The Latest

nasir.mwm.politicalسیکرٹری سیاسیات نے صوبائی اجلاس میں کابینہ کو 
بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ پنجاب بھر میں سیاسی مہم کو تیز تر کیا جائے اور اس مہم کو گلی محلے کی سطح تک پہنچایا جائے۔ انہوں نے اپنے دورہ چنیوٹ،سرگودھا اور فیصل آباد کے بارے میں بھی صوبائی کابینہ کے ارکان کو آگاہ کیا اور بتایا کہ سرگودھا، چنیوٹ اور فیصل آباد میں ضلعی ارکان اور مذہبی و سیاسی شخصیات کے اجتماعات سے خطاب کیا۔

انہوں نے کہا مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے سیاسی کلچر کو بدل کر اسلام محمدی (ص) کی اقدار کو زندہ کرے گی۔

raja.press.chiniutمجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ ناصر عباس جعفری نے چنیوٹ میں ایک پرہجوم پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں ٹارگٹ کلنگ کے واقعات اور عدالتی فیصلوں پر عمل نہ ہونا حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی بدترین ناکامی اور نااہلی کا واضح ثبوت ہے، جس کی وجہ سے ملک دشمن قوتوں کو پاکستان میں کھلا کھیل کھیلنے کا موقع مل رہا ہے، پاکستان میں بڑھتی ہوئی امریکی مداخلت پاکستان کی مشکلات کا اصل سبب بن رہی ہیں، مجلس وحدت مسلمین پاکستان کی ایک بہت بڑی سیاسی قوت بن چکی ہے۔

nisar.kafسیکرٹری شعبہ فلاح و بہبود اور انچارچ خیر العمل فاونڈیشن نثار فیضی کا اسلام ٹائمز کے لئے دیے گئے انٹریو کے کچھ اقتباسات

۔۔ملت تشیع کے لیے فلاحی کاموں کو زیادہ سے زیادہ کیا جائے۔ شعبہ فلاح و بہبود کے بھی تین مزید شعبے ہیں، جن میں ایک ہنگامی یا حادثاتی واقعات سے نمٹنے کے لیے ہے جو کہ ڈیزائسٹر مینجمنٹ شعبہ کہلاتا ہے۔ دوسرا شعبہ ترقیاتی کاموں کا ہے اور ہمارا تیسرا شعبہ ہیومن رائٹس کے حوالے سے ہے۔ مجلس وحدت مسلمین جو پورے پاکستان کے اندر اپنا وجود رکھتی ہے، اسی لیے ہمارا پہلا شعبہ انہی کاموں کے لیے بنایا گیا کہ ملک میں خدانخواستہ کوئی آفت آتی ہے تو اس کی صحیح معلومات اور اس نقصان کا صحیح طور پر اندازہ لگایا جائے، تاکہ مزید نقصان کو روکا جائے اور ان مسائل کے حل کے لیے اپنے جوانوں کی توانائی سے بھرپور فائدہ اٹھایا جائے۔ ہمارے دوسرے شعبہ کا مقصد یہ ہے کہ ملک میں تمام ترقیاتی کاموں کو بخوبی نمٹایا جائے اور اس سلسلے میں ملک کے دیگر ادارے جو ترقیاتی کاموں میں مصروف ہیں، ان سے بھی استفادہ کیا جائے۔ اسی طرح ہمارے تیسرے شعبے کا کام انسانی بنیادوں پر دکھی انسانیت کی مدد کرنا ہے اور ان کے حقوق دلوانا ہیں۔ 

