The Latest
مجلس وحدت مسلمین نے علامہ طاہرالقادری کے لانگ مارچ کے استقبال کے لئے جی ٹی روڈ کے تمام شہروں میں کیمپ لگانے کا اعلان کر دیا۔ ایم ڈبلیو ایم پنجاب کا خصوصی اجلاس علامہ عبدالخالق اسدی کی زیرصدارت منعقد ہوا جس میں لانگ مارچ میں شرکت کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا گیا۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ جی ٹی روڈ پر تمام شہروں میں مجلس وحدت استقبالیہ کیمپ لگائے گی واضح رہے کہ مجلس وحدت مسلمین پاکستان نے لانگ مارچ کی حمایت کی ہے۔
علامہ عبدالخالق اسدی نے کہا کہ پنجاب حکومت اوچھے ہتھکنڈوں سے باز رہے اور اسے پرامن عوام کی غیض و غضب سے بچنا چاہیئے کیونکہ اب کوئی ظالم اس مظلوم قوم پر ظلم نہیں کر سکتا۔ انہوں نے کہا کہ انشاءاللہ 14 جنوری پاکستان کی تقدیر بدلنے اور غریبوں اور مظلوموں کی فتح کا دن ثابت ہو گا، اب مظلوموں کے ہاتھ ظالموں کے گریباں تک پہنچنے میں دیر نہیں۔ اجلاس میں ضلع لاہور کے نمائندوں اور یونٹس عہدداروں نے شرکت کی۔
مجلس وحدت مسلمین خیبر پختونخوا کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ سید عبدالحسین الحسینی نے کہا ہے کہ صوبائی حکومت امن کے قیام میں ناکام ہو چکی ہے، کراچی اور بلوچستان کے بعد اب خیبر پختونخوا میں ٹارگٹ کلنگ کسی صورت برداشت نہیں کی جائے گی۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے پیپلز پارٹی کرم ایجنسی کے صدر ریاض حسین شاہ کی پشاور کے علاقہ ڈبگری گارڈن میں ٹارگٹ کلنگ کیخلاف جاری اپنے ایک مذمتی بیان میں کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ خیبر پختونخوا میں عوام بم دھماکوں اور خودکش حملوں کے باعث پہلے ہی عدم تحفظ کا شکار ہیں، ایسے میں گذشتہ ایک ہفتہ کے دوران تین افراد کی ٹارگٹ کلنگ اس بات کا ثبوت ہے کہ حکومت کے امن قائم کرنے کے دعوے محض کاغذی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کوئٹہ اور کراچی میں آئے روز بےگناہ افراد کو فرقہ وارانہ بنیاد پر قتل کیا جا رہا ہے تاہم حکومت خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے، اگر قتل و غارت گری کا یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو وطن عزیز کی سلامتی کو شدید خطرات لاحق ہو جائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ خیبر پختونخوا میں گذشتہ ایک ہفتہ کے دوران ہنگو کے رہائشی نوجوان فیاض، پشاور میں ابرار حسین اور آج ریاض حسین شاہ کا قتل انتہائی تشویشناک امر ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم صوبائی حکومت پر واضح کردینا چاہتے ہیں کہ خیبر پختونخوا میں ٹارگٹ کلنگ ہرگز برداشت نہیں کی جائے گی۔ اگر حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے فوری طور پر اس طرف توجہ دیتے ہوئے نوٹس نہ لیا تو احتجاج کا لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ گذشتہ ایک ہفتہ کے دوران ہونے والے قتل کے واقعات کا نوٹس لیا جائے اور مجرموں کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے۔
ریفامز کی ضرورت ہے ،ہم لانگ مارچ کی مکمل حمایت کرتے ہیں لیکن بھر پورعوامی شرکت کچھ امور کی متقاضی ہے
