تھا اور آج بھی ہے، جس طرح سے پہلے عزاداری برپا ہو رہی تھی، اسی طرح سے آج بھی عزاداری برپا ہوتی ہے۔ مجلس وحدت مسلمین کی مثال اس شیر کے بچے جیسی ہے جس نے ابتدائی طور پر ہی (روز اوّل سے) بھیڑوں کے سایے تلے زندگی بسر کی اور اپنی شناخت کھو بیٹھا تھا، لیکن ایک دفعہ وہ صاف و شفاف پانی تک پہنچا اور اس میں اپنا عکس دیکھا تو کہا کہ میں تو ان سے مختلف ہوں، جن کے ساتھ رہ رہا ہوں، میں تو کچھ اور ہوں، بس اس کے بعد اس نے ردعمل دکھایا۔
پس مجلس وحدت مسلمین بھی صاف و شفاف پانی کا وہ چشمہ ہے جس نے پوری ملت کو شیر کی طرح زندہ رہنے کا فن سکھایا۔ ایم ڈبلیو ایم نے ملت کو احساس دیا کہ آپ دوسروں سے الگ ہو۔ اہل تشیع کو ایم ڈبلیو ایم نے اعتماد لوٹایا ہے۔ میں نے خود کئی بڑے بڑے شہیدوں کے جنازے دیکھے ہیں۔ لاہور میں شہید کے جنازے میں بیس یا پچاس آدمی شریک ہوتے تھے۔ اس صورتحال میں لوگوں کو اپنے گھروں سے علم عباس (ع) اتارتے ہوئے دیکھا ہے، لیکن آج ایم ڈبلیو ایم نے قوم سے خوف کے جن کو بھگایا اور قوم میں اعتماد پیدا کیا، جس کی وجہ سے آج کی صورتحال پہلے سے بہت مختلف ہے اور آج قوم ثابت قدم نظر آتی ہے اور اپنے شہداء4 پر فخر کرتی ہے۔ اہل تشیع کے اجتماعات گلی کوچوں سے نکل کر بازاروں و چوکوں میں آ گئے ہیں اور ملکی سطح پر پروگرام منعقد کیے جاتے ہیں۔ کیا آپ خود نہیں دیکھتے کہ ایک شیعہ شہید کیا جاتا ہے تو اگلے روز اس کے جنازے میں شرکت کرنے والوں کی تعداد دو گنا ہوتی ہے۔
ہم نے ملت کو کھڑا ہونے کا حوصلہ دیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ گزشتہ دنوں علامہ ناصر عباس جعفری کو علاقہ بدر کرنے کی کوشش کی گئی تو پورا گلگت بلتستان کھڑا ہوگیا اور بیس گھنٹوں کے اندر وزیراعلٰی گلگت بلتستان کو اپنے احکامات واپس لینے پڑے اور معافی بھی مانگی۔ گلگت بلتستان کے وزیراعلٰی نے علامہ نیئر عباس مصطفوی کو گرفتار کیا تو اس کے ردعمل میں وہاں کے مکینوں نے آئی جی کو یرغمال بنا لیا۔ ایم ڈبلیو ایم جھنگ کے ضلعی سیکرٹری جنرل علامہ اظہر حسین کاظمی صاحب کو 9 محرم کو گرفتار کیا گیا تو اس کے نتیجے
’’ شام میں اگر کوئی بڑا بحران آیا تو اس کے اردگرد والے علاقے بھی اس بحران کی زد سے بچ نہ پائیں گے۔ اس وقت وہ لوگ جنہوں نے یہ جنگ چھیڑی تھی، اب اس جنگ کو ختم کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ ‘‘
میں پورا شہر بند ہوگیا۔ جس کے بعد بالآخر حکومت کو علامہ اظہر کاظمی صاحب کو رہا کرنا پڑا۔ اسی طرح سرگودھا کے اندر مقامی حکومت نے آرڈر جاری کیے کہ عزاداری کو روکا جائے، لیکن اس کو عملی جامہ نہ پہنایا جاسکا۔ یہ سب سازشیں ناکام ہو گئیں اور وہ اس لیے کہ ملت کے اندر شعور و آگاہی پیدا ہوچکی ہے۔