مجلس وحدت مسلمین پاکستان پورے ملک میں ثقافتی، نظریاتی، فرہنگی کام بھرپور کر رہی ہے اور ایم ڈبلیو ایم نے تمام کاموں کا مرکز مسجد کو قرار دیا ہے۔ پس خیرالعمل فاؤنڈیشن نے مساجد کی تعمیر کو پورے پاکستان میں شروع کیا۔ اس وقت ہم تین بڑی مساجد مکمل طور پر تعمیر کرچکے ہیں۔ کچھ مساجد تعمیراتی مراحل میں ہیں اور کچھ ہی عرصے میں وہ بھی مکمل ہو جائیں گی۔ یہ سارا کام ہمارا پہلا مرحلہ تھا۔ گزشتہ دنوں میں خود سندھ اور بلوچستان کے سیلاب زدہ علاقوں کا دورہ کرکے آیا ہوں، اب انشاء اللہ ہم نے ان علاقوں میں مساجد بنانے کے لیے ایک منصوبہ تیار کیا ہے۔ جس کو ہم جلد ہی عملی جامہ پہنائیں گے۔

ہمارے پاس مساجد کی تعمیر کی تین کیٹگریاں ہیں، ان میں سے ایک تو وہ مسجد ہے جس میں نماز جمعہ ادا کی جاتی ہے اور اس مسجد میں زیادہ تعداد میں لوگ نماز ادا کرتے ہیں، دوسری مسجد وہ جس میں نماز جمعہ تو ادا نہیں کی جاتی لیکن لوگوں کی ایک اچھی خاصی تعداد مسجد میں نماز ادا کرتی ہے، جب کہ مسجد کی تیسری کیٹگری وہ ہے جو چھوٹی مسجد ہے اور ایک محلہ میں تعمیر کی ہے۔ C کیٹگری کی مسجد ہم نے سندھ اور بلوچستان میں بہت تعمیر کرائی ہیں۔ D کیٹگری اس سے چھوٹی مسجد ہوتی ہے جس میں دو کمرے ہوتے ہیں اور اس مسجد میں 60 سے 70 افراد کے نماز ادا کرنے کی جگہ ہوتی ہے۔ ہماری بڑی مسجد تقریباً 700 افراد کی نماز ادا کرنے کی جگہ پر محیط ہوتی ہے
ہم نے آغاز میں سندھ اور بلوچستان میں تقریباً 270 رہائشی کمرے بنائے تھے۔ اس دفعہ ہم انشاءاللہ سندھ اور بلوچستان کے سیلاب زدہ علاقوں کے لوگوں کے لیے 2000 رہائشی کمرے بنائیں گے۔ اسی طرح ہم نے صوبہ خیبر پختونخوا کے لیے ہاؤسنگ سوسائٹی کا اعلان کیا ہے، جس میں تقریباً 200 مکمل گھر ہوں گے۔ ہم انشاءاللہ راجن پور میں ایک بڑا ہسپتال تعمیر کریں گے۔ جس کا سنگ بنیاد عنقریب ہی رکھا جائے گا۔ راجن پور میں پہلے الخدیجہ کے نام سے میڈیکل سینٹر چل رہا ہے، اس میڈیکل سینٹر کو ہم عنقریب انشاءاللہ ایک بڑے ہسپتال میں تبدیل کر رہے ہیں۔ مخیر حضرات سے ہماری بات طے ہوگئی ہے، تقریباً ابتدائی مرحلہ طے پا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ہم عنقریب یتیم خانہ بھی کھولیں گے، جس میں یتیم بچوں کی کفالت کی جائے گی۔ جس میں ابتدائی مرحلے میں گلگت بلتستان، کشمیر اور سندھ سے یتیم بچوں کی کفالت کا بیڑا اٹھایا جائے گا۔