موجودہ ملکی صورت حال اور خاص کر ایک جامع ریفارم کے لئے علامہ ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کی جانب سے لانگ مارچ کی مجلس وحدت مسلمین پاکستان کی جانب سے واضح حمایت کے بارے میں سربراہ مجلس وحدت مسلمین پاکستان علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کا مجلس وحدت کے میڈیا سیل کے لئے خصوصی انٹریوسے چند اقتباسات (مکمل انٹریو عنقریب شائع کیا جائے گا )
سربراہ مجلس وحدت مسلمین پاکستان نے اپنے انٹریو میں کہا کہ
پانچ سال میں جمہوری حکومت نے عوامی ایک بھی مسئلہ حل نہیں کیا ،ہم بھی انہی مسائل کا تذکرہ کرتے آئے ہیں جنکا ذکر ڈاکٹر صاحب نے کیا ہے ۔
پاکستان میں چند سیاسی خاندانوں کی حکومت ہے جو ملک کو لوٹنے کے لئے الیکشن لڑتے ہیں ان کی کوشش ہے کہ سیاسی میدان ہمیشہ انہی کے پاس رہے
بیروز گاری ،امن و امان ،غیر ملکی مداخلت ،انرجی کے مسائل ،ملک میں ایک جامع ریفامز کی ضرورت یہ مسائل سب کیلئے مشترکہ ہیں ہم ریفارم کے حوالے سے لانگ مارچ کی حمایت کرتے ہیں اس آواز کوعوام تک پہنچنا چاہیے اگر موجودہ سیاسی جماعتیں عوام کی حامی ہیں تو پھر انہیں اس آواز کی حمایت کرنی چاہیے
مجلس وحدت مسلمین پاکستان نے علامہ ڈاکٹر طاہر القادری کی جانب سے الیکشن قوانین میں ری فورم اور کرپشن کیخلاف کئے جانے والے لانگ مارچ کی پہلے حمایت کی لیکن آج علامہ طاہر القادری سے مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے ایک اعلی سطحی وفد کی جانب سے ملاقات کے بعد لاہور میں مشترکہ پریس کانفرنس میں چودہ جنوری کے لانگ مارچ میں شرکت کا اعلان کردیا
وفد میں مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ امین شہیدی،سیکرٹری امور خارجہ علامہ شفقت شیرازی،سیکرٹری تبلیغات لاہور علامہ سید احمداقبال سیکرٹری تبلیغات علامہ ابوزرمہدوی ،سیکرٹری امور سیاسیات ناصر عباس شیرازی سیکرٹری پنجاب علامہ عبدالخالق اسدی،سیکرٹری شہدا علامہ سید مبارک موسوی اور ضلع لاہور کے عہدہ داران شامل تھے
پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے علامہ امین شہیدی نے کہا کہ پروفیسر ڈاکٹر طاہر القادی نے ملک و قوم کی خاطر جو اقدامات اٹھانے کا فیصلہ کیاہے ہم ان کی حمایت کرتے ہیں،
تحریر: ڈاکٹر آر اے سید
ترکی کی خارجہ پالیسی آج کل خطے کے مختلف اسلام پسند حلقوں میں زیر بحث ہے ایسے میں شام میں ترک پائلٹوں کی گرفتاری کے مسئلے نے ترکی میں ہلچل مچا دی ہے۔پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی نے ترک پارلیمنٹ میں شام میں گرفتار ہونے والے دس ترک پائلٹوں کے ناموں کا ذکر کرتے ہوئے اردوغان حکومت پر تنقید کی ہے کہ وہ ان پائلٹوں کے سلسلے میں بے اعتنائی اور لاپرواہی سے کام لے رہی ہے۔ شام کے بعض ذرائع ابلاغ نے دعوی کیا ہے کہ گرفتار ہونے والے ترک پائلٹ نام نہاد شامی لبریشن آرمی کی مدد سے شام کے بعض علاقوں پر بمباری کرنا چاہتے تھے۔ شام کے حکام نے کہا ہے کہ یہ پائلٹ تخریبی کارروائیاں کرنے کی غرض سے شام میں داخل ہوئے تھے جنہیں حلب ہوائی اڈے کے قریب سے گرفتار کر لیا گیا۔ شام کے اخبار الوطن نے بھی رپورٹ دی ہے کہ یہ پائلٹ حلب شہر میں واقع کویرس فوجی ہوائی اڈے میں داخل ہونا چاہتے تھے۔