ملت کا اپنے رہبر کے ساتھ رابطہ اور زیادہ مضبوط ہوگیا ہے۔ ملت کا ایم ڈبلیو ایم کے قائدین پر اعتماد بڑھ گیا۔ ملتیں و قومیں صرف اسلحے کے ساتھ ہی نہیں لڑا کرتیں بلکہ اعتماد کے ساتھ لڑا کرتیں ہیں، اپنے مورال کے ساتھ لڑا کرتیں ہیں، اپنے مقصد کی بنیاد پر لڑا کرتیں ہیں اور انشاء4 اللہ آپ دیکھیں گے کہ ملت کے جوش و جذبے اور شعور و آگاہی میں روز بروز اضافہ ہوتا جائے گا۔ ملت اپنے اہداف و مقاصد کو بخوبی سمجھنے لگ پڑی ہے اور اسے معلوم ہوگیا ہے کہ اس کا دنیا میں کیا مقصد ہے۔ بس اسی شناخت کو تلاش کرنا ہے اور یہی شناخت ملت تشیع کے لیے آئندہ کے حالات میں بہت ہی اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔
مجلس وحدت مسلمین بلتستان کے نو منتخب سیکرٹری جنرل اور ممتاز عالم دین علامہ سید علی رضوی نے کہا کہ پارٹی قیادت نے میرے کاندھوں پر جو ذمہ داریاں عائد کیں ہیں ان سے ہر ممکن عہدہ برآہونے کی کوشش کی جائے گی ,جو قوتیں مجلس وحدت مسلمین کیخلاف سازشیں کررہی ہیں انہیں ناکام بنایا جائے گا
مجلس وحدت کی تقویت کے لئے سابق مرحوم سیکرٹری جنرل علامہ حافظ حسین نوری کے مشن کو لیکر آگے بڑھ ینگے اور کارکن ہمارے شانہ بہ شانہ ہونگے
ممتاز عالم دین نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مجلس وحدت مسلمین کی جانب سے گلگت بلتستان کی سیاست میں آنے کے اعلان کے بعد حکومتی حلقوں میں کھلبلی مچی ہوئی ہے اور حکمران جماعت کی دوڑیں لگی ہوئی ہیں ،عوام موجودہ حکومت کی پالیسیوں سے تنگ آچکے ہیں اور وہ تبدیلی چاہتے ہیں ،میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ حکومت کو اپنی کرپشن کے جس قسم کے بھی ثبوت چاہیے ہم فراہم کرینگے ،نثار سرباز کی کرپشن سے ہر ایک واقف ہے انہیں معصوم بننے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے ۔
انہوں نے کہا کہ غیر قانونی برتیوں اور کرپشن کیوجہ سے سرکاری ادارے تباہ ہوچکے ہیں نوجوان تعلیم حاصل کرنے کے بجائے نوکریوں کی رشوت کے لئے پیسوں کا انتظام کے پیچھے لگ گئے ہیں
مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے سربراہ علامہ ناصر عباس جعفری نے کہا ہے کہ کسی بھی انسانی معاشرے میں عوام کو آئینی حقوق اوربنیادی سہولیات کی فراہمی ریاست کی اولین ذمہ داری ہے، اگر حکمران اپنی ذمہ داریاں پوری کریں تو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا راستہ روک کر ایک مثالی معاشرے کی تشکیل کا خواب پورا کیا جا سکتا ہے، آج صرف پاکستان ہی پوری دنیا میں انسانیت کی تذلیل ہو رہی ہے، انسانی حقوق کی پامالی کے سبب پیدا ہونے والا معاشرتی بگاڑ عروج پرہے ،اس صورتحال سے نکلنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ انسانی حقوق کی بحالی کے لیے اسلام کے عطا کردہ ضابطہ اخلاق پر عمل کیا جائے ، انہوں نے ان خیالات کا اظہار انسانی حقوق کے عالمی دن کے موقع پر مجلس وحدت کے مرکزی سیکرٹریٹ میں میڈیا کے نمائندوں سے بات چیت کے دوران کیا ، علامہ ناصر عباس جعفری نے کہا کہ پاکستان کی ساٹھ فیصد آبادی غربت کی نچلی سطح پر زندگی گزارنے پر مجبور ہے ، تینتیس فیصد بچوں کو حصول تعلیم اور چالیس فیصد آبادی کو صحت کی سہولیات میسر نہیں، وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم کے سبب سرزمین وطن پر غربت مہنگائی ، اقربا پروری اور دیگر معاشرتی برائیوں نے عوام کو احسااس محرومی میں مبتلا کر رکھا ہے ، پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ دہشت گردی