mwm.krشہر کراچی میں جاری ٹارگٹ کلنگ میں سکیورٹی اداروں میں شامل کالی بھڑیں ملوث ہیں حکومت محرم الحرام سے قبل سکیورٹی کے سخت انتظام کو یقینی بنائے۔مولانا صادق رضا تقوی
شہر کراچی میں جاری ٹارگٹ کلنگ میں سکیورٹی اداروں میں شامل کالی بھڑیں ملوث ہیں حکومت محرم الحرام سے قبل سکیورٹی کے سخت انتظام کو یقینی بنائے۔ان خیالات کا اظہار مجلس و حدت مسلمین کراچی کے سیکر ٹری جنرل مولانا صادق رضا تقوی نے وحدت ہاؤس کراچی میں منعقدہ اجلاس سے خطاب کے دوران کیا اُن کہا تھا کہ شہر قائد میں جاری روز بروز دہشت گردی ٹارگٹ کلنگ ،بھتہ خوری نے معاشی حب کراچی کی کمرتوڑ دی ہے دوسری جانب مظلوم عوام پر پیڑول،سی این،جی کبھی منفرد ٹیکس لگا کر بم گرائے جاتے ہیں جس کی وجہ سے شہر میں خود کشی کا تناسب بھی بڑھ گیا ہے اور افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑھتا ہے کہ اس حوالے سے حکومت اور اس میں شامل اتحادی جماعتیں صرف عوام کو بے و قوف بنا رہی ہیں اورامن و امان سمیت شہر کراچی میں جاری تر قیاتی کاموں کو پس پشت ڈالا جارہا ہے تاکہ اگلے الیکشن میں عوامی ہمدردیاں حاصل کر کے دوبارہ ان کا استحصال کیا جائے۔مولانا صادق رضا تقوی نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ محرم الحرام سے قبل مساجد و امام بارگاہوں اور عزا ء خانوں کی سکیورٹی اور ترقیاتی کاموں کو یقینی بنائے تاکہ کسی ناخوشکوار واقع سے بچا جاسکے دریں اثناء انہوں نے محرم الحرام سے قبل شہر بھر میں ہونے والی مجالس وجلوس عزا ء کی مانٹرنگ کے لئے وحدت ہاؤس انچولی میں تحفظ عزاداری سیل کے قیام کاا علان کیا جس کی نگرانی مولانا صادق رضا تقوی ، مولانا محمد حسین کریمی، آصف صفوی اور اصغر عبا س زیدی کریں گے جبکہ مجلس و حدت مسلمین کے کارکنان 24گھنٹے اپنی خدمات انجام دیں گے ۔اجلاس میں نو متخب کابینہ کے اراکین سے حلف لیا جس میں مولا محمد حسین کریمی،مولانا علی انور،یاسر رضا،حیدر زیدی،آصف صفوی،ولی احمد،عقیل عباس،مبشر حسن،محمد حسین جعفری، اصغر عباس زیدی سمیت بڑی تعداد میں کارکنان نے شر کت کی

fida.skd.mwmپاکستان جسے شیعہ اور سنیوں نے مل کر معرض وجود میں لایا اور اس میں ایک خاص طبقہ فکر پاکستان کی مخالفت جہاد عظیم سمجھ کر کرتا رہا لیکن آزادی کے بعد وہی پاکستان مخالف طبقہ بھی پاکستان کی رگ رگ میں گھس گیا اور اپنے شیطانی افکار کو پروان چڑھانے کی کوشش شروع کی۔ اس کام کے لیے انہوں نے لسانیات کو بنیاد بنایا، مسالک کو آپس میں لڑایا، آج پاکستان میں جو دہشتگردی کر رہے ہیں وہ وہی طبقہ ہے، جس نے ابتداء سے ہی پاکستان کی مخالفت کی۔ اس دوران میں شیعہ مکاتب فکر ان کے بغض و عناد کی بھینٹ چڑھا۔

آج آپ دیکھ رہے ہیں کہ ملک میں کوئی شیعہ محفوظ نہیں کیونکہ یہ وہی طبقہ ہے جو پاکستان کی نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کو ایمان کا حصہ سمجھتا ہے۔ کراچی سے لے کر پارا چنار اور کوئٹہ سے لے کر گلگت بلتستان میں شیعوں کے خون سے ارض پاک کو رنگین کیا جارہا ہے۔ وہ طبقہ جو پاکستان کا مخالف تھا اور ہے وہ محفوظ ہے بلکہ فوج میں اعلیٰ عہدوں پر ہے، عدلیہ میں براجمان ہے اور ایجنسیوں میں بھی موجود ہے۔ چنانچہ اس طبقہ فکر نے اہل سنت کے علاوہ سب سے زیادہ ملک کے لیے قربانی دینے والوں کا قتل عام اٹھاسی سے شروع کیا۔