ترکی کی طہ نیوز ویب سائٹ نے لکھا ہے کہ واضح ہو گیا ہے کہ ترکی کے تمام فوجی، پائلٹ تھے اور وہ ترک فضائیہ کے انٹیلی جنس ادارے سے وابستہ تھے اور انہوں نے غیرفوجی جنگوں کی خصوصی تربیت بھی حاصل کی تھی۔ اس ویب سائٹ کے مطابق ترکی کے ان فوجیوں کو مخالفین کی طرف سے اس فوجی ہوائی اڈے پر قبضے کی خبر کی بعد اس علاقے میں بھیجا گیا تھا اور وہ شامی حکومت کے بعض مخالفین کو مگ جنگی طیارے اڑانے کی تربیت دینا چاہتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ مذکورہ پائلٹوں نے تفتیش کے دوران ان دعووں کی تردید کی ہے کہ وہ خود مگ طیاروں کو اڑانا چاہتے تھے۔ لیکن ترکی کی حکومت ایسے کسی بھی مسئلے سے انکار کر رہی ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ ترک پارلیمنٹ میں اس مسئلے پر گرما گرم بحث ہو گی۔ شام کے ایک ٹی وی چینل نے حتی یہ خبر بھی نشر کی ہے کہ پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی نے وزیراعظم رجب طیب اردوغان اور وزیر خارجہ احمد داد اوغلو کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا مطالبہ کیا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق اس مطالبے کی وجہ شام کے بحران میں ترکی کے فوجی افسروں کے کردار اور شام کے مسلح گروہوں کے ساتھ ان کے تعاون کو قرار دیا گیا ہے۔
اس سے قبل پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی نے ہمسایہ ممالک خاص طور پر شام میں انقرہ حکومت کی مداخلت پسندانہ پالیسیوں کی مخالفت کی تھی۔ یہ پارٹی استدلال کرتی ہے کہ ترکی کی مداخلت پسندانہ پالیسیوں سے نہ صرف ہمسایوں کے ساتھ کشیدگی میں اضافہ ہو گا بلکہ ترکی، خارجہ پالیسی کے میدان میں ایک برے دور میں داخل ہو جائے گا کہ جس سے ترکی کے قومی مفادات کو سنگین خطرات لاحق ہو جائیں گے احمد داوود اوغلو نے ہمسایہ ممالک سے ترکی کے تعلقات میں بہتری لانے کے نظریئے کے ساتھ وزارت خارجہ کا عہدہ حاصل کیا تھا لیکن اب وہ ہمسایہ ممالک کے ساتھ دشمنی کے نظریئے پر عمل پیرا ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ جب ترکی کی خارجہ پالیسی علاقائی چپقلشوں سے اجتناب پر مشتمل تھی لیکن اب اس ملک کی خارجہ پالیسی کا سربراہ دوسرے ممالک کے امور میں مداخلت اور جنگ کی مشق کررہا ہے۔ ترکی کی رائے عامہ کو ابھی تک اس سوال کا جواب نہیں ملا ہے کہ ترکی شام کے ساتھ اپنے دوستانہ تعلقات کو مخاصمانہ تعلقات میں تبدیل کرنے سے کیا مقصد حاصل کرنا چاہتا ہے۔ ترقی و انصاف پارٹی کے لیڈر اردوغان اور داود اوغلو کچھ عرصے سے خلافت عثمانیہ کے احیا کا خیال اپنے دل میں سجائے بیٹھے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ترکی کے حکام کی جنگی تیاریاں کس کے فائدے میں ہیں؟
ترکی کے وزیر خارجہ داوود اوغلو نے حال ہی میں کہا ہے کہ اگر بشار اسد کی حکومت باقی رہی تو وہ اپنے عہدے سے استعفی دے دیں گے۔ کیا اس بیان کا مطلب اس کے سوا کچھ اور ہے کہ ترک حکام شام میں فوجی مداخلت کا ارادہ رکھتے ہیں؟ اس کے علاوہ یہ سوال بھی اٹھ رہا ہے کہ ترکی اور شام کی سرحد پر نیٹو کے پیٹریاٹ میزائیل کی تنصیب کا مقصد میزائیلی حملوں کا دفاع ہے یا ان میزائیلوں کا نصب کیا جانا شام کے خلاف جنگ کا پیش خیمہ ہے؟
اردوغان کی پالیسیوں کے ناقدین کا کہنا ہے کہ ابھی تک یہ واضح نہیں ہوسکا ہے کہ اردوغان اور داود اوغلو کی ٹیم کس قیمت پر ترکی کو جنگ میں دھکیلنا چاہتی ہے؟ شام ترکی کا ہمسایہ ملک ہے اس ملک میں جنگ اور بدامنی کی صورت میں اس کے ہمسایہ ممالک بھی محفوظ نہیں رہیں گے۔ اس وقت بھی ترکی میں شام مخالف گروہوں کی موجودگی اور ان کے کیپموں کی وجہ سے شام کی سرحدوں سے ملنے والے اس ملک کے صوبوں میں بدامنی پھیل چکی ہے۔