مجلس وحدت مسلمین بلوچستان کے صوبائی سیکرٹری امور جوانان سید رحیم شاہ دوپاسی انتقال کر گئے ، وہ اپنے آبائی علاقہ حب جانے کے لیے حیدر آباد سے کراچی جا رہے تھے کہ سپر ہائی وے پر ٹریفک کے المناک حادثے کا شکار ہو گئے ، مرحوم کا شمار ایم ڈبلیو ایم کے فعال ترین کارکنوں میں ہوتا تھا ، مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ ناصر عباس جعفری ، ڈپٹی سیکرٹری علامہ امین شہیدی ، مرکزی سیکرٹری امور جوانان اور دیگر راہنماؤں نے مرحوم کے ناگہانی انتقال پر گہرے دکھ اور صدمے کا اظہپار کرتے ہوئے اسے مجلس وحدت کا ایک ناقابل تلافی نقصان قرار دیاہے ، انہوں نے سوگوار خاندان سے دلی ہمدردی کا اظہار کرتے مرحوم کے لیے مغفرت اور لواحقین کے صبر جمیل کی دعا کی ہے
رحیم شاہ کاشمار ان افراد میں ہوتا تھاجو دن اور رات کی تمیز کرے بغیر قوم اور ملک کی خدمت کیا کرتے تھے وہ ایک بے مخلص جوان تھے جو کبھی بھی بلوچستان کے ناگفتہ بہ حالات سے مرعوب نہیں ہوئے اور اپنے کام کوجاری رکھ
مشکل ترین وقت کربلا میں تھا جہاں تمام مرد شہید ہوچکے تھے سوائے ایک امام کے جو کہ بیمار تھے ،دشمن نے اپنے خیال میں بظاہر سب کچھ ختم کردیا تھا
میں نے کتابوں میں پڑھا ہے کہ یزید کے فوجی یزید سے کہہ رہے تھے کہ یزدید ہم نے پورے راستے ان پر تشدد کیا انہیں ٹارچر کیا ہر طرح کی ازیتیں دیں لیکن ان کے بڑے تو کجا ان کے بچے بھی ڈرے نہیں اور کسی نے شکست تسلیم نہیں کیا لہذا ہم نے بھی آج خوفزدہ نہیں ہونا دہشت گردی اور دہشت گردوں سے ہم کبھی خوفزدہ نہ ہوں
ان خیالات کا اظہار علامہ راجہ ناصر عباس جعفری سیکرٹری جنرل مجلس وحدت مسلمین پاکستان نے ڈھوک سیداں میں جلوس عاشورہ بم دھماکے میں شہید ہونے والے شہداء کے لواحقین سے ملاقات میں کیا
علامہ آغا علی رضوی کے سیکرٹری جنرل ایم ڈبلیو ایم بلتستان کے طور پر انتخاب کے بعد بلتستان کے جوانوں کے عزم و ہمت اور حوصلے بلند ہوگئے۔ علامہ آغا علی رضوی بلتستان کے جوانوں کی ہر دلعزیز شخصیت ہیں۔ آپ نے بلتستان کے جوانوں کو صحیح جہت دینے اور ان میں حسینی عزم پیدا کرنے میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ آپ نڈر، بہادر، بے باک اور حق گو عالم دین ہیں، تمام احتجاجی تحریکوں میں آپ نے نوجوانوں کی قیادت کی ہے، بلتستان کا جوان طبقہ آپ کے ہر حکم پر لبیک کہنے کو تیار ہے۔