چونکہ گلگت بلتستان میں شیعہ مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے زیادہ ہیں، ان پر فوج کی سر پرستی میں سن اٹھاسی میں باقاعدہ لشکر کشی کرائی۔ اس نظریے کے حامل عناصر ملک میں بااثر بھی ہیں۔ یہ صاف واضح ہے کہ آپ خود جنہیں صفحہ ہستی سے مٹانے کے لیے کئی لاکھ لوگوں سے حملہ کرائیں گے تو پھر کیسے ان کی تعمیر و ترقی کے خواہش مند ہوسکتے ہیں؟ ہم سوچ رہے تھے کہ موجودہ حکومت میں شیعہ مکاتب فکر کے ساتھ ظلم اور زیادتی نہیں ہوگی۔ لیکن ماشاء اللہ سے اس حکومت میں بھی ظلم کے حدود پار ہوگئے۔ سانحہ کوہستان، سانحہ چلاس اور اسکے بعد سانحہ بابوسر یہ سب کیا ہے۔؟ کیا یہ سب پاکستان کے ریاستی اداروں پر حملے کے مترادف نہیں؟ اگر ہے تو پھر فوج حرکت میں کیوں نہیں آتی۔ دوسر ی طرف اگر یہ سڑک بن جائے تو پنجاب سے بلتستان آنے والی اشیاء کی مقدار میں کمی آئے گی، لوگ کم قیمت سے اشیاء چین سے بر آمد کریں گے تو پنجاب کے وہ تاجر حضرات جن کو وزارت اور اختیارات وراثت میں ملی ہے ان کی تجارت یقیناً متاثر ہوگی۔ میں تو سمجھتا ہوں کہ کرگل لداخ روڈ بند رکھنے میں سیکیورٹی رسک کے علاوہ یہ تجارت والا عنصر بھی شامل ہے۔
پاکستانی ایجنسیاں اب بھی ہوش سے کام لیں اور وطن عزیز پاکستان کو ٹکڑے ہونے سے بچائیں۔ امریکہ کا قدم جہاں پڑتا ہے وہاں سبزہ نہیں اگتا۔ عراق میں کیا کچھ ہوا اور ہو رہا ہے افغانستان میں کیا کچھ ہوا۔ بعید نہیں کہ گلگت بلتستان میں بھی ایسا کچھ ہو۔ ریاستی اداروں کو اور ریاست بھی وہ ریاست جو جو لاالہٰ الا اللہ کی بنیادوں پر استوار ہوئی ہے۔ اس ریاست کے لیے دشمن رسول، دشمن اسلام کس طرح پاکستان کا دوست اور خیر خواہ ثابت ہوسکتا ہے۔ امریکہ اپنی اقتصادی مخالف طاقت چین جو کہ پاکستان کا دیرینہ دوست ہے کا راستہ روکنے، دوئم یہاں امریکہ مخالف نظریات اور افکار کو ختم کرنے، ایران دوست نظریات کو سبوتاژ کرنے کے علاوہ یہاں موجود قدرتی وسائل پر قبضہ جمانے لیے یو ایس ایڈ کی شکل میں موجود ہے اور دفاعی اعتبار سے نہایت اہمیت کے حامل خطے کو اپنا اڈا بنانا چاہتا ہے۔