ترکی چاہتے یا نہ چاہتے ہوئے شام کے خلاف امریکہ اور نیٹو کے دوسرے اراکین کی ڈھال میں تبدیل ہو چکا ہے۔ سنہ دو ہزار تین میں جب ترکی کی پارلیمنٹ نے جنگ عراق کے سلسلے میں امریکہ کا ساتھ دینے سے انکار کردیا تھا تو اردوغان برسہا برس تک اسے ترکی کی آزادی عمل کی علامت قرار دیتے رہے ۔
اس وقت انقرہ کے حکام شام کے عوام کے دفاع کے نام پر جو کچھ کہہ رہے ہیں کیا وہ شام کی صورتحال کے بارے میں ترکی کی انصاف و ترقی پارٹی کے رہبروں کا حقیقت پسندانہ جائزہ ہے یا یہ کہ ترکی امریکہ اور صیہونی حکومت کے دبا میں ایک ایسی جنگ میں داخل ہونے پر مجبور ہوچکا ہے جسے ناقدین ترکی کے لئے سودمند نہیں جانتے ہیں؟
دوسری جانب یہ بات بھی توجہ طلب ہے کہ اگر شام میں ویسی بنیادی تبدیلی آجاتی ہے جو امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے مدنظر ہے تو کیا یہ تبدیلی ترکی کے لئے سودمند ثابت ہوگی؟ مبصرین اس سلسلے میں شک کا اظہار کر رہے ہیں۔ اقتصادی اور سرحدی مسئلہ سے صرف نظر کرتے ہوئے شام میں موجود کرد ترکی کے لئے ایک مشکل بن سکتے ہیں۔ اور ترکی کی قومی سلامتی کے لئے مشکلات کھڑی ہوسکتی ہیں۔
شام سے متعلق انقرہ کی پالیسیوں کے ناقدین خبردار کر رہے ہیں کہ شام کے حالات کہیں ترکی کے خلاف ٹروجن ہارس [Trojan Horse] میں تبدیل نہ ہو جائیں کیونکہ شام کے خلاف جنگ کے منفی نتائج سے ترکی کے عوام اور ترقی و انصاف پارٹی بھی اپنا دامن نہیں چھڑا سکے گی۔ شام میں صیہونی فوجیوں کی دراندازی ، دیوارحائل کی تعمیراورشام کے بحران سے اسرائیل کے فائدہ اٹھائے جانے کے تناظر میں امریکہ اورمغربی ممالک کاکردارتوسمجھ میں آتا ہے لیکن ترکی اوربعض عرب ملکوں پر ضرور افسوس ہے جو اپنے اقدامات سے صیہونی حکومت کوفائدہ اٹھانے کا موقع فراہم کئے ہوئے ہیں اور صیہونی خطرے کی طرف سے آنکھیں بند کئے ہوئے ہیں۔E-mail: This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
ایران میں انقلاب کی کامیابی کے بعد شائد ہی دنیا کا کوئی لیڈر ایسا ہو جس کے دل میں یہ خواہش نہ جاگی ہو کہ وہ بھی دنیائے عالم میں امام خمینی جیسی عزت و مرتبت حاصل کرپائے اور عوام کے دلوں پر اسی طرح راج کرے کہ جیسے امام خمینی کی ایک آواز پر شیر خوار بچوں کی مائیں اپنے جگرگوشوں کو ہاتھوں پہ اٹھائے امام کے افکار پر قربان کرنے کیلئے ہمہ وقت تیا رملتی تھیں ۔ ڈاکٹر طاہر القادری کی آمد پر جس طرح ان کا استقبال کیا گیا اس سے ایک بات تو واضح ہوگئی کہ تحریک منہاج القرآن رابطہ اور انتظام کی بھرپور صلاحیتیوں سے مالا مال ہے ۔ مینار پاکستان پہ ایسے کامیاب تاریخی جلسوں کا اعزاز فقط چند جماعتوں کے ہی پاس ہے جن میں اب منہاج القرآن بھی شامل ہے ۔ بذات خود ریاست بچاؤ کا نعرہ ہی اپنے اندر اتنی جاذبیت اور کشش رکھتا ہے کہ کوئی بھی پاکستانی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا ۔ گرچہ ڈاکٹر صاحب کی تحریریں ، تقریریں ، عالمی سطح پر اسلام اور پاکستان سے متعلق ان کی کاوشیں کسی تعارف کی محتاج نہیں ہیں مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ڈاکٹر طاہر القادری اپنے اعلان کردہ ایجنڈے اور مقاصد میں کس حد تک کامیاب ہو پائیں گے ؟ ڈاکٹر صاحب کا سب سے زیادہ زور اس بات پر ہے کہ پاکستان میں کرپٹ ، نااہل حکمرانی اور خاندانی اجارہ داری کا سلسلہ ختم کیا جائے ۔ سب سے پہلے کرپٹ اور بدعنوان عوامی نمائندوں کو نااہل قرار دیا جائے ۔ ایسے انتخابات کا اہتمام کیا جائے جس کے ذریعے پہلے سے آزمائے گئے بدعنوان اور بدنام افراد پھر سے ایوان میں نہ آسکیں ۔ ڈاکٹر صاحب کی تجویز میں پہلے کرپشن سے پاک ایسی نگران حکومت کا قیام عمل میں لایا جائے جس میں حکومت میں شامل اور حکومت سے باہر تمام سیاسی قوتوں بشمول عدلیہ و فوج کو نمائندگی حاصل ہو ۔نگران حکومت کے لیے 90دن میں انتخابات کرانے کی پابندی کے قانون کو ختم کیا جائے ۔جس کی آئین میں گنجائش موجود ہے ۔ اپنے خطاب کے دوران انھوں نے غیرجماعتی طرز حکومت کا تذکرہ بھی کیا ۔جس میں طبقات کی بنیاد پر نمائندگی دی جائے ۔ ساتھ ہی انھوں نے 10جنوری تک مطالبات پورے نہ ہونے کی صورت میں 14جنوری کو اسلام آبادکی جانب40لاکھ افراد کے لانگ مارچ کا اعلان کیا۔ ان کے خطاب کا زیادہ ہدف پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن بنے ۔ انھوں نے ملکی حالات ، عوامی مسائل ، اور حکومت کی جن کمزوریوں کی نشاندہی کی ان سے شائد اختلاف ممکن نہیں ہے۔ مگر ڈاکٹر صاحب کے مطالبات سننے میں جتنے خوبصورت ہیں ان پر عملدرآمداتنا ہی مشکل ہے۔
ڈاکٹر صاحب کے مطابق 90دن سے زیادہ کی نگران حکومت کی گنجائش آئین میں ہے لیکن ڈاکٹر صاحب نے اپنے خطاب میں یہ واضح نہیں کیا کہ عدلیہ اور فوج کی کارِحکومت میں شمولیت کی آئین میں کتنی گنجائش ہے؟یہ فیصلہ کون کرے گا کہ کونسی جماعت اور کونسے نمائندے کرپشن سے پاک ہیں ۔ کس جماعت اور نمائندوں کا ایجنڈا سمگل شدہ نہیں ہے اور پاکستان و پاکستانی عوام کی تعمیر و ترقی کے لیے ہے۔ عدلیہ کا ایسا نظام جس میں لاکھوں افراد انصاف کے منتظر ہوں اور ہزاروں سزائیں کے احکامات جاری ہونے کے بعد ان پر عملدرآمد کے منتظر ہوں ۔ تھپٹراور بوتلیں سوموٹو ایکشن کا حصہ ہوں لیکن ملک بھر میں انتظامی اداروں کی نگرانی میں جاری ایک خاص مکتب فکر کی نسل کشی کو کوئی اہمیت حاصل نہ ہو۔ شکر زیادہ قیمت پر بیچنے والے سلاخوں کے پیچھے ہوں اور سینکڑوں انسانوں کے قاتل کے گھر کی حکومت کفالت کرتی نظر آئے ایسے عدلیہ کے نظام سے ڈاکٹر صاحب نہ ہی خائف ہیں اور نہ ہی اس میں اصلاحات کا ارادہ ظاہر کرتے ہیں ۔ ڈاکٹر صاحب ملک کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں سے خائف ہیں جن کے ذریعے پاک عوام ایک طویل عرصہ سے اپنی مشکلات کا حل تلاش کررہے ہیں ۔ نظام یا قوانین کی تبدیلی کے لیے لازمی طور پر ایوان بالا سے رجوع کرنا پڑے گا جہاں دونوں جماعتیں سب سے زیادہ اکثریت کی مالک ہیں اور قوانین کا کوئی بھی بل ان جماعتوں کی منظوری کے بناء کامیاب ہونا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے ۔ ایوان بالا میں بھی بل پیش کرنے کے لیے ڈاکٹر طاہر القادری کی موجودگی ضروری ہوگی ۔ ۔اس کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر صاحب نے مطالبات کی منظوری کے لیے انتہائی مختصر وقت مقرر کیا ہے ۔ جس میں تبدیلی کی کوئی امید نہیں کی جاسکتی ۔ ڈاکٹر صاحب کے مطالبات کی سب سے زیادہ حمایت اب تک ایم کیو ایم اور تحریک انصاف کی جانب سے سامنے آئی ہے ۔ ایم کیو ایم پہلے ہی الیکشن کمیشن کی جانب سے کراچی میں نئی حلقہ بندیوں کے اعلان سے خائف ہے اور انتخابی اصلاحات کے اس عمل کو اپنے خلاف ساز ش قرار دے چکی ہے ۔ڈاکٹر طاہر القادری ایک طویل عرصہ کے بعد ملکی سیاست میں سرگرم ہوئے ہیں ۔ وہ روضہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر خشوع و خضوع سے یہ دعا بھی مانگ چکے ہیں کہ ان کی زندگی رسول اکرم ؐ کی زندگی سے کم ہو ۔ ان کا حلقہ مریداں اس بات پر بھی متفق ہے کہ ڈاکٹر صاحب کی دعاؤں میں قبولیت کا اثرہے ۔ اس ذمرے میں ڈاکٹر صاحب کے پاس تو وقت کی کمی ہوگی شائد کیونکہ وہ زندگی کی چھ دھائیاں دیکھ چکے ہیں ۔ مسلم لیگ ن نے ڈاکٹر صاحب کو برہ راست تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور کہا ہے کہ ڈاکٹر صاحب عمران خان کے بعد اسٹیبلشمنٹ کا دوسرا مہرہ ہیں جن کا مقصد انتخابات کو ملتوی کرانا ہے ۔ فوج اور عدلیہ کو نگران حکومت میں شامل کرنے کی طاہر القادری صاحب کی تجویزکو مسلم لیگ ن دلیل کے طور پر پیش کررہی ہے ۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے مینار پاکستان جلسے کے بعد مختلف انٹرویوز میں قومی و بین الاقوامی ایشوز پراپنے موقف سے پاک قوم کو آگاہ کیا ۔ جن میں سے ایک اہم ترین مسئلہ فلسطین ہے کیونکہ مختلف حلقے ان کی آمد کو کسی خاص بیرونی ایجنڈے کی تکمیل کا حصہ قرار دے رہے تھے ۔ ڈاکٹر صاحب کا مسئلہ فلسطین پر موقف کو عوامی حلقوں میں زیادہ پذیرائی حاصل نہیں ہوئی ۔ جس میں انھوں نے کہا کہ فلسطینی عوام کو ان کی سرزمین پر حقوق دیئے جائیں اور پھر اسرائیل کو تسلیم کیا جائے ۔ ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کے اس موقف سے محسوس ہوتا ہے کہ وہ اسرائیل کو بطور ریاست تسلیم کرتے ہیں البتہ فلسطینی عوام پر ظلم و جبر و ستم کے خلاف ہیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ ڈرون حملوں ، نیٹو سپلائی ، افغانستان سمیت اسلامی دنیا میں امریکی افواج کی موجودگی پر بھی ان کا موقف زیادہ عوامی نظر نہیں آتا۔ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کے اعلان کردہ 14جنوری لانگ مارچ کے دن جتنے قریب آتے جارہے ہیں ۔سیاسی حلقوں میں ہلچل اتنی ہی شدید ہوتی جارہی ہے ۔مختلف سیاسی جماعتوں کے پس پردہ نمائندے ڈاکٹر صاحب سے مسلسل رابطہ میں ہیں۔ وزیر داخلہ رحمان ملک نے طالبان کی جانب سے حملوں کی دھمکی سے شیخ الاسلام کو مطلع کرکے لانگ مارچ ملتوی کرانے کی اپنی سی کوشش کی ہے ۔یہ بھی دلچسپ امر ہے کہ جب کسی سانحہ کی ذمہ داری قبول کرنی ہوتی ہے تو طالبان کی جانب سے اعلان میڈیا کا ایک بااثر گروپ کرتا ہے ۔ لیکن جب طالبان کی جانب سے دھمکی کی تشہیر ضرورت ہوتی ہے تو وزیرداخلہ صاحب پیش پیش ہوتے ہیں ۔ پنجاب حکومت نے اپنی جانب سے فول پروف سیکورٹی فراہم کرنے کی غیر اعلانیہ یقین دھانی کرائی ہے لیکن اس شرط پر کہ راولپنڈی کا فیض آباد پل کراس کرنے تک مظاہر ین مکمل پر امن رہیں گے ۔تجزیہ نگار یہ سمجھتے ہیں کہ لانگ مارچ اسلام آباد میں داخل ہونے کے بعد کچھ توڑپھوڑ کی جانب مائل ہوگا ۔ جس کا الزام شرپسندوں پر عائد کیا جائے گا ۔ مسلم لیگ ن بھی یہی چاہتی ہے کہ اس لانگ مارچ کا سارا بوجھ وفاقی حکومت پر پڑے ۔