جوانوں کے ایک وفد نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ علامہ آغا علی رضوی کی قیادت میں ہم اسلام دشمنوں، پاکستان دشمنوں اور دہشت گردوں کو اس علاقے میں ذلیل و رسواء کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ مجلس وحدت المسلمین پاکستان بلتستان ڈویژن کی خوش نصیبی ہے کہ علامہ آغا علی رضوی جیسے عظیم رہنما ملے ہیں وہ یقیناً تنظیم کے اہداف تک رسائی حاصل کرنے کے لیے ہرممکن کوشش کریں گے اور ان کے انتخاب سے ہمارے حوصلے اور ہمت بلند ہوگئے ہیں، ہم ہمہ وقت دین کی سربلندی اور پاکستان کی بقاء کے لیے متسعد ہیں۔
امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان بلتستان ڈویژن کے ترجمان نے ایک پریس ریلیز کے ذریعے معروف عالم دین علامہ آغا علی رضوی کے سیکرٹری جنرل مجلس وحدت المسلمین پاکستان بلتستان ڈویژن کے طور پر انتخاب کو نہایت حوصلہ افزاء قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ علامہ آغا علی رضوی جسے نڈر، بے باک اور عالم مبارز کے انتخاب سے دشمن مایوں ہونگے۔ انہوں نے کہا کہ علامہ آغا علی رضوی میں قیادت کی صلاحیت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے آپ سخت ترین حالات میں بھی مصلحت کا شکار ہونے والا نہیں۔ امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان بلتستان ڈویژن اس الٰہی تنظیم اور اس کے عظیم رہنماء سے ہر طرح کے تعاون کی یقین دہانی کرتی ہے اور دونوں تنظیمیں مل کر اسلام دشمن، پاکستان دشمن اور انسانیت دشمن طاقتوں کا مل کر مقابلہ کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ علامہ آغا علی رضوی کو سانحہ کوہستان، چلاس اور لولوسر کے بعد صدائے احتجاج بلند کرنے اور دہشت گردوں کے خلاف بولنے پر مختلف ذہنی اذیتوں میں مبتلا کرنے کی بھرپور کوششیں ہوئی ہیں تاہم آپ کے پائے استقامت میں کبھی لغزش نہیں آئی ہے، آپ کو گرفتار کروانے میں ان عناصر کا بھی ہاتھ ہوسکتا ہے جو پس پردہ دہشت گردوں کے ساتھ ملے ہوئے ہیں جو کبھی یہ نہیں چاہتے کہ سانحہ چلاس، کوہستان اور بابوسر کے قاتل پکڑے جائیں۔ جیل، گرفتاریاں اور شہادتیں کربلا والوں کا خاصہ ہے اور یہ ہمیں ان سے وراثت میں ملی ہے۔ کربلا والے بھی یزیدی طاقتوں سے کبھی مرعوب نہیں ہوئے۔
مجلس وحدت مسلمین پاکستان کراچی ڈویژن شعبہ خواتین کے زیراہتمام کراچی میں نمائش چورنگی پر شیعہ خواتین اور معصوم بچیوں کی ٹارگٹ کلنگ کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔ احتجاجی مظاہرے میں سینکڑوں خواتین اور معصوم بچوں سمیت کراچی میں شہید ہونے والے درجنوں شیعہ نوجوانوں اور عمائدین کے خانوادوں نے بھی بھرپور شرکت کی۔ شرکائے احتجاجی مظاہرہ نے ہاتھوں میں بینرز اور پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے، جن پر دہشت گردی کے خلاف اور حالیہ دنوں شہر کراچی میں دہشت گردوں کے حملوں میں شہید ہونے والی خواتین اور معصوم بچی مہزر زہراء سے اظہار یکجہتی پر مبنی کلمات درج تھے۔ شرکائے احتجاجی مظاہرہ شہر کراچی میں ملت جعفریہ کے عمائدین کی ٹارگٹ کلنگ اور خصوصاً خواتین کی ٹارگٹ کلنگ سمیت مقامی اسپتال میں زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا 13 سال مہزر زہراء پر حملہ کرانیوالے دہشت گردوں کی گرفتاری اور سزا کا مطالبہ کر رہے تھے اور امریکہ اور اسرائیل کے خلاف زبردست نعرے بھی لگا رہے تھے۔