اس وقت امریکہ کے خلاف پاکستان کی ریاستی ادارے اور ایجنسیوں کو اہم کردار ادا کرنا چاہیے اور ملک دشمن عناصر جس کا سرغنہ امریکہ ہے کو لگام دینا چاہیے ورنہ شیطان بزرگ کو یہاں سے بھگانا مذہبی اور سیاسی جماعتوں کے لیے فی الحال ممکن نظر نہیں آرہا ہے۔ کیونکہ یو ایس ایڈ اور دیگر امریکی تنظیموں کی ممبروں سے مذمت کرنے سے، اخبارت میں بیانات دینے سے یا میری طرح انٹرویو دینے سے بھاگ نہیں جاتی بلکہ اور مستحکم ہو جاتی ہے۔ اس وقت ڈالر بلتستان میں مضبوط جڑ پکڑ چکا ہے۔ انتظامیہ اور عوام اس کے در پر کاسہ گدائی لے کر کھڑی ہے جس نے محمد مصطفی (ص) کی شان اقدس میں گستاخی کی ہے۔

asadi.multan.shamsiمجلس وحدت مسلمین پنجاب کے سیکرٹری جنرل علامہ عبدالخالق اسدی نے کہا ہے کہ پنجاب بھر میں بے گناہ قید اسیروں کو رہا کیا جائے، ڈسٹرکٹ جیل میں سید حسن رضا شمسی کی شہادت کے بعد ملت جعفریہ سمجھتی ہے کہ ملت جعفریہ کے اسیر جو کہ پورے پاکستان کی مختلف جیلوں میں ہیں وہ غیر محفوظ ہیں، ہم حکومت پاکستان اور پنجاب سے مطالبہ کرتے ہیں کہ جیلوں میں قید ہمارے اسیروں کو مکمل تحفظ دیا جائے۔ ان خیالات کا اظہار اُنہوں نے دربار سخی سلطان علی اکبر سورج میانی ملتان میں شہید حسن رضا شمسی کی چہلم کی مجلس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
اُنہوں نے کہا کہ جیلوں میں شہادت ہوتی ہے تو وہ بھی ہمارے ہی مومنین کی ہوتی ہے اور سزائے موت پر عمل درآمد ہوتا ہے تو وہ بھی شیعیان حیدر کرار (ع) کا قتل ہوتا ہے، انہوں نے کہا کہ کبھی ہمارے مومنین کو بسوں سے اُتار کر شناختی کارڈ دیکھ کر قتل کیا جاتا ہے تو کبھی خودکش حملوں کا شکار کیا جاتا ہے، پاکستان کی کوئی جگہ ایسی نہیں جہاں ہمارا خون نہ بہایا گیا ہو۔ چہلم کی مجلس سے ضلعی سیکرٹری جنرل علامہ اقتدار حسین نقوی، امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن ملتان کے ڈویژنل صدر تہور حیدری، ذاکر اہلبیت (ع) موسیٰ رضا خان، ذاکر اہلبیت (ع) اعجاز حسین، ذاکر اہلبیت (ع) ناصر عباس جام، حافظ سلیم رضا شمسی، ڈاکٹر باقر حسین، فخر نسیم اور دیگر نے بھی خطاب کیا۔

حکومت اور متحدہ مجلس عمل کے مقابلے میں ملک کی چھ مذہبی ودینی جماعتوں نے آئی جے آئی طرز پر نیا اتحاد تشکیل دینے پر غور شروع کر دیا ہے۔ آئندہ سال ہونیوالے عام انتخابات میں مذہبی جماعتوں نے بھرپور طریقے سے حصہ لینے کیلئے متحد ہونے کیساتھ ساتھ دائیں بازو کی جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنے کیلئے جوڑ توڑ شروع کر دیا ہے۔ ایم ایم اے کے مقابلے میں جمعیت علماء اسلام ’’سمیع الحق‘‘ کے سربراہ سینیٹر مولانا سمیع الحق نے جماعت اسلامی، جماعت اہلحدیث، جمعیت علماء اسلام ’’نظریاتی گروپ‘‘، اہلسنت والجماعت اور جمعیت علماء پاکستان سواداعظم پر مشتمل ایک نیا سیاسی اتحاد بنانے کیلئے رابطے تیز کر دیئے ہیں۔