عوام یہ سوچ رہے ہیں کہ اس لانگ مارچ کی کامیابی یا ناکامی کی صورت میں اس کا کتنا فائدہ کتنا نقصان ہوگا؟۔ صدر پاکستان اور وفاقی وزراء سے مذاکرات میں کیا ڈاکٹر صاحب حکومت سے نگران سیٹ اپ میں عہدوں اور کردار کا مطالبہ کریں گے یا پھر یہ کہ حکومتی مشینری کا فلاں فلاں پرزہ بہت کرپٹ ہے اسے نکالیں اور فلاں کو لگالیں ۔ انقلاب کے حقیقی جیالے عشاق رسول ؐ تو ڈاکٹر طاہر القادری سے ایک شکوہ یہ بھی رکھتے ہیں کہ ایسے لانگ مارچ غزہ ، عراق، افغانستان، ڈرون ، برما ،سلالہ، ایبٹ آباد اور سب سے بڑھ کر جب نبی پاک کی شان میں گستاخٰ کا ارتکاب کیا گیا جیسے سانحات کے بعد کیوں نہیں اعلان کئے ۔ کیا انقلاب ایسے مذاکرات کے مرہون منت ہوتے ہیں جن میں بہت کچھ ملنے کی امید ہو اور خالی ہاتھ رہنے کا خدشہ بھی
E-mail: This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل و ملی یکجہتی کونسل کے مرکزی رہنماء علامہ محمد امین شہیدی اور سابق سینیٹر علامہ ڈاکٹر سید جواد ہادی نے آصف لقمان قاضی سمیت جماعت اسلامی کے دیگر رہنمائوں سے ملاقات کی اور قاضی حسین احمد کی ناگہانی وفات پر ان سے تعزیت کی۔ اس موقع پر علامہ ڈاکٹر سید جواد ہادی کا کہنا تھا کہ قاضی حسین احمد کی وفات سے قوم ایک مخلص اور بزرگ شخصیت سے محروم ہو گئی ہے۔ مرحوم کی اتحاد بین المسلمین کیلئے کاوشیں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ ان کی کمی ہمیشہ محسوس کی جاتی رہے گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ قاضی حسین احمد ہر مکتب فکر میں احترام کی نظر سے دیکھے جاتے تھے۔ ہم ان کے لواحقین اور جماعت اسلامی کے غم میں برابر کے شریک ہیں۔ اس موقع پر علامہ محمد امین شہیدی نے قاضی حسین احمد کے صاحبزادے آصف لقمان قاضی کیساتھ تعزیت اور دلی افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بزرگ رہنماء کی وفات سے صرف جماعت اسلامی یا ان کے خاندان والے متاثر نہیں ہوئے بلکہ یہ سانحہ پوری قوم کیلئے دکھ اور افسوس کا باعث ہے۔
وزیراعلیٰ گلگت بلتستان سے ملاقات میں مجلس وحدت مسلمین بلتستان کے وفد نے کہا کہ دہشت گردآج نہ صرف شیعہ مسلک کے لیے خطرہ بنا ہوا ہے بلکہ سنیوں کے لیے، سیکیورٹی فورسز کے لیے، پاکستان آرمی کے لیے اور ریاست کے لیے خطرہ بنا ہوا ہے، ان کو لگام دینے کی ضرورت ہے۔
مجلس وحدت مسلمین پاکستان بلتستان ڈویژن کے ایک وفد نے وزیراعلٰی گلگت بلتستان سید مہدی شاہ سے ملاقات کی۔ جس میں رکن شوری نظارت آغا مظاہر حسین موسوی، علامہ شیخ زاہد حسین زاہدی، علامہ شیخ احمد نوری، ڈویژنل ترجمان فدا حسین اور ڈویژنل سیکرٹری اطلاعات موجود تھے۔ وفد نے وزیراعلیٰ گلگت بلتستان سید مہدی شاہ سے ملاقات کے دوران گلگت بلتستان کے مسائل پر گفتگو کی۔ مجلس وحدت مسلمین کے وفد نے صوبائی حکومت سے علامہ نیئر عباس مصطفوی کی گرفتاری اور چیتا جیل سے شہید ضیاء الدین کے قاتلوں کی فرار پر تشویش کا اظہار کیا۔
شام کے صدر بشارالاسد نے ملک میں دہشت گردانہ کاروائیوں کرنے والوں کو ’خدا کے دشمن اور مغربی ممالک آلہ کار ہیں۔گذشتہ سال نومبر میں روسی ٹی وی پر دیے جانے والے بیان کے بعد صدر بشارالاسد نے پہلی بار عوامی
دارالحکومت دمشق میں تقریر کرتے ہوئے انھوں نے ملک میں جاری کشیدگی کی وجہ سے عوام کی مشکلات پر شدید غم کا اظہار کرتے ہوئے کہا ’درد کے سیاہ بادل‘ کونے کونے تک پہنچ گئے ہیں۔