مجلس وحدت مسلمین خیبر پختونخوا کے سیکرٹری جنرل علامہ سبیل حسن مظاہری نے کراچی میں جاری ٹارگٹ کلنگ پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک کو فرقہ واریت کی آگ میں جھونکنے کی کوشش کرنے والی پاکستان و اسلام دشمن قوتوں کو لگام دی جائے، اپنے ایک بیان میں انہوں نے کراچی میں مولانا اسماعیل کے قتل کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ شہر قائد میں شیعہ سنی کا کوئی مسئلہ نہیں، بلکہ مسلمانوں کے مشترکہ دشمن شیعہ سنی عوام کی قتل و غارت گری میں مصروف ہیں، حکومت کراچی میں دہشتگردوں کیخلاف فوری کارروائی کرے، ان کا کہنا تھا کہ کراچی میں اہلحدیث پیش امام کے قتل میں ملوث ٹارگٹ کلر کی گرفتاری اور اس کے انکشافات نے ظاہر کردیا ہے کہ شیعہ سنی عوام کے قتل عام میں ایک ہی قوت ملوث ہے۔
نیویارک میں اقوام متحدہ کے دفتر کے سامنے ہزاروں افراد نے پاکستان میں شیعہ نسل کشی کیخلاف شدید احتجاج کیا
اس مظاہرے میں شریک افراد نے ہاتھوں میں پاکستان میں ہونے والی شیعہ نسل کشی کیخلاف بینرز اٹھائے ہوئے تھے جبکہ اس نسل کشی میں شہید ہونے والے افراد کی تصاویر بھی اٹھارکھی تھیں
مظاہرین بند کرو بندکرو دہشت گردی بند کرو شیعہ کشی بند کرو اور ہم امن کے ہیں طلبگار شدت پسندی مردہ باد جیسے نعرے لگارہے تھے
اس مظاہرے کو انعقاد کرنے والوں میں سے ایک خاتون وجیہ رضوی نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کالعدم جماعتوں اور طالبان کے حملوں میں ابتک ہزاروں بے گناہ شیعہ مارے گئے ہیں جن میں ایک بڑی تعدادڈاکٹرز اینجنئرز اور پروفیشنل افراد کی ہے
انہوں نے کہا کہ اس غیر انسانی سلوک کا خاتمہ ضروری ہے افسوناک پہلو یہ ہے کہ ریاستی ادارے اور ذمہ دارافراد ملک میں جاری شیعہ نسل کشی کے حوالے سے کسی قسم کا کوئی خاص قدم نہیں اٹھارہے ہیں
واضح رہے کہ اس مظاہرے میں پورے امریکہ سے افراد نے شرکت کی جوسو سے زائدہ دینی سماجی اور انسانی تنظیموں کی کال پر جمع ہوئے تھے
مظاہرے میں شریک علمائے کرام کا کہنا تھا کہ ہم پاکستان میں امن کے خواہان ہیں اور امت مسلمہ کے درمیان وحدت اور بھائی چارگی چاہتے ہیں لیکن حکومت اوراداروں میں موجود کالی بھیڑیں اور کچھ سیاسی جماعتیں شدت پسندوں اور دہشت گردوں کے لئے نرم گوشہ رکھتے ہیں
مظاہرین نے آخر میں پاراچنار ،ڈیرہ اسماعیل خان کوئٹہ گلگت بلتستان،اور کراچی میں شہید کئے جانے والے افراد کے لئے فاتحہ خوانی کی اور مذمتی قرارداد پیش کی جس میں محرم الحرام کے دوران ہونے والے بم دھماکوں کی شدید مذمت کی گئی