ذرائع کے مطابق اس سلسلے میں چھ مذہبی ودینی جماعتوں کا سربراہی اجلاس آئندہ ہفتے ہونے کا قوی امکان ہے۔ جے یو آئی کے مولانا سمیع الحق نے جماعت اسلامی کے امیر سید منور حسن، جماعت اہلحدیث کے ابتسام الٰہی ظہیر اور اہلسنت والجماعت کے مولانا احمد لدھیانوی سمیت دیگر رہنماؤں کیساتھ رابطے کئے ہیں اور جلد ہی نیا سیاسی اتحاد تشکیل دینے کے حوالے سے اجلاس بلانے کا فیصلہ کیا گیا جبکہ مذہبی جماعتوں کے ساتھ ساتھ دائیں بازو کی جماعتوں مسلم لیگ (ن) سمیت دیگر سیاسی جماعتوں کے قائدین سے بھی رابطے کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے تاکہ آئندہ سال ہونیوالے انتخابات میں آئی جے آئی طرز پر ایک بڑا سیاسی اتحاد تشکیل دیا جا سکے جو حکومتی اتحاد اور ایم ایم اے کا سیاسی میدان میں بھرپور مقابلہ کرے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ اس اتحاد کو نواز لیگ کی پس پردہ حمایت حاصل ہے، نواز لیگ چاہتی ہے کہ وہ مذہبی ووٹ بینک کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال میں لائے اور اس سارے سیٹ اپ کی تشکیل کے لئے سرمایہ نواز شریف کی جانب سے ہی فراہم کرنے کی اطلاعات ہیں۔ اس اتحاد کی تشکیل کے لئے جماعت اسلامی زیادہ متحرک ہے جسے اس بات کا دکھ ہے کہ جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے ان کی شمولیت کے بغیر ایم ایم اے کو فعال کر لیا ہے۔ دوسری جانب بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ اس اتحاد کے پیچھے وہ قوتیں ہیں جنہوں نے دفاع پاکستان کونسل بنوائی تھی اور اب وہی قوتیں اس اتحاد کی تشکیل کے لئے سرگرم ہیں۔


map-gbmwmجشن آزادی گلگت بلتستان کی مناسبت سے مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے اپنے ایک پیغام میں کہا کہ 

 جشن آزادی گلگت بلتستان پورے اہل وطن کے لئے پرمسرت دن ہے اور جشن

آزادی گلگت بلتستان کے شہداء مشترکہ قومی ہیروز ہیں ۔
انہوں نے کہا کہ اپنی مدد آپ جدوجہد کرکے ڈوگرہ راج سے آزادی حاصل کرنے

زیر میں دی گئی رپورٹ ڈان نیوز ویب سائیٹ سے لی گئی ہے ۔۔۔

گزشتہ دس سالوں میں کالعدم جماعت حزب التحریر پاکستان فوج میں سرایت کرنے کی اب تک تین کوششیں کر چکی ہے۔حال ہی میں بریگیڈئیر علی خان اور ان کے چار ساتھی فوجی افسروں کو اس جماعت کے ساتھ روابط پر سزائیں دی گئی ہیں۔

تین اگست کو ایک فوجی عدالت نے بریگیڈئیر علی، میجر سہیل اکبر، میجر جواد بشیر، میجر عنایت عزیز اور میجر افتخار کو حزب التحریر سے تعلق ثابت ہونے پر پانچ سال سے اٹھارہ ماہ تک قید بامشقت کی سزائیں سنائی تھیں۔

دو ہزار تین میں اس جماعت نے فوج کے اسپیشل سروسز گروپ (ایس ایس جی) کے تیرہ کمانڈوز سے رابطے قائم کیے تھے۔

دو ہزار نو میں لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے تک کے فوجی افسران کو اس جماعت سے تعلقات کی وجہ سے کورٹ مارشل کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ دو ہزار نو اور گیارہ میں فوجی افسران سے رابطہ کرنے والے حزب التحریر کے ایک ہی کارکن تھے۔