شامی حکومت کے خلاف جاری بغاوت کو مغربی ممالک کی اکسائی ہوئی کٹھ پتلیاں قرار دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ شام ملازموں سے نہیں بلکہ اصل طاقتوں سے مذاکرات کرنا چاہتا ہے۔
انھوں نے کہا شام نے سفارتی اقدامات کو نظر انداز نہیں کیا تاہم ان کا اصرار تھا کہ ان افراد سے مذاکرات نہیں کیے جا سکتے جن کے دہشتگرد خیالات ہیں۔
انھوں نے کہا ’کچھ لوگ شام کو توڑنا چاہتے ہیں اور اسے کمزور کرنا چاہتے ہیں مگر شام اس سے زیادہ مضبوط ہے اور شام خودمختار رہے گا۔۔۔ یہی بات مغربی ممالک کو پسند نہیں‘۔ان کی تقریر کے دوران ان کے حامیوں نے نعرے بازی کی اور تقریر کے بعد سٹیج پر ان کے گرد جمع ہوگئے۔
شامی بحران کے حل کے لیے صدر کے تجویز کردہ اقدامات
بیرونی طاقتیں ’دہشتگردوں ‘ کو ہتھیار فراہم کرنا بند کر دیں
اس کے نتیجے میں شامی فوج اپنا آپریشن روک دے گی مگر اسے ریاستی مفادات کے دفاع کا حق ہوگا
حکومت پھر شامی افراد اور سیاسی جماعتوں کو ایک قومی کانفرنس کی دعوت دے گی جس میں اتفاقِ رائے پیدا کرنے کی کوشش کی جائے گی
اس کانفرنس میں تیار کردہ مسودے کو پھر عوام کے سامنے ووٹنگ کے لیے رکھا جائے گا اور اس کے تحت نئی حکومت تشکیل دی جائے گی
صدر بشارالاسد نے کہا کہ ان کی مخالف قوتیں کوئی تحریک نہیں۔
انھوں نے کہا کہ تحریک کے لیے دانشور چاہیے ہوتے ہیں اور تحریکیں خیالات پر مبنی ہوتی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ تحریکوں کو قیادت کی ضرورت ہوتی ہے اور شامی باغیوں کی کوئی قیادت نہیں۔
صدر نے باغیوں پر عوام سے خوراک چھیننے اور بچوں کو تعلیم سے محروم کرنے کے ساتھ ساتھ بجلی اور طبی امداد روکنے کے الزامات عائد کیے۔
’ہماری گلیوں میں سکیورٹی اور استحکام نہیں ہے اور ملک میں خوشی کہیں نہیں‘۔
صدر بشارالاسد نے ہر شہری کو اپنی استعداد کے مطابق ملک کا دفاع کرنے کے لیے کہا۔
شام کے حالات کو ’حالتِ جنگ‘ قرار دینے کے بعد ان کا کہنا تھا کہ یہ ملک کو بچانے کی جنگ ہے۔
اسلام آباد ( پ ر) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے سیکرٹری جنرل علامہ ناصر عباس جعفری نے ملی یکجہتی کونسل کے سربراہ جماعت اسلامی کے سابق امیرقاضی حسین احمد کے انتقال پر گہرے دکھ اور صدمے کا اظہار کرتے ہوئے اسے ایک قومی نقصان قرار دیا ہے ، مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی سیکرٹریٹ سے جاری ہونے والے ایک تعزیتی بیان میں انہوں نے کہا کہ قاضی حسین احمد کی زندگی جہد مسلسل سے عبارت تھی ، مرحوم اتحاد بین المسلمین کے علمبرادار تھے ،ا نہوں نے ملت اسلامیہ کو وحدت کی لڑی میں پرونے کے لیے مثالی کردار ادا کیا ، علامہ ناصر عباس جعفری نے کہا کہ مرحوم نے متحدہ مجلس عمل کے پلیٹ فارم سے پارلیمانی لیڈر کا موثر کردار ادا کرنے کے ساتھ اسلامی ممالک کے مسائل کے حل کے لئے بھی اہم کردار ادا کرنے کے ساتھ ساتھ مثالی خدمات سرانجام دیں،ملی یکجہتی کونسل کے پلیٹ فارم سے امت مسلمہ کے تمام مکاتب فکر کو متحد کرنے کے لیے سرگرم عمل رہے ، اور ہر اہم قومی ایشو پر عوام کی ترجمانی کا فریضہ سر انجام دیا ، مجلس وحدت مسلمین ان کے سانحہ ارتحال پر جماعت اسلامی کے قائدین ، کارکنوں اور مرحوم کو لواحقین کو تعزیت پیش کرتی ہے اور مرحوم کے درجات کی بلندی کے لیے دعا گو ہے ۔