فوجی حکام کی جانب سے ان افسران کے خلاف کورٹ مارشل کا عمل شروع کیے جانے کے باوجود ان کے خلاف کسی قسم کی کارروائی سامنے نہیں آئی۔

ڈان کو حاصل ہونے والی دستاویزات کے مطابق، حزب التحریر کے رکن عبدالقدیر اور ڈاکڑ احمد نے دوہزار نو میں کرنل شاہد بشیر اور دو ہزار گیارہ میں بریگیڈئیرعلی سے رابطے کیے تھے۔

ان دستاویزات سے انکشاف ہوتا ہے کہ کالعدم جماعت کے اِن دونوں کارکنوں نے کرنل شاہد اور بریگیڈئیر علی سے رابطہ قائم کرنے کے لیے ایک ہی طریقہ استعمال کیا تھا۔

دونوں فوجی افسران سے رابطہ قائم کرنے کے لیے مشترکہ دوستوں کا سہارا لیا گیا اور بعد ازاں انہی دونوں افسران کے ذریعے دیگر فوجی افسران سے بات چیت بڑھائی گئی تھی۔

خصوصی تفتیشی برانچ ( ایس آئی بی) کے میجر کاشف سلیم کی تیار کردہ ایک تحقیقاتی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بریگیڈئیر علی اپنے ساتھی افسروں کے ساتھ مل کر سویلین اور فوجی قیادت کو ایک ہوائی حملے میں ہٹانے کے بعد ملک میں نظامِ خلافت کے قیام کے لیےراہ ہموار کرنے کی سازش کر رہے تھے۔

اس رپورٹ کے مطابق، حزب التحریر کے عبدالقادر، احمد اور رضوان بریگیڈئیر علی سے ملے اور انہیں سازش تیار کرنے کی ترغیب دی۔

بریگیڈئیر علی نے اس حوالے سے بعد ازاں دوسرے فوجی افسران بریگیڈئیر نعیم صادق، بریگیڈئیر محمد امین اور بریگیڈئیر عامر ریاض سے رابطے کیے۔

لیفٹیننٹ کرنل شاہد بشیر کے خلاف تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق عبدالقدیر اور ڈاکٹر احمد (جن کا اصل نام معلوم نہ ہو سکا) ہی کرنل بشیر اور ایک دوسرے لیفٹیننٹ کرنل کے کورٹ مارشل کے ذمہ دار تھے۔

کرنل بشیر پر الزام ہے کہ انہوں نے ملک میں موجود ڈرون حملوں کے لیے امریکہ کے زیر استعمال ائیر بیسزکے بارے میں انتہائی خفیہ معلومات حاصل کی تھیں۔

ان پر یہ بھی الزام ہے کہ وہ مالاکنڈ میں جاری فوجی آپریشن اور دوسرے علاقوں میں تعینات فوج کے حوالے سے بھی معلومات لے رہے تھے۔

کرنل بشیر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے لیفٹیننٹ کرنل حبیب اللہ سمیت نو دیگر فوجی افسروں کو ترغیب دی تھی کہ وہ ان کی کوششوں میں ان کا ساتھ دیں۔

دو ہزار نو میں فوج کی قانونی شاخ میں بطور جج ایڈوکیٹ جنرل فرائض سر انجام دینے والے بریگیڈئیر (ر) واصف خان نے بتایا کہ انہوں نے پہلی مرتبہ حزب التحریر کے کارکنوں عبدالقادر اور ڈاکٹر احمد کے نام کرنل بشیر کے خلاف کورٹ مارشل کی سماعت کے دوارن سنے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ فوج سے ریٹائرمنٹ کے بعد جب بریگیڈیئر علی اور چار میجروں نے ان سے اپنی وکالت کے لیے رابطہ کیا تو انہیں یہ جان کر حیرت ہوئی تھی کہ اس کیس میں بھی کالعدم جماعت کے وہی دونوں کارکن ملوث تھے۔

بریگیڈئیر (ر) واصف نے بتایا کہ انہوں نے فوجی عدالت کے پریزائیڈنگ افسر کو ایک درخواست کے ذریعے ان دونوں کارکنوں کی گرفتاری کی گزارش کی تھی کیونکہ یہ لوگ فوج کو نقصان پہنچانے کے ساتھ ساتھ اس کے افسروں کو بھی ذہنی طور پر آلودہ کر رہے تھے، تاہم حکام نے ان کی درخواست قبول نہیں کی۔

جیگ برانچ کے ایک اور سابق افسر نے ڈان کو بتایا کہ دو ہزار تین میں حزب التحریر نے فوج میں داخل ہونے کی کوشش کی اور ایس ایس جی کے تیرہ کمانڈوز کو اپنے جال میں پھنسانے میں کامیاب رہی۔

انہوں نے بتایا کہ اس زمانے میں اس جماعت کو کالعدم قرار نہیں دیا گیا تھا لیکن جب فوج کو اس کی کوششوں کے بارے میں معلوم ہوا تو اس وقت کے صدر اور فوجی سربراہ جنرل پرویز مشرف نے نومبر دو ہزار تین میں اسے کالعدم قرار دے دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ اُس وقت فوج نے ان کمانڈوز کے خلاف کورٹ مارشل کرنے سے گریز کرتے ہوئے صرف انتظامی کارروائی پر اکتفا کیا اور انہیں ملازمت سے برخاست کر دیا ۔

انہوں نے مزید بتایا کہ فوجی حکام ماضی میں اس جماعت کے کارکنوں کے خلاف بھی کارروائی میں ناکام رہی۔

گزشتہ سال جولائی میں بریگیڈئیر علی کی گرفتاری کے فوراً بعد آئی ایس آئی اور ایم آئی نے ملک بھر سے حزب التحریر کے بعض انتہائی سرگرم کارکنوں کو اٹھا لیا تھا۔

ان کارکنوں میں سے عمران یوسف زئی، حیان داوڑ خان، اسامہ حنیف، ڈاکٹر عبد القیوم، ڈاکٹر عبدالوحید اور ڈاکٹر عبدالواجد کچھ عرصے تک لاپتہ رہے۔

بعد ازاں اُن کے رشتہ داروں نے گزشتہ سال جولائی اور اگست میں اُن کی بازیابی کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواستیں بھی دائر کی تھیں۔

جس پر عدالت نے یہ معاملہ بارہ اکتوبر کو جبری گمشدگیوں کی تحقیقات کرنے والے کمیشن کو بھجوا دیا تھا۔

بعد ازاں، ڈاکٹر واجد کو اگست میں، حیان کو ستمبر ، اسامہ حنیف اور عمران یوسف زئی کو دسمبر دو ہزار گیارہ جبکہ ڈاکٹر قیوم اور ڈاکٹر واحد کو رواں سال اپریل میں چھوڑ دیا گیا۔

ڈان کے نمائندے نے اس معاملے پر جب فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے بریگیڈئیر عتیق سے رابطہ کیا تو ان کے کہنے پر سوالات کو بذریعہ ای میل بھیجا گیا۔

تاہم اس رپورٹ کی اشاعت تک اُن کی جانب سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آ سکا...شکریہ ڈان نیوز 

mwm.d.i.khanمجلس وحدت مسلمین کے ایک وفد نے پنجاب کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ اصغر عسکری کی سربراہی میں ڈیرہ اسماعیل خان میں اتوار کے روز ہینڈ گرنیڈ حملے میں زخمی ہونے والے 7 افراد کی عیادت کی، اس موقع پر مجلس وحدت ضلع بھکر کے سیکرٹری جنرل سفیر حسین شہانی اور دیگر بھی موجود تھے۔ مجلس وحدت مسلمین کے رہنمائوں نے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر اسپتال ڈیرہ اسماعیل خان میں زیر علاج زخمیوں سے ان کی صحت کے بارے میں دریافت کیا اور نیک تمناوں کا اظہار کیا۔